نوروز روایات کی روشنی میں

609

 
عید نوروز کے سلسلے میں سب سے اہم اور تفصیلی حدیث معلی ابن خنیس کی ہے، جس کے مختلف حصوں سے فقہاء اور مجتہدین نے مختلف فقہی احکام کے لئے استنباط کیا ہے، اور تمام قدماء و متاخرین نے اس حدیث کو قابل اعتبار جانا ہے۔ معلی ابن خنیس نقل کرتے ہیں کہ میں نو روز کے دن حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں پہنچا، حضرت نے فرمایا: ‘کیا تم اس دن کو جانتے ہو؟’ (کہ آج کیا دن ہے)۔ معلی کہتے ہیں: میں نے عرض کیا! قربان جائوں آج وہ دن ہے، جس کی اہل عجم تعظیم کرتے ہیں اور اس دن ایک دوسرے کو تحفہ و تحائف دیتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا: ‘میں خانہ کعبہ کے حق کی قسم کھاتا ہوں کہ عجم کا اس دن کی یہ تعظیم کرنا نہیں ہے، مگر اس قدیمی امر کی خاطر جو کہ میں تمہارے لئے تفصیل سے بیان کرتا ہوں تاکہ اس کو سمجھ جائو۔’ معلی کہتے ہیں میں نے عرض کیا! اے میرے سید و سردار ! اے میرے مولیٰ! میرے لئے آپ کے وجود کی برکت سے اس بات کا جاننا زیادہ پسندیدہ ہے کہ میرے مردے زندہ ہوجائیں اور میرے دشمن مر جائیں۔ حضرت نے فرمایا: اے معلی! حقیقت یہ ہے کہ نو روز کا دن،وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے ‘روز الست’ تمام ارواح سے اپنی وحدانیت کا عہد و پیمان لیا اور یہ کہ کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں گے،اور عبودیت و عبادت میں کسی کو اسکا شریک نہیں بنائیں گے، اور اسکے بھیجے ہوئے پیغمبروں اور مخلوق پر اللہ کی حجتوں، اور آئمہ معصومین پر ایمان لائیں گے۔اور یہ (نوروز) وہ پہلا دن ہے، جب سورج طلوع ہوا، اور درختوں کو ثمرآور کرنے والی ہوائیں چلائی گئیں، اور زمین پر پھول اور کلیاں چٹکنے(کھلنے) لگیں، آج ہی کے دن حضرت نوح کی کشتی (طوفان نوح کے بعد) کوہ جودی پر ٹھہری، اور یہی وہ دن تھا جب جبرائیل پیغمبر اکرم(ص) پر نازل ہوئے اور ان کو تبلیغ دین پر مامور کیا، یعنی آنحضرتۖ کی بعثت اسی دن واقع ہوئی تھی، آج ہی کے دن حضرت ابراہیم(ع) نے بتوں کو توڑا، اور یہی وہ دن تھا جب پیغمبر ۖنے اپنے اصحاب کو امیر المومنین علی کی بیعت کا حکم دیا، اور فرمایا :علی کو امیرالمومنین کہہ کر پکاریں، یعنی اعلان عید غدیر بھی اسی دن ہوا تھا، اور اسی دن خلافت ظاہری حضرت علی(ع) کی طرف پلٹ آئی، اور عثمان کے قتل کئے جانے کے بعد لوگوں نے دوبارہ مولا علی کی بیعت کی، اسی دن حضرت علی(ع) نے خوارج کے ساتھ جنگ کی، اور ان پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، اور اسی دن قائم آل محمد امام زمانہ (ع) ظہور فرمائیں گے، اور اسلام کے دشمنوں پر غلبہ حاصل کریں گے، اور کوئی نوروز کا دن ایسا نہیں جب ہم انتظار فرج نہ کرتے ہوں، اس دن کو عجم والوں نے حفظ کیا ہے اور اسکی حرمت کی رعایت کی ہے، اور تم نے اس کو ضائع کردیا ہے۔(4) اگرچہ اسلام میں تمام عبادات اور اعمال کا دار ومدار قمری مہینوں کی تاریخوں اور دنوں کے اعتبار سے ہے، لیکن انہی دنوں کو کسی اور لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل کہا جاسکتا ہے، جیسے: نوروز کا دن، جو ہمیشہ بارہ برجوں میں سے برج حمل کا پہلا دن اور اسی طرح شمسی ہجری سال کے پہلے مہینے فروردین کا بھی پہلا دن ہے، البتہ عیسوی سال کے لحاظ سے نوروز کبھی 20مارچ اور اکثر 21مارچ کو ہوتا ہے، یہ نو روز (یعنی نیا دن) نظام شمسی اورکائنات کے نظام کے لحاظ سے ایسا دن ہے جس میں تبدیلیاں رونما ہونے کا آغاز ہوتا ہے اور ہر شئی اس تبدیلی کے زیر اثر ہوتی ہے۔نو روز کے دن کی دوسرے دنوں پر فضیلت ہر وہ دن، جس کے بارے میں کوئی خاص حکم، مثلا غسل کرنے، کوئی خاص نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے وغیرہ کے حوالے سے، بیان ہوا ہو، یقینا وہ دن دوسرے دنوں پر فضیلت اور برتری رکھتا ہے،اور نوروز ایسے ہی مخصوص دنوں میں سے ہے، جس کے بارے میں کچھ مخصوص اعمال ذکر ہوئے ہیں اور اکثر فقہی و استدلالی اور دعائوں کی کتابوں میں ان کا بیان آیا ہے اور اکثر متقدمین و متاخرین مراجع تقلید نے ان اعمال کو اعمال عید نوروز کے عنوان سے بیان فرمایا ہے۔اعمال عید نوروز حدیث کی روشنی میں کسی عمل کے شرعی ہونے کیلئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت شریفہ یا معصومین (ع) کی کوئی روایت اس عمل کے شرعی ہونے پر دلالت کرے، نو روز کے سلسلے میں معلی ابن خنیس کی امام جعفرصادق (ع) سے تفصیلی روایت ہے جس کا متن یہ ہے : ‘ عَنِ الْمُعَلّیٰ بْن ِخُنَیْس عَنْ مَوْلاٰنَا الصَّادِقِ (عَلَیْہِ السَّلٰامِ) فی یَوْمِ النیرُوْزِ، قٰالَ: اِذٰا کَانَ یَوْمُ النیرُوْزِ فَاغْتَسِلْ وَأَلْبِسْ أَنْظَفَ ثِیٰابِکَ وَتَطَیَّبْ بِأَطْیَبِ طیْبِکَ وَتَکُوْنُ ذٰلِکَ الیَوْمَ صَائِماً فَاِذٰا صَلَّیْتَ النَّوٰافِلَ وَالظُّھْرَ وَالعَصْرَ فَصَلِّ بَعْدَ ذٰلِکَ اَرْبَعَ رَکَعٰاتٍ تَقْرَائُ فی اَوَّلِ رَکْعَةٍ فَاتِحَةَ الْکِتٰابِ وَعَشَرَ مَرَّاتٍ اِنَّا اَنْزَلْنٰاہ فی لَیْلَةِ القَدْرِ، وَفی الثٰانِیَةِ فَاتِحَةَ الْکِتٰابِ وَعَشَرَ مَرَّاتٍ قُلْ یٰا اَیُّھٰاالْکٰافِرُوْنَ، وَفی الثّٰالِثَةِ عَشَرَ مَرَّاتٍ التَّوْحیْدَ، وَفی الرّٰابِعَةِ عَشَرَ مَرَّاتٍ مُعَوَّذَتَیْن ِوَتَسْجُدُ بَعْدَ فَرٰاغِکَ مِنَ الرَّکَعٰاتِ سَجْدَةَ الشُّکْرِ وَتَدْعُوْا فیھَا، یُغْفَرُ لَکَ ذُنُوْبُ خَمْسینَ سَنَةً’۔ (معلی ابن خنیس، امام جعفر صادق (ع) سے نقل کرتا ہے کہ امام نے نوروز کے دن کے بارے میں فرمایا: جب نو روز کا دن ہو، پس تم غسل کرو اور اپنا پاکیزہ لباس زیب تن کرو، اور اپنے آپ کو بہترین خوشبو سے معطّر کرو، اور اس دن روزہ بھی رکھو،اور جب نماز فریضہ و نافلہ ظہر و عصر سے فارغ ہوجائو، تو اس کے بعد چار رکعت نماز (عید نوروز کی دو دو رکعت کرکے)پڑھو، پہلی رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ ‘اِنَّا اَنْزَلْنٰاہ فی لَیْلَةِ القَدْرِ’ (سورۂ قدر) اور دوسری رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ ‘قُلْ یٰا اَیُّھٰاالْکٰافِرُوْنَ’ (سورئہ کافرون) پڑھو، اور تیسری رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورئہ توحید ، اور چوتھی رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ معوّذتین یعنی سورئہ فلق اور سورئہ ناس پڑھو، اور دونوں نمازیں پڑھنے کے بعد سجدئہ شکر بجا لائو، اور سجدے میں اللہ رب العزت سے جو چاہو مانگو، اس عمل سے تمہارے پچاس سال کے گناہ بخش دیئے جائیں گے)۔(5) بعض نے سجدہ شکر میں مخصوص دعا بھی ذکر فرمائی ہے، جو یہ ہے : ‘ اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ الاَوْصِیٰائِ الْمَرْضِیِیْنَ وَصَلِّ عَلٰی جَمِیْعِ أَنْبِیٰآئِکَ وَرُسُلِکَ بِأَفْضَلِ صَلَوٰاتِکَ وَبٰارِکْ عَلَیْھِمْ بِأَفْضَلِ بَرَکٰاتِکَ وَصَلِّ عَلٰی أَرْوٰاحِھِمْ وَأَجْسَادِھِمْ۔ اَللَّھُمَّ بٰارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَبٰارکْ لَنٰا فی یَوْمِنٰا ھٰذٰا الَّذی فَضَّلْتَہ وَکَرَّمْتَہ وَشَرَّفْتَہ وَعَظَّمْتَ خَطْرَہ۔ اَللَّھُمَّ بٰارِکْ لیْ فِیْمٰا اَنْعَمْتَ بِہ عَلَیَّ حَتّٰی لٰا أَشْکُرَ اَحَداً غَیْرَکَ، وَسِّعْ عَلَیَّ رِزْقی یٰا ذَالْجَلٰالِ وَالاِکْرٰامِ۔ اَللَّھُمَّ مَا غَابَ عَنِّیْ مِنْ شَیْئٍ فَلاٰ تُغَیِّرْ عَنِّی عَوْنَکَ وَحِفْظَکَ وَمَا فَقَدْتُ مِنْ شَیْئٍ فَلٰا تُفْقِدْنیْ عَوْنَکَ عَلَیْہ حَتّٰی لٰا أَتَکَلَّفَ مَا لٰاأَحْتَاجُ اِلَیْہِ یٰا ذَاالْجَلاٰلِ وَالْاِکْرٰامِ’۔ پھر (ِ یٰا ذَاالْجَلاٰلِ وَالْاِکْرٰامِ) کی زیادہ تکرار کرو۔ روایت میں ہے کہ تحویل سال کی گھڑی ساٹھ مرتبہ یہ دعا پڑھو:’ یٰا مُقَلِّبَ القُلُوْبِ وَالْأَبْصٰارِ، یٰا مُدَبِّرَ الْلَّیْلِ وَالنَّھٰارِ، یٰا مُحَوِّلَ الْحَوْلِ وَالْأَحْوٰالِ، حَوِّلْ حَالَنٰا اِلٰی أَحْسَنِ الْحَالِ ‘۔ اور بعض روایات میں تحویل ساعت اس دعا کے پڑھنے کا کہا گیاہے:’ اَللَّھُمَّ ھٰذِہ سَنَة جَدِیْدَة وَاَنْتَ مَلِک قَدِیْم أَسْئَلُکَ خَیْرَھَا وَخَیْرَمَا فیھَا، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّمَا فیھَا، وَأَسْئَلُکَ مَؤُنَتَھَا وَشُغْلَھَا یٰا ذٰاالْجَلاٰلِ وَالاِکْرٰامِ ‘۔(6)فقہاء اور مجتہدین کا اس حدیث کے مختلف حصوں سے استدلال اس حدیث شریف کے مختلف حصوں سے تقریبا تمام متقدمین و متاخرین فقہاء نے مختلف ابواب فقہ میں استدلال کیا ہے، اور غسل عید نوروز، روزہ عید نوروز اور نماز عید نوروز کو اپنی گرانقدر علمی کتابوں میں بیان کیا ہے، اور تمام فقہاء و مجتہدین کی نظر میں اس حدیث شریف کی حیثیت مسلم رہی ہے ،اور انھوں نے استدلال کے طور پر اسی حدیث کو نقل کیا ہے۔غسل عید نوروز پر فقہاء کا استدلال اکثر فقہی کتابوں میں مستحب غسلوں میں عید نو روز کے غسل کا بیان آیا ہے، مرحوم محمد ابن الحسن الحرّ العاملی نے اپنی گرانقدر کتاب وسائل الشیعہ میں ایک باب (بَابُ اسْتِحْبَابِ غُسْلِ یَوْمِ النِّیْرُوْزِ )کے عنوان سے قرار دیا ہے اور اس باب میں وہی امام جعفر صادق کی روایت معلی ابن خنیس سے نقل کی ہے، اور اس روایت کے اس جملے سے استحباب غسل کو بیان کیا ہے: ‘ اِذَا کٰانَ یَوْمُ النِّیْرُوْزِ فَاغْتَسِلْ وَأَلْبِسْ أَنْظَفَ ثِیَابِکَ۔'(7) علامہ حسن ابن یوسف حلی اپنی کتاب القواعد میں فرماتے ہیں:’ یُسْتَحَبُّ الْغُسْلُ لِلْجُمُعَةِ مِنْ طُلُوْعِ الْفَجْرِ اِلٰی الزَّوَالِ وَالْغَدِیْرِ وَالْمُبَاہَلَةِ وَعَرَفَةَ وَنِیْرُوْزِالْفُرْسِ وَغُسْلُ الْاِحْرَامِ ‘ (روز جمعہ کا غسل طلوع فجر سے لیکر زوال آفتاب تک کرنا مستحب ہے، اور غسل روز عید غدیر، عید مباہلہ،روز عرفہ، اہل فارس کی عید نوروز اور احرام کا غسل مستحب ہے)۔(8) شہید اول کی تینوں فقہی کتابوں (دروس، ذکریٰ اور بیان) میں نوروز کے دن کا غسل مستحب غسلوں کے ذیل میں بیان ہوا ہے، بطور نمونہ ہم کتاب دروس کی عبارت پیش کرتے ہیں:’ یُسْتَحَبُّ الغُسْلُ ۔۔۔ یَوْمَ الْمَبْعَثِ وَالْمَوْلِدِ وَالْغَدِیْرِ وَالتَّرْوِیَہ وَعَرَفَةَ وَالدَّحْوِ وَالْمُبَاھَلَةِ وَالنِّیْرُوْزِ لِخَبَرِ الْمُعَلّٰی ‘ (غسل کرنا مستحب ہے ۔۔۔روز بعثت پیغمبر اکرم ۖ ]27رجب المرجب[، روز ولادت پیغمبر اکرم ۖ]17ربیع الاول[، روز عید غدیر، روز ترویہ ]8ذالحجہ[، روز عرفہ، روز دحو الارض ]25ذیقعدہ، زمین کے بچھائے جانے کے دن[، روز مباہلہ اور عید نوروز کے دن، معلی ابن خنیس کی روایت کی وجہ سے۔ (9) نیز مرحوم شہید ثانی نے شرح لمعہ میں بھی روز عید نو روز کے غسل کو مستحب غسلوں میں شمار کیا ہے۔(10) مرحوم سید محمد کاظم طباطبائی صاحب عروة الوثقیٰ اور مرحوم شیخ بھاء الدین العاملی صاحب جامع عباسی مستحب غسلوں میں سے گیارہواں غسل روز عید نوروز کا بیان فرماتے ہیں۔(11) تمام مراجع عظام معاصر نے بھی اپنی فقہی و استدلالی کتابوں اور توضیح المسائل میں غسل عید نو روز کو مستحب غسلوں کے ذیل میں بیان کیا ہے، نہایت یہ کہ بعض نے یہ قید لگائی ہے کہ بدون قصدِ ورود اور رجائے مطلوبیت کی نیت سے بجالایا جائے۔(12) حضرت آیت اللہ شیخ حسین وحید خراسانی اپنے رسالہ عملیہ توضیح المسائل کے مسئلہ نمبر 650 میں مستحب غسلوں کو بیان فرماتے ہیں کہ یہ غسل شرع مقدس اسلام میں وارد ہوئے ہیں ،اور پھر مسئلہ نمبر651میں ان مستحب غسلوں کو بیان فرماتے ہیں، جو فقہاء نے اپنی فقہی کتابوں میں اغسال مستحبہ کے عنوان سے بیان فرمائے ہیں،اور حضرت آیت اللہ شیخ حسین وحید خراسانی غسل عید نوروز کوبھی اسی دوسری نوع کے غسلوں سے شمارکرتے ہیں ، اور آخر میں فرماتے ہیں ان دوسری نوع کے غسلوں میں احتیاط یہ ہے کہ رجائے مطلوبیت کے قصد سے بجالائے جائیں۔ (13)رجائے مطلوبیت سے کیا مراد ہے؟ رجاء یعنی امید۔ بعض موارد میں جو یہ فرمایا جاتا ہے کہ فلاں عمل کو رجاء ً یا رجائے مطلوبیت کے طور پر انجام دیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض مستحبات تو دلیل معتبر شرعی سے ثابت ہیں اور انکے انجام دینے کے وقت قصد ورود (یعنی شریعت مقدس اسلام میں وارد ہونے کا ارادہ کرنا ) صحیح ہے، اور ان اعمال کو اس عنوان سے کہ شارع نے انکا حکم فرمایا ہے، انجام دیا جاسکتا ہے، لیکن بعض مستحبات ایسے ہیں جن کے مستحب شرعی ہونے پر کوئی دلیل معتبر نہیں ہے، البتہ دلیل ضعیف اور غیر معتبر روایت موجود ہے، اسلئے ان اعمال کو مستحب شرعی اور شارع کے حکم کی بجاآوری کے طور پر انجام دینا صحیح نہیں ہے، بلکہ بدعت اور حرام کام ہے، کیونکہ حجت و دلیل معتبر شرعی نہیں ہے، اور ایسے عمل کی شارع کی طرف نسبت دینا جھوٹ ہے، لیکن ان موارد میں اسی ضعیف روایت پر اعتماد کرتے ہوئے، اس امید کے ساتھ کہ شاید یہی روایت شارع سے صادر ہوئی ہواور مطلوب شرعی ہو، عمل کرسکتے ہیں، لہذا اس صورت میں اطاعت و بندگی کا ثواب دے دیا جائے گا۔ (14) لیکن یہاں صاحب جواہر مرحوم شیخ محمد حسن النجفی کا استدلال قابل ملاحظہ ہے، وہ فرماتے ہیں:’ قُلْتُ وَقَدْ بَقِیَ زِیَادَة عَلٰی مَا ذَکَرْتُہ وَذَکَرَ الْمُصَنِّفُ بَعْضَ الْأَغْسَالِ الزَّمَانِیَّةِ ۔۔۔’ (جو غسل میں نے اور مصنف نے بیان کئے ہیں ان کے علاوہ کچھ اور غسل بھی باقی ہیں جو معین زمانے کے ساتھ مستحب ہیں جیسے: روز دحو الارض کا غسل، اہل فارس کے نوروز کے دن کا غسل، اور نو ربیع الاول (عید زہراء )کا غسل۔لیکن جو عید نو روز کے دن کا غسل ہے اسکا استحباب علمائے متاخرین کے مشہور قول کی بناء پر ہے، بلکہ میں نے اس بارے میں کسی کو استحباب غسل کو مخالف بھی نہیں پایا ہے، کیونکہ اس بارے میں معلی ابن خنیس کی امام جعفر صادق سے مروی روایت مصباح شیخ طوسی میں موجود ہے،جس کا مختصر یہ ہے کہ جب نوروز کا دن ہو تو تم غسل کرو)۔(15) اس کے بعد مرحوم صاحب جواہر معلی ابن خنیس کی مذکورہ روایت کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں اور آخر میں فرماتے ہیں:’ وَلٰا وَجْہَ لِلْمُنَاقَشَةِ بَعْدَ ذٰلِکَ فِیْ السَّنَدِ وَغَیْرِہِ کَمَا لٰا وَجْہَ لِلْمُعَارَضَةِ بِمَا عَنِ الْمَنَاقِبِ ‘ (مشہور فقہاء کے اس روایت معلی ابن خنیس کے مطابق عمل کرنے کے بعد، اس روایت کی سند یا متن میں مناقشہ کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی، جیسا کہ اس روایت معلی اور وہ روایت جوامام موسیٰ کاظم سے کتاب مناقب میں نقل ہوئی ہے،دونوں میں کسی تعارض کی بھی کوئی صورت نہیں ہے)۔ بہتر یہ ہے کہ ہم یہاں پر وہ روایت بھی پیش کریں اور اسکا معارض نہ ہونا بھی بیان کریں۔روایت امام موسیٰ بن جعفر الکاظم (علیہ السلام) عید نو روز کے دن منصور دوانیقی نے حضرت امام موسیٰ کاظم کو دعوت دی کہ حضرت تشریف رکھیں اور لوگ آکر آپ کی زیارت کریں اور آپ کی خدمت میں تحائف پیش کریں۔ امام موسیٰ کاظم نے فرمایا:’میں نے اپنے جدّ رسول خدا ۖ کی اخبار و احادیث کی جانچ پڑتال کی ہے اور مجھے اس عید کے بارے میں اُن کی کوئی خبر نظر نہیں آئی، اس عید کا عجم (اہل فارس) احترام کرتے ہیں، لیکن اسلام نے اس کو ختم کردیا ہے، اور محال ہے جس چیز کو اسلام نے ختم کردیا ہو، میں اس کی دوبارہ تجدید کروں۔ لیکن منصور نے کہا کہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے اور میں آپ سے تقاضا کرتا ہوں کہ آپ میری اس دعوت کو ضرور قبول کریں اور آج تشریف رکھیں تاکہ لوگ آپ کی زیارت کریں۔ حضرت (ع) نے بھی قبول کرلیا اور اس دن لوگوں سے ملاقات کی اور زیارت کروائی۔مذکورہ روایت کو تقیّہ پر حمل کیا گیا ہے کیونکہ مذکورہ روایت مطلب کو اداء کرنے میں قاصر ہے اور صراحت نہیں رکھتی، اس لئے کئی فقہاء نے اس روایت کو تقیّہ پر حمل کیا ہے،جیسا کہ خود روایت کے ذیل سے بھی ظاہر ہے کہ امام نے مکمل انکار کے باوجود منصور کی دعوت کو قبول فرمایا، اور اس کے علاوہ تقریبا تمام ہی فقہاء و مجتہدین نے روایت معلی ابن خنیس کے مطابق عمل کیا ہے، اسلئے صاحب جواہر فرماتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں میں تعارض کی گنجائش ہی نہیں ہے، کیونکہ روایت امام موسیٰ کاظم (ع) میں تقیّہ کا احتمال ہے، اور اس احتمال کے ہوتے ہوئے اس روایت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا، اور اجمالاً مرحوم صاحب جواہر بھی معلی کی روایت کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں، اسلئے استحباب غسل کا عید نوروز کے دن فتویٰ دیتے ہیں۔فقہاء کی نظر میں عید نو روز کا روزہ عید نوروز کے غسل کی طرح، عید نوروز کے روزے کو بھی تمام فقہائے متقدمین و متاخرین نے بیان کیا ہے اور قطعا ان عظیم شخصیات کا (جنھوں نے اپنی عمر شریف کا بیشتر حصہ آیات و روایات اسلامی کو جانچ پڑتال اور چھان بین میں صرف کیا ہے اور صدیوں سے انکی علمی و تحقیقی کتابیں حوزہ ہای علمیہ اور مدارس دینیہ میں پڑھائی جاتی ہیں)کسی عمل کے مستحب ہونے کے بارے میں فتویٰ دینا، دلیل متقن و مستند و محکم کے بغیر نہیں ہوسکتا، اور فقہاء و مجتہدین کے فتوے عید نوروز کے اسلام میں معتبر و محترم ہونے کی بہترین دلیل بھی ہیں۔ صاحب جواہر مرحوم شیخ محمد حسن النجفی فرماتے ہیں:’ کَمَا یُسْتَفَادُ مِنَ النَّصُوْصِ ثُبُوتُ التَّأَکُّدِ فِیْ غَیْرِ ذٰلِکَ (أَیْ تَأَکُّدِ الصَّوْمِ) کَالنِّیْرُوْزِ وَأَوَّلِ یَوْمٍ مِنَ الْمُحَرَّمِ ۔۔۔ ‘ (جیسا کہ روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ مذکورہ موارد کے علاوہ بھی چند مورد میں روزے کے استحباب کی تاکید کی گئی ہے، جیسے : نو روز کے دن کا روزہ اور محرم الحرام کی پہلی تاریخ کا روزہ وغیرہ ۔۔۔)(16) صاحب مستند مرحوم ملاّ احمد نراقی فرماتے ہیں:’ أَمَّا الْمَنْدُوبُ مِنْہ أَقْسَام : مِنْھَا أَوَّلُ ذِیْ الْحِجَّةِ، مِنْھَا صَوْمُ یَوْمِ النِّیْرُوْزِ لِلْمَرْوِیِّ فِیْ مِصْبَاحِ ِالْمُتَھَجِّدِ ‘ (روزے کی چار اقسام ]واجب، مستحب، مکروہ اور حرام[ میں سے جو مستحب روزے ہیں، چند قسم کے ہیں، ان میں پہلی ذی الحجّہ کا روزہ ہے اور عید نوروز کے دن کا روزہ ہے، جیسا کہ شیخ طوسی کی مصباح المتھجّد میں روایت نقل ہوئی ہے)۔ (17) صاحب حدائق مرحوم شیخ یوسف بحرانی بھی اسی انداز سے بیان فرماتے ہیں کہ مستحب روزوں میں سے ایک عید نوروز کے دن کا روزہ ہے کیونکہ اس روزے کو شیخ طوسی نے مصباح المتھجّدمیں معلی ابن خنیس کے سلسلے سے امام جعفر صادق (ع) سے نقل کیا ہے۔ (18) نیز تمام معاصر فقہاء و مجتہدین نے بھی عید نوروز کے روزے کو مستحب روزوں میں بیان کیا ہے، اور اس دن پراپنی عبارات میں ‘عید’ کا اطلاق بھی کیا ہے۔(19)فقہاء کی نظر میں عید نوروز کی مخصوص نماز معلیٰ ابن خنیس کی روایت میں امام جعفر صادق (ع) نے نوروز کے دن کی جس مخصوص نماز کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے، وہ نماز ادعیہ کی کتابوں جیسے:شیخ عباس قمی کی مفاتیح الجنان اور علامہ محمد باقر مجلسی کی زاد المعاد میں(20) اور احادیث کی کتابوں جیسے : شیخ محمد ابن الحسن الحرّ العاملی کی وسائل الشیعة میں(21) اورنیز فقہی واستدلالی کتابوں جیسے: شیخ ابو جعفر محمد ابن الحسن الطوسی کی مصباح المتھجّد، محمد ابن ادریس الحلّی کی کتاب السرائر ، محمدابن فھد الاسدی الحلّی کی کتاب المھذّب، اور شیخ بہاء الدین العاملی کی جامع عباسی میں بیان ہوئی ہے۔(22) فقہائے متقدمین نے نماز عید نو روز کی کیفیت کو تفصیل سے بیان کیا ہے،اور اس نماز کو ظہر و عصر کی فریضہ و نافلہ نمازوں کے بعد اول وقت میں پڑھنے کی تاکید کی ہے۔البتہ فقہائے متاخّر نے اس نمازعید نو روز کو بیان نہیں فرمایا، کیونکہ مستحب نمازوں کی تعداد بہت زیادہ اور انکی کیفیت بھی مختلف ہوتی ہے، اور اکثر مستحب نمازوں کو انکی مخصوص کیفیت کے ساتھ بجا لانا ہوتا ہے، اسلئے ان سب مستحب نمازوں کو انکی مخصوص کیفیت کے ساتھ توضیح المسائل یا کسی اور رسالہ عملیہ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ لیکن فقہائے متاخّر کے اس حدیث شریف سے غسل مستحبی اور روزہ مستحبّی میں استنباط سے اس حدیث کا بقیہ حصّہ بھی تائید ہوجاتا ہے۔کیونکہ ایک ہی حدیث میں یہ مختلف عید نوروز کے اعمال بیان ہوئے ہیں، لہذا پوری حدیث فقہاء کی نظر میں رہی ہے، لیکن انھوں نے اختصار سے کام لیتے ہوئے مستحب نمازوں کو بیان نہیں کیا۔عید نو روز کے دن پاکیزہ لباس پہننا اور عطر کا استعمال مستحب ہے ایک اور مستحب عمل جسے اسی حدیث معلّیٰ ابن خنیس کی روایت میں بیان کیاگیا ہے، عید نوروز کے دن اچّھا اور پاکیزہ لباس زیب تن کرنا اور بہترین خوشبو کا استعمال کرنا ہے،اگرچہ یہ مسلّم امر ہے کہ صاف ستھرا اور پاکیزہ لباس پہننا اور خوشبو لگانا دین اسلام کے ایسے آداب اور تعلیمات میں سے ہے جو ہمیشہ اور ہر جگہ کیلئے ہیں اور ایسے آداب، عیدکے دن کے ساتھ اختصاص نہیں رکھتے، لیکن امام صادق کا نو روز کے موقع پر ان چیزوں کی سفارش کرنا اور بزرگ فقہاء کا اس کے مطابق فتویٰ دینا، جیسے شیخ مرتضیٰ انصاری کہ جو آخری صدی کے بزرگترین فقیہ شمار ہوتے ہیں، یقینا اس بات کی دلیل ہے کہ عید نو روز کو دیگر ایّام پر خصوصی فضیلت اور امتیاز حاصل ہے۔ شیخ مرتضیٰ انصاری اپنی کتاب الطہارة میں فرماتے ہیں: ‘ فَاِذَا کَانَ یَوْمُ النِّیْرُوْزِ فَاغْتَسِلْ وَأَلْبِسْ أَنْظَفَ ثِیَابِکَ وَتَطَیَّبْ بِأَطْیَبِ طِیْبِکَ ‘(پس جب عید نو روز کا دن آئے تو تم غسل کرو اور اپنا پاکیزہ ترین لباس زیب تن کرو، اور اپنی بہترین خوشبو سے اپنے آپ کو معطّر کرو)۔(23)عید نو روز کے موقع پر ہدیہ دینا مرحوم ابوجعفر محمد ابن علی ابن بابویہ القمی (معروف بہ شیخ صدوق ) فرماتے ہیں:’ أَتٰی عَلِیّ عَلَیْہِ السَّلٰامُ بِھَدِیَّةِ النِّیْرُوْزِفَقَالَ : مَا ھَذٰا؟ وَقَالُوْا یَاأَمِیْرَالْمُؤْمِنِیْنَ اَلْیَوْمُ النِّیْرُوْزُ فَقَالَ : اِصْنَعُوْا لَنَا کُلُّ یَوْمٍ نِیْرُوْز (وَرُوِیَ أَنَّہ قَالَ : نِیْرُوْزُنَا کُلُّ یَوْمٍ ‘ (عید نو روز کے دن حضرت علی علیہ السلام کیلئے ہدیہ لایا گیا، حضرت نے پوچھا : یہ کیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا! اے امیر المومنین : آج نوروز کا دن ہے [اور یہ ہدیہ اسی مناسبت سے ہے]۔ حضرت امیر نے فرمایا: ہمیشہ اس طرح کے کام کیا کرو، اور تمہارا ہر روز نو روز ہو۔ ]دوسری روایت میں ہے کہ فرمایا: ہمارا ہر روز نو روز ہے)۔(24) مرحوم شیخ صدوق آگے جاکر ایک اور حدیث امام جعفر صادق(ع) سے بھی نقل فرماتے ہیں کہ ایک سائل نے امام جعفر صادق(ع) سے پوچھا: ایک صاحب مقام اور بلند مرتبہ شخص ہے، اور عید نو روز کے دن لوگ اسکے لئے تحفہ و تحائف لاتے ہیں اور چاہتے ہیں ان تحائف کے ذریعے اس شخص کے قریب ہوجائیں اور اس کے ساتھ تعلقات استوار کریں، آیا وہ شخص ان تحائف کو قبول کرے یا نہ کرے؟ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا: کیا یہ تحائف دینے والے نماز پڑھتے ہیں؟ سائل نے عرض کیا! جی ہاں۔ امام صادق نے فرمایا:ہاں پھر وہ تحائف کو قبول کرلے اور انہیں بھی محبت آمیز جواب دے اور انکی مدد کرے۔ (25)ہفت سین ایک تحریف زدہ رسم ہفت سین کا لفظ نو روز سے آشنا افراد کے لئے نامانوس نہیں ہے اور بہت سے افراد بالخصوص اہل فارس ہفت سین کو مدتوں سے بطور رسم انجام دیتے آرہے ہیں، تحویل سال کے وقت ( وہ گھڑی جب سال تبدیل ہوتا ہے،اور سورج نئے برج میں داخل ہوتا ہے) یہ لوگ گھروں میں دسترخوان بچھاتے ہیں اور اس پر حرف سین سے شروع ہونے والی سات مختلف چیزیں رکھ دیتے ہیں، جو غالبا ہر ایک گھرانے یا قوم و قبیلے کے نزدیک مختلف ہوتی ہیں، لیکن اگر ان ہفت سین کی رسم کا تاریخچہ معلوم کیا جائے تو بعید نہیں کہ اس رسم کا تاریخی پس منظر مولائے کائنات علی کی وہ روایت ہو، جسے شیخ حرّ عاملی نے اپنی کتاب اثنیٰ عشریہ میں نقل کیا ہے۔(26) حضرت علی فرماتے ہیں: ‘اگر کوئی شخص وہ سات آیتیں جن کی ابتداء حرف سین سے ہوتی ہے، عرق گلاب اور زعفران سے چینی کے برتن پر لکھ لے، اور تحویل ساعت کے وقت اس ظرف میں پانی بھر کر پی لے تو وہ شخص اس سال کے آخر تک مریض اور سست نہیں ہوگا، اور اس شخص کا قرآنی بیمہ (حفاظت) ہوجائے گا۔’ وہ سات آیتیں یہ ہیں:1۔ سَلاٰم قَوْلاً مِن رِّبِّ رِّحِیْمٍ (سورئہ یس آیت 58)2۔ سَلاٰم عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعَالَمِیْنَ (سورئہ صافات آیت 79)3۔ سَلاٰم عَلٰی اِبْرٰاہِیْمَ (سورئہ صافات آیت 108)4۔ سَلاٰم عَلٰی مُوْسٰی وَ ہَارُوْنَ (سورئہ صافات آیت 119)5۔ سَلاٰم عَلٰی آلِ یٰاسِیْنَ (سورئہ صافات آیت 129)6۔ سَلاٰم عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَا خَالِدِیْنَ (سورئہ زمر آیت 73)7۔ سَلاٰم ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ (سورئہ قدر آیت 6) پس معلوم ہوا کہ اس ہفت سین کی رسم کا بھی روایت میں ذکر موجود ہے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ اس رسم میں تحریف اور انحراف پیدا ہوگیا ہے، کیونکہ جب لوگ مسائل دینی سے نا آشنا یا کم آشنا ہوتے ہیں اور غیروں کی فرہنگ و تمدّن انکی نظروں میں بھانے لگتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ نامحسوس طور پر اسی اجنبی فرہنگ و تمدّن کا حصّہ بن جاتے ہیں اور اپنی اسلامی غنی فرہنگ کو بالکل بھول جاتے ہیں، اتفاقا ہفت سین کی مقدس اور معنوی رسم کے ساتھ بھی یہی المیہ پیش آیا ہے ۔ (وَالسَّلاٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی)حوالہ جات1 ۔ المفردات فی غریب القرآن، راغب اصفہانی، ص3512 ۔ نہج البلاغہ، فیض الاسلام، ص 12863۔ النوروز فی مصادر الفقہ والحدیث، ص 464۔ زاد المعاد ، علامہ محمد باقر مجلسی، ص 523 ؛ نیز جواہر الکلام، ج1 (اغسال مستحبہ)5۔ مصباح المتھجد، شیخ ابوجعفر محمد ابن الحسن الطوسی، ص5916۔ زاد المعاد ، علامہ محمد باقر مجلسی ، ص 5257۔ وسائل الشیعہ، محمد بن الحسن الحرّ العاملی، ج2، ص 428 اور ج5، ص288 (بَابُ اسْتِحْبَابِ غُسْلِ یَوْمِ النِّیْرُوْزِ)8۔ کتاب القواعد، علامہ حسن ابن یوسف حلی ، ج1، ص 3 ؛ نیز رجوع کریں: الجامع الشرائع (اغسال مستحبہ) ، ص339۔ کتاب الدروس، شہید اول ، ص2 ؛ الذکریٰ، ص23؛ البیان، ص 410۔ شرح اللمعہ، شہید ثانی ، ص3411۔ العروة الوثقیٰ، سید محمد کاظم طباطبائی ، ج 1 ، ص461 ؛ جامع عباسی، شیخ بھاء الدین العاملی، ص1112۔ رجوع کریں: رسالہ توضیح المسائل(فارسی) ، (مطابق با فتاویٰ مراجع تقلید: امام خمینی ، آیت اللہ خوئی ، آیت اللہ گلپایگانی ،آیت اللہ اراکی ، آیت اللہ منتظری)، مسئلہ نمبر: 644 ؛ رسالہ توضیح المسائل(فارسی)، حضرت آیت اللہ شیخ محمّدفاضل لنکرانی ، مسئلہ نمبر 643 ؛ توضیح المسائل(اردو)، حضرت آیت اللہ حافظ بشیرحسین نجفی، مسئلہ نمبر 645 ؛ رسالہ توضیح المسائل(فارسی)، حضرت آیت اللہ سید صادق حسینی شیرازی، مسئلہ نمبر 70413۔ رجوع کریں: رسالہ توضیح المسائل(فارسی)، حضرت آیت اللہ شیخ حسین وحید خراسانی ، ص 313 تا 31514۔ جامع المسائل، (استفتئاآت) (فارسی)، حضرت آیت اللہ محمد فاضل لنکرانی ، ج2 ، ص 15615۔ جواہر الکلام، شیخ محمد حسن النجفی، ج 5، ص38 تا 4016۔ جواہر الکلام، شیخ محمد حسن النجفی، ج17، ص 11317۔ المستند، ملاّاحمد نراقی ، ج17، ص 29918۔ کتاب الحدائق، شیخ یوسف بحرانی ، ج 13، ص 38 ؛ نیز رجوع کریں:المھذّب، محمد ابن فھد الحلّی، ج1، ص 191؛ کشف الغطائ، شیخ جعفر النجفی کاشف الغطائ، ص32419۔ رجوع کریں: توضیح المسائل(فارسی)، (مطابق با فتاویٰ مراجع تقلید : امام خمینی ، آیت اللہ خوئی ، آیت اللہ گلپایگانی ،آیت اللہ اراکی ، آیت اللہ منتظری)، مسئلہ نمبر:1748 ؛ توضیح المسائل(فارسی)، حضرت آیت اللہ شیخ حسین وحید خراسانی، مسئلہ نمبر :1756 ؛ رسالہ توضیح المسائل(فارسی)، حضرت آیت اللہ شیخ محمّدفاضل لنکرانی ، مسئلہ نمبر 1813 ؛ رسالہ توضیح المسائل(فارسی)، حضرت آیت اللہ سید صادق حسینی شیرازی، مسئلہ نمبر 188720۔ مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی، ص298تا299 ؛ زاد المعاد ، علامہ محمد باقر مجلسی ، ص523 تا 52521 ۔ وسائل الشیعة، شیخ محمد ابن الحسن الحرّ العاملی، ج 2، ص 428 ؛ ج 5، ص288 ؛ ج7 ، ص 34622 ۔ مصباح المتھجّد، شیخ ابو جعفر محمد ابن الحسن الطوسی ، ص 591 ؛ کتاب السرائر، محمد ابن ادریس الحلّی ؛ کتاب المھذّب، محمدابن فھد الاسدی الحلّی ، ج1، ص191 ؛ جامع عباسی، شیخ بہاء الدین العاملی ، ص 7823۔ کتاب الطہارة، شیخ مرتضیٰ انصاری ، ص 328 ؛ نیز رجوع کریں: وسائل الشیعة، شیخ محمد ابن الحسن الحرّ العاملی، ج7، ص 346 ؛ مصباح المتھجّد، شیخ ابو جعفر محمد ابن الحسن الطوسی ، ص 591 ؛ کتاب الحدائق، شیخ یوسف بحرانی ، ج4، ص 212 ؛ ج13، ص 38024۔ من لایحضرہ الفقیہ، ابوجعفر محمد ابن علی ابن بابویہ القمی شیخ صدوق ، ج3، ص30 ؛ نیز رجوع کریں: وسائل الشیعة، شیخ محمد ابن الحسن الحرّ العاملی ، ج 12، ص 213 اور 215 ؛ دعائم الاسلام، ج2، ص 32625۔ من لایحضرہ الفقیہ، ابوجعفر محمد ابن علی ابن بابویہ القمی شیخ صدوق ، ج3، ص300 ؛ نیز عینا اسی روایت کیلئے رجوع کریں: کتاب التھذیب، شیخ ابو جعفر محمد ابن الحسن الطوسی ، ج6، ص37826۔ کتاب اثنیٰ عشریہ ، شیخ محمد ابن الحسن الحرّ العاملی ، ص 163 (طبع قدیم)(نقل از کتاب عید نوروز از دیدگاہ اسلام)
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.