اندروني دفاعي نظام

126

ہماري روز مرہ کي زندگي میں بے شمار ایسي مثالیں ملتي ہیں جہاں معاشرے یا گھر میں موجود افراد ایک دوسرے کو مختلف نقصانات میں مبتلا ہونے یا دوسروں کے نقصان کا باعث بننے سے روکتے رہتے ہیں یا اُن فوائد کو حاصل کرنے کي طرف رہنمائي کرتے ہیں جن کي طرف اُن کے چاہنے والوں کي توجہ نہيں ہوتي۔ اگر کسي زمانہ یا معاشرہ میں انسانوں کے اندر یہ احساس مر جائے، يا موجود ہونے کے باوجود نظرانداز کر ديا جائے، تو پھر اس معاشرہ کے نظم و ضبط یا ترقي کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے۔ کیونکہ يہ بات ممکن نہیں کہ معاشرے ميں قوانین کو جاري کرنے کے لئے ہر وقت، ہر جگہ حکومت یا دوسرے اداروں کي طرف سے کوئي نہ کوئي موجود ہو۔ لہذا اگر معاشرے ميں موجود تمام افراد اس ذمہ داري کو محسوس کر کے اس کو عملي جامہ پہنائيں، تو شايد غافل اور گمراہ لوگوں کي تعداد بہت کم ہوجائے ۔شریعت نے بھي، انساني معاشروں کو بے راہ روي اور گمراہي سے بچانے اور مسلمانوں کو دشمن کے مضرّ حملوں کے خلاف دفاع کرنے پر اُکسانے کے لیے، کچھ فرائض قرار دئیے ہیں جن کے ذریعہ تمام مسلمانوں کو اپنے اپنے مقام پر اسلامي معاشرہ کے بچاو اور اس کي فلاح و بہبود کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ یعني اپني انفرادي ذمہ داریوں پر عمل کے ساتھ ساتھ، معاشرہ کي صورت حال کے لیے بھي ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ مثلاً بيروني خطرات اور حملوں کا دفاع کرنے کے لئے سب کو جہاد کے لئے تيار کيا اور معاشرہ کي اندروني کج روي اور پسماندگي سے مقابلہ کے لئے دو کاموں کو واجب قرار ديا يعني امر بہ معروف (دوسروں کو نيکي اور اچھائي کا حکم دينا) اور نہي از منکر ( دوسروں کو برائي سے روکنا)۔جیسا کہ ابتدائ ميں ذکر ہوا، معاشرہ ميں قوانين پر عمل کو يقيني بنانے کي ايک بہت مناسب راہ ذمہ داري کي ادائيگي ہے۔ جبکہ انسانوں کے بنائے ہوئے اکثر قوانين کا ہدف انسانوں کي ظاہري اور دنياوي زندگي کو منظّم کرنا اور مفيد و پُرسکون بنانا ہے۔ اس کے باوجود ان پر عمل درآمد، سب کي طرف سے شرکت کا محتاج ہے ۔ جبکہ ديني قوانين اور اس کے رہنما اُصول قوانين بشري سے کہيں زيادہ حسّاس ہيں کيونکہ يہ انسان کي دنيا کو بھي مدِنظر رکھتے ہيں اور آخرت کو بھي، اس کي جسماني ضروريات کا بھي خيال رکھتے ہيں اور روحاني ضرورتوں کا بھي۔ پس کس طرح يہ دعويٰ کيا جاسکتا ہے کہ ديني قوانين دوسرے مسلمانوں کي مدد کے بغير، ہماري زندگيوں اور پورے معاشرہ ميں جاري و ساري ہو جائيں گے؟۔ اور اگر فرض بھي کرليا جائے کہ ان پر پوري طرح عمل ہورہا ہو، پھر بھي غفلت، خطا اور شيطاني وسوسوں کے شکار ہونے کا خطرہ تو ہميشہ موجود ہے ہي۔ ايسي صورتحال ميں دين کا يہ نظام کتنا خوب صورت ہے کہ ايک مسلمان اپنے برادر ديني کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اس کي غلطي کي طرف متوجہ کردے تاکہ وہ موت سے پہلے اپني اصلاح کر سکے اور اللہ کے دين اور اُس کا قانون بھي پامال نہ ہو۔اگرچہ ديني واجبات کي فہرست میں یہ دو واجب، نماز، روزہ، حج وغیرہ جيسے مشہور واجبات کے بعد آتے ہیں لیکن اہمیت میں یقینا دوسروں سے کم نہیں ہيں۔ بلکہ بعض ايسي عبارتيں ملتي ہيں جن سے محسوس ہوتا ہے گويا اُن سے اہميّت ميں کہيں زيادہ ہيں۔ اس تحریر میں، دينِ اسلام کي بنيادي کتابوں میں ان دو واجبات کي قدر و منزلت سے متعلق آنے والي چند مثالوں کو نمونہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، کیونکہ واضح ہے کہ تمام پہلووں پر روشني ڈالنا نہ ہماري قدرت میں ہے اور نہ ہي اس کامقام کاتقاضا۔قرآن وسنت کي بارگاہ میں
١۔عُمر کے یقیني نقصان سے نجات:ارشادباري تعالي ہے:ُُ’ قسم ہے عصر کي بے شک انسان خسارہ میں ہے ۔علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے اوراُنھوں نے نیک اعمال انجام ديئے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کي وصیت اور نصیحت کي۔‘‘ (سورہ عصر)اس سورہ میں اُن لوگوں کے بارے میں ارشاد ہورہا ہے جو اپني زندگي (یعني سرمایہ) سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور اسے ضایع نہيں کرتے اورنقصان سے بچ جاتے ہیں۔علامہ طبرسي۲ تفسیر مجمع البیان میں فرماتے ہیں:’ ایک دوسرے کو حق اور صبر کي وصیت کرنے کے واجب ہونے میں اشارہ ہے امربالمعروف اور نہي از منکر ،توحید وعدل اور واجبات کي ادائیگي ،اور برائیوں سے دوري کي دعوت کي طرف۔۔۔‘‘ (مجمع البیان، ج١٠، ص٤٣٦)علامہ طباطبائي ۲ فرماتے ہیں کہ’حق کي وصیت کرنا خود نیک اعمال میں شامل ہے۔ پس اس کا نیک اعمال کے بعد ذکر کرنا، اس طرح ہے جس طرح ایک خاص چیز کاذکر ايک عام (حکم) کے بعدکيا جائے، اس کي اہمیت کي وجہ سے۔۔۔‘‘ (المیزان ج٢٠، ص٣٥٥)يعني اگرچہ اچھے اعمال (اعمال صالح) ميں حق کي وصیت اور نصیحت بھي شامل ہے، ليکن اگلي آيت ميں اس کا الگ سے ذکر اس کي اہميت کو اجاگر کرتا ہے۔ اور حق کي وصيت کا دامن بھي بہت وسیع ہے، اس ميں امر بالمعروف اور نہي از منکر بھي شامل ہيں۔ لہذا سورہ عصر قرآن کي نظر میں ان دو واجبات کي اہمیت کي عکاسي کرتا ہے، کہ ان کي ادائيگي سے انسان اپنے سب سے قيمتي سرمايہ کو ضايع کرنے سے بچ جانے والوں ميں سے ہو جاتا ہے۔
٢۔ نبي اکرم۰ کو بھي حکم ہوا:سورہ اعراف آیت نمبر ١٩٩ میں ارشاد ہوتا ہے.خُذِ العفوَ وَ آْمُرْ بِالْعُرفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِینَآپ عفو کا راستہ اختیار کریں، نیکي کاحکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشي کریں۔واضح ہے کہ اس آیت میں خود نبي اکرم۰ کو حکم ہوتا ہے کہ امر بمعروف بجا لائیں۔ ‘عُرف‘‘ وہ چیز ہے جو عاقلوں کے درميان اور سمجھدار معاشرہ میں اچھي اور شائستہ رسموں اور عادتوں کے نام سے پہچاني جاتي ہے۔۔ اس کامطلب یہ ہے کہ تمام معروفوں کا حکم کیا جائے۔ (المیزان ،ج٨، ص٣٨٠)
٣۔ اس فرض کوچھوڑنے والوں کي مذمّت:سورہ اعراف میں آیت ١٦٣ سے ١٦٦ میں ارشاد ہوتا ہے:’اور ان سے اس قريہ کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے تھا اور جس کے باشندے ہفتہ کے دن کے بارے میں زیادتي سے کام لیتے تھے، کہ ان کي مچھلیاں ہفتہ کے دن سطح آب تک آجاتي تھیں اور دوسرے دنوں ميں نہیں آتي تھیں تو انھوں نے حیلہ گري کرنا شروع کردي۔ ہم اس طرح ان کا امتحان لیتے تھے، کہ یہ لوگ فسق اور نافرماني سے کام لے رہے تھے۔ اور جب ان کي ایک جماعت نے مصلحین سے کہا تم کیوں ایسي قوم کو نصیحت کرتے ہو جسے اللہ ہلاک کرنے والا ہے، یا اس پر شدید عذاب کرنے والا ہے، تو انھوں نے کہا کہ ہم پروردگار کي بارگاہ میں عذر چاہتے ہیں اور شاید یہ لوگ متقي بن ہي جائیں۔ اس کے بعد جب انھوں نے یاددہاني کو فراموش کردیا تو ہم نے برائیوں سے روکنے والوں کو بچا لیا اور ظالموں کو ان کے فسق اور بدکرداري کي بنا پر سخت ترین عذاب کي گرفت میں لے لیا۔ پھر جب دوبارہ ممانعت کے باوجود سرکشي کي تو ہم نے حکم دے دیا کہ اب ذلّت کے ساتھ بندر بن جاو۔‘‘ان آیات مبارکہ میں بني اسرائیل کے ظلم اور نافرماني خدا کا ایک اور نمونہ سامنے آتا ہے۔ خدا نے ان میں سے ایک گروہ کو، ان کے فسق وفجور کي وجہ سے، ایک امتحان میں مبتلا کیا تھا۔ اُن لوگوں کو ہفتہ والے دن مچھلیوں کا شکار کرنے سے روکا گیا تھا، جس دن مچھلیاں پاني کي سطح پر آتیں۔ لیکن بعض نے اس حکم کي پیروي نہ کي۔ مفسرین کے قول کے مطابق وہ لوگ تین گروہوں ميں بٹے ہوئے تھے؛ ایک گروہ ان فاسقوں کا تھا جنھوں نے خدا کے فرمان سے منہ موڑا۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو خدا کے احکام کي پیروي کرتے اور فاسقوں کو خدا کے فرامین کو ترک کرنے سے منع بھي کرتے۔ اور تیسرا گروہ ان لوگوں کا تھا، جو اگرچہ خدا کے احکام کي پیروي کرتے لیکن، گناہ گاروں کو ان کے گناہوں سے روکتے نہ تھے، بلکہ اس کے برخلاف اُس دوسرے گروہ کو اُن کي نہي سے روکتے تھے (جیسا کہ ترجمہ میں ملاحظہ فرمایا) (تفسیر المیزان،ج٨، ص٢٩٤)خداوند ارشاد فرماتا ہے: ‘انجینا الّذین ینھون عن السُوئ‘‘ یعني ‘ہم نے برائیوں سے روکنے والوں کو بچالیا‘‘۔ ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ نجات پانے والا گروہ يہي گروہ تھا۔ اس کے علاوہ دوسرے دونوں گروہ (یعني فاسقوں کا گروہ اور وہ اطاعت گذار جو نہي از منکر کو ترک کرتے تھے) عذاب خدا میں گرفتار ہوئے۔ (تفسیرالمیزان)اور اُس جواب سے جو نہي از منکر کرنے والوں نے تیسرے گروہ کے سوال، یعني ‘تم کیوں ایسي قوم کو نصیحت کرتے ہو‘‘ کے مقابلہ میں دیا،یہ بات بھي سمجھ میںآتي ہے کہ نہي از منکر گذشتہ اُمتوں میں بھي ایک فرض اور واجب تھا اور ضروري تھا کہ لوگ اس ذمہ داري سے ‘بري الذمہ‘‘ ہوتے۔ اوریہ بات بھي ہم ان آیات مبارکہ سے حاصل کرسکتے ہیں کہ اگر ظلم سے منع کیا جاسکتا ہو، اور اس کا اثر بھي ہوتا ہو، ليکن اس کے باوجود منع نہ کریں اور ترک کردیں (اس نہي از منکر کو) تو اس طرح سے ہے گویا اس کے ظلم میں شریک ہوئے اور جس طرح خدا کاعذاب ظالم کو اپني لپیٹ میں لیتا ہے، اس کے ساتھ شریک ہونے والوں کو بھي نہیں چھوڑتا۔(تفسیر المیزان)
٤۔ دوسرے فرائض کے مقابلہ میں ،ان کا مقام:معصومینٴ کي روایات میں شریعت مقدسہ کے اس واجب کے بارے میں ایسے جملے اور صفات ملتي ہیں جن سے دین اسلام کي نظر میں، باقي اعمال کے مقابلہ میں، اس کامقام اور اہمیت اجاگر ہوتي ہے۔ چنانچہ امیر المومنین عليٴ نے فرمایا:’و ما اعمالُ البرِّ کلّھا و الجھادُ في سبیل اللّٰہ عند الامر بالمعروف و النھي عن المنکر الّا کتفثۃ في بحر لجّي‘‘ (نہج البلاغہ، حکمت٣٧٤)’تمام نیک اعمال يہاں تک کہ اللہ کي راہ میں جہاد، امربہ معروف اور نہي از منکر کے مقابلہ میں لعاب دھن (اور ایک قطرہ) کي طرح ہیں جو ایک متلاطم اور موجیں مارتے ہوئے سمندر میں ہو۔‘‘امام عليٴ کے قول میں یہ تشبیہ، امر بہ معروف اور نہي از منکر کي کس قدر عظیم تصوير پیش کرتي ہے!! ایک طرف تمام اعمال نیک ہیں، يہاں تک کہ جہاد بھي کہ جس کا ذکر نام لے کر کیا گیا، اور دوسري طرف یہ عظیم واجب۔ گویا وہ فقط قطرے ہیں اور یہ سمندر! شاید مُراد یہ ہے کہ جس طرح دریا میں موجود مخلوقات، پاني کي وجہ سے زندہ رہتي ہیں، اسي طرح اگر امربمعروف اور نہي از منکر کسي اسلامي معاشرہ میں ہو تو، دوسرے تمام اعمال صالحہ بھي موجود ہوں گے، اور اگر یہ نہ ہوں تو تمام دوسرے اعمال بھي باقي نہیں رہ سکتے۔امام محمد باقرٴ سے روایت ہے کہ فرمايا:’آخري زمانہ میں لوگوں کاایک گروہ ریاکار ہوگا۔‘‘ (يہاں تک کہ فرمایا) ‘اگر (ان کے خیال میں) نماز اُن کے مالي اور جسمي کاموں کے لیے مضر ہو، تو اُسے چھوڑ دیں گے، جس طرح سب سے نمایاں اور سب سے بافضیلت واجب (امر بہ معروف اور نہي از منکر) کو چھوڑدیں گے۔‘‘ (وسائل الشیعہ، ج١٦)٥۔ان کاترک کرنا خیانت ہے:عبدالرحمن بن حجاج کہتا ہے کہ میں نے سنا کہ امام صادقٴ نے فرمایا:
‘جو کوئي بھي اپنے برادر دیني کو ایک بُرا کام کرتے دیکھے، اور اُسے اُس کام سے نہ روکے، جبکہ اس کي (یعني روکنے کي) قدرت رکھتا ہو، تو یقینا اس نے اُس کے ساتھ خیانت کي ہے۔‘‘ (امالي صدوق، ص٢٦٩)
دیني رہبروں اورصالح مومنین کي عملي سیرتقرآن وسنت کي تاکید کے ساتھ ساتھ، امر بہ معروف اور نہي از منکر کي اہمیت کو سمجھنے کے لیے ایک بہت ہي مفید سرچشمہ انبیائ ٴ، ائمہٴ، اولیائ اور ان کے سچّے پیروکاروں کي عملي سیرت کا مطالعہ ہے، کہ کس کس طرح انھوں نے اس فريضہ کو اور اس کے ذریعہ دین حق کوزندہ رکھنے کے لیے، زحمتیں اُٹھائیں۔ جب انسان قرآن و سنت کي لفظي ہدایات اور رہنمائي کے ساتھ ساتھ، اُن عظیم شخصیتوں کے عملي کردار میں اس فريضہ کي چمک اور روشني کو دیکھتا ہے، تو اس راستہ کي طرف ایک نئے عزم کے ساتھ قدم اُٹھانے کو جي چاہتا ہے۔ مومن اپنے آپ سے کہتا ہے کہ جب یہ پاک لوگ جو تمام انساني فضیلتوں کا خلاصہ تھے، جو اس پورے عالم کے نظام کا پھل اور ثمر تھے، جب ان لوگوں نے شریعت کے اس واجب کو زندہ کرنے کے لیے کوئي کسر اُٹھا نہ رکھي، تو ميں اور مجھ جیسے۔۔؟يوں تو ان عظمتوں کي مثالیں بہت زیادہ ہیں، لیکن ان سب میں جو ستارہ اپني نمایاں اور منفرد چمک کے ساتھ، آنکھوں کو خيرہ اور دل کو اپني طرف جذب کرتا ہے، وہ سید الشھدائ امام حسینٴ کي سیرت ہے۔ گو انقلاب حسیني کي مختلف زاویوں اور اہداف کے تحت تفسیر ممکن ہے، لیکن خود امام حسینٴ کے اقوال کي روشني میں، ان کي تحریک کے اہداف میں سے ایک کو امر بمعروف اور نہي از منکر روشناس کرا گیا ہے۔ مثلاً امامٴ اپنے جد رسول خدا ۰ کي قبر کي زیارت کے لیے تشریف لے جاتے ہیں تو فرماتے ہیں:’خداوندا! یہ تیرے نبي محمد ۰ کي قبر ہے، اور میں تیرے نبي۰ کا نواسہ ہوں، اور میرے لیے ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس سے تو واقف ہے۔ پروردگارا! میں معروف کو پسند کرتا ہوں اور منکر سے نفرت کرتا ہوں۔۔‘‘ (مقتل خوارزمي ص ١٨٦)اپنے بھائي جناب محمد بن حنفیہ سے وصيت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’۔۔میں خود خواہي (اور شہرت) یا تفریح (اور نفساني خواہشات کي پیروي) کے لیے (مدينہ سے) خارج نہیں ہورہا۔ اور نہ ہي فساد (اور تباہي) کو پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کے لیے۔ میں فقط اپنے جدّ ۰ کي امت کي اصلاح کے لیے نکل رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ امر بہ معروف اور نہي از منکر بجا لاوں اور اپنے جدّ اور والد عليٴ ابن ابیطالبٴ کي سیرت پر چلوں۔‘‘ (مقتل خوارزمي ص٥٤)آخر میں انبیائ اور آئمہ عليہم السلام کے سچے پیروکاروں کي سیرت سے فقط ایک نمونہ پیش کرتے ہیں۔ صحابي رسول حضرت ابوذر غفاري۱ نے پیغمبر کي وفات کے بعد اسلامي معاشرہ میں پیش آنے والي برائیوں اور کج رفتاریاں ملاحظہ کيں تو خاموش نہ رہ سکے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ جب بھي آپ۱ کو موقع ملتا، مسلمانوں کو ان کے غلط طرز زندگي سے آگاہ فرماتے اور انھیں نصیحت کرتے۔ وہ کمزور اور ظلم اُٹھانے والے لوگوں سے فرماتے:’۔۔ ظالم حاکموں کي خوشنودي کي خاطر، خدا کے غضب کو مت خریدو۔ اگر وہ خدا کو ناراض کرتے ہیں تو ان سے دور ہوجاو، اور اُن کو اُن کے حال پر چھوڑ دو۔ (خدا کي طرف توجہ کرو کیونکہ) خدا ہر شے سے بڑا اور بالاتر ہے۔‘‘انھوں نے حاکمِ وقت سے بھي فرمايا :’تم نے مجھ میں کوئي عیب اور نقص نہیں دیکھا سوائے اس کے کہ میں امر بہ معروف اور نہي از منکر کرتا ہوں۔‘‘آخرکار حضرت ابوذر۱ کو حکومت وقت نے جلاوطن کر کے ‘ربذہ‘‘ کے گرم ریگستان میں بھیج دیا جہاں تنہائي اور عالمِ غربت میں اُن کا انتقال ہوا۔ (امر بہ معروف اور نہي از منکر، آیت اللہ نوري ہمداني، الغدیر، ج٨ سے نقل فرماتے ہیں)يہاں اس فرض شناس صحابي کي شان میں وہ کلمات نقل کرتے ہیں جو امیر المومنین عليٴ نے ان کے لیے فرمائے:’اے ابوذر! تم نے خدا کے لیے غضب کيا، پس اُسي سے امید رکھو جس کے لئے غضب کيا تھا۔ یہ لوگ اپني دنیا کے لیے تم سے ڈرے، لیکن تم اپنے دین کے لیے ان سے ڈرتے ہو۔ پس اس چیز کو جس کے لیے وہ خوفزدہ ہیں، انھي کے پاس چھوڑ دو، اور جس کے بارے میں یہ خوف رکھتے ہو کہ وہ لوگ اس میں مبتلا ہوجائیں گے (سزائے الہي)، اس سے فرار کرو (یا اس چیز کو محفوظ رکھنے کے لیے جس کے بارے میں خوفزدہ ہو (یعني دین) ، اُن سے دور بھاگو)۔کتنے محتاج ہیں وہ لوگ اس چیز کے جس سے اُنھیں منع کرتے تھے ، اور کتنے بے نیاز ہو تم اس چیز سے جس سے وہ لوگ تم کو منع کرتے تھے (یعني دنيا)! اور جلد ہي جان جاو گے کہ کل کون فائدہ حاصل کرے گا اور کس سے زیادہ حسد کیا جائے گا اور اگر آسمانوں اور زمینوں کے دروازے ایک بندہ پر بند ہو جائیں، لیکن وہ خدا سے ڈرے (اس کا تقويٰ اختیار کرے) تو خدا اُس کے لیے اُن سے نکلنے کا راستہ قرار دے گا۔ اپنے سکون کو فقط حق میں تلاش کرو، اور باطل کے علاوہ کوئي چیز تمہیں وحشت زدہ (پریشان) نہ کرے۔ اگر تم نے اُن کي دنیا کو قبول کرلیا ہوتا، تو وہ تمہیں پسند کرتے اور اگر تم اس میں سے ایک حصہ لے لیتے تو تمہیں تنگ نہ کرتے۔۔‘‘ (نہج البلاغہ، خطبہ ١٣٠)معصومٴ کي زبان سے اس صحابي کي شخصيّت کے خدّوخال کے بيان سے واضح ہوجاتا ہے کہ انھوں نے باقي فرائض کے ساتھ ساتھ ان واجبات کو بھي ادا کيا، اس طرح کہ اُن کے امام وقتٴ نے بھي اس بات کي تائيد فرمائي۔ يہ بات جس طرح حضرت ابوذر۱ کي فضيلت کو اجاگر کرتي ہے، امر بمعروف اور نہي از منکر کي بے انتہا اہميت پر بھي اشارہ کرتي ہے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.