کیا اصحاب کہف کا واقعہ سائنس سے مطابقت رکھتا ہے؟

149

شہر ‘افسوس’ کے طولانی مدت تک سونے والوں (یعنی اصحاب کہف) کی نیند کے بارے میں بعض لوگ شک و تردید کرسکتے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ اس کو سائنس کے علمی اصول سے موافق نہ سمجھےں، لہٰذا اس کو ‘قصہ اور کہانیوں’ کی صف میں قرار دے دیں، کیونکہ:۱۔ بیدارر ہنے والوں کے لئے سیکڑوں سال تک زندہ رہنا مشکل ہے ، سوتے ہوئے لوگوں کے لئے تو بہت دور کی بات ہے!۲۔ بیداری کے عالم میں تو بافرض محال یہ مانا بھی جاسکتا ہے کہ اتنی طویل عمر ہوسکتی ہے ، لیکن جو شخص سویا ہوا ہو اس کے لئے ناممکن ہے، کیونکہ کھانے پینے کی مشکل پیش آئے گی، انسان اتنی مدت تک بغیر کھائے پئے کیسے زندہ رہ سکتا ہے، اور اگر فرض کریں کہ انسان کے لئے ہر روز ایک کلو کھانا اور ایک لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو اصحاب کہف کی عمر کے لئے دس کونٹل کھانا اور ایک ہزار لیٹر پانی ضروری ہے جس کو بدن میں ذخیرہ کرنا معنی نہیں رکھتا۔۳۔ اگر ان سب سے چشم پوشی کرلیں تو یہ اعتراض پیش آتا ہے کہ بدن کے ایک حالت میں اتنی طولانی مدت تک باقی رہنے سے انسانی جسم کے مختلف اعضا خراب ہوجاتے ہیں۔اس طرح کے اعتراضات کے پیش نظر ظاہری طور پرکوئی راہ حل دکھائی نہ دیتی، جبکہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ:الف: طولانی عمر کا مسئلہ کوئی غیر علمی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ (سائنس کے لحاظ سے) ہر زندہ موجود کے لئے کوئی معین معیار نہیں کہ اس وقت اس کی موت یقینی ہو۔دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ انسان کی طاقت کتنی بھی ہو آخر کار محدود اور ختم ہونے والی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کا بدن یا کوئی دوسرا جاندار اس معمولی مقدار سے زیادہ زندگی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، مثال کے طور پردرجہئ حرارت سو تک پہنچنے پر پانی کھول جاتا ہے اور درجہئ حرارت صفر ہونے پر پانی برف بن جاتا ہے، لہٰذا انسان کے سلسلہ میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ جب انسان سو سال یا ڈیڑھ سو سال کا ہوجائے تو انسان کی حرکت قلب بند ہوجائے اور وہ مرجائے۔بلکہ انسان کی عمر کا معیار زیادہ تر اس کی زندگی کے حالات پر موقوف ہے اور حالات کو بدلنے سے اس کی عمر میں تبدیلی آسکتی ہے، اس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر کے دانشوروں نے انسان کے لئے کوئی خاص عمر معین نہیں کی ہے، اس کے علاوہ متعدد دانشوروں نے بعض جانداروں کی عمر کو بعض مخصوص لیبریٹری میں رکھ کر دو برابر، چند برابر اور بعض اوقات ۱۲ برابر تک پہنچا یاہے، یہاں تک کہ محققین اور دانشوروں نے ہمیں امید دلائی ہے کہ مستقبل میں سائنس کے جدید طریقوں کے ذریعہ انسان کی عمر اس وقت کی عمر سے چند برابر بڑھ جائے گی، یہ خود طولانی عمر کے سلسلہ میں ہے۔ب: اس طولانی نیند کے بارے میں کھانے پینے کا مسئلہ اگر معمولی نیند ہو تو اعتراض وارد ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ سائنس سے ہم آہنگ نہیں ہے، اگرچہ سوتے وقت کھانے پینے کی ضرورت کم ہوتی ہے لیکن چند سالوں کے لئے یہ مقدار بہت زیادہ ہونی چاہئے، لیکن اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ جہان طبیعت میں ایسی بھی نیند پائی جاتی ہیں جن میں کھانے پینے کی ضرورت بہت ہی کم ہو تی ہے، اس کے لئے جانوروں کی مثال دی جاتی ہے جو موسم سرما میں سوجاتے ہیں۔سردیوں کی نیندبہت سے جانور ایسے ہیں جو پوری سردیوں کے موسم میں سوتے رہتے ہیں اسے سائنس کی اصطلاح میں ‘سردیوں کی نیند’ کہا جاتا ہے۔ایسی نیند میں زندگی کے آثار تقریباً ختم ہوجاتے ہیں، زندگی کا معمولی سا شعلہ روشن رہتا ہے، دل کی دھڑکن تقریباً رک جاتی ہے، اور اتنی خفیف ہوجاتی ہے کہ بالکل محسوس نہیں ہوتی۔ایسے مواقع پر بدن کو ایسے بڑے بھٹے سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جو بجھ جاتا ہے اور چھوٹا سا شعلہ بھڑکتا رہتا ہے، واضح ہے کہ آسمان سے باتیں کرتے ہوئے شعلوں کے لئے بھٹے کو ایک دن کے لئے جتنے تیل یا گیس کی ضرورت ہوتی ہے ایک خفیف سے شعلہ کے لئے اتنی خو راک برسوں یا صدیوں کے لئے کافی ہے، البتہ اس میں جلتے ہوئے بھٹے کی مقدار اور خفیف سے شعلہ کی مقدار کے لحاظ سے فرق ہوسکتا ہے۔جانوروں کی سردیوں کی نیند کے بارے میں دانشورں کا کہنا ہے: ‘اگر کسی مینڈک کو سردیوں کی نیند سے اس کی جگہ سے باہر نکالیں تووہ مردہ معلوم ہوگا، اس کے پھیپھڑوں میں ہوا نہیں ہوتی، اس کے دل کی حرکت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ پتہ نہیں چلایا جاسکتا، سرد خون جانوروں (Cool Blooded) میں بہت سے جا نورسردیوں کی نیند سوتے ہیں، اس سلسلہ میں کئی طرح کے کیڑے مکوڑے، حشرات الارض، زمینی سیپ [صدف] اور رینگنے والے جانوروں کے نام لئے جاسکتے ہیں، بعض خون گرم جانور (Warm Blooded) بھی سردیوں کی نیندسو تے ہیںاس نیند کے عالم میں حیاتی فعالتیں بہت سست پڑجاتی ہیں اور بدن میں ذخیرہ شدہ چربی آہستہ آہستہ صرف ہوتی رہتی ہے۔ (۱)مقصد یہ ہے کہ ایک ایسی بھی نیند ہے جس میں کھانے پینے کی بہت کم ضرورت ہوتی ہے اور حیاتی حرکتیں تقریباً صفر تک پہنچ جاتی ہیں، اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہی صورت حال اعضا کو فرسودگی سے بچانے اور جانوروں کو ایک طولانی مدت تک جینے میں مدد دیتی ہے، اصولی طور پر جو جاندار احتمالاً سردیوں میں اپنی غذا حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ان کے لئے سردیوں کی نیند بہت غنیمت شئے ہے۔یوگا کے ماہرین؛ ایک اور نمونہیوگا کے ماہرین کے بارے میں دیکھا گیا ہے کہ ان میں سے بعض کو یقین نہ کرنے والے حیرت زدہ افراد کی آنکھوں کے سامنے بعض اوقات تابوت میں رکھ کر ہفتہ بھر کے لئے مٹی کے نیچے دفن کردیتے ہیں اور ایک ہفتہ کے بعد انھیں باہر نکالتے ہیں ان کی مالش کی جاتی ہے اور مصنوعی سانس دی جاتی ہے اور وہ رفتہ رفتہ اصلی حالت پر پلٹ آتے ہیں۔اتنی مدت کے لئے اگر کھانے پینے کا مسئلہ کوئی اہم نہ ہو تو بھی آکسیجن کا مسئلہ بہت اہم ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں دماغ کے خلیے آکسیجن کے معاملہ میں اتنے حساس اور ضرورت مند ہوتے ہیں کہ اگر چند سیکنڈ بھی اس سے محروم رہیں تو تباہ ہوجائیں، لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک یوگا کرنے والا پورا ہفتہ کس طرح آکسیجن کی اس کمی کو برداشت کرلیتا ہے۔ہماری مذکورہ گفتگو کے پیش نظر اس سوال کا جواب کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے، بات یہ ہے کہ یوگا کرنے والے کے بدن کی حیاتی حرکت اس عرصہ میں تقریباً رک جاتی ہے اس دوران خلیے کو آکسیجن کی ضرورت اور اس کا مصرف بہت کم ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہی ہوا جو تابوت کے اندرونی حصہ میں ہوتی ہے بدن کے خلیوں کی ہفتہ بھر کی غذا کے لئے کافی ہوجاتی ہے!!۔زندہ انسان کے بدن کو منجمد کرناجانوروں بلکہ انسانی بدن کو منجمد کرکے ان کی عمر بڑھانے کے بارے میں آج کل بہت سے نظریات پیش کئے گئے ہیں جن پر بحثیں ہورہی ہیں ان میں سے بعض تو عملی جامہ پہن چکے ہیں۔ان تھیوریوں کے مطابق یہ ممکن ہے کہ ایک انسان یا حیوان کے بدن کو ایک خاص طریقہ کے تحت صفر سے کم درجہ حرات پر رکھ کر اس کی زندگی کو ٹھہرا دیا جائے جس سے اس کی مو ت واقع نہ ہو پھر ایک ضروری مدت کے بعد اسے مناسب حرارت دی جائے اور وہ عام حالت پر لوٹ آئے!!بہت دور دراز کے فضائی سفر جن کے لئے کئی سو سال یا کئی ہزار سال کی مدت درکارہے، ان کے لئے کئی منصوبے پیش کئے جاچکے ہیں ان میں سے ایک یہی ہے کہ فضا نورد کے بدن کو ایک خاص تابوت میں رکھ کر اسے جما دیا جائے اور جب سالہا سال کی مسافت کے بعد وہ مقررہ کرّات کے قریب پہنچ جائے تو ایک ایٹو میٹک نظام کے تحت اس تابوت میں حرارت پیدا ہوجائے اور فضا نورد اپنی حیات کو ضا ئع کئے بغیر حالت معمول پر لوٹ آئے ۔ایک سائنسی جریدہ میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ حال ہی میں انسانی بدن کو لمبی عمر کے لئے منجمد کرنے کے بارے میں برابرٹ نیلسن نے کتاب لکھی ہے، سائنس کی دنیا میں یہ کتاب بہت مقبول ہو ئی ہے اور اس کے مندرجات کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔جریدہ کے اس مقالہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ حال ہی میں اس عنوان کے تحت ایک خاص سانئسی شعبہ قائم ہوگیا ہے، چنانچہ مذکورہ مقالہ میں لکھا ہے:ہمیشہ سے انسانی تاریخ میں ‘حیات جاویدانی’ انسان کا سنہرا خواب رہی ہے، لیکن اب یہ خواب حقیقت میں بدل گیا ہے، یہ امر ایک نئے علم کی خوشگوار اور حیرت انگیز ترقی کا مرہونِ منت ہے اس علم کا نام ‘کریانک’ ہے، (یہ علم انسانی بدن کو منجمد کرکے زندہ رکھنے کے بارے میں ہے، اس کے مطابق انسان کے بدن کو منجمد کرکے اسے بچا یا جاسکتا ہے یہاں تک کہ سائنسداں اسے پھر سے زندہ کردیں)کیا یہ بات قابل یقین ہے؟ بہت سے ممتاز دانشوراس مسئلہ پر غور و فکر کر رہے ہیں ، اس کے بارے میں متعدد کتابیں چھپ چکی ہیں مثلاً ‘لائف’ اور ‘اسکوائر’ ، پوری دنیا کے اخبارات پورے زور و شور سے اس مسئلہ پر بحث کر رہے ہیں، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سلسلہ میں اب تجربات شروع ہوچکے ہیں۔ (۲)کچھ عرصہ ہوا کہ اخبار میں یہ خبر چھپی تھی کہ برفانی قطبی علاقے سے چند ہزار سال پہلے کی ایک منجمد مچھلی ملی ہے جسے خود وہاں کے لوگوں نے دیکھا ہے اس مچھلی کو جب مناسب پانی میں رکھا گیا تو سب لوگ حیرت زدہ رہ گئے کہ وہ مچھلی پھر سے جی اٹھی اور چلنے لگی۔واضح رہے کہ حالت انجماد میں علامات حیات ،موت کی طرح بالکل ختم نہیں ہوتی کیونکہ اس صورت میں تو زند ہ ہو نا ممکن نہیں ہے بلکہ اس عالم میں حیات کی فعالتیں اور حرکتیں بہت سست رفتار ہوجاتی ہےں۔ان تمام باتوں سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انسانی زندگی کو ٹھہرایا یا بہت ہی سست کیا جاسکتا ہے، اور سائنس کی مختلف تحقیقات اس امکان کی متعدد حوالوں سے تائید کرتی ہیں، اس حالت میں غذا کا مصرف بدن میں تقریباً صفر تک پہنچ جاتا ہے اورانسان کے بدن میں موجود غذا کا تھوڑا سا ذخیرہ اس کی سست زندگی کے لئے طولانی برسوں تک کافی ہوسکتا ہے۔اس چیز میں غلط فہمی نہ ہو کہ ہم ان باتوں کے ذریعہ اصحاب کہف کی نیند کے اعجازی پہلو کا انکار نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ سائنس کے اعتبار سے اس واقعہ کو ذہنوں کے قریب کردیں کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ اصحاب کہف ہماری طرح نہیں سوئے، جیسا کہ ہم معمول کے مطابق رات کو سوتے ہیں ان کی نیند ایسی نہیں تھی بلکہ وہ استثنائی پہلو رکھتی تھی، لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کہ وہ ارادہ الٰہی کے تحت ایک طولانی مدت تک سوتے رہے، اس دوران نہ انھیں غذا کی کمی لاحق ہوئی اور نہ ان کے بدن کے ارگانیزم (اجزا) کو کوئی نقصان پہنچا۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ سورہ کہف کی آیات سے ان کی سرگزشت کے بارے میں یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ ان کی نیند عام طریقہ کی نیند اور معمول کی نیند سے بہت مختلف تھی، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:(وَتَحْسَبُہُمْ أَیْقَاظًا وَہُمْ رُقُودٌ وَنُقَلِّبُہُمْ ذَاتَ الْیَمِینِ وَذَاتَ الشِّمَالِ وَکَلْبُہُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیدِ لَوْ اطَّلَعْتَ عَلَیْہِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْہُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْہُمْ رُعْبًا )(سورہ کہف / ۱۸)’اور تمھارا خیال ہے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ عالمِ خواب میں ہیں اور ہم انھیں داہنے بائیں کروٹ بھی بدلوا رہے ہیں اور ان کا کتا ڈیوڑھی پر دونوں ہاتھ پھیلائے ڈٹا ہوا ہے اگر تم ان کی کیفیت پر مطلع ہوجاتے تو الٹے پاؤں بھاگ نکلتے اور تمھارے دل میں دہشت سما جاتی’۔یہ آیت اس بات کی گواہ ہے کہ ان کی نیند عام نیند نہ تھی بلکہ ایسی نیند تھی جو حالت موت کے مشابہ تھی اور ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔اس کے علاوہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے: ‘سورج کی روشنی ان کے غار کے اندر نہیں پڑتی تھی’ نیز اس امر کی طرف توجہ کی جائے کہ ان کی غار احتمالاً ایشائے صغیر کے کسی بلند اور سرد مقام پر واقع تھا تو ان کی نیند کے استثنائی حالات مزید واضح ہوجاتے ہیں۔دوسری طرف قرآن کہتا ہے: (وَنُقَلِّبُہُمْ ذَاتَ الْیَمِینِ وَذَاتَ الشِّمَالِ)( کہف / ۱۸)’اور ہم انھیں داہنے بائیں کروٹ بھی بدلوا رہے ہیں ‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل ایک ہی حالت میں نہیں رہتے تھے ایسے عوامل جو ابھی تک ہمارے لئے معمہ ہیں ان کے تحت شاید سال میں ایک مرتبہ انھیں دائیں بائیں پلٹاجاتا تھا تاکہ ان کے بدن کے ارگانیزم ( Organism) میں کوئی نقص نہ آنے پائے۔اب جبکہ اس سلسلہ میں کافی واضح عملی بحث ہوچکی ہے اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے معاد اور قیامت کے بارے میں زیادہ گفتگو کی ضرورت نہیں رہتی، کیونکہ ایسی طویل نیند کے بعد بیداری، موت کے بعد کی زندگی کے غیر مشابہ نہیں ہے، اس سے ذہن معاد اور قیامت کے امکان کے قریب ہوجاتا ہے۔ (۳) و (۴)
———————-۱۔اقتباس از کتاب فرہنگ نامہ (دائرۃ المعارف جدید فارسی) مادہ زمستانخوابی.۲۔ مجلہ دانشمند ، بہمن ماہ ۱۳۴۷؁ھ ش ، صفحہ ۴.۳۔ اس سلسلہ میں مزید وضاحت کے لئے کتاب ‘معاد و جہان پس از مرگ’ کی طرف رجوع فرمائیں.۴۔ تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۴۰۶.
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.