صحاح ميں امام زمان عج سے متعلق احاديث

169

المہديہ فى الاسلام كے مؤلف نے تحرير كيا ہے : محمد بن اسماعيل بخارى اور مسلم بن حجاج نيشاپورى نے اپنى صحاح ميں مہدى سے متعلق احاديث درج نہيں كى ہيں جبكہ صحاح ميں معتبر ترين ، نہايت احتياط و تحقيق كے ساتھ ان ميں احاديث جمع كى گئي ہيں ، ہاں سنن ابى داؤد ، ابن ماجہ ، ترمذى ، نسائي اور مسند احمد ميں ايسى احاديث جن كے منقولات ميں زيادہ احتياط سے كام نہيں ليا گيا ہے _ چنانچہ منجملہ دوسرے علما كے ابن خلدون نے ان احاديث كو ضعيف قرار ديا ہے (كتاب المہديہ فى الاسلام ص 69_)_جواب: موضوع كى وضاحت كے لئے بہتر ہے كہ قارئین كے سامنے ابن خلدون كى عبارت كا خلاصہ پيش كروں _
ابن خلدون اپنے مقدمہ لكھتے ہيں:سارے مسلمانوں كے درميان يہ بات مشہور تھى اور ہے كہ آخرى زمانے ميں پيغمبر اسلام كے اہل بيت ميں سے ايك شخص ظہور كرے گا ، دين كى حمايت كرے گا اور عدل و انصاف كو فروغ ديگا اور سارے اسلامى ممالك اس كے تسلّط آجائيں گے _ ان (مسلمانوں) كا مدرك وہ احاديث ہيں جو كہ علماء كى ايك جماعت ، جيسے ترمذى ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، حاكم ، طبرانى اور ابويعلى موصلى كى كتابوں ميں موجود ہيں _ ليكن مہدى (عج) كے منكروں نے ان احاديث كے صحيح ہونے ميں شك كا اظہار كيا ہے پس ہميں مہدى سے متعلق احاديث اور ان سے متعلق منكرين كے اعتراضات و طعن كو بيان كرنا چاہئے تا كہ حقيقت روشن ہوجائے_ ليكن اس بات كو ملحوظ ركھنا چاہئے كہ ، اگر ان احاديث كے راويوں كے بارے ميں كوئي جرح و قدح ہو تو اصل حديث ہى غير معتبر ہوجاتى ليكن ان كے راويوں كے بارے ميں عدالت و وثاقت بھى وارد ہوئي ہے تو مشہور ہے كہ ان كا ضعيف ہونا اور ان كى بدگوئي عدالت پر مقدم ہے _ اگر كوئي شخص ہمارے اوپر يہ اعتراض كر ے كہ يہى عيب بعض ان لوگوں كے بارے ميں بھى سامنے آتا ہے جن سے بخارى و مسلم ميں روايات لى گئي ہيں وہ طعن و تضعيف سے سالم نہ رہ سكيں تو ان كے لئے ہمارا جواب يہ ہے كہ ان دو كتابوں كى احاديث پر عمل كرنے كے سلسلے ميں علماء كا اجماع ہے اور يہ مقبوليت ان كے ضعف كاجبران كرتى ہے ليكن دوسرى كتابيں ان كے پايہ كى نہيں ہيں ‘ (مقدمہ ابن خلدون ص 311_)
 
 
يہ تھا ابن خلدون كى عبارت كا خلاصہ ، اس كے بعد انہوں نے احاديث كے راويوں كى توثيق و تضعيف سے بحث كى ہے _
تواتر احاديث
اول تو اہل سنّت كے بہت سے علما نے ، مہدى (عج) سے متعلق احاديث كو متواتر جانا ہے _ يا ان كے تواتر كو دوسروں سے نقل كيا ہے اور ان پر اعتراض نہيں كيا ہے ، مثلاً : ابن حجر ہيثمى نے ‘ صواعق محرقہ ميں’ شبلنجى نے ‘ نور الابصار ‘ ميں ، ابن صباغ مالكى نے ‘فصول المہمہ’ ميں، محمد الصبان نے ‘ اسعاف الراغبين’ ميں ،كجى شافعى نے ‘ البيان’ ميں ، شيخ منصور على نے ‘ غاية المامول’ ميں ، سويدى نے ‘ سبائك الذہب’ ميں ا ور دوسرے علماء نے اپنى كتابوں ميں ان احاديث كو متواتر قرار ديا ہے اور يہى تواتر ان كى سند كے ضعف كا جبران كرتا ہے _
عسقلانى لكھتے ہيں:’ خبر متواتر سے يقين حاصل ہوجاتا ہے اور اس پر عمل كرنے كے سلسلے ميں كسى بحث كى ضرورت نہيں رہتى ہے ‘ _ (نزہتہ النظر مؤلفہ احمد بن حجر عسقلانى طبع كراچى ص 12_)
شافعى فرقہ كے مفتى سيد احمد شيخ الاسلام لكھتے ہيں كہ : جو احاديث مہدى كے بارے ميں وارد ہوئي ہيں ، ان كى تعداد بہت زيادہ ہے اور وہ معتبر ہيں ، ان ميں سے بعض احاديث صحيح ، بعض حسن اور كچھ ضعيف ہيں ،اگر چہ ان ميں اكثر ضعيف ہيں ليكن چونكہ بہت زيادہ ہيں اور ان كے راوى اور لكھنے والے بھى زيادہ ہيں اس لئے بعض احاديث بعض كى تقويت كرتى ہيں اور انھيں مفيد يقين بناديتى ہيں _ (فتوحات الاسلاميہ طبع مكہ ج 2 ص 250_)
مختصر يہ كہ عظيم صحابہ كى ايك جماعت ، عبدالرحمن بن عوف، ابو سعيد خدرى ، قيس بن صابر ، ابن عباس ، جابر ، ابن مسعود ، على بن ابى طالب ، ابوہريرہ ، ثوبان ، سلمان فارسى ، ابوامامہ ، حذيفہ ، انس بن مالك اور ام سلمہ اور دوسرے گروہ نے بھى مہد ى سے متعلق احاديث كو نقل كيا ہے اور ان حديثوں كو علماء اہل سنّت نے لكھا ہے _
مثلاً ، ابوداؤد احمد بن حنبل ، ترمذى ، ابن ماجہ ، حاكم نسائي ، روبانى ، ابو نعيم ، جكرانى ، اصفہانى ، ديلمي، بيہقى ، ثعلبى ، حموينى ، منادى ، ابن مغازلى ، ابن جوزى ، محمد الصبان مارودى ، كنجى شافعى ، سمعانى ،خوارزمى ، شعرانى ،دار قطنى ، ابن صباغ مالكى ، شبلنجى ، محب الدين طبرى ، ابن حجر ہيثمى ، شيخ منصور على ناصف ، محمد بن طلحہ ، جلال الدين سيوطى ، سليمان حنفى ، قرطبى ، بغوى اور دوسرے لوگوں نے اپنى اپنى كتابوں ميں لكھا ہے _ (يہ تھے اہل سنّت كے ان علما كے نام جنہوں نے مہدى سے متعلق احاديث كو اپنى كتابوں ميں لكھا ہے اور ان كى كتابيں رائج تھيں ليكن ان سب كى كتابيں دست رس ميں نہيں تھيں ، لہذا دوسرى كتابوں سے نقل كيا ہے _ مہدى خراسانى نے كتاب البيان پر بہترين مقدمہ لكھا ہے اس ميں علمائے اہل سنّت كے 72 نام لكھے ہيں)
دوسرے جن افراد كو ضعيف قرار ديا گيا ہے اور ابن خلدون نے ان كے نام تحرير كئے ہيں _ ان كے بارے ميں بعض توثيقات بھى وارد ہوئي ہيں كہ جن سے بعض كو خود ابن خلدون نے نقل كيا ہے اور پھر يہ بات صحيح نہيں ہے كہ ہر جگہ بطور مطلق تضعيف كو تعديل پر مقدم كيا جائے ، ممكن ہے ضعيف قراردينے والے كے نزديك كوئي مخصوص صفت ضعف كا سبب ہو ليكن دوسرے اس صفت كو ضعف كا سبب نہ سمجھتے ہوں _ پس كسى راوى كو ضعيف قراردينے والے كا قول اس وقت معتبر ہوگا جب اس كے ضعف كى وجہ بيان كرے _
عسقلانى اپنى كتاب ، لسان الميزان ميں لكھتى ہيں :’ تضعيف تعديل پر اسى صورت ميں مقدم ہوسكتى ہے كہ جب اس كے ضعف كى علت معين ہو اس كے علاوہ ضعيف قراردينے والے كے قول كا كوئي اعتبار نہيں ہے _
ابوبكر احمد بن على بن ثابت بغدادى كہتے ہيں كہ:’ جن احاديث سے بخارى ، مسلم اور ابوداؤد نے تمسك كيا ہے _ باوجوديكہ اان ميں سے بعض راويوں كو ضعيف اور مطعون قرار ديا گيا ہے ان كے بارے ميں يہ كہنا چاہئے كہ ان حضرات كے نزديك ان (راويوں كا ) ضعيف و مطعون ہونا ثابت نہيں تھا ‘ _ (لسان الميزان مؤلفہ احمد بن على بن حجر عسقلانى طبع اول ج 1 ص 25_)
خطيب لكھتے ہيں كہ :’ اگر تضعيف و تعديل دونوں برابر ہوں تو تضعيف مقدم ہے _ ليكن اگر تضعيف تعديل سے كم ہو تو اس سلسلے ميں كئي قول ہيں _ بہترين قول يہ ہے كہ تفصيل كے ساتھ يہ كہا جائے كہ اگر ضعف كا سبب بيان ہوا ہے تو ہمارى نظر ميں مؤثر ہے اور تعديل پر مقدم ہے ليكن سبب بيان نہ ہونے كى صورت ميں تعديل مقدم ہے ‘ (لسان الميزان ج 1 ص 15_)
مختصر يہ كہ ہر جگہ تعديل كو بطور مطلق تضعيف پر مقدم نہيں كيا جا سكتا _ اگر يہ مسلم ہو كہ ہر قسم كى تضعيف موثر ہے تو طعن وقدح سے بہت ہى مختصر حديثيں محفوظ رہيں گى _ اس سلسلے ميں نہايت احتياط اور كوشش و سعى كرنا چاہئے تا كہ حقيقت واضح ہوجائے _
شيعہ ہونا تضعيف كا سبب
راوى كے ضعيف ہونے كے اسباب ميں سے ايك اس كا شيعہ ہونا بھى شمار كيا گيا ہے مثلاً ابن خلدون نے قطن بن خليفہ جو كہ مہدى سے متعلق احاديث كا ايك راوى ہے ، كو شيعہ ہونے كے جرم ميں غير معتبر قرارديا ہے اور اس كے بارے ميں تحرير كيا ہے :
‘عجلى كہتا ہے : قطن حديث كے اعتبار سے بہت اچھا ہے ليكن تھوڑا سا شيعيت كى طرف نائل ہے ‘ _
احمد بن عبداللہ بن يونس لكھتا ہے :’ ميں نے قطن كو ديكھا ليكن اسے كتّے كى طرح چھوڑكر نكل آيا ‘_ ابوبكر بن عياش لكھتا ہے : ميں نے قطن كى احاديث كو صرف اس كے مذہب كے فاسد ہونے كى بناپر چھوڑديا ہے’_
جبكہ احمد ، يحيى بن قطاف ، ابن معين ، نسائي اور دوسرے لوگوں نے اسكى توثيق كى ہے _ (مقدمہ ابن خلدون ص 313_)
اس كے بعد ابن خلدن ان احاديث كے راوى ہارون كے بارے ميں لكھتا ہے : ‘ہاروں شيعہ اولاد سے تھا’_ (مقدمہ ابن خلدون ص 314_) ايك گروہ نے ان احاديث كے راوى يزيد بن ابى زياد كو مجمل انداز ميں ضعيف قرارديا ہے اور بعض نے ان كے ضعف كى وضاحت كى ہے چنانچہ محمد بن فضيل ان كے متعلق لكھتا ہے :’ وہ سربرآوردہ شيعوں ميں سے ايك تھے اور ابن عدى كہتے ہيں :’ وہ كوفہ كے شيعوں ميں سے تھے’ (مقدمہ ابن خلدون ص 318_)
ابن خلدون عمار ذہبى كے بارے ميں لكھتے ہيں كہ :’ اگر چہ احمد ، ابن معين ، ابوحاتم ، نسائي اور بعض دوسرے افراد نے عمار كى توثيق كى ہے ليكن بشر بن مروان نے شيعہ ہونے كى بناپر انھيں قبول نہيں كيا ہے’_ (مقدمہ ابن خلدون ص 319_)
عبدالرزاق بن ہمام كے بارے ميں لكھتے ہيں كہ : ‘ انہوں نے فضائل اہل بيت ميں حديثيں نقل كى ہيں اور شيعہ مشہور ہيں ‘ _( مقدمہ ابن خلدون ص 320_)
ايك اور چيز جو اكثر راوى كى تضعيف كا سبب ہوتى ہے اور جس سے وہ نيك اور سچے كو بھى متہم كرديتے ہيں اور ان كى حديثوں كو رد كرديتے ہيں وہ عقيدہ كا اختلاف ہے _ مثلاً اس زمانہ ميں ايك حساس اور قابل تفتيش و متنازع موضوع خلق قرآن كا شاخسانہ تھا ايك گروہ كا عقيدہ تھا كہ قرآن مخلوق نہيں ہے بلكہ قديم ہے دوسرا كہتا تھا قرآن مخلوق وحادث ہے _ ان دونوں گروہوں كى بحث و كشمكش اور جھگڑے اس حد تك پہنچ گئے كہ ايك نے دوسرے كو كافر تك كہنا شروع كرديا _ چنانچہ احاديث كے راويوں كى ايك بڑى جماعت كو قرآن كے مخلوق ہونے كے عقيدہ كے جرم ميں ضعيف وكافر قرارديدياگيا _
صاحب ‘اضواء على السنة المحمديہ ‘ لكھتے ہيں : علما نے راويان احاديث كى ايك جماعت ،جيسے ابن الحصيعہ ، كو كافر قرارديديا _ اس كا جرم صرف يہ تھا كہ وہ قران كو مخلوق كہتا تھا _ اس سے بھى بڑھ كر محاسبى كے بارے ميں كہا گيا ہے كہ :’ انہوں نے اپنے باپ كى ميراث سے انكار كرديا تھا اور كہا تھا: دو متفرق مذاہب كے ماننے والے ايك دوسرے كے وارث نہيں ہوتے ، مجھے والد كى ميراث نہيں چاہئے _ ميراث سے انكار كى وجہ يہ تھى كہ ان كے والد واقفى تھے يعنى قرآن كے مخلوق ہونے يا مخلوق نہ ہونے كے سلسلے ميں متردد تھے _ (اضواء على سنة المحمديہ طبع اول ص 316_)
جيسا كہ شديد مذہبى تعصب اور عقيدوں كا اختلاف اس بات كا سبب ہوا كہ وہ لوگوں كى سچائي اور امانت دارى كو نظر انداز كرديں اور ان كى احاديث كو مسترد كرديں _ اسى طرح مذہب و عقيدے كے اتحاد كى وجہ سے لوگ اپنے ہم مسلك افراد كے جرائم اور برائيوں سے چشم پوشى كرنے اور ان كى تعديل و توثيق كا باعث ہوا مثلا عجلى ، عمر و بن سعد كے بارے ميں كہتا ہے : وہ موثق تابعين ميں سے تھے اور لوگ ان سے روايت كرتے تھے _ جبكہ عمرو بن سعد حسين بن على يعنى جوانان جنت كے سردار رسول خدا كے پارہ دل كا قاتل تھا’_ (اضواء على سنة ص 319)
اسى طرح بسر بن ارطاة ايسے _ كہ جس نے معاويہ كے حكم سے ہزاروں بے گناہ شيعوں كو قتل كيا تھا اور جانشين رسول خدا حضرت على بن ابى طالب كو كھلم كھلا برا بھلا كہتا تھا _ نجس انسان كو اس ننگ وعاركے باوجود مجتہد اور قابل درگزر قرارديتے ہى _ (اضواء على سنة ص 321)
عتبہ بن سعيد كے بارے ميں يحيى بن معين كہتا ہے وہ ثقہ ہيں ،نسائي ، ابوداؤد اور دارقطنى نے بھى اسے ثقہ جانا ہے جبكہ عتبہ حجاج بن يوسف جيسے ظالم شخص كا مددگار تھا _ بخارى نے اپنى صحيح ميں مروان بن حكم سے روايات نقل كى ہيں اور اس پر اعتماد كيا ہے _ حالانكہ جنگ جمل كے شعلے بھڑ كانے والوں ميں سے ايك مروان بھى تھا اور حضرت علي(ع) سے جنگ كرنے كيلئے طلحہ كو برا نگيختہ كيا تھا _ اور پھر اثنائے جنگ ميں انھيں قتل كرد يا تھا _( اضواء على سنة ص 317)
يہ باتيں مثال كے طور پر لكھى گئي ہيں تا كہ قارئين مصنفّين كے طرز فكر ، فيصلہ كے طريقے اور عقيدہ كے اظہار سے آگاہ ہو جائيں اور يہ جان ليا كہ محبت و بغض اور تعصب نے انھيں كس منزل تك پہنچاديا ہے _
اضواء كے مولف لكتھے ہيں كہع ذرا ان علما كے فيصلہ كو ملا حظہ فرمائيں اور غور كريں كہ اس نے اس شخص كى توثيق كردى جو علي(ع) كى شہادت پر راضى ، طلحہ كا قاتل اور حسين بن على (ع) كى شہادت كاذمہ دارتھا _ ليكن اس كے بر خلاف بخارى اور مسلم جيسے لوگوں نے امت كے علماء و حافظوں جيسے حماد بن مسلمہ اور مكحول ايسے عابد وزاہد كورد كرديا ہے _( اضواء ص 319_)
مختصر يہ كہ جو شخص اہل بيت اور حضرت علي(ع) كے فضائل ميں يا شيعوں كے عقيدہ كے مطابق كوئي حديث بيان كرتا تھا تو متعصب لوگ اس كى حديث كى صحت كو مخدوش بنادتيے تھے اور سر كارى طور پر اس كى حديثوں كے مردود ہونے كا اعلان كرديا جاتا تھا اور اگر كسى شخص كا شيعہ ہونا ثابت ہو جاتا تھا تو اس كے لئے بغض دعناد اور اس كى حديث كو ٹھكرانے كيلئے اتنا ہى كافى ہوتا تھا _ اگر آپ جرير كے كلام ميں غور كريں تو عامة المسلمين كے تعصب كا اندازہ ہوجائے گا ، جرير كہتے ہيں : ميں نے جابر جعفى سے ملاقات كى ليكن ان سے حديثيں نہيں لى ہيں كيونكہ وہ رجعت كا عقيدہ ركھتے تھے _ (صحيح مسلم ج 1 ص 101_)
بے جا تعصّب
غرض مندى اور بے جا تعصب تحقيق كے منافى ہے _ جو شخص حقائق كى تحقيق كرنا چاہتا ہے اسے تحقيق سے پہلے خود كو بغض و عناد اور بے جا تعصب سے آزاد كرلينا چاہئے ، اور اس كے بعد غير جانبدار ہو كر مطالعہ كرنا چاہئے _ اگر تحقيق كے دوران كوئي چيز حديث كے ذريعہ ثابت ہوتى ہے تو اس حديث كے راويوں كى وثاقت سے بحث كرے ، اگر ثقہ ہيں تو ان كى روايتوں پر اعتماد كرے ، خواہ سنّى ہوں يا شيعہ ، يہ بات طريقہ تحقيق كے خلاف ہے كہ ثقہ راويوں كى احاديث كو شيعہ ہونے كے الزام ميں رد كرديا جائے _ عامة المسلمين سے منصف مزاج حضرات اس بات كى طرف متوجہ رہے ہيں _
عسقلانى لكھتے ہيں : جن مقامات پر تضعيف كرنے والے قول پر توقف كرنا چاہئے ، ان ميں سے ايك يہ ہے كہ تضعيف كرنے والے اور جس كى تضعيف كى گئي ہے ان كے درميان عقيدہ كا اختلاف اور عدالت و دشمنى ہو مثلاً ابو اسحاق جوزجانى ، ناصبى تھا اور كوفے والے شيعہ مشہور تھے _ اس لئے اس نے ان كى تضعيف ميں توقف نہيں كيا اور سخت الفاظ ميں انھيں ضعيف قرارديتا تھا _ يہاں تك كہ اعمش ، ابو نعيم اور عبيداللہ ايسے احاديث كے اركان كو ضعيف قرارديديا ہے _ قشيرى كہتے ہيں :’ لوگوں كى اغراض و خواہشيں آگ كے گڑھے ہيں _ اگر ايسے موارد ميں راوى كى توثيق وارد نہ ہوتى ہو تو تضعيف مقدم ہے ‘ _( لسان الميزان ج 1 ص 16_)
ابان بن تغلب كے حالات لكھنے كے بعد محمد بن احمد بن عثمان ذہبى لكھتے ہيں اگر ہم سے يہ پوچھا جائے كہ بدعتى ہونے كے باوجود تم ابان كى توثيق كيوں كرتے ہو تو ہم جواب ديں گے كہ بدعت كى دو قسميں ہيں ، ايك چھوٹى بدعت ہے جيسے تشيع ميں غلو ، يا تشيع بغير انحراف _ البتہ تابعين اور تبع تابعين ميں ايسى بدعت رہى ہے اس كے باوجود ان كى سچائي ، ديانت دارى اور پرہيزگارى باقى رہى اگر ايسے افراد كى احاديث رد كرنا ہى مسلم ہے تو نبى (ص) كى بے شمار حديثيں رد ہوجائيں گى اوراس بات ميں قباحت ہے وہ كسى پر مخفى نہيں ہے _ دوسرى قسم بدعت كبرى ہے يعنى مكمل رافضى _ رافضيت ميں غلو اورابوبكر و عمر كى بدگوئي _ البتہ ايسے راويوں كى حديثوں كو رد كردينا چاہئے اور ان كى كوئي حيثيت نہيں ہے _ (ميزان الاعتدال ج 1 ص 5_)
مختصر يہ كہ ان تضعيفات پر اعتماد نہيں كرنا چاہئے بلكہ بھر پور كوشش اور چھان بين سے راوى كى صلاحيت اور عدم صلاحيت كا سراغ لگانا چاہئے _
بخارى و مسلم اور احاديث مہدى (عج)
چوتھے يہ كہ اگر كوئي حديث بخارى و مسلم ميں نہ ہو تو يہ اس كے ضعيف ہونے كى دليل نہيں ہے كيونكہ بخارى و مسلم كے مؤلفوں كا مقصد تمام حديثوں كو جمع كرنا نہيں تھا _
دار قطنى لكھتے ہيں ايسى بہت سى حديثيں موجود ہيں جنھيں بخارى و مسلم نے اپنى صحاح ميں نقل نہيں كيا ہے جبكہ ان كى سند بالكل ايسى ہے جيسى ان احاديث كى ہے جو انھوں نے نقل كى ہيں _
بيہقى لكھتے ہيں : مسلم و بخارى كا ارادہ تمام حديثوں كو جمع كرنے كا نہيں تھا _ اس بات كى دليل وہ احاديث ہيں جو كہ بخارى ميں موجود ہيں ليكن مسلم نہيں اور مسلم ميں ہيں بخارى ميں نہيں ہيں _ (صحيح مسلم بشرح امام نووى ج 1 ص 24_)
اور جيسا كہ مسلم نے يہ دعوى كيا ہے كہ انہوں نے اپنى كتاب ميں صرف صحيح حديثوں كو نقل كيا ہے تو ابوداؤد بھى اسى كے مدعى ہيں _
ابوبكر بن داسہ كہتے ہيں كہ ميں نے ابو داؤد كو كہتے ہوئے سنا كہ : ميں نے اپنى كتاب ميں چارہزار آٹھ سو حديثيں لكھى ہيں جو كہ سب صحيح يا صحيح كے مشابہ ہيں _
ابوالصباح كہتے ہيں كہ ابوداؤد سے نقل ہے كہ انہوں نے كہا : ميں نے صرف صحيح يا صحيح سے مشابہ احاديث نقل كى ہيں اور اگر كوئي حديث ضعيف تھى تو ميں نے اس كے ضعف كا بھى ذكر كرديا ہے پس جس حديث كے بارے ميں ، ميں نے خاموشى اختيار كى ہے اسے معتبر سمجھنا چاہئے _
خطابى كہتے ہيں : سنن ابى داؤد ايك گراں بہا كتا ب ہے ، اس جيسى كوئي كتاب نہيں لكھى گئي جو كہ مسلمانوں ميں مقبول ہو جسے عراق ، مصر ، مغرب اور دوسرے علاقے كے علما ميں مقبوليت حاصل ہوئي ہو _ (مقدمہ سنن ابى داؤد) مختصر يہ كہ بخارى اور مسلم اور دوسرى كتابوں كى احاديث اس لحاظ سے يكساں ہيں كہ ان كى صحت و ضعف سے باخبر ہونے كيلئے ان كے راويوں كى تحقيق كى جائے _
پانچويں يہ كہ بخارى و مسلم ، جن كى احاديث كى صحيح ہونے كا آپ كو اعتراف ہے ، ميں بھى مہدى سے متعلق احاديث موجود ہيں اگر چہ ان ميں لفظ مہدى نہيں آيا ہے ، منجملہ ان كے يہ حديث ہے:
پيغمبر :(ص) نے ارشاد فرمايا: اس وقت تمہارا كيا حال ہوگا جب عيسى بن مريم نازل ہوں گےجبكہ تمہارا امام خود تم ہى سے ہوگا _
ضرورى وضاحت
ابن خلدون كے بارے ميں يہ بات كہنا صحيح نہيں ہے كہ وہ مہدى (ع) سے متعلق احاديث كو كلى طور پر قبول نہيں كرتے ہيں بلكہ انھيں قابل رد سمجھتے ہيں كيونكہ جيسا كہ پہلے بھى آپ ملاحظہ فرما چكے ہيں كہ اس عالم نے يہ لكھا ہے كہ مسلمانوں كے درميان يہ بات مشہور تھى اور ہے كہ آخرى زمانہ ميں پيغمبر (ص) كے اہل بيت ميں سے ايك شخص اٹھے گا اور عدل و انصاف قائم كرے گا _ اجمالى طور پر يہاں انہوں نے اس بات كو تسليم كيا ہے كہ مہدى (ع) موعود كا عقيدہ مسلمانوں كے درميان مشہور تھا _ دوسرے يہ كہ راويوں كے بارے ميں رد وقدح اور جرج و تعديل كے بعد لكھتے ہيں :
‘مہدى موعود كے بارے ميں جو حديثيں وارد ہوئي ہيں اور كتابوں ميں درج ہيں ان ميں سے بعض كے علاوہ سب مخدوش ہيں ‘ _ يہاں بھى ابن خلدون نے كلى طور پر مہدى سے متعلق احاديث كو قابل رد ہيں جانا ہے بلكہ ان ميں سے بعض كى صحت كا اعتراف كيا ہے _
تيسرے يہ كہ مہدى موعود سے متعلق احاديث انھيں روايتوں ميں منحصر نہيں ہيں جن پر ابن خلدون نے اپنے مقدمہ ميں جرح و تعديل كى ہے بلكہ شيعہ اور اہل سنت كى كتابوں ميں اور بھى بہت سى متواتر و يقين آور احاديث موجود ہيں كہ جن كے بارے ميں يہ كہا جا سكتا ہے كہ اگر وہ ابن خلدون كى دست رس ميں ہوتيں تو وہ مہدى موعود كے عقيدہ جو كہ مذہبى بنيادوں پر استوار ہے ، جس كا سرچشمہ وحى ہے ، كے بارے ميں كبھى شك نہ كرتے مذكورہ مطالب سے اس غلط فہمى كا ازالہ ہوجاتا ہے كہ ابن خلدون نے مہدى سے متعلق احاديث
كو قطعى قبول نہيں كيا ہے _ ايسا نظريہ ركھنے والے لوگوں كے بارے ميں يہ كہا جائے كہ’ديگ سے زيادہ چمچا گرم ہے _
ابن خلدون اس بحث كے خاتمہ پر لكھتے ہيں :’ ہم نے پہلے ہى يہ بات ثابت كردى ہے كہ جو شخص انقلاب لانا چاہتا ہے اور لوگوں كو اپنا ہمنوا بنانا چاہتا ہے اور طاقت جمع كركے حكومت قائم كرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے مقصد ميں اسى وقت كامياب ہوسكتا ہے جب اس كے قوم قبيلے والوں كى اكثريت ہو اور خلوص كے ساتھ اس كى حمايت كرتے ہوں اور مقصد كے حصول كے سلسلے ميں اس كے مددگار ہوں دوسرے لفظوں ميں يوں كہا جائے كہ خاندانى تعصب كى بناپر اس سے دفاع كرتے ہيں _ اس كے علاوہ كاميابى ممكن نہيں ہے _ مہدى موعود كے عقيدہ كے سلسلے ميں بھى يہ مشكل پيدا ہوتى ہے كيونكہ فاطميين بلكہ طائفہ قريش ہى پراگندہ اور منتشر ہوگيا ہے اور اب ان ميں خاندانى تعصب باقى نہيں رہا ہے بلكہ اس كى جگہ دوسرے تعصبات نے لے لى ہے ، ہاں حجاز و ينبع ميں حسن (ع) و حسين(ع) كى اولاد ميں سے كچھ لوگ آباد ہيں جن كے پاس طاقت ور سوخ ہے البتہ وہ بھى صحرا نشين ہيں جو كہ مختلف مقامات ميں بكھرے ہوئے ہيں، پھر ان كے درميان اتحاد و اتفاق نہيں ہے _ ليكن اگر ہم مہدى موعود كے عقيدہ كو صحيح مان ليں تو ہميں يہ كہنا چاہئے كہ مہدى انھيں ميں سے ظاہر ہوں گے اور ان لوگوں ميں بھى اتفاق و اتحاد پيدا ہوجائے گا اور وہ قومى تعصب كى بناپر ان كى حمايت كريں گے اور مقصد كے حصول كى وجہ سے ان كى مدد كريں گے ، اس لحاظ سے تو ہم مہدى (ع) كے ظہور اور ان كے انقلاب و تحريك كا تصور كر سكتے ہيں اس كے علاوہ ممكن نہيں ہے _ (مقدمہ ابن خلدون ص 327)
جواب
اس بات كے جواب ميں كہنا چاہئے كہ اس ميںكوئي شك نہيں ہے كہ اگر كوئي شخص كوئي انقلاب برپا كرنا چاہتاہے _ طاقت جمع كرنا چاہتا ہے ، حكومت تشكيل دينا چاہتا ہے تووہ اسى صورت ميں كامياب ہوسكتا ہے ايك گروہ سنجيدگى سے اس كى مدد وحمايت كرے ، مہدى موعود اور ان كے عالمى انقلاب كيلئے بھى يہى شرط ہے _ ليكن يہ بات صحيح نہيں ہے كہ ان كى حمايت كرنے والے صرف علوى سادات اور قريش ہوں گے _ كيونكہ اگر ان كى حكومت قوم و قبيلے كى حدتك محدود ہوتى تو ان كے طرف دار قوم و قبيلے كے لحاظ سے ان كى مدد كرتے جيسا كہ طوائف الملوكى كے زمانہ ميں اسى نہج سے حكومتيں قائم ہوتى تھيں ، بلكہ يہ عام بات ہے كہ جو حكومت محدود اور خاص عنوان كے تحت قائم ہوتى ہے تو اس كے حمايت كرنے والے بھى محدود ہوتے ہيں خواہ وہ حكومت قومى ملكى ، اقليمى يا مكتبى و مقصدى ناقص ہے _
ليكن اگر كوئي كسى خاص مقصد اور منصوبہ كے تحت حكومت قائم كرنا چاہتا ہے تو اس كے پاس اس منصوبہ اور مقصد كے ہمنواؤں كا ہونا ضرورى ہے _ اس كى كا ميابى اسى صورت ميں ممكن ہے كہ ايك گروہ اس منصوبہ كو صحيح طريقہ سے جانتا ہو اور اسے عملى جامہ پہنا نے كيلئے سنجيدگى سے جدو جہد كرتا ہو اور مقصد كے حصول كے سلسے ميں اپنے قائد كى حمايت كرتا ہو اور قربانى دينے سے دريغ نہ كرتا ہو _ مہدى موعود كى عالمى حكومت بھى ايسى ہى ہے _ ان كا منصوبہ بھى عالمى ہے وہ بشريت كو جو كہ تيزى كے ساتھ ماديت كى طرف بڑ ھ رہى ہے اور الہى قوانين سے رو گرداں ہے _ آپ اسے الہى احكام اور منصوبہ كى طرف متوجہ كريں گے اور اس دقيق منصوبہ كونا فذ كر كے اس كى مشكليں حل كريں گے _ بشريت كے ذہن سے موہوم سرحدوں كو ، جو كہ اختلاف و كشمكش كا سر چشمہ ہيں باہر نكال كراسے توحيد كے قومى پرچم كے نيچے جمع كريں گے _ آپ دين اسلام اور خدا پرستى كو عالمى بنائيں گے _ اسلام كے حقيقى قوانين نافذ كر كے ظلم و بيداد گرى كا قلع قمع كريں گے _ اور پورى كائنات ميں عدل و انصاف اور صلح و صفا پھيلائيں گے _
ايسى عظيم تحريك اور عالمى انقلاب كى كاميابى كيلئے يہ نہيں كہا جا سكتا ہے كہ حجاز اور مدينہ كے اطراف ميں بكھر ے ہوئے علوى سادات كافى ہيں _ بلكہ اس كيلئے تو عالمى تيارى ضرورى ہے _ مہدى موعود كى كاميابى اسى وقت ممكن ہے جب غيبى تائيد كے علاوہ ايك طاقت ور گروہ وجود ميں آئے جو كہ خداكے قوانين اور منصوبہ كودرك كر ے _ اور دل و جان سے اس كے نفاذكى كوشش كرے _ ايسے عالمى انقلاب كے اسباب فراہم كرے اور انسانى مقاصدكى تكميل ميں كسى قسم كى كوتاہى نہ كرے _اس صورت ميں اگر انہيں معصوم اور قوى و جرى قائد مل جائے ، كہ جس كے ہا تھ ميں الہى قوانين و احكام ہوں اور تائيد غيبى اس كے شامل حال ہو ، تو وہ لوگ اس كى حمايت كريں گے اور عدل و انصاف كى حكومت كى تشكيل ميں فدا كارى كا ثبوت ديں گے _
(انتخاب از آفتاب عدالت از علامہ امینی رہ)
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.