فتنہ دجال کی حقیقت

314

اس طرح کہ پڑھے لکھے اوران پڑھ سب اسے پڑھ سکیں گے ، کھانے کا پہاڑ اور پانی کی نہر ہمیشہ اس کے ساتھ ہوگی ، سفید خچر پر سوار ہوگا، ہر ایک قدم میں ایک میل کا راستہ طے کرے گا ، اس کے حکم سے سے آسمان بارش برسائے گا، زمین گلہ اگائے گی، زمین کے خزانے اس کے اختیار میں ہوں گے ، مردوں کو زندہ کرے گا ۔ میں تمہارا عظیم خدا ہوں ، میں نے ہی تمہیں پیدا کیا ہے اورمیں ہی روزی دیتا ہوں ، میری طرف دوڑو ، اوریہ جملہ اتنی بلند آواز میں کہے گا ک سارا جہان سنے گا۔
کہتے ہیں رسول اللہ کے زمانے میں بھی نکلا تھا ، اس کا نام عبداللہ یاصاید بن صاید تھا رسول اکرم اورآپ کے اصحاب اسے دیکھنے اس کے گھر گئے تھے ، وہ اپنی خدائی کا دعویٰ کرتا تھا، حضرت عمر اسے قتل کرنا چاہتے تھے ، لیکن پیغمبر اکرم نے منع کردیا تھا ، ابھی تک زندہ ہے اورآخری زمانے میں اصفہان کے مضافات میں یہودیوں کے گاوں” یہودیہ ” سے خروج کرے گا۔
(۔ صحیح مسلم ، ج۴، ص ۰۴۲۲، ۱۴۲۲، کتاب الفتن واشراط۔الساعة ، باب ذکر ابن صیاد؛ سنن ترمذی ، ابواب الفتن ، باب ماجاءفی علامات خروج دجال )
دجال کامعنیٰ:
دجال سے متعلق احادیث نقل کرنے سے پہلے دجال کے معنی ملاحظہ ہوں ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ” العقیدة الحسنہ ” میں لکھتے ہیں یہ لفظ” دجل” سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ، مکر وفریب اور حق وباطل میں خلط وتلبس، اور ان معنی کا دجال میں پایا جانا باالکل ظاہر ہے ۔ (۔ العقیدة الحسنہ ، ص ۸۰۲)
احادیث :
دجال کے وجود سے متعلق اہل سنت کی کتابوں میں احادیث موجود ہیں ،پیغمبر اکرم (ص) لوگوں کو دجال سے ڈراتے تھے اور اس کے فتنہ کو گوش گزار کرتے تھے ، چند احادیث ملاحظہ فرمائیں :
1۔ بخاری ، حدثنا یحیٰ بن سلیمان ، قال: اخبرنی ابن وہب قال: حدثنی عمربن محمد ، انّ اباہ حدثہ عن ابن عمر قال: کنّا نتحدث بحجة الوداع ثم ذکرالمسیح الدجال فاطنب فی ذکرہ وقال: فابعث اللّہ من نبی الا انذر امتہ ، انذرہ نوح والنبیون من بعدہ وانّہ یخرج فیکم فما خفیٰ علیکم من شانہ یخفیٰ علیکم انّ ربکم لیس باعور وانّہ اعور عین الیمنیٰ کان غنیتہ غنہ طافیہ۔ الاّ انّ اللّہ حرّم علیکم دمائکم واموالکم کحرمة یومکم ہذا فی بلدکم ہذا (صحیح بخاری ، کتاب ا لمعازی باب حجة الوداع ، ج۲، ص۳۴۷۔)
بخاری ، ہم سے یحی بن سلیمان نے حدیث بیان کی، کہا مجھے ابن وہب نے خبردی کہا مجھ سے عمرو بن محمد نے حدیث بیان کی ، ان سے ان کے والدنے حدیث بیان کی اوران سے ابن عمر نے حدیث بیان کی اورانہوں نے کہا: کہ ہم حجة الوداع کا ذکر کیا کرتے تھے حضور اکرم(ص) باحیات تھے ، اورہم نہیں سمجھتے تھے کہ حجة الوداع کا مفہوم کیا ہوگا ، آنحضرت (ص) نے اللہ کی حمد کی اور مسح دجال کا ذکر پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ، آپ نے فرمایا جتنے بھی انبیاءاللہ نے بھیجے ہیں، سب نے دجال سے اپنی امت کو ڈرایا ہے، نوح نے اپنی امت کو ڈرایا ہے اور دوسرے انبیاءکرام نے بھی جو آپ کے بعد مبعوث ہوئے ہیں وہ تمہیں [ امت محمدی ] میں سے خروج کرے گا اور خدائی کا دعویٰ کرے گا ۔
2:”ابن مناوی حدثنا ہارون بن علی بن الحکم قال: ثنا جماد بن الموسل ابو جعفر الفریز عن میمون بن مہران عن ابن عباس فی حدیث طویل یخرج الدجال فی یہودیة اصبہان”
ابن مناوی، ہم سے ہارون بن علی بن حکم نے حدیث بیان کی ، کہا: مجھے حماد بن موسل ابوجعفر فریز نے خبردی ان سے میمون بن مہران نے ، انہوں نے عبداللہ بن عباس سے کہ انہوں نے کہا: دجال اصفہان کے مضافات سے یہودیوں کے گاوں ” یہودیہ ” سے خروج کرے گا۔( الملاحم ، ابن مناوی ، باب الدجال ، بیان الماثور فی قصّة ووکاید سحرہ؛ ص ۷۰۲۔)
3:”مقدسی عن عبداللہ بن عمر قال قال رسول اللّہ لاتقوم الساعة حتّٰی یخرج المہدی من ولدی ، ولایخرج المہدی حتّٰی یخرج ستون کذّاباً کلہم یقولون انا نبی ۔”
یوسف مقدسی، عبداللہ بن عمر نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا : اس وقت تک قیامت برپا نہ ہوگی جب تک میری اولاد میں سے مہدی ظہور نہ کرے ، اور مہدی ظہور نہیں کرے گا جب تک ساٹھ (۶۰) جھوٹے جو کہ خود کو پیغمبر سمجھتے ہوں گے ظاہر نہیں ہوں۔ ( عقد الدرر ، باب اول ، انّہ من ذرّیة رسول اللہ وعترتہ ، ص ۹۳۔)
4:”عن جابر بن عبداللہ انصاری قال قال رسول اللہ : من کذبا الدجال فقدکفرومن کذب بالمہدی فقد کفر۔”
جابرابن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا: جس نے دجال کو جھٹلایا وہ کافر ہوگیا اور جس نے مہدی کو جھٹلایا وہ بھی کافر ہو گیا۔
( عقد الدرر ، باب التاسع ،فی شرفہ [ امام مہدی] وعظیم منزلتہ ، ص ۹۰۲۔)
نوٹ :دجال کو جھٹلانے کا مطلب اس کے خروج کے بارے میں شک وشبہ کرنا مراد ہے کہ جس کے خروج کی خبر حضور نے خود دی ہے۔
5:”قال رسول اللّہ ، مابین خلق آدم الیٰ قیام الساعة اکبر من الدّجال۔”
رسول اللہ(ص) نے فرمایا : خلقت آدم سے لے کر قیامت برپا ہونے تک کوئی بھی دجال سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہوگا۔
(صحیح مسلم ، کتاب الفتن واشراط الساعة ، باب بقتہ من احادیث الدجال ، ج۴،ص۱۴۲۲)۔
6:”عن انس بن مالک رضی اللّہ عنہ آن رسول اللّہ قال: یتبع الدجال من یہود اصبہان سبعون الفاً علیہم الطیاسہ قال جابر: فما یخرج الدّجال حتی تفتح الروم ”
انس بن مالک سے منقول ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: اسفہان کے ستر(۰۷) ہزار یہودی دجال کی اطاعت ومدد کریں گے ۔ جابر نے کہا: اس وقت تک دجال خروج نہیں کرے گا جب تک روم [ یورپ اور امریکا ] فتح نہ ہوجائیں ۔
(۔ عقد الدرر ، باب التاسع ،فی فتوحاتہ وسرتہ فصل فی ماذکر من الملاحم والفتن ، ص ۷۳۲)
7:”عن معاذ بن جبل عن النبی ، قال النبی ، الملحسمة العظمیٰ وفتح القسطنطنیة وخروج الدجال من سبعة اشہر”
معاذ بن جبل نقل کرتے ہی کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: جنگ جہانی ، اور قسطنطنیہ [ مغرب] کی فتح اورخروج دجال سات (۷) مہینوں کے اندر اندر ہوگا۔
( عقد الدرر ، باب ،۹،فی فتوحاتہ وسرتہ ،ص۰۷۲، ایضاً سنن ترمذی ، ابواب الفتن ، باب ماجاءفی علامات خروج الدجال ، ج۱،ص۹۰۸۔)
یہ تھیں چند احادیث دجال کے وجود اوران کے فتنے کے بارے میں، دجال سے متعلق اہل سنت کی کتب حدیث میں اتنی حدیثیں نقل ہوئی ہے اگر انہیں جمع کیا جائے تو ایک کتاب بن سکتی ہے
 
لیکن ہمارا مقصد ان تمام روایتوں کو جمع کرنا نہیں بلکہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ ” دجال” کے خروج کو بھی ” حضرت مہدی (عج)” کے ظہور کی علامتوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا مذکورہ احادیث سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ دجال آخری زمانے میں خروج کرے گا ، یہاں پرایک سوال ذہن میں اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ دجال ہے کون ؟ آیا کسی خاص شخص کا نام ہے ؟ اس سوال کے جواب میں بعض محققین کا کہنا ہے کہ دجال وہی شخص ہے جو خود حضور اکرم رسول خدا(ص) کے زمانے میں تھا ، اس کا نام عبداللہ ، یاصاید بن صایدہے ، پیغمبر اکرم اورآپ کے اصحاب اسے دیکھنے اس کے گھر گئے تھے ، وہ اپنی خدائی کا دعویٰ کرتا تھا حضرت عمر اس کو قتل کرنا چاہتے تھے ،لیکن پیغمبر اکرم(ص) نے منع کردیا تھا ، ابھی تک وہ زندہ ہے اورآخری زمانے میں اصفہان کے مضافات سے یہودیوں کے گاوں سے خروج کرے گا۔
لیکن بعض محققین کاکہنا ہے کہ دجال کسی معین ومخصوص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ عرب میں ہر جھوٹے اور دھوکے باز کو دجال کہتے ہیں، پس دجال کا معنی جھوٹے اوردھوکے باز کے ہیں ۔
ہماری نظر میں یہی بات کچھ بہتر لگ رہی ہے کیونکہ اول الذکر بات بہت سے ابہام رکھتی ہے کہ اگر وہ مدینے میں تھا آیا عام انسان کی مانند تھا یا اسی قبیح شکل میں تھا کہ جیسا کہ ظہور کرے گا؟ مسلمان تھا یا غیر مسلم؟ جناب عمر اسے کیوں قتل کرنے لگے تھے؟ اور حضرت (ص) نے کیوں روکا؟ پھر اگر وہ خدای کا دعوں کرتا تھا آپ(ص) نے اس سے بحث و مجادلہ کیوں نہیں کیا ؟ پھر یہ کہ اسلام کی معتبر تاریخوں میں ایسے شخص کا ذکر کیوں نہیں ؟ا گر اب کیسی جگہ ہے تو تو میڈیا میں اسکا ذکر کیوں نہیں؟ حالانکہ آج اگر کویی چند سو سال کا بھی شخص موجود ہوتا تو اس وقت دنیا کی حیرت و دلچسپی کا مرکز ہوتا؟ ہوسکتا ہے کویی کہے وہ بھی امام مہدی کی طرح غایب ہے تو احا دیث میں اسکی غیبت کا ذکر کیوں نہیں ہوا؟
شاید یہ انہی قصوں میں سے ہو کہ جو بنی امیہ نے جناب عمر کی جنگ احد میں بھاگنے کی خفت چھپانے کے لیے اور اسکی شجاعت بر قرار رکھنے کے لیے گھڑے ہیں۔
البتہ دوسرے نظریے کی بہت سے احادیث بھی تائید کرتیں ہیں چنانچہ پیغمبراکرم (ص) کا ارشاد ہے “لاتقوم الساعة حتّٰی یبعث کذّابون دجالون قریب من ثلاثین کلہم یذعم انّہ رسول اللّہ” یعنی،قیامت اس وقت تک برپا نہ ہوگی جب تک تیس(۳۰) جھوٹے دجال جو کہ خود کو پیغمبر سمجھتے ہیں ظاہر نہیں ہوں گے۔(سنن ترمذی ابواب الفتن،باب ماجاءلاتقوم الساعة حتی یخرج کذّابون ، ج۱، ص۸۹۷)
آپ(ص) ہی کا ارشاد ہے کہ اس وقت تک قیامت برپانہ ہو گی جب تک تیس(۳۰) جھوٹے دجال ظاہر نہ ہو جائیں اوروہ خدا اوراس کے رسول پر جھوٹ باندھیں گے ۔ (سنن ابی داوود ، کتاب الملاجم ، باب فی خبر ابن صاید، ص ۱۲۱)
مختصر یہ کہ اصل قضیہ کا صحیح ہونا بعید نہیں ہے ، لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت امام مہدی (عج) کے ظہور کے وقت آخری زمانے میں ایک شخص کا خروج ہو گا جو فریب کا ر اور حیلہ گری میں سب سے آگے ہوگا اورجھوٹ بولنے میں پہلے والے دجالوں سے بازی لے جائے گا ، اپنے جھوٹے دعووں سے ایک گروہ کو گمراہ کرے گا ، کیونکہ کھا نا پینا اس کے ساتھ ہوگا(جدید ٹیلنالوجی کے ذریعے) ، اس لئے لوگ اس کی حقیقت سے غافل رہیں گے اوربرفرض ” صاید بن صید” کو حضورنے اگر دجال کہا بھی ہے تو وہ دورغ گو کے معنی میں ہوسکتا ہے نہ وہ دجال جو علائم ظہور میں ایک ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.