بی بی حضرت ام البنین ؑ فاطمہ بنت حزام کلابیہ

327

یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اکثر اپنے شجرہ پر فخرومباہا ت کی ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔اس طرح کا یہ بھی ارشاد ہے کہ “انا بن الذبیحین”میں دو ذبیحوں کا بیٹا ہوں (ایک ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ؑ بن حضرت ابرایہم ؑ اور دوسرے ذبیح اللہ حضرت عبداللہ ؑ بن عبدالمطلبؑ ۔)اسی طرح ایک اور موقع پر ارشاد فرمایاکہ “اناا بن العواتک و الفواطم “میں عاتکاؤں ( عاتکہ کی جمع) کا بیٹا ہوں میں فواطم(فاطمہ کی جمع) کا بیتا ہوں۔جناب ھاشم کی والدہ کا نام عاتکہ تھا، جناب وھب کی والدہ کا نام عاتکہ تھا، جناب عبدالمناف کی والدہ کا نام عاتکہ تھا ، اسی طرح رسول اکرم ﷺ کی دادی( یعنی حضرت عبداللہ و ابوطالب کی والدہ )کا نام فاطمہ تھا، جناب قصئی کی والدہ کا نام فاطمہ تھا، جناب آمنہ کی والسہ کا نام تاریخ کی کتابوں میں فاطمہ لکھا گیا، جناب حمزہ کی بیٹی کا نام فاطمہ تھا، روسول اکرم ﷺ نے اپنی بیٹی کانام فاطمہ رکھا، حضرت علی ؑ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا ، امام حسن ؑ و حسینؑ نے اپنی بیٹیوں کے نام فاطمہ رکھے تھے، اور بعد تک ہر امام نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھا۔ماؤں کی طرف سے ہو یا باپ کی طرف سے کل عرب میں آپ ﷺ کے شجرے سے اعلیٰ شجرہ کوئی نہیں ہے اسی لئے آپ نے فرمایا کہ”اکل حسبِِ و نسبِِ ینقطع فی القیامہ الہ حسبیِ و نسبی” ہر حسب و نسب قیامت میں منقطع ہوجائے گا سوائے میرے حسب و نسب کہ۔ حسب و نسب کی یہ بلندی نہ کسی گھرانے نے پائی اورنہ اللہ تعالی نے کسی کو عطا کی ۔صرف رسول اکرم ﷺ کی نسبت اور نسب کا یہ احترام اور عظمت ہے ۔آپ کی کنیت ام البنین تھی آپ اپنی اس کنیت سے اسقدر مشہور ہوئیں کہ اکثر مورخین نے اسی کنیت کو اصل نام لکھا ہے، تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ عربوں میں ام البنین کی کنیت سے بہت سی عورتیں مشہور تھیں ۔ اصل میں عربوں کے درمیان رواج تھا کہ جس عورت کے بطن سے تین فرزند پیدا ہوئے ہوں اس عورت کوام البنین کی کنیت سے پکارتے تھے۔ایام جاہلیت اور اسلام کے بعد بھی عربوں میں یہی رسم ورواج رہا۔ بعض عرب نیک شگونی کے طور پر بچی کو بچپنے میں ام البنین کی کنیت سے اس لئے پکارتے تھے کہ یہ کسی دن صاحب اولاد ہوگی۔ اسی طرح ام الخیر اور ام المکارمہ کی کنیت رکھتے تھے تاکہ خیر وبرکت اور اچھے اخلاق کی مالک بنیں۔یہی وجہ ہے کہ کچھ مرد اور خواتین کے اصل نام سے ان کی کنیت غالب آگئی جیسےام ایمن، ام سلمہ، ام کلثوم، ابوالحسن وغیرہآپ وحید بن کعب اور کلاب بن ربیعہ کے خاندان سے تھیں جو عرب میں ایک بہادر خاندان مانا جاتا تھا۔اکثر سنی وشیعہ مورخین نے لکھا کہ ایک روز حضرت علی ؑ نے اپنے بھائی حضرت عقیل کو جو عرب کے علم الانساب میں سب سے ماہر تھے بلایا اور آپ نے ان سے فرمایا کے بھائی میرے لئے ایک ایسی زوجہ انتخاب کریں جس سے ایک بہادر اور جری فرزند پیدا ہو، حضرت عقیل نے جناب حزام جو کہ ایک انتہائی شجاع انسان تھے کی بیٹی حضرت ام البنین بی بی فاطمہ علیہ السلام کا نام پیش کیا ، اور کہا کہ تمام عرب میں کوئی شخص ان کے باپ اور دادا سے زیادہ شجاع اور دلیر نہیں (الاصابہ ص۳۷۵ ج ا)۔حضرت بی بی فاطمہؑ ام البنین کی والدہ ماجدہ ثمامہ خاتون بنت سہیل بن عامر تھیں۔ ثمامہ خاتوں کو صحابیات رسولﷺاکرم ہونے کا شرف حاصل ہے آپ کا شمار عرب کی صاحب دانش خواتین میں ہوتا تھا آپ ادیبہ بھی تھیں اور اریبہ بھی زیرک و دانا خاتون تھیں۔حضرت جناب ام البنینؑ کو آداب دین و شریعت آپ نے ہی تعلیم کئے تھے اور تربیت دی تھی اس کے علاوہ ثمامہ خاتوں نے اپنی بیٹی کو تمام اخلاق پسندیدہ اور آداب حمیدہ بھی تعلیم کئے۔حضرت ام البنین کے نانی کے بھائی عامر بن طفیل تھے جو گھمسان کی لڑائیوں میں عرب کے بہادر شہسواروں میں نظر آتے تھے۔آپ کا نام سن کرعرب و غیر عرب تھراتے تھے۔آپ اشجع عرب کے لقب سے مشہور تھے۔یہ عالم تھا کہ جب بھی قیصر روم کے پاس کوئی عرب سے جاتا تو وہ پوچھا کرتا کہ تمھارا عامر سے کیا رشتہ ہے۔اگر کوئی رشتہ نکل آتا تو اسے بے حد عزت و احترام حاصل ہوتا۔ آپ ہی کے خاندان کے ایک شخص عامر بن مالک کو” نیزوں سے کھیلنے والا “کا لقب ملا ہوا تھا آُپ کے والد محترم کا نا م حزام تھا اور حزام کے معنی لغت میں “چوڑے سینے والا”ہے(مصباح اللغات ص ۱۵۰)، تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ جناب بی بی فاطمہ ام البنین ؑ حسب و نسب اور طہارت و عفت اور خاندانی صفات کے لحاظ سے اپنوں کے درمیان منفرد حیثت رکھتیں تھی۔بی بی ام البنین ؑ کے کئی اور القابات ہیں جن میں مشہور القابات، باب الحوائج، ام الشھداء اربعہ مشہورہے۔آ پ کے بطن مبارک سے چار فرزند پیدا ہوئے اور یہ چاروں کربلا میں اپنے امام وقت ،مظلوم کربلا، حضرت امام حسین علیہ السلام کی نصرت کرتے ہوئے شہید ہوئے(اعیان الشیعہ) ۔ حضرت عباسؑ علمدار، جن کی روز ولادت ۴ شعبان۲۲ہجری ہے اور اس حساب سے آپ کی عمر روزعاشورہ ۳۸ سال کی بنتی ہے، حضرت عبداللہؑ واقعہ کربلا کے وقت ان کی عمر ۳۰ سال تھی، حضرت عمران اور کربلا کے واقعے کے دوران ان کی عمر ۲۸ سال تھی، حضرت جعفراور ان کی عمر شہادت کے وقت ۲۶سال تھی۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.