جنت البقیع کی خونین داستان

164

جنب البقیع میں سب سے پہلے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخلص صحابی اور حضرت علی ابن ابیطالب علیہم السلام کے قریبی ساتھی اور دوست “جناب عثمان بن مظعون” دفنائے گئے جن کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام اپنے گفتگو کے درمیان بہت زیادہ یاد کرتے اور حضرت علی کا حضرت عثمان بن مظعون کے بارے میں انکی محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے ایک بیٹے کا نام عثمان رکھا تھا ۔جنت البقیع ہر اعتبار سے تاریخی ، مہم اور مقدس ہے ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ احد کے بعض شہداء کو اور اپنے بیٹے “ابراہیم ” کو بھی جنت البقیع میں دفنایا ہے ۔ اس کےعلاوہ محمد و آل محمد صلوات اللہ علیہ و علیہم اجمعین کے مکتب یعنی مکتب اہل بیت کے پیروکاروں کیلئے بقیع کے ساتھ اسلامی اور ایمانی وابستگی ہے کیونکہ یہا ں پر چار معصومین دوسرے امام حضرت حسن بن علی علیہم السلام ، چوتھے امام حضرت علی بن حسین زین العابدین علیہم السلام ، پانچویں امام حضرت محمد بن علی الباقر علیہم السلام اور چھٹے امام حضرت جعفر بن محمد صادق علیہم السلام کا جای مدفن ہے ۔اسکے علاوہ ازواج رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، زوجہ ولی خدا علی مرتضی، ام البنین فاطمہ بنت اسد والدہ مکرمہ علمدار کربلا حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام، حضرت کے چچا “عباس” اور کئ بزرگ صحابی حضرات مدفون ہیں ۔تاریخ اسلام کا گہوارہ” مکہ مکرمہ” اور” مدینہ منورہ” رہا ہے جہاں تاریخ اسلامی کے کلیدی آثار ہونا طبیعی امر ہے لیکن وہابیت کی آمد سے “شرک”کے عنوان سے بے منطق و برہان قرآنی ان تمام تاریخی اسلامی آثار کو محو کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو ا جس پرعالم اسلام میں مکتب اہل بیت علیہم السلام کو چھوڑ کر سبھی مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔تاریخ کا مطالعہ کرنے اور سیّاحوں اور سفرناموں سے تاریخ اسلام کے آثار قدیمہ کی حفاظت اور موجودگی کا پتہ ملتا ہے از جملہ جنت البقیع کہ جس کی دور وہابیت تک حفاظت کی جاتی تھی اور قبروں پر کتیبہ لکھے پڑے تھے جس میں صاحب قبر کے نام و نشانی ثبت تھے وہابیوں سے سب محو کردیا ہے۔یہاں تک ائمہ معصومین علیہم السلام کے قبروں پر جو روضے تعمیر تھے ان کو بھی مسمار کردیا ہے ۔جنت البقیع کے آثار کے بارے میں “مصر” کے ” محمد لبیب مصری” نامی شخصیت کے سفر نامے میں بھی ملتا ہے جنہوں نے 1327 ہجری قمری میں سعودی عربیہ کا سفر کیا تھا۔ وہ اپنے سفرنامے میں جنت البقیع کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:وہاں (جنت البقیع میں )پر “قبہ البین” نامی معروف گنبد ہے جہاں پر ایک کمرہ ہے جس میں ایک گھڑا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں پر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک گرے ہیں ۔ اور قبہ کے اندر امام حسن کا ضریع ہے جو کہ سٹیل کا بنا ہوا ہے جس پر فارسی خطاطی سے لکھا ہوا ہے ۔ میرے خیال سےعجم(غیر عرب) شیعوں کے آثار ہوں گے ۔وہابی جس بارے میں زیادہ حساس ہیں وہ قبروں پر تعمیر کا ہے خاص کر پیغمبروں ، اولیاء الہی اور صالحین کی قبروں کا مسئلہ ہے ۔ اس کے بارے میں سب سے پہلے “ابن تیمیہ” اور اسکے معروف شاگرد”ابن قیّم” نے اپنی رائے ظاہر کرکے روضوں اور آستانوں کو منہدم کرنے کا فتوی صادر کیا تھا ۔ابن قیّم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے : «جو تعمیرات قبور پر بنائی گئ ہیں انہیں منہدم کرنا واجب ہے اور منہدم کرنے پر قبر پر حتی ایک دن کیلئے آثار کا باقی رکھنا جائز نہیں ہے »جب سعودیوں نے 1344 ہجری قمری میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر تسلط حاصل کیا انہوں نے “بقیع” اور حضرت رسول خدا صلی اللہ آلہ وسلم انکے اہلبیت علیہم السلام اور اصحابہ منتجبین کے آثارکو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کیا جس کی آغاز 8شوال 1343 مطابق مئ 1925 کو ہوا ہے جو کہ ابھی تک جاری ہے ۔عالم اسلام کے حکام کس کس بات پر خاموش تماشائی بن کررہیں گے۔ کیا اسلام صرف ایرانی حکام کا ہے دیگر اسلامی حکام کا نہیں ہے ۔ جبکہ مسلمان عوام شیعہ ہو یا سنی ہر وقت اسلام کے خلاف ہونے والی ہر سازش پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتا رہتا ہے لیکن اسلامی ایران کو چھوڑ کر سبھی اسلامی ممالک استکبار کے غلام ہونے کا بین ثبوت پیش کرتے ہیں ۔ وہابی اسلامی شبیہ کو مسخ کرنے پے تلے ہوئے ہیں اس پر بھی خاموش ہیں ،فلسطین کے مسئلے پر ایران کو چھوڑ کر باقی اسلامی ممالک بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اسی طرح عراق ، افغانستان ، کشمیر اور دیگر اسلامی مسائل یکی طرف بھی خونخوار استکبار خاص کر امریکا اور اسرائیل ایجنٹ ثابت ہورےہ ہیں ۔یہاں تک کہ رشدی ملعون نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت کی اسپر بھی خاموشی اختیار کی اور صرف اسلامی ایران صرف استبار پر فدا ہونے کے بجائے اسلام پر فدا ہونے کیلئے قائم رہا ۔ کارٹون کے ذریعہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت ہوئی یہاں پر بھی صرف اسلامی ایران نے غیرت اسلامی کا مظاہر کیاہے ۔غرض ہر وقت جب بھی اسلام پر انگلی اٹھتی ہے صرف اسلامی ایران عام مسلمان کے مانند غیرت اسلامی کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن باقی اسلامی حکام خاموش تماشائی بن جاتے ہیں ۔ آخر کیوں ! اگر اس کیوں کا اسلامی حکام جواب نہیں دیتے عوام مسلمان تو اپنی رائے کا اظہار کرسکتا ہے خاص کر اہل قلم حضرات۔کیونکہ مسلمانوں کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسلامی ایران کے بغیر کیوں باقی اسلامی ملکوں کے سربراہ اسلامی غیرت کا مظاہر نہیں کرتے ہیں وہ اس لئے کے اسلامی ایران کو چھوڑ کر دیگر تمام اسلامی ملکوں کے سربراہ نام نہاد مسلمان ہیں اسلام شناس اعتقادی مسلمان نہیں ہیں اس لئے جب بھی سیاسی لیڈروں کا انتخاب کرنا ہو تو ایک ایسے مسلمان کو انتخاب کرنے کی ضرورت ہے جسے قرآن کی تعلیمات پر ایمان ہو ، اعتقاد ہو ۔ اسلامی تعلیمات کو سمجھ چکا ہو ۔اگر ایسا نہ ہو تو مسلمانوں کی ذلت بری زندگی کی داستان اسی طرح چلتی رہے گی اور ظالموں کا اسی طرح بول بالا رہے گا کیونکہ اس با بین ثبوت قرآن کی بے حرمتی کرنے سے آشکار ہو گیا ہے کہ اسلامی ایران کو چھوڑ کر تمام اسلامی حکام امریکا اور اسرائیل کے ذر خرید غلام ہیں ۔امریکا نے پہلے قرآن سوزی کو گیارہ ستمبر کے حوالے سے تشہیر کیا کہ ایک پادری اس دن قرآن کو جلانے جارہا ہے اس پر عالمی رائے عامہ حاصل کی پھر اسی پادری کی طرف قرآن کی بے حرمتی سے باز آنے کی خبر شایع کی اور دوسری طرف دو دوسرے پادریوں کی طرف سے میڈیا کے سامنے قرآن کو جلایا گیا اور اس خبر کو پہلے نشر کیا گیا اور جس کی فوٹیج ابھی تک “http://www.youtube.com/watch?v=3WaB2GH88js”اس ویب لینک پر موجود ہے اور پھر کہا کہ یہ خبر غلط ہے امریکا میں کوئی قرآن سوزی نہیں ہوئی اور دنیا بھر میں اس خبر پر سنسر لگایا گیا تا کہ معلوم کرسکیں کہ ہم نے مسلمانوں کسقدر اپنا اثر و رسوخ حاصل کیا ہوا ہے اور مسلمان حکام کتنا استکبار کی نمک خواری کا حق ادا کرتے ہیں اور وہ یہ امتحان کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ یہاں پر بھی صرف اسلامی ایران قرآن کی بے حرمتی کو کسی بھی حالت میں قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوا جبکہ باقی اسلامی حکام نے اسبات کا اعلان کیا کہ امریکا جب تک انکی جیب گرم رکھتا ہے امریکا اور اسرائيل عالم اسلام کے ساتھ ہر قسم کا استحصال کرنے کا جواز رکھتا ہے ۔ جس پر عام مسلمان نہایت ہی شرمسار ہے اور حکام ٹس سےمس نہیں ہوتے ہیں ۔اگر ہم سب مسلمان متحدہ طور پر اپنے اسلامی غیرت کا اظہار کرتے رہیں گے وہ دن دور نہیں جب اسلامی ایران کی طرح ہر اسلامی ملک کے حکام بھی ہمارے ساتھ ہمصدا ہو جائيں گے جس سے استکبار کی نابودی کا آغاز ہو جائے گا اور عدل و انصاف پر مبنی ماحول دنیا بھر میں حاکم رہے گا ۔ پھر نہ اسلامی آثار محو کئے جائيں گے نہ مسلمانوں کا داخلی اختلاف رہے گا اور نہ ہی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ کسی قسم کی ناچاکی موجود رہے گی ۔اے اللہ اب دولت کریمہ ہمیں جلد سے جلد نصیب فرما جس سے اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی حاصل ہو جائے اور کفار اور منافقین ذیل ہو جائيں ۔آمین یا رب العالمین۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.