حدیث ثقلین کی تحقیق (حصّہ دوّم)

136

ابلاغ عام کہ جس پر تاکید ھوئی ھے۔حدیث ثقلین کو قطعی اور یقینی طور پر رسول اکرم (ص) نے متعدد مقامات پر مختلف اوقات میں ارشاد فرمایا ھے کہ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ھے کہ اس کا مقصد عام لوگوں تک اس کو پنچانا اور امت مسلہ پرا تمام حجت کرنا ھے جن مواقع پر آنحضرت نے یہ حدیث بیان فرمائی ھے ان میں سے ایک مقام عرفہ ھے۔صاحب سنن ترمزی نے اس حدیث کو اسی تمام سندوں کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ھے وہ کھتے ھیں۔ میں نے رسول اکرم (ص) کو ایام حج میں میدان عرفہ میں دیکھا کہ آپ ایک قصویٰ نامی اونٹنی پر سوار تھے۔ (1)اور خطبہ ارشاد فرمایا رھے تھے میں آپ کو ارشاد فرماتے سنا: ایھاالناس میں تمھارے درمیان ایک امانت چھوڑ کر جارھا ھوں کہ اگر اس کو محفوظ رکھا تو ھر گز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب خدا (قرآن ) اور میری عترت کہ اھل عقل و فکر ھیں۔(2)اور منیٰ میں بھی حضرت نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔ اس کو صاحب غیبتہ النمعانی نے اپنی کتاب میں اسناد کے ساتھ حریز بن عبداللہ عن ابی عبداللہ جعفر بن محمد عن آیاہٴ عن علی علیہ اسلام سے نقل کیا ھے۔ آپ نے فرمایا کہ مسجد حنیف میں رسول خدا(ص) نے خطبہ دیا۔ جس کے ضمن میں اس حدیث کو بیان کیا(3) اور فرمایا:یقینا میں (آخرت کی جانب ) تم سے پھلے جارھاھوں اور تم حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو گے وہ ایک ایسا حوض ھے جس کا عرض بصریٰ سے صنعا تک ھے اور اس پر رکھے ہوئے جام آسمانی ستاروں کے برابر ھیں آگاہ ہوجاوٴ کہ تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جارھا ھوں ۔ ۱۔ ثقل اکبر جو کہ قرآن ھے ۲۔ثقل اصغر جو کہ میری عترت (طاھرہ)ھے یہ دونوں تمھارے اور خدا کے درمیان کھنچی ہوئی رسی کے مانند ھیں۔ لھٰذا ان دونوں سے متمسک رھے تو ھر گز گمرہ نہ ہوگے اس کا ایک سرا خدا کے ھاتھ میں ھے اور دوسرا سرا تمھارے ھاتھوں میں ھے۔ (4)دوسری وہ جگہ جھاں پر رسول اکرم (ص) نے حدیث ثقلین ارشاد فرمائی غدیر خم ھے۔ چنانچہ مستدرک حاکم وغیرا میں زید بن ارقم سے روایت ھے کہ جب رسول اکرم (ص) حجتہ الوداع سے واپس ہورھے تھے تو غدیر خم میں منزل کی (اور لوگوں کو سائے میں جانے) کا حکم دیا: اور سائبانوں کے لئے خس و خاشاک اکھٹاکئے گئے (اور لوگ سائبانوں تلے جمع ہوئے)۔اس وقت آپ نے فرمایا: گویا مجھے اس دنیا سے کوچ کا حکم مل چکا ھے اور میں نے اس پر لبیک کہہ دیا ھے (لھٰذا میری وصیت کو غور سے سنو)بیشک میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جارھا ھوں جن میں سے ایک دوسرے سے بزرگ ھے کتاب خدا (قرآن) اور میری عترت لھٰذا دھیا ن رکھو کہ کس طرح تم ان دونوں کے سلسلے میں میری مدد کرتے ہو۔اور یہ دونوں ھر گز ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ (روز قیامت) حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے اس کے بعد فرمایا:یقینا خدا میرا مولیٰ ھے اور میں ھر مومن کا مولیٰ ھوں اس کے بعد حضرت علی عليه السلام کے دست مبارک کو پکڑ کر فرمایا: جس کا میں مولیٰ ھوں اس کے علی مولیٰ ھیں (5)مسلم نے صحیح (6) میں اور طبرنی نے معجم الکبیر (7) میں اور ان کے علاوہ دوسرے افراد نے اس حدیث کی روایت کی ھے۔نبی اکرم نے جن مواقع پر حدیث ثقلین بیان فرمائی ھے ان میں سے ایک مدینہ منورہ ھے جب آپ سفر سے واپس آئے تھے۔چنانچہ ابن مغازلی شافعی نیاپنی مناقب میں حاکم سے اور انھوں نے ابن عباس سے روایت کی ھے کہ رسول خدا (ص) سفر سے واپس آئے تو (آپ کے چھرے کا رنگ متغیر تھا اور آپ کریہ فرما رھے تھے اور اسی حالت میں آپ نے ایک بلیغ خطبہ دیا۔ اور فرمایا: اے لوگو! دو بھت قیمتی چیزیں تمھارے درمیان بطور جانشین چھوڑ کر جا رھا ھوں کتاب خدا (قرآن) اور میری عترت (8) یہ حدیث پیغمبر اسلام آخری خطبے میں بھی ذکر کی گئی ھے۔ینابیع المودة میں جموینی نے امام علی عليه السلام سے روایت کی ھے آپ نے فرمایا: نبی اکرم نے اپنے آخری خطبے میں (جس روز خدا تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کی) فرمایا: دو چیزوں کو تمھارے سپرد کرکے جا رھا ھوں اگر ان سے متسک رھے تو ھر گز گمراہ نھیں ہوگے کتاب خدا اور میری عترت۔ خدا وند مھربان وآگاہ نے مجھ سے وہ عدہ کیا ھے کہ یہ دونوں ھر گز جدا نہںھوں گے یھاں تک کہ قیامت کہ دن حوض کوثر مجھ سے ملاقات کریں گے۔ اس طرح سے پھر دونوں ھاتھوں کی انگشت شھادت کو ملا کرفرمایا ایسے (9) اس کے بعد انگشت شھادت اور درمیانی انگلی کو ملا کر فرمایا ایسے نھیں۔ لھٰذا ان دونوں سے متمسک رہو ان سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو (ورنہ) یقینی طور پر گمراہ ہو جاوٴ گے۔۔۔ (10)غیتہ النمانی(11) اور ارجح المطالب (12) میں اس حدیث کے مثل روایت کی گئی ھے۔ ان مواقع میں جھاں آپ نے حدیث ثقلین ارشاد فرمائی حالت بیماری بھی ھے جس میں آپ کی وفات ہوئی۔چنانچہ ینابیع المودة میں (علّامہ قندوزی) نے لکھا ھے کہ: ابن عقدہ نے عروة بن خارجہ کے طریقے سے جناب زھرا سلام اللہ علیھا سے روایت کی ھے آپ نے فرمایا: کہ میں نے اپنے والد بزرگوار سے (اس بیماری کی حالت میں جو وفات کا باعث بنی) سنا آپ نے فرمایا: (جبکہ آپ کا حجرہٴ مبارک اصحاب سے بھرا ہوا تھا) اے لوگو! عنقریب قبض روح کے بعد تمھارے درمیان سے چلا جاوٴں گا ایک خاص بات کھنا چاھتا ھوں تاکہ تمھارے لئے حجت رھے۔جان لو کہ۔ در حقیقت تمھارے درمیان اپنے خدا کی کتاب اور اپنی عترت کو بطور جانشین چھوڑ کر جارھا ھوں اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے دست مبارک کو پکڑ کر فرمایا: یہ علی عليه السلام قرآن کے ساتھ ھیں اور قرآن علی عليه السلام کے ساتھ ھے۔دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے اور ان میں فاصلہ نھیں ہوگا یھاں تک کہ روز محشر حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے۔ اس وقت میں تم لوگوں سے سوال کروں گا کہ تم لوگوں نے ان دونوں کے بارے میں میرے ساتھ کیا برتاوٴکیا (13)
حوالہ جات:1. قصویٰ۔ تیز رفتاری کے باعث اس کو قصویٰ کیا جاتا تھا۔2. سنن ترمزی جلد ۵ صفحہ، ۳۲۷۔ ۳۲۸ شمارہٴ حدیث ۳۸۸۴3. یہ بھت مشہور خطبہ ھے جو کہ حجہ الوداع میں ارشاد فرمایا ھے۔۔4. بصریٰ شام کے ایک شھر کا نام ھے صنعایمن کا ایک قصبہ ھے۔ اور وازہٴ شام کا ایک گاوٴں ھے۔5. مستدرک الحاکم جلد ۳ صفحہ ۱۰۹ مسندنسائی۔ کتاب الخصائص صفحہ۱۵۰6. صحیح مسلم جلد ۵ صفحہ ۲۵ ش۔ ۲۴۰۸7. المعجم الکبیر۔۵۔ صفحہ ۱۶۶۔ ۴۹۶۹ ّ( ابن حجر نے صواعق محرقہ میں صفحہ ۴۳ پر درج کیا ھے (طبع قاھرہ)8. احقاق الحق جلد ۹ صفحہ ۳۵۵9. المسجّہ۔ انگشت شھادت10. ینابیع المودة صفحہ ۱۱۷۔ ۱۱۶۔ طبع استانبول (ترکی)11. غیتہ النمانی صفحہ ۴۳12 ارجح المطالب صفحہ ۳۱۴ طبع الاہور (پاکستان)13. ینابیع المودة صفحہ ۳۸
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.