حضرت فاطمہ زہراء(س) کى مظلومانہ شہادت

168

مقدمهقال رسول الله (ص) فاطمة بضعة منّي من آذاها فقد آذاني—(1)ختمي مرتبت حضرت محمد مصطفٰي(ص) نےفرمايا :”فاطمہ ميرا پارۂ جگر ہے جو اس کو اذيت پہنچائے گا وہ ميري اذيت کا باعث بنے گا۔گزشتہ چند سالوں سے، ايام فاطميہ خصوصا فاطميہ دوم کے موقع پراور بالخصوص حضرت صديقہ طاہرہ(س) کى شہادت کے روز يعني 3/جمادي الثانيہ کے دن ہمارے ملک ميں ايک خاص ماحول ہوتا ہے، دوکانيں بند ہوتي ہيں، ماتمي دستہ سڑکوں پرنوحہ خواني و سينہ زني کرکے ،جگر گوشہ رسول(ص)، زوجہ علي مرتضيٰ (ع) (2) اورمادر ائمہ(ع) کا سوگ مناتے ہيں۔وہ خاتون جس کے دروازے پر کھڑے ہو کر پيغمبر اسلام(ص) بلند ا ٓواز سے فرماتے تھے: “السلام عليکم يا اھل بيت النبوة۔۔۔” (3) اے اہل بيت نبوت تم پر سلام ہواس طرح، اپنےبعد ا ٓنے والوں کے لئے اتمام حجت کر رہے تھے کہ جن اہل بيت کے متعلق ميں بارھا تاکىد کرتا رہاھوں وہ يہي افراد ہيں کہ جن ميں حضرت زہراء(س) کو مرکزيت حاصل ہے ليکن ابھي غروب خورشيد نبوت کو چند روز بھي نہ ہوئے تھے کہ ايک دوسرا عظيم سانحہ عالم اسلام ميں رونما ہواجس کى وجہ سے حضرت زہرا(س) جواني کے عالم ميں (4) ہي، بدطينت افراد کے مظالم کى تاب نہ لا کراس دنيا سے گزرگئيں جس کے بعد ميدان جنگ کے شہسوار،حضرت علي(ع) کى کمر ٹوٹ گئي۔جس وقت ا ٓپ(ع) نے زہراء مرضيہ کےبدن مطہر کو رات کى تاريکى ميں مخفيانہ طور پر سپرد لحد کیا (5) تو غم و اندوہ سے ا ٓپ کا دل بھر ا ٓيا، مولائے متقيان،خداوند کى بارگاہ ميں نماز کےلئے کھڑے ہوتے تھے تو ا ٓواز ديتےتھے: خدايا ! خاندان نبوت کى کیا يہ ا ٓخري مظلوميت تھي؟افسوس صد افسوس ايسا نہيں تھا بلکہ جنگ صفين، جنگ نہروان اور جنگ جمل جيسے واقعات،حضرت امام حسن(ع) کى مظلوميت اور امام حسين(ع) اور ا ٓپ(ع) کے اولاد و اصحاب کى شہادت، الغرض تمام ائمہ(ع) کى مظلوميت، اسي مظلوميت کى ايک کڑي تھي۔ ليکن ظلم بالائے ظلم تو يہ ہے کہ کسي مظلوم پر ہونے والے مظالم کا انکار کیا جائے۔ايک اور بڑاحادثہ جو رونما ہونے والا تھا،وہ يہ تھا کہ کچھ لوگ حضرت زہراء(س) کى شہادت اور مظلوميت کو مورد شک و ترديد قرار دے کر ا ٓپ(س) پر ہونے والے ظلم وستم کا انکار کرنا چاہتے تھے۔ليکن مراجع کرام منجملہ حضرت ا ٓية اللہ العظميٰ فاضل لنکراني(مد طلہ) کى بيداري نے اس خطرناک منصوبہ کو خاک ميں ملا ديا، اور روز شہادت حضرت زہراء(س) کو عاشوراء قرار دے کر لوگوں کو عزاداري و مجالس عزا برپا کرنے کى دعوت دے کر اس بات کا اعلان کیا کہ اگر ہم اس زمانےميں نہيں تھے اور اہلبيت(ع) پرہونے والے مظالم کا دفاع نہيں کر سکے تو ا ٓج عزاداري، سينہ زني اور جلوس عزا نکال کر، حضرت زہراء(س) کى مظلوميت کو فراموش نہيں ہونےديں گے۔حضرت ا ٓية اللہ العظميٰ فاضل لنکراني(مد طلہ) کئي سالوں سے حضرت صديقہ کبري فاطمہ زہرا(س) کى شہادت کى مناسبت پر،لوگوں کو اس روح فرسا مصيبت پر عزاداري و سوگواري کى ترغيب دلانے کے لئے پيغام صادر فرماتے تھے ؛جن کو ہم يکجا کرکے محبان و دوستداران عصمت و طہارت کى خدمت ميں پيش کر رہے ہيں۔اميد ہے کہ ہماري يہ ناچيز کوشش درگاہ احديت ميں مقبول ہو اور مظلومہ ٔجہان اور ان کے فرزند دلبند حضرت ولي عصر(عجل اللہ تعالي فرجہ الشريف) کى خوشنودي کا باعث ہو۔
پيغام 1بسم اللہ الرحمٰن الرحيمالحمد لله ربّ العالمين والصلاة و السلام علي سيدنا محمد و آله الطاهرين سيّما الصدّيقة الشهيدة فاطمة الزهراء واللعن علٰي اعدائهم اجمعينيہ ايام عظيم المرتبت خاتون، بانوي جہان اسلام حضرت فاطمہ زہرا(س) کى شہادت کے ايام ہيں، ا ٓپ(س) کى ذات والامقام ايک ايسي حقيقت ہے کہ جس کے وجود مبارک کے تمام ابعاد اھل فکر و بصيرت کے لئے ابھي تک روشن نہيں ہو سکے ہيں۔ اس کو فاطمہ کہا جاتا ہے؛اس لئے کہ بشر اس کى حقيقي معرفت سے محروم ہے (6)۔ وہ ذات کہ جس کى ناراضگي، خدا و پيغمبر(ص) کى ناراضگي ہے، اور جس کى خوشنودي خدا و رسول (ص) کى خوشنودي ہے۷۔ ايسي حقيقت کہ جو فقط اہل کساء کا مرکز (8) ھي نہيں بلکہ ا ٓيہ ٔتطہير ميں بھي اسي کو مرکزيت حاصل (9) ہے اوراسي مبارک وجود کو ارادہ ٔالٰہي کا واسطہ قرار ديا گيا ہے۔ہم لوگوں کے لئے کہ جن کو بانوي اسلام اور ان کى اولاد طاہرہ کى پيروي کاشرف حاصل ہے، حالات کے مد نظر ا ٓپ(س) کے افکار و دستورات سے ا ٓشنائي بيحد ضروري ہے، کہيں ايسا نہ ہو کہ وظائف کى انجام دھي ميں ہم سے کوتاہي ہو جائے۔ ہمارے محترم علماء و خطباء مجالس عزا کو اعلٰي پيمانے پر منعقد کرنے کے علاوہ اس کے علمي و معنوي پہلوو ٔں پر خاص توجہ ديں، اوربحمد اللہ چونکہ مکتب تشيع استدلال و منطق کا مکتب ہے لہٰذا صاحبان تدبر و انصاف ا ٓساني سے اس طرف مائل ہو جائيں گے۔ا ٓج دشمن اچھي طرح سمجھ چکا ہے کہ اس قوم پر قابو پانے کے لئے اوراس پر مسلط ہونے کے لئے اس کے ايمان و اعتقادات کى لو کو کم کرنا پڑيگا لہٰذا کبھي سيد الشہداء(ع) پر گريہ و عزاداري کو بيہودہ کاموں سے تعبير کرتا ہے اور کبھي حضرت فاطمہ زہراء(س) کى شہادت پر شبہات ايجاد کرتا ہے؛ جب کہ ا ٓپ(س) کى شہادت تاريخ اسلام کے حقائق اور مسلمات ميں سے ہے۔دشمن اپنے زعم ناقص ميں حضرت(س) کى شہادت ميں شبہ تو پيدا کر سکتا ہے ليکن رسول خدا(ص) کے بعد ا ٓپ(س) پر ہونے والے مظالم و مصائب (10) کا ھرگز انکار نہيں کر سکتا؛ ا ٓپ کا جواني ميں دنيا سے رخصت ہونا (11)، مسجد النبي(ص) ميں ا ٓپ(س) کا مستدل و شعلہ بيان خطبہ (12)، روز و شب کى ا ٓہ و بکا (13) اور حريم ولايت کا مستحکم دفاع (14)، ا ٓپ(س) کى مظلوميت کى روشن دليليں ہيں،لہٰذا ا ٓپ(س) کے شوہر نامدار اور جہان اسلام ا ٓج بھي ا ٓپ(س) کى مظلوميت پر عزادار وسوگوار ہيں۔ان ايام سے والہانہ لگاو ٔ کے نتيجہ ميں ايران کا اسلامي انقلاب وجود ميں ا ٓيا اور ا ٓج اس کى بقاء بھي اس خاص توجہ کى مرہون ہے، لہٰذا مو ٔمنين اور محبان اہل بيت(ع) ايام فاطميہ کو ہر سال، گزشتہ سال سے بہتر طريقہ سے منائيں اور اس ناگوار حادثہ کو دوسرے حوادث ميں گم نہ ہونے ديں؛خصوصاً 3/ جمادي الثانيہ کو کہ جس دن حکومت ايران نے عمومي تعطيل کا بھي اعلان کر ديا ہے، خاص اھتمام کريں اس لئے کہ شيعيت کى اصالت ا ٓپ(س) ھي کى ذات والا صفات سے وابستہ ہے، اس مقدس راہ ميں قدم اٹھائيں اور بروز قيامت ا ٓپ(س) اور ا ٓپ(س) کى اولاد طاھرہ کى شفاعت و عنايت کے مستحق قرار پائيں۔
پيغام 2بسم اللہ الرحمٰن الرحيمإِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِى الدُّنْيَا وَ الاَْخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا (15); و قال رسول الله (صلى الله عليه وآله) : فاطمة بضعة منّى من آذاها فقد آذانى (16)ہم شيعوں کے لئے فخر کى بات ہے کہ ہمارے پاس ايسي شخصيت ہے کہ جو سيد ۂ نساء العالمين اور صاحب عصمت و طہارت ہے اور ا ٓيہ ٔتطہير (1۷) کہ جو پنج تن(ع) کے متعلق نازل ہوئي ہے (18) ، کے مطابق ،ارادہ ٔالٰہي (ارادہ تکويني) يہ ہے کہ وہ ہر قسم کى رجس و پليدي اور گناہ و معصيت سے مبريٰ ہوں اور طہارت مطلقہ سے ا ٓراستہ ہوں۔وہ ذات کہ جو اس منزل پر فائز ہے کہ جہاں تک ہمارے ناقص افکار کى رسائي ممکن نہيں اور ہماري عقل اس کو درک کرنے سے قاصر ہے (19)۔وہ راہ ولايت کى پہلي شہيدہ ہيں کہ جس کى فرزندي پر ہمارے ائمہ (ع) ناز کرتے تھے (20)۔فاطمہ وہ خاتون ہيں کہ جس نے سخت ترين مصائب و مظلوميت خصوصاً پيغمبر(ص) جيسے باپ کے دنيا سے رخصت ہونے کى مصيبت اور دشوارترين حالات کہ جس ميں عام انسان بولنے تک کى قدرت نہيں رکھتا ،حکام و بزرگان قوم کے مقابل ايسا خطبہ ديا (21) کہ عقلا جس کو سمجھنے سے قاصر ہيں کہ ايسے حالات اور ايسے مواقع پر ايک عورت کس طرح ايسا محکم و متقن خطبہ بيان کر سکتي ہے اور وہ بھي توحيد،نبوت و امامت سے متعلق ايسے مطالب اور ساتھ ہي ساتھ ان لوگوں کى سر زنش جنہوں نے دنيا کى راحت اور عيش و عشرت کے الٰہي فريضہ کو ترک کر ديا اور ظالم کے ظلم کے مقابلے ميں تماشائي بنے رہے ۔بصد افسوس اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ چودہ سو سالوں کے گزر جانے کے بعد ا ٓج بھي ہم اس بے مثل گوہر کو نہيں پہچان سکے ہيں اور اس سے زيادہ افسوس اس بات کا ہے کہ بعض کى جہالت اور ناداني يا نفس پرستي اس بات کا باعث بني کہ انھوں نےا ٓپ(س) کے مقام و منزلت ہي کو مورد شک و ترديد کى نگاھوں سے ديکھنا شروع کر ديا۔يہ حقيقت ہے کہ ايک معمولي انسان کے لئے يہ سمجھنا دشوار ہے کہ ايک عورت اس مقام و منزلت کى حامل ہو کہ اس کى مرضي خدا کى مرضي کا محور بن جائے (22)۔ايک مدت سے بہت سے تعصب ا ٓميز مطالب حضرت زہرا(س) کے بارے ميں لکھے جا رہے ہيں جن کو سن کر اور پڑھ کر ہر حقيقت پسند انسان کا دل خون ہو جاتا ہے ۔ سچ ہے کہ امام خميني (رہ) نے وحدت اسلامي کى بہت زيادہ تاکىد فرمائي ہے ؛ليکن امام خميني (رہ) کا مطلب يہ نہيں تھا کہ شيعہ اپنے بنيادي اعتقاد سے بھي دستبردار ہو جائيں اور حضرت زہرا(س) کے متعلق جھوٹي اور غلط باتوں کے سامنے خاموش تماشائي بنے رہيں؛ بلکہ امام خميني (رہ) کى مراد يہ تھي مسلمان عالم استکبار کے مقابلے ميں متحد رہيں تاکہ دشمن اسلام ميں رخنہ ايجاد نہ کر سکے ۔لہذا شيعوں پر فرض ہے کہ 3جمادي الثانيہ جو صحيح روايات (23) کى بنياد پر حضرت زہرا(س) کى شہادت کى تاريخ ہےاور اسلامي جمہوريہ ايران کى جانب سے عمومي تعطيل کا اعلان بھي کیا گيا ہے ،جتنا ممکن ہو اعليٰ پيمانے پر مجلسيں برپا کريں اور سڑکوں پر جلوس نکاليں تاکہ ا ٓنحضرت(س) کا کچھ حق ادا ہو سکے ۔ظاہر ہے کہ اس امر سے بے توجہي کا نتيجہ بہت برا ہوگا۔والسلام عليٰ جميع عباد اللہ الصالحينمحمد فاضل لنکراني9اگست 2002 عيسوي
پيغام3بسم اللہ الرحمٰن الرحيمإِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِى الدُّنْيَا وَ الاَْخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا . (24) قال رسول الله (صلى الله عليه وآله): فاطمة بضعة منّى يؤذينى ما آذاها (25)سال گزشتہ جو اطلاعيہ حضرت زھرا(س) کى شہادت کى مناسبت سے ا ٓپ کى خدمت ميں پيش ھوا اس سے پيوستہ اس سال بھي ا ٓپ کى خدمت ميں عرض کرتا ھوں کہ حضرت زھرا(س) جنہوں نے ولايت کى راہ ميں سب سے پہلے اپني جان کا نذرانہ پيش کیا، ان کى ياد منانا ولايت علي(ع) کى بيعت کے مترادف ہے، جس کے ذريعہ خداوندعالم نے دين کو مکمل کیا اور نعمتوں کومنزل اتمام تک پہنچايا(26)۔وہ فاطمہ(س) کہ جس کى مرضي پيغمبراکرم(ص) کى مرضي ہے اور پيغمبر(ص) کى مرضي خدا کى رضا ہے، جس کاغضب پيغمبر(ص) کا غضب اور پيغمبر کا غضب خدا کا غضب ہے (2۷)۔وہ فاطمہ(س) جس کى مادري پر ھمارے ائمہ(ع)،جوعالم انسانيت کے کامل ترين افراد ہيں، فخر کرتے ہيں (28)۔وہ فاطمہ(س) جس نے اپني مختصر سي حيات (29) ميں ھي شيعيت کو ھميشہ کے لئے بقا عطا کیا۔وہ فاطمہ(س) جس کے روشن و جلي خطبہ (30) نے چاھنے والوں اور دشمنوں کو انکشت بدندان کر ديا۔وہ فاطمہ جس نے اپنے پدر بزرکوار کى موت کى عظيم ترين مصيبت اور اپنے شوھر نامدار کى مظلوميت کو ،اپنے نالہ وشيون (31) سے تمام لوگوں کو ا ٓگاہ کیا،اور ا ٓج بھي وہ اندوہ ناک ا ٓواز مدينہ کى گليوں گونج رھي ہے۔ھميں فخر ھے کہ دين کے حقيقي معارف ا ٓپ(س) کى اولاد طاھرہ کے ذريعہ ھي ھم تک پہونچے،ايسے معارف جو عقل سليم کے مطابق اور ھر زمانے کے ساتھ سازگار ھيں، ايسے جامع معارف جو بشريت کى تمام حوائج کى جواب گو ھيں۔ ا ٓپ اور ا ٓپ(س) کى اولاد کے مکتب سے تمسک کے نتيجہ ميں ھي ملت ايران کو عزت و استقلال نصيب ھوا۔اسي لئے اسلام کے سخت ترين دشمن اس نتيجہ پر پہونچے کہ اگر اس قوم کو مٹاناھے تو ان سے فاطميہ، عاشورا اور شعبان و رمضان چھين ليا جائے۔ اس وقت اپنے ناپاک ارادوں کو جامہ عمل پہنايا جا سکتا ھے۔يہاں پر دوبارہ يادا ٓوري ضروري ہے کہ ايام عزا کا احترام اور مجالس عزا کا انعقاد امام خميني(رہ) کا وطيرہ تھا۔اور اس عمل کا وحدت اسلامي کے مسئلہ سے کوئي تعلق نہيں ہے۔جس وحدت اسلامي کى امام خميني(رہ) اور ا ٓية اللہ بروجردي(رہ) تاکىد فرماتے تھے اس کا يہ مطلب نہيں تھا کہ شيعہ اپنے مسلم عقائد سے دستبردار ہو جائيں يا اس کو فراموش کرديں،بلکہ وحدت اسلامي سے مراد تمام مسلمانوں کا عالمي استعمار کے خلاف متحد رہنا ہے جس کا خيال يہ ہے کہ قدرت اور طاقت صرف اس کے پاس ہے اور صہيونيوں کے اشارے پر اسلام کى بنيادوں کو نابود کرنے کى سوچ رہے ہيں۔لہذا تمام شيعوں پر ضروري ہے کہ 3 جمادي الثانيہ جس دن اسلامي جمہوريہ ميں تعطيل کا بھي اعلان کیا گيا ہے ،مجالس منعقد کريں اور سڑکوں پر جلوس نکاليں تاکہ ا ٓنحضرت کے حقوق کا ايک تھوڑا سا حصہ ادا کر سکىں ۔(يريدون ليطفئوا نوراللہ بافواہہم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون) (32)نور الٰہي ہميشہ روشن ہے اور جن کے دل تعصب سے خالي ہيں وہ ہميشہ اس نور سے اپنے دل کو روشني پہنچايا کرتے ہيں۔
پيغام4بسم اللہ الرحمٰن الرحيمإِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِى الدُّنْيَا وَ الاَْخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا (33). قال رسول الله(صلى الله عليه وآله): فاطمة بضعة منى يؤذينى ما آذاها (34)يہ ايام عصمت کبريٰ حضرت فاطمہ زہرا(س) کى شہادت کےايام ہيں، وہ پاک اور مقدس ذات جوام ابيھابھي ہے اورائمہ معصومين (عليھم السلام) کى ماں بھي ہے (35)وہ حقيقت جو پنجتن کا مرکز ہے اور خلقت کا عظيم راز ہے جس کو بشريت تو کیا ان کےچاہنے والے بھي نہيں پہچان سکے ہيں۔ وہ انسيہ (36) جس کى نوراني حقيقت جہالت اور ظلم و عناد کى تاريکىوں ميں گم ھوگئي اور قيامت تک ا ٓشکار نہ ہو سکے گي۔شيعہ ھي کیا تمام انسانيت اور ملائکہ ان کے وجود پر فخر کرتے ہيں، خداوند عالم کا يہ عظيم تحفہ،يہ کوثر (3۷) جو دين پيغمبر(ص) کى بقاء کا ذريعہ بنا اور جس کے فرزند عالم بشريت کے علوم وکمالات کا سرچشمہ قرار پائے۔اگر حضرت زھرا(س) کا وجود نہ ھوتا اور يہ گرانمايہ گوھر عالم وجود ميں ظہور پذير نہ ھوتا تو نہ جانے کتني تاريکى اس عالم امکان ميں ھوتي؟! ا ٓيہ ٔ مودت (38) کے حکم کے مطابق تمام انسانوں پر واجب ہےکہ دين اسلام کى ھدايت کے بدلے پيغمبراسلام(ص) کے اقرباء اور ان کے اھل بيت(عليھم السلام) سے محبت ومودت رکھيں اور اقرباء ميں سب سے بارز شخصيت حضرت زھرا(س) کى ہے (39)۔اور يہ مودت کا فريضہ ھر زمانے ميں ھر انسان کے لئے ہے فقط ان کے زمانے والوں سے مخصوص نہيں ہے۔حضرت زھرا(س) کى مودت کا تقاضا يہ ہے کہ ان کى ياد کو زندہ رکھا جائے اور ان کے وجود نازنين پر ھونے والي مصيبتوں (40) کو بيان کیا جائے۔ھم کبھي ان مصيبتوں کو فراموش نہيں کر سکتے،تاريخ شاھد ہے کہ مختصر سي عمر (41) ميں ا ٓپ پر کتنے مصائب ڈھائے گئے کہ مولٰي الموحدين حضرت علي(ع) نے ا ٓپ کى شھادت کے بعد فرمايا: ميرا غم دائمي اور ابدي ھے جو کبھي بھي ختم ھونے والا نہيں ہے (42)۔کیا مولائے کائنات کے ان الفاظ کے بعد کوئي شيعہ، کوئي پيغمبر(ص) کاامتي اس غم کو فراموش کر سکتا ہے، اور اس سے کريز کر سکتا ہے؟لہٰذا تمام محبان اھل بيت(ع) پرضروري ہے کہ 3/جمادي الثانيہ بروز بدھ صحيح روايات کے مطابق (43) حضرت زھرا(س) کى شھادت کى تاريخ ہےاور بحمد للہ اسلامي جمھوريہ ايران ميں تعطيل بھي ہے لہٰذا بہتر سے بہتر طريقہ سے عزاداري، ماتم اور جلوس وغيرہ کے ذريعہ اس امرکو زندہ کريں اور ا ٓنحضرت سے محبت کا اظہارکريں شايد اس طرح ان کے حقوق کا ايک چھوٹا حصہ اداکرسکىں۔
پيغام 5بسم اللہ الرحمٰن الرحيم«السلام عليك يا أيّتها الصّديقة الشّهيدة (44)»سيدہ ٔ نساءالعالمين حضرت زہرا (س)کى شہادت کے ايام قريب ہيں۔وہ ذات جس پر خداوندعالم کو فخر ہے (45)،جو قلب رسول خدا(ص) کى ٹھنڈک (46) ،اميرالمومنين علي (ع)کى ہمسر اور معصوم اماموں کى ماں ہے (4۷)۔وہ ذات جو عالمين کے عورتوں کى سردار ہے۔اگر چہ قرا ٓن ميں خداوند عالم نےحضرت مريم(ع) کے لئے فرمايا ہے”واصطفاک علٰي نساء العالمين” (48) کہ مريم عالمين کى عورتوں ميں سب سے بہتر ہيں ليکن معتبر روايات کى روشني ميں جناب مريم(ع)کے برتري کى وجہ يہ تھي کہ انھوں نے بغير شوہر کے حضرت عيسيٰ کو جنم ديا لہذا دنيا ميں ان کا کوئي نظير نہيں ہے۔ليکن حضرت زہرا علم ،عصمت ،طہارت اور عبوديت کى وجہ سے تمام عورتوں سے افضل ہيں (49)۔ضروري ہے کہ تمام مسلمان 3جمادي الثانيہ حضرت زہرا(س) کى شہادت کى مناسبت سے مجلسيں برپا کريں جلوس نکاليں اور اس دن عاشور کى طرح عزاداري منائيں۔بحمداللہ ادھر چند سالوں سے محبان حضرت زہرا(س) اس فريضہ کو بحسن و خوبي انجام دے رہے ہيں ہم ان کے تہہ دل سے شکر گزار ہيں ۔واضح رہے کہ حضرت زہرا (س) کا احترام حقيقت ميں پيغمبر اسلام(ص) کى تعظيم اور ان کا احترام ہے۔ايران کى عظيم قوم اہلبيت(ع) کے دامن سے متمسک رہ کر (50) انقلابي ميدان ميں ہميشہ اسي طرح پيش پيش رہےگي ۔اس حقيقت سے انکار نہيں کیا جا سکتا کہ ہماري کاميابي کا رازيہ ہے کہ ہم معصوم اماموں پر ايمان رکھتے ہيں اور ان کى پاک اور مقدس ذوات سے وابستہ ہيں اور حقيقي شيعيت و اسلام ناب ھي ہماري شناخت ہے۔خداوند ہميں اپنے کوثر يعني حضرت فاطمہ زہرا(س) (51) کى عنايات سے زيادہ سے زيادہ بہرہ مند فرمائے۔
حواشيا۔ يہ روايت مختلف عبارات ميں نقل ہوئي ہےکہ جن ميں سےبعض کےمصادر کى طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:1 _ «فاطمة بضعة منّي، من آذاها فقد آذاني»: فضائل اهل البيت ( عليهم السلام ): 240 ح 375، المستدرك على الصحيحين 3:173 ح 4750، السنن الكبرى بيهقى 15:276 ح 21460 ، كنزالعمال 12: 111 ح 34241،كتاب سليم بن قيس 2:869 ح 48، شرح الأخبار 3:30 ح 970، أمالى صدوق: 165 ح 163 با اضافه اى، كفاية الاثر: 65، دلائل الإمامة: 135 ح 43، تفسير روض الجِنان و روح الجَنان 4:318، مناقب ابن شهرآشوب 3:332، كشف الغمة 2:92 ـ 93، بحارالأنوار 43:39 ح 40 و ص 54 ح 48 و ص 76 ح 63 و ص 80 ح 68، احقاق الحق 10:209ـ211 و ج 19:77، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام )1:150 و ج 2:1050 .2 _ «فاطمة بضعة منّي، يؤذيني ما آذاها»، فضائل أهل البيت ( عليهم السلام ): 241 ح 378، صحيح مسلم 4: 1512 ح 94/2449، سنن ترمذى 5:698 ح 3878، اور اس کےبعد يہ جملہ نقل ہوا ہے «وينصبني ما أنصبها»، المستدرك على الصحيحين 3:173 ح 4751، اور اسي طرح اس کے ضمن ميں يہ جملہ بھي منقول ہے «وينصبني ما أنصبها»، التفسير الكبير فخر رازى 9:595، تفسير غرائب القرآن 6:74، كنز العمال 12: 107 ح 34215، اور اسي طرح اس کے ضمن ميں يہ جملہ بھي منقول ہے «وينصبني ما أنصبها »، معاني الاخبار : 303 ح 1 و2. إعلام الورى 1:294، بحارالأنوار 43: 26 ح 26 اور اس کے بعد يہ جملہ منقول ہے « ويسرّني ما سرّها و…»، احقاق الحق 10: 209 ـ 210، و ج 19:78، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام )1: 145 ح 8 ـ 11، مسند فاطمة (عليها السلام ) عطاردى: 336 ح 7 .3 ـ « فاطمة بضعة منّي، يربيني ما رابها (أرابها) ويؤذيني ما آذاها»: فضائلاهل البيت ( عليهم السلام ): 242 ح 379، صحيح بخارى 6: 193 ح 5230، صحيح مسلم 4:1512 ح 93/2449، سنن ترمذى 5:698 ح 3876، حلية الأولياء 2:40، اسد الغابة 6:225 رقم 7175، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1 : 53 ، ذخائر العقبى: 37 ـ 38، تهذيب الكمال 22: 388 رقم 8488، سير أعلام النبلاء 3 : 425 رقم 114، البداية والنهاية 6: 326،كنزالعمال12:112ح34243، شرح الأخبار 3:60 ح 981، مناقب ابن شهرآشوب 3:332، بحارالأنوار 43:39 ح 40 ، احقاق الحق 10: 190 ـ 199، و ج 19: 83ـ84، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 1:145 و 150، مسند فاطمة ( عليها السلام ) عطاردى: 336 ح 8 .4 ـ «فاطمة بضعة منّي، فمن اغضبها أغضبني»: صحيح بخارى 4:252 ح 3714 و ص 264 ح 3767، كنز العمال 12: 108 ح 34222 ، جامع الأحاديث 6:258 ح 14724،شرح الأخبار 3:31 ح 972 و ص 61 ح 983، مناقب ابن شهرآشوب 3:332، بحارالأنوار 43: 39 ح 40، احقاق الحق 10:206 ـ 208، و ج 19: 87 ـ 90، عوالم العلوم فاطمة الزهراء (عليها السلام )1:150 ، مسند فاطمة ( عليها السلام ) عطاردي: 334 ح 3 و ص 335 ح 6
البتہ يہ روايت اور بہت سي تعبرات ميں وارد ہوئي ہے کہ تقريبا 3 ۰ موارد کو ملاحظہ کیا گيا کہ جو حديث کى کتابوں ميں موجود ہيں ليکن اختصار کى وجہ سے تمام کو ذکر کرنے سے قاصر ہيں، محقق کى سہولت کے لئے ذيل ميں فقط کتابوں کے نام کى طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔
صحيح مسلم 4:1512 ـ 1513 ح 94 ـ 96/2449، صحيح بخارى 4:255 ح 3729، فضائل اهل البيت ( عليهم السلام ): 240 ـ 249 ح 374 ـ 378، الجامع الكبير ترمذى 6:173 ح 3868، المستدرك على الصحيحين 3:172 ـ 173 ح 4747 و 4749، حلية الأولياء 2:40 ـ 41 ، و ج 3: 206، السنن الكبرى بيهقى 10:206 ح 13680، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1: 53 ـ 54، 60، 62، مناقب خوارزمى: 353 ح 364 ، ذخائر العقبى: 37 ـ 38، سير أعلام النبلاء 3: 428، 433 رقم 114، مجمع الزوائد 9: 203 ، كنز العمال 12: 106 ـ 114، و ج 13: 674 ح 27726 و ص 678 ح 37735، 37736 و 37737 ، جامع الأحاديث 6: 258ح14724و14725، قرب الإسناد: 112 ح 389، شرح الأخبار 3:64 ح 987، علل الشرائع 1:220 ب 149 ح 2، أمالى صدوق: 165 ح 163 و ص 175 ح 178 و ص 575 ح 787، كفاية الاثر: 64، أمالى مفيد: 260، أمالى طوسى: 24 ح 30، تلخيص الشافي 3:122، روضة الواعظين: 150، مناقب ابن شهرآشوب 3:332 ، كشف الغمة 2:92ـ93، بحارالأنوار 43:23ـ80، إثبات الهداة 1:538 ح 166، احقاق الحق 10:187ـ228 و ج 19:76ـ93، عوالم العلوم فاطمة الزهراء (عليها السلام )1:143 ـ152، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى : 136 ح 67 و 68 و ص 145 ح 1 و ص 147 ح 4 و ص 163 ح 27 و ص 333 ـ 337 ح 1، 2، 4، 5، 9 ـ 11 و ص 357 ـ 358 ح 1 ـ 4 .
2۔ اس کے منابع حاشيہ 3۵ ميں مذکور ہيں
3۔ يہ روايت بھي مختلف عبارات ميں وارد ہوئي ہے، چزئي اختلافات سے صرف نظر اس روايت کو دو حصوں ميں تقسيم کیا جا سکتا ہے، پہلا حصہ اس طرح ہے:
كان رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) يمرّ بباب فاطمة (علي)… ويقول: الصلاة… (إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ).
اور دوسرا حصہ اس طرح:
كان النبي ( صلى الله عليه وآله ) يجيء إلى باب فاطمة (علي)… ويقول: السلام عليكم… (إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ…). ليکن ھم ان تعبيرات کے اختلافات سے صرف نظر،دونوں حصوں کے منابع کو ذکر کريں گے۔
پہلے حصہ کے منابع: فضائل اهل البيت ( عليهم السلام ): 250 ح 390 و 391، مسند احمد 4:516 ح 13730 و ص 568 ح 14042، سنن ترمذى 5:352 ح 3219، جامع البيان 12: 11 ح 28492 و 28494، مشكل الآثار 1: 331 ح 784، المستدرك على الصحيحين 3: 172 ح 474 8 ، شواهد التنزيل 2: 18 ـ 138 ح 637 ـ 644، 665، 667، 695، 772 و 773، مناقب خوارزمى: 60 ح 29، اسد الغابة 6:226 رقم 7175، ذخائر العقبى: 24 ـ 25، تهذيب الكمال 21:187 ـ 188 رقم 7921 و ج 22: 389 رقم 8488، سير أعلام النبلاء 3:434 رقم 114، البداية والنهاية 8:194، مجمع الزوائد 9:168 169 ، الدر المنثور 5:538 و ج 6:533 ـ 535، كنزالعمال 13:646 ح 632 ح 37632، فتح القدير 4:396 و ج 4:280 .أمالى صدوق 208 ح 230، عيون أخبار الرضا ( عليه السلام )1:240 ، أمالى مفيد: 318 ح 4، الشافي في الامامة 3:136، أمالى طوسى: 89 ح 138 و ص 565 ح 1174، تلخيص الشافي 2:253 ، مجمع البيان 7:59، جوامع الجامع 2:444، تفسير روض الجِنان و روح الجَنان 15:419 ـ420، متشابه القرآن ومختلفه 2:63، تفسير البرهان 3:790 ح 7083، بحارالأنوار 10:142 ح 5، و ج 16: 203، و ج 25 ـ 212 و ص 237 ح 21، و ج 35:207 ح 3 و ص 223 ح 30 و ص 227، و ج 37:36 ح 3، و ج 43: 53 ح 48، و ج 72: 154، و ج 82: 191 ـ 192، و ج 86 : 246 ح 6، تفسير نور الثقلين 3:408 ـ 410 ح 186، 191، تفسير كنز الدقائق 6:343.احقاق الحق 2:502 ـ 503، 515، 518، 526، 529، 531 ، 533 ، 536 ، و ج 3: 529 ـ 530، و ج 9: 47 ـ 48، 50 ـ 51، 55، 61 ـ 62، و ج 14 : 49 ، 57 ـ 59، 67 ـ 68، 79 ـ 81، 103، 105، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام )1:112 ، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 140 ح 76 و ص 275 ح 59 و ص 277 ح 62 .دوسرے حصے کے منابع: مشكل الآثار 1:231 ح 785، شواهد التنزيل 2: 46 ـ 83 ح 666 ، 694 ، 696 و 703، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1: 67، مناقب خوارزمى: 60 ح 28، مجمع الزوائد 9: 168 ـ 169، الدر المنثور 6: 534 ـ 535.تفسير فرات كوفى: 338 ـ 339 ح 461 ـ 463، تفسير قمى 2:67، أمالى طوسى: 251 ح 447، كشف الغمة 2:83، تفسير البرهان 3:790 ـ 791 ح 7084 و 7086، تفسير نور الثقلين 3:408 ـ 410 ح 188 و 192، بحارالأنوار 43: 53، و ج 25: 220 ح 19، و ج 35: 207 ح 2 و ص 209 ح 8 و ص 213 ح 16 و ص 214 ح 18 و ص 216 ح 20 ، تفسير كنز الدقائق 6: 342 ـ 343 .احقاق الحق 2 : 520 ، 526 ، 548 ، و ج 3: 529، و ج 9: 48 ـ 51، 54، 62 و 64، و ج 14: 51 ـ 52، 67 و 79 ـ 82، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 1: 112 ، مسند فاطمة ( عليها السلام ) عطاردى، 268 ح 43 و ص 273 ح 53 .۴ . تاريخ طبرى 3:240، المستدرك على الصحيحين 3:176 ح 4761، الإستيعاب: 928 رقم 3411، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1 : 83 ، اسد الغابة 6:228 رقم 7175، كامل ابن أثير 2: 200، سير أعلام النبلاء 3:430 ـ 431 رقم 114، البداية والنهاية 6:327 .اصول كافى 1 : 458 ، مصباح المتهجد: 793، دلائل الإمامة: 79 ح 18 و ص 134 ح 43، كشف الغمة 2: 75 و 129 ، مصباح كفعمى: 522، بحارالأنوار43: 6 ـ 10 ح 16، احقاق الحق 10: 11 ـ 12، و ج 19: 175، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 1: 45 ـ 52 ح 1 ـ 24، مسند فاطمة ( عليها السلام ) عطاردى: 7 ـ 13 ح 1 ـ 12.
۵. صحيح بخارى 5: 98 ح 4241، تاريخ طبرى 3:240، المستدرك على الصحيحين 3:177 ـ 179 ح 4763، 4764 و 4769، حلية الأولياء 2:43، السنن الكبرى بيهقى 5: 256 ح 6759 ـ 6761 و ص 359 ح 7030، الاستيعاب: 927 ـ 928 رقم 3411، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1:82 ـ 83 و 86، كامل ابن أثير 2: 200 ، ذخائر العقبى: 53 ـ 54، تهذيب الكمال 23: 39 رقم 8488، الجواهر النقي ـ در حاشيه سنن الكبرى بيهقى (ط ق) 3: 396 چاپ شده، اسد الغابة 6:229 رقم 7175، شرح نهج البلاغة ابن أبي الحديد 6: 46، سير أعلام النبلاء 3:430 رقم 114، البداية والنهاية 6:327 ، مجمع الزوائد 9:211، كنز العمال 13:686 ح 37756 و 37757 .
كتاب سليم بن قيس 2: 870 ح 48، اصول كافى 1:458 ح 3 و 4، شرح الأخبار 3 : 31 ـ32 ح 971 و 972، امالى صدوق: 580 ح 797 و ص 755 ح 1018، علل الشرائع 1: 218 ـ 223 ح 1 و 2، الخصال: 360 ح 50، أمالى مفيد: 281 ح 7، الاختصاص: 5، أمالى طوسى 109 ح 166 و ص 155 ح 258، رجال كشّى: 6 رقم 13، دلائل الإمامة: 133 ح 42 و ص 136 ذيل ح 43 و ص 137 ح 46، روضة الواعظين: 151ـ153، إعلام الورى 1:300، مناقب ابن شهرآشوب 3:362 ـ 364، اقبال الأعمال 3: 161، كشف الغمّة 2:100، 126 و 130، بحار الأنوار 43:159 ح 8 و ص 171 ح 11 و ص 182 ـ 218 ح 16، 18 ـ 21، 29 ـ 31، 34 ـ 37، 39 ـ 41، 44 و 49، احقاق الحق 10: 454 ـ 458، 463 ـ 464، 474، 478 ـ 481، و ج 19: 170، 175 ـ 178.
عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام )2: 782 ح 1 و 2 و ص 1057 ح 2، 3، 7 و 8 و ص 1060 ح 2 و ص 1066 ح 13 و ص 1068 ح 3 و ص 1072 ـ 1083 ح 7 ـ 14 و ص 1083 ـ 1104 ح 1، 4 ـ 21، 24، 27، 29 ـ 34 ، 36 ، 38 و 40 و ص 1106 ح 1 و 2 و ص 1109 ح 1 ـ 3، 5 و 6 و ص 1112 ح 3 ـ 6، 8، 11 و 12 و ص 1119 ح 1 و 2 و ص 1121 ح 1 و 2 و ص 1125 ح 1، مسند فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) عطاردى: 298 ح 1 و ص 393 ـ 401 ح 3، 6، 7، 10 ـ 13 و ص 402 ـ 433 ح 2، 3، 5 ـ 7، 11، 13، 16، 17 ـ 22، 30، 32، 33، 39 ـ 41، 46، 49، 50، 52 ، 56 ، 57 ، 61 ـ 63 .
۶۔ تفسير فرات كوفى 1: 581 ح 747، بحارالأنوار 43: 65 ح 58، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 1: 72 ح 11 و ص 99 ح 7، معجم احاديث الامام المهدي ـ عجّل الله تعالى فرجه الشريف ـ 5: 502 .
۷۔ المستدرك على الصحيحين 3: 167 ح 4730، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1: 52، 60، اسد الغابة 6: 227، ذخائر العقبى : 39 ، تهذيب الكمال 22: 389 رقم 8488، مجمع الزوائد 9: 203، كنز العمال 12: 111 ح 34237 و ج 13: 674 ح 37725 .شرح الأخبار 3: 29، عيون أخبار الرضا ( عليه السلام ) 2: 42 ح 176، أمالى صدوق: 427 ح 622 ، أمالى مفيد: 95 ح 4، أمالى طوسى: 427 ح 954، دلائل الإمامة: 146، روضة الواعظين 1: 149، اعلام الورى 1: 294، مناقب ابن شهرآشوب 3: 325، الاحتجاج 2: 103، كشف الغمة 2: 84، 93، بحارالأنوار 37: 70 ح 38، و ج 43: 19 ـ 51 ح 2، 4، 8، 12، 26، 43 ، 44 ، 46 و 48، احقاق الحق 10: 116 ـ 122 و 166، و ج 19: 54، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام )1: 151 ح 26 و ص 152 ـ 157 ح 31 ـ 34 و 37 و ص 171 ـ 172 ح 1، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 353 ـ 356 ح 1 ـ 9 و ص 432 ح 63 .۸ و۹ . فضائل أهل البيت ( عليهم السلام ): 79 ح 102 و ص 89 ـ 90 ح 119 ـ 121 و ص 137 ح 201 و ص 183 ح 273 و ص 195 ح 293 و ص 197 ح 295 و ص 250 ح 390 و 391 و ص 286 ح 454، مسند احمد 1: 709 ح 3062، و ج 4: 516 ح 13730 و ص 568 ح 14042، و ج 6: 45 ح 16985، و ج 10: 177 ح 26570 و ص 187 ح 26612، سنن ترمذى 5: 351 ـ 352 ح 3218 و 3219 و ص 663 ح 3796، جامع البيان 12: 10ـ14 ح 28488 ـ 28506، مشكل الآثار 1: 227 ـ 231 ح 770 ـ 785، مقاتل الطالبيّين: 52، المعجم الكبير 3: 52 ـ 57 ح 2662 ـ 2675، و ج 22: 66 ح 159 و 160، المستدرك على الصحيحين 3: 158 ـ 160 ح 4705 ـ 4709 و ص 172 ح 4748، شواهد التنزيل 2: 18 ـ 140 ح 637 ـ 774، مناقب خوارزمى: 60ـ63 ح 28 ـ 32، اسد الغابة 6: 226 رقم 7175، ذخائر العقبى: 21 ـ 25، تهذيب الكمال: 21: 187 ـ 188 رقم 7921 و ج 22: 389 رقم 8488، سير أعلام النبلاء 3: 427، 434 رقم 114، مجمع الزوائد 9: 166 ـ 169، الدر المنثور 5 : 538 و ج 6: 531 ـ 535، كنز العمال 13: 644 ـ 646 ح 37628، 37629، 37632، فتح القدير 3: 396 و ج 4: 278 ـ 280 .
مقتل الحسين ( عليه السلام ) ابن اعثم كوفى: 168، تفسير فرات كوفى: 332 ـ342 ح 451 ـ 466، تفسير القمّي 2: 67، 193 ـ 194، أمالى صدوق :208 ح 230 و ص 230 ح 242 و ص 559 ح 746 و 747 و ص 616ح 843، عيون أخبار الرضا ( عليه السلام )1: 229 و 240، الشافي في الإمامة 3 :133 ـ 136، تلخيص الشافي : 241 ، 250 ـ 253، أمالى طوسى: 89 ح138 و ص 248 ح 438 و ص 251 ح 447 و ص 263 ح 482 و ص368 ح 783 و ص 549 ح 1168 و ص 565 ح 1174 و ص 599 ح 1243و ص 608 ح 1254 ، جوامع الجامع 2: 444، مجمع البيان 7: 59 و ج8: 137 ـ 138، تفسير روض الجِنان و روح الجَنان 22: 417 ـ 420، متشابه القرآن ومختلفه 2: 62 ـ 63، تأويل الآيات: 448 ـ 451، تفسير البرهان3: 790 ـ 791 ح 7083، 7084، 7086، و ج 4: 442 ـ 470 ح 8583 ـ8644 ، بحارالأنوار 25: 212 ـ 249، و ج 35: 206 ـ 236، تفسير نورالثقلين 3: 408 ـ 410 ح 186، 188، 191 و 192، و ج 4: 270 ـ 277 ح 84 ـ 109، تفسير كنز الدقائق 6: 341 ـ 343، و ج 8: 155 ـ 162، احقاق الحق 2: 502 ـ 558 .1۰۔ ا ٓ پ(س) پر ہونے والے بعض مظالم يہ ہيں،شہزادي کے گھر پر حملہ کرکے اس کو نذر ا ٓ تش کرنا، ا ٓ پ کو مولائے متقيان کو گھر سےباہر نکالنے پر مجبور کرنا اور ا ٓ پ کے ساتھ زد خورد سے پيش ا ٓ نا، ا ٓ پ کو ا ٓ پ کى ميراث سے محروم کرنا و۔۔۔۔ کہ جن ميں سے بعض کے منابع کو بيان کیا جا رہا ہے۔
مسند احمد 1: 19 ح 9 و ص 20 ح 14، صحيح بخارى 4: 252 ح 3711 و 3712، سنن أبي داوود 3: 245 ـ 255 ح 2963 ـ 2977، تاريخ طبرى 3 : 207 ـ 208، السنن الكبرى بيهقى 9:428 ـ 441 ح 12998 ـ 13015، تاريخ يعقوبى 2: 126، شرح نهج البلاغة ابن أبي الحديد 2: 21 ـ 61، و ج 6: 5 ـ 12 و ص 46 ـ 52، و ج 16 : 274 ، و ج 17: 168، لسان الميزان 4: 707 رقم 5752، كنز العمال 5: 585 ـ 637 ح 14040، 14045 ، 14069 ، 14070 ، 14071 ، 14097 ، 14101 ، 14108 ، 14113 ، 14120 ، 14121.كتاب سليم بن قيس 2: 583 ـ 588 ح 4 و ص 672 ـ 695 ح 13 و 14 و ص 862 ـ 873 ح 48 و ص 905 ـ 908 ح 61، تفسير عيّاشى 2:66 ح 76، الكافي 8: 237 ـ 238 ح 320، الاختصاص: 183 ـ 187، أمالى مفيد: 40 ح 8 و ص 49 ح 9 و ص 95 ح 5 و ص 125 ح 3 ، دلائل الإمامة: 109 ـ 129، الاحتجاج 1: 105 ـ 149، كشف الغمة 2: 100 ـ 122، بحار الأنوار 28: 37 ـ 412، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 2: 545 ـ 697، مسند فاطمة ( عليها السلام ) عطاردى: 358 ـ 389 ح 1 ـ 19 و 1 ـ 24 .
11۔ اس کے منابع حاشيہ ۴ ميں مذکور ہيں۔
12۔ مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1: 77 ـ 78، شرح نهج البلاغة ابن أبي الحديد 16: 211 ـ 213 .
شرح الأخبار 3: 34 ـ 40 ح 974، الشافي في الإمامة 4: 69 ـ 77، دلائل الإمامة: 109 ـ 119 ، الإحتجاج 1: 131 ـ 141، كشف الغمة 2: 105 ـ 118، بحارالأنوار 29: 215 به بعد، احقاق الحق 10: 296 ـ 305، و ج 19: 163 ـ 167، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام )2: 652 ـ 692، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 557 ـ 575 ح 6 و713۔ المستدرك على الصحيحين 3: 177 ـ 178 ح 4763، حلية الأولياء 2 : 43 ، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1: 80 و 82، اسد الغابة 6: 228 رقم 7175، ذخائر العقبى: 53، تهذيب الكمال 22: 389 رقم 8488، البداية والنهاية 6: 327، مجمع الزوائد 9: 212 .
الكافي 4: 561 ح 4، الخصال 1: 27 2 ح 15، روضة الواعظين 1: 150، مناقب ابن شهرآشوب 3: 322، 341 و 362 ، كشف الغمة 2: 124، بحارالأنوار 43: 35 ح 39 و ص 155 ح 1 و ص 173 ـ 200 ح 13، 15 ، 16 ، 24 ، 30 ، احقاق الحق 10: 438، 459 ـ 462 و 474، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 2: 783 ح 7 و ص 788 ـ 790 ح 18، 19، 23 ، 25 و 26 و ص 800 ح 3 و ص 1080 ح 13 و ص 1106 ح 1 و 2، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 50 ح 18 و ص 342 ح 1 و ص 404 ـ 429 ح 4، 16، 31 ، 53 و 55 .1۴۔ دفاع کے مواقع ميں سے ايک موقع، مسجد النبي(ص) ميں ا ٓ پ کا خطبہ دينا ہے،اور دفاع کا دوسرا موقع وہ ہے کہ جب ا ٓ پ کے گھر پر حملہ کیا گيا اور ا ٓ گ لگائي گئي اور ا ٓ پ کے ساتھ زد و خورد کیا گيا اور حضرت علي(ع) کو بيعت کے لئے مجبور کیا گيا و۔۔۔ کہ جن ميں سے بعض کے منابع کو ہم يہاں بيان کر رہے ہيں:تاريخ طبرى 3: 202، تاريخ يعقوبى 2: 126، شرح نهج البلاغه ابن أبي الحديد 2: 21، 45، 50، 56 ـ 57، و ج 6: 46 ـ 52، لسان الميزان 4: 707 رقم 5752، كنز العمال 5: 632 ح 14113 .
كتاب سليم بن قيس 2: 583 ـ 588 ح 4 و ص 672 ـ 674 ح 13 و ص 862 ـ 865 ح 48، تفسير عيّاشى 2: 66 ح 76، الكافي 8: 237 ـ 238 ح 320، الاختصاص: 185 ـ 187، الاحتجاج 1: 105 ـ 114 ، 413 ـ 414، نهج الحق وكشف الصدق: 271، بحارالأنوار 28: 204 ح 3 و ص 227 ح 14 و ص 322 ح 52 و ص 339 ح 59، و ج 43: 170 ح 11 و ص 197 ح 28 و 29، احقاق الحق 10: 295، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 2: 555 ـ 610، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 359 ـ 371 ح 1 ـ 19 .
1۵۔ سوره احزاب 33 : 57 .
1۶۔ منابع حاشيہ 1 ميں گزر چکے ہيں 1۷۔ المستدرك على الصحيحين 3:170 ح 4740، حلية الأولياء 2: 40 و 42 الاستيعاب: 926 و 927 رقم 3411، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1:54، 67 و 79، ذخائر العقبى: 43، كنز العمال 12: 110 ح 34232 و 34233
تفسير عيّاشى 1 : 173 ـ 174، أمالى صدوق: 78، ح 45 و ص 187 ح 196 و ص 374 ح 471 و ص 574 ح 787، معاني الأخبار: 107 ح 1، علل الشرائع 1: 216، الإختصاص: 37، تفسير التبيان 2: 456، دلائل الإمامة: 81 ح 20 و ص 149 ح 58 و ص 152 ح 66، روضة الواعظين 1: 149، مجمع البيان 2 : 289 ، تفسير روض الجِنان و روح الجَنان 4: 318، مناقب إبن شهرآشوب 3: 322 ـ 324، الاحتجاج 1: 195، تفسير البرهان 1: 618، بحارالأنوار 37: 36ـ 85 ح 4، 10، 13، 27، 37 ، 38 ، 48 و 52، و ج 43: 21 ـ 78 ح 10، 13، 19، 20، 25، 39، 40، 42، 46، 48، 60، 63 و 65، تفسير نور الثقلين 1: 336 ـ 338 ح 127 ـ 136، تفسير كنز الدقائق 2: 83 ـ 85 ، احقاق الحق 10: 27 ـ 51 و ج 19: 18 ـ 20 و 35 ـ 36، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 1: 120 ـ 133 ح 6 ـ 38، مسند فاطمة ( عليها السلام ) عطاردى: 323 ـ 329 ح 1 ـ 14 .
1۸۔ سوره احزاب 33 : 33
1۹۔ اس کے منابع حاشيہ ۸ و ۹ ميں گزر چکے۔
2۰۔ اس کے منابع حاشيہ ۶ ميں گزر چکے۔
21۔ بہت سي روايات ميں اس مطلب کو بيان کیا گيا ہے، ہم ان ميں فقط بعض کو ذکر کريں گے:
مقتل الحسين ( عليه السلام ) أبى مخنف: 117، مقاتل الطالبيّين: 70، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى: 59 و 71، شرح نهج البلاغة ابن أبي الحديد 6: 49 ـ 50 .
تفسير فرات كوفى: 246 ح 331 ـ 333، مقتل الحسين ( عليه السلام ) ابن أعثم كوفى: 172، تفسير عيّاشى 2: 303 ح 120، عيون أخبار الرضا ( عليه السلام )1: 42 ح 2، أمالى مفيد: 116 ح 9، إرشاد مفيد 2: 15، 97 ـ 98، مناقب ابن شهرآشوب 4: 36 و 51، الاحتجاج 1: 417، 419 ـ 420 و ج 2: 23، بحارالأنوار 8: 13 ح 12، و ج 27: 204 ح 7 و ص 207 ح 15 و 16، و ج 44: 49 ح 5 و ص 90 ح 4 و ص 206 ح 2، و ج 45: 6 و 139، احقاق الحق 4: 288، و ج 9: 124 و 199 .
22۔ اس کےمنابع حاشيہ 12 ميں درج ہيں ۔
23۔ المستدرك على الصحيحين 3:167 ح 4730، إعلام الورى 1:294، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1: 52 و 60، اسد الغابة 6:227، ذخائر العقبى: 39، تهذيب الكمال 22:389 رقم 8488، مجمع الزوائد 9:203، كنز العمال 12:111 ح 34237، و ج 13: 674 ح 37725 .
شرح الأخبار 3 : 29 ، أمالى صدوق: 427 ح 622، عيون أخبار الرضا ( عليه السلام )2:42 ح 176، أمالى مفيد: 95 ح 4، أمالى طوسى: 427 ح 954، دلائل الإمامة: 146، روضة الواعظين 1:149، مناقب ابن شهرآشوب 3:325، الاحتجاج 2:103، كشف الغمة 2:84، 93، بحارالأنوار 37: 70 ح 38، و ج 43: 19 ـ 51 ح 2، 4، 8، 12، 26، 43، 44 ، 46 ، 48 ، احقاق الحق 10: 116 ـ 122، و ج 19: 54 ، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام )1:151 ح 26 و ص 152 ـ 157 ح 31 ـ 34 و 37 ، مسند فاطمة ( عليها السلام ) عطاردى: 353 ـ 356 ح 1 ـ 9 و ص 432 ح 63 .
2۴۔ حضرت فاطمہ زہرا(س) کى شہادت کى تاريخ کے سلسلہ ميں مختلف نظريات ہيں کہ جن ميں سے بعض کے منابع کو بيان کیا جا رہا ہے:
1۔وہ منابع کہ جن ميں ا ٓ پ کى تاريخ شہادت 3 جمادي الثانيہ، يا پيغمبر(ص) کى رحلت کے تين ماہ يا ۹۵ روزبعد، بيان کیا جاتا ہے:
تاريخ طبرى 3: 240، مقاتل الطالبيّين: 49، المستدرك على الصحيحين3: 177 ح 4761، دلائل النبوة بيهقى 6: 365، الاستيعاب: 926 و 928رقم 3411، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1: 83، اسد الغابة 6: 228 رقم 7175، كامل إبن أثير 2: 200، تهذيب الكمال 22: 389 ـ 390 رقم 8488 ، سير أعلام النبلاء 3: 430 رقم 114، البداية والنهاية 6: 327، مجمع الزوائد 9 : 212.مصباح المتهجد: 793، دلائل الإمامة: 79 ح 18 و ص 134 ح 43، إعلام الورى 1: 300، اقبال الأعمال 3: 161، كشف الغمة 2: 128، مصباح كفعمى: 522، بحارالأنوار 43: 9 ح 16 و ص 170 ح 11 و ص 188 ح 19 و ص 196 ح 26 و ص 213 ح 44 ـ 46، احقاق الحق 10: 460 ـ 462، و ج 19: 176، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 2: 784 ح 8 و ص 787 ـ 799 ح 17، 19، 21 ، 27 ، 31 ـ 33، 35، 36، 39، 40 و ص 1089 ح 5، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى 415 ح 24 و ص 419 ح 34 و ص 424 ح 45، و ص 427 ح 51 و ص 428 ح 54 و ص 431 ح 61 و ص 432 ح 63 .
2۔وہ منابع کہ جن ميں ا ٓ پ کى شہادت کو پيغمبر(ص) کى رحلت کے ۷ ۰، ۷ 2، ۷۵ روز بعد، بتايا گيا ہے:
مروج الذهب 2: 282، الاستيعاب: 926 و 928 رقم 3411، اسد الغابة 6: 228 رقم 7175، ذخائر العقبى: 52، تهذيب الكمال 22: 390 رقم 8488، البداية والنهاية 6: 327، مجمع الزوائد 9: 165 ـ 166.
كافى 1: 241 ح 5 و ص 458 ح 1، و ج 4: 561 ح 4، شرح الأخبار 3 :33 ح 973، كفاية الأثر: 65، دلائل الإمامة: 79 ح 18 و ص 134 ح43 ، روضة الواعظين 1: 143، مناقب ابن شهرآشوب 3: 357، كشفالغمة 2: 129، بحار الأنوار 43: 7 ح 8 ـ 10 و ص 9 ح 16 و ص 79 ح67 و ص 156 ح 3 و ص 180 ح 16 و ص 195 ح 22 و 24 و ص 212 ح41 ، احقاق الحق 10: 461 ـ 462، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 1:514 ح 3، و ج 2: 548 ح 4 و ص 788 ـ 797 ح 22، 24، 27، 29 و ص1115 ح 12، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 133 ح 59 و ص 401 ـ 418 ح 1، 4، 15 و 33 .
3۔ وہ منابع کہ جن ميں ا ٓ پ کى شہادت کو پيغمبر(ص) کى رحلت کے ۴ ۰ روز بعد، بتايا گيا ہے:
مروج الذهب 2 : 282 ، مقاتل الطالبيّين: 49، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1: 85 ، ذخائر العقبى: 52 .
كتاب سليم بن قيس 2: 870 ح 48 ، مناقب ابن شهرآشوب 3: 357 و 362، كشف الغمة 2: 126، بحارالأنوار 43: 7 ح 8 و ص 180 ح 16 و ص 191 ح 20 و ص 199 ح 29 و ص 212 ح 41 و ص 215 ح 45، عوالم العلوم فاطمه الزهراء ( عليها السلام ) 2: 548 ح 5 و ص 783 ح 6 و ص 786 ح 12 و ص 798 ح 32 و ص 1080 ح 13 و 14 و ص 1091 ح 6 و ص 1094 ح 10 و ص 1105 ح 5، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 400 ـ 427 ح 11، 15، 39 و 51.
۴۔ وہ منابع کہ جن ميں ا ٓ پ کى شہادت کو پيغمبر(ص) کى رحلت کے 1۰۰روز بعد، بتايا گيا ہے:
الاستيعاب: 928 الرقم 3411، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1:83، ذخائر العقبى: 52، تهذيب الكمال 22: 390 رقم 8488.كشف الغمة 2: 129، بحار الأنوار 43: 213 ح 44، احقاق الحق 10: 461، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 2: 796 و 797 ح 27 و 31، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 419 ح 34 و ص 433 ح 63 .
۵۔ وہ منابع کہ جن ميں ا ٓ پ کى شہادت کو پيغمبر(ص) کى رحلت کے دو ماہ بعد،بتايا گيا ہے:
المستدرك على الصحيحين 3 : 178 ح 4766 و 4767، دلائل النبوةبيهقى 6: 365، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1: 83، تهذيب الكمال22: 390 رقم 8488، سير أعلام النبلاء 3: 430 رقم 114، البداية والنهاية6: 327.
مصباح الأنوار: 259، بحارالأنوار 43: 213 ح 44 و ص 217 ح 49 و ج 81: 233 ح 8، احقاق الحق 19: 176، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 2: 782 ح 4 و ص 785 ح 9 و ص 797 ح 31، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 419 ح 34 و ص 430 ح 59 و 60 .
۶۔ وہ منابع کہ جن ميں ا ٓ پ کى شہادت کو پيغمبر(ص) کى رحلت کے ۴ ماہ بعد، بتايا گيا ہے:
إعلام الورى 1: 300، مناقب ابن شهرآشوب 3: 357، بحارالأنوار 43: 180 ح 16 ، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 2: 788 ح 20، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى 411 ح 14 و 15 .
۷۔ وہ منابع کہ جن ميں ا ٓ پ کى شہادت کو پيغمبر(ص) کى رحلت کے ۶ ماہ بعد، يا 3 رمضان المبارک بتايا جاتا ہے:
صحيح بخارى 5: 98 ح 4241، تاريخ طبرى 3: 240، مقاتل الطالبيّين: 49، المستدرك على الصحيحين 3: 177 ح 4761، حلية الأولياء 2 :
43 ، دلائل النبوة بيهقى 6: 365، الاستيعاب: 926، 928 رقم 3411،مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1: 80 و 83، اسد الغابة 6: 228، 229 رقم 7175، كامل ابن أثير 2: 200، شرح نهج البلاغه إبن أبي الحديد 6: 46،ذخائر العقبى: 52، تهذيب الكمال 22: 389 ـ 390 رقم 8488، سيرأعلام النبلاء 3: 430 رقم 114، البداية والنهاية 6: 325، 327، مجمعالزوائد 9: 211 .
مناقب ابن شهرآشوب 3: 363، كشف الغمة 2: 100، 128 ـ 129، بحارالأنوار 43: 183 ح 16 و ص 189 ح 19 و ص 200 ح 30 و ص 214ح 44، احقاق الحق 10: 455 ـ 459 و 461، و ج 19: 175 ـ 178، عوالمالعلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 2: 782 ح 1 ـ 3 و ص 785 ح 10 و ص 787 ـ799 ح 14، 15، 18، 27، 28 ، 30 ، 32 ، 37 ، 39 و 40 و ص 1062 ح 5 وص 1083 ح 1 و ص 1091 ح 6، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 397 ح 8و ص 412 ح 19 و ص 415 ح 23 و 24 و ص 416 ـ 431 ح 28، 31، 37،39 ، 46 ، 51 ـ 55 و 61 .
۸۔ وہ منابع کہ جن ميں ا ٓ پ کى شہادت کو پيغمبر(ص) کى رحلت کے ۸ ماہ بعد، بتايا گيا ہے:
مقاتل الطالبيّين: 49، المستدرك على الصحيحين 3: 177 ح 4761، دلائل النبوة بيهقى 6: 365، الاستيعاب: 926، 928 رقم 3411، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1: 83، ذخائر العقبى: 52، تهذيب الكمال 22: 390 رقم 8488، البداية والنهاية، 6: 327 .
بحارالأنوار 43: 213 ـ 215 ح 44 و 45، احقاق الحق 10: 461 ـ 462،و ج 19: 175، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 2: 783 ح 5 و ص 798ح 31، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 419 ح 34 و ص 428 ح 54 و ص 433ح 63 .
۹۔ وہ منابع کہ جن ميں ا ٓ پ کى شہادت کو ا 3 ربيع الثاني بتايا گيا ہے:مناقب ابن شهرآشوب 3: 357، بحارالأنوار 43: 180 ح 16، عوالمالعلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 2: 797 ح 30، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 411ح 15 .
1۰۔ وہ منابع کہ جن ميں ا ٓ پ کى شہادت کو پيغمبر(ص) کى رحلت کے ۵ ماہ بعد، يا 21 رجب المرجب بيان کیا جاتا ہے:
سير أعلام النبلاء 3: 427 رقم 114، مصباح المتهجد: 812، بحارالأنوار 43: 215 ح 47، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ): 2: 798 ح 34، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 406 ح 8 .
2۵۔ سوره احزاب 33 : 57 .
2۶۔ اس کے منابع حاشيہ 1 ميں بيان ہو چکے۔
2۷۔ ا ٓ يہ ٔ اکمال کى طرف اشارہ ہے: (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ الاِْسْلَـمَ دِينًا) سوره مائده 5: 3 .
2۸۔ مائة منقبة: 126 منقبة 61، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1: 60، فرائد السمطين 2: 607 ح 391، بحار الأنوار 27: 116 ح 94 ، احقاق الحق 10: 166، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 1: 171 ـ 172 ح 1 .
2۹۔ اس کے منابع حاشيہ 21 ميں بيان ہو چکے۔
3۰۔ اس کے منابع حاشيہ ۴ ميں بيان ہو چکے۔
31۔ اس کے منابع حاشيہ 12 ميں بيان ہو چکے
32۔ اس کے منابع حاشيہ 1 3 ميں بيان ہو چکے۔
33۔ سوره صفّ 61: 8
3۴۔ سوره احزاب 33 : 57 .
3۵۔ اس کے منابع مقدمہ ميں بيان ہوچکے ہيں۔
3۶۔ مقاتل الطالبيّين: 46، الإستيعاب: 928 رقم 3411، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1 : 51 و 59، اسد الغابة 6: 223 رقم 7175، شرح نهج البلاغة ابن أبي الحديد 6: 49 ـ 50، تهذيب الكمال 22: 386 رقم 8488، سير أعلام النبلاء 3: 425 رقم 114، البداية والنهاية 6: 325، كنز العمال 12: 105 ح 34208 .تفسير فرات كوفى: 246 ح 331 ـ 333، تفسير عيّاشى 2: 303 ح 120، عيون أخبار الرضا ( عليه السلام ) 1: 42 ح 2، كفاية الأثر: تقريباً همه آن، أمالى مفيد : 116 ح 9، مناقب ابن شهرآشوب 3: 357، كشف الغمة 2: 76، بحار الأنوار 8: 13 ح 12، و ج 22: 152 ح 4، و ج 27: 204 ح 7 و ص 207 ح 15 و 16، و ج 43: 16 ح 15 و ص 19 ح 19، و ج 102: 180 ، 200 ـ 201 و 220، احقاق الحق 4: 288، و ج 9: 124، 199 و 209، و ج 10: 12، 16 و 113، و ج 13: 77 و 79، و ج 19: 4 و 13، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام )1: 89 ح 2 و ص 125 ح 16 و ص 156 ـ 158 ح 1 و 2، و ج 2: 783 ح 7 و ص 900 ـ 902 و ص 1029 ـ 1030، مسند فاطمة ( عليها السلام ) عطاردى: 28 ـ 29 ح 28 و ص 431 ح 63 و ص 473 ـ 478 ح 1 ـ 6 .
3۷۔ تاريخ بغداد 14: 288 رقم 6725 و ذخائر العقبى: 26 و 36 و ميزان الإعتدال 1: 81 رقم 291 و لسان الميزان 1: 199 رقم 424 ميں رجوع فرمائيں۔تفسير فرات كوفى: 76 ح 49 و ص 211 ح 286 و ص 216 ح 290 و ص 321 ح 435، أمالى صدوق: 175 ح 178 و ص 546 ح 728، التوحيد: 118 ح 21، علل الشرائع 1: 218 ح 2، عيون أخبار الرضا ( عليه السلام ) 1: 116 ح 3، معاني الأخبار: 396 ح 53، دلائل الإمامة: 146 ح 52 و ص 148 ح 55، مناقب ابن شهرآشوب 3 : 335 ، كشف الغمة 2: 85، تفسير البرهان 4: 337 ح 8319، بحار الأنوار 4: 4 ح 4، و ج 8 : 119 ح 6 و ص 151 ح 89 و ص 189 ح 160، و ج 18: 351 ح 61، و ج 36: 361 ح 232، و ج 37 : 82 ح 49، و ج 43: 4 ـ 7 ح 2، 3 ، 5 ، 8 ، و ص 18 ح 17 و ص 43 ح 42، و ج 44: 241 ح 33، و ج 81: 112 ح 37، احقاق الحق 4: 475، و ج 10: 6، 7، 11، 16 ـ 18، 222 و 312، و ج 19: 5 ، 7 و 8، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام )1: 34 ـ 43 ح 1، 2، 5، 6، 9 ـ 11، 15، 17، 19 و 22، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 321 ـ 323 .
3۸۔ التفسير الكبير فخر الرازى 11: 313، تفسير غرائب القرآن 6 : 576.جوامع الجامع 4: 547، مجمع البيان 10: 412ـ414، تفسير روض الجِنان و روح الجَنان 20: 427 ـ 430، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام )1: 92 ، الميزان في تفسير القرآن 20: 370 ـ 371.
3۹۔ سوره شورى 42: 23 .
۴۰۔ فضائل أهل البيت ( عليهم السلام ): 179 ح 265 ، صحيح بخارى 6:44 ح 4818، جامع البيان 13: 32 ح 30680، مقاتل الطالبيّين: 52، المعجم الكبير 3: 47 ح 2641، المستدرك على الصحيحين 3:189 ح 4802، الكشف والبيان 8 : 310 ـ 314، شواهد التنزيل 2: 189 ـ 196 ح 822 ـ 828، الكشّاف 4: 220، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1: 1، التفسير الكبير فخر رازى 9 : 595 ، تفسير بيضاوى 5: 80، ذخائر العقبى: 25، تفسير غرائب القرآن 6: 74، مجمع الزوائد 9: 168، الفصول المهمّة 1: 155، الدر المنثور 7: 300، فتح القدير 4: 537، روح المعاني 25: 44 ـ 46 .
المحاسن: 144 ـ 145 ح 45 ـ 48 ، تفسير فرات كوفى: 387 ـ 399،مقتل الحسين ( عليه السلام ) ابن أعثم كوفى: 167، قرب الإسناد: 128 ح 450، تفسير قمّى 2: 275 ـ 276، كافى 1: 413 ح 7، و ج 8: 93 ح 66، جوامع الجامع 4: 48، مجمع البيان 9: 42 ـ 43، تفسير روض الجِنان و روح الجَنان 17: 122 ـ 127، متشابهات القرآن ومختلفه 2: 59 ـ 60، عمدة عيون صحاح الأخبار: 91 ـ 94 ح 38، 39، 44، 47، 59 و 66 و ص 417 ح 614، تأويل الآيات: 530 و 533، تفسير البرهان 4: 815 ـ 824، بحار الأنوار 23 ـ 228 ـ 253، و ج 26: 252 ح 22، و ج 37: 65 ح 36 و ص 100 ح 2، و ج 43: 361 ـ 362 ح 3 و 4، تفسير نور الثقلين 4: 571 ـ 577، تفسير كنز الدقائق 9: 255 ـ 273، احقاق الحق 3: 2 ـ 23، و ج 9: 92 ـ 101، و ج 14: 106 ـ 115، و ج 18: 336 ـ 338، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 1: 113 ، و ج 2: 572، 632، 705، الميزان في تفسير القرآن 18: 51 ـ 53، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 229 ح 1 .
۴1۔ اس کے منابع حاشيہ 2 ۴ ميں بيان ہو چکے۔
۴2۔ اس کے منابع حاشيہ ۴ ميں بيان ہو چکے۔
۴3۔ شرح نهج البلاغه ابن أبي الحديد 10: 265 .
اصول كافى 1: 459 ح 3، شرح الأخبار 3: 70، أمالى مفيد: 282 ح 7، نهج البلاغة صبحي صالح: 319 ـ 320 خطبه 202، أمالى طوسى: 109 ح 166، دلائل الإمامة: 138 ح 46، روضة الواعظين 1 : 152 ، مناقب ابن شهرآشوب 3: 364، كشف الغمة 2: 131، 132، بحارالأنوار 43: 193 ح 21 و ص 211 ح 40، الغدير 9: 509، احقاق الحق 10: 481، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام )2: 1121 ـ 1124 ح 1 ـ 3، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 394 ح 3 و ص 402 ح 2 .
۴۴۔ اس کے منابع حاشيہ ۴/1 ميں بيان ہو چکے۔
۴۵۔ كافى 1:458 ح 2، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 1:91 ح 5، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 293 ح 1 .
۴۶۔ أمالى صدوق: 176 ح 178، دلائل الإمامة: 75 ح 13، بشارةالمصطفى: 182 و 307، مناقب ابن شهرآشوب 3:199 ، عمدة عيون صحاح الأخبار 1:254 ح 319، الفضائل ابن شاذان: 524 ح 221، كشف الغمة 1:93، 107، و ج 2: 77، فرائد السمطين 2: 34 ح 371،ارشاد القلوب ديلمى 2 : 142 ، المحتضر: 109، بحار الأنوار 27: 74 ح 1 وص 104 ح 74، و ج 28: 38 ح 1، و ج 39: 284 ح 69، و ج 43: 172 ح 13، احقاق الحق 9: 201 و 267، و ج 16: 476، عوالم العلوم فاطمه الزهراء ( عليها السلام )2: 546 ، بيت الأحزان: 47، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 500 ـ 501 ح23 و 24 .
۴۷۔ مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1: 59 اور اس ميں يہ جملہ بھي ہے «بهجة قلبي ».
أمالى صدوق: 175 ح 178 و ص 575 ح 787، روضة الواعظين 1: 150، تفسير روض الجِنان و روح الجَنان 4: 318، بحار الأنوار 37: 85 ح 52، و ج 43: 24 ح 20 و ص 172 ح 13، احقاق الحق 4: 288، و ج 9 : 199 ، و ج 13: 77 و 79، و ج 19: 76، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) ، 1: 129 ح 23 و ص 148 ح 18، و ج 2: 542 ح 2، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 147 ح 4 و ص 334 ح 2 .
۴۸۔ اس کے منابع حاشيہ 3۶ ميں بيان ہو چکے۔
۴۹۔ سوره آل عمران 3: 43 .
۵۰۔ جامع البيان 3:339 ح 7031، حلية الأولياء 2: 42، الاستيعاب : 926 ، الكشّاف 1:362، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1: 79، التفسير الكبير فخر رازى 3: 218، الجامع لأحكام القرآن 4: 82، ذخائر العقبى: 44، الدرّ المنثور 2: 188، كنز العمّال 12: 145 ح 34411، فتح القدير 1: 338 ـ 340.
أمالى صدوق: 187 ح 196 و ص 575 ح 787، علل الشرائع 1: 216، معاني الأخبار: 107 ح 1، تفسير القمي 1: 102، تفسير عيّاشى 1:173 ـ 174 ، تفسير التبيان 2: 456، دلائل الإمامة: 81 ح 20 و ص 149 ح 58 و ص 152 ح 66، روضة الواعظين 1: 149، مجمع البيان 2: 289، تفسير روض الجِنان و روح الجَنان 4 : 318 ، بشارة المصطفى: 274 ح 89، مناقب ابن شهرآشوب 3: 322 و 359، تفسير البرهان 1 : 618 ، بحارالأنوار 37: 85 ح 52، و ج 43: 21 ـ 78 ح 10، 20، 25، 40، 46، 65، تفسير نور الثقلين 1:336 ـ 338 ح 127 ـ 136، تفسير كنز الدقائق 2: 83 ـ 85، احقاق الحق 10: 34 ـ 35، 38 ـ 39، 49 ـ 50، و ج 19، 18، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام ) 1: 88 ح 1 و ص 128 ح 23 و ص 130 ح 28 و ص 133 ح 38 و ص 140 ح 60، مسند فاطمه ( عليها السلام ) عطاردى: 23 ح 12 و ص 147 ح 4 و ص 150 ح 10، و ص 323 ح 1 و ص 324 ح 2 .
۵1۔ سوره آل عمران 3:103، شواهد التنزيل 1: 168 ـ 169 ح 177 ـ 180 ، مقتل الحسين ( عليه السلام ) خوارزمى 1: 59 .
تفسير فرات كوفى: 90ـ92 ح 70ـ76، تفسير قمى 1: 108، تفسير عيّاشى 1: 194 ح 122 و 123، معاني الأخبار: 90 ح 1 و 2 و ص 132 ح 1، أمالى طوسى : 272 ح 510، جوامع الجامع 1: 194، مجمع البيان 2: 355، تفسير روض الجِنان و روح الجَنان 4: 464، مناقب ابن شهرآشوب 2: 118 و ج 3: 75 ـ 76، عمدة عيون صحاح الأخبار 1: 116 ح 95 و ص 350 ح 490، كشف الغمّة 1: 311، تأويل الآيات الظاهرة: 122 ـ 123، تفسير البرهان 1: 668 ـ 672 ح 1861 ـ 1870، بحارالأنوار 24: 52 ح 5 و ص 82 ـ 85 ح 1 ـ 9، و ج 36: 15 ـ 21 ح 1 ـ 16 و ص 112 ـ 114 ح 60 و ص 258 ح 76 و ص 312 ح 157 و ص 317 ح 166 و ص 330 ح 188، تفسير نور الثقلين 1: 377 ـ 378 ح 303 ـ 308، تفسير كنز الدقائق 2: 184 ـ 185، احقاق الحق 3: 539 ـ 540، و ج 4: 285 و 288، و ج 5: 113 و 115، و ج 7: 159 ـ 160، و ج 9: 199 و 208، و ج 13: 77، 79 و 84، و ج 14 : 384 ـ 386 و 521 ـ 522، و ج 18: 228 ـ 229 و 473، و ج 20: 204 ـ 205، عوالم العلوم فاطمة الزهراء ( عليها السلام )1: 116 ح 2 .
۵2۔ اس کے منابع حاشيہ 3۸ ميں بيان ہو چکے۔
فهرست منابعـ إثبات الهداة ، للشيخ محمّد بن الحسن بن علي بن محمّد بن الحسين ، المعروف بالحرّ العاملي (1033ـ 1104) المطبعة العلميّة ، قم ، 1404هـ .ـ الاحتجاج ، لأبي منصور أحمد بن عليّ بن أبي طالب الطبرسي (من أعلام القرن السادس) دار الاُسوة ، قم ، الطبعة الثالثة ، 1422هـ .ـ إحقاق الحقّ وإزهاق الباطل ، للسيّد الشهيد ضياء الدِّين القاضي نور الله بن شريف الدِّين بن ضياء الدِّين نور الله بن محمّد شاه الحسيني المرعشي التستري (956 ـ 1019) منشورات مكتبة آية الله المرعشي النجفي ، قم .ـ الاختصاص ، لأبي عبدالله محمّد بن محمّد بن النعمان العُكبري البغدادي، المعروف بالشيخ المفيد (336 ـ 412) دار المفيد ، بيروت ، الطبعة الثانية، 1414هـ .ـ اختيار معرفة الرجال ، المعروف بـ «رجال الكشّي» لشيخ الطائفة أبي جعفر محمّد بن الحسن بن عليّ الطوسي (385 ـ 460) جامعة مشهد ، 1348ش .ـ الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد ، لأبي عبدالله محمّد بنمحمّد بن النعمان العُكبري البغدادي ، المعروف بالشيخ المفيد (336 ـ 412) مؤسّسة آل البيت(عليهم السلام) ، بيروت ، الطبعة الثانية، 1414هـ .ـ إرشاد القلوب ، المُنجي من عمل به من أليم العقاب ، لأبي محمّد الحسن بن أبي الحسن عليّ بن محمّد الديلمي (من أعلام القرن الثامن) دار الاُسوة للطباعة والنشر، قم ، الطبعة الثانية ، 1424هـ .ـ الاستيعاب في معرفة الأصحاب ، لأبي عمر يوسف بن عبدالله ابن محمّد بن عبد البرّ بن عاصم النمري (368 ـ 463) دار الأعلام ، الاُردن ـ عمّان ، الطبعة الاُولى ، 1423هـ .ـ اُسد الغابة في معرفة الصحابة ، لعزّ الدِّين أبي الحسن عليّ بن أبي الكرم محمّد بن محمّد بن عبد الكريم الشيباني ، المعروف بابن الأثير الجزري (555 ـ 630) دار الفكر ، بيروت ، الطبعة الاُولى ، 1419هـ .ـ إقبال الأعمال ، للسيّد رضيّ الدِّين عليّ بن موسى بن جعفر بن طاووس (589 ـ 664) ، نشر مكتبة الإعلام الإسلامي ، قم ، الطبعة الثانية ، 1419هـ .ـ الأمالي ، لشيخ الطائفة أبي جعفر محمّد بن الحسن بن عليّ بن الحسن الطوسي (385 ـ 460) مؤسّسة البعثة ، قم ، الطبعة الاُولى ، 1414هـ .ـ الأمالي ، لأبي جعفر محمّد بن عليّ بن الحسين بن موسى بن بابويه القمّي ، المعروف بالشيخ الصدوق (م381) مؤسّسة البعثة ، قم ، الطبعة الاُولى ، 1417هـ .ـ الأمالي ، لأبي عبدالله محمّد بن محمّد بن النعمان العكبري البغدادي ، الملقّب بالشيخ المفيد (338 ـ 413) منشورات جماعة المدرّسين،قم المقدّسة ، بالاُفست عن المطبعة الإسلاميّة ، طهران ، 1403هـ .ـ أنوار التنزيل وأسرار التأويل ، المعروف بـ «تفسير البيضاوي» لناصر الدِّين أبي سعيد عبدالله بن عمر بن محمّد بن عليّ البيضاوي الشافعي (م685) شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده ، مصر ، الطبعة الثانية ، 1388هـ .ـ بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمّة الأطهار(عليهم السلام) ، للعلاّمة المولى محمّد باقر بن محمّد تقي المجلسي (1037ـ 1110، 1111) دار الكتب الإسلاميّة ، طهران .ـ البداية والنهاية ، لأبي الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير بن ضوء ابن كثير بن زرع ، المعروف بابن كثير (700 ـ 774) دار الحديث ، القاهرة ، الطبعة الاُولى، 1413هـ .ـ البرهان في تفسير القرآن، للسيّد هاشم بن سليمان بن إسماعيل ابن عبد الجواد بن عليّ بن سليمان بن السيّد ناصر الحسيني البحراني التوبلي الكتكتاني (م1107) مؤسّسة البعثة ، قم ، الطبعة الاُولى ، 1415هـ .ـ بشارة المصطفى(صلى الله عليه وآله) لشيعة المرتضى(عليه السلام) ، لأبي جعفر عماد الدِّين محمّد بن أبي القاسم علي بن محمّد بن علي بن رستم بن يزدبان الطبري الآملي الكجّي (كان حيّاً 553) مؤسّسة النشر الإسلامي ، قم ، الطبعة الثالثة ، 1425هـ .ـ بيت الأحزان في ذكر أحوالات سيّدة نساء العالمين فاطمة الزهراء(عليها السلام) ، للشيخ عبّاس بن محمّد رضا بن أبي القاسم القمّي (1294ـ 1359) دار الحكمة ، قم، الطبعة الاُولى ، 1412هـ .ـ تاريخ الاُمم والملوك (تاريخ الطبري) لأبي جعفر محمّد بن جرير الطبري (224 ـ 310) ، بيروت بالاُفست عن الطبعة بالقاهرة ، 1387هـ .ـ تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) ، لأبي بكر أحمد بن علي بن ثابت ، المشهور بالخطيب البغدادي (392ـ 463) دار الغرب الإسلامي ، بيروت، الطبعة الاُولى، 1422هـ .ـ تاريخ اليعقوبي ، لأحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح الكاتب ، المعروف باليعقوبي ، دار صادر ، بيروت .ـ تأويل الآيات الظاهرة في فضائل العترة الطاهرة ، للسيّد شرف الدِّين عليّ الحسيني الأسترابادي النجفي (من مفاخر أعلام القرن العاشر) مؤسّسة النشر الإسلامي، قم ، الطبعة الاُولى ، 1409هـ .ـ التبيان في تفسير القرآن ، لشيخ الطائفة أبي جعفر محمّد بن الحسن بن علي بن الحسن الطوسي (385 ـ 460) مؤسّسة الأعلمي للمطبوعات ، بيروت ، بالاُفست عن مكتبة الأمين في النجف الأشرف .ـ تفسير جوامع الجامع ، لأبي علي الفضل بن الحسن بن الفضل الطبرسي (469 ـ 548) مؤسّسة انتشارات جامعة تهران ، الطبعة الثالثة، 1377 ش .ـ تفسير العيّاشي ، لأبي النضر محمّد بن مسعود بن محمّد بن عيّاش السلمي السمرقندي ، المعروف بالعيّاشي (من أعلام القرن الثالث الهجري) المكتبة العلميّة الإسلاميّة ، طهران ، الطبعة الاُولى ، 1380ـ 1381هـ .ـ تفسير غرائب القرآن ورغائب الفرقان ، لنظام الدِّين الحسن بن محمّد بن حسين القمّي النيسابوري (كان حيّاً 828) دار الكتب العلميّة، بيروت ، الطبعة الاُولى ، 1416هـ .ـ تفسير فرات ، لأبي القاسم فرات بن إبراهيم الكوفي . (من أعلام الغيبة الصغرى) مؤسّسة الطباعة والنشر لوزارة الثقافة والإرشاد الإسلامي ، طهران ، الطبعة الاُولى ، 1410هـ .ـ تفسير القمّي ، لأبي الحسن عليّ بن إبراهيم بن هاشم القمّي (من أعلام قرني 3 و 4) مطبعة النجف ، النجف ، الطبعة الثانية ، 1387هـ .ـ التفسير الكبير ، لأبي عبدالله محمّد بن عمر بن الحسن بن الحسين بن علي التيمي البكري الطبرستاني ، المعروف بالفخر الرازي (543 ـ 606) دار إحياء التراث العربي، بيروت ، الطبعة الثالثة ، 1420هـ .ـ تفسير كنز الدقائق وبحر الرغائب ، لميرزا محمّد المشهدي ابن محمّد رضا بن إسماعيل بن جمال الدِّين القمّي (م حدود 1125) مؤسّسة النشر الإسلامي ، قم ، الطبعة الاُولى ، 1407ـ 1413هـ .ـ تلخيص الشافي ، لشيخ الطائفة أبي جعفر محمّد بن الحسن بن عليّ الطوسي (385 ـ 460) مؤسّسة انتشارات المحبّين ، الطبعة الاُولى ، 1382 ش .ـ تهذيب الكمال في أسماء الرجال ، لجمال الدِّين أبي الحجّاج يوسف بن عبد الرحمن بن يوسف بن عبد الملك بن يوسف بن علي ابن أبي الزهر القضاعي ، المعروف بالمزّي (654 ـ 742) ، دار الفكر ، بيروت ، 1414هـ .ـ التوحيد ، لأبي جعفر محمّد بن عليّ بن الحسين بن موسى بن بابويه القمّي، المعروف بالشيخ الصدوق (م 381) منشورات جماعة المدرّسين ، قم .ـ جامع الأحاديث ، لجلال الدِّين عبد الرحمن بن أبي بكر بن محمّد بن سابق الدِّين الخضيري الأسيوطي ، المعروف بالسيوطي (849ـ 911) دار الفكر ، بيروت، 1414هـ .ـ جامع البيان عن تأويل آي القرآن (تفسير الطبري) لأبي جعفر محمّد بن جرير الطبري (224ـ 310) دار ابن حزم ، بيروت ، الطبعة الاُولى ، 1423هـ .ـ الجامع الكبير ، لأبي عيسى محمّد بن عيسى بن سورة بن موسى ابن الضحّاك السلمي (209 ـ 279) دار الغرب الإسلامي ، بيروت ، الطبعة الثانية ، 1998هـ .ـ الجامع لأحكام القرآن ، لأبي عبدالله محمّد بن أحمد بن أبي بكر بن فرح الأنصاري الخزرجي الأندلسي القرطبي (م 671) دار إحياء التراث العربي ، بيروت، 1405هـ .ـ الجواهر النقي ، المطبوع ضمن السنن الكبرى للبيهقي (ط هـ) لعلاء الدِّين بن علي بن عثمان المارديني ، الشهير بابن التركماني (م745) مطبعة مجلس دائرة المعارف النظاميّة ، حيدر آباد الدكن ، الطبعة الاُولى ، 1344هـ .ـ حلية الأولياء ، لأبي نعيم أحمد بن عبدالله بن أحمد بن إسحاق ابن موسى بن مهران الأصبهاني (336 ـ 430) دار الكتب العلميّة ، بيروت .ـ الخصال ، لأبي جعفر محمّد بن علي بن الحسين بن موسى بن بابويه القمّي، المعروف بالشيخ الصدوق (م 381) مؤسّسة النشر الإسلامي ، قم ، الطبعة الخامسة، 1416هـ .ـ الدرّ المنثور في التفسير بالمأثور ، لجلال الدِّين عبد الرحمن ابنأبي بكر بن محمّد بن أبي بكر بن عثمان بن محمّد بن خضر بن أيّوب بن محمّد همام الدِّين الحضيري، المعروف بالسيوطي (849 ـ 911) دار إحياء التراث العربي، بيروت، الطبعة الاُولى 1421هـ .ـ دلائل الإمامة ، لأبي جعفر محمّد بن جرير بن رستم الطبري (من أعلام القرن الخامس) مؤسّسة البعثة ، قم ، الطبعة الاُولى ، 1413هـ .ـ دلائل النبوّة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة ، لأبي بكر أحمد ابن الحسين بن علي بن موسى البيهقي الخسروجردي (384 ـ 458) دار الكتب العلميّة ، بيروت ، الطبعة الاُولى ، 1405هـ .ـ ذخائر العقبى في مناقب ذوي القربى ، للعلاّمة الحافظ محبّ الدِّين أبي العبّاس أحمد بن عبدالله بن أبي بكر بن محمّد الطبري (615 ـ 794) ، مكتبة القدسي، القاهرة، 1356 هـ .ـ روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، لشهاب الدِّين أبي الفضائل محمّد بن عبدالله الحسيني الآلوسي (1217ـ 1270) دار إحياء التراث العربي، بيروت ، الطبعة الاُولى ، 1420هـ .ـ روضة الواعظين ، لأبي علي محمّد بن الحسن بن علي بن أحمد بن علي الفتّال النيسابوري الفارسي (م 508) المطبعة أمير ـ قم ، الطبعة الاُولى ، 1368 ش .ـ روضُ الجِنان وروحُ الجَنان في تفسير القرآن ، المشهور بـ «تفسير الشيخ أبو الفتوح الرازي» ، لجمال الدِّين أبي الفتوح الحسين بن عليّ بن محمّد بن أحمد بن الحسين بن أحمد الخزاعي الرازي النيسابوري (م حدود 554) بنياد پژوهشهاى اسلامى آستان قدس رضوى (مؤسّسة الدراسات الإسلاميّة التابعة للروضة الرضويّة) مشهد ، 1371ش .ـ سنن أبي داود ، لسليمان بن الأشعث بن عمرو بن عامر السجستاني (202 ـ 275) دار ابن حزم ، بيروت ، الطبعة الاُولى ، 1418هـ .ـ سنن الترمذي (الجامع الصحيح) لأبي عيسى محمّد بن عيسى ابن سورة بن موسى بن الضحاك السلمي (209 ـ 279) دار إحياء التراث العربي ، بيروت ، 1415هـ .ـ السنن الكبرى ، لأبي بكر أحمد بن الحسين بن علي بن موسى البيهقي الخسروجردي (384 ـ 458) دار الفكر ، بيروت ، الطبعة الاُولى ، 1419هـ .ـ سير أعلام النبلاء ، لأبي عبدالله شمس الدِّين محمّد بن أحمد ابن عثمان بن قايماز التركماني الفارقي ، المشتهر بالذهبي (673 ـ 748) ، دار الفكر ، بيروت، الطبعة الاُولى ، 1417هـ .ـ الشافي في الإمامة ، للشريف المرتضى علي بن الحسين بن موسى بن محمّد بن موسى بن إبراهيم بن موسى الكاظم بن جعفر الصادق(عليهم السلام)(355 ـ 436هـ) مؤسّسة الصادق ، طهران ، الطبعة الثانية ، 1410هـ .ـ شرح الأخبار في فضائل الأئمّة الأطهار(عليهم السلام) ، للقاضي النعمان ابن محمّد التميمي المغربي (م 363) ، مؤسّسة النشر الإسلامي، الطبعة الاُولى ، 1409هـ .ـ شرح نهج البلاغة ، لعبد الحميد بن هبة الله بن محمّد بن محمّد ابن الحسين المدائني ، المعروف بابن أبي الحديد (586 ـ 655) مؤسّسة إسماعيليان، قم .ـ شواهد التنزيل لقواعد التفضيل في الآيات النازلة في أهل البيت صلوات الله وسلامه عليهم ، لأبي القاسم عبيد الله بن عبدالله بن أحمد بن محمّد بن حسكان، المعروف بالحاكم الحسكاني (من أعلام القرن الخامس الهجري) مؤسّسة الطبع والنشر التابعة لوزارة الثقافة والإرشاد الإسلامي ، الطبعة الاُولى ، 1411هـ .ـ صحيح البخاري ، لأبي عبدالله محمّد بن إسماعيل بن إبراهيم ابن المغيرة بن بَردزبَة البخاري الجعفي (194 ـ 256) دار الفكر للطباعة والنشر ، 1419هـ .ـ صحيح مسلم ، لأبي الحسين مسلم بن الحجّاج بن مسلم القشيري النيسابوري (206ـ 261) دار ابن حزم ، بيروت ، الطبعة الاُولى ، 1416هـ .ـ علل الشرائع ، لأبي جعفر محمّد بن عليّ بن الحسين بن موسى بن بابويه القمّي، المعروف بالشيخ الصدوق (م381) المكتبة الحيدريّة ومطبعتها ، النجف الأشرف ، 1385هـ .ـ عمدة عيون صحاح الأخبار في مناقب إمام الأبرار ، لأبي الحسين يحيى بن الحسن بن الحسين بن علي بن محمّد بن البطريق الأسدي الحلّي ، المعروف بابن البطريق (533 ـ 600) مؤسّسة النشر الإسلامي ، قم المشرّفة ، 1407هـ .ـ عوالم العلوم والمعارف والأحوال من الآيات والأخبار والأقوال ، للشيخ عبدالله بن نور الله البحراني الاصفهاني (من أعلام تلامذة المجلسي) مؤسّسة الإمام المهدي(عليه السلام) ، قم المقدّسة ، الطبعة الاُولى ، 1405ـ 1416هـ .ـ عيون أخبار الرضا(عليه السلام) ، لأبي جعفر محمّد بن عليّ بن الحسين ابنموسى بن بابويه القمّي ، المعروف بالشيخ الصدوق (م381) دار العلم ، قم ، 1377هـ .ـ الغدير في الكتاب والسنّة والأدب ، للشيخ عبد الحسين أحمد الأميني النجفي (1320ـ 1390) ، مركز الغدير للدراسات الإسلاميّة ، قم ، الطبعة الاُولى، 1416هـ .ـ فتح القدير الجامع بين فنّي الرواية والدراية من علم التفسير ، لمحمّد بن علي بن محمّد بن عبدالله بن الحسن بن محمّد بن صلاح بن علي بن عبدالله الشوكاني (1173ـ 1250) دار الفكر ، بيروت ، الطبعة الثالثة ، 1393هـ .ـ فرائد السمطين في فضائل المرتضى والبتول والسبطين والأئمّة من ذريّتهم(عليهم السلام) ، للشيخ إبراهيم بن محمّد بن المؤيّد أبو بكر بن محمّد بن حمّويه الجويني الخراساني ، المعروف بالحموي وابن حمّويه (644 ـ 722) مؤسّسة المحمودي للطباعة والنشر ، الطبعة الاُولى ، 1398هـ .ـ الفضائل ، للشيخ سديد الدين أبي الفضل شاذان بن جبرئيل بن أبي طالب القمّي (من أعلام القرن السادس) مؤسّسة وليّ عصر ، قم ، الطبعة الاُولى ، 1422هـ .ـ فضائل أهل البيت(عليهم السلام) من كتاب فضائل الصحابة، لأبي عبدالله أحمد بن محمّد بن حنبل (164 ـ 241) و استدراك عبدالله بن أحمد بن محمّد بن حنبل (290) وأبي بكر أحمد بن جعفر بن حمدان القطيعي (368) المجمع العالمي للتقريب بين المذاهب الإسلاميّة ، الطبعة الاُولى ـ 1425 هـ .ـ قرب الإسناد ، لأبي العبّاس عبدالله بن جعفر بن الحسين بن مالكبن جامع الحميري القمّي (من أعلام القرن الثالث) مؤسّسة آل البيت(عليهم السلام)لإحياء التراث ، بيروت ، الطبعة الاُولى ، 1413هـ .ـ الكافي ، لثقة الإسلام أبي جعفر محمّد بن يعقوب بن إسحاق الكليني الرازي (م 329) دار الكتب الإسلاميّة ، طهران ، الطبعة الثالثة ، 1388 ـ 1389هـ .ـ الكامل في التاريخ ، لعزّ الدِّين أبي الحسن علي بن محمّد بن محمّد بن عبد الكريم بن عبد الواحد الشيباني ، المعروف بابن الأثير (555 ـ 630) دار الكتاب العربي ، بيروت ، الطبعة الثالثة ، 1422هـ .
ـ كتاب سليم بن قيس الهلالي ، لأبي صادق سليم بن قيس الهلالي العامري الكوفي (م76 ) مطبعة نگارش ، الطبعة الثالثة ، 1423هـ .ـ الكشّاف عن حقائق غوامض التنزيل وعيون الأقاويل في وجوه التأويل ، لأبي القاسم جار الله محمود بن عمر بن محمّد الخوارزمي الزمخشري (467 ـ 538) دار الكتاب العربي ، بيروت ، 1366هـ .ـ كشف الغمّة في معرفة الأئمّة(عليهم السلام) ، لبهاء الدِّين عليّ بن عيسى ابن أبي الفتح الإربلي (م693) المطبعة العلميّة ، قم، بالاُفست عن مكتبة بني هاشم ، تبريز ، 1381هـ .ـ الكشف والبيان ، المعروف تفسير الثعلبي ، لأبي إسحاق أحمد ابن محمّد بن إبراهيم الثعلبي النيسابوري (م 427) دار إحياء التراث العربي ، بيروت ، الطبعة الاُولى ، 1422هـ .ـ كفاية الأثر في النصّ على الأئمّة الاثني عشر ، لأبي القاسم عليّ ابن محمّد بن عليّ الخزّاز القمّي الرازي (من أعلام القرن الرابع) انتشارات بيدار،مطبعة الخيّام ، قم ، 1410هـ .ـ كنز العمّال في سنن الأقوال والأفعال ، لعليّ بن حسام الدين بن عبد الملك الجونبوري ، المشهور بالمتّقي الهندي (885 ـ 975) مؤسّسة الرسالة ، بيروت ، 1409هـ .ـ لسان الميزان ، لشهاب الدِّين أحمد بن علي بن محمّد بن محمّد بن علي بن أحمد، الشهير بابن حجر العسقلاني (773 ـ 852) دار إحياء التراث العربي ، بيروت ، الطبعة الاُولى ، 1416هـ .ـ مائة منقبة من مناقب أمير المؤمنين عليّ بن أبي طالب والأئمّة من ولده(عليهم السلام)من طريق العامّة ، لأبي الحسن محمّد بن أحمد بن عليّ بن الحسن بن شاذان القمّي (كان حيّاً 412) مدرسة الإمام المهدي(عليه السلام) ، قم المقدّسة ، الطبعة الاُولى ، 1407هـ .ـ متشابه القرآن ومختلفه ، لأبي جعفر محمّد بن عليّ بن شهرآشوب السروي المازندراني (م 588) انتشارات بيدار .ـ مجمع البيان في تفسير القرآن ، لأبي علي الفضل بن الحسن بن الفضل الطبرسي (469 ـ 548) دار الفكر ، بيروت ، 1414هـ .ـ مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ، لنور الدِّين عليّ بن أبي بكر بن سليمان الهيثمي الشافعي (735 ـ 807) دار الكتب العلميّة ، بيروت ، 1408هـ .ـ المحاسن ، لأحمد بن أبي عبدالله محمّد بن خالد بن عبد الرحمن بن محمّد بن عليّ البرقي الكوفي (م274 أو 280) دار الكتب الإسلاميّة ، قم .ـ مروج الذهب ومعادن الجوهر ، لأبي الحسن علي بن حسين ابن علي المسعودي (م 645) منشورات دار الهجرة ، قم ، الطبعة الثانية ، 1404هـ .ـ المستدرك على الصحيحين ، لأبي عبدالله محمّد بن عبدالله بن حمدويه بن نعيم بن الحكيم الضبّي الطهماني النيسابوري الشافعي ، المعروف بابن البيّع (321 ـ 405) دار الكتب العلميّة ، بيروت ، الطبعة الاُولى ، 1411هـ .ـ المسند ، لأبي عبدالله أحمد بن محمّد بن حنبل بن هلال الشيباني (164ـ 241) دار الفكر ، بيروت ، الطبعة الثانية ، 1414هـ .ـ مسند فاطمة الزهراء(عليها السلام)، للشيخ عزيز الله العطاردي ، انتشارات عطارد ، الطبعة الاُولى ، 1412هـ .ـ مشكل الآثار ، لأبي جعفر أحمد بن محمّد بن سلامة بن سلمة الأزدي الطحاوي المصري الحنفي (229 ـ 321) دار الكتب العلميّة ، بيروت ، الطبعة الاُولى، 1415هـ .ـ مصباح الأنوار في فضائل إمام الأبرار ، للشيخ هاشم بن محمّد ، من مخطوطات مكتبة العمومي آية الله المرعشي النجفي ، الرقم 5195 .مصباح الكفعمي ، أو جنّة الأمان الواقية وجنّة الأيمان الباقية، لتقيّ الدِّين إبراهيم بن علي بن الحسن بن محمّد بن صالح بن إسماعيل الحارثي الكفعمي العاملي (840 ـ 905) منشورات الرضي، زاهدي .ـ مصباح المتهجّد ، لأبي جعفر محمّد بن الحسن بن عليّ بن الحسن الطوسي ، المشتهر بشيخ الطائفة والشيخ الطوسي (385 ـ 460) مؤسّسة فقه الشيعة ، بيروت ، الطبعة الاُولى ، 1411هـ .ـ معاني الأخبار ، لأبي جعفر محمّد بن علي بن الحسين بن موسى بن بابويه القمّي ، المعروف بالشيخ الصدوق (م381) مؤسّسة النشر الإسلامي ،قم ، الطبعة الثالثة ، 1416هـ .ـ معجم أحاديث الإمام المهدي(عليه السلام) ، للهيئة العلميّة في مؤسّسة المعارف الإسلاميّة ، الطبعة الاُولى ، 1411هـ .ـ المعجم الكبير ، لأبي القاسم سليمان بن أحمد بن أيّوب اللّخمي الطبراني (260 ـ 360) دار إحياء التراث العربي ، بيروت ، الطبعة الثانية ، 1404هـ .ـ مقاتل الطالبيّين ، لعليّ بن الحسين بن محمّد بن أحمد بن الهيثم بن عبد الرحمان ، المعروف بأبي الفرج الأصبهاني (284 ـ 356) دار المعرفة ، بيروت .ـ مقتل الحسين(عليه السلام) ، لأبي المؤيّد أخطب خوارزم الموفّق بن أحمد بن محمّد المكّي الخوارزمي (م 568) مكتبة المفيد ، قم، بالاُفست، عن الطبعة في النجف الأشرف 1367 هـ .ـ مقتل الحسين(عليه السلام)(وقعة الطف) للمؤرّخ لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف بن سليم الأزدي (م 158) المطبعة العلميّة ، قم ، الطبعة الثانية ، 1364ش .ـ مقتل الحسين(عليه السلام)وقيام المختار ، لأبي محمّد أحمد بن أعثم الكوفي ، انتشارات أنوار الهدى ، قم ، الطبعة الثانية ، 1424هـ .ـ المناقب ، لأبي المؤيّد أخطب خوارزم الموفّق بن أحمد بن محمّد المكّي الخوارزمي (م568) ، مؤسّسة النشر الإسلامي ، قم ، الطبعة الثالثة ، 1417هـ .ـ مناقب آل أبي طالب(عليهم السلام) ، لأبي جعفر محمّد بن عليّ بن شهرآشوبالسروي المازندراني (م588) منشورات علاّمة ، المطبعة العلميّة ، قم .ـ ميزان الاعتدال في نقد الرِّجال ، لأبي عبدالله شمس الدِّين محمّد بن أحمد بن عثمان بن قايماز التركماني الفارقي ، المشتهر بالذهبي (673ـ 748) ، دار الفكر، بيروت .ـ الميزان في تفسير القرآن ، للعلاّمة السيّد محمّد حسين الطباطبائي (1321ـ 1403) مؤسّسة مطبوعاتي إسماعيليان ، قم ، الطبعة الثالثة ، 1393هـ .ـ نهج البلاغة ، وهو مجموع ما اختاره أبو الحسن محمّد بن الحسين بن موسى بن محمّد بن موسى بن إبراهيم بن الإمام موسى بن جعفر(عليهم السلام) ، المعروف بـ «الشريف الرضي» (359 ـ 406) من كلام أمير المؤمنين عليّ بن أبي طالب(عليه السلام) ، تحقيق الدكتور صبحي الصالح، دار الهجرة ، قم .ـ نهج الحقّ وكشف الصدق ، لجمال الدِّين أبي منصور الحسن ابن يوسف بن عليّ بن محمّد بن المطهّر الأسدي ، المعروف بالعلاّمة الحلّي (648ـ 726) مؤسّسة دار الهجرة ، قم ، الطبعة الاُولى ، 1407هـ
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.