باب الحوائج
آپ کے دو مشهور لقب تھے “جواد ” اور “تقی” ،آپ کی ولادت باسعادت رمضان المبارک ۱۹۵ھ کو مدینہ منورہ میں هوئی، آپ نے خلیفہ مامون کے زمانہ میں اپنی زندگی کا آغاز کیا وہ مامون جو اھل بیت (ع) اور ان کی ولایت کا جھوٹا مظاھرہ کر رھا تھا۔اور جس وقت امام رضا علیہ السلام کی وفات واقع هوئی تو لوگوں کی زبان پر امام علیہ السلام کے قتل کا الزام مامون پر لگایا جا رھا تھا چنانچہ مامون نے اس افواہ کو جھوٹا ثابت کرنے اور عملی طور پر دلیل قائم کرنے کی کوشش کی اور اس نے امام تقی علیہ السلام سے محبت کا اظھار کیا اوراپنی بیٹی امّ الفضل سے آپ کی شادی کرنے کا ارادہ کیا تاکہ دونوں خاندانوں میں جدید رشتہ داری کی بنا پر محبت پیدا هو جائے، لیکن اس کام کے لئے دوسرے عباسیوں نے اپنی ناراضگی ظاھر کی اور اصرار کیا کہ اس شادی سے صرف نظر کرے او ریہ مطالبہ کیا کہ علویوں کے ساتھ گذشتہ خلفاء کا رویہ اختیار کرے یعنی ان کے ساتھ جنگ و دشمنی کی جائے،لیکن مامون نے ان کی یہ بات نہ سنی اور ان کو جنگ و دشمنی سے روکا کیونکہ اسے آل علی (ع) سے قطع تعلق کی کوئی خاص وجہ نھیں دکھائی دی اور ان کے سامنے وضاحت کی کہ اپنی بیٹی کی شادی کسی عاطفہ او رمحبت کی بنا پر نھیں کر رھا هوں بلکہ امام علیہ السلام کی شخصیت و فضیلت تمام علماء اور ماھرین پر واضح ھے درحالیکہ ان کا سن بھی کم ھے۔لیکن جب ان لوگوں نے مامون کو اپنے فیصلہ پر مصمم پایا تو کھا کہ امام علیہ السلام کو مزید علم و فقہ میں مھارت حاصل کرنے دو اس وقت مامون نے کھا:”یہ اھل بیت (ع) کی ایک فرد ھیں ان کا علم خدا کی طرف سے هوتا ھے اور اگر تم نھیں مانتے تو ان کا امتحان کرلو تاکہ تم پر بھی حقیقت واضح هوجائے۔”چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ امام علیہ السلام کا امتحان لیا جائے اور ان میں سے بعض لوگ امتحان کے لئے تیار هو گئے، اور قاضی القضاة یحيٰ بن اکثم کو آمادہ کیا کہ وہ امام علیہ السلام سے سوال کرکے شکست دیدے، چنانچہ امتحان کی تاریخ پهونچ گئی اور امام و یحيٰ بن اکثم کے درمیان مناظرہ هوا جس کے نتیجہ میں یحيٰ بن اکثم کو منھ کی کھانی پڑی اور امام علیہ السلام کی شخصیت فقہ اسلامی کے میدان میں روز روشن کی طرح عیاں هوگئی،اس مناظرہ میں امام علیہ السلام کی قابلیت کو دیکھ کر مامون نے اپنی لڑکی سے شادی کردی اور امام و مامون کے درمیان تعلقات بہتر هوگئے۔ (ظاھراً)لیکن جب مامون کے بعد معتصم کو خلافت ملی تو اس نے امام علیہ السلام کو بغداد بلا لیا اور آپ کو ایک مخصوص گھر میں رکھا گیا لیکن آپ کی وفات ان مبھم حالات میں هوئی جن کی بنا پر معتصم پر الزام لگایا جانے لگا کہ اس نے ام الفضل کے ذریعہ امام علیہ السلام کو زھر پلایا۔اور چونکہ امام علیہ السلام معتصم کے زیر نظر تھے لہٰذا بغداد کے ان حالات میں بھی امام علیہ السلام نے وہ علمی آثار چھوڑے جن سے مشهور اسلامی کتابیں منور ھیں۔آپ کی شھادت ذی الحجہ ۲۲۰ھ میں هوئی اور آ پ کو آپ کے دادا کے پاس “کاظمیہ” (کاظمین) میں دفن کیا گیا۔