نعمتيں اور انسان كي ذمہ دارى

166

((فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ حَلاَلاً طَيبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ إِنْ كُنْتُمْ إِياہُ تَعْبُدُونَ۔)) 1
“لہٰذا اب تم اللہ كے دئے ھوئے رزق حلال و پاكيزہ كو كھاؤ اور اس كي عبادت كرنے والے بنو، اور اس كي نعمتوں كا شكريہ بھي ادا كرتے رھواگر تم خدا كے عبادت گزار ھو”۔
خداوند متعال نے اپنے خاص لطف و كرم، رحمت ومحبت اور عنايت كي بنا پر انسان كو ايسي نعمتوں سے سرفراز ھونے كا اھل قرار ديا جن سے اس كائنات ميں دوسري مخلوقات يھاں تك كہ مقرب فرشتوںكو بھي نھيں نوازا۔ انسان كے لئے خداوندعالم كي نعمتيں اس طرح موجود ھيں كہ اگر انسان ان كو حكم خدا كے مطابق استعمال كرے تو اس كے جسم اور روح ميں رشد و نمو پيدا ھوتا ھے او ردنياوي اور اُخروي زندگي كي سعادت و كاميابي حاصل ھوتي ھے۔ قرآن مجيد نے خدا كي طرف سے عطا كردہ نعمتوں كے بارے ميں 12 اھم نكات كي طرف توجہ دلائي ھے:
1۔ نعمت كي فراواني اور وسعت۔
2۔ حصول نعمت كا راستہ۔
3۔ نعمت پر توجہ ۔
4۔نعمت پر شكر۔
5۔نعمت پر ناشكري سے پرھيز۔
6۔نعمتوں كا بے شمار ھونا۔
7۔نعمت كي قدر كرنے والے۔
8۔نعمتوں ميں اسراف كرنا۔
9۔نعمتوں كو خرچ كرنے ميں بخل سے كام لينا۔
10۔نعمت كے چھن جانے كے اسباب و علل۔
11۔اتمام ِنعمت ۔
12۔نعمت سے صحيح فائدہ اٹھانے كا انعام۔
اب ھم قارئين كي توجہ قرآن مجيد كے بيان كردہ ان عظيم الشان بارہ نكات كي طرف مبذول كراتے ھيں:
1۔ نعمت كي فراواني اور وسعت
زمين و آسمان كے در ميان پائي جانے والي تمام چيزيں كسي نہ كسي صورت ميں انسان كي خدمت اور اس كے فائدے كے لئے ھيں، چاند، سورج، ايك جگہ ركنے والے اور گردش كرنے والے ستارے، فضا كي دكھائي دينے والي اور نہ دكھائي دينے والي تمام كي تمام چيزيں خداوندعالم كے ارادہ اور اس كے حكم سے انسان كو فائدہ پہنچارھي ھيں۔پھاڑ، جنگل، صحرا، دريا، درخت و سبزے، باغ، چشمے، نھريں، حيوانات اور ديگر زمين پر پائي جانے والي بھت سي مخلوقات ايك طرح سے انسان كي زندگي كي ناؤ كو چلانے ميں اپني اپني كاركردگي ميں مشغول ھيں۔خداوندعالم كي نعمتيں اس قدر وسيع، زيادہ، كامل اور جامع ھيں كہ انسان كو عاشقانہ طور پر اپني آغوش ميں بٹھائے ھوئے ھيں، اور ايك مھربان اور دلسوز ماں كي مانند، انسان كے رشد و نمو كے لئے ھر ممكن كوشش كررھي ھيں۔انسان كو جن ظاھري و باطني نعمتوں كي ضرورت تھي خداوندعالم نے اس كے لئے پھلے سے ھي تيار كرركھي ھے، اور اس وسيع دسترخوان پر كسي بھي چيز كي كمي نھيں ھے۔
چنانچہ قرآن كريم ميں اس سلسلے ميں بيان ھوتا ھے:
(( اٴَلَمْ تَرَوْا اٴَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْاٴَرْضِ وَاٴَسْبَغَ عَلَيكُمْ نِعَمَہُ ظَاھرةً وَبَاطِنَةً۔۔۔))۔2
“كيا تم لوگوں نے نھيں ديكھا كہ اللہ نے زمين و آسمان كي تمام چيزوں كو تمھارے لئے مسخر كر ديا ھے اور تمھارے لئے تمام ظاھري اور باطني نعمتوں كو مكمل فرمايااور لوگوں ميں بعض ايسے بھي ھيں جو علم ہدايت اور روشن كتا ب كے بغير بھي خدا كے بارے ميں بحث كرتے ھيں “۔
2۔ حصول نعمت كا راستہ
رزق كے حصول كے لئے ھر طرح كا صحيح كام اور صحيح كوشش كرنا؛ بے شك خداوندعالم كي عبادت اور بندگى ھے؛ كيونكہ خدائے مھربان نے قرآن مجيد كي بھت سي آيات ميں اپنے بندوں كو زمين كے آباد كرنے اور حلال روزي حاصل كرنے، كسب معاش، جائز تجارت اورخريد و فروخت كا حكم ديا ھے، اور چونكہ خداوندعالم كے حكم كي اطاعت كرنا عبادت و بندگى لہٰذا اس عبادت و بندگى كا اجر و ثواب روز قيامت (ضرور) ملے گا۔تجارت، خريد و فروخت، اجارہ (كرايہ)، وكالت، مساقات (سينچائي)، زراعت، مشاركت، صنعت، تعليم، خطاطى، خياطى، رنگ ريزى، دباغي ( كھال كو گلانا) اور دامداري(بھيڑ بكرياں وغيرہ پالنا)جيسے اسلامي موضوعات اور انساني قوانين كي رعايت كرتے ھوئے مادي نعمتوں كو حاصل كرنے كے لئے كوشش كرنے والاانسان خدا كي نظر ميں محبوب ھے، ليكن ان راستوںكے علاوہ حصول رزق كے لئے اسلامي قوانين كے مخالف اور اخلاقي و انسانيت كے خلاف راستوں كو اپنانے والوں سے خدا نفرت كرتاھے۔
قرآن مجيد اس مسئلہ كے بارے ميں ارشاد فرماتا ھے:
((يااٴَيھا الَّذِينَ آمَنُوا لاَتَاٴْكُلُوا اٴَمْوَالَكُمْ بَينَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ اٴَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ))۔ 3
“اے ايمان والو! آپس ميں ايك دوسرے كے مال كو ناحق طريقہ سے نہ كھايا كرو۔مگر يہ كہ باھمي رضامندي سے معاملہ كرلو “۔
((يااٴَيھا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْاٴَرْضِ حَلاَلًا طَيبًا وَلاَتَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيطَانِ إِنَّہُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ))۔ 4
“اے انسانو! زمين ميں جو كچھ بھي حلال و پاكيزہ ھے اسے استعمال كرو اور شيطان كے نقش قدم پر مت چلو بے شك وہ تمھاراكھلا دشمن ھے “۔
بھر حال خداوندعالم كي طرف سے جو راستے حلال اور جائز قرار دئے گئے ھيںاگر ان جائز اور شرعي طريقوں سے روزي حاصل كي گئي ھے اور اس ميں اسراف و تبذير سے خرچ نھيں كيا گيا تو يہ حلال روزي ھے اور اگر غير شرعي طريقہ سے حاصل ھونے والي روزي اگرچہ وہ ذاتي طور پر حلال ھو جيسے كھانے پينے كي چيزيں؛ تو وہ حرام ھے اور ان كا اپنے پاس محفوظ ركھنا منع ھے اور ان كے اصلي مالك كي طرف پلٹانا واجب ھے۔
3۔ نعمت پر توجہ
كسي بھي نعمت سے بغير توجہ كئے فائدہ اٹھانا، چوپاؤں، غافلوں اور پاگلوں كاكام ھے، انسان كم از كم يہ تو سوچے كہ يہ نعمت كيسے وجود ميں آئي ھے يا اسے ھمارے لئے كس مقصد كي خاطر پيدا كيا گيا؟ اس كے رنگ، بو اور ذائقہ ميں كتنے اسباب و عوامل پائے گئے ھيں، المختصر يہ كہ بغير غور و فكر كئے ايك لقمہ روٹي يا ايك لباس، يا زراعت كے لائق زمين، يا بھتا ھوا چشمہ، يا بھتي ھوئي نھر، يا مفيد درختوں سے بھرا جنگل، اور يہ كہ كتنے كروڑ يا كتنے ارب عوامل و اسباب كي بنا پر كوئي چيز وجود ميں آئي تاكہ انسان زندگي كے لئے مفيد واقع ھو ؟!!صاحبان عقل و فھم اور دانشور اپنے پاس موجود تمام نعمتوں كو عقل كي آنكھ اور دل كي بينائي سے ديكھتے ھيں تاكہ نعمت كے ساتھ ساتھ، نعمت عطا كرنے والے كے وجود كا احساس كريں اور نعمتوںكے فوائد تك پہنچ جائيں، نيز نعمت سے اس طرح فائدہ حاصل كريں جس طرح نعمت كے پيدا كرنے والے كي مرضي ھو۔
قرآن مجيد جو كتاب ہدايت ھے ؛اس نے لوگوں كوخداوندعالم كي نعمتوں پر اس طرح متوجہ كياھے:
(( يااٴَيھاالنَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيكُمْ ھل مِنْ خَالِقٍ غَيرُاللهِ يرْزُقُكُمْ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ لاَإِلَہَ إِلاَّ ہُوَ فَاٴَنَّي تُؤْفَكُونَ))۔ 5
“اے لوگو! اپنے اوپر (نازل ھونے والي) اللہ كي نعمت كو ياد كرو كيا، (كيا) اس كے علاوہ بھي كوئي خالق ھے ؟وھي تو تمھيں آسمان اور زمين سے روزي ديتا ھے اس كے علاوہ كوئي خدا نھيں، پس تم كس طرف بہكے چلے جارھے ھو”۔
جي ھاں! تمام نعمتيں اپنے تمام تر فوائد كے ساتھ ساتھ خداوندعالم كي وحدانيت كي دليل، اس كي توحيد ذاتي كاثبوت اور اسي كي معرفت و شناخت كے لئے آسان راستہ ھے
۔4۔ نعمت پر شكر
بعض لوگوں كا خيال ھے كہ شكر كے معني يہ ھيں كہ نعمت سے فائدہ اٹھانے كے بعد “شكر لله ” (الٰھي تيرا شكر) يا “الحمد لله” كہہ ديا جائے، يا اس سے بڑھ كر “الحمد لله رب العالمين” زبان پر جاري كرديا جائے۔
ياد رھے كہ ان بے شمار مادي اور معنوي نعمتوں كے مقابلہ ميں اردو يا عربي ميں ايك جملہ كہہ دينے سے حقيقي معني ميں شكر نھيں ھوتا، بلكہ شكر، نعمت عطا كرنے والي ذات كے مقام اور نعمت سے ھم آہنگ ھونا چاہئے، اور يہ معني كچھ فعل و قول اور وجد بغير متحقق نھيں ھوں گے، يعني جب تك انسان اپنے اعضاء و اجوارح كے ذريعہ خداوندمتعال كا شكر ادا كرنے كے لئے ان افعال و اقدامات كو انجام نہ دے جن سے پتہ چل جائے كہ وہ پروردگارعالم كا اطاعت گزار بندہ ھے، پس شكر خدا كے لئے ضروري ھے كہ انسان ايسے امور كو انجام دے جو خدا كي رضايت كا سبب قرار پائے اور اس كي ياد سے غافل نہ ھونے ديں۔كيا خداوندعالم كے اس عظيم لطف و كرم كے مقابلہ ميں صرف زباني طور پر”الٰھي تيرا شكر “يا “الحمد للہ” كہہ دينے سے كسي كوشاكر كھا جاسكتا ھے؟!
بدن، اعضاء و جوارح: آنكھ كان، دل و دماغ، ھاتھ، پير، زبان، شكم، شھوت، ہڈي اوررگ جيسي نعمتيں يا كھانے پينے، پہننے اور سونگھنے كي چيزيں يا ديدہ زيب مناظر جيسے پھاڑ، صحرا، جنگل، نھريں، دريا اور چشمے يا پھلوں، اناج اورسبزيوں كي مختلف قسميں اور ديگر لاكھوں نعمتيں جن پر ھماري زندگي كا دارومدار ھے، كيا ان سب كے لئے ايك “الحمد لله” كہنے سے حقيقي شكر ھوجائے گا؟ اور كيا اسلام وايمان، ہدايت و ولايت، علم و حكمت، صحت و سلامتى، تزكيہ نفس و طھارت، قناعت و اطاعت اور محبت و عبادت جيسي نعمتوںكے مقابلہ ميں “الٰھي تيرا شكر” كہنے سے انسان خدا كا شاكر بندہ بن سكتا ھے؟!
راغب اصفھاني اپني عظيم الشان كتاب “المفردات” ميں كھتے ھيں:
“اَصْلُ الشُّكْرِ مِنْ عَينٍ شَكْريٰ”۔ 6
شكر كا مادہ “عين شَكْريٰ”ھے؛ يعني آنسو بھري آنكھيں يا پانى بھرا چشمہ، لہٰذا شكر كے معني “انسان كا ياد خدا سے بھرا ھوا ھونا ھے اور اس كي نعمتوں پر توجہ ركھنا ھے كہ يہ تمام نعمتيں كس طرح حاصل ھوئيں اور كيسے ان كو استعمال كياجائے”۔
خواجہ نصير الدين طوسي عليہ الرحمہ، علامہ مجلسي عليہ الرحمہ كي روايت كي بنا پر شكر كے معني اس طرح فرماتے ھيں:
“شكر، شريف ترين اور بھترين عمل ھے، معلوم ھونا چاہئے كہ شكر كے معني قول و فعل اور نيت كے ذريعہ نعمتوں كے مدّمقابل قرار پانا ھے، اور شكر كے لئے تين ركن ھيں:
1۔ نعمت عطا كرنے والے كي معرفت، اوراس كے صفات كي پہچان، نيز نعمتوں كي شناخت كرنا ضروري ھے، اور يہ جاننا بھي ضروري ھے كہ تمام ظاھري اور باطني نعمتيں سب اسي كي طرف سے ھيں، اس كے علاوہ كوئي حقيقي منعم نھيں ھے، انسان اور نعمتوں كے درميان تمام واسطے اسي كے فرمان كے سامنے سرِتسليم خم كئے ھيں۔
2۔ ايك خاص حالت كا پيدا ھونا، اور وہ يہ ھے كہ انسان عطا كرنے والے كے سامنے خشوع و خضوع اور انكساري كے ساتھ پيش آئے اور نعمتوں پر خوش رھے، اور اس بات پر يقين ركھے كہ يہ تمام نعمتيں خدا وندعالم كي طرف سے انسان كے لئے تحفے ھيں، جو اس بات كي دليل ھيں كہ خداوندعالم انسان پر عنايت و توجہ ركھتا ھے، اس خاص حالت كي نشاني يہ ھے كہ انسان مادي چيزوں پر خوش نہ ھو مگر يہ كہ جن كے بارے ميں خداوندعالم كا قرب حاصل ھو۔
3۔ عمل، اور عمل بھي دل، زبان اور اعضاء سے ظاھر ھونا چاہئے۔
دل سے خداوندعالم كي ذات پر توجہ ركھے اس كي تعظيم اور حمدو ثناكرے، اور اس كي مخلوقات اور اس لطف و كرم كے بارے ميں غور و فكر كرے، نيز اس كے تمام بندوں تك خير و نيكي پہنچانے كا ارادہ كرے۔
زبان سے اس كا شكر و سپاس، اس كي تسبيح و تھليل اور لوگوں كو امر بالمعروف اور نھي عن المنكر كرے۔
تمام ظاھري و باطني نعمتوں كو استعمال كرتے ھوئے اس كي عبادت و اطاعت ميںاعضاء كو كام ميں لائے، اور اعضاء كو خدا كي معصيت و مخالفت سے روكے ركھے”۔
لہٰذا شكر كے اس حقيقي معني كي بنا پر يہ بات روشن ھوجاتي ھے كہ شكر، صفات كمال كے اصول ميں سے ايك ھے، جو صاحبان نعمت ميں بھت ھي كم ظاھر ھوتے ھيں، چنانچہ قرآن مجيد ميں ارشاد ھوتا ھے:
((وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِي الشَّكُورُ))۔ 7
“اور ھمارے بندوں ميں شكر گزار بندے بھت كم ھيں”۔
تمام نعمتوں كے مقابلہ ميں مذكورہ معني ميں شكر واجب عقلي اور واجب شرعي ھے، اور ھر نعمت كو اسي طرح استعمال كرنا شكر ھے جس طرح خداوندعالم نے حكم ديا ھے، حقيقت تو يہ ھے كہ خداوندعالم كي كامل عبادت و بندگى حقيقي شكر كے ذريعہ ھي ھوسكتي ھے:
((فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ حَلاَلاً طَيبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ إِنْ كُنْتُمْ إِياہُ تَعْبُدُونَ))۔ 8
“لہٰذا اب تم اللہ كے دئے ھوئے حلال و پاكيزہ رزق كو كھاوٴ اور اس كي عبادت كرنے والے ھو تو اس كي نعمتوں كا شكريہ بھي ادا كرتے رھو”-۔
((فَابْتَغُوا عِنْدَ اللهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوہُ وَاشْكُرُوا لَہُ إِلَيہِ تُرْجَعُونَ))۔ 9
“رزق خدا كے پاس تلاش كرواور اسي كي عبادت كرو اور اسي كا شكربجالاؤ كہ تم سب اسي كي بارگاہ ميں پلٹادئے جاوٴگے”۔
مصحف ناطق حضرت امام صادق عليہ السلام شكر كے معني بيان فرماتے ھيں:
“شُكْرُ النِّعْمَةِ اجْتِنابُ الْمَحارِمِ وَتَمامُ الشُّكْرِ قَوْلُ الرَّجُلِ :الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمينَ:” 10
” نعمتوں پر شكر بجالانے كا مطلب يہ ھے كہ انسان تمام حرام چيزوں سے اجتناب كرے، اور كامل شكر يہ ھے كہ نعمت ملنے پر “الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمينَ” كھے”۔
پس نعمت كا شكر يہ ھے كہ نعمت كو عبادت و بندگى اور بندگان خدا كي خدمت ميں خرچ كرے، لوگوں كے ساتھ نيكي اوراحسان كرے اور تمام گناھوں سے پرھيز كرے۔
5۔ نعمت پر ناشكري سے پرھيز
بعض لوگ، حقيقي منعم سے بے خبر اورخداداد نعمتوں ميں بغير غور و فكر كئے اپنے پاس موجودتمام نعمتوں كو مفت تصور كرتے ھيں، اور خودكو ان كا اصلي مالك تصوركرتے ھيں اور جو بھي ان كا دل اور ھوائے نفس چاھتا ھے ويسے ھي ان نعمتوں كو استعمال كرتے ھيں۔
يہ لوگ جھل و غفلت اور بے خبري اور ناداني ميں گرفتار ھيں، خدائي نعمتوں كو شيطاني كاموں اور ناجائز شھوتوں ميں استعمال كرتے ھيں، اور اس سے بدتر يہ ھے كہ ان تمام خداداد نعمتوں كو اپنے اھل و عيال، اھل خاندان، دوستوں او رديگر لوگوں كو گمراہ كرنے پر بھي خرچ كرڈالتے ھيں۔
اعضاء و جوارح جيسي عظيم نعمت كو گناھوں ميں، مال و دولت جيسي نعمت كو معصيت و خطا ميں، علم و دانش جيسي نعمت كو طاغوت و ظالموں كي خدمت ميںاور بيان جيسي نعمت كو بندگان خدا كو گمراہ كرنے ميں خرچ كرڈالتے ھيں!!
يہ لوگ خدا ئي نعمتوں كي زيبائي اور خوبصورتي كو شيطاني پليدگي اور برائي ميں تبديل كرديتےھيں، اور اپنے ان پست كاموں كے ذريعہ خود كو بھي اور اپنے دوستوں كو بھي جہنم كے ابدي عذاب كي طرف ڈھكيلے جاتے ھيں!
((اٴَلَمْ تَرَي إِلَي الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اللهِ كُفْرًا وَاٴَحَلُّوا قَوْمَھم دَارَ الْبَوَارِ۔جَہَنَّمَ يصْلَوْنَھا وَبِئْسَ الْقَرَارُ)) 11
“كياتم نے ان لوگوں كو نھيں ديكھا جنھوں نے اللہ كي نعمت كو كفران نعمت سے بدل ديا اور اپنے قوم كو ھلاكت كي منزل تك پہنچا ديا۔يہ لوگ واصل جہنم ھوں گے اور جہنم كتنا بُرا ٹھكانہ ھے “۔
6۔ نعمتوں كا بے شمار ھونا
اگر ھم نے قرآن كريم كي ايك آيت پر بھي توجہ كي ھو تي تو يہ بات واضح ھوجاتي كہ خداوندعالم كي مخلوق اور اس كي نعمتوں كا شمار ممكن نھيں ھے، اور شمار كرنے والے چاھے كتني بھي قدرت ركھتے ھوں ان كے شمار كرنے سے عاجز رھے ھيں۔ جيسا كہ قر آن مجيد ميں ارشاد ھوتا ھے:
((وَلَوْ اٴَنَّمَا فِي الْاٴَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اٴَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يمُدُّہُ مِنْ بَعْدِہِ سَبْعَةُ اٴَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللهِ إِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)) 12
“اور اگر روئے زمين كے تمام درخت، قلم بن جائيں اور سمندر ميں مزيد سات سمندر اور آجائيں تو بھي كلمات الٰھي تمام ھونے والے نھيں ھيں، بيشك اللہ صاحب عزت بھي ھے اور صاحب حكمت بھي “۔
ھميں اپني پيدائش كے سلسلے ميں غور و فكر كرنا چاہئے اور اپنے جسم كے ظاھري حصہ كو عقل كي آنكھوں سے ديكھنا چاہئے تاكہ يہ حقيقت واضح ھوجائے كہ خداوندعالم كي نعمتوں كا شمار كرنا ھمارے امكان سے باھر ھے۔
خداوندعالم، انسان كي خلقت كے بارے ميں فرماتا ھے:
(( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ۔)) 13
“اور ھم ھي نے انسان كو گيلي مٹي سے پيدا كيا ھے”۔
((ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ))۔ 14
“پھر اسے ايك محفوظ جگہ پر نطفہ بناكر ركھا ھے”۔
((ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اٴَنشَاٴْنَاہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللهُ اٴَحْسَنُ الْخَالِقِينَ۔))15
“پھر ھم ھي نے نطفہ كو جماھو اخون بنا يا اور منجمد خون كو گوشت كا لوتھڑا بنايا، پھر ھم ھي نے (اس) لوتھڑے ميں ہڈياں بنائيں، پھر ھم ھي نے ہڈيوں پر گوشت چڑھايا، پھر ھم نے اسے ايك دوسري مخلوق بناديا ھے، تو كس قدر با بركت ھے وہ خدا جو سب سے بھتر خلق كرنے والا ھے”۔
جي ھاںيھي نطفہ ان تمام مراحل سے گزركر ايك كامل انسان اور مكمل وجود ميں تبديل ھوگياھے۔
اب ھم اپنے عجيب و غريب جسم اور اس ميں پائے جانے والے خليوں، آنكھ، كان، ناك، معدہ، گردن، خون، تنفسي نظام، مغز، اعصاب، اور دوسرے اعضاء و جوارح كو ديكھيں اور ان كے سلسلے ميں غور وفكر كريں تاكہ معلوم ھوجائے كہ خود اسي جسم ميں خداوندعالم كي كس قدر بے شمار نعمتيں موجود ھيں۔
كيا دانشوروں او رڈاكٹروں كايہ كہنا نھيں ھے كہ اگر انسان مسلسل( 24 گھنٹے ) ھر سيكنڈ ميں بدن كے ايك ہزار خليوں كا شمار كرتارھے تو ان تمام كو شمار كرنے كے لئے تين ہزار (3000) سال در كا ر ھوں گے۔
كيا دانشوروں او رڈاكٹروں كايہ كہنا نھيں ھے كہ انسان كے”معدہ” (اس عجيب و غريب ليبريٹري كے اندر) كھانا اس قدر تجزيہ و تحليل ھوتا ھے كہ انسان كے ھاتھوں كي بنائي ھوئي ليبريٹري ميں اتنا كچھ تجزيہ و تحليل نھيں ھوتا، اس معدہ ميں يا اس ليبريٹري ميں 10 لاكھ مختلف قسم كے ذرات فلٹر ھوتے ھيں جن ميں سے اكثر ذرات زھريلے ھوتے ھيں۔ 16
كيا دانشوروں او رڈاكٹروں كا كہنا نھيں ھے كہ انسان كا دل ايك “بند مٹھي “سے زيادہ بڑا نھيں ھوتا ليكن اتني زيادہ طاقت ركھتا ھے كہ ھر منٹ ميں 70 مرتبہ كھلتا اور بند ھوتا ھے، اور تيس سال كي مدت ميں ايك ارب مرتبہ يہ كام انجام ديتا ھے اور ھر منٹ ميں بال سے زيادہ باريك رگوں كے ذريعہ پورے بدن ميں دوبار خون پہنچاتا ھے اور بدن كے اربوں كھربوں خليوں دھوتا ھے۔ 17
اس طرح آكسيجن، ھائيڈروجن وغيرہ كے ذرات، ھوا، روشنى، زمين، درختوں كي شاخيں، پتے اور پھل نيز زمين و آسمان كے درميان جو كچھ ھے، ايك طرح سے انسان كي خدمت ميں مشغول ھيں، اگر ھم اپنے بدن كے ساتھ ان تمام چيزوں كا اضافہ كركے غور و فكر كريں تو كيا اس دنيا ميں انسان كے لئے خداوندعالم كي نعمتوں كا شمار ممكن ھے؟!
اگر آپ ايك مٹھي خاك كود يكھيں تو يہ فقط خالص مٹي نھيں ھے، بلكہ مٹي كا اكثر حصہ معدني مواد سے تشكيل پاتا ھے، جو چھوٹے چھوٹے سنگريزوں كي شكل ميں ھوتے ھيں، يہ سنگريزے بڑے پتھروں كے ٹكڑے ھيں جو طبيعي طاقت كي وجہ سے ريزہ ريزہ ھوگئے ھيں، مٹي ميں بھت سي زندہ چيزيں ھوتي ھيں، ممكن ھے كہ ايك مٹھي خاك ميں لاكھوں بيكٹري موجود ھوں، بيكٹري كے علاوہ بھت سي رشد كرنے والي جڑيں، ريشے (مانند امر بيل) اوربھت سے كيڑے مكوڑے بھي پائے جاتے ھيں جن ميں سے بھت سے زندہ ھوتے ھيں اور مٹي كو نرم كرتے رھتے ھيں تاكہ درختوں اور پودوں كي رشد و نمو ميں مدد گار ثابت ھوسكيں۔ 18
انسان كے اندر مختلف چيزوں كے ہضم كرنے كي مشينيں پائي جاتي ھيں، جيسے منھ، دانت، زبان، حلق، لعاب پيدا كرنے والے غدود، معدہ، لوز المعدہ19 “Pancreas”، چھوٹي بڑي آنتيں نيز غذا كو جذب و ہضم كرنے كے لئے ان ميں سے ھر ايك كا عمل اللہ كي ايك عظيم نعمت ھے۔
اسي طرح ايك اھم مسئلہ سرخ رگوں، سياہ رگوں، چھوٹي رگوں، دل كے درميان حصہ، دل كے داہنا اور باياں حصہ وغيرہ كے ذريعہ خون كا صاف كرنا اور خون كے سفيد اور سرخ گلوبل، تركيب خون، رنگ خون، جريان خون، حرارت بدن، بدن كي كھال اور اس كے عناصر، آنكھ اور اس كے طبقات وغيرہ بھي خداوندعالم كي تعجب خيز نعمتوں ميں سے ھيں۔
آسمان كي فضا، نور كا پہنچنا، گردش، كشش اور درياؤں كا جز رو مدّ 20 انسان كي زندگي ميں كس قدراھميت كے حامل ھيں، ان كے عناصر اتنے زيادہ ھيں كہ اگر ھم آسمان كے دكھائي دينے والے حصے كے ستاروں كو شمار كرنا چاھيں اور ھر منٹ ميں 300 ستاروں كو شمار كريں تو اس كے لئے 3500سال كي عمر دركار ھوگي جن ميں شب و روز ستاروں كو شمار كريں كيونكہ بڑي بڑي دوربينوں كے ذريعہ ابھي تك ان كي تعداد كے بارے ميں تخمينہ لگايا گيا اس كي تعداد ايك لاكھ ملين ھے جس كے مقابلہ ميں ھماري زمين ايك چھوٹے سے دانہ كي طرح ھے، بھتر تو يہ ھے كہ ھم يہ كھيں كہ انسان ان كو شمار ھي نھيں كرسكتا!!!
جس فضا ميں ستارے ھوتے ھيں وہ اس قدر وسيع و عريض ھے كہ اس كے ايك طرف سے دوسري طرف جانے كے لئے پانچ لاكھ نوري سال دركار ھيں۔
سورج اور منظومہ شمسى، آسمان كي كرنوں كا ايك ذرہ ھے جو 400كيلوميٹر في سيكنڈ كي رفتار سے حركت كررھا ھے اور تقريباً (200000000) سال كا وقت دركار ھے تاكہ اپنے مركز كا ايك چكر لگاسكے!
عالم بالا كا تعجب خيز نظام، سطح زمين اور زمين كے اندر اس كا اثر نيز بھت سے جانداروں كي زندگي كے لئے راستہ ھموار كرنا، يہ سب حيرت انگيز كھانياں انسان كے لئے سمجھنا اتنا آسان نھيں ھے، انسان جس ايك قطرہ پانى كو پيتا ھے اس ميں ہزاروں زندہ اور مفيد جانور ھوتے ھيں اور ايك متر مكعب پانى ميں 7500سفيد گلوبل”Globule” اور پچاس لاكھ سرخ گلوبل ھوتے ھيں۔ 21
ان تمام باتوں كے پيش نظر قرآن مجيدكي عظمت كا اندازہ لگايا جاسكتا ھے كہ پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے نوراني قلب پر نازل ھونے والے قرآن مجيد نے صديوں پھلے ان حقائق كو بيان كيا ھے، لہٰذا خدا كي عطا كردہ نعمتوں كو ھرگز شمار نھيں كيا جاسكتا۔
((وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللهِ لاَتُحْصُوھا إِنَّ اللهَ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ ))۔ 22
“اور تم اللہ كي نعمتوں كو شمار كرنا چاھو تو شمار نھيں كرسكتے، بيشك اللہ بڑا مھربان اور بخشنے والا ھے”۔
7۔نعمتوں كي قدر شناسى
جن افراد نے اس كائنات، زمين و آسمان اور مخلوقات ميں صحيح غور و فكر كرنے كے بعد خالق كائنات، نظام عالم، انسان اور قيامت كو پہچان ليا ھے وہ لوگ اپنے نفس كا تذكيہ، اخلاق كو سنوارنے، عبادت و بندگى كے راستہ كو طے كرنے اور خدا كے بندوں پر نيكي و احسان كرنے ميں سعي و كوشش كرتے ھيں، درحقيقت يھي افراد خداوندعالم كي نعمتوں كے قدر شناس ھيں۔
جي ھاں، يھي افراد خداكي تمام ظاھري و باطني نعمتوں سے فيضياب ھوتے ھيں اور اس طريقہ سے خود اور ان كے نقش قدم پر چلنے والے افراد دنيا و آخرت كي سعادت و خوش بختي تك پہنچ جاتے ھيں، اس پاك قافلہ كے قافلہ سالار اور اس قوم كےممتاز رھبر انبياء اور ائمہ معصومين عليھم السلام ھيں، تمام مومنين شب و روز كے فريضہ الٰھي يعني نماز ميں انھيں كے راستہ پر برقرار رہنے كي دعا كرتے ھيں:
((اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ۔صِرَاطَ الَّذِينَ اٴَنْعَمْتَ عَلَيھم غَيرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيھم وَلاَالضَّالِّينَ))۔ 23
“ھميں سيدھے راستہ كي ہدايت فرماتا رہ ۔جو ان لوگوں كا راستہ ھے جن پر تونے نعمتيں نازل كي ھيں، ان كا راستہ نھيں جن پر غضب نازل ھوا ھے يا جو بہكے ھوئے ھيں”۔
جي ھاں، انبياء اور ائمہ معصومين عليھم السلام خداوندعالم كي تمام مادي و معنوي نعمتوں كا صحيح استعمال كيا كرتے تھے، اور شكر نعمت كرتے ھوئے اس عظيم مقام اور بلند مقام و مرتبت پر پہنچے ھوئے ھيں كہ انسان كي عقل درك كرنے سے عاجز ھے۔
خداوندمھربان نے قرآن مجيد ميں ان افراد سے وعدہ كيا ھے جو اپني زندگي كے تمام مراحل ميں خدا و رسول كے مطيع و فرمانبردار رھے ھيں، ان لوگوں كو قيامت كے دن نعمت شناس حضرات كے ساتھ محشور فرمائے گا۔
((وَمَنْ يطِعْ اللهَ وَالرَّسُولَ فَاٴُوْلَئِكَ مَعَ الَّذِينَ اٴَنْعَمَ اللهُ عَلَيھم مِنْ النَّبِيينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ اٴُوْلَئِكَ رَفِيقًا))۔ 24
“اور جو شخص بھي اللہ اوررسول كي اطاعت كرے گا وہ ان لوگوں كے ساتھ رھے گا جن پر خدا نے نعمتيں نازل كي ھيں انبياء، صديقين، شہداء اور صالحين كے ساتھ اور يھي لوگ بھترين رفقاء ھيں”-
8۔ نعمتوں كا بےجا استعمال
مسرف (فضول خرچي كرنے والا) قرآن مجيد كي رُوسے اس شخص كو كھا جاتا ھے جو اپنے مال، مقام، شھوت اور تقاضوں كو شيطاني كاموں، غير منطقي اور بے ھودہ كاموں ميں خرچ كرتا ھے۔
خداكے عطا كردہ مال و ثروت اور فصل كے بارے ميں ارشاد ھوتا ھے:
((۔۔۔ وَآتُوا حَقَّہُ يوْمَ حَصَادِہِ وَلاَتُسْرِفُوا إِنَّہُ لاَيحِب الْمُسْرِفِينَ))۔ 25
“اور جب فصل (گندم، جو خرما اور كشمش) كاٹنے كا دن آئے تو ان (غريبوں، مسكينوں، زكوٰة جمع كرنے والوں، غير مسلم لوگوں كو اسلام كي طرف رغبت دلانے كے لئے، مقروض، في سبيل اللہ اور راستہ ميں بے خرچ ھوجانے والوں) 26 كا حق ادا كردو اور خبردار اسراف نہ كرنا كہ خدا اسراف كرنے والوں كو دوست نھيں ركھتا ھے”۔
جو لوگ اپنے مقام و منصب اور جاہ و جلال كو لوگوں پر ظلم و ستم ڈھانے، ان كے حقوق كو ضائع كرنے، معاشرہ ميں رعب ودہشت پھيلانے اور قوم و ملت كو اسير كرنے كے لئے خرچ كرتے ھيں، ان لوگوں كے بارے ميں قرآن مجيد ميں ارشاد ھوتا ھے :
(( وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْاٴَرْضِ وَإِنَّہُ لَمِنْ الْمُسْرِفِينَ)) 27
“اور يہ فرعون (اپنے كو) بھت اونچا (خيال كرنے لگا)ھے اور وہ اسراف اور زيادتي كرنے والا بھي ھے”۔
اسي طرح جو لوگ عفت نفس نھيں ركھتے يا جولوگ اپنے كو حرام شھوت سے نھيں بچاتے اور صرف مادي و جسماني لذت كے علاوہ كسي لذت كو نھيں پہچانتے اور ھر طرح كے ظلم سے اپنے ھاتھوں كو آلودہ كرليتے ھيںنيز ھر قسم كي آلودگى، ذلت اور جنسي شھوات سے پرھيز نھيں كرتے، ان كے بارے ميں بھي قرآن مجيد فرماتا ھے:
((إِنَّكُمْ لَتَاٴْتُونَ الرِّجَالَ شَہْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ اٴَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ))۔ 28
تم از راہ شھوت عورتوں كے بجائے مردوں سے تعلقات پيدا كرتے ھو اور تم يقينا اسراف اور زيادتي كرنے والے ھو”۔
قرآن مجيدان لوگوں كے بارے ميں بھي فرماتا ھے جو انبياء عليھم السلام اور ان كے معجزات كے مقابلہ ميں تواضع و انكساري اور خاكساري نھيں كرتے اور قرآن، اس كے دلائل اور خدا كے واضح براھين كا انكار كرتے ھيں اور كبر و نخوت، غرور و تكبر و خودبيني كا راستہ چلتے ھوئے خداوندعالم كے مقابل صف آرا نظر آتے ھيں، ارشاد ھوتا ھے:
(( ثُمَّ صَدَقْنٰھُمُ الْوَعْدَ فَاٴَنْجَينٰاھُمْ وَ مَن نَّشَآءُ وَ اٴَھْلَكْنٰا الْمُسْرِفِينَ)) 29
پھر ھم نے ان كے وعدہ كو سچ كر دكھايا اور انھيں اورا ن كے ساتھ جن كو چاھا بچاليا اور زيادتي كرنے والوں كو تباہ و بر باد كر ديا “۔
9۔ نعمتوں كے استعمال ميں بخل كرنا
بخل اور اضافي نعمت كو مستحقين پر خرچ نہ كرنے كي برائي كو ايك ان پڑھ اور معمولي كسان كي زباني بھي سن ليجئے:
حقير تبليغ كے لئے ايك ديھات ميں گيا ھوا تھا، تقرير كے خاتمہ پر ايك محنت كش بوڑھا ھمارے پاس آيا جس كے چھرے پر دن ورات كام كرنے كے آثار ظاھر تھے جس كے ھاتھوں ميں گٹھے پڑے ھوئے تھے، اس نے كھا: ايك بزرگوار شخص آتا ھے اور ھميں تيار زمين، بيج اور پانى ديتا ھے اور فصل كي كٹائي كے وقت وہ بزرگوار شخص پھر آتا ھے اور اس كاشتكار كے پاس آجاتا ھے جس كو اس نے زمين، بيج، پانى، سورج كي روشنى، بارش وغيرہ مفت اس كے اختيار ميں دي تھى، اور اس سے كھتاھے: اس فصل ميں سے زيادہ تر حصہ تيرا ھے مجھے اس ميں سے كچھ نھيں چاہئے ليكن ايك مختصر سا حصہ جس كو ميں كھوں اس كو ہديہ كردو، كيونكہ اس كي مجھے تو بالكل ضرورت نھيں ھے، اگر يہ كاشتكار اس زمين سے حاصل شدہ تمام فصل كو اپنا حق سمجھ لے اور ايك مختصر سا حصہ اس كريم كے بتائے ھوئے افراد كو نہ دے تو واقعاً بھت ھي بُري بات ھوگى، اور اس كا دل پتھر كي طرح مانا جائے گا، ايسے موقع پر كريم كو حق ھے كہ اس سے منھ موڑلے اور اس كے برے اخلاق كي سزا دے، اور اس كو كسي بلا ميں گرفتار كردے، اس كے بعد اس شخص نے كھا: كريم سے ميري مراد خداوندكريم ھے كہ اس نے ھميں آمادہ زمين عطا كي ھے، نھريں جاري كي ھيں، چشموں كو پانى سے بھر ديا ھے، بارش برسائي ھے، سورج اور چاند كي روشنى ھميں دى، ھميں يہ سب چيزيں عطا كي ھيں جن كے ذريعہ سے ھم مختلف فصليں حاصل كرليتے ھيں جو درحقيقت ھميں مفت حاصل ھوئي ھيں، اس كے بعد ھم سے اپنے غريب بھائيوں كے لئے خمس و زكوٰة اور صدقہ دينے كا حكم ديا ھے، اگر ھم ان كے حقوق ادا كرنے ميں بخل سے كام ليں، تو خداوندعالم كو حق ھے كہ وہ ھم پر اپنا غضب نازل كردے، اور ھميں سخت سے سخت سزا ميں مبتلا كردے۔
اس سلسلے ميں قرآن مجيد فرماتا ھے:
((وَلاَيحْسَبَنَّ الَّذِينَ يبْخَلُونَ بِمَا آتَاھم اللهُ مِنْ فَضْلِہِ ہُوَ خَيرًا لَھم بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَھم سَيطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِہِ يوْمَ الْقِيامَةِ وَلِلَّہِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ)) 30
“اور خبردار جو لوگ خدا كے ديئے ھوئے ميں مال ميں بخل كرتے ھيں ان كے بارے ميں يہ نہ سوچنا كہ اس بخل ميں كچھ بھلائي ھے ۔يہ بھت برا ھے، اور عنقريب جس مال ميں بخل كيا ھے وہ روز قيامت ان كي گردن ميں طوق بناديا جائے گا، اوراللہ ھي كے لئے زمين و آسمان كي ملكيت ھے اور وہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ھے “-
10۔ نعمت، زائل ھونے كے اسباب و علل
قرآن مجيد كي حسب ذيل آيتوں (سورہ اسراء آيت 83، سورہ قصص آيت 76تا79، سورہ فجرآيت 17 تا 20، سورہ ليل آيت 8تا10) سے يہ نتيجہ نكلتا ھے كہ درج ذيل چيزيں، نعمتوں كے زائل ھونے، فقر و فاقہ، معاشي تنگ دستي اور ذلت و رسوائي كے اسباب ھيں:
نعمت ميں مست ھونا، غفلت كا شكار ھونا، نعمت عطا كرنے والے كو بھول جانا، خداوندعالم سے منھ موڑلينا، احكام الٰھي سے مقابلہ كرنا اور خدا، قرآن و نبوت اور امامت كے مقابل آجانا، چنانچہ اسي معني كي طرف درج ذيل آيہ شريفہ اشارہ كرتي ھے:
((وَإِذَا اٴَنْعَمْنَا عَلَي الْإِنسَانِ اٴَعْرَضَ وَنَاٴَي بِجَانِبِہِ وَإِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ كَانَ يئُوسًا))۔ 31
اور ھم جب انسان پر كوئي نعمت نازل كرتے ھيں تو وہ پھلو بچاكر كنارہ كش ھوجاتا ھے اور جب تكليف ھوتي ھے تو مايوس ھو جاتا ھے”۔
نعمت پر مغرور ھونا، مال و دولت پر حد سے زيادہ خوش ھونا، غريبوں اور مستحقوں كا حق نہ دے كر آخرت كي زادہ راہ سے بے خبر ھونا، نيكي اور احسان ميں بخل سے كام لينا، نعمتوں كے ذريعہ شروفساد پھيلانا، اوريہ تصور كرنا كہ ميں نے اپني محنت، زحمت اور ھوشياري سے يہ مال و دولت حاصل كي ھے، لوگوں كے سامنے مال و دولت، اور زر و زينت پر فخر كرنا اور اسي طرح كے دوسرے كام، يہ تمام باتيں سورہ قصص كي آيات 76 تا 83 ميں بيان ھوئي ھيں۔
يتيموں كا خيال نہ ركھنا، محتاج لوگوں كے بارے ميں بے توجہ ھونا، كمزور وارثوں كي ميراث كو ہڑپ لينا، نيز مال و دولت كا بجاري بن جانا، يہ سب باتيں حسب ذيل آيات ميں بيان ھوئي ھيں، ارشاد ھوتا ھے:
(( كَلاَّ بَلْ لاَّ تُكْرِمُونَ الْيتِيمَ ۔وَلَا تَحٰاضُونَ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِينَ۔وَتَاٴْكُلُونَ التُّرَاثَ اٴَكْلاً لَمَّا۔وَ تُحِبُّونَ الْمٰالَ حُبًّا جَمًّا))۔ 32
“ايسا ھر گز نھيں ھے بلكہ تم يتيموں كا احترام نھيں كرتے ھو، اور لوگوں كو مسكينوں كے طعام دينے پر آمادہ نھيں كرتے ھو، اور ميراث كے مال كو اكھٹا كركے حلال و حرام سب كھاليتے ھو، اور مال دنيا كو بھت دوست ركھتے ھو”۔
اسي طرح خمس و زكوٰة، صدقہ اور راہ خدا ميں انفاق كرنے ميں بخل سے كام لينے يا تھوڑا سا مال و دولت حاصل كرنے كے بعد خداوندعالم كے مقابل ميں بے نيازي كا ڈنكا بجانے اورروز قيامت كو جھٹلانے، كے بارے ميں بھي درج آيت اشارہ كرتي ھے:
(( وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَ اسْتَغْنيٰ ۔وَكَذَّبَ بِالْحُسْنيٰ فَسَنُيسِّرُہُ لِلْعُسْريٰ))33
“اور جس نے بخل كيا اور لا پرواھي برتي اور نيكي كو جھٹلايا ھے، ھم اس كے لئے سختي كي راہ ھموار كرديں گے”۔
جس وقت انسان نعمتوں سے مالامال ھوجائے تو اس كو خداوندعالم اور اس كے بندوں كي بابت نيكي و احسان كرنے پر مزيد توجہ كرنا چاہئے، خداوندعالم كي عطاكردہ نعمتوں كے شكرانہ ميں اس كي عبادت اور اس كے بندوں كي خدمت ميں زيادہ سے زيادہ كوشش كرنا چاہئے، تاكہ اس كي نعمتيں باقي رھيںاور خداوندعالم كي طرف سے نعمت او رلطف و كرم ميں اور اضافہ ھو۔
11۔ اتمام ِنعمت
تفسير طبرى، تفسير ثعلبى، تفسير واحدى، تفسير قرطبى، تفسير ابو السعود، تفسير فخر رازى، تفسير ابن كثير شامى، تفسير نيشاپورى، تفسير سيوطي اور آلوسي كي روايت كي بنا پر، اسي طرح تاريخ بلاذرى، تاريخ ابن قتيبہ، تاريخ ابن زولاق، تاريخ ابن عساكر، تاريخ ابن اثير، تاريخ ابن ابي الحديد، تاريخ ابن خلكان، تاريخ ابن حجر اور تاريخ ابن صباغ ميں، نيز شافعى، احمد بن حنبل، ابن ماجہ، ترمذى، نسائى، دولابى، محب الدين طبرى، ذھبى، متقي ہندى، ا بن حمزہ دمشقي اور تاج الدين مناوي نے اپني اپني كتب احاديث ميں نيز قاضي ابو بكر باقلانى، قاضي عبد الرحمن ايجى، سيد شريف جرجانى، بيضاوى، شمس الدين اصفھانى، تفتازاني اور قوشچي نے اپني اپني استدلالي كلامي كتب كي روايت كے مطابق34 بيان كيا ھے كہ جس وقت پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم ہدايت كے تداوم اور و دين كے تحفظ نيز دنيا و آخرت ميں انسان كي سعادت كے لئے خداوندعالم كے حكم سے امام و رھبر اور فكر و عقيدہ اور اخلاق و عمل ميں گناھوں سے پاك شخصيت حضرت اميرالمومنين علي بن ابي طالب عليہ السلام جيسي عظيم شخصيت كو 18 ذي الحجہ كو غدير خم كے ميدان ميں اپنے بعد خلافت و ولايت اور امت كي رھبري كے لئے منصوب فرمايا، اس وقت خداوندعالم نے اكمال دين اور اتمام نعمت اور دين اسلام سے اپني رضايت كا اعلان فرمايا كہ يھي دين قيامت تك باقي رھے گا، ارشاد ھوا:
(( ۔۔۔الْيوْمَ اٴَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَيكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الْإِسْلاَمَ دِينًا۔۔۔))35
“آج ميں نے تمھارے لئے دين كو كامل كرديا ھے اور اپني نعمتوں كو تمام كرديا ھے اور تمھارے لئے دين اسلام كو پسنديدہ بنا ديا ھے”۔
جي ھاں، حضرت علي عليہ السلام كي ولايت، حكومت، رھبري اوردين و دنيا كے امور ميںآپ كي طاعت كرنا اكمال دين اور اتمام نعمت ھے۔
وضو سے حاصل ھونے والي پاكيزگي و طھارت كے سلسلے ميں حضرت امام رضا عليہ السلام سے منقول ھے : “وضو كا حكم اس لئے ديا گيا ھے اور عبادت كي ابتدا اس لئے قرار دي گئي ھے كہ جس وقت بندگان خدا اس كي بارگاہ ميں كھڑے ھوتے ھيں اور اس سے راز و نياز كرتے ھيںتو اس وقت انھيں پاك ھونا چاہئے، اس كے حكم پر عمل كريں، اور گندگي اور نجاست سے دور رھيں، اس كے علاوہ وضو كے ذريعہ نيند او رتھكاوٹ بھي دور ھوجاتي ھے، نيز عبادت خدا اور اس كي بارگاہ ميں قيام و عبادت سے دل كو روشنى اور صفا حاصل ھوتي ھے”۔36
اسي طرح غسل و تيمم بھي موجب طھارت ھيں جن كے لئے خداوندعالم نے حكم ديا ھے، لہٰذا وضو، غسل اور تيمم اور نماز و عبادت كي حالت حاصل ھونے والے پر قرآن مجيد كے مطابق اللہ كي نعمت اس پر تمام ھوجاتي ھے:
آخر ميں طھارت اور نماز كے بارے ميں بيان شدہ آيات پر غور و فكر كرتے ھيں:
(( ۔۔۔مَا يرِيدُ اللهُ لِيجْعَلَ عَلَيكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يرِيدُ لِيطَھركُمْ وَلِيتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَيكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ))۔ 37
“۔۔۔خدا تمھارے لئے كسي طرح كي زحمت نھيں چاھتا بلكہ وہ تو يہ چاھتا ھے كہ تمھيں پاك و پاكيزہ بنا دے اور تم پر اپني نعمت كو تمام كردے شايد تم اس طرح سے اس كے شكر گزار بندے بن جاؤ”۔
اس قسم كي آيات سے نتيجہ حاصل ھوتا ھے كہ خداوندعالم كي طرف سے انسان پر اتمام نعمت معنوي مسائل كو انجام دينے اور احكام الٰھي كے بجالانے، صحيح عقائد اور اخلاق حسنہ سے آراستہ ھونے كي صورت ميں وقوع پذير ھوتي ھے۔
 
1. سورہ نحل آيت114۔
2. سورہ ٴ لقمان آيت 20۔
3. سورہٴ نساء آيت 29۔
4. سورہٴ بقرہ آيت 168۔
5. سورہٴ فاطر آيت 3۔
6. مفردات، 461 مادہ شكر۔
7. سورہٴ سباء، آيت 13۔
8. سورہٴ نحل آيت، 114۔
9. سورہٴ عنكبوت آيت، 17۔
10. (3)اصول كافى، ج2، ص95۔باب الشكر، حديث 10؛بحار الانوار :6840، باب 61، حديث 29۔
11. سورہٴ ابراھيم آيت، 28۔29۔
12. سورہٴ لقمان آيت، 27۔
13. سورہ مومنون آيت12۔
14. سورہٴ موٴ منون آيت 13۔
15. سورہٴ مومنون آيت 14۔
16. راز آفرينش انسان ص 145۔
17. راہ خدا شناسي ص 218۔
18. علم و زندگي ص134۔135۔
19. لوز المعدہ: معدہ سے قريب ايك بڑي سرخ رنگ كي رگ ھے جس كي شكل خوشہ كي مانند ھوتي ھے۔
20. جزر ومد : دريا كے پانى ميں ھونے والي تبديلي كو كھا جاتا ھے، شب وروز ميں درياكا پانى ايك مرتبہ ن گھٹتا ھے اس كو ” جزر” كھا جاتاھے اور ايك مرتبہ بڑھتا ھے جس كو “مد” كھا جاتاھے، اور پانى ميں يہ تبديلي سورج اور چاندكي قوہٴ جاذبہ كي وجہ سے ھوتي ھے۔ مترجم
21. گنجينہ ھاي دانش ص 927۔
22. سورہٴ نحل آيت، 18۔
23. سورہٴ حمد آيت، 6۔7۔
24. سورہٴ نساء آيت 69۔
25. سورہٴ انعام آيت، 141۔
26.سورہٴ توبہ آيت 60۔
27. سورہٴ يونس آيت 83۔
28.سورہٴ اعراف آيت 81۔
29. سورہٴ انبياء آيت 9۔
30. سورہٴ آل عمران آيت 180۔
31. سورہٴ اسراء آيت 83۔
32.سورہٴ فجر آيت، 17۔20۔
33. سورہٴ ليل آيت 8۔10۔
34. الغدير، ج1، ص6۔8۔
35. سورہٴ مائدہ آيت، 3۔
36. (2)عن الفضل بن شا ذان عن الرضا (عليہ السلام ) قال:انما امر بالوضوء و بداٴ بہ لان يكون العبد طاھرا اذا قام بين يدي الجبار عند مناجاتہ اياہ مطيعا لہ فيما امرہ نقيا من الادناس و الجناسة مع ما فيہ من ذھاب الكسل وطرد النعاس و تزكية الفوٴاد للقيام بين يدي الجبار۔۔۔”۔
37. سورہٴ مائدہ آيت 6۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.