قرآن كی روسے امت مسلمہ ایك امت وسط ہے۔

248

اس روئے زمین پر انسان ہی ایك جاندار مخلوق نہیں ہے اور صرف وہی اجتماعی انداز میں زندگی بسر كرنے كا عادی نہیں ہے، دوسری جاندار مخلوقاتبھی ہیں جو مقررہ معمولات، ایك خاصنظم اور ڈھانچے كے مطابق زندگی بسر كرتی ہیں انسان كے بر عكس ان كی زندگی جنگل كے زمانے پتھر كے زمانے لو ہے كے زمانے ایٹم كے زمانے سے آشنا نہیں ہے۔روز اول سے جب سے كہ وہ وجود میں آئی ہیں ان كی زندگی كا ایك ہی منظم ڈھانچہ ہے یہ انسان ہی ہے جو اس آیت قرآنی كے مطابق"
"و خلق الانسان ضعیفاً" 5
ترجمہ:"انسان كمزور طپیدا كی گیا ہے۔"
اپنی زندگی كا آغاز صفر سے كرتا ہے اور ترقی كے لامتناہی راستے پر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔انسان فطرت كا ایك ہونہار اور بالغ فرزند ہے اسی لئے اسے آزادی و خود مختاری حاصل ہے اسے كسی مستقل ناظم و سرپرست اور ایسی جبری ہدایت كی ضرورت نہیں جس پر عمل كرنے كے لئے كوئی پوشیدہ اندرونی قوت اسے مجبور كرے۔دوسرے جاندار جو كچھ جبلت كے سامنے سر جھكا كر انجام دیتے ہیں وہ انسان آزادانہ ماحول میں عقل و قانین كے مطابق انجام دیتا ہے:
"انا ہدینٰہ السبیل اما شاكراًو اما كفوراً" 6
ترجمہ:"ہم نے اسے راستہ دكھا دیا خواہ شكر كرنے والا ہے یا كفر كرنے والا۔"
انسان میں انحراف و سقوط اور جمود و انحطاط پایا جاتا ہے جبكہ دوسرے جاندار ایك حالت پر قائ رہتے ہیں۔وہ اس بات پر قدرت نہیں ركھتے كہ سوچ سمجھ كر كہ خود آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں، سیدھی جانب كا رخ كریں یا بائیں سمت كا تیز چلیں یا آہستہ اس كے بر عكس انسان اپنی عقل و شعور سے كام لے كر آگے بھی قدم بڑھا سكتا ہے پیچھے بھی ہٹ سكتا ہے وہ دائیں یا بائیں كسی بھی سمت مڑسكتا ہے وہ تیز بھی چل سكتا ہے اور آہستہ بھی وہ ایك بندۀ شاكر بھی بن سكتےا ہے اور سركس كافر بھی۔اس طرح وہ افراط و تفریط كے درمیان كحڑا نظر آتا ہے۔
انسانی معاشرہ كبھی اس طرح عادات كا اسیر اور جامد و ساكن ہوجاتا ہے كہ كوئی موثر طاقت ہی اس كی زنجیروں كو كاٹ كر اسے حركت میں لاسكتی ہے۔كبھی انسانی معاشرہ پر حرص و طمع اور نئی راہوں پر چلنے كی خوہش اس طرح مشلط ہوجاتی ہے كہ وہ فطرت كے اصول و قوانین تك كو بھلا بیٹھتا ہے اور كبھی وہ غرور و خود پرستی اور تكبر میں غرق ہوجاتا ہے، اسے خود بینی كی راہ سے ہٹا كر زہد و پرہیزگاری كی راہ پر ڈالنے كے لئے كسی اثر انداز ہونے والی طاقت كی ضرورت ہوتی ہے تاكہ وہ اپنے حقوق كے ساتھ دوسروں كے حقوق كا بھی خیال ركھ سكے جب یہی انسانی معاشرہ آرام طلبی مادر پدر آزادی اور ظلم و ستم كی راہ پر چل پڑتا ہے تو اس كے ضمیر كو جھنجھوڑ نے اور اس میں حقوق كا شعور احساس كے پیدا كرنے كے سوا اور چارہ نہیں ہوتا۔
یہ بات واضح ہے كہ تیزی كے ساتھ پیش قدمی ہو یا سست روی بائیں جانب میلان ہو یا دائیں جانب ان میں سے ہر ایك كے لئے ایك خاص لائحہ عمل كی ضرورت ہوتی ہے۔اگر معاشرہ كا انحراف دائیں جانب ہو تو اصلاح كرنے والی طاقت كو اسے بائیں جانب موڑنے كی كوشش كرنی ہوگی دورسری صورت میں اسے اس كے بر عكس عمل كرنا ہوگا۔
ہی وجہ ہے كہ كسی ایك زمانے اور كسی ایك قوم كی اصلاح كے لئے كوئی تدبیر دوا كی حیثیت ركھتی ہے تو وہی تدبیر دوسرے دور اور دوسری قوم كے لئے ایك مرض مہلك میں مبتلا كرنے كا سبب بن سكتی ہے چنانچہ بظاہر مختلف انبیاء كے درمیان ایك اختلاف نظر آتا ہے كسی پیامبر (ص) كو جنگ كی راہ اختیار كرنی پڑتی ہے تو كسی كو صلح كی كوئی نبی نرمی سے كام لیتا ہے تو كوئی سختی سے كسی پیغمبر كو انقلابی انداز میں كام كرنا پڑتا ہے تو كسی كو اعتدال و سلامتی كی راہ اپنانی پڑتی ہے۔ایك پیغمبر كا سارا دور ابتلاؤ آزمایش سے بھرا ہوتا ہے تو دوسرے پیغمبر كے حصے میں فتح و نصرت بھی آتی ہے۔انبیاء كے درمیان اختلافات كا تعلق ان كے اس روئے سے ہے جو وہ اپنے زمانے كے حالات كے پیش نظر اختیار كرتے ہیں ورنہ ہدف كے اعتبار سے ان كے درمیان كوئی اختلاف نہیں ہے ہدف تمام انبیاء كا یك ہی ہے اور راستہ وہی صراط مستقیم ہے۔
قرآن كریم نے قصص انبیاء كے ضمن میں پوری طرح اس بات كی نشان وہی كی ہے كہ پیغمبروں میں سے ہر ایك مبداء و معاد سے متعلق اپنی مشترك تعلیمات كے تحت كسی ایك خاص نكتہ پر زور دیتا ہے وہ ایك مخصوص لائحہ عمل كے اجراء پر مامور ہوتا ہے یہ بات قصص قرآنی كے مطالعہ سے بخوبی روشن ہوجاتی ہے۔
مصلحین جب كسی تیزی سے آگے قدم بڑھانے والے یا پسماندہ معاشرہ میں دائیں یا دائیں جانب مائل معاشرہ میں ظہور كرتے ہیں اور اصلاح كا كام شروع كرتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں كہ ایك متعین لائحہ عمل صرف ایك محدود مدت كے لئے قابل اجراء ہوتا ہے اور معاشرہ كسی بھی نوعیت كا ہوا سے راہ عدل پر لانے كے لئے اس سے زیادہ جدوجہد كرنی پڑتی ہے جتنی كہ دوسری جانب سے اسے انحطاط و انحراف كی زاہ پر ڈالنے كے لئے كی جاتی ہے۔
ان توضیہحات كے بعد ہم زیر نظر آیت كے مفہوم كو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سكتے ہیں۔
پیغمبر اسلام كی رسالت تمام دوسرے انبیاء كی رسالتوں سے ان معنوں میں فرق و امتیاز ركھتی ہے كہ اس كی حیثیت قانون كی ہے كسی وقتی لائحہ عمل كی نہیں انسانیت كے لئے آپ كا لایا ہوا اساسی قانون كسی ترقی پسند یا رجعت پسندیدہ دائیں بازو یا بائیں بازو كی جانب مائل معاشرہ كے لئے مخصوص نہیں ہے۔
اسلام ایك جامع اور ہمہ گیر نظام حیات ہے جو ہر موقع و محل كے لئے كار آمد اور زندگی كے تمام جزئی طریقوں پر حاوی ہے۔انبیاء كسی ایك معاشرہ كے لئے مبعوث كئے جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ كی طرف سے اس معاشرہ كے لئے ایك مخصوص لائحہ عمل لے كر آتے تھے۔اسلام كی آمد كے بعد علماء اور امت مسلمہ كے دینی رہنماؤں كو بھی اسی طرح كام كرنا چاہیے جس طرح انبیاء نے انجام دیا تھا لیكن علماء و مصلحین اور انبیاء كے كام كے درمیان فرق یہ ہے كہ علماء وحی اسلام كے ابدی سرچشمے سے ہدایت حاصل كركے ایك خاص لائحہ عمل وضع كرتے ہیں اور اس كے نفاذ كی كوشش كرتے ہیں۔
قرآن دوسری آسمانی كتابوں كی وقتی اور محدود تعلیمات كی روح اپنے اند لئے ہوئے ہے۔یہی وجہ ہے كہ قرآن خود آسمانی كتابوں كا محافظ و نگہبان قرار دیتا ہے:
"و انزلنا الیك الكتٰاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ من الكتٰب و مہیمناً علیہ" 7
ترجمہ:"پھر اے نبی (ص) ہم نے تمہاری طرف یہ كتاب بھجی جو حق لے كر آئی ہے اور الكتاب میں سے جو كچھ اس كے آگے موجود ہے اس كی تصدیق كرنے والی اور اس كی محفظ و نگہبان ہے۔"
اسلامی مخصوص سے یہ بات ثابت ہے كہ تمام انبیاء جو ایك كلی و خاتمی نبوت اور ایك اساسی قانون كے پیشرو كی حیثیت ركھتے ہیں اس بات كی پابند رہے ہیں كہ وہ اپنی اپنی امتوں كو ختم نبوت كے آخری دور میں دین كے اتمام و تكمیل كی خوشخبری دیں، اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں تمام پیغمبروں سے عہد و پیمان لیا ہے۔
نہج البلاغہ كے پہلے خطبے میں اس كا ذكر بڑی عمدگی كے ساتھ كیا گیا ہے:
ولم یخل سبحانہ خلقہ من نبی مرسل اور كتاب منزل اور حجہ لازمہ اور محجہ قائمہ رسل لاتقصیر بھم قلہ عددہم و لاكثرہ المكذبین لہم و سلفت الاباء خلفت الابناء الی ان بعث اللہ محمدا رسول اللہ (ص) من سابق سعی كہ من بعدہ اوغا بر بر عرفہ من قبلہ علی ذلك نسلت القرون و مضت الدھور لانجاز عدتہ و تمام نبوتہ ماخوذا علی النبین، میثاقہ، مشہور سماتہ كریما میلادہ۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق كو كبھ كسی پیغمبریا كسی كتاب آسمانی یا كافی دلیل یا كسی روش طریقے سے خالی نہیں ركھا ہے، پیغمبروں كو ان كی قلت تعداد اور ان كے مخالفین كی كثرت تعداد نے كبھی ادائے فض سے نہیں روكا، ہر پیغمبر اپنے سے پہلے گزرنے والے پیغمبر سے پوری طرح متعارف رہا ہے اور خود اس كی آمد كی بشارت سابق پیغمبر كی زبانی لوگوں كو ملتی رہی ہے اسی طرح ایك نسل كے بعد دوسری نسل آتی رہی اور زمانہ گزر تا چلا گیا، یہاں تك كہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے كے مطابق محمد (ص) كو سلسلہ نبوت كی تكمیل كے لئے بھیجا، اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے آپ كے بارہ میں پہلے ہی عہد و پیمان لے ركھا تھا۔آپ كی نشانیاں مشہور و معروف ہوچكی تھیں اور آپ كی ولادت ایك ولادت عظیم تھی۔
اس بارے میں رسول اكرم (ص) كے دو بڑے عمدہ كلمے ہم یہاں نقل كرتے ہیں:
"نحن الاخرون السابقون یوم القیامہ"
"ہم تمام پیغمبروں اور امتوں كے بعد دینا میں آئے ہیں لیكن آخرت میں ہم سب سے آگے ہوں گے اور سب ہمارے پیچھے آئیں گے۔"
آپ كا ایك دوسرا ارشاد یہ ہے:
"آدم و من دونہ تحت للوئی یوم القیامہ"
"قیامت كے دن تمام پیغمبر میرے پرچم تلے ہوں گے۔"
قیامت كے دن اس پیشروی اور پس روی اور رسول اكرم (ص) كے پرچم تلے تمام انبیاء كے ہونے كا اصل سبب یہ ہے كہ تمام انبیاء رسول اكرم (ص) كی بعثت كے لئے مقدمہ ہیں تو آپ نتیجہ سابق انبیاء پر جو وحی نازل ہوئی وہ ایك وقتی لائحہ عمل كے دائرہ تك محدود تھی اور رسول اكرم (ص) پر نازل ہونے والی وحی ایك كلی و ابدی قانون اساسی كے لئے تھی۔مسلمان بزرگوں نے رسول اكر (ص) كے ان دو عمدہ كلمات اور معارف اسلامی كے اس اصولسےہدایت حاصل كرتے ہوئے كہ جو كچھ اس دنیا میں ظاہر ہوتا ہے اس دنیا كے واقعات كا ملكوتی ظہور ہے بڑی عمدہ اور دلپذیر باتیں كہی ہیں:
و انی وان كنت ابن آدم صورۃ
فلی فیہ معنی شاہد بابوتی
و كلہم عن سبق معنای دائیر
بدائیرئی او وارد من شریعتی
و ما منہم الا و قد كان داعیا
بہ قومہ للحق عن تبعیتی
و قبل فعالی دون تكلیف ظاہری
ختمت بشرعی المضحی كل شرعۃ
مولوی نے بھی یہی مضمون باندھا ہے:
ظاہراً آن شاخ اصل میوہ است
باطناً بھر ثمر شد شاخ
گر نبودی میل و امید ثمر
كی نشاندہی باغبان بیخ شجر
پس بمعنی آن شجر از میوہ زاد
گر بصورت از شجر بودش بار
مصطفیٰ زین گفت كارم و انبیاء
خلف من باشند در زیر لوا
بھر این فرمودہ است آن زد فنون
رمز نحن آلاخرون و السابقون
گر بصورت من ز آدم زادہ ام
من بعمنی جد جد افتادہ ام
پس ز من زائید در معنی پدر
پس ز میوہ زاد در معنی شجر
اول فكر آخر آمد در عمل
خاصہ فكری كو بود وصف ازل
شبستری كہتا ہے:
كی خط است از اول تابہ آخر
بر او خلق خدا جمل مسافر
در این رہ انبیاء چون سار بانند
دلیل و رہنمای كاروانند
و زیشان سید ماگشتہ سالار
ہم او اول ہم او آخر در این كا
احد درمیم احمد گشت ظاہر
دراین دور اور آمد عین آخر
ز احمد تا احد یك میم فرق است
جھانی اندرین یك میم غرق است
بر او ختم آمد پایان این راہ
بدو منزل شدہ ادعوا الی اللہ
مقام دلكشایش جمع جمع است
جمال جانفرایش شمع جمع است
شدہ اور پیش و دلہا جملہ در پی
گرفتہ دست جادہا دامن وی
قرآن كریم نے بعد میں آنے والے انبیاء (اور بدرجہ اولی خاتم انبیاء) پر سابق انبیاء كی جانب سے ایمان لانے ان كی نبوت كو تسلیم كرنے بلكہ ان كی آمد كو خوشخبری دینے كا اور ذمہ داری كا كہ وہ اپنی امت كو بھی ایسا كرنے كی ہدایت كریں اور انہیں بعد میں آنے والے انبیاء كی تعلیمات كو قبول كرنے كے لئے تیار كریں اور اسی طرح بعد میں آنے والے پیغمبروں كی جانب سے پیشرو پیغمبروں كی تائید و تصدیق كا اور اللہ تعالیٰ كا اپنے پیغمبروں سے اس خوشخبری اس تسلیم تائید تصدیق پر پختہ عہد لینے كا اس طرح ذكر كیا ہے:
"و اذ اخذ اللہ میثاق النبین لما اتییكم من كتاب و حكمۃ ثم جاء كم رسول مصدق لما معكم لتومنن بہ و لتنصرنہ قال اقررتم و اخذتم علی ذلكم اصی قالوآ اقررنا قال فاشہدوا وانا معكم من الشہدین" 8
ترجمہ:"یاد كرو اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا كہ"آج میں نے تمہیں كتاب اور حكمت و دانش سے نوازا ہے۔كل اگر كوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اس تعلیم كی تصدیق كرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے تو تم كو اس پر ایمان لانا ہوگا اس كی مدد كرنی ہوگی"یہ ارشاد فرما كہ اللہ نے پوچھا"كیا تم اس كا اقرار كرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد كی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو۔"انہوں نے كہا"ہاں ہم اقرار كرتے ہیں"اللہ نے فرمایا "اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گاوہ ہوں۔"
نيوتوں كا ایك رشتہ میں بندھا ہونا اور ایك نبوت كا دوسری سے مربوط ہوتے چلے جانا یہ ظاہر كرتا ہے كہ نبوت تكمیل كی جانب ایك تدریجی سفر ہے جس كا آخر حلقہ اس كی سب سے اونچی چوٹی ہے۔عارفین اسلام كہتے ہیں:
"الخاتم من ختم المراتب باسرھا"
عنی پیغمبر خاتم وہ ہے جس نے تمام مراحل طے كرلیے ہیںاور وحی كی رو سے كوئی ایسی راہ باقی نہیں رہ گئی ہے جسے اس نے طے نہ كیا ہو اور كوئی ایسا نكتہ باقی نہیں رہ گیا ہے جس كی اس نے وضاحت نہ كی ہو۔اگر ہم یہ فرضكر لیں كہ كسی علم سے متعلق تمام مسائل حل ہوچكے ہیں تو پھر اس شعبہ میں كسی نئی تحقیق یا كسی نئے انكشاف كی گنجائش باقی نہیں رہتی۔وحی سے متعلق مسائل كا معاملہ بالكل ایسا ہی ہے۔خدا كے آخری دستور كے آجانے كے بعد كسی نئے انكشاف اور كسی نے پیغمبر كی ضرورت باقی نہیں رہتی۔محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كے ذریعہ جو كچھ انسنا پر منكشف ہوا ہے، اسے ایك ایسے كامل ترین مكاشفہ كی حیثیت حاصل ہے جو كسی انسنا كے دائرہ امكان میں ہو سكتا ہے یہ بات واضح ہے كہ ایك ایسے مكمل مكاشفہ كے بعد دوسرا جو بھی مكاشفہ ہو گا، وہ دار اصل پہلے سے طے كردہ راہ كی ہی ایك چیز ہو گی اس كے ساتھ كوئی نئی بات نہیں ہوغی، آخری بات تو وہی ہے جو اس كامل ترین مكاشفہ میں آچكی ہے:
"و تمت كلمت ربك صدقاً و عدلاً لامبدل لكلمٰتہ و ہو السمیع العلیم" 9
ترجمہ:"تمہارے رك كی بات سچائی اور انصاف كے اعتبار سے كامل ہے كوئی اس كے فرامین كو تبدیل كرنے والا نہیں ہے اور وہ سب كچھ سنتا اور جانتا ہے۔"
مرحوم فیض نے اپنی كتنا علم الیقین كے 10 پر كسی بزرگ كا قول نقل كیا ہے:
"انسانی فطرت كا ہدف و مقصود و قرب الٰہی كے مقام تك پہنچنا ہے اور پیغمبروں كی رہنمائی كے بغیر ممكن نہیںہے۔اس اعتبار سے نبوت نظام زندگی كا ایك حصہ قرار پاتی ہے لیكن اس كا مقصود اور ہدف سب سے اونچا مرتبہ اور نبوت كا آخری درجہ ہے نہ كہ نبوت كا اولین درجہ، سنت الٰہی كے مطابق نبوت بتدریج درجہ كمال تك پہنچتی ہے جیسے كہ ایك عمارت بتدریج مكمل ہوتی ہے۔عمارت كی تعمیر كا ہدف اس كے پایے اور دیواریں نہیں ایك مكمل مكان ہوتا ہے، نبوت كا معاملہ بھی ایسا ہی ہے نبوت كا ہدف اس كی تكامل صورت ہے یہی وجہ ہے كہ نبوت كا سلسلہ ایك جگہ پہنچ كر ختم ہو جاتا ہے اور مكلم ہو جاتا ہے۔
وہ مزید كسی اضافے كو قبول نہیں كرتا كیونكہ تكمیل كے بعد كوئی اضافہ و كمال كے منافی ہو تا ہے اور اس كی حیثیت ایك زائد انگلی كی سی ہو جاتی ہے، پیغمبر اكرم (ص) كی معروف حدیث میں اس جانب اشارہ كیا گیا ہے، آپ نے فرمیا نبوت ایك مكان كی مانند ہے جو تیار ہو چكا ہے لیكن اس كے مكمل ہو ے میں سرف ایك اینٹ كی جگہ باقی رہ گئی ہے اس جگہ كو میں ہی بھرنے والا ہوں یا میں ہی اس آخری اینٹ كی جگہ باقی رہ گئی ہے اس جگہ كو میں ہی بھرنے والا ہوں یا میں ہی اس آخری اینٹ كا نصب كرنے والا ہوں!
ہم نے گذشتہ صفحات میں جو كچھ لكھا ہے، وہ عقیدہ ختم نبوت كے پس منظراور اس كی بنیادون كی جانب رہنمائی كے لیے كافی ہے۔
یہ بات واضح ہوگئی كہ انسانی فطرت میں دین كی طلب وہ بنیاد ہے جس پر عقیدۀختم نبوت استوار ہوتا ہے تمام انسانوں كی فطرت ایك ہے، تكمیل انسانیت كا سفر ایك با مقصد سفر ہے جو ایك متعین اور سیدھے راستہ جاری ہے ۔اس اعتبار سے دین حق، جو فطرت كے تقاضوں كی وضاحت كرتا ہے اور انسان كی راہ راست كی جانب رہنمائی كرتا ہے، صرف ایك ہی ہوسكتا ہے ۔ایك طریق زندگی جو انسانی فطرت كے مطابق ہو، جامع اور كلی ہو اور ہر طرح كی تبدیلی و تحریف سے محفوظ ہو اور جو مسائل كی اچھی طرح تشخیص كر سكے اور جسے اچھی طرح منطبق كیا جاسكے اور عمل و نفاذ كے مرحلے میں ہمیشہ رہنمائی كرسكے اور حالات كے مطابق مختلف طریقوں لائحہ عمل اور بے شمار جزئی قوانین كے لئے سرچشمہ ثابت ہوسكے انسانی فطرت كا ایك اہم تقاضا اور انسان كی ایك بنیادی ضرورت ہے آئدہ مضامین اس پہلو كو بہتر طریقے پر واضح كریں گے ۔
اب ہم ان سوالات كا جواب تلاش كرتے ہیں جن كی طرف ابتدا میں اشارہ كیا گیا تھا۔
آسمانی دروازے
پہلا سوال جس كے سبب ختم نبوت كا عقیدہ وجود میں آیا وہ عالم غیب اور انسان كے درمیان رابطے سے تعلق ركھتا ہے وہ سوال یہ ہے كہ سب سے پہلے دور كے انسان نے اپنی جہالت اور بے علمی كے باوجود وحی و الہٰام كے راستے سے عالم غیب كے ساتھ كس طرح رابطہ پیدا كرلیا اور اس پر آسمان كے دروازے كیسے كھل گئے؟ جبكہ ترقی یافتہ بعد كا انسان اس رحمت سے محروم رہا اور اس پر آسمان كے دروازے بند ہوگئے۔
كیا فی الواقع انسان كی روحانی اور باطنی صلاحیتیں كم ہوگئی ہیں اور وہ اس اعتبار سے تنزل میں چلا گیا ہے۔
یہ شبہ اس خیال سے پیدا ہوا ہے كہ عالم غیب كے ساتھ معنوی ربط و تعلق انبیاء كے ساتھ مخصوص ہے اس لئے سلسلہ نبوت كے منقطع ہونے كا لازمی نتیجہ عالم غیب اور عالم انسانی كے درمیان روحانی اور معنوی رابطے كے انقطاع كی صورت میں ظاہر ہوگا۔
لیكن یہ خیال اپنی كوئی بنیاد نہیں ركھتا۔قرآن كریم بھی غیب اور ملكوت كے ساتھ اتصال كے درمیان اور مقام نبوت كے درمیان لازم و ملزوم كے تعلق كا قائل نہیں ہے جیسا كہ خرق عادت كو وہ پیغمبری كی واحد دلیل تسلیم نہیں كرتا، قرآن كریم ایسے اشخاص كا بھی ذكر كرتا ہے كہ ان كی معنوی زندگی ایسی طاقت سے بہرہ مند رہی ہے كہ انہوں نے فرشتوں كے ساتھ ہمكلامی كی ہے اور ان سے خارق العادت (غیر معمولی) امور انجام پائے ہیں حالانكہ وہ اشخاص نبی نہیں تھے۔اس كی بہترین مثال عمران كی بیٹی، عیسی مسیح (ع) كی ماں مریم ہے۔قرآن نے ان كے بارے میں حیرت انگیز واقعات كا ذكر كیا ہے۔قرآن موسیٰ (ع) كی والدہ كے بارے میں بھی كہتا ہے ہم نے اس كی طرف وحی بھیجی كہ موسیٰ (ع) كو دودہ پلائے اور جب اسے موسیٰ (ع) كے بارے میں كسی خوف كا احساس ہوا تو اسے دریا میں بہادے ہم اسے محفوظ ركھ كر تیری طرف واپس لوٹا دیں گے ہمیں معلوم ہے كہ عیسیٰ (ع) كی ماں پیغمبر تھیں اور نہ موسیٰ (ع) كی والدہ۔
حقیقت یہ ہے كہ ملكوتی حقائق كے غیب و شہود كے ساتھ اتصال، آواز غیبی كا سننا اور بالاخر غیب سے خبر كا پانا نبوت نہیں ہے، نبوت پیغام كا لانا ہے ہر دو شخص جسے غیب كی خبر مل جائے پیغام كا لانے والا نہیں ہوتا۔
قرآن اشراق اور الہٰام كا درازہ ان تمام لوگوں پر كھلتا ہے جو اپنے باطن كو پاك كرلیتے ہیں:
"ان تتقوا اللہ یجعل لكم فرقاناً" 11
ترجمہ:"اگر تم خدا ترسی اختیار كرو گے تو اللہ تمہارے لئے كسوئی بہم پہنچادے گا۔"
والذین جاھد و افینا لنھدینھم سبلنا 12
ترجمہ:جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ كریں گے انہیں ہم اپنے رستے دكھائیں گے۔
اسی فلسفہ كے نقطہ نظر سے معنوی اور عرفانی زندگی زندگی كا ایك نمونہ پیش كرنے كے لئے نہج البلاغہ كے ایك خطبہ كچھ حصہ یہاں نقل كرنا كافی ہوگا۔
نہج البلاغہ كے خطبہ ۲۲۰میں اس طرح بیان كیا گیا ہے۔
"ان اللہ تعالیٰ جعل الذكر جلاء للقوب تسمع بہ بعد الوقرۃ و تبصربہ بعد العشوŭ و تنقادبہ بعد المعاندŭ و ما برح للہ عزت آلائہ فی البرھۃ بعد البرھۃ و فی ازمان الفترات عبادنا جاہم فی فكر ہم و كلمھم فی ذات عقولہم"
ترجمہ:"اللہ تعالیٰ نے اپنی یاد كو دلوں كا صیقل قرار دیا ہے۔دل بہرے ہوجانے كے بعد بھی اس ذكر كے ذریعہ سننے والے اور اندھے ہوجانے كے بعد دیكھنے والے اور سركشی و عناد كی راہ پر چل پڑنے كے بعد بھی مطیع و فرمانبردار ہو جاتے ہیں۔ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے كہ زمانے كے ہر ایك حصے میں اور ان زمانوں میں جبكہ لوگوں كے درمیان كوئی پیغمبر موجود نہ ہو اللہ تعالیٰ كے ایسے بنے موجود رہے ہیں آج بھیء موجود ہیں جن كے دلوں میں وہ كوئی راز كی بات ڈالتا رہا ہے اور ان كی عقلوں كی راہ سے ان كے ساتھ بات كرتا ہے۔"
رسول اكرم (ص) سے روایت ہے:
"ان للہ عباداً لیسوا بانبیاء یغبط ہم النبوŭ"
"اللہ تعالیٰ كے ایسے بندے بھی موجود ہیں كہ وہ پیغمبر نہیں ہیں لیكن نبوت ان پر رشك كرتی ہے۔"
شیعہ ائمہ اطہار (ع) كی باطنی ولایت و امامت كے قائل ہیں جبكہ وہ انہیں نبی نہیں سمجھتے۔اس سے بات بالكل واضح ہوجاتی ہے۔
عارفین اسلام نے عرفانی اصطلاحات میں معنی سیرو سلوك كے مراتب كو چار مرحلوں میں تقسیم كیا ہے ہم طول كلام سے بچنے كے لئے اس كے صرف دو مرحلوں كی طرف اشارہ كرتے ہیں:
الف) سفر از خلق بہ حق (مخلوق كی طرف سے خالق كی جانب سفر)
ب) سفر حقبہ خلق (خالق كی طرف سے مخلوق كی جانب سفر)
مخلوق كی جانب سے خلاق كی طرف سفر پیغمبروں كے لئے مخصوص نہیں ہے۔پیغمبر تو معبوث ہی اسی لئے ہوئے ہیں كہ اس سفر میں انسان كی مدد كریں، جو كچھ پیغمبروں كے لئے مخصوص ہے، وہ خالق كی جانب سے مخلوق كی جانب سفر ہے یعنی وہ مخلوق كی دستگیری اور ارشاد ہدایت پرمامور ہیں اس سے مراد پیغمبر كی كثرت كی جانب واپسی ہے تا كہ اسے وحدت كی راہ دكھا سكے۔
صدر المتالھین 13 پر لكھتے ہیں:
"وحی یعنی پیغمبری اور منصب نبوت كے لئے قلب و سماعت پر فرشتے كا نزول منقطع ہو چكا ہے اور اب كسی شخص پر كوئی فرشتہ نازل مہیں ہوگا اور اسے كسی فرمان الٰہی كے جاری كرنے پر مامور نہیں كیا جائے گا، كیونكہ "اكلمت لكم دینكم" كے حكم كے تحت جو كچھ وحی كے راستے انسان تك پہنچتا تھا وہ پہنچ چكا ہے لیكن الہام و اشراق كا دروازہ كبھی بند نہیں ہوا ہے اور نہ آئند ہوگا اس راہ كا مسدوء ہونا ممكن نہیں۔"
اس سلسلے میں پہلے بہت كچھ كہا جا چكا ہے اس كا نقل مرنا موجب ظوالت ہوگا۔ہمارے زمانے كے دانشمندوں میں سے عالمہ اقبال نے ایك بڑی لطیف بات كہی ہے۔اقبال نے نبی اور عارف كے درمیان (ان كے قول كے مطابق مرد باطنی) فرق كو اس طرح واضح كیا ہے۔
ایك مرد عارف تجرنہ اتحادی (وصول بہ حق) سے حاصل كرنے والے اطمینان و سكون كے بعد حیات دنیوی كی جانب واپسی كو پسند نہیں كرتا۔اگر وہ ضرورت كی بنا پر واپس بھی آتا ہے تو انسانیت كے لئے اس كی واپسی چنداں سودمند نہیں ہوتی لیكن خلق كی طرف پیغمبر كی واپسی ثمر بخش اور تخلیقی پہلو كی حامل ہوتی ہے۔پیغمبر واپس آتا ہے اور وقت كے دھارے میں اتر جاتا ہے تاكہ تاریخ كے دھارے كو قابو میں لائے اور اس طرح كمال مقاصد سے ایك جہاں تازہ پیدا كرے۔ایك مرد عارف كے لیے تجربہ اتحادی (وصول بہ حق) سے حاصل ہونے والا سكون ایك انتہائی مرحلہ ہے اور پیغمبر كے لئے اس كی روحانی قوت كا بیدار ہونا ہے جو ساری دنیا كو ہلا كر ركھ دیتی ہے۔یہ قوت ایك ایسے اندازے كے ساتھ ظاہر ہوتی ہے كہ عالم انسانی میں ایك مكمل انقلاب برپا كردیتی ہے پیغمبری كو ایك ایسی باطنی خود آگاہی ركھنے والی نوع سے تعبیر كیا جاسكتا ہے كی اس میں تجربہ اتحادی (وصول بہ حق) اپنی حدود سے باہر نكلنے كے قریب پہنچ جاتا ہے اور ایسے مواقع كی تلاش میں ہوتا ہے كہ اجتماعی زندگی كی طاقتوں كو از سر نو توجیہ كرے یا انہیں ایك تازہ شكل دے!
پس انقطاع نبوت سے مراد ارشاد و ہدایتر كے لیے خدا كی طرف سے ماموریت كا منقطع ہونا ہے۔خدا كی طرف سفر كرنے والوں اور سالكوں كے لیے معنوی فیض كا منقطع ہونا نہیں۔
اگر ہم نے یہ گمان كیا كہ اسلام نے نبوت كے اعلان كے ساتھ معنوی زندگی كی بھی نفی كردی ہے تو ہم سخت غلطی كریں گے۔
نبوت تبلیغی
دوسرا سوال یہ ہے كہ پیغمبران كرام بحثییت مجموعی دو بڑی ذمہ داریوں كو پورا كرتے رہے ہیں۔وہ خدا كی طرف سے انسان كے لیے قانون اور دستور العمل لاتے رہے ہیں وہ دوسرے یہ كہ وہ لوگوں كو خدا كی طرف بلانے كے ساتھ انہیں اس دور اور زمانے كے الٰہی دستور العمل پر كاربند ہونے كی دعوت دیتے رہے ہیں۔پیغمبروں كی اكثریت اسی دوسرے فریضے كے انجام دینے پر مامور رہی ہے۔ایسے پیغمبروں كی تعداد بہت كم ہے جن كو قرآن اولوالعزم قرار دیتا ہے اور جن كے ذریعے قانون اور دستور العمل بھیجا گیا ہے۔اس اعتبار سے نبوتیں دو قسم كی رہی ہیں ایك نبوت تشریعی اور دوسری نبوت تبلیغی …تشریعی پیغبر جن كی تعداد بہت تھوڑی ہے وہ صاحب شریعت و قانون انبیاء كہلاتے ہیں جبكہ تبلیغی پیغمبروں كا كام صاحب شریعت پیغمبروں كی تعلیمات كو عام كرنا اور ان ہی كے مطابق تعلیم و ارشاد كا كام انجام دینا رہا ہے۔اسلام نے ختم نبوت كا اعلان كركے نہ صرف تشریعی نبوت بلكہ تبلیغی نبوت كے سلسلے كوبھی ختم كردیا ہے۔آخر ایسا كیوں كیا گیا؟ امت محمد (ص) اور ملت اسلامیہكو پیغمبروں كے ہدایت و ارشاد كے اس سلسلے سے كیوں محروم كیا گیا؟
بلفرض ہم نے یہ بات تسلیم كرلی كہ تكمیل اتمام اور جامعیت و كلیت كی بنا پر تسریعی نبوت كا سلسلہ منقطع كردیا گیا لیكن تبلیغی نبوت كے سلسلے كو كس حكمت و فلسفے كی بنا پر ختم كیا گیا؟
حقیقت یہ ہے كہ نبوت اور ہدایت وحی كی اصل ذمہ داری یعنی وہی پہلی ذمہ داری (تشریعی) ہے جبكہ تبلیغ تعلیم اور دعوت كی ذمہ داری (تبلیغی) نصف بشری ہے تو نصف الٰہی۔
وحی اور نبوت یعنی عالم وجود كی بنیادوں سے ایك پوشیدہ اتصال اور رابطہ اور مخلوق كی ہدایت كے لیے اس كی ماموریت در اصل مظاہر ہدایت كا ایك مظہر ہے جو سارے عالم وجود پر حكم فرما ہے۔
"الذی خلق فسویٰ والذی قدر فہدیٰ" 14
ترجمہ:"جس نے پیدا كیا اور تناسب قائم كیا جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دكھائی۔"
موجودات زندگی كی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے اس درجہ كمال كی مناسبت سے جس پر وہ پہنچ جاتے ہیں ہدایت خاص سے پہرہ مند ہوتے ہیں یعنی ہدایت كی شكل اور خصوصیت زندگی كے مختلف مراحل كے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔تمام دانشور اس بات كو تسلیم كرتے ہیں كہ حیوانات اپنی ساخت كے وسائل طبیعی كے اعتبار سے ضعیف تر اور ناتوان تر ہیں لیكن وہ پوشیدہ جبلی رہنمائی كے اعتبار سے قوی تر ہوتے ہیں انہیں فطرت كی ایك مستقل سر پرستی اور حمایت حاصل رہتی ہے۔وہ جس قدر طبعی وسائل اور عقلی وہمی خیالی اور حسی طاقتوں سے لیس ہوتے چلے جاتے ہیں وجود كی سیڑھی پر ان كے قدم بلندی كی جانب اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ان كی جبلی ہدایت میں كمی آنے لگتی ہے۔ٹھیك اس بچہ كی طرح جو كمسنی كے ابتدائی مراحل میں ماں باپ اور دوسرے اشخاص كی مستقل سر پرستی اور نگرانی سے بہرہور رہتا ہے اور جس قدر وہ رشد و بلوغ حاصل كرتا جاتا ہے والدین كی مستقل نگرانی و سرپرستی كے دائرے سے باہر نكتا چلا جاتا ہے۔
جاندار مخلوقات كا زندگی كی سیڑھیوں پر چڑھ كر بلند ہونا اور ان كا عقلی وہمی خیالی حسی اور عضوی وسائل سے لیس ہونا ان كے استحكام و استقلال كو بڑھانا ہے اور اس اعتبار سے ان كی جبلی ہدایت كم ہوجاتی ہے۔
كہا جاتا ہے كیڑے دوسرے تمام حیوانات كی بہ نسبت جبلی ہدایت سے زیادہ لیس ہوتے ہیں اس كی وجہ یہ ہے كہ وہ تكمیلی مراحل كے اعتبار سے سب سے نچلے درجہ میں ہیں اور انسان جو تكمیل كی سیڑھی كے سب سے اونچے پلہ پر پہنچا ہوا ہے تمام مخلوقات كی بہ نسبت جبلی ہدایت میں كمزور تر ہے۔
وحی ہدایت كے عالی ترین اور بلند ترین مراتب و مظہر میں سے ایك ہے۔وہ اپنے اندر ایك ایسی رہنمائی ركھتی ہے جو حس خیال عقل علم اور فلسفہ كی دسترس سے باہر ہے ان میں سے كوئی چیز وحی كی جگہ نہیں لے سكتی لیكن وحی تشریعی ہی اس خصوصیت كی حامل ہے وحی تبلیغی نہیں وحی تبلیغی كا معاملہ دوسرا ہے۔
انسان اس وقت تك تبلیغی وحی كا محتاج رہتا ہے جب تك اس كی عقل علم اور تمدن كا فرجہ اس مقام تك بلند نہیں ہو جاتا كہ وہ خود اپنے دین كے بارے میں دعوت تعلیم تبلیغ تفسیر اور اجتہاد كا فرض انجام دے سكے علم اور عقل كا ظہور دوسرے الفاظ میں انسانیت كا رشد و بلوغ خود وحی تبلیغی كو ختم كر دیتا ہے اور علماء ان انبیاء كے جانشین قرار پاتے ہیں۔
جیسا كہ ہمیں معلوم ہے قرآن نے اپنی نازل ہونے والی پہلی آیت میں پڑھنے لكھنے كی اور قلم وعلم كی بات كی ہے۔
اقرا باسم ربك الذی خلق؛ خلق الانسان من علق؛ اقراء و ربك الاكرم؛ الذی علم بالقلم؛ علم الانسان مالم یعلم" 15
ترجمہ: "پڑھو (اپنے نبی) اپنے رب كے نام كے ساتھ جس نے پیدا كیا جمے ہوئے خون كے ایك لو تھڑے سے انسان كی تخلیق كی پڑھو اور تمہارا رب بڑا كریم ہے جس نے قلم كے ذریعہ سے علم سكھایا۔انسان كو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔"
یہ آیت اس بات كا اعلان كرتی ہے كہ قرآن كا عہد پڑھنے لكھنے سكھانے كا اور علم و عقل كا عہد ہے۔یہ آیت ہمیں اشار تا بتاتی ہے كہ قرآن كے اس دور میں تعلیم تبلیغ اور آسمانی آیات كی حفاظت كی ذمہ داری علماء كی طرف منتقل كردی گئی ہے اور علماء اس اعتبار سے انبیاء كے جانشین قرار پاتے ہیں۔اس آیت نے اس عہد میں بشریت كے استقلال اور بلوغ كا اعلان كیا ہے۔ قرآن نے اپنی تمام آیات میں تدبر عقلی استدلال فطرت كے تجرباتی و عینی مشاہدہ تاریخ كے مطالعہ اور گہرے غور و فكر كی دعوت دیتا ہے یہ سب ختم نبوت كی اور وحی تبلیغی كی جگہ علم و عقل كے جانشین ہونے كی نشانیاں ہیں۔
قرآن كے لیے جس قدر كام ہوچكا ہے كیا كسی دوسری آسمانی كتاب كے لیے اس قدر كام انجام دیا گیا ہے؟ نزول قرآن كے ساتھ ہی قرآن كے ہزاروں حافظ پیدا ہوگئے۔نزول قرآن كو ابھی نصف صدی بھی نہیں گزری تھی كہ علوم قرآنی كی خاطر نحو وصرف قواعد زبان اور عربی زبان كی لغات كی تیاری كا كام شروع ہوچكا تھا۔معانی بیان اور بدایع كا علم ایجاد ہوا ہزاروں تفسیریں اور ان كے مفسرین تفسیر قرآن كی درسگاہیں وجود میں آگئیں۔قرآن كے لفظ لفظ كے بارے میں تحقیق كا كام ہونے لگا اس كام زیادہ حصہ ان لوگوں كے ہاتھوں انجام پاتا رہا جن كی مادری زبان عربی نہیں ہے۔ صرف یہ قرآن سے متعلق خاطر ہی رہی ہے جس نے اس قدر جوش و جذبہ پیدا كردیا۔یہ ساری سرگرمیاں آخر توریت انجیل اور اوستا كے لیے كیوں ظاہر نہیں ہوئیں كیا خود یہ بات بشریت كے رشد و بلوغ اور كتاب آسمانی كی تبلیغ و حفاظت اس كی صلاحیت پر دلالت نہیں كرتی؟ كیا یہ اس بات كی دلیل نہیںہے كہ عقل و دانش نبوت تبلیغی كی جانشین بن گئی ہے۔
انسان اپنے ابتدائی دور میں مكتب كے اس كمسن بچے كی طرح تھا جو چند روز بعد ہی اپنی كتاب كو پھاڑ كرپھینك دیتا ہے اس كے بر عكس عہد اسلامی كا انسان ایك بزرگ عالم كی طرح ہے كہ وہ جس قدر اپنی كتابوں كا بار بار مطالعہ كرتا ہے اسی قدر ان كے مضمین اسے یاد ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ ان كی گہرائی میں اتر تا چلا جاتا ہے۔
انسانی زندگی كو بالعموم عہد تاریخ اور تاریخ سے پہلے كے عہد كے دو ادوار میں تقسیم كیا جاتا ہے۔تاریخ كا عہد اس دور كو كہا جاتا ہے جس میں انسان اپنی یادداشتوں كو كتبوں اور كتابوں كی صورت میں محفوظ كرنے كے قابل ہوگیا تھا اس دور كی زندگی كے بارے میں ان ہی یادداشتوں كو فیصلہ كن قرار دیا جاتا ہے لیكن ما قبل تاریخ كے عہد كے ایسے كوئی آثار موجود نہیں ہیں جو اس زمانے كی زندگی كے بارے میں فیصلے كی بنیاد بن سكیں۔ لیكن ہمیں یہ بھی معلوم ہے كہ عہد تاریخ كے آثار بھی زیادہ تر پراگندہ اور منتشر ہیں، البتہ اس عہد كا وہ آخری حصہ ظہور اسلام كے دور سے پوری طرح متصل ہے جس میں انسان نے پانی تاریخ اور آثار كو منظم طریقے پر نسل بہ نسل منتقل كرنا شروع كردیا تھا خود اسلام كو اس رشد عقلی كا ایك بڑا عامل سمجھا جاتا ہے۔عہد اسلامی میں مسلمانوں نے خود اپنے آثار كی حفاظت و نگہداشت كا كام شروع كردیا تھا۔اس كے ساتھ مسلمانوں نے پچھلی قوموں كے آثار كی بھی كم و بیش حفاظت كی اور انہیں بعد كی نسلوں كی طرف منتقل كرتے رہے۔یہ ختم نبوت كا قریبی زمانہ ہی ہے كہ جس میں انسان نے اپنے علمی اور دینی ورثوں كی كی حفاظت كی صلاحیت كا مظاہرہ كیا۔امر واقع یہ ہے كہ حقیقی عہد تاریخ ظہور اسلام كے عہد سے بالكل متصل ہے، گذشتہ ادوار میں ایك طرف نفیس علمی، فلسفی، اور دینی آثار ہوا اور دوسری طرف یہ آثار آب و آتش كے نذر بھی ہوتے رہے، تاریخ میں اس كی دردناك تفصیلات پوری طرح محفوظ ہیں۔
اسكندریہ كا عظیم مشرق روم كی شہنشاہیت پر مسیحیت كے اثر و رسوخ كے بعد تباہ ہو گیا اور اس مركز تاریخی كتب خانہ متعصب عیسائیوں كے ہاتھوں نزر آتش ہو گیا!
علم كے ظہور اور ترقی كے ایك ایسے درجے تك انسان كی رسائی نے كہ وہ دین آسمانی كا محافظ، داعی اور مبلغ بن سكے، نبوت تبلیغی كی ضرورت باقی رہنے نہ دی اور اس كا سلسلہ منقطع ہوگیا۔یہی وجہ ہے كہ پیغمبر اكرم (ص) نے اس امت كے علماء كو انبیاء بنی اسرائیل كی مانند كہا ہے۔
علامہ اقبال نے ایك بڑی عمدہ بات كہی ہے۔
"پیغمبر اسلام دنیائے قدیم جدید كے درمیان كھڑے ہیں۔الہام كے سرچشمے سے جب آپ كا رشتہ جوڑا جاتا ہے تو دنیائے قدیم سے آپ كا تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور جب روح الہام كو بروئے كار لایا جاتا ہے تو دنیائے جدید سے آپ كا ربط ہو جاتا ہے۔زندگی نے آپ كی ذات میں معرفت كے وہ دوسرے سرچشمے دریافت كر لئے ہیں جو اس (زندگی) كے نئے سفر كے لیے موزون ہیں۔اسلام كا ظہور در اصل استدلالی اور استقرائی عقل كا وجود میں آنا ہے۔ظہور اسلام كے ساتھ رسالت، خود نبوت كے اختتام پذیر ہونے كی ضرورت كے نتیجے میں، حد كمال كو پہنچ جاتی ہے جس سے لازما یہ دانش مندانہ نتیجہ نكلتا ہے كہ زندگی ہمیشہ، كمسنی كے مرحلے میں اور باہر سے رہنمائی كی محتاج نہیں رہ سكتی۔اسلام میں كاہنی (فالگیر) اور موروثی سلطنت كی نفی اور قرآن میں عقل اور تجربہ پر دائمی توجہ اور اس كتاب مبین كا فطرت اور تاریخ كو معرفت بشری كے سرچشموں كی حیچیت دنیا در اصل ختم نبوت كے واحد عقیدے كے مختلف خدوخال ہیں۔عقیدۀ ختم نبوت كے یہ معنے نہیں لینے چاہیں كہ زندگی كی انتہائی سرنوشت یہ ہے كہ عقل كامل جزبات و احساسات كی جگہ حاصل كرلے، یہ بات نہ ممكن ہے اور نہ مطلوب"
اسلام نے اعلان ختم نبوت كے ضمن میں اپنی ابدیت كا اعلان كیا ہے:"حلال محمّدٍ حلال الی یوم القیامہ و حرام محمد حرام الی یوم القیامۃ"
ترجمہ: "محمد كا حلال كیا ہوا قیامت تك حلال ہے اور محمد (ص) كا حرام كیا ہوا قیامت تك حرام ہے"
سوالات اور اعتراضات كی ساری بوچھاڑ اسی موضوع سے ہے كہا جاتا ہے كیا كسی چیز كے لیے ہمیشگی ممكن ہے؟
دنیا میں ہر چیز فانی ہے، اس دنیا كی اصل بنیاد تغیر ہے، دنیا میں سرف ایك ہی چیز جاودانی ہے اور وہ یہ كہ كسی چیز كو ہمیشگی حاصل نہیں۔
ہمیشگی اور ابدیت كے منكر كبھی اپنی باتوں كو فلسفہ كا رنگ دے دیتے ہیں اور دلیل میں تغیر و تبدل كے اس قانون كو پیش كرتے ہیں جو فطرت كا ایك مجموعی قانون ہے۔
اگر ہم مسئلے پر اس نقطہ نظر سے غور كریں تو اعتراض كا واضح جواب مل جاتا ہے كہ وہ چیز جو ہمیشہ تغٰر و تبدل سے دوچار رہتی ہے وہ مادہ اور دنیا كی مادی تركیبات ہیں لیكن قوانین اور نظامات خواہ وہ طبیعی نظامات ہوں یا وہ اجتماعی نظامات جو طبیعی اصولوں سے ہم آہنگ ہوں اس قانون تغیر و تبدل كے تحت نہیں آتے، ستارے اور شمسی نظامات ظاہر ہوتے ہیں اور چند دنوں بعد فرسودہ اور فانی ہو جاتے ہیں لیكن قانون كشش اپنی جگہ رہنا ہے، نباتات اور حیوانات وجود میں آتے ہیں اور فنا ہو جاتے ہیں لیكن قوانین حیات باقی رہتے ہیں۔
ہی حال انسانوں اور ان كی زندگی كے قابون كا ہے، انسان جن میں پیغمبر بھی شامل ہے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لیكن پیغمبر كا لایا ہوا آسمانی قانونزندہ اور تابندہ رہتا ہے ۔
مصطفیٰ را وعدہ داد الطاف حق             گر بمیری تو نمیرد این سبق
مظاہر فطرت تغیر پذیر ہیں قوانین فطرت كو تغیر نہیں، اسلام قانون ہے نہ كہ مطاہر كائنات سے ایك مظہراسلام اسی صورت مین مردہ ہو سكتا ہے كہ وہ قوانین فطرت سے ہم آہنگ نہ ہو لیكن جب اسلام كا اپنا دعویٰ ہے كہ وہ فطرت اور انسانی سرشت سے اور اس كے معاشرے سے تازگی اور قوت حاصل كرتا ہے اور قوانین فطرت سے ہم آہنگ ہے تو آخر وہ كس طرح ہو سكتا ہے؟
كبھی اجتماعیت كے پہلو سے اعتراض كیا جاتا ہے اور كہا جاتا ہے كہ اجتماعی ضوابط اجتماعی تقاضوں كی بنیاد پر وضع كئے جاتے ہیں، جب معاشرہ كی ضروریات قوانین اجتماعی كی بنیاد ہیں تو ان كا عوامیل تمدن كی توسیع و تكمیل كے ساتھ ساتھ متغییر ہونا بھی ضروری ہے ہر زمانے كی ضروریات دوسرے زمانے كی ضروریات سے مختلف ہوتی ہیں، میزائیل طیاروں بجلی اور ٹیلی ویژن كے اس جدید دور كی ضروریات گھوڑوں، خچرون اور اونٹون كی پرانے كی ضروریات سے قطعی مختلف ہون گی، یہ كس طرح ممكن ہے كہ اس جدید دور كے لیے بھی وہی ضوابط نافذ ہوں جو پرانے زمانے میں رائج تھے، دوسرے الفاظ میں عوامل تمدن كے اندر ترقی و توسیع لازمانئے تقاضے پیدا كرے گی، اس لیے جبر تاریخ كا راستہ روكنا اور زمانہ كے ایك ہی حال پر ركھنا ممكن نہیں ہے اور زمانے كے تقاضوں كے ساتھ ہم آہنگی اختیار كرنا بھی ممكن نہیں ہے، جامد اور یكساں ضوابط كا پابند رہنا مقتضیات زمانہ كے ساتھ مطابقت اور لچك پیدا كرنے اور تمدن كے قافل كے ساتھ ہم آہنگ ہونے كی راہ میں ایك بڑی ركاوٹ ہے۔
بے شك اہم ترین مسئلہ ہے، ہماری نئی نسل بجز تغیر و تبدل اور وجدت طلبی اور زمانے كے نئے نئے تقاضوں كے كچھ نہیں سوچتی، نئی نسل كا سامنا كرتے بھی جو بات سب سے پہلے كانون تك پہنچتی ہے وہ یہی ہے، اس نسل كی انتہا پسندوں كے نقطہ نظر سے مذہب اور نو طلبی دو متضاد وجود ہیں، نو طلبی كی خاصیت حركت اور ماضٰ سے منہ موڑنا ہے جبكہ مذہب كی خاصیت جمود سكون، ماضی سے وابستگی اور موجودہ وضع كی حفاظت كرنا ہے۔
اسلام كو دسرے ہر مذہب سے زیادہ اس طرز فكر كے حامل گروہ سے مقابلہ كرنا پڑ رہا ہے، اسلام كا ابدیت و ہمیشگی كا دعوی اس گروہ كے لیے بڑا نا قابل برادشت ہے، اسلام زندگی كے تمام شعبون میں عمل دخل ركھتا ہے، خدا اور بندے كے درمیان تعلق سے لے كر افراد كے اجتماعی روابط، خاندانی روابط، فرد اور اجتماع كے روابط انسنا اور اس دنیا كے با ہمی روابط سب ہی سے وہ بحث كرتا ہے، اگر اسلام دوسرے مذاہب كی طرح چند رسلم عبادات اور خشك اخلاقی ضوابط تك محدود ہوتا تو پھر اس كے لیے كوئی دشواری نہ تھی لیكن وہ اس قدر مدنی، فوجداری، دیوانی، سیاسی، اجتماعی اور خاندانی قوانین و ضوابط ركھتے ہوئے كیا كر سكتا ہے؟
ہم نے اوپر جو اعتراض نقل كیا ہے اس میں جبر تاریخ ضروریات میں تغیر مقضیات زمانہ كی رعایت جیسے نكات كو اٹھا یا گیا ہے اس لیے اعتراض كے ان تین اصل نكات پر مختصراً، بحث كرنا ضروری ہے، اس كے بعد اسلام كے نقطہ نظر سے ہم اس اعتراض كو رفع كرنے كی كوشش كریں گے، ان محدود صفحات مین بحث كے تمام پہلووں كا احاطہ كرنا ممكن نہیں ہے، ایك ایسا مسئلہ جو فلسفہ، فقہ، تاریخ اور اجتماعیات سب ہی سے متعلق ہے ایك ضخیم كتاب كی وسعت چاہتا ہے جسے برسون كے مطالعہ كا حاسل قرار دیا جا سكے تا ہم توقع ہے كہ یہ مختسر مقالہ اس اشكال كے رفع كرنے میں مدد دے گا۔
جبر تاریخ
یہ كلمہ و اجزاء سے مركب ہے ۔جبر اور تاریخ جبر كا مطلب كسی چیز كا حتمی اور یقینی ہونا ہے فلاسفہ كی اصطلاح میں اسے ضرورت اور وجوب كہا جاتا ہے مثلا :جب ہم ۵×۵ كہتے ہیں تو یہ ضرب كھانے والے دونوں اعداد ضرورتا اور جبرا ۲۵ كے مساوی ہوں گے یعنی حتما ایسا ہی ہے اس كے خلاف ہونا ممكن نہیں ہے ۔یہ بات ظاہر ہے كہ جبر كا لفظ اصطلاحا ایك فلسفیانہ مفہوم ركھتا ہے ۔اس سے ہٹ كر جبر كا مفہوم حقوقی فقہی اور عرفی ہے یعنی یہ لفظ اكراہ اور جبریہ ارمال كے لئے استعمال كیا جاتا ہے ۵×۵ اپنی ذاتی ساخت كی بناء پر ۲۵ كے مساوی ہے یہ كسی جبری قوت اور جبریہ عمل كی وجہ سے نہیں ہے لیكن تاریخ، تاریخ یعنی حادثات كا مجموعہ جو انسان كی سرگذشت كو تشكیل دیتا ہے ۔انسانی سرگذشت ایك راستہ طے كرتی ہے كچھہ ایسی طاقتیں كار فرما ہیں جو اسے حركت میں لاتی ہیں اور اسے قابو میں ركھتی ہیں جیسے ایك دستی پہیہ یا ایك كارخانہ جسے ہاتھہ یا بھاپ كی طاقت سے چلایا جاتاہے ۔تاریخ كو بھی كچھہ عوامل اور طاقتیں حركت میں ركھتی ہیں ۔اسے گردش میں لاتی ہیں اور آگے بڑھاتی ہیں ۔اس اعتبار سے جبر تاریخ، كا مطلب سرگذشت بشر كا حتمی اور پایبند ہونا ہے، جب ہم یہ كہتے ہیں كہ تاریخ كی حركت كی حركت جبری ہے تو اس كا مطلب یہ ہوتا ہے كہ انسان كی اجتماعی زندگی میں كچھہ ایسے طاقتور عوامل ہیں جو اپنے قطعی اچرات ركھتے ہیں ۔ان سے بچنا ممكن نہیں ان عوامل كی تاثیر یقینی اور حتمی ہوتی ہے ۔
جبر تاریخ، كے كلمے نے ہمارے اس دور میں بڑی قدر و قیمت حاصل كر لی ہے یہ كلمہ موجودہ زمانے میں وہی كردار ادا كررہا ہے جو اس نے ماضی میں قضا و قدر كے پردہ میں ادا كیا تھا۔حوادث زمانہ كے آگے سپرڈال دینا اور اپنے غلطیوں كے عذر تراشنا اس كا مدعا ہے ۔
یہ ایك شیر خونخوار ہے كہ اس كے مقابل تسلیم و رضا كے سوا كوئی چارہ نہیں ۔ماضی میں اس كا نام قضا و قدر تھا اور موجودہ دور میں اسے جبر تاریخ كہا جاتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے كہ نقضا و قدر اور جبر تاریخ دونوں كلمہ صحیح فلسفیانہ مفہوم كے ھامل ہیں ۔ان كے حقیقی مفہوم كو نہ سمجھنا ہی غلط تعبیر كا سبب بنا ہے ہم نے اپنی كتاب "انسان و سرنوشت :میں قضاء و قدر كے بارے میں بحث كی ہے لیكن جبر تاریخ، یہ كہ انسانی سرگذشت دینا كے تمام حوادث كی طرح نہ تبدیل ہونے والا قانون ركھتی ہے اور تاریخی عوامل دوسرے تمام عوامل كی طرح قطعی اور لازمی تاثیرات ركھتے ہیں، یہ كوی ایسی بات نہیں ہے ۔قرآن كریم نے خود سنۃاللہ كہہ كر اس كی تائید كی ہے لیكن ان عوامل كی تاثیر كی نوعیت اصل مسئلہ ہے ۔كیا تاریخ كے جبری عوامل كا اثر اس صورت میں ظاہر ہوتا ہے كہ ہر چیز وقتی محدود اور زوال پذیر ہو كر رہ جاتی ہے یا اس كی كوئی دوسری صورت بھی ہے؟
ظاہر ہے اس مسئلہ كا تعلق عوامل كی نوعیت سے ہے ۔اگر تاریخ كو گردش میں لانے والے عوامل مضبوط اور پائیدار ہوں گے تو ان كی جبری تاثیر كا نتیجہ اس شكل میں ظاہر ہوگا كہ وہ گردش و تسلسل كو برقرار ركھیں گے ۔اگر اس كے بر عكس یہ عوامل ناپا۴دار عامل كا تعلق خاندان كی تشكیل رفیق زندگی كے انتخاب اور بچوں كی تولید میں موثر رہا ہے ۔تاریخ كے طویل دور میں خاندانی زندگی كے خلاف تحریكیں اٹھتی رہیں لیكن وہ سب ناكام ہوگئیں ۔ایسا كوں ہوا؟ یہ تحریكیں جبر تاریك كے خلاف تھیں، جبر تاریخ كا تقاضا یہ تھا كہ خاندانی زندگی باقی رہے ۔
ایك دوسرا تاریخی عامل مذہب ہے ۔پرستش انسان كی سرشت میں شامل ہے یہ كسی نہ كسی صورت میں موجود رہی ہے ۔یہ عامل تاریخ كے تمام ادوار میں موثر رہا ہے اور اس نے مذہب پر سے توجہ كو ہٹنے نہیں دیا ۔
غرض یہ كہ جبر تاریخ كو كسی محدود اور وقتی چیز كے مساوی قرار دے كر ہر قانون اور قائدہ كی ناپائیداری پر دلیل لانا ایك بڑی غلطی ہے ۔جبر تاریخ، اس جگہ ناپائیداری كو نتیجہ كی صورت میں سامنے لاتی ہے جہاں زیر نظر عامل، جیسے اقتصادی پیداوار كا عامل ہو اور كوئی دوسرا عامل اس كی جگہ لے اس لئے انسان اور اس كی ضرورت تاریخ كو گوشزد میں لانے والے عوامل اور ان میں سے ہر عامل كی معاشرہ پر اثر انداز ہونے والی تاثیری قوت كا سراغ لگانا چاہئے تا كہ یہ معلوم ہو كہ اس كا اثر كہاں تك پہنچتا ہے اور ان میں سے كونسا عامل مضبوط و پائدار ہے اور كونسا كمزور و ناپائیدار ۔
حقیقت یہ ہے كہ انسانی زندگی كی جملہ حالتوں كی ناپائیداری كو جبر تاریخ كے مساوی قرار دینے كا مفروضہ ہی انسان كے "یك جہتی" ہونے كے مفروضے كو آگے لانے كا سبب بنا ہے اس مفروضے كے مطابق "یك جہت" انسان زیادہ قدر و قیمت نہیں ركھتا اور تاریخ كا تعغیر ایك "یك شاخہ" تعغیر ہے ۔اس مفروضے كے حامیوں كے نقطہ نظر سے ہر دور میں تاریخ كا اصلی اور بنیادی عامل معشیت ہے دولت كی پیداوار اور تقسیم كا طریقہ، افراد كے اقتصادی روابط جیسے كارخانہ اور مزدور كے روابط، كسان اور زمیندار كے روابط جو كمزور اور تعغیر پذیر روابط ہیں، زندگی كے دوسرے گوشوں مثلا دین علم، فلسفہ، قانون، اخلاق اور ہنر كا تعین كرتے ہیں ۔ابتدا "دنیا میں اس مفروضے كا بڑا چرچا ہوا لیكن اب یہ اپنی قدر و قیمت كھو چكا ہے ۔آج دنیا اور تاریخ كے بہت سے مادہ پرست مفسرین اس مفروضے كو مسترد كرچكے ہیں ۔
ہر چند كہ ابھی علمی اعتبار سے قطعی طور ہر یہ نہیں كہاجاسكتا كہ انسان "یہ ناشنوا ساوجود "كثیر الجہت ہے اور انسانی تاریخ كی توجیہ كثیرالجہت، كے مفروضے سے ہی كی جاسكتی ہے البتہ یہ تسلیم شدہ قدر ہے انسان "یك جہت" نہیں ہے ۔اس كے یك جہت ہونے كا نظریہ اور انسانی تاریخ كے سفر كا یك خطی ہونے كا مفروضہ سب سے زیادہ بے بنیاد بے بنیادمفروضہ ہے ۔

5.سورۀ نساء آیت ۲۸.
6.سورۀ دہر آیت ۳.
7.سورۀ مائدہ آیت ۴۸.
8.سورۀ آل عمران آیت ۸۱.
9.سورہ انعام، آیت ۱۱۵.
۱۰.فیض كاشانی، علم الیقین، صفحہ ۱۰۵.
11.سورۀانفال۔آیت ۲۹.
12.سورۀ عنكبوت آیت ۶۹.
13.صدر المتالھین شیرازی، مفاتیح الغیب، صفحہ ۱۳.
14.سورۀاعلیٰ آیت ۱۔۳.
15.سورۀ علق آیت ۱۔۵.

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.