اعجاز قرآن
يہ معجزات ہر دور ميں مختلف انداز كے رہے ہيں اور ان كى جامع صفت يہ رہى ہے كہ جس دور نے جس كمال ميں امتياز پيدا كيا ہے اس دور كے منصب دار كو اسى سے ملتا جلتا معجزہ ديا گيا ہے تاكہ پورے دور كو اندازہ ہو جائے كہ يہ بغير تجربہ و تمرين وہ سب كچھ كر سكتا ہے جو ہزاروں تجربات كے بعد ہم نہيں كر سكتے ہيں۔سابق انبياء كے معجزات اور ہمارے نبى كريم كے معجزات كا ايك نماياں فرق يہ ہے كہ ان كى نبوتيں ختم ہو نے والي تھيں انھيں ايسے معجزات كى ضرورت تھى جو وقتي طور سے ان كى برترى كو ثابت كردے چاہے ان كے بعد ان كا وجود نہ رہ جائے اور ہمارے نبى كى نبوت صبح قيامت تك باقى رہنے والى تھي۔ آپ كو ايسے معجزہ كى ضرورت تھى جس كا سلسلہ صبح محشر تك قائم رہے۔ قرآن حكيم اسى مقصد كى تكميل كے لئے معجزہ بنايا گيا ہے۔اس كے علاوہ سابق شرائع اور شريعت پيغمبر كا ايك نماياں فرق يہ بھى ہے كہ ان ادوار ميں انسانيت گھٹنيوں چل رہى تھي۔ اس كى ترقى محدود اور طول كے اعتبار سے انتہائى ناقص تھى اور حضور سرور كائنات كا دور شريعت قيامت سے مل جانے كى بناء پر اتنا وسيع ہے كہ اس ميں انسانيت كى ترقى كى رفتار تيز تر ہونے والي اور طولى اعتبار سے آسمانوں سے بات كرنے والى تھي۔ اس لےے آپ كو ايك ايسے معجزہ كى ضرورت تھى جس ميں جملہ علوم وفنون كا ذخيرہ اور بشرى ترقى كا جواب موجود ہو۔ تاكہ آئندہ آنے والى نسليں يہ نہ كہہ سكيں كہ قرآن اس دور ترقى كے لےے بے كار ہے اور اس ميں كوئى افاديت نہيں۔ قرآن مجيد اس ضرورت كى بھى تكميل كرتا ہے۔ اس كے دامن ميں ايسے عظيم مطالب و مفاہيم موجود ہيں جہاں تك ذہن بشر كى رسائى نہيں ہے اور جنكے ادراك سے كمال عقل بھى عاجز ہے اور اسى لےے اس نے اپنے چيلنج كو وقتى نہيں بنايا بلكہ اپنے ہى دامن ميں محفوظ كرليا تاكہ ہر دور ميں يہ آواز باقى رہے اور ہر زمانہ كا انسان اپنى اپني فكرى پرواز كے اعتبار سے اس كى عظمتوں كا اندازہ كرتا رہے۔ كوئى اسے فصاحت و بلاغت كا شاہ كار سمجھ كر اس كى عظمت كے سامنے سر تسليم خم كرے گا، كوئى اس كى غيبى خبروں پر ايمان لائے گا كوئى اس كے علمى اكتشافات كے سامنے سر جھكائے گا، كوئى اس كى عصرى ترقى سے بلندى پر اعتماد كرے گا اور اس طرح ہر دور ترقى ميں اس كى عظمت كااحساس برقرار رہے گا۔كل كے افراد اس حقيقت كا تجربہ كر چكے ہيں اور آج كے انسانوں كے لےے اس كا چيلنج باقى ہے۔ كل كے فصحاء عرب اس كى عظمتوں كے سامنے سر جھكا چكے ہيں اور آج والوں كا سجدہٴ نياز باقى ہے۔ كيا تاريخ اس حقيقت سے انكار كر دے گى كہ جب كتاب حكيم كا جواب تيار كرنے كے لےے بلند ترين اديب كا تقرر كيا گيا تو اس نے بھى كئى دن تك غور كرنے كے بعد يہ اعلان كر ديا كہ يہ كلام بشر نہيں ہے يہ تو ايك جادو معلوم ہوتا ہے۔ جادو كہنا فيصلہ كرنے والے كى ذہن كى پستى ہے ورنہ حقيقت يہ ہے كہ جادو ميں وہ عظمتيں كہاں ہوتى ہےں جو قرآن كى فصاحت و بلاغت ميں پائى جاتى ہيں۔جادو كى تاثير وقتى ہوتى ہے اور قرآن كريم كى فصاحت و بلاغت كا ڈنكا آج بھى بج رہا ہے۔ جادو كا توڑ عرب كے پاس موجود تھا ليكن معجزہ كا جواب ممكن نہيںتھا ورنہ ديوار كعبہ سے اپنے قصائد نہ اتارے جاتے۔اتنے واضح حقائق كے ہوتے ہوئے بھى بعض تعصب پيشہ افراد نے عظمت قرآن كو مجروح كر نے كے لےے مختلف اعتراضات و احتمالات قائم كےے ہيںاور سب كى پشت پر ايك ہى جذبہ رہا ہے كہ كسى طرح كتاب كريم كى عظمت پامال ہو جائے اور دنيا اس كى برترى كا اقرار نہ كرسكے۔ ليكن يہاں معاملہ اس كے برعكس ہے ۔ “واللہ متم نورہ ولو كرہ المشركون۔”صاحب عماد الاسلام نے اس موضوع پر كافى سير حاصل تبصرہ كيا ہے اور اعجاز قرآن پر بے شمار اعتراضات نقل كر كے ان كا جواب ديا ہے ليكن مجھے صرف ان چند اعتراضات سے غرض ہے جو آج كى دنيا ميں نقل كےے جاتے ہيں اور جنہيں لوگ اپنى قابليت كا شاہ كار سمجھتے ہيں ان اعتراضات كى مختصر فہرست يہ ہے:۱۔ قرآن مجيد ميں متعدد مقامات اےسے ہيں جہاں عربى قواعد كا لحاظ نہيں ركھا گيا اور جو كلام قوانين و قواعد كے خلاف ہوتا ہے اسے فصيح و بليغ بھى نہيں كہا جا سكتا چہ جائےكہ اسے معجزہ كا مرتبہ دے دےا جائے۔اس اعتراض كا مختصر جواب يہ ہے كہ عربى زبان كے ادبى قواعد كچھ بندھے ٹنكے اصولوں كا نام نہيں ہے جن كى مخالفت كلام كو بلاغت و فصاحت سے خارج كردے بلكہ يہ قرآن مجيد كے نزول كے ايك عرصہ بعد اہل زبان كى استقرائى كوشش ہے جس ميں كلام عرب كا جائزہ لے كر اكثر كلمات كى نوعےت كو دےكھتے ہوئے كچھ قواعد مقرر كر دئے گئے ہيں اور بعد ميں آنے والى نسلوں نے اسى كا اتباع كيا ہے۔ ايسى صورت ميں يہ كس قدر مہمل بات ہے كہ عرب كے سارے كلام كو قوانين كا مصدر و مدرك تسليم كيا جائے اور قران حكيم كو نظر انداز كر دےا جائے۔يہ صورت حال تو خود اس بات كى دليل ہے كہ قانون سازوں نے مكمل استقراء نہيں كيااور اس كلام كى طرف سے بے توجہى برتى ہے جو عربى زبان كى جان اور ادب كى روح ہے۔اس دعوى كا واضح ثبوت يہ ہے كہ جب آيات قرآنيہ كو عرب كے ادبى شاہكاركے مقابلے ميں پيش كيا گيا تو ان لوگوں نے اپنے قصائد اتار لئے اور قرآن كے ما فوق البشرہونے كا اقرار كر ليا۔اسكا جواب لانے سے عاجز ہونے كا اعتراف كيا اور واضح لفظوں ميںاشارہ كردےا كہ جس كلام ميں اہل زبان كو گنجائش اعتراض نہيں ہے اس كلام پر بعد كے آنے والے قانون و قواعد كے غلاموں كو انگلي اٹھانے كا حق كيونكر ہو سكتا ہے۔يہيں سے اس اعتراض كى حقےقت بھى بے نقاب ہو جاتى ہے كہ كلام كي فصاحت و بلاغت اور اسكے اسلوب و انداز كو صرف خواص ہى محسوس كر سكتے ہيں اور معجزہ اس غےر معمولى مظاہرہ كا نام ہے جسكا ادراك عوام وخواص سب كے لئے برابر ہوتا ہے كہ سب ايمان بھى لاسكيں ۔اس لئے كہ يہ بات اپنے مقام پر مسلم ہے كہ معجزہ كو عوام و خواص سب كے لئے يكساں طور پر معجزہ ہونا چاہئے ليكن اسكا مطلب صرف يہ ہے كہ اس كا جواب لانے سے دونوں طبقے يكساں طور ہر عاجز ہوں۔نہ يہ كہ دونوں ادراك ميں مساوى ہوں اور برابر سے معجزہ ہونے كا احساس ركھتے ہوں۔ ايساہونا تو غےر ممكن ہے اس لئے كہ نہ دونوں كاذہن ايك سطح پر آسكتا ہے اور نہ دونوں كا ادراك و احساس برابر ہو سكتا ہے۔ بلكہ يہى عدم مساوات معجزہ كے كمال كى دليل ہے كہ عوام تو عوام ،خواص بھى اسكا جواب لانے سے قاصر ہيں اور جس بات كے لاجواب ہونے كا اقرار كواص كو ہو عوام كے اقرار نہ كرنے كا كوئى محل ہى نہيں ہے۔۲۔ قرآن مجيد كا بيان ہے كہ وہ واضح و فصيح عربى زبان ميں نازل ہوا ہے اور عرب دنيا كے سارے كمالات سے عارى فرض كےے جاسكتے ہيںليكن اپنى زبان سے بہر حال واقف و با خبر تھے۔ ايسى حالت ميں يہ كيونكر ممكن ہے كہ نظم و نثر ہرقسم كے كلام كى ترتيب پر قادر ہوں اور تنہا قرآن ہى كے جواب لانے سے قاصر ہوں۔ معلوم يہ ہوتا ہے كہ ان لوگوں نے اس كلام كو قابل توجہ ہى نہيں سمجھا۔ يا قابل توجہ سمجھ كر جواب دياتھا اور بعد ميں وہ جواب زمانہ كى دستبرد كا شكار ہو گيا اور آئندہ نسلوں تك نہيں پہونچ سكا۔واضح سى بات ہے كہ اس اعتراض كے تين گوشے ہيں۔ پہلا رخ يہ ہے كہ عرب نثر و نظم پر قادر تھے تو قرآن كا جواب لانے پر بھى قادر رہے ہونگے يہ اور بات ہے كہ جواب نہيں لائے اور جواب نہ دينا كسى كلام كے لا جواب ہونے كى دليل نہيں ہے۔اس اعتراض كا جواب يہ ہے كہ يہ بات دنيا كے ہر ادب ميں پائى جاتى ہے جہاں اہل زبان الگ الگ كلمات كى تركيب پر مسلم طور پر قادر ہوتے ہيں ليكن كسى ايك كلام كا مثل لانے سے عاجز رہ جاتے ہيں۔ اردو كا كونسا اديب يا شاعر ہے جس نے نظم و نثر ميں اپنے ما فى الضمير كا اظہار نہ كياہو ليكن كيا كسى كى مرصع نثر “طلسم ہوشربا” اور “فسانہ عجائب” بن سكي۔ كوئى محمد حسين آزاد كى سى نثر لكھ سكا، كسى كى عبارت ميں ابو الكام آزاد كا جلال تحرير اور مير امن كى سادگى پيدا ہوسكي۔ كوئى شاعر اقبال كى فكر اور جوش كى گرج پيدا كرسكا، كسى كے يہاں غالب كا فلسفيانہ تغزل اور انيس كا شگفتہ مزاج ديكھنے ميں آيا۔ ذوق كا آہنگ اور مير كا ترنم اب بھى كانوں ميں رس گھول رہا ہے حالانكہ سب كے سب اسى زبان كے نثر نگار اور شاعر ہيں جس كے اديبوں كى فہرست مرتب كرنا دشوار ہے، اور يہ اس بات كا واضح ثبوت ہے كہ كلمات و فقرات پر قدرت اور ہے اور مرتب كلام پيش كردينے پر اختيار اور۔اس مقام پر يہ تصور نہ كياجائے كہ ايسى حالت ميں ديوان غالب اور مرثيہ انيس كو بھى معجزہ تسليم كرلينا چاہئے كہ ان كا جواب بھى اردو ادب ميں نہيں پيدا ہوسكا۔ اس لےے كہ ان ميں معجزہ كى بنيادي شرطوں كا فقدان پايا جاتا ہے معجزہ كى پہلى شرط يہ ہے كہ اسے دعوئے نبوت و امام كے ثبوت ميں ہونا چاہيے اور يہاں كسى شاعر نے منصب الہى كا دعوى نہيں كيا بلكہ حق و انصاف كى بات يہ ہے كہ اگر ايسا دعوى كر ديا ہوتا تو حكمت الہيہ كا فرض تھا كہ يہ قوت فكر سلب كرلے اور ايسا كوئى كلام منظر عام پر نہ آنے دے جو حق و باطل ميں التباس و اشتباہ كاسبب بن جائے اور طالبان حقيقت كى راہ ميں سنگ راہ واقع ہوجائے۔دوسري اہم شرط يہ ہے كہ معجزہ كسى مشق و تمرين كا نتيجہ نہيں ہو سكتا وہ ايك غيبى امداد اور قدرتي تائيد ہے جو صرف اپنے نمائندوں كے ساتھ ركھى جاتى ہے اور بس۔ اور كھلى ہوئى بات ہے كہ ان تمام اديبوں اور شاعروں كا ابتدائى كلام ہمارے پيش نظر ہے يا ہميں اس كي اطلاع ہے جو اس بات كا واضح ثبوت ہے كہ ان كا كمال فن مشق و مہارت كا نتيجہ تھا اور اس كو براہ راست غيبى امداد حاصل نہ تھى جبكہ معجزہ براہ راست غيبى ترجمانى ہى كا نام ہوتا ہے۔اعتراض كا دوسرا گوشہ يہ ہے كہ عرب اس قرآن كا جواب لانے پر مكمل اختيار ركھتے تھے ليكن انہوں نے كوئى توجہ نہيں كي يا توجہ كى ليكن حالات نے جواب نہيں لكھنےء ديا اور مسلمانوں كو اقتدار و اختيار اس راہ ميں حائل ہو گيا۔اس اعتراض كا تاريخى جواب يہ ہے كہ جواب لانے والوں نے توجہ دى اور جواب لانے كى كوشش بھى كى اور آخر ميں اسے ما فوق البشر كہہ كر اپنى عاجزى كا اقرار بھى كر ليا۔ اسلام و كفر كے درميان معركہ آرائيوں كا انكار كيونكر كيا جاسكتا ہے اور اس حقيقت سے كيونكر چشم پوشى كى جاسكتى ہے كہ رسول اسلام كو جنگ و جدل اور تير و تلوار سے كہيں زيادہ آسان طريقہ يہى تھا كہ ان كے معجزہ كى حقيقت كو بے نقاب كر ديا جائے اور جس بنياد پر وہ اپنے نمائندہٴ الہى ہونے كا دعوى كر تے ہيں اسے جڑ سے اكھاڑ كر پھينك ديا جائے ۔ ليكن ايسا كچھ نہيں ہوا اور جنگ كا ميدان گرم ہوتا رہا۔ جس كا مطلب ہى يہ ہے كہ دشمن آسان طرز جواب پر قادر نہيں تھا اور مجبوراً اسے جنگ و جدل كا راستہ اختيار كرنا پڑا تھا۔قدرت كے بعد مسلمانوں كے جاہ و جلال كى بناء پر جواب ظاہر نہ كرنے كى بات انتہائى مضحكہ خيز ہے۔ مسلمانوں كا جاہ جلال اعجاز قرآن كے كامياب ہو جانے كانتيجہ ہے اور رسول اسلام كا چيلنج اس عہد كا ہے جب آپ مكہ كى گليوں ميں پتھر كھا رہے تھے اور كانٹوں پر راستہ چل رہے تھے ۔ ايسے حالات ميں كس قدر آسان تھا كہ ان كے معجزہ كا جواب پيش كركے ان كى دليل كو باطل كر ديا جاتا اور وہ جاہ جلال پيدا ہى نہ ہوسكتا جسے بعد كے حالات ميں خطرہ بتايا جاتا ہے۔اس كے علاوہ بھى مسلمانوں كے خوف كى بات عجيب وغريب ہي ہے اس لےے كہ انھيں مسلمانوں كے عہد ميں اہل كتاب كي كتابيں محفوظ رہيں، انھيں مسلمانوں سے كفار نے طاقت آزمائياں كى ہيںپھر كيا وجہ ہے كہ كسى مقام پر مسلمانوں كا خوف غالب نہيں ہوا، اور صرف كتاب حكيم كا جواب لانے كے لےے يہ خوف آڑے آگيا۔اعتراض كا تيسرا رخ تاريخ كے ظلم اور اس كى خيانت سے متعلق ہے جہاں مدعى كا يہ خيال ہے كہ اہل عرب نے كتاب حكيم كا جواب پيش كرديا تھا ليكن زمانے كے حالات نے اسے تلف كر ديا اور وہ آج ہم تك نہ پہونچ سكا۔ ظاہر ہے كہ يہ رخ كسى جواب كا مستحق نہيں ہے اور نہ اس پر كوئى دليل قائم كى گئي ہے جسے باطل كرنے كا اہتمام كيا جاتا۔ البتہ اتنا ضرور ہے كہ اس توہّم نے جبر تاريخ كى روشنى ميں ايك اہم حقيقت كاپتہ دے ديا۔قانون جبر تاريخ اس بات كا گواہ ہے كہ جب بھى كسى دور ميں كوئى ايسا واقعہ پيش آيا ہے جس ميں زندہ و پايندہ رہنے كى صلاحيت اور دوام و استقرار كى استعداد پائى گئى ہے تو تاريخ نے تمام موانع كے على الرغم واقعہ كو زندہ ركھا ہے اور صفحہ ہستى سے مٹنے نہيں ديا ہے۔اسلامي تاريخ ميں اس كاواضح ثبوت واقعہ كربلا ہے جس كے مٹانے كے لےے صديوں تك اسباب فراہم كےے گئے ہيں، حكومتوں نے زور صرف كيا ہے۔ اقتدار نے طاقت آزمائى كى ہے تخت و تاج كي بازى لگائى گئى ہے۔ اہل حق سے قيد خانوں كو آباد كيا گيا ہے باطل كو مكمل چھوٹ دے كر حق كے دہن پر قفل لگائے گئے ہيں ليكن اس كے با وجود اس كے سرمدى عناصر كى بنا پر تاريخ نے اسے زندہ ركھا ہے اور باطل كى ہواوٴں سے اس شمع كو بجھنے نہيں ديا۔ايسے حالات ميں قرآن حكيم كے مقابلہ ميں پيش ہونے والا كلام اگر اتنا ہى جاندار ہوتا جتنا جاندار قرآن حكيم ہے تو تاريخ اسے بھى اسى طرح زندہ ركھتى جيسے اس نے اس كتاب كو زندہ ركھا ہے ليكن ايسا كچھ نہ ہوسكا اور قرآن زمانے كى تيز و تند ہواوٴں اور حكومتى خواہشات كے جھگڑوں كى زد پر اپنى پورى تابناكيوں كے ساتھ زندہ رہ گيا۔ اور اس كا مذموم جواب فنا كے گھاٹ اتر گيا، يا عدم كے پردہ ميں رو پوش ہوگيا جو اس بات كازندہ ثبوت ہے كہ قرآن ميں زندگى كے عناصر ہيں اور ان جوابات ميں ايسے عناصر نہ تھے۔اس سے زيادہ واضح بات يہ ہے كہ بعض مختصر جوابى فقرات و كلمات اب بھى تاريخ ميں درج ہيں جو اس بات كا ثبوت ہيں كہ زمانے نے جوابات كى بقاء پر پابندى نہيں عائد كي تھى اور انھيں اپنى گود ميں اسى لےے محفوظ كر ليا تھا كہ آنے والا دور فيصلہ كرسكے كہ قرآن حكيم اور ان منتشر كلمات ميں كيا نسبت ہے اور كسے معجزہ كا درجہ ديا جا سكتا ہے۔بعض انگور كو كھٹا كہہ دےنے والے يہ بھى كہہ ديتے ہيں كہ قرآن مجيد ميں كوئى شوكت الفاظ، جذالت و سلاست او رروانى و آسانى نہ تھى يہ امتداد زمانہ اور كثرت استعماكل كا اثر ہے جو وہ اسقدر رواں دواں معلوم ہوتا ہے اور دنيائے اسلام اس كى سلاست و جذالت كا پرچار كر رہى ہے۔ اس كى طرح دوسرا كلام بھى صبح و شام تلاوت كيا جاتا تو اس ميں بھي وہى روانى ہوتى جو قرآن حكيم ميں پائي جاتى ہے۔ مگر افسوس كہ ايسا نہ ہوسكا اور ديگر بيانات و كلمات زمانے كى بے رخى كى نذر ہو گئے۔ ليكن يہ بات خود بھى ميرے دعوى كى ايك دليل ہے كہ دنيا نے قرآن حكيم كو اپنا اسے مركز تلاوت قراٴت بنايا ليكن دوسرے كلمات كو اہميت نہيں دى اور اس كے طرز عمل نے فيصلہ كرديا كہ كونسا كلام گلے لگانے كے قابل ہے اور كونسا كلام نسياں كى نذر كر دينے كے لايق ہے۔اس كے علاوہ اس اعتراض كى سب سے بڑى كمزورى يہ ہے كہ اس ميں كثرت استعمال كوسلامت و روانى اور انس ذہنى كا سبب قرار ديا گيا ہے حالانكہ فطرت بشر كا مسلّم فيصلہ ہے كہ كوئي بھى كلام كثرت تكرار سے اپنا اثر و لطف كھو بيٹھتا ہے اور لوگ اس كى طرف زيادہ توجہ نہيں كرتے۔ ايك قصيدہ ايك ايك وقت ميں نادر و ناياب معلوم ہوتا ہے ليكن دوسرے وقت ميںوہى قصيدہ انتہائى مہمل اور بے معنيٰ معلوم ہوتاہے۔ صرف اس لےے كہ پہلے ابتدائى طور پر سنا تھا او ہر جديد ميں لذت ہوتى بھى ہے اور اب كئي مرتبہ سننے كے بعد سنا ہے اس لےے طبيعت اس كى طرف مائل نہيں ہوتى اور اسے وہ جذب و كشش حاصل نہيں ہے جو ابتدائى طور پر ہوا كرتى ہے۔۳۔ قرآن كريم كى اعجازى حيثيت پر تيسرا اعتراض يہ ہے كہ اس كے بيانات ميں تضاد اور اختلاف بكثرت پايا جاتاہے اور الہامى كتاب كو ايسا نہيں ہونا چاہئے تضاد كى چند مثاليں يہ ہيں:الف) جناب ذكريا كے واقعہ ميں ايك مقام پر ارشاد ہوا ہے كہ “آيتك الّا تكل الناس ثلاثة ايام الا رمزاً “۳۔۴۱، اور دوسرے مقام پر بيان كيا گيا ہے “آيتك الا تكلم الناس ثلاث ليال سويا”۔۱۹۔۱۰يعني ايك مقام پر علامت تين دين كے سكوت كو قرار ديا گيا ہے اور دوسرے مقام پر تين رات كے سكوت ہو۔ جب كہ دونوں صورتوں ميں مقدار سكوت ميں قطعى طور پر فرق ہو جائے گا۔ظاہر ہے كہ اس اعتراض كى تمام تر بنياد يہ ہے كہ عربى زبان ميں يوم كا تصور ليل كے تصور سے بالكل مختلف ہے اور قرآن مجيد نے دونوں كو ايك مركز پر جمع كر دياہے، حالانكہ اس كے خلاف شواہد خود قرآن مجيد ميں موجود ہيں جہاں يوم ليل و نہار كے مجموعہ كو بھى كہا گيا ہے اور ليل كے مقابلہ ميں تنہا نہار كو بھي۔ اور اسى طرح ليل كا استعمال مجموعہ كے لےے بھى ہوا ہے اور تنہا شب كے لےے بھى ۔اہل نظر ان مقامات كا مطالعہ كرنے كے بعد خود فيصلہ كرسكتے ہيں كہ قرآن حكيم كے بيانات ميں كوئى تضاد نہيں ہے بلكہ سارا تضاد انسانى فكر و فہم كا ہے جس نے بيان پر نظر كرنے كے بعد حالات كو قطعى طور پر نظر انداز كر ديا ہے۔بعينہٖ اس قسم كا اعتراض خلقت ارض وسماء كے بارے ميں ہے جسے ايك مقام پر چھ دن كا نتيجہ عمل قرار ديا گيا ہے اور دوسرے مقام پر اس سے كم۔ حالانكہ وہاں بھى كوئى تضاد نہيں ہے فرق صرف يہ ہے كہ ايك مقام پر اجمالى طور پر چھ دن كا تذكرہ ہوا ہے، اور دوسرى جگہ پر اس كى تفصيل بيان كرتے ہوئے بعض اہم اجزاء كا تذكرہ كيا گيا ہے اور دوسرے غير اہم اجزاء كو ترك كر ديا گيا ہے۔ب) مسئلہ جبر و اختيار كے بارے ميں قرآن مجيد كا موقف واضح نہيں ہے۔ كسى مقام پر افعال عباد كو بندوں كى طرف سے منسوب كيا گيا ہے اور “اما شاكراً و اما كفوراً” ۔ “فمن شاء فليومن ومن شاء فليكفر” جيسے اعلانات كئے گئے ہيں، اور كسى مقام پر ان تمام باتوں كو رب العٰلمين كى طرف منسوب كر ديا گيا ہے اور صاف صاف كہہ ديا گيا ہے “و ما تشاوٴن الا ان يشاء اللہ” ۔ ۔۔ كل من عند ربنا ۔۔۔۔ ختم اللہ على قلوبہم۔۔۔ ۔وغيرہ۔اس اعتراض كى مكمل تجزيہ كے لئے بڑى تفصيل دركار ہے۔ اجمالى طور صرف يہ كہا جاسكتاہے كہ بندوں كے اعمال و افعال ايك درميانى كيفيت كے حامل ہيں ۔ ان ميں حيات و استعداد، صلاحيت وقوت رب العالمين كا عطيہ ہوتى ہے۔ وہ زندگى كو موت سے بدل دے تو كوئى عمل خير نہيں ہو سكتا۔ وہ طاقتوں كو سلب كركے مشلول و مفلوج بنا دے تو كسى معصيت كا امكان نہيں ہے۔ ليكن وہ ايسا نہيں كرتا بلكہ اس نے خير و صلاح كو سامنے ركھتے ہوئے حيات و استعداد دے كر قوت و طاقت كوبرقرار ركھا ہے۔ اور اسكے بعد انسان كي قوت ارادى كو آگے بڑھا كر اعلان كر ديا ہے كہ طاقت دے دينا ہمارا كام تھا۔ صرف كرنا تمہارا كام ہے۔ استعداد و قابليت ہمارى ہے اور اختيار وانتخاب تمہارا ہوگا۔ ايسے حالات ميں ان افعال كو عبد و معبود دونوں كى طرف منسوب كيا جاسكتا ہے ليكن مالك نے طاقتوں كا ذخيرہ سپرد كرتے وقت يہ بتايا تھا كہ ہمارا مقصد خير و بركت كى ايجاد۔ اور صلاح و نيكى كى تخليق ہے۔ اس كے خلاف استعمال ہماري مرضى كے قطعى خلاف ہوگا۔ اس لےے اس نے اپنے منشاٴ كے مطابق استعمالات كو اپنى طرف منسوب كيا ہے اور اپنى مرضي كے خلاف استعمالات كى تمام تر ذمہ دارى بندوں كے سر ركھي ہے۔واضح لفظوں ميں يہ كہا جا سكتا ہے كہ اعمال كى بنيادي حيثيت ميں عبد و معبود دونوں كا حصہ ہے، ايك كي استعداد ہے تو دوسرے كا اختيار۔ليكن اعمال كي اخلاقى و سماجى يا مذہبى حيثےت ميں دونوں كے راستے الگ الگ ہو جاتے ہيں۔خير و صلاح كے راستے پر خدا بھي بندے سے اتفاق ركھتا ہے اس لےے اسے دونوں كى طرف منسوب كيا جا سكتا ہے اور شر وفساد كى راہ ميں دونوں كا موقف الگ الگ ہو جاتا ہے اس لےے اسے صرف بندے كى طرف منسوب كيا جائے گا۔معبود كى طرف نہيں ۔قرآن حكيم كى آيات ميں يہ بات نماےاں طور پر دےكھى جاسكتى ہے اور اس تجزيہ سے صاف اندازہ كيا جاسكتا ہے كہ دونوں كى طرف اعمال كى نسبت ميںكس كمال احتےاط سے كام ليا گيا ہے اور عبد و معبود كے ذاتى كمال و نقص كو كس طرح پيش نظر ركھا گيا ہے۔ج) قرآن مجيد ميںمشرق و مغرب كا تصور واضح نہيں ہے ايك مقام پر يہ لفظ مفرداستعمال ہوا ہے جس جسے معلوم ہوتا ہے كہ مشرق و مغرب ايك ايك ہے۔دوسرے مقام پر رب المشرقےن والمغربےن ۔كہا گيا ہے جسكا مطلب يہ ہے كہ مغرب و مشرق ايك ايك كے بجائے دو دو ہي۔تيسرے مقامپر “مشارق الارض و مغاربھا” كا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے كئي كئى مشرق و مغرب كا اندازہ ہوتا ہے۔اور يہى كلام كا تضاد كہا جا تا ہے۔بظاہر يہ بات لگتى ہوئى نظر آتى ہے ليكن اس كے حقےقى تجزيہ كے لےے دو باتوں پر نظر ركھنا ضروري ہے۔پہلى بات يہ ہے كہ قرآنى عقےدہ كى بنا پر يہ كائنات كسى ايك كرہ يا آسمان كا نام نہيں ہے بلكہ اس كائنات ميں بے شمار زمين و آسمان، لاتعداد كروات وافلاك اور انگنت نظامہائے شمسى پاےے جاتے ہيں اور كھلي ہوئى بات ہے كہ نظام ہائے شمس كى جتنى تعداد بڑھتى جائے گى مشرق ومغرب كى تعدادميں اضافہ ہوتا جائے گا۔اس كے علاوہ خود زمين كا مشرق و مغرب بھى كوئى معين و محدود نقطہ نہيں ہے بلكہ حالات و فصول كے اعتبار سے اس ميں تغير ہوتا رہتا ہے اور اس اعتبار سے اسے واحد، تثنيہ، جمع ہر لفظ سے تعبير كر سكتے ہيں اور اس ميں كوئى فنى كمزورى نہيں ہے ۔دوسري بات يہ ہے كہ قرآن حكيم كوئى جغرافيہ كي كتاب نہيں ہے كہ اس ميں ہر جگہ ايك ہى بات ايك ہى ٹكنيكل انداز سے بيان كى جائے بلكہ اس كا مقصد تربيت انسانيت اور پرورش كائنات ہے اس لےے اس كا فرض ہے كہ كائنات كي پہنائيوں ميں چھپے ہوئے حقائق كو حسب موقع و محل منتخب كرے اور دنيائے عقل وہوش كے سامنے پيش كرے۔ مناسب ہو تو مفرد تذكرہ كيا جائے۔ مقتضائے حال بدل جائے تو تثنيہ كا صيغہ استعمال كيا جائے اور بات كثرت ہى سے بنتى ہے تو ذہنوں كو تمام مشارق و مغارب كى طرف متوجہ كر ديا جائے۔قرآن كريم كے بيانات ميں تضاد و تناقض ثابت كرنے كے لئے اس طرح كے بے شمار بيانات منتشر طور پر موجود ہيں اور عيسائي مبلغين نے اس سلسلہ ميں بے حد سعى كى ہے كہ كتاب حكيم ميں تضاد كى بحث اٹھا كر دنيا كى نگاہيں انجيل كے مصنوعى خرافات كى طرف سے ہٹا دى جائے۔ حالانكہ ايسا كچھ نہ ہو سكا اور انجيل كے جعلى بيانات اہل نظر كى نگاہ ميں رسوا ہو كر رہ گئے۔حيرت تو ان علماء اسلام پر جنہوں نے تضاد كا تجزيہ كرنے كے بجائے نہايت آسانى كے ساتھ ہر مقام پر نسخ كاعقيدہ اختيار كر ليا ہے۔ نسخ ايك حقيقت بھى ہے اور ضرورت بھي۔ ليكن ہر ضرورت كا محل و موقع ہوتا ہے۔ يہ كوئي ضرورى نہيں ہے كہ جہاں كسى اعتراض كا جواب سمجھ ميں نہ آئے وہيں يہ كہہ ديا جائے كہ يہ آيت دوسرى آيت سے منسوخ ہو گئى ہے۔مسئلہ نسخ كا مكمل تجزيہ بعد ميں كيا جائے گا اور وہاں علماء اسلام كى اس كوتاہى دامن كو واضح كرتے ہوئے بتايا جائےگا كہ نسخ ايك قانونى ضرورت ہے اسے كوتاہى نظر كى سپر كا درجہ نہيں ديا جاسكتا۔امام حسن عسكري (ع) نے اس عقدہ كو نہايت ہى حسن وخوبصورتى كے ساتھ حل فرمايا ہے۔ آپ كو اطلاع دى گئى كہ ايك فلسفى نے قرآن مجيد كے بيانات ميں مختلف مقامات پر اختلاف ثابت كركے تضاد قرآن پر ايك كتاب تاليف كر دى ہے اور مسلمانوں كے عقائد خطرے ميں پڑ گئے ہيں۔ تو آپ نے ايك شخص كو معمور كيا كہ وہ فلسفى سے صرف اتنا دريافت كرے كہ تونے جس تضاد كو ثابت كيا ہے اس كا تعلق قرآن مجيد كے ان معانى سے ہے جو تيرے ذہن ميں آئے ہيں يا ان معانى سے ہے جو ان الفاظ سے مالك قرآن كى مراد ہے۔ اگر تضاد معانى ميں ہے جو تيرے ذہن كى پيداوار ہيں تو اس كى كوئى ذمہ دارى قرآن حكيم پر نہيں ہے اور اگر اس تضاد كا تعلق ان معانى سے ہے جو رب العالمين مراد لئے ہيں تو يہ پہلا اور بنيادى سوال ہے كہ تجھے ان معانى كى اطلاع كہا ں سے ہو گئى؟۔ اور جب اس اطلاع كا كوئى مدرك و ماخذ نہيں ہے تو تجھے تضاد ثابت كرنے كا كوئى حق نہيںہے۔قرآن مجيد تو واضح لفظوں ميں اعلان كر رہا ہے:لو كان من عند غير اللہ لوجدوا فيہ اختلافاً كثيراً۔اگر يہ قرآن غير خد اكى طرف سے نازل ہوتاتو اس ميں بے حد تضاد و اختلاف پايا جاتا۔يعني تضاد كا نہ ہونا ہى دليل ہے كہ يہ الہامى اور خدائي كتاب ہے اور اس كى تنزيل و ترتيب ميں كسى بندے كا دخل نہيں ہے۔اس روايت ميں اس بات كى طرف بھى اشارہ كيا گيا ہے كہ حقائق قرآن تك پہونچنا ہر ماہر لسانيات كے بس كا كام نہيں ہے۔ فلسفى لغت و ادب كےزور سے الفاظ كے معانى كا اندازہ كر سكتاہے ليكن حقائق تك نہيں پہونچ سكتا اور اختلاف و اتحاد بيان كا تعلق حقائق اور مرادات سے ہوتا ہے نہ كہ ظاہرى معانى و مفاہيم سے۔قرآن حكيم كو ظاہرى الفاظ كے معانى تك محدود كر ديا جائے اور اس كے معانى كو واقعى حقائق و مرادات سے الگ كر ديا جائے تو ايسے اعتراضات كا دفع كرنا بے حد مشكل ہو جائے گا ضرورت ہے كہ قرآن حكيم كے ان واقعى مقاصد پر ايمان ركھا جائے اور انكي عظمتوں كا اقرار كيا جائے۔ اسى كا نام تاويل قرآن ہے اور يہى مرجع تعليمات و احكام ہے۔ اور يہي تاويل و مقصديت اشارہ كرتى ہے كہ قرآن حكيم كا حقيقى علم امت كے پاس نہيں ہے بلكہ اس كا واقعي ذخيرہ ذريت پيغمبر كے سينے ميں محفوظ كيا گيا ہے جس كى طرف حضور سرور كائنات نے وقت آخر اشارہ كر ديا تھا كہ :”ميں تم ميں دو گراں قدر چيزيں چھوڑے جاتا ہوں، ايك كتاب خدا اور ايك ميرى عترت اور ميرے اہل بيت۔ جب تك ان سے متمسك رہوگے گمراہ نہيں ہو سكتے۔ اور حقائق كتاب تم تك پہونچتے رہيں گے۔”!