گروہ ناکثین (بیعت شکن)

178

یہ حقیقت ہے ہر قسم کے شک وشبہ سے بالا ہے کہ ام المومنین عائشہ اور طلحہ اور زبیر نے لوگوں کو حضرت عثمان کی مخالفت پر برانگیختہ کیا اور ایسے حالات پیدا کردئیے جو کہ حضرت عثمان کے قتل پر منتج ہوئے تھے ۔ان مخالفین میں زبیر بن عوام سب سے پیش پیش تھے اور طلحہ بن عبید اللہ اول الذکر کی بہ نسبت کچھ کم مخالف تھے ۔حضرت عثمان نے بھی ایک دفعہ طلحہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا :- ویلی من طلحہ ! اعطیتہ کذا ذھبا وھو یروم ۔۔۔۔۔۔ اللھم لا تمتعہ بہ ولقہ عواقب بغیہ “مجھے طلحہ پر سخت افسوس ہے میں نے اسے اتنا سونا دیا تھا اور وہ آج مجھے قتل کرنا چاہتا ہے پروردگا ر ! اسے دولت سے لطف اندوز نہ کرنا اور اسے بغاوت کے انجام بد تک پہنچا نا ۔ “(1)۔حضرت عثمان کے قتل کے بعد مذکورہ تینوں افراد نے خون بدلہ کا جو ڈھونگ رچایا تھا وہ صرف اس لئے تھا کہ لوگوں کو مغالطہ میں مبتلا کیا جائے ورنہ حضرت عثمان کے قتل کے محرک یہ خود ہی تھے ۔جن دنوں حضرت عثمان اپنے گھر میں محصور تھے ، حضرت علی نے طلحہ سے کہا تھا : تجھے اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ ان بلوائیوں کو عثمان سے ہٹاؤ ۔یہ سن کر طلحہ نے کہا ! خدا کی قسم میں اس وقت تک ایسا نہیں کروں گا جب تک بنی امیہ امت اسلامیہ کا لوٹا ہوا مال واپس نہ کردیں ۔طبری لکھتے ہیں : حضرت عثمان نے طلحہ پچاس ہزار درہم کا قرض دیا تھا ۔ ایک دفعہ عثمان مسجد جارہے تھے ۔ راستے میں طلحہ سے ملاقات ہوئی تو طلحہ نے کہا ۔ میں نے قرض کی رقم اکٹھی کرلی ہے آپ جب بھی چاہیں مجھ سے لے لیں ۔حضرت عثمان نے کہا ۔ابو صحرا میں نے وہ رقم تمہں معاف کردی ۔ایام محاصرہ میں طلحہ کے کردار کو دیکھ کر حضرت عثمان کہا کرتے تھے ۔ اس نے مجھے وہ جزا دی جو چور کسی شخص کو دیا کرتے ہیں ۔مدائنی “قتل عثمان ” میں تحریر کرتے ہیں : طلحہ نے حضرت عثمان کی لاش کو تین دن تک دفن نہیں ہونے دیا ۔ اور جب حکیم بن حزام اور جبیر بن مطعم ان کی لاش کو اٹھا کر جارہے تھے تو طلحہ نے راستے میں ایسے افراد کھڑے کر رکھے تھے جنہوں نے ان کی لاش پر پتھر پھینکے ۔”(2)ڈاکٹر طہ حسین رقم طراز ہیں ۔طلحہ کی بلوائیوں سے ہمدردیاں پوشیدہ نہ تھیں اور انہیں برانگیختہ کرنے میں بھی ان کی کاوشیں شامل تھیں ۔اور حضرت عثمان طلحہ کے اس طرز عمل کی خلوت وجلوت میں شکایت کیا کرتے تھے ۔ثقہ راوۃ کا بیان ہے کہ حضرت عثمان نے ایک دفعہ حضرت علی سے درخواست کی کہ وہ ان بلوائیوں کو اسی طرح سے واپس بھجوائیں ۔حضرت علی طلحہ کے پاس گئے تو انہوں نے بلوائیوں کی ایک بڑی جماعت کو طلحہ کے پاس دیکھا ۔حضرت علی نے طلحہ سے فرمایا کہ تم انہیں واپس بھیج دو ۔ لیکن طلحہ نے انہیں واپس بھیجنے سے انکار کردیا تھا ۔(3)قتل عثمان میں حضرت عائشہ کا کردار تو بالکل اظہر من الشمس ہے.حضرت عائشہ ہی وہ خاتون تھیں جنہوں نے کئی دفعہ رسول خدا (ص) کی قمیص دکھا کر حضرت عثمان کو کہا تھا کہ : رسول خدا کی ابھی قمیص بھی بو سیدہ نہیں ہوئی مگر تم نے ان کی سنت کو ترک کر دیا ۔”اور کئی مرتبہ پردہ کے پیچھے سے کھڑے ہوکر انہوں نے فرمایا تھا ۔ “اقتلوا نعثلا ” تم نعثل کو قتل کرو”۔امّ المومنین کے متعلق یہ بلکل درست ہوگا کہ آپ حضرت عثمان کی سب سے بڑی مخالف تھیں ۔ سابقہ صفحات میں آپ یہ روایت پڑھ چکے ہوں گے کہ جب مکہ میں کسی نے حضرت عائشہ تک ایک افواہ پہنچائی تھی کہ حضرت عثمان نے بلوائیوں کو قتل کردیا ہے اور اب شورش ختم ہوگئی ہے ، تویہ سن کر بی بی نے سخت الفاظ میں اپنے طرز عمل کا اظہار فرمایا تھا :” یہ کہاں کا انصاف ہے کہ حق مانگنے والوں کو قتل کیاجائے اور ستم رسیدہ لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے تلوار کے گھاٹ اتارا جائے ۔”او رحضرت علی کے تخت نشین ہوتے ہی حضرت عائشہ خون عثمان کی دعودیدار بن کر کھڑی ہوگئیں اور طلحہ وزبیر کے کہنے بصرہ کی تیاریوں میں مشغول ہوگئیں ۔اسی اثناء میں سعید بن العاص ام المومنین کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ آپ کیا چاہتی ہیں ؟ بی بی نے کہا : میں بصرہ جانا چاہتی ہوں سعید نے پھر پوچھا ۔آپ وہاں کیوں جانا چاہتی ہیں ؟ بی بی نے فرمایا :- عثمان کے خون کے مطالبہ کے لئے جارہی ہوں ۔یہ سن کر سعید بن العاص نے کہا : ام المومنین ! عثمان کے قاتل تو آپ کے ساتھ ہیں ۔(4)تاریخی حقائق کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں جنگ جمل کے محرکین ہی حضرت عثمان کے سب سے بڑے مخالف تھے ۔ اور حضرت عثمان کے خون کے چھینٹیں ان کے دامن پر لگے ہوئے تھے ۔ اور اس وقت مسلمانوں کی اکثریت بھی بخوبی جانتی تھی کہ قاتلین عثمان کون ہیں ؟اس تاریخی حقیقت کے ادراک کے بعد ایک دل چسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جنگ جمل کے “ہیرہ”ہی دراصل قاتلین عثمان تھے ۔ تو پھر انہوں نے خون عثمان کا مطالبہ کیوں کیا تھا ؟ اور لوگوں کو علی (ع) کی مخالفت پر کمر بستہ کیوں کیا ؟اور کیا اس وقت کچھ ایسے مخفی عوامل تھے جن کی وجہ سے قمیص عثمان کو بہانہ بنا کر حکومت وقت کی مخالفت کی گئی ؟اور پھر طلحہ وزبیر نے حضرت علی کی بیعت کیوں کی ؟اور اگر خون عثمان کے مطالبہ میں کوئی وزن تھا تو کیا اس کا طریقہ یہی تھا کہ حکومت کے خلاف بغاوت کردی جائے اور کیا حضرت عثمان اس دنیا سے “لاولد” ہوکر گئے تھے جب کہ ان کا بیٹا عمر موجود تھا ؟ام المو منین اور طلحہ وزبیر کو قصاص عثمان کا اختیار کس قانون کے تحت حاصل ہواتھا ؟قصاص عثمان کے لئے بصرہ کا انتخاب کیوں کیا گیا ؟ اور بصرہ کی بجائے مصر کو اس “کارخیر ” کے لئے منتخب کیوں نہ کیا گیا جب کہ بلوائیوں کی اکثریت کا تعلق بھی مصر سے تھا ؟
عائشہ کو علی سے پرانی عداوت تھیتاریخ کے قارئین سے یہ امر مخفی نہیں ہے کہ حضرت عائشہ جناب علی سے حیات رسول (ص) میں ہی حسد کیا کرتی تھیں اور حضرت علی کی مخالفت ان کے رگ وریشہ میں سمائی ہوئی تھی ۔ام المومنین کے حسد کی دو وجوہات تھیں :1:- غزوہ بنی مصطلق کے وقت حضرت عائشہ پر جو تہمت لگی تھی ۔اس میں حضرت علی نے بی بی صاحبہ کے حامی کر کردار ادا نہیں کیا تھا ۔2:- بی بی عائشہ اپن بانجھ پن کی وجہ سے حضرت علی سے حسد کیا کرتی تھیں کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ رسالت مآب کی اولاد حضرت فاطمہ زہرا (س) کے بطن سے جاری ہوئی تھی۔ جب کہ حضرت عائشہ کی گود خالی تھی ۔ اسی لئے بی بی عائشہ وقتا فوقتا رسول خدا (ص) کی محبوب بیوی حضرت خدیجہ کی بھی مذمت کرنے سے باز نہیں رہتی تھیں ۔اور کئی دفعہ ام المومنین نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کے سامنے بھی ان کی مرحومہ والدہ کا شکوہ کرکے ان کے دل کو زخمی کیا تھا ۔واقعہ افک کی تفصیل ام المومنین نے اس طرح بیان کی ہے :- رسول خدا (ص) جب سفر کرتے تو اپنی ازواج میں قرعہ اندازی کرتے تھے ۔جس کا قرعہ نکلتا تھا ۔ آپ اسے اپنے ہمراہ لے جاتے تھے ۔جب بنی مصطلق کا غزوہ ہوا تو قرعہ میں میرا نام نکلا ۔رسول خدا مجھے اپنے ساتھ لے گئے ۔واپسی پر مدینہ کے قریب رات کے وقت ایک منزل پر قیام کیا ۔میں حوائج ضروریہ کے لئے باہر گئی ۔اس وقت میری گردن میں ایک ہار تھا ۔جب میں نے حوائج سے فراغت حاصل کرلی تو میرا ہار گم ہوگیا ۔میں اسے ڈھونڈ نے لگ گئی ۔اور دوسری طرف سے کوچ کا نقارہ بج گیا ۔لوگ جانے لگے مگر میں ہار ڈھونڈتی رہی ۔ہار تو آخر کا مجھے مل گیا لیکن جب میں پڑاؤ پر آئی تو وہاں کوئی شخص موجود نہ تھا میں چادر اوڑھ کر لیٹ گئی ۔میں لیٹی ہوئی تھی کہ صفوان بن معطل سلمی جو کسی کا م کی وجہ سے پیچھے رہ گیا تھا وہ آیا ۔جب اس نے مجھے دیکھا تو پہچان لیا کہ کیونکہ آیت حجاب کے نزول سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا ۔وہ اپنے اونٹ کو میرے قریب لایا اور مجھے اونٹ پر سوار کیا اور اس نے مجھے تیزی سے اونٹ ہنکا کر مجھے مدینہ پہنچایا اور مدینہ میں میرے خلاف چہ مگوئیوں کیا ایک سلسلہ چل نکلا اور یہ سرگوشیاں رسول خدا (ص) اور میرے والدین کے کانوں تک بھی پہنچ گئیں ۔اس کے بعد میں نے رسول خدا (ص) کے رویہ میں تبدیلی محسوس کی ۔ ان کی شفقت و مہربانی میں مجھے کمی نظر آئی ۔ تو میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے والدین کے گھر چلی جاؤں ؟ میری طبیعت ناساز ہے ، وہاں میری والدہ میری تیمار داری کرنے کے لئے موجود ہے ۔رسول خدا (ص) نے اجازت دی تو میں نے اپنے والدین کے گھر آگئی ۔رسول خدا (ص) نے اس معاملہ کے لئے علی ابن ابی طالب کو بلایا اور ان سے مشورہ کیا تو علی نے کہا ۔ یا رسول اللہ ! آپ کے لئے عورتوں کی کوئی کمی نہیں اس کے بدلے آپ کسی اور عورت سے بھی شادی کرسکتے ہیں ۔ آپ کنیز سے سوال کریں وہ آپ کو بتا سکے گی ۔رسول خدا نے بریرہ کو بلایا تو علی (ع) نے اسے سخت زد وکوب کیا اور کہا کہ رسول خدا (ص) کو سچی سچی بات بتا دے ۔۔۔۔۔۔۔خدا کی قسم ! رسول خدا ابھی اس مجلس سے اٹھنے نہ پائے تھے کہ ان پر وحی کی کیفیت طاری ہوگئی ۔کچھ دیر بعد آپ پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے اٹھے اور فرمایا عائشہ ! تمھیں مبارک ہو اللہ نے تمہاری برائت نازل کی ہے ۔ پھر مسطح بن اثاثہ ، حسان بن ثابت اور حمنہ بن جحش اور ان کے ہم نوا افراد پر حد قذف جاری کی گئی ۔”(5)درج بالا روایت سے درج ذیل امور کا اثبات ہونا ہے :1:- غزوہ بنی مصطلق میں ام المومنین عائشہ رسول خدا کے ساتھ تھیں ۔2:- واپسی میں جب لشکر ایک پڑاؤ پر ٹھہر اہوا تھا ۔ وہ کسی کو بتائے بغیر حوائج ضروریہ کے لئے چلی گئیں ۔3:- فراغت حاصل کرنے کے بعد پھر پڑاؤ پر واپس تشریف لائی ہی تھیں کہ انہیں ہار کی گم شدگی کا احساس ہوا4:- ہار کو تلاش کرنے کے لئے دوبارہ اسی مقام تک گئیں ۔ہار مل گیا لیکن جب واپس آئیں تو پورا لشکر کوچ کرکے چلا گیا تھا ۔5:- مایوس ہو کر چادر اوڑھ کر آپ سوگئیں ۔حسن اتفاق سے صفوان اپنے ناقہ پر آرہا تھا اور اس نے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ وہ آیت حجاب کے نزول سے پہلے انہیں دیکھ چکا تھا ۔6:- صفوان کی نگاہ خوب کا م کرتی تھی کہ اس نے رات کی تاریکی میں چادر کے اندر سے ہی دیکھ کر پہچان لیا تھا ۔7:- صفوان نے ام المومنین کو اپنی ناقہ پر بٹھا کر مدینہ لایا اور حسان بن ثابت اور چند دیگر افراد نے ام المومنین پہ تہمت لگائی ۔8:- جب رسول خدا نے علی (ع) سے مشورہ کیا تو انہوں نے ام المومنین کو طلاق دینے کا مشورہ دیا ۔امام بخاری نے بھی اس روایت کو تفصیل سے لکھا ہے :- حضرت عائشہ کہتی ہیں :- جب رسو خدا درپیش سفر ہوتا تو آپ اپنی ازواج میں قرعہ ڈالتےتھے ۔جس بی بی کا قرعہ نکلتا وہ آپ کے ساتھ سفر میں جاتی تھی ۔ایک جنگ میں قرعہ فال میرے نام کا نکلا ۔میں حضور کریم کے ساتھ روانہ ہوئی ۔رسول خدا جنگ سے فارغ ہو کر مدینہ کی طرف آرہے ھتے کہ مدینہ کے قریب ایک مقام پر اسلامی لشکر نے پڑاؤ کیا ۔جب کوچ کا اعلان ہوا تو میں حوائج ضروریہ کے لئے باہر چلی گئی اور میں لشکر سے دور چلی گئی ۔قضائے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد اپنے محمل تک آئی میں نے محسوس کیا کہ میرا ہار ٹوٹ گئی اور اسے ڈھونڈنے میں مصروف رہی ۔اس اثناء میں میرے محمل کو اٹھانے والے افراد آئے اور میرے محمل کو اٹھا کر اونٹ پر رکھ یدا اور ان کا خیال تھا کہ میں اس میں موجود ہوں ۔اس زمانے میں عورتین بڑی ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھیں ۔ ان پر گوشت نہیں چڑھا تھا کیونکہ بہت قلیل مقدار میں انہیں کھانا نصیب ہوتا تھا ۔ اس وجہ سے میرے محمل اٹھانے والوں کو بھی وہم نہ ہوا کہ میں اس میں موجود نہیں ہوں میں اس وقت کم سن لڑکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔لشکر کے جانے کے بعد مجھے ہار مل گیا ۔اور جب میں پڑاؤ پر پہنچی تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا تھا اورنہ ہی کوئی جواب دینے والا ۔میں اسی جگہ پر بیٹھ گئی ۔مجھے بیٹھے بیٹھے نیند آگئی ۔کچھ دیر بعد صفوان بن معطل سلمی ثم الذکوانی لشکر کے پیچھے تا ۔جب میرے قریب آیا تو اس نے ایک سوئے ہوئے انسان کا ہیولا دیکھا تو مجھے پہچان لیا ۔ اس نے مجھے آیت حجاب کے نزول سے پہلے دیکھا ہوا تھا ۔ اس نے انّا للہ کی آیت زور سے پڑھی تو میں بیدار ہوگئی ۔اس نے اپنی ناقہ پہ مجھے سوار کیا اور مدینہ لے آیا “۔(6)بخاری کی روایت سے درج ذیل امور ثابت ہوتے ہیں ۔1:- ام المومنین کی روانگی کے وقت پڑاؤ سے نکلی تھیں اور اس وقت کوچ کا نقارہ بج چکا تھا ۔2:-باہر نکالتے وقت انہوں نے کسی کو بتایا بھی مناسب نہیں سمجھا تھا ۔3:-پورے لشکر میں سے کسی نے انہیں جاتے ہوئے بھی نہیں دیکھا تھا ۔4:-محمل اٹھانے والوں کو بھی آپ کا پتہ نہ چل سکا کیونکہ اس زمانے میں تمام عورتیں بشمول ام المومنین کمزور و نحیف ہوا کرتی تھیں ۔5:- قلت خوراک اور کم سنی کی وجہ سے بی بی صاحبہ کا وزن کچھ تھا ہی نہيں ۔6:- ام المومنین نے جب میدان خالی دیکھا تو وہیں چادر اوڑ کر سوگئیں ۔7:- صفوان لشکر کے پیچھے تھا وہ آیا تو اس نے نیند میں پڑے ہوئے انسان کو دور سے ہی دیکھ کر پہچان لیا تھا ۔ کیونکہ وہ آیت حجاب سے پہلے آپ کو دیکھ چکا تھا ۔8:- صفوان نے ام المومنین کو ناقہ پہ بٹھایا اور مدینہ لے آیا ۔حضرت ام المومنین اور مولا علی علیہ السلام کے درمیان حسد کی وجوہات میں واقعہ افک کا بھی دخل ہے اس کے علاوہ کچھ اور غیر )indirect effects)مستقیم عوامل بھی تھے جن کی وجہ سے ام المومنین ، بنت پیغمبر اور علی مرتضی سے حسد کیا کرتی تھیں ۔جناب عائشہ کی خواہش رہتی تھی کہ وہ رسول خدا (ص) کے محبوب بن جائیں ۔ حضرت عائشہ میں سوکن پن کا حسد اتنا تھا کہ کئی دفعہ رسول خدا(ص) کے سامنے ان کی مرحوم بیوی جناب خدیجۃ الکبری پر بھی اعتراضات کئے تھے اور رسول خدا (ص) کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ خدیجہ ایک بڈھی عورت تھی جس کے دانت ٹوٹے ہوئے تھے ۔اور اللہ نے اسکے بدلہ میں آپ کو نواجوان باکرہ بیوی دی ہے ۔رسول خدا(ص) نے یہ الفاظ سن کر جناب عائشہ کو ڈانٹ دیا تھا کہ حضرت خدیجہ نے اس وقت میری تصدیق کی جب کہ لوگوں نے میری تکذیب کی تھی ۔ اس نے اپنا تمام مال اس وقت میرے قدموں میں نچھاور کیا تھا ۔جب لوگوں نے مجھے محروم کیا تھا اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اللہ نے اسے میری نسل کی ماں بنایا اور یہ عظیم شرف اس کے علاوہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا ۔جی ہاں ! حضرت عائشہ اور حفصہ یہ وہی بی بیاں ہیں جن کے متعلق سورۃ تحریم نازل ہوئی اور ان دونوں کو مخاطب کرکے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما وان تظاھرا علیہ فانّ اللہ ھو مولاہ وجبریل وصالح المومنین و الملائکۃ بعد ذالک ظہیرا ” تم دونوں اگر توبہ کر لو تو بہتر کیونکہ تم دونوں کے دل حق سے منحرف ہوچکے ہیں اور اگر تم دونوں نبی کے خلاف چڑھائی کرو گی تو اللہ اس کا مدد گار ہے ۔ جبریل اور نیک مومن اس کے مدد گار ہیں اور اس کے بعد تمام فرشتے اس کے پشت پناہ ہیں ۔سورۃ تحریم کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دو ازواج نے رسول خدا کے خلاف کوئی ایسا محاذ ضرور تیار کیا تھا کہ جس کے لئے اللہ نے اپنی اور جبریل اور صالح المومنین اور ملائکہ کی مدد کا ذکر کیا ہے ۔اس مقام پر اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کوئی محاذ نہیں تھا تو پھر اس سے پوچھنا چاہیئے کہ جب حالات بالکل اطمینان بخش تھے تو اللہ نے اتنے بڑے لشکر کا ذکر کیوں فرمایا اور ان دونوں بیویوں کو طلاق کی دھمکی کیوں دی اور ان کے دلوں کو حق سے منحرف کیوں قراردیا ؟حضرت عائشہ کو اللہ تعالی نے اولاد سے محروم رکھا تھا ۔جب وہ حضرت سیدہ بنت رسول کو دیکھتی تھیں تو ان کے دل میں زنانہ حسد انگڑائیاں لیا کرتا تھا ۔
طلحہ وزبیر کی مخالفت کی وجہطلحہ وزبیر کی مخالفت کی وجوہ بھی چشم تاریخ سے مخفی نہیں ہیں ۔طلحہ وزبیر دونوں خلافت کے امید وار تھے اور چند دن پہلے ہی حضرت عمر نے ان دونوں کو شوری میں شامل کیا تھا ۔ لیکن شوری کے ذریعہ سے انہیں خلافت نہیں ملی تھی اور حضرت عثمان خلیفہ عثمان خلیفہ بن گئے تھے ۔ ان دونوں نے حضرت عثمان کی خلامت کے اوائل میں ان سے خوب مفادات حاصل کئے ۔اور جب ان دونوں نے دیکھا کہ اب ہوا کا رخ بدل چکا ہے تو انہوں نے بھی اپنا رخ ہوا کی جانب کرلیا ۔ اور ان کا خیال یہ تھا کہ اگر ہم نے حضرت عثمان کی مخالفت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تو ان کے بعد خلافت ہمیں نصیب ہوگی ۔لیکناے بسا آرزو کہ خاک شد
حضرت عثمان کے قتل کے بعد انہیں کسی نے خلافت کے قابل نہ سمجھا ،خلافت کی مسند پہ حضرت علی فائز ہوگئے ۔یہ دیکھ کر ان کے غصّہ کی کوئی انتہا نہ رہی اور پھر انہوں نے نے اپنی سابقہ روش اپنائی ۔حضرت علی سے کوفہ اور بصرہ کی حکومت کا مطالبہ کیا جسے حضرت علی نے مسترد کردیا ۔علاوہ ازیں حضرت علی (ع) کی مالی پالیسی خلفائے ثلاثہ سے بالکل جدا گانہ تھی ۔علی کسی کی شخصیت سے کبھی مرعوب نہیں ہوتے تھے ۔اور مشہور شخصیات کو جاگیر یں دے کر اپنے ساتھ ملانے پر یقین نہیں رکھتے تھے ۔ جب کہ یہ دونوں بزرگوار بڑی بڑی جاگیریں حاصل کرنے کے عادی ہوچکے تھے ۔عثمانی دور میں ان دونوں نے بیت المال سے جو حصہ لیا تھا ۔ اس کی تفصیل آپ سابقہ اوراق میں پڑھ چکے ہیں ۔عہد شیخین میں انہوں نے کیا کچھ حاصل کیا ؟ اس کی معمولی سی جھلک بلاذری کے اس بیان سے ظاہر ہوتی ہے :ہشام بن عروہ اپنے باپ سےروایت کرتے ہیں کہ : حضرت ابو بکر نے زبیر کو “حرف” اور قتاۃ” کی تمام جاگیر الاٹ کی تھی ۔مدائنی نے مجھے بتایا کہ :-“قتاۃ” ایک برساتی نالہ ہے جو طائف سے آتا ہے اور “ارحضیہ”اور “قرقرۃ الکدر” کے پاس سے گزرتا ہے پھر “معاویہ بند” آتا ہے اور پھر موڑ کاٹ کر یہ نالہ شہدائے احد کے پاس سے گزر تا ہے ۔ہشام بن عروہ روایت کرتے ہیں :- حضرت عمر لوگوں کی جاگیریں الاٹ کرنے لگے تو وادی عقیق میں پہنچے اور کہا کہ زمین کے خواہش مند کہاں ہیں ؟ میں نے اس سے بہتر زمین کہیں نہیں دیکھی ۔زبیر نے کہا: یہ زمین مجھے الاٹ کر دیں ۔ حضرت عمر نے وہ تمام جاگیر انہیں الاٹ کردی “(7)۔بلاذری کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخصیات کسی کی مفت حمایت کرنے کے عادی نہ تھیں ۔انھوں نے ہر دور میں اپنی حمایت کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کی تھی ۔لیکن حضرت علی جیسا عادل امام جس نے اپنے بھائی کو ضرورت سے زیادہ کچھ نہیں دیا تھا وہ ان دونوں کو کیا دیتا ؟بعض مورخین نے ایک واقعہ لکھا ہے جس سے بخوبی علم ہوسکتا ہے کہ طلحہ وزبیر علی علیہ السلام پر ناراض کیوں تھے ؟”طلحہ و زبیر نے خروج سے پہلے محمد بن طلحہ کو حضرت علی (ع) کی خدمت میں بھیجا اور اس نے آکر دونوں کا یہ پیغام آپ کے گوش گزار کیا :-ہم نے آپ کی راہ ہموار کی ہم نے لوگوں کو عثمان کے خلاف برانگیختہ کیا یہاں تک کہ وہ قتل ہوگیا ۔ اور ہم نے دیکھا کہ لوگ آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کی رہنمائی کی اور سب سے پہلے ہم نے آپ کی بیعت کی ہم نے آپ کے سامنے عرب کی گردنیں جھکادی ہیں ۔ ہماری وجہ سے مہاجرین و انصار نے آپ کی بیعت کی ہے ۔لیکن ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ جب آپ حاکم بن گئے تو آپ نے ہم سے منہ موڑ لیا اور ہمیں غلاموں اور کنیزوں کی طرح ذلیل کیا ۔جب محمد بن طلحہ کی زبانی حضرت علی (ع) نے یہ پیغام سنا تو اسے فرمایا تم ان کے پاس جاؤ اور پوچھو وہ کیا چاہتے ہیں ؟وہ گيا اور واپس آکر کہا کہ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک کو بصرہ کا حاکم بنایا جائے اور دوسرے کو کوفہ کا حاکم بنایا جائے ۔ یہ سن کر حضرت علی (ع) نے فرمایا :- ایسا کرنے سے فساد پھیل جائے گا اور یہ دونوں میرے لئے باقی شہروں کی حکومت کو بھی دشوار بنادیں گے اب جب کہ یہ دونوں میرے پاس مدینہ میں ہیں پھر بھی ان سے مطمئن نہیں ہوں اور اگر انہیں اہم علاقوں کا حاکم بنا دوں تو سازش کے امکانات بڑھ جائیں گے ۔جب یہ دونوں نے حضرت علی (ع) کا یہ ٹکاسا جواب سنا تو بڑے مایوس ہوئے اور انہیں اپنے تمام عزائم خاک میں ملتے ہوئے نظر آئے تو وہ حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ہم عمرہ کرنے کے لئے مکہ جانا چاہتے ہیں ، آپ ہمیں جانے کی اجازت دیں حضرت علی نے فرمایا کہ پہلے تم قسم کھاؤ کہ میری بیعت نہ توڑو گے اور غداری نہ کروگے ۔اور مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ نہ کرو گے اور عمرہ کے بعد واپس اپن گھر کو آجاؤ گے ۔ان دونوں نے حلفیہ طور پر یہ تمام باتیں تسلیم کیں تو حضرت علی (ع) نے انہیں عمرے کے لئے جانے کی اجازت دی ۔اس کے بعد انہوں نے جو کیا سو کیا ۔”(8)اور جب یہ دونوں حضرات مکہ جارہے تھے تو حضرت علی (ع) نے ان سے فرمایا کہ تم دونوں مجھے یہ بتا سکتے ہو کہ کبھی مںر نے تمہیں تمہارے کسی حق سے محروم کیا ہے ؟ یا میں نے تمہارے مقرر شدہ وظیفہ میں کسی طرح کی کوئی کمی کی ہے ؟ اور کیا تم نے کبھی ایسا موقع بھی دیکھا جب کسی مظلوم نے میرے پاس فریاد کی ہو اور میں نے اسے اس کا حق دلانے میں کوئی کوتاہی کی ہو ؟خدا کی قسم ! مجھے خلافت کا نہ کوئی شوق تھا اور نہ ہی حکومت کبھی میرا مطمع نظر رہی ہے ۔ تم نے ہی مجھے حکومت وامارات کی دعوت دی تو میں نے قبول کرلی اور جب میں نے حکومت سنبھالی تو میں نے قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کی قرآن نے مجھے حاکم اور رعیت کے باہمی حقوق وفرائض بتائے تومںی نے احکام قرآن کو اپنا رہنما اصول بنایا اور سنت نبوی کی میں نے اقتدا کی ۔اس رہنمائی کے حصول کے لئے مجھے تمہاری رائے کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی کسی اور کے مشورہ کی مجھے احتیاج محسوس ہوئی ۔ اور آج تک کوئی ایسا مقدمہ بھی میرے پاس نہیں لایا گیا ۔ جس کے لئے مجھے تمہارے مشورہ کی ضرورت پڑتی ۔حضرت علی (ع) نے طلحہ وزبیر کے فتنہ کو ان الفاظ سے اجاگر کیا :- “خدا کی قسم ! وہ مجھ پر کوئی الزام ثابت نہیں کرسکتے اور انہوں نے میرے اور اپنے درمیان انصاف نہیں کیا ۔ وہ اس حق کے طلب کر رہے ہیں جسے انہوں نے خود چھوڑ ا تھا ۔۔۔۔اور اس خون کا بدلہ طلب کررہے ہں جسے انہوں نے خود بہایا تھا ۔(9)
جنگ جمل کے محرّک بصرہ میںطلحہ اور زبیر ام المومنین کو اپنے ساتھ لے کر بصرہ کی جانب روانہ ہوئے اور وہ اپنے تئیں خون عثمان کا مطالبہ کررہے تھے ۔جب کہ ان کا یہ مطالبہ دینی اور معروضی حالات دونوں کے تحت ناجائز تھا ۔1:- دینی اعتبار سے انہیں مطالبہ کا کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کیونکہ حضرت عثمان لاولد نہیں تھے ان کی اولاد موجود تھی۔ ان کے فرزند عمرو کو حق پہنچتا تھا کہ وہ خلیفۃ المسلمین کے پاس اپنے باپ کے خون کا دعوی کرتا ۔ اور خلیفۃ المسلمین تحقیق کرکے مجرمین کو سزا دیتے ۔حضرت عثمان کی اولاد کی موجودگی میں طلحہ و زبیر اور ام المومنین کو خون عثمان کے مطالبہ کا کوئی جواز نہیں تھا ۔2:-خون کا مطالبہ لے کر اٹھنے والے افراد نے بہت سے غلط کام کئے ، انہوں نے بے گناہ افراد کو ناحق قتل کیا ۔ بصرہ کے بیت المال کو لوٹا اور بصرہ میں مسلمانوں بالخصوص حاکم بصرہ ناجائز تشدد کیا ۔ جس کی انسانیت اور شریعت میں اجازت نہیں ہے ۔3:- قاتلین کی تلاش کے لئے محرکین جمل مصر کی بجائے بصرہ کیوں گئے ؟4:- ام المومنین عائشہ کو گھر سے باہر نکلنے کا حق نہ تھا کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں “وقرن فی بیوتکن ” کے تحت گھر میں بیٹھنے کاحکم دیا تھا ۔انہوں نے میدان میں آکر حق خداوندی کی نافرمانی کی ۔5:- کیا شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ایک شورش کے ختم کرنے کے لئے اس سے بھی بڑی شورش بپا کی جائے ۔اور بالخصوص جب کہ شورشی افراد کو علم تھا کہ حضرت علی کا دامن خون عثمان کے چھینٹوں سے پاک ہے حضرت علی نے قاتلین عثمان کو کسی قسم کے عہدے بھی تو نہیں دئیے تھے ۔محرکین جمل پہلے عثمان پر ناراض تھے اور بعد ازاں علی (ع) پر ناراض ہوئے لیکن ناراضگی کے اسباب میں فرق تھا ۔حضرت عثمان پر اس لئےناراض تھے کہ ان کی مالی پالیسی غیر متوازن اور غیر عادلانہ تھی اور حضرت علی (ع) پر اس لئے ناراض تھے کہ ان کی پالیسی عدل کے مطابق تھی۔اسی عادلانہ پالیسی کے مد نظر حضرت علی (ع) نے اقتدار پرست افراد کو کسی محکمہ کا سربراہ نہیں بنایا تھا اور حضرت علی (ع) کی یہ پالیسی ان کے لئے حضرت عثمان کی پالیسیوں سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئی ۔موجودہ سیاسی اصطلاح میں یہ کہنا بالکل مناسب ہوگا کہ :- حضرت علی اس انقلاب کے بعد تخت نشین ہوئے اور جس انقلاب میں ان کا کوئی حصہ نہ تھا اور اس انقلاب کا ثمر حضرت علی کی جھولی میں آکر گرا تھا اور انقلابی افراد کو اس میں کچھ حصہ نہیں ملا تھا ۔علاوہ ازیں طلحہ ، زبیر اور ام المومنین کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ اگر علی (ع) کی حکومت مستحکم ہوگئی تو ان پر قتل عثمان کی فرد جرم عائد ہوسکتی تھی ۔اسی خطرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے طلحہ وزبیر نے عہد شکنی کی اور ام المومنین کو ساتھ ملا کر بصرہ روانہ ہوئے ۔راستے میں ایک چشمہ کے پاس سے ان کا گزر ہوا اور وہاں کتے بی بی صاحبہ کے محمل کے گرد بھونگنے لگے جس سے بی بی کا اونٹ بدکنے لگا تو ایک ساربان نے کہا :-اللہ “حواب” کے کتوں کو غارت کرے ۔یہاں کتے کتنے زیادہ ہیں ۔جب “حواب ” کے الفاظ بی بی صاحبہ نے سنے تو فرمایا ۔مجھے واپس لے چلو میں آگے نہیں جاؤں گی ۔ کیونکہ میں نے رسول خدا(ص) سے سنا تھا کہ ایک دفعہ انہوں نے فرمایا : میں دیکھ رہا ہوں کہ میری ایک بیوی کو “حواب ” کے کتے بھونک رہے ہیں پھر مجھے فرمایا تھا کہ “حمیرا” وہ عورت تم نہ بننا ۔یہ سن کر زبیر نے کہا کہ ہم حواب سے گزر آئے ہیں بعد ازاں طلحہ و زبیر نے پچاس اعرابیوں کو رشوت دے کر بی بی کے پاس گواہی دلوائی کہ اس چشمہ کا نا م حواب نہیں ہے ۔تاریخ اسلام میں یہ پہلی اجتماعی جھوٹی گواہی تھی ۔حضرت علی نے والی بصرہ عثمان بن حنیف کو خط تحریر کیا جس میں آپ نے لکھا ۔باغی افراد نے اللہ سے وعدہ کیا تھا لیکن انہوں نے عہد شکنی کی ۔جب وہ تمہارے پاس آئیں تو تم انہیں اطاعت کی دعوت دو ۔اگر مان لں تو ان سے اچھا سلوک کرو ۔خط ملنے کے بعد والی بصرہ نے ابو الاسود دؤلی اور عمرو بن حصین خزاعی کو ان کے پاس بھیجا۔بصرہ کی دونوں معززشخصیات کے پاس گئیں اور انہیں وعظ ونصیحت کی ام المومنین نے کہا تم طلحہ و زبیر سے ملاقت کرو ۔چنانچہ وہ وہاں سے اٹھ کر زبیر کے پاس آئے اور اس سے پوچھا کہ آپ بصرہ کیوں آئے ہیں ؟ زبیر نے کہا ہم عثمان کے خون کابدلہ لینے یہاں آئے ہیں ۔بصرہ کے معززین نے کہا کہ “مگر عثمان بصرہ میں تو قتل نہیں ہوئے آپ یہاں کیا لینے آئے ہیں ؟ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ عثمان کے قاتل کون ہیں اور کہاں ہیں ۔تم دونوں نے ام المومنین ہی عثمان کے سب سے بڑے دشمن تھے ۔ تم نے ہی لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکایا اور جب وہ قتل ہوگئے تو تم ہی بدلہ لینے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ علاوہ ازیں تم نے چند دن پہلے بلاجبر واکراہ حضرت علی (ع) کی بیعت کی تھی اور اب بیعت شکنی کرکے ان کے خلاف لشکر کشی کررہے ہو۔یہ باتیں سن کر زبیر نے کہا کہ طلحہ سے جاکر ملاقات کرو زبیر کے پاس سے اٹھ کر امن کے خواہاں دونوں افراد طلحہ کے پاس گئے اس سے گفتگو کرکے وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ :طلحہ کسی قسم کے صلح کے لئے آمادہ نہیں ہے وہ ہر قیمت پر جنگ کرنا چاہتے ہے ۔اسی دوران بصرہ کا ایک معزز شخص عبداللہ بن حکیم تمیمی خطوط کا ایک پلندہ لے کر طلحہ و زبیر کے پاس آیا اور کہا کہ کیا یہ تم دونوں کے خطوط نہیں ہیں جو تم نے ہمیں روانہ کئے تھے ؟طلحہ اور زبیر نے کہا جی ہاں ۔عبداللہ بن حکیم نے کہا : پھر خدا کا خوف کرو ،کل تک تم ہمیں خط لکھا کرتے تھے کہ عثمان کو خلافت سے معزول کردو ،اگر وہ معزول نہ ہونا چاہے تو اسے قتل کردو اورجب وہ قتل ہوگیا تو تم اس کے خون کا بدلہ لینے کیلئے آگئے ہو۔والی بصرہ عثمان بن حنیف طلحہ وزبیر کے پاس آگئے ۔انہیں اللہ ،رسول اور اسلام کے واسطے دے کر انہیں یاد لایا کہ وہ حضرت علی (ع) کی بیعت بھی کرچکے ہیں ۔ اسی لئے انہیں شورش سے باز رہنا چاہئیے ۔ان دونوں نے کہا کہ ہم خون عثمان کابدلہ لینے آئے ہیں ۔والی بصرہ نے کہا :- تم دونوں کاخون عثمان سے کیا تعلق ہے ؟ خون عثمان کے مطالبہ کاحق صرف اسکی اولاد کو حاصل ہے اور اسکی اولاد بھی موجود ہے ۔طلحہ اور زبیر اور والی بصرہ کے درمیان ایک معاہدہ طے ہوا اور اس معاہدہ کو باقاعدہ تحریر کیاگیا ۔اس معاہدہ میں یہ الفاظ تھ ےکہ فریقین خلیفۃ المسلمین کی آمد یا انتظار کریں گے اور کسی قسم کی جنگ نہ کریں گے ۔چند دن تو بصرہ میں اس معاہدہ کی وجہ سے امن قائم رہا ۔بعدازاں طلحہ اور زبیر نے قبائل کے سربراہوں کو خطوط لکھے اور انہیں اپنی حمایت پر امادہ کیا ۔ ان کے بہکانے پر بنی ازد ،ضبہ ،قیس بن غیلان ،بنی عمرو بن تمیم ،بنی حنظلہ ،اور بنی دارم کےافراد نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی جبکہ بنی مجاشع کے دیندار افراد نے انکی مخالفت کی ۔طلحہ وزبیر ن ےبعد آزاں ایک اور غداری کی انہوں نے اپنے بہی خواہوں کو ایک رات میں مسلح کیا اور زرہوں کے اوپر قمیصیں پہنائیں تاکہ لوگ سمجھیں کہ یہ افراد غیر مسلح ہیں ۔ اس رات بڑی بارش برس رہی تھی اور طوفانی ہوائیں چل رہی تھیں ۔اسی ماحول میں یہ اپنے ساتھیوں کو لے کر مسجد میں داخل ہوئے والی بصرہ عثمان بن حنیف نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھے تو طلحہ وزبیر کے مسلح ساتھیوں نے ایک شدید جھڑپ کے بعد انہیں پیچھے ہٹا کر زبیر کو آگے کردیا ۔بیت المال کے مسلح محافظوں نے مداخلت کرکے زبیر کوپیچھے ہٹایا اور عثمان بن حنیف کو آگے کھڑا کردیا ۔ اتنے میں زبیر کے اور مسلح ساتھی مسجد میں پہنچ گئے اور انہوں حکومتی افراد سے سخت جنگ کرکے زبیر کو مصلائے امامت پر کھڑا کردیا ۔ انہیں جھڑپوں کی وجہ سے سورج طلوع ہونے کا آگیا اور نمازیوں نے چیخ کر کہاکہ نماز قضا ہو رہی ہے ۔ چنانچہ زبیر نے مصلائے امامت پر جبرا قبضہ کرکے نماز پڑھائی ۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد زبیر نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ عثمان بن حنیف کو گرفتار کرکے سخت سزادو ۔زبیر کے ساتھیوں نے والی بصرہ کو پکڑ کر اسے سخت سزا دی اور اس بے چارے کی داڑھی ،ابرو اور سر کے بال نوچ ڈالے اور بیت المال کے محافظوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا اور مسلمانوں کے بیت المال کو طلحہ وزبیر کے حکم پر لوٹ لیا گیا ۔بیت المال کے محافظین اور والی بصرہ کو قید کرکے ام المومنین کے پاس لایا گیا تو “مہربان ماں ” نے محافظین کے قتل کا حکم صادرفرمایا (10)۔”ناکثین ” کی بحث کی تکمیل کے لئے ہم ایک اور روایت کو نقل کرنا پسند کرتے ہیں ابن اثیر رقم طراز ہیں کہ :-جب حضرت عثمان محصور تھے تو ام المومنین مکہ چلی گئی تھیں ۔اور حج سے فارغ ہو کر مدینہ واپس آرہی تھیں اور مقام “سرف “پہ پہنچیں تو بنی لیث کے خاندان کے ایک فرد سے جس کا نام عبیداللہ بن ابی سلمہ تھا ملاقات ہوئی ۔بی بی نے اس سے مدینہ کے حالات پو چھے تو اس نے بتایا کہ عثمان قتل ہوچکے ہیں ۔ بی بی نے پھر پوچھا کہ عثمان کے بعد حکومت کس کو ملی ؟اس نے بتایا کہ حکومت حضرت علی (ع) کو ملی ہے ۔اس وقت شدّت تاسف سے ام المومنین نےکہا ” کاش آسمان زمین پہ گر جاتا ۔ مجھے مکّہ واپس لے چلو اورکہہ رہی تھیں کہ ہائے عثمان مظلوم مارا گیا ۔عبیداللہ بن ابی سلمہ نے کہا کہ بی بی آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں ؟ آپ کل تک تو کہتی تھیں کہ “نعثل ” کو قتل کردو یہ کافر ہوگیا ہے “۔اس کے بعد اس نے یہ شعر پڑھے ۔
فمنک البداء ومنک الغبر ۔۔۔ ومنک الریاح ومنک المطروانت امرت بقتل الامام ۔۔۔ وقلت لنا انّہ قد کفرفھبنا اطعناک فی قتلہ ۔۔۔وقاتلہ عندنا من قد امر”ابتدا آپ کی طرفسے ہے ۔گردو غبار بھی آپ کی طرف سے ہے ۔تیزآندھی اور بارش بھی آپ کی طرف سے ہے ۔آپ نے ہمیں خلیفہ کے قتل کا حکم دیا تھا اور کہا کرتی تھیں کہ وہ کافر ہوگیا ۔ ہم نے آپ کا کہا مان کر اسے قتل کیا ہے ۔ اور ہماری نظر میں اس کا اصل قاتل وہ ہے جس نے اس کے قتل کا حکم دیا ہے ۔”اس کے بعد ام المومنین مکّہ آگئیں اور لوگوں کو اپنے ارد گرد جمع کرنا شروع کیا اور کہتی تھیں کہ ناحق قتل ہوگیا ۔عثمان روئے زمین پر بسنے والے تمام افراد سے بہتر تھا۔ عبداللہ بن عامر بصرہ سے بہت سا مال لایا اور ام المومنین کی نذر کیا ۔اسی طرح سے یعلی بن امیہ بھی یمن سے بہت بڑی دولت لے کر آیا اور ساری دولت بی بی کے قدموں میں ڈھیر کردی ۔اوربی بی کو بصرہ کی طرف جانے کا مشورہ دیا ۔اس وقت مکّہ میں اور بھی ازواج رسول موجود تھیں ۔بی بی عائشہ نے انہیں بھی اپنے ساتھ چلنے کا مشورہ دیا ۔حضرت ام سلمہ نے اس کی شدید مخالفت کی اور عائشہ سے کہا:- خدا کا خوف کرو ،اللہ نے ہمیں اپنے گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے ۔جنگ کی کمان سنبھالنے کا حکم دیا ۔ حضرت حفصہ بنت عمر بی بی عائشہ کے ساتھ تیار ہونے لگیں تو ان کے بھائی عبداللہ بن عمر نے انہیں سمجھایا اور انہیں اس مہم جوئی سے باز رکھا ۔ ام المومنین طلحہ وزبیر کو ساتھ لے کر روانہ ہوئیں تو مروان بن حکم نے کہا کہ ان دونوں میں سے امامت کو ن کرائے گا ؟عبداللہ بن زبیر نے کہا : میرا باپ امامت کرائے گا اور محمد بن طلحہ نے کہا کہ میرا باپ امامت کرائے گا ۔جب اس جھگڑے کی اطلاع بی بی عائشہ کو ملی تو انہوں نے مروان کو پیغام بھیجا کہ تو ہمارے درمیان جھگڑا پیدا کرنا چاہتاہے ؟نماز میرا بھانجہ عبداللہ بن زبیر پڑھائے گا ۔اس گروہ سے تعلق رکھنے والا ایک فرد معاذ بن عبداللہ کہا کرتاتھا کہ : خدا کا شکر ہے کہ ہم ناکام ہوگئے ،اگر ہم بالفرض کامیاب ہوجاتے تو زبیر طلحہ کو کبھی حکومت نہ کرنے دیتا اور طلحہ بھی زبیر کو ایک دن کی حکومت کی اجازت نہ دیتا ۔اس طرح ہم آپس میں لڑکر ختم ہوجاتے ۔جب باغیوں کا یہ گروہ بصرہ جارہا تھا تو راستے میں سعید بن العاص نے مروان بن الحکم سے ملاقات کی اورکہا کہ :جن لوگوں سے ہم نے بدلہ لینا تھا وہ تو تمہارے ساتھ ہیں ۔ قتل عثمان کے بدلہ کی صحیح صورت یہ ہے کہ ان محرکین کو قتل کردو اور بعد ازاں اپن ےگھر وں کی راہ لو ۔بصرہ پہنچ کر طلحہ وزبیر ن ےحضرت عثمان کی مظلومیت کی درد بھری داستان لوگوں کو سنائی اور ان کے خون کا بدلہ لینے کے عزم کا اظہار کیا اور ام المومنین نے بھی کھلے عام تقریر کی ۔اس پر جاریہ بن قدامہ سعدی نے کھڑے ہو کر کہا : ام المومنین ! عثمان جیسے ہزاروں افراد بھی قتل ہوجاتے تو بھی وہ اتنا صدمہ نہ ہوتا جتنا کہ تمہارے باہر آنے کا ہمیں صدمہ پہنچا ہے ۔زوجہ رسول ہونے کے ناطے اللہ نے آپ کو حرمت وعزت عطا کی تھی لیکن تم نے اس حرمت کے پردے کو خود ہی پھاڑ ڈالا اور پردے کو چھوڑ کر جنگوں میں آگئیں ۔بنی سعد کا ایک اور نوجوان کھڑا ہوا اور طلحہ وزبیر کو مخاطب کرکے کہا :-کیا میدان میں تم دونوں اپنی بیویاں بھی ساتھ لائے ہو؟اگر نہیں لائے تو تمہیں حیا آنی چاہئیے کہ اپنی بیویوں کو تم نے پردے کے پیچھے بٹھایا اور رسول خدا (ص) کی بیوی کو میدان کو میدان میں لے آئے ہو؟بعد ازاں اس نے اسی مفہوم کی ادائیگی کے لئے کچھ اشعار بھی پڑھے ۔پھر یہ لوگ بصرہ آئے اور وہاں انہوں نے عذر سے کام لیتے ہوئے عثمان بن حنیف کو گرفتار کیا اور اس کے بال نوچ ڈالے اور اس چالیس کوڑے مارے ۔ بصرہ سے ام المومنین نے زید بن صوحان کو درج ذیل خط لکھا :- رسول خدا (ص) کی پیاری بیوی عائشہ کی جانب سے اپنے خالص فرزند زید بن صوحان کے نام !اما بعد : جب میرا یہ خط تجھے ملے تو ہماری مدد کے لئے چلا آ اور اگر تو نہ آسکے تو لوگوں کو علی (ع) سے متنفّر کر۔زید بن صوحان نے اس خط کا جواب درج ذیل الفاظ میں دیا : اگر آپ واپس چلی جائیں اور اپنے گھر میں بیٹھ جائیں تو میں آپ کا خالص فرزند ہوں ، ورنہ میں آپ کا سب سے پہلا مخالف ہوں ۔پھر زید نے حاضرین سے کہا کہ :- اللہ ام المومنین کے حال پر رحم فرمائے ۔اسے حکم ملا تھا کہ وہ گھر میں بیٹھے اور ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ ہم جنگ کریں ۔انہوں نے اپنے حکم کو پس پشت ڈال دیا اور وہ اس حکم پر عمل کرنے لگی ہیں جو کہ ہمیں دیاگیا تھا ۔ایک دفعہ طلحہ وزبیر اجلاس عام سے خطاب کررہے تھے کہ بنی بعد قیس کے ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا :-اے گروہ مہاجرین ! ہماری بات سنیں ۔جب رسول (ص) کی وفات ہوئی تو تم نے ایک شخص کی بیعت کرلی تھی ۔ہم نے اسے تسلیم کر لیا تھا ۔ اور جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے ہم سے مشہورہ کئے بغیر ایک شخص کو نامزد کیا تھا ۔ ہم نے اسے بھی تسلیم کیا تھا ۔ اور جب اس کی وفات کا وقت آیا تو اس نے خلافت کے لئے چھ افراد پر مشتمل شوری تشکیل دی تھی۔ اور اس شوری کے لئے ہم سے کسی نے مشورہ طلب نہیں کیا تھا ۔ اور پھر ایک شخص شوری کے ذریعہ سے منتخب ہوا تو ہم نے اسے بھی تسلیم کیا تھا ۔پھر تمہیں اس میں عیب نظرآئے ۔تم نے ہمارے مشورہ کے بغیر اسے قتل کردیا اور تم نے علی (ع) کی بیعت کی تم بھی ہم سے تم نے مشورہ نہںی لیا تھا اب آپ ہمیں بتائیں کہ علی (ع) سے کون سی خطا سرزد ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ہم اس کے خلاف جنگ کریں ؟کیا اس نے اللہ کا مال کسی کو ناحق دیا ہے ؟کیا اس نے حق کے دامن کو چھوڑ کر باطل کو اپنا لیا ہے ؟یا اس سے کوئی غلط کام سرزد ہوا ہے ؟آخر ہمیں بتائیں کہ علی (ع) نے وہ کون سا ایسا جرم کیا ہے جس کی وجہ سے اس سے جنگ ناگزیر ہوگئی ہے ؟نوجوان کی اس جسارت کی وجہ سے چند لوگ اس کو قتل کرنے کے لئے اٹھے تو اس کے قبیلہ کے افراد نے اسے بچا لیا ۔وہ دن تو جیسے تیسے گزر گیا ۔ دوسرے دن باغیوں نے اس کے گھر پہ حملہ کرکے اسے قتل کردیا اور اس کے علاوہ اس کی قوم کے ستر دیگر افراد کو بھی قتل کردیا ۔اس فتنہ کو فروکرنے کے لئے علی (ع) بصرہ آئے جہاں شدید جنگ ہوئی ۔ حضرت علی (ع) کامیاب ہوئے ۔طلحہ اور زبیر مارے گئے ۔ام المومنین نے عبداللہ بن حلف کے مکال میں پناہ لی ۔حضرت امیر المومنین نے اپنے لشکر میں اعلان کردیا کہ کسی زخمی کو قتل نہ کیا جائے ،کسی عورت پہ ہاتھ نہ اٹھایا جائے ، کسی کے گھر میں داخل ہو کر مال نہ لوٹا جائے ۔پھر امیر المومنین نے زوجہ رسول (ص) کو چالیس عورتوں کےہمراہ واپس مدینہ بھیج دیا اور اس کی مزید حفاظت کے لئے اس کے بھائی محمد بن ابو بکر کو ہمراہ روانہ کیا ۔ حضرت عائشہ نے بصرہ سے روانہ ہوتے وقت کہا ۔ہمیں ایک دوسرے پر ناراض نہیں ہونا چاہیئے ۔میرے اور علی (ع)کے درمیان تنازعات کی وہی نوعیت ہے جو کہ دیور اور بھابھی کے تنازعات کی ہوا کرتی ہے ۔
محرّکین جمل کے جرائمگروہ ناکثین کی کارستانیاں آپ نے ملاحظہ فرمائیں ۔ اس پورے ہنگامے میں ان لوگوں نے جرائم کا ارتکاب کیا ۔1:- طلحہ وزبیر نے پچاس افراد کو رشوت دے کر جھوٹی گواہی دلائی کہ اس چشمہ کا نام “حواب” نہیں ہے ۔اور یہ تاریخ اسلام کی پہلی اجتماعی جھوٹی گواہی تھی اور اسلام میں جھوٹی گواہی کتنا بڑا جرم ہے ؟اس کے لئے صحیح بخاری کی اس حدیث کا مطالعہ فرمائیں ۔”قال رسول اللہ اکبر الکبائر عنداللہ الاشراک باللہ وعقوق الوالدین وشھادۃ الزور ثلاثا اقولھا او اقول شھادۃ الزور فما زال یکرّرھا قلنا لیتہ سکت “رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک بد ترین گناہ اس کے ساتھ شرک کرنا ،والدین کی نافرمانی اور جھوٹی گواہی ہے ۔آپ نے ان الفاظ کا بار بار تکرار کیا ۔ یہاں تک کہ ہم کہنے لگے : کاش کہ آپ خاموش ہوجائیں ۔2:- ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ام المومنین “حواب ” کا سن کر واپس کبھی اپنے گھر نہ جاتیں کیونکہ جھوٹے گواہ انہیں بتارہے تھے کہ وہ تھوڑی دیرپہلے “حواب” سے گزر چکی ہیں ۔ام المومنین کے دل میں فرمان رسول کا رتی برابر بھی احساس ہوتا تو بھی انہیں واپس چلے جانا چاہئے تھا ۔3:- طلحہ وزبیر نے حضرت علی کی بیعت کرکے عہد شکنی کی تھی اور بعد ازاں عثمان بن حنیف کے ساتھ معاہدہ کرکے عہد شکنی کا ارتکاب کیا تھا ۔4:- انہوں نے مسجد اور نماز کی حرمت پامال کی اور بیت المال کے محافظین کو ناحق قتل کیا ۔ جب کہ قرآن مجید میں قتل مومن کی بہت بڑی سزا بیان ہوئی ہے ۔5:- محرکین جمل نے حضرت عثمان بن حنیف کے تمام بال نوچ ڈالے تھے اور ان کا “مثلہ” کیا تھا ۔ اب آئیے رسول اسلام (ص) کی تعلیمات کو بھی دیکھ لیں ۔حضرت عمر نے رسول خدا (ص)کی خدمت میں عرض کی تھی کہ :سہیل بن عمرو کفار مکہ کا خطیب ہے ۔ وہ کفار کو ہمیشہ اپنے خطبات کے ذریعہ برانگیختہ کیا کرتا ہے ۔اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کے نچلے دودانت توڑ دیتا ہوں ۔اس کے بعد اس کی خطابت کے جوش میں وہ روانی نہیں رہے گی اور وہ یوں کسی کو اسلام کی مخالفت پر امادہ کرنے کے قابل نہ رہے گا ۔رسول خدا (ص) نے حضرت عمر کو سختی س منع فرمایا اور ارشاد فرمایا :”میں کسی کی صورت نہیں بگاڑوں گا ورنہ اللہ میری صورت بگاڑدے گا اگر چہ کہ میں نبی ہوں :”(11)آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ رسول خدا (ص) نے تو بد ترین مشرک کا حلیہ بگاڑنے کی اجازت نہیں دی ۔لیکن طلحہ وزبیر نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ایک شریف اور امین مسلمان کا حلیہ تبدیل کردیا تھا کیا اسلام میں اس فعل شنیع کی اجازت ہے ؟6:- حضرت عثمان کے قتل ،اور بصرہ کے لوٹنے کا باہمی ربط کیا ہے ؟7:- جو کچھ بلوائیوں نے حضرت عثمان کے ساتھ سلوک کیا وہ نامناسب تھا جو سلوک طلحہ وزبیر نے عثمان بن حنیف کے ساتھ کیا ۔کیا وہ اسلامی طرز عمل کے مطابق تھا ؟8:- اسلام میں ایفائے عہد کی تاکید کی گئی ہے اور عہد شکنی کو منافقت کی علامت قرار دیا گیا ہے ۔جیسا کہ امام مسلم نے رسول خدا(ص) کی حدیث نقل کی ہے ۔”قال رسول اللہ ص اربع من کنّ فیہ کا منافقا خالصا ومن کا نت فیہ خصلۃ منھن کانت فیہ خصلۃ من نفاق حتی یدعھا اذا حدّث کذب واذا عاھد غدر واذا اخلف خاصم فجر۔””رسول خدا(ص) نے فرمایا : جس میں چار علامتیں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ایک علامت ہو تو اس میں بھی منافقت کی علامت ہے ۔یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے :-1:- جب بو لے تو جھوٹ بولے ۔2:- جب معاہدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔3: جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے ۔4:- جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے ۔”(12)اور گروہ ناکثین میں جتنی علامات پائی جاتی تھیں اس کا فیصلہ ہم اپنے انصاف پسند قارئین پر چھوڑتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے قارئین سے یہ درخواست بھی کرتے ہیں کہ وہ ناکثین کے طرز عمل کے ساتھ ساتھ امیرالمومنین کے طرز عمل کو بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ہمیں اپنے باضمیر اور انصاف پسند قارئین سے امید ہے کہ وہ خود ہی اس نیجہا پر پہنچیں گے کہ علی (ع) اوران کے حریفوں کے درمیان زمین وآسمان ،حق وباطل اور نور وظلمت جتنا فاصلہ پایا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1):- ڈاکٹر طہ حسین ۔الفنتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص 8(2):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد دوم ص 5-6 طبع مصر(3):- الفتنۃ الکبری ۔ علی وبنوہ ص 8(4):- عبدالفتاح عبدالمقصود ۔الامام علی بن ابی طالب ۔ جلد سوم ۔ص 427(5):-طبری ۔تاریخ الامم و الملوک ۔جلد سوم ۔ص 76-77(6):- صحیح بخاری جلد سوم ۔ص 154-156(7):-بلاذری ۔فتوح البلاذری ۔ص 26۔(8):-ابن ابی الحدید /شرح نہج البلاغہ ۔جلد سوم ۔ص 4-9 طبع مصر(9):- :-ابن ابی الحدید /شرح نہج البلاغہ ۔جلد دوم ۔ص405(10):- تاریخ طبری وشرح ابن ابی الحدید ۔جلد دوم ۔ ص 497۔501(11):- تاریخ طبری ۔جلد دوم ۔ص 289(12):- صحیح مسلم ۔جلد اول ۔ص 42
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.