معاشرتي تقسيم اور طبقہ بندى

313

اس سلسلے ميں دو نظريے مشہور ہيں، ايك نظريے كي بنياد تاريخي ماديت اور جدلياتي تضاد پر ہے، اس نظريے كے مطابق، جس كے بارے ميں آگے چل كر گفتگو ہوگى، ہمارا موضوع بحث مالكيت كے قانون كے تابع ہے، يعني وہ معاشرے جن ميں ذاتي مالكيت كا كوئي وجود نہيں مثلاً اوائل تاريخ كا سوشلسٹ معاشرہ يا آئندہ رونما ہونے والا سوشلسٹ معاشرہ بنيادي طور پر ايك طبقے كے حامل ہيں اور وہ معاشرے جن ميں ذاتي مالكيت كي بالادستي ہے حتمي طور پر دو طبقوں كے حامل ہيں پس اس صورت ميں معاشرہ يا تو ايك طبقے كا حامل ہے يا دو كا، اور اس كي كوئي تيسري صورت نہيں ہے ۔ دو طبقے ركھنے والے معاشروں ميں انسان دو گروہوں ميں بٹ جاتا ہے، ايك استحصال كرنے والا اور دوسرا استحصال ہونے والا اور سوائے ان دو حاكم و محكوم گروہوں يا لشكروں كے تيسرا كوئي گروہ موجود نہيں ۔ آرٹ، فلسفے، اخلاق، مذہب جيسے ديگر معاشرتي امور ميں بھي اسي طبقاتي نظام كا رنگ نظر آنے لگتا ہے، مثلاً دو طرح كا فلسفہ، دو طرح كا اخلاقى نظام اور دو طرح كے مذہب وغيرہ معاشرے پر حاكم ہوجاتے ہيں اور ہر ايك كسي مخصوص اقتصادي طبقے كا رنگ اپنے اوپر چڑھا ليتا ہے، اگر بالفرض ايك فلسفہ ايك مذہب يا ايك اخلاق معاشرے پر حاكم ہوتو بھي يہ انہي دو طبقات كے رنگوں ميں كسي ايك كا رنگ ہوگا جسے دوسرے طبقے پر ٹھونسا گيا ہوگا ۔
دوسرا نظريہ يہ ہے كہ كسي معاشرے كي ايك طبقے يا كئي طبقوں سے وابستگي كا انحصار مالكيت كے قانوني اصول پر نہيں ہے، بلكہ ثقافتى، اجتماعى، نسلي اور نظرياتي علل و اسباب بھي كسي معاشرے كو كئي طبقوں ميں بانٹ سكتے ہيں ۔ نخاص طور پر ثقافتي اور نظرياتي اسباب اس ميں بنيادي كردار ادا كر سكتے ہيں اور معاشرے كو صرف دو نہيں بلكہ كئي متضاد طبقوں ميں تقسيم كر سكتے ہيں، اسي طرح معاشرے كو اصل مالكيت كے لازماً رد كئے بغير ايك طبقاتي معاشرے ميں تبديل كيا جا سكتا ہے ۔
اب ہم ديكھتے ہيں كہ قرآن معاشرے كي كثرت كے بارے ميں كس نقطہ نظر كا حامل ہے ۔ كيا وہ كثرت و اختلاف كو تسليم كرتا ہے يا نہيں؟ اور اگر تسليم كرتا ہے تو كيا اس كے نزديك معاشرہ دو طبقوں كا حامل ہے اور وہ بھي مالكيت اور استحصال كي بنياد پر كوئي اور صورت اس كے پىش نظر ہے؟ ميرے خيال ميں معاشرے اور اجتماع سے متعلق قرآني الفاظ كا استخراج اور ان كے مفاہيم كے بارے ميں قرآن كے نقطہ نظر كا تعين ہي قرآن كي رائے معلوم كرنے كا بہترين نہيں تو كم از كم ايك اچھا راستہ ضرور ہے ۔
معاشرتي حوالے سے قرآني الفاظ كي دو قسميں ہيں بعض كا تعلق معاشرتي آثار سے ہے، جيسے ملت، شريعت، شرعہ، منہاج، سنت اور ان جيسے دوسرے الفاظ جن پر گفتگو ہمارے موضوع سے خارج ہے ليكن الفاظ جو سب كے لئے يا انساني گروہوں كے لئے اجتماعى عنوان كے حامل ہيں، صحيح طور پر قرآن كے نقطہ نگاہ كو مشخص كر سكتے ہيں، جيسے قوم، امت، ناس، شعوب، قبائل، رسول، نبى، امام، ولى، مومن، كافر، منافق، مشرك، مذبذب، مہاجر، مجاہد، صديق، شہيد، متقى، صالح، مصلح، مفسد، امر بالمعروف، نہي عن المنكر، عالم، ناصح، ظالم، خليفہ، ربانى، ربى، كاہن، رہبان، احبار، جبار، عالى، مستعلى، مستكبر، مستضعف، مسرف، مترف، طاغوت، ملا، ملوك، غنى، فقير، مملوك، مالك، جبر، عبد، رب وغيرہ ۔
البتہ بظاہر ان سے مشابہت ركھنے والے دوسرے الفاظ بھي ہيں ۔ جيسے مصلى، مخلص، صادق، منفق، مستغفر، تائب، عابد، حامد اور ان جيسے ديگر الفاظ ليكن يہ الفاظ جماعتوں اور گروہوں سے ہٹ كر صرف ايك طرح كے “افعال” كو ذكر كرنے كے لئے آئے ہيں ۔ اسي لئے ان كے بارے ميں يہ احتمال نہيں ہو سكتا كہ ان ميں گروہوں، جماعتوں اور معاشرتي طبقات كي گفتگو ہے ۔
اب يہ ضروري ہے كہ ان آيتوں كا جن ميں پہلے گروہ كے الفاظ كا تذكرہ ہے اور خاص طور پر وہ آيتيں جو اجتماعى رخ كو معين كرتي ہيں، بنظر غائر مطالعہ كيا جائے تاكہ يہ بات كھل جائے كہ ان سب كو دو گروہوں ميں سمويا جا سكتا ہے يا ان كے لئے متعدد گروہوں كي ضرورت ہے؟ اگر بالفرض انہيں دو گروہوں ميں سمويا جاسكتا ہو، تو كن دو گروہوں كو ان كے لئے مختص كيا جائے؟
يعني كيا ان سب كو اعتقادى موقف اختيار كرنے والے دو گروہوں، جو مومن اور كافر سے عبارت ہيں، ميں تقسيم كيا جائے يا اس تقسيم كي بنياد اقتصادي حالت كو بيان كرنے والے دو گروہوں يعني غنى اور فقير كے حوالے سے ہو؟ بعبارت ديگر تمام تقسيمات فرعي ہيں يا ايسا نہيں؟ اگر ايك تقسيم پر منتہي ہوتي ہيں تو وہ اصلي تقسيم كيا ہے؟ بعض لوگوں كا خيال ہے كہ معاشرے سے متعلق قرآن كا نقطہ نگاہ دو طبقوں كا حامل ہے ۔ ان كے بقول قرآن كي رو سے معاشرے كے دو طبقے ہيں، ايك مسلط اور دوسرا محكوم ۔ مسلط طبقے ميں مستكبرين اور ان كے مخالف اور محكوم حلقے ميں وہ لوگ ہيں جنہيں قرآن ميں “مستضعفين” كا نام ديا گيا ہے ۔ مومن كافر يا موحد اور مشرك يا صالح و فاسد، جيسي تمام تقسيمات فرعي پہلو كي حامل ہيں يعني يہ ظالم طاقتيں اور بے جا ظلم ہے جو كفر و شرك و نفاق وغيرہ كو وجود ميں لاتا ہے اور اس كے مقابلے ميں مظلوميت انسان كو ايمان، ہجرت، جہاد، صلاح، اصلاح وغيرہ كي طرف كھينچتي ہے، بعبارت ديگر وہ باتيں جنہيں قرآن عملى، اخلاقى يا اعتقادى انحراف سے ياد كرتا ہے، بنيادي طور پر اقتصادي روابط كي خاص كيفيات ہيں يعني استحصال كا عمل ہيں اور وہ باتيں جن كي قرآن اعتقادى، اخلاقى يا عملي اعتبار سے تائيد و تاكيد كرتا ہے بنيادي طور پر مظلوميت اور محكوميت ہيں ۔ انسان كا ضمير فطرتاً اور جبراً اپني مادي زندگي كي صورت حال كا تابع ہے، مادي حالات ميں تبديلي كے بغير لوگوں كے روحانى، نفسياتي اور اخلاقى حالات ميں تبديلي ناممكن ہے، يہي وجہ ہے كہ قرآن طبقاتي جدوجہد كي شكل ميں معاشرتي تحريكوں كو صحيح اور بنيادي قرار ديتا ہے، يعني وہ اقتصادي يا اخلاقى جدوجہد كي نسبت اجتماعى جدوجہد كو افضليت اور اصالت ديتا ہے ۔ قرآن كے اعتبار سے كافر، منافق، مشرك، فاسق، فاجر اور ظالم ان گروہوں سے ابھرتے ہيں جنہيں قرآن “مترف”، “مسرف”، “ملا”، “ملوك”، “مستكبر” اور ان جيسے ناموں سے ياد كرتا ہے ممكن نہيں كہ ايسے گروہ متقابل طبقے سے ابھريں اور يہ بالكل اسي طرح ہے جس طرح پىغمبر، رسول، امام، صديق، شہيد، مجاہد، مہاجر اور مومن مستضعف گروہ سے ابھرتے ہيں اور مقابل طبقہ سے ان كا ابھرانا ناممكن ہے، پس يہ استكبار و استضعاف ہے جو معاشرتي مزاج كو بتاتا ہے، اسے ايك سمت عطا كرتا ہے بقيہ تمام اور انہي كے مظاہر و تجليات ہيں ۔
قرآن نہ صرف يہ كہ ان گروہوں كو مستكبر و مستضعف كے دو اصلي طبقوں كے مظاہر سمجھتا ہے بلكہ اس نے ايك طرف صداقت، عفاف، اخلاص، عبادت، بصيرت، رافت، رحمت، فتوت، خشوع، انفاق، ايثار، خشيت اور فروتني جيسي صفات و ملكات كي طرف اشارہ كيا ہے اور اس كے مقابلے ميں كذب، خيانت، فجور، ريا، نفس پرستى، كور دلى، قساوت، بخل اور تكبر جيسي برائيوں كا ذكر كيا اور پہلے گروہ كي خصوصيات كمزور بنائي جانے والي جماعت كي صفات اور دوسرے گروہ كي خصوصيات كو كمزور بنانے والوں كي صفات سے تعبير كيا ہے ۔
پس كمزور بنانا اور كمزور بننے پر مشتمل دائرہ عمل نہ صرف مخالف اور متضاد گروہوں كا مركز طلوع ہے بلكہ متضاد اخلاقى صفات و ملكات بھي اس سے پھوٹتي ہيں اور يہ ہر انتخاب پر رجحان اور ہر سمت كے تعين، يہاں تك كہ تمام ثقافتي اور مدني آثار كي بنياد ہے، كمزور بنانے والے طبقے سے ابھرنے والا اخلاق، فلسفہ، آرٹ، علم و ادب اور مذہب اس كي اجتماعى موقف كو بيان كرتا ہے جو تمام كا تمام موجودہ حالات كو صحيح ثابت كرنے ميں مصروف ہوتا ہے اور معاشرے كے جمود و ركود اور توقف كي اصل وجہ ہے، ليكن اس كے برخلاف مستضعفين يا زمين پر كمزور بنائے جانے والے طبقے كا اخلاق، فلسفہ ، علم و ادب، آرٹ اور مذہب، بيدار ركھنے والا حركت آفرين اور انقلابى ہوتا ہے ۔
مستكبر يا جابر حكمران طبقہ اپني آقائيت اور اپني معاشرتي امتيازي خصوصيات كے باعث تاريك انديش، روايت پسند اور عافيت طلب ہوتا ہے جب كہ مستضعف و محكوم طبقہ اس كے برخلاف بيدار، روايت شكن، انقلابى، مصمم، پرجوش و پرعزم ہوتا ہے ۔
مختصر يہ كہ ان افراد كے عقيدے كے مطابق قرآن اس كي تائيد كرتا ہے كہ وہ چيز جو انسان كو بناتي اور اس كے گروہ كو مشخص كرتي ہے، اسے رخ حيات ديتي اور اس كے فكرى، اخلاقى، مذہبى اور نظرياتي مقام كو معين كرتي ہے وہ اس كي معاشي حالت ہے اور مجموعي طور پر قرآني آيات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ قرآن نے اپني تعليم كو اسي بنياد پر قائم كيا ہے ۔
اس اعتبار سے ايك خاص طبقے سے وابستگي ہر شے كا معيار ہے اور اسي معيار كے ذريعے تمام دعوؤں كو جانچا جا سكتا ہے، مومن، مصلح، رہبر يہاں تك كہ نبى يا امام كي تائيد و تكذيب بھي اسي كسوٹي كے ذريعے ہوني چاہيے ۔
يہ نظريہ حقيقتاً انسان اور معاشرے كے بارے ميں ايك مادي نقطہ نظر ہے، اس ميں كوئي شك نہيں كہ قرآن نے افراد كي اجتماعى حيثيت كا بطور خاص تذكرہ كيا ہے، ليكن كيا اس كا يہ مفہوم ہے كہ قرآن تمام نفسيات اور تمام طبقہ بنديوں كي اسي معيار پر توجيہ كرتا ہے؟ ہماري نظر ميں انسان دنيا اور معاشرے سے متعلق اسلامي نقطہ نظر اس نوعيت كے معاشرتي نقطہ نظر سے ہم آہنگ نہيں ہے اور يہ قرآني مسائل كے ايك سطحي مطالعے سے پىدا ہوا ہے، چونكہ ہم كتاب كے اس باب ميں جہاں تاريخ پر اس عنوان سے بحث ہوئي ہے كہ “كيا طبيعت تاريخ مادي ہے؟ “، اس موضوع پر مكمل گفتگو كريں گے لہٰذا في الوقت اس موضوع كو يہيں رہنے ديتے ہيں ۔
معاشروں كي يگانگت يا ان كا تنوع بہ اعتبار ماہيت
اس مسئلہ كا بيان بھي جيسا كہ پہلے اشارہ ہوچكا ہے ہر مكتب فكر كے لئے ضروري ہے كيونكہ اسي گفتگو سے يہ بات واضح ہوتي ہے كہ كيا تمام انساني معاشرے ايك نظريہ حيات كے تابع ہو سكتے ہيں يا معاشروں كا تنوع مختلف نظريہ ہائے حيات كي پىداوار ہے اور ہر قوم، ہرملت، ہر تمدن اور ہر ثقافت كو خاص نظريہ حيات (Ideology) كي ضرورت ہے كيونكہ نظريہ حيات ان منصوبوں اور ان راستوں سے عبارت ہے جو معاشرے كو كمال و سعادت كي طرف لے جاتے ہيں، ہم يہ بھي جانتے ہيں كہ ہر نوع، اپني ايك خاص استعداد اور عليحدہ آثار و خواص كي حامل ہوتي ہے اور اس كا كمال و سعادت ہوتي ہے۔گھوڑے كے لئے كمال اور سعادت بعينہ گوسفند يا انسان كے لئے كمال اور سعادت نہيں ہے ۔ پس اگر تمام معاشروں كے لئے اصالت و غيبت كو فرض كر ليا جائے اور وہ سب ايك ذات، ايك طبيعت اور ايك ماہيت كے حامل ہوں تو ان كے لئے ايك واحد نظريہ حيات ہي ممكن ہوسكتا ہے اور اس صورت ميں ان كے اختلافات بھي ايسے ہوں گے جيسے ايك نوع كے افراد كے درميان ہوتے ہيں، ہر زندہ نظريہ حيات جزئيات كے اختلاف كے بارے ميں لچك اور انطباق كي قابليت ركھتا ہے، ليكن اگر معاشرے طبيعتوں، ماہيتوں اور ذوات ميں مختلف ہوں گے تو يہ فطري امر ہے كہ ان كے منصوبے، ان كے لائحہ ہائے عمل، ان كے نظريات اور ان كے لئے كمال و سعادت بھي متنوع ہوں گے اور واحد نظريہ حيات ان سب كا احاطہ نہيں كر سكے گا۔
بالكل يہي صورت آپ كو وقت كے دوش پر گذرتے ہوئے معاشروں كے انقلابات ميں ملتي ہے، كيا معاشرے اپنے انقلابات كي راہ ميں اپني نوعيت اور ماہيت بدلتے ہيں؟ اور اس طرح معاشروں كي حد تك تبدل انواع كا قانون جاري ہوتا ہے يا ان كے معاشرتي انقلابات كي كيفيت ايك نوع كے ايك فرد ميں رونما ہونے والي تبديليوں كي مانند ہے كہ جس كي ماہيت اور نوعيت محفوظ رہتي ہے ۔
پس پہلے مسئلے كا تعلق معاشرے سے ہے اور دوسرے كا تاريخ سے، ہم في الحال پہلے مسئلے كے بارے ميں گفتگو كريں گے اور دوسرے مسئلے كو تاريخ كي بحث ميں لايا جائے گا۔
عمرانيات كا مطالعہ يہ بتائے گا كہ معاشروں كے درميان مشترك ذاتي خواص موجود ہيں يا نہيں؟ كيا ان كے درميان فرق كو ہم سطحي كہہ سكتے ہيں اور اس فرق كے سبب يا معلول كو معاشرے كي ذات اور طبيعت سے باہر تصور كر سكتے ہيں اور معاشرے كي ذات اور طبيعت سے تعلق ركھنے والي تمام چيزوں كو يكساں جان سكتے ہيں، يا يہ كہ كہيں كہ بنيادي طور پر معاشرے اپني ذات اور طبيعت ميں مختلف ہيں لہٰذا بالفرض بيروني شرائط كے اعتبار سے ان ميں يكسانيت ہو ، تو بھي ان كا عمل مختلف ہوگا اور يہ خود وہ راستہ ہے كہ اس سلسلے ميں جن كے بارے ميں ابہام ہے، فلسفہ خود ان اشياء كو ان كي نوعي وحدت و كثرت كي پركھ كے لئے پىش كرتا ہے، يہاں ايك نزديك كا راستہ بھي موجود ہے اور وہ خود حضرت انسان ہے۔انسان كے بارے ميں ايك امر مسلم يہ ہے كہ انسان نوع واحد ہے، علم حياتيات كے اعتبار سے انسان جب سے وجود ميں آيا ہے اس ميں كوئي حياتياتي تبديلي رونما نہيں ہوئي ہے، بعض سائنس دانوں كا كہنا ہے كہ عالم طبيعت ميں جانداروں كے كمال كے نتيجے ميں انسان بن گيا اور انسان تك پہنچ كر طبيعت نے راستہ بدل ليا اور ارتقائي عمل زيست سے اجتماع ميں منتقل ہوگيا اور اس كا ارتقائي عمل جسماني سے روحاني اور معنوي گذرگاہ ميں منتقل ہوگيا ۔
گذشتہ اوراق ميں ہم انسان كے مدني الطبع ہونے كي بحث ميں اس نتيجے پر پہنچے تھے كہ انسان جو انواع كا نہيں بلكہ نوع واحد كا حامل ہے، اپني فطرت اور طبيعت كے اعتبار سے اجتماعى ہے يعني انسان كا اجتماعى رجحان اور اس كا گروہ و جماعت كي صورت ميں رہنا اور اس كا اجتماعى روح كا حامل ہونا، اس كي نوع اور اس كي ذات كا خاصہ ہے اور يہ انساني نوع كے فطري خواص ميں سے ہے ۔ انسان اس كمال تك پہنچنے كے لئے جس كي صلاحيت اس ميں ركھ دي گئي ہے، اجتماعى ميلان كا حامل ہے ۔ اس سے اجتماعى روح كے لئے بنياد فراہم ہوتي ہے ۔ اجتماعى روح اپني جگہ خود ايك وسيلہ ہے جو انساني نوع كو اپني انتہائے كمال تك پہنچاتا ہے، لہٰذا انسان كي نوع ہي اس كي اجتماعى روح كے راستے كا تعين كرتي ہے، جو خود اپنے مقام پر انساني فطرت كي خدمت ميں مصروف ہے ۔ انساني فطرت جب تك انسان باقي ہے، اپني مصروفيت جاري ركھے گي پس انفرادي روح يا يوں كہہ ليجئے انسان كي انساني فطرت پر اجتماعى روح كا دارومدار ہے اور چونكہ انسان نوع واحد ہے لہٰذا انساني معاشرے بھي يكساں ذات، يكساں طبيعت اور يكساں ماہيت كے حامل ہيں ۔ البتہ جيسے ايك فرد كبھي فطرت كے راستے سے منحرف ہو جاتا ہے بلكہ كبھي مسخ بھي ہو جاتا ہے، اسي طرح معاشرہ بھي كبھي اپنے فطري راستے كو چھوڑ ديتا ہے ۔ معاشروں كا تنوع، افراد كے اخلاقى تنوع كي طرح ہے جو كسي بھي صورت انسان كے نوع ہونے كے دائرے سے باہر نہيں ہوتا لہٰذا معاشرے، ثقافتيں، تہذيبيں مختصر يہ كہ اجتماعى روح جو معاشروں پر حكم فرما ہے اپنے ڈھانچے اور اپني رنگت ميں اختلاف كے باوجود انساني نوع ہي كي حامل ہے اور غير انساني ماہيت نہيں ركھتي ۔
ہاں! اگر ہم معاشرتي تركيب كے چوتھے نظريے كو قبول كر ليں اور افراد كو قابل جذب مادوں اور ظرفيت ركھنے والي خالي برتنوں كي طرح جانيں اور منكر فطر ہوجائيں تو پھر معاشروں كے نوعي اور ماہيتي اختلاف كو پىش كر سكتے ہيں، ليكن يہ نظريہ ڈوركم كے انداز فكر كي شكل ميں كسي طرح بھي قابل قبول نہيں ۔ اس لئے كہ وہ پہلا سوال جو اس ميں لاجواب رہ جاتا ہے يہ ہے كہ اگر اجتماعى روح كا ابتدائي سرمايہ فرديت اور انسان كے طبيعي يا حياتياتي پہلو سے نہ نكلے تو پھر وہ كہاں سے وجود ميں آئے؟ كيا اجتماعى روح كا وجود خالصتاً عدم سے پھوٹا ہے؟ كيا اجتماعى روح كي توجيہ كے لئے يہ كہنا كافي ہوگا كہ جب سے انسان كا وجود رہا ہے، معاشرہ اس كے ساتھ ہے؟ علاوہ ازيں خود “ڈوركم” كہتا ہے كہ اجتماعى امور يعني وہ امور جن كا تعلق معاشرے سے ہے انہيں اجتماعى روح نے خلق كيا ہے ۔ مذہب، اخلاق اور آرٹ جيسي چيزيں ہر معاشرے ميں رہي ہيں اور ہميشہ رہيں گي اور خود ڈوركم كي تعبير كے مطابق يہ سب چيزيں “ہميشگي” اور “ہمہ جائيت” ركھتي ہيں اور يہ خود اس بات كي دليل ہے كہ ڈوركم بھي اجتماعى روح كے لئے ماہيتي اور نوعي اكائي كا قائل ہے ۔
اسلامي تعليمات كو جو دين كے لئے ايك واحد نوعيت كي قائل ہيں اور شريعتوں كے اختلاف كو فرعي جانتي ہيں، نہ كہ ماہيتي اور دوسري طرف ہميں يہ بھي معلوم ہے كہ دين انفرادي اور اجتماعى ارتقاء سے متعلق لائحہ عمل كے سوا كچھ بھي نہيں، تو ظاہر ہوتا ہے كہ ان تعليمات كي بنياد معاشروں كي نوعي وحدت پر ہے اور اگر معاشرے نوعيت كے اعتبار سے متعدد ہوتے تو كمال اور اس تك پہنچنے كي راہيں متعدد ہوتيں اور پھر ماہيت اديان كا مختلف اور متعدد ہونا لازمي تھا ۔ قرآن كريم اصرار اور صراحت كے ساتھ كہتا ہے كہ دين تمام علاقوں، معاشروں، وقتوں اور زمانوں ميں ايك سے زيادہ نہيں رہا ہے، بااعتبار قرآن اديان (بصورت جمع) كوئي حقيقت نہيں ركھتے ۔ دين ہميشہ بصورت مفرد موجود رہا ہے، تمام انبياء الٰہي كا ايك ہي دين ، ايك ہي راستے اور ايك ہي مقصد كي طرف انسانوں كو بلاتے رہے ہيں ۔
شرع لكم من الدين ما وصي بہ نوحا والذي اوحينا اليك وما وصينا بہ ابراھيم وموسيٰ و عيسيٰ ان اقيموا الدين ولا تتفرقوا فيہ. (سورہ شوريٰ، آيت۔ 13)
“تمہارے لئے اس نے دين كي وہي باتيں مقرر كيں جن كي بابت اس نے نوح كو پىش تر وصيت كي تھي اور (اے رسول!) جس كي بابت ہم نے تمہاري طرف وحي كي ہے اور جس كي بابت ہم نے ابراہيم اور موسيٰ و عيسيٰ كو وصيت كي تھي ۔ وہ يہي تھي كہ دين كو قائم ركھو اور اس ميں اختلاف نہ ڈالو ۔”
ايسي آيتيں قرآن ميں كثرت سے مليں گے، جو يہ ثابت كرتي ہيں كہ دين ہر زمانے، ہر علاقے اور ہر پىغمبر كي زبان پر ايك ہي رہا ہے، البتہ شريعتوں كے اختلافات رائے نقص و كمال كے اختلافات ميں سے ہيں ۔ دين كے ماہيتاً ايك ہونے كي منطق انسان اور انساني معاشرے كي اس فكر پر ہے كہ انسان انواع نہيں بلكہ نوع واحد ہے اور بالك اسي طرح انساني معاشرہ ايك واقعيت عيني ہونے كے اعتبار سے انواع نہيں بلكہ نوع واحد ہے۔
معاشروں كا مستقبل
آج كے معاشروں، تمدنوں، ثقافتوں كو اگر ہم بالفرض نوع اور ماہيت كے اعتبار سے مختلف نہ بھي جانيں تو بھي كيفيت اور شكل و صورت كے اعتبار سے ان كا مختلف ہونا ناقابل انكار ہے ۔ انساني معاشرے آگے چل كر كيا صورت اختيار كريں گے؟ كيا يہ ثقافتيں، يہ تمدنيں، يہ معاشرے اور يہ قوميں بالكل اسي طرح اپني حالت پر باقي رہيں گي يا ايك تمدن، ايك ثقافت اور ايك معاشرے كي سمت انسانيت كا سفر جاري و ساري رہے گا اور يہ سب آگے چل كر مستقبل ميں اپنا روپ بدل ليں گے اور ايك رنگ ميں ڈھل جائيں گے، جو اصلي اور انسانيت كا رنگ ہوگا ۔ اس مسئلے كا تعلق بھي معاشرے كي ماہيت، اجتماعى اور انفرادي روح كے ايك دوسرے سے وابستہ ہونے كي نوعيت پر ہے، ظاہر ہے فطرت كي اصالت اور اس نظريے كي بنياد پر ہے كہ انسان كا اجتماعى وجود اس كي اجتماعى زندگي يعني معاشروں كي اجتماعى روح ايك ايسا وسيلہ ہے جسے انسان كي نوعي فطرت نے كمال مطلق تك پہنچنے كے لئے انتخاب كيا ہے ۔
يہ كہنا بجا ہوگا كہ معاشرے، ثقافتيں اور تہذيبيں ايك اكائي ہونے، متحد الشكل ہونے اور آخر كار ايك دوسرے ميں مدغم ہونے كي سمت گامزن ہيں اور انساني معاشروں كا مستقبل ايك كمال يافتہ عالمي اكائي پر مبني معاشرہ ہوگا جس ميں انسانيت سے متعلق تمام امكاني اقدار عملي صورت اختيار كرليں گے ۔ يہ وہ منزل ہوگي جہاں، انسان اپنے حقيقي كمال و سعادت اور اس انسانيت كو پہنچے گا، جو اصيل ہوگي ۔
قرآن كي رو سے يہ بات مسلم ہے كہ قطعي حكومت حق كي حكومت اور باطل كي مكمل نابودي سے عبارت ہے اور انجام كار متقىن كے لئے ہے۔
تفسير الميزان ميں ہے:
“كائنات كے بارے ميں گہري جستجو اس بات كو ظاہر كرتي ہے كہ انسان بھي كائنات كے ايك جزو كي حيثيت سے آئندہ اپني غايت و كمال كو پہنچے گا ۔” 4
قرآن كا يہ ارشاد كہ عالم ميں نفاذ اسلام ايك حتمي امر ہے، دراصل اسي بات كي دوسري تعبير ہے كہ انسان كو بالآخر كمال مطلق تك پہنچنا ہے۔ قرآن كہتا ہے:
من يرتد منكم عن دينہ فسوف ياتي اللہ بقوم يحبھم و يحبونہ. (سورہ مائدہ، آيت54)
“بالفرض اگر تم اس دين سے پھر جاؤ تو اللہ بشريت كو اس دين كے ابلاغ اور اسے مستحكم كرنے كے لئے تمہارے بجائے دوسري قوم كو لے آئے گا ۔”
يہاں در حقيقت مقصود يہ ہے كہ ضرورت خلقت اور انسان كے انجام كار كو بتلا يا جائے، اس ضمن ميں يہ آيت بھي ملاحظہ ہو:
وعد اللہ الذين آمنوا منكم و عملوا الصالحات ليستخلفنھم في الارض كما استخلف الذين من قبلھم و ليمكنن لھم دينھم الذي ارتضي لھم و ليبدلنھم من بعد خوفھم امنا يعبدونني لا يشركون بي شيئا . (سورہ نور، آيت 55)
“اللہ نے وعدہ كيا ہے كہ تم ميں سے وہ لوگ جو ايمان لائے اور عمل صالح كرتے رہے انہيں وہ ضرور زمين ميں جانشين بنائے گا اور ضرور ان كے دين كو جسے اس نے ان كے لئے پسند كيا ہے، نافذ كرے گا اور يقينا انہيں خوف ميں ايك عرصہ گذارنے كے بعد امن عطا كرے گا (دشمنوں كو مٹا دے گا) تاكہ پھر وہ ميري ہي عبادت كريں اور كسي چيز كو (ميري اطاعت ميں) ميرا شريك قرار نہ ديں ۔” (توحيد كے مباحث ميں اس پرگفتگو ہو چكي ہے)
اس كے بعد ايك دوسري آيت ميں ارشاد ہوتا ہے:
ان الارض يرثھا عبادي الصالحون
“يہي امر حتمي ہے كہ ميرے صالح اور شائستہ بندے ہي زمين كے وارث ہوں گے ۔”
“الميزان” ہي ميں ہے كہ اسلامي ملك كي سرحديں، جغرافيائي حدود يا معاہداتي رقبے نہيں بلكہ عقائد ہيں ۔ اس سلسلے ميں صاحب الميزان لكھتے ہيں:
“اسلام نے قومي تفريقات كي بنياد كو اس اعتبار سے كہ تشكيل معاشرہ ميں موثر كردار كي حامل ہوں، رد كيا ہے ۔ ان تفريقات كي دو اصلي وجوہات ہيں:
ايك نسلي رابطہ كي اساس پر قائم شدہ قبيلوں كي ابتدائي زندگي اور دوسري جغرافيائي خطوں كا اختلاف ۔ انہي دو چيزوں نے نوع انساني كو قوموں، قبيلوں اور اختلاف زبان و رنگ ميں بانٹ ديا ہے، يہي وہ دو اسباب ہيں، جو آگے چل كر اس بات كا سبب بنے كہ ہر قوم ايك خطے كو اپنے لئے مخصوص كر لے اور اسے وطن سے منسوب كر كے اس كے دفاع پر آمادہ ہو جائے ۔
يہ وہ پہلو ہے جس طرف طبيعت (Nature) انسان كو كھينچتي ہے، ليكن اس ميں ايك ايسي چيز موجود ہے جو انساني فطرت كے تقاضے كے خلاف ہے اور اس بات كا سبب بنتي ہے كہ انسان ايك “كل” اور ايك “يونٹ” كي صورت ميں زندگي بسر كرے ۔ قانون طبيعت بكھرے ہوؤں كو سميٹنے اور متفرق كو يكجا كرنے كي اساس پر قائم ہے اور اسي كے ذريعے طبيعت اپني غايتوں كو حاصل كرتي ہے ۔
يہ وہ امر ہے كہ جو مزاج طبيعت سے ہمارے سامنے آيا ہے اور ہم ديكھتے ہيں كہ كس طرح اصلي مادہ، عناصر اور پھر نباتات، پھر حيوان اور پھر انسان تك پہنچتا ہے ملكي اور قبائلي تفريقات ايك ملك يا قبيلے كو ايك مركز اتحاد پر لاتي اور اس كے ساتھ ساتھ وہ انہيں كسي دوسري وحدت كے بھي مقابل قرار ديتي ہيں، اس طرح كہ ايك قوم كے افراد آپس ميں ايك دوسرے كو تو اپنا بھائي سمجھتے ہيں مگر دوسرے انسان ان كي نظر ميں مد مقابل قرار پاتے ہيں اور وہ انہيں اس نگاہ سے ديكھتے ہيں، جس نگاہ سے اشياء كو ديكھا جاتا ہے ، يعني ان كي نگاہ منفعت جوئي اور سود و زياں پر ہوتي ہے اور يہي وجہ ہے كہ اسلام نے قومي اور قبائلي تفريقات كو جس سے انسانيت ٹكڑے ٹكڑے ہوجاتي ہے، رد كيا ہے اور انساني معاشرے كو نسل، قوم يا وطن كي بنياد نہيں بلكہ (كشف حق اور اس سے لگاؤ كے) عقيدے پر قرار ديا ہے (جو سب كے لئے يكساں ہے) يہاں تك كہ زوجيت اور ميراث كے بارے ميں بھي عقيدہ كے اشتراك كو معيار قرار ديا ہے ۔” 5
اسي طرح “دين حق بالآخر كامياب ہے” كے زير عنوان صاحب تفسير الميزان لكھتے ہيں:
“نوع انسان اس فطرت كے تحت جو اس ميں وديعت كي گئي ہے اپنے متعلق كمال و سعادت كي خواہاں ہے، يعني وہ اجتماعى صورت ميں اعليٰ ترين مادي اور معنوي مراتب زندگي كي خواہشمند ہے ۔ ايك دن يہ اسے مل جائيں گے ۔ اسلام جو دين توحيد ہے، اسي طرح كي سعادت كا ايك لائحہ عمل ہے اس طولاني مسافت ميں جن انحرافات سے انسان كو واسطہ پڑتا ہے، انہيں انساني فطرت كے بطلان اور اس كي صورت سے منسوب نہيں كرنا چاہيے۔ ہميشہ انسان پر اصلي حاكميت فطرت ہي كي ہوتي ہے اور بس انحرافات اور اشتباہات تطبيق ميں خطا كي حيثيت ركھتے ہيں ۔
وہ كمال و غايت جسے انسان اپني بے قرار فطرت كے حكم كے مطابق حاصل كرنا چاہتا ہے، ايك دن (جلد يا بدير) ضرور اسے حاصل ہو جائے گي ۔ سورہ روم كي تيسري آيت جو اس جملہ سے شروع ہوتي ہے:
فاقم و جھك للدين حنيفاً فطرۃ اللہ التي فطر الناس عليھا اور لعلم يرجعون پر ختم ہوتي ہے ۔
اس مفہوم كو ظاہر كرتي ہے كہ حكم فطرت آخر الامر اتباع چاہتا ہے اور انسان بھٹكتا ہوا اور تجربات سے گذرنے كے بعد اپني راہ پالے گا اور اسے نہيں چھوڑے گا۔ان لوگوں كي باتوں پر كان نہيں دھرنا چاہيے جو اسلام كو اس طرح ديكھتے ہيں جيسے يہ انساني ثقافت كا ايك مرحلہ ہے۔
جس نے اپني ذمہ داري پوري كر دي ہے اور اب تاريخ كا ايك حصہ بن گيا ہے ۔ اسلام اس مفہوم ميں كہ جس ميں ہم اسے جانتے ہيں اور اس پر بحث كرتے ہيں، عبارت ہے قطعي كمال پر مبني انسان سے جو بضرورت ناموس خلقت ايك دن يقينا اس تك پہنچے گا ۔” 6
بعض لوگوں كا دعويٰ اس كے برعكس ہے اور كہتے ہيں كہ اسلام كسي صورت بھي انساني ثقافت اور انساني معاشرے كي يگانگت كے حق ميں نہيں ہے بلكہ وہ ان كے تنوع اور تعداد كا حامي ہے اور اسي تنوع اور تعداد كو باضابطہ طور پر مانتا اور ثابت كرتا ہے، وہ كہتے ہيں:
ايك قوم كي حيثيت، ہويت اور خودي اس كي اپني ثقافت سے عبارت ہے اور يہ ثقافت اس قوم كي اجتماعى روح كي ہے۔ اس اجتماعى روح كو اس قوم كي اپنے سے متعلق وہ خاص تاريخ بناتي ہے، جس ميں دوسري قوموں كا كوئي دخل نہيں ہوتا، عالم طبيعت انسان كي نوعيت كو بناتا ہے اور تاريخ اس كي ثقافت كو بلكہ در حقيقت يہ اس كي حيثيت، رويے اور حقيقي خودي كي معمار ہے۔ ہر قوم اپنے سے متعلق ايك خاص ثقافت، ايك خاص ماہيت اور خاص طرح كے رنگ و مزاج و اصول كي حامل ہے، جو اس كي حيثيت كي تكميل كرتي ہے اور اس ثقافت كي حفاظت كرتي ہے يعني اس ملت كي ہويت كي حفاظت كرتي ہے ۔
جس طرح كسي فرد كي ہويت اور حيثيت خود اسي سے متعلق ہوتي ہے اور اس كو چھوڑ كر دوسري ہويت اور دوسري شخصيت كو اپنانا گويا اپنے آپ كو اپنے سے سلب كرنا ہے يعني مسخ ہونا اور اپنے آپ سے بيگانہ ہونا ہے، كسي قوم كے لئے ہر وہ كلچر بيگانہ و اجنبي ہے جو تاريخ ميں كبھي اس كي مزاج سازي ميں دخيل نہ ہوا ہو، يہ بات كہ ہر قوم ايك خاص قسم كا احساس فكر، ذوق، پسند، ادب، موسيقى، حساسيت اور آداب و رسول ركھتي ہے اور كچھ ايسي چيزوں كو پسند كرتي ہے جو دوسري قوموں كے مزاج سے مختلف ہوتي ہيں، اس لئے ہے كہ يہ قوم اپني تاريخ ميں كاميابيوں، ناكاميوں، ثروتوں، محروميوں، آب وہوا كي كيفيتوں، مہاجرتوں، رابطوں اور نامور نابغہ لوگوں سے متعلق مختلف وجوہات كي بناء پر ايك خاص كلچر كي حامل ہوگئي ہے۔ اس خاص كلچر يا اس خاص ثقافت نے اس كي قومي و اجتماعى روح كو ايك خاص صورت ميں اور خاص زاويوں كے ساتھ بنايا ہے۔ فلسفہ، علم، ادبيات، ہنر، مذہب اور اخلاق وہ عناصر ہيں جو كسي انساني گروہ كے مشترك تاريخي سلسلے ميں ايك خاص صورت اور ايك خاص تركيب اختيار كرتے ہيں اور اس كي ماہيت وجودي كو دوسرے انساني گروہوں كے مقابل الگ تشخص ديتے ہيں اور اس تركيب سے ايك ايسي روح جنم ليتي ہے جو ايك گروہ كے افراد كو “اعضائے يك پىكر” كے مانند ايك حياتي اور اعضائي ارتباط ديتي ہے يہي وہ روح ہے جو اس پىكر كو نہ صرف ايك الگ مشخص وجود بخشتي ہے، بلكہ ايك ايسي زندگي عطا كرتي ہے جو تاريخ ميں ديگر روحاني اور ثقافتي پىكروں كے مقابل اس كي وجہ شناخت بن جاتي ہے، كيوں كہ يہ روح اس كي اجتماعى روش، اس كے طرز فكر، جماعتي عادات، ردعمل، طبيعت، حيات، واقعات، احساسات، ميلانات، خواہشات اور عقائد كے مقابل انساني تاثرات ميں حتيٰ كہ اس كي تمام سائنسى، فني اور ہنري ايجادات ميں بلكہ يوں كہيے كہ انساني زندگي كے تمام مادي اور معنوي جلوؤں ميں بڑي محسوس و ممتاز ہے ۔
كہا جاتا ہے كہ مذہب ايك طرح كي آئيڈيالوجى (نظريہ حيات) ہے، عقيدہ اور ايسے خاص عواطف و اعمال كا مجموعہ ہے جو اس عقيدے كے نتيجے ميں وجود ميں آتے ہيں ليكن قوميت تشخص ہے اور ان ممتاز خصائص كي حامل ہے جو ايك ہي تقدير سے وابستہ انسانوں كي مشترك روح كو جنم ديتي ہے۔ اس اعتبار سے قوميت اور مذہب كے درميان وہي رابطہ ہے جو تشخيص اور عقيدہ كے درميان ہے ۔
كہتے ہيں نسلي امتيازات اور قومي تفاوت سے متعلق اسلام كي مخالفت كو مختلف قوميتوں كي مخالفت پر منطبق نہيں كرنا چاہيے، اسلام ميں برابري اور يكسانيت كے اصول قوموں كي نفي كے مفہوم ميں نہيں ہيں بلكہ اس كے برعكس اسلام ايك مسلم اور ناقابل انكار طبيعي حقيقت كے عنوان سے قوميتوں كے وجود كا معترف ہے۔
يا ايھا الناس انا خلقنكم من ذكر وانثي وجعلنا كم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اكرمكم عنداللہ اتقيكم
كہتے ہيں كہ اس آيت كے ذريعے اسلام كے نقطہ نظر سے قوميتوں كي نفي اور انكار پر استدلال كيا جاتا ہے جبكہ يہ بالكل برعكس قوميتوں كے اثبات اور ان كي تائيد پر دليل ہے كيوںكہ آيت سب سے پہلے (ذكور و اناث پر مبني) انسانيت كو بااعتبار جنسيت تقسيم كرتي ہے اور يہ ايك طبيعي تقسيم ہے، پھر فوراً شعوب و قبائل كے اعتبار سے انساني گروہ بندي كا تذكرہ ہوتا ہے اور يہ اس امر كو ظاہر كرتا ہے كہ شعوب و قبائل ميں لوگوں كي گروہ بندي مرد و زن كي تقسيم بندي كي طرح ايك طبيعي اور الٰہي امر ہے۔
يہ آيت اس بات كو واضح كرتي ہے كہ اسلام جس طرح مرد و زن كے درميان خصوصي رابطے كا طرف دار ہے اور جنسيت اور اس كے آثار كو ختم كرنا نہيں چاہتا، اسي طرح قوموں كے درميان مساوات كي بنياد پر رابطے كا حامي ہے اور انہيں مٹانے كے حق ميں نہيں ہے۔ يہ جو قرآن نے قوموں كي تشكيل كو جنسوں كي پىدائش كي طرح خدا سے نسبت دي ہے، اس كا معني يہ ہے كہ مشخص قوموں كا وجود خلقت ميں ايك طبعي حقيقت ہے۔ يہ جو قرآن نے قوموں كے وجودي اختلاف كي غرض و غايت كو “تعارف” (قوموں كي آپس ميں شناخت) كہا ہے۔ اس بات كي طرف اشارہ ہے كہ ايك قوم دوسري قوم كے مقابل اپني شناخت تك رسائي حاصل كرتي اور اپنے آپ كو پاتي ہے، ايك قوميت دوسري قوميت كے مقابل اپنے تشخص كو اجاگر كر كے قوت پىدا كرتي ہے۔
لہٰذاجو مشہور ہے، اس كے برخلاف اسلام ثقافت كے مفہوم ميں نيشنلزم كا مخالف نہيں بلكہ حامي ہے، وہ جس نسلي مفہوم ميں نيشنلزم كا مخالف ہے، وہ نسل پرستي ہے۔
يہ نظريہ كسي اعتبار سے مخدوش ہے، اولاً يہ كہ اس كا دارومدار انسان كے بارے ميں كسي خاص نظريے اور انسان كے ثقافتي اصول و مواد يعني فلسفيٰ، علم، فن اور اخلاق وغيرہ كے بارے ميں بھي كسي خاص نظريے پر ہے، جو دونوں مخدوش ہيں۔ انسان كے بارے ميں يہ فرض كيا گيا ہے كہ وہ فكر كے اعتبار سے، مشاہدہ كائنات كے اعتبار سے، عاطفي اعتبار سے اور اس اعتبار سے كہ كس چيز كو چاہے اور كون سا راستہ اختيار كرے اور كس منزل كي سمت چلے اپني ذات ميں ہر صلاحيت سے خالي ہے چاہے بالقوت ہي سہي۔ تمام افكار، تمام عواطف، تمام راستے اور تمام اہداف اس كے لئے يكساں ہيں۔ وہ ايك بے شكل و بے رنگ خالي ظرف كي طرح ہے جو ہر شے كو مظروف سے ليتا ہے، اس كي خودى، اس كي شخصيت، اس كا راستہ، اس كي منزل سب مظروف كي مرہون منت ہے ۔
اس كا مظروف اسے جس طرح كا تشخص دے گا، جس طرح كا راستہ اور جس منزل كو اس كے لئے معين كرے گا، وہ اسي كا پاپند ہوگا، يہي اس كي حقيقي شكل، حقيقي رنگ، حقيقي تشخص اور حقيقي راہ و منزل ہوگى، كيوں كہ ايسي مظروف سے اس كي “خود” كو قوام اور سہارا ملا ہے۔ اب اس كے بعد اس كي شخصيت، اس كے رنگ اور اس كي شكل كو اس چھيننے كے لئے جو كچھ بھي اسے ديا جائے گا، اس كے لئے وقتي اور بيگانہ ہوگا، كيوں كہ وہ اس پہلے تشخص كے خلاف ہوگا جسے تاريخ نے اپنے اتفاقي عمل سے بنايا ہے بعبارت ديگر، يہ نظريہ فرد اور معاشرے كي اصالت سے متعلق چوتھے نظريے سے ہم آہنگ ہے جو خالص اجتماعى اصالت پر مبني ہے اور جس پر ہم پہلے اعتراض كر چكے ہيں ۔
انسان كے بارے ميں با اعتبار فلسفي ہو يا بااعتبار اسلامى، اس طرح كا فيصلہ نہيں كيا جا سكتا۔ انسان اپني خاص نوعيت كے اعتبار سے بالقوہ ہي سہي ايك معين تشخص، معين راہ اور مقصد كا حامل ہے اور يہ چيز اسے الٰہي فطرت سے ملتي ہے، يہي فطرت اس كي حقيقي “خود” كو معين كرتي ہے۔ انسان كے مسخ ہونے يا نہ ہونے كو تاريخي معيار پر نہيں بلكہ انسان كے فطري اور نوعي معيار پر سمجھا جا سكتا ہے۔ ہر وہ تعليم اور ہر وہ كلچر جو انسان كي انساني فطرت سے ہم آہنگ ہو اور اسے پروان چڑھانے والا ہو، حقيقي و اصيل كلچر ہے۔ہر چند كے تاريخي حالات كے باعث اسے اوليت حاصل نہ ہو اور ہر وہ كلچر جو انسان كي انساني فطرت سے مطابقت نہ ركھتا ہو، اس كے لئے اجنبي اور غير ہے، ايك طرح سے اس كي حقيقي ہويت كو بدلنے والا، مسخ كرنے والا ہے اور اسے “خود” سے “ناخود” بنانے والا ہے۔ اگرچہ اس كي پىدائش قومي تاريخ كا كرشمہ كيوں نہ ہو مثلاً عقيدہ ثنويت اور آگ كي تقديس ايراني انسانيت كا مسخ ہے اگرچہ وہ اس كي تاريخ ہي سے كيوں نہ ابھري ہو، ليكن توحيد يكتا پرستي اور غير خدا كي پرستش سے دوري حقيقي انسانيت ہويت كي سمت اس كي بازگشت ہے۔ اگرچہ وہ باہر سے آئي ہو اور اس كي سرزمين نے اسے نہ ديا ہو ۔
انساني كلچر كے مواد سے متعلق خيال بھي غلط فرض كيا گيا ہے كہ يہ ان بے رنگ مادوں كي طرح ہے جن كي كوئي خاص شكل اور خاص تشخص نہيں ہوتا۔ ان كي شكل اور ان كي كيفيت كو تاريخ بناتي ہے، يعني فلسفہ بہرحال فلسفہ ہے اور اسي طرح سائنس، سائنس ہے۔ مذہب، مذہب ہے۔ اخلاق، اخلاق ہے اور آرٹ، آرٹ ہے خواہ وہ كسي شكل اور كسي رنگ ميں كيوں نہ ہو۔ ليكن يہ بات كہ اس كا رنگ اور كيفيت كيا ہوگى، يہ ايك نسبي امر ہے اور اس كي وابستگي تاريخ سے ہے، ہر قوم كي تاريخ ، اس كا كلچر، اس كا فلسفہ، اس كا مذہب، اس كي سائنس، اس كا اخلاق اور اس كا فن متقاضي ہے كہ وہ خود اس سے مخصوص ہو ۔
بعبارت ديگر جس طرح انسان اپني ذات ميں بے شكل و بے ہويت ہے اور اس كا كلچر اسے شكل و ہويت ديتا ہے، انساني كلچر كے حقيقي مواد و اصول بھي خود اپني ذات ميں بے شكل و صورت ہيں، تاريخ انہيں رنگ عطا كرتي ہے اور ان پر اپنا خاص رنگ جماتي ہے۔ بعض لوگ اس نظريے ميں يہاں تك آگے بڑھ گئے ہيں كہ اب ان كا يہ دعويٰ ہے كہ
“علم رياضي كي طرف فكر بھي ہر كلچر كے خاص ڈھب كے زير اثر قائم ہے ۔” 7
يہ نظريہ انساني كلچر كے نسبي ہونے كا نظريہ ہي ہے، ہم نے “اصول فلسفہ” ميں اصول فكر كے اطلاق اور نسبيت كے بارے ميں گفتگو كي ہے اور يہ ثابت كيا ہے كہ نسبي چيزيں اعتباري اور عملي علوم و ادراكات ہيں اور يہي وہ ادراكات ہيں جو مختلف ثقافتوں ميں مختلف زماني اور مكاني شرائط كے مطابق مختلف ہو اكرتے ہيں۔ نيز يہي وہ ادراكات ہيں جو اپني سطح سے ہٹ كر كسي دوسري حقيقت كے بارے ميں فيصلہ كرنے اور ان كے لئے حق وباطل اور غلط و صحيح كا معيار بننے سے معذور ہيں، ليكن وہ نظري افكار و ادراكات و علوم جو انسان كے نظري علوم اور فلسفے كو بنانے والے ہيں، مثلاً اصول مطالعہ، كائنات با اعتبار مذہب اور اخلاق كے بنيادي اصول پكے مطلق اور غير نسبي ہيں۔ مجھے افسوس ہے كہ ميں يہاں اس سے زيادہ اس گفتگو كو آگے نہيں بڑھا سكتا ۔
ثانياً يہ جو كہا جاتا ہے كہ مذہب عقيدہ ہے اور قوميت تشخص ہے اور ان دونوں كا رابطہ عقيدے اور تشخص كا رابطہ ہے اور يہ كہ اسلام قومي تشخصات كو اسي طرح استحكام بخشتا ہے اور انہيں اصولي طور پر مانتا ہے جيسي كہ وہ ہيں، مذہبى ابلاغ و ہدايت كي سب سے بڑي نفي ہے۔ مذہب وہ بھي اسلام جيسے مذہب كي ذمہ داري يہ ہے كہ وہ محور توحيد پر قائم كلي نظام سے متعلق ايك صحيح اور بنيادي انداز فكر ہميں دے اور اسي انداز فكر كي بنياد پر نوع بشر كي روحاني اور اخلاقى شخصيت كو سنوارنے اور افراد اور معاشرے كي انہيں خطوط پر پرورش كا لازمہ ہے كہ ايك نئي ثقافت كا بيج بويا جائے جو قومي نہيں انساني ثقافت ہے۔ يہ جو اسلام نے دنيا كو كلچر ديا اور آج ہم اسے اسلامي كلچر كے نام سے ياد كرتے ہيں اس لئے نہيں تھا كہ ہر مذہب كم و بيش اپنے لوگوں كے درميان موجود كلچر ميں گھل مل جاتا، اس سے متاثر ہوتا اور كم و بيش اسے اپنے زير اثر لے آتا ہے، بلكہ اس لئے تھا كہ كلچر بنانا اس مذہب كے متن ابلاغ ميں ركھ ديا گيا ہے۔ اسلامي كي ذمہ داري يہ ہے كہ وہ لوگوں كو اس كلچر سے باہر نكالے جس ميں انہيں نہيں ہونا چاہيے اور وہ چيزيں انہيں دے جن كي ان كے پاس كمي ہے اور وہ چيزيں جن كا ہونا ان كے لئے ضروري ہے اور ان كے پاس بھي ہيں، انہيں استحكام بخشے جسے قوموں كي مختلف ثقافتوں سے كوئي سروكار نہ ہو اور وہ سب سے ہم آہنگ ايسا مذہب ہے كہ جو پورے ہفتے ميں صرف ايك بار چرچ والوں ہي كے كام آسكتا ہے اور بس ۔
ثالثاً: “انا خلقنا كم من ذكر و انثي” كا يہ مفہوم نہيں كہ ہم نے تمہيں دو طرح كي جنس خلق كيا ہے، يہ كہا جائے كہ اس آيت ميں سب سے پہلے انسان كو جنسيت كي بنياد پر تقسيم كيا ہے، پھر فوراً قومي تقسيم كي بات آئي ہے اور ساتھي ہي يہ نتيجہ نكالا جائے كہ آيت يہ سمجھانا چاہتي ہے كہ جس طرح اختلاف جنسيت ايك طبيعي امر ہے اور كسي مكتب فكر كو اس كي اساس پر استوار ہونا چاہيے نہ كہ اس كي نفي كي اساس پر، قوميت ميں اختلاف كي صورت بھي يہي ہے۔
آيت كا مفہوم يہ ہے كہ ہم نے تمہيں مرد اور عورت سے خلق كيا ہے، خواہ اس كا مطلب يہ ہو كہ تمام انسانوں كا نسلي رابط ايك مرد اور ايك عورت (آدم و حوا) پر منتہي ہوتا ہے اور خواہ يہ ہو كہ تمام انسان اس اعتبار سے يكساں ہيں كہ سب كا باپ ہوتا ہے اور سب كي ماں ہوتي ہے اور اس اعتبار سے كہيں كوئي امتياز نہيں ہے ۔
رابعاً: “لتعارفوا” جو آيہ كريمہ ميں بعنوان غايت استعمال ہوا ہے، اس مفہوم ميں نہيں ہے كہ قوموں كو اس اعتبار سے مختلف قرار ديا گيا ہے كہ وہ ايك دوسرے كي شناخت پىدا كر ليں اور اس سے يہ نتيجہ نكالا جائے كہ قوموں كو لازمي طور پر جداگانہ حيثيتوں سے باقي رہنا چاہيے تاكہ وہ اپنے مدمقابل كي شناخت سے بہرہ ور ہو سكيں، اگر يہي بات تھى، تو “لتعارفوا” (ايك دوسرے كي شناخت كرو) كے بجائے “ليتعارفوا” (ايك دوسرے كي شناخت كريں) استعمال ہوتا كيوں كہ مخاطب عوام ہيں اور انہي عام افراد سے خطاب ہے كہ يہ جو گروہ يا تفريقات اس وجہ سے وجود ميں آئي ہيں متن خلقت ميں كسي حكمت سے اس كا سروكار ہے اور وہ حكمت يہ ہے كہ تم لوگ قوموں اور قبيلوں كي نسبت كے ساتھ ايك دوسرے كو پہچانو اور ہم جانتے ہيں كہ يہ حكمت اس بات پر موقوف نہيں كہ تمام قوميتيں لازمي طور پر جداگانہ حيثيت سے ايك دوسرے سے عليحدہ رہيں ۔
خامساً: جو كچھ ہم نے گذشتہ اوراق ميں معاشرہ كي يگانگي اور تنوع سے متعلق اسلامي نقطہ نگاہ كو پىش كيا اور بتايا كہ معاشروں كا طبيعي اور تكويني سفر يگانہ معاشرے اور يگانہ ثقافت كي طرف ہے اور اسلام كا بنيادي لائحہ عمل اسي ثقافت اور اسي معاشرے كا استحكام ہے۔ مذكورہ بالا نظريے كي ترديد كے لئے كافي ہے ۔
اسلام ميں فلسفہ “مہدويت” اسلام، انسان اور عالم كے مستقبل كے بارے ميں اسي طرح كے نظريے كي اساس پر قائم ہے اور اسي منزل پر ہم معاشرے سے متعلق اپني اس بحث كا خاتمہ كر كے تاريخ كو زير بحث لاتے ہيں ۔
4.تفسير الميزان، جلد4، ص106.
5.تفسير الميزان، جلد4، ص132 ۔133.
6.تفسير الميزان، جلد4، ص14.
7.فلسفہ تاريخ ميں معروف صاحب نظر اور ماہر عمرانيات اسپنگلر كا قول جسے “مراحل اساسي در جامعہ شناسي” ميں “ريمون آرون” نے نقل كيا ہے، ملاحظہ ہو، ص107.

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.