خدا کی وحدانیت پر برہان و دلیل۔
لیکن ایک موجود کے لئے چند خدائوں کا ہونا محال ہے، اس لئے کہ دو یا چند خالقوں (علت جہان آفرین) کا کسی موجود کو خلق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان خدائوں میں سے ہر ایک ،کسی ایک وجود کا افاضہ کرے، جس کے نتیجہ میں متعدد وجود خلق ہو جائیں گے ، حالانکہ ہر موجود کے لئے صرف ایک ہی وجود ہے، وگرنہ ایک موجود نہیں رہ سکتا۔
لیکن دوسرا فرض یہ کہ ان خدائوں میں سے ہر ایک، کسی ایک مخلوق یا مخلوقات کے کسی خاص مجموعہ کا خالق کہلائے تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ ہر مخلوق اپنے خالق کی مدد سے قائم ہو اور کسی دوسری مخلوق کی محتاج نہ ہو مگر یہ احتیاج ایسی ہو جو ا سکے خالق تک پہنچتی ہو اور تنہا وہی خدا اس مخلوق کی رسیدگی کرتا ہو ، یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق اس جہان کے لئے چند خدائوں کا فرض متعدد نظام کے موجود ہونے کا لازمہ ہے جو ایک دوسرے سے جدا ہیں ، حالانکہ اس جہان میں صرف ایک ہی نظام ہے اور تمام موجودات ایک دوسرے سے مربوط ہیں، ایک دوسرے سے متاثر ہیں ، ایک دوسرے کے محتاج ہیں، گذشتہ و آئندہ کے تمام موجودات میں ارتباط برقرار ہے، ہر موجود اپنے بعد آنے والے موجود کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے پس وہ جہان جس میں صرف ایک ہی نظام برقرار ہے اور اس کے اجزا ایک دوسرے سے مربوط ہیں، اسے چند علتوں کا معلول (چند خدائوں کا خلق کردہ) نہیں قرار دیا جاسکتا۔
اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ تمام مخلوقات کا خالق ایک خدا ہے اور بقیہ خدا جہان کی تدبیر اور اس کی ہدایت کے عہدہ دار ہیں، تو یہ فرض بھی صحیح نہیں ہوسکتا ،اس لئے کہ ہر معلول اپنی پوری ہستی کے ساتھ علت وجود آفرین کے ذریعہ قائم ہے اور کوئی بھی مستقل موجود اس میں تصرف کی قدرت نہیں رکھتا بلکہ یہ تمام معلولات علت وجود آفرین کی طاقت و قدرت کے زیر سایہ ہیں اور تمام تاثیر اور اثر پذیری اس کے اذن تکوینی کے ذریعہ انجام پاتے ہیں، اس بنا پر ان خدائوں میں سے کوئی بھی حقیقی رب نہیں ہو سکتا، اس لئے کہ رب کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مربوب کی ذات میں بطور مستقل تصرف کرے جبکہ فرض یہ ہے کہ ایسے تصرفات مستقل نہیں ہیں، بلکہ یہ سارے تصرفات ا سکی ربوبیت کے زیر سایہ اور اسی کی قدرت سے انجام پاتے ہیں اس طرح کے اختیارات و تصروفات ، توحید (ربوبی) سے منا فات نہیں رکھتے ، جیسے کہ اگر خالقیت بھی اذنِ خدا سے ہو تو توحید خالقیت کے منافی نہیں ہے قرآن اور روایات میں بعض بندوں کے لئے ایسی خالقیت اور غیر استقلالی ربوبیت ثابت ہے، جیسا کہ قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے۔
(وَاِذ تَخلُقُ مِنَ الطِّینِ کَھَیئَةِ الطَّیرِ بِاِذنِ فَتَنفُخُ فِیہَا فتَکُونُ طَیرًا باِذنِ)(١)
اور جب تم میرے حکم سے مٹی سے پرندہ کی شکل بناتے اور پھر اس پر کچھ دم کر تے ہو اور وہ میرے حکم سے سچ مچ پرندے بن جاتے ۔
اسی طرح ایک ا اور مقام پر فرمایا ۔
(فَالمُدَ بِّرَاتِ أَمراً)(٢)
اور ان کی قسم جو زمین و آسمان کے درمیان تیرتے پھرتے ہیں۔
نتیجہ۔ جہان کے لئے چند خدائوں کا توہّم ، خدا کو مادی اور اعدادی علتوں سے قیاس کرنے کے ذریعہ وجود میں آیا ہے حالانکہ علت وجود آفرین کو ایسی علتوں سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی، اور کسی بھی معلول کے لئے چند علت وجود آفرین یا رب یا مستقل مدبّر فرض نہیں کیا جاسکتا۔
لہٰذا اس توہّم کو دفع کرنے کے لئے پہلے علت وجود آفرین کے معنی اور پھر اس کی خصوصیات اور نوعیت میں خوب غور کرنا ہوگا، تا کہ معلوم ہوجائے کہ معلول واحد کے لئے چند علتوں کا تصور باطل ہے، اور پھر اس جہان کے انتظامات میں غور و فکر کرنا ہوگا تا کہ معلوم ہو جائے کہ ایسا منظم جہان چند خدائوں یا چندارباب یا مستقل مدبروں کا خلق کردہ نہیں ہے۔
اس ضمن میں یہ بات بھی واضح ہوگئی، کہ خدا کے بعض شائستہ بندوں کے لئے ولایت تکوینی کو ماننا جبکہ مستقل خالقیت اور ربوبیت کے معنی میں نہ ہو تو، یہ توحید سے منافات نہیں رکھتا، جیسا کہ رسول اکرم ۖ اور ائمہ علیہم السلام کی ولایت تشریعی الٰہی ربوبیت تشریعی سے کوئی منافات نہیں رکھتی، اس لئے کہ یہ خدا کی عطا کردہ اور اسی کے حکم سے ہے۔
…………………………
(١)سورۂ مائدہ۔ آیت/ ١١٠
(٢)سورہ نازعات ۔آیت /