حضرت محمد مصطفی (ص) خاتم الانبیاء کی نبوت

178

اور شاید یھی ھمارے نبی خاتم کا یہ پھلا امتیاز هو کہ خداوندعالم نے ھمارے نبی کو دوسرے تمام انبیاء (ع) پر فضیلت دی “رسول اللہ وخاتم النبیین” صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماور آنحضرت کی رسالت کبریٰ، زمان ومکان کے لحاظ سے عالمی ھے اور کسی قوم سے مخصوص نھیں اور ایسا نھیں ھے کہ زمین کے کسی ایک حصہ میں مخصوص هو اور کوئی دوسرا حصہ اس میں شامل نہ هو اور نہ ھی کسی خاص امت سے مخصوص ھے، نیز کسی خاص زمانہ سے بھی مخصوص نھیں ھے، چنانچہ اس سلسلہ میں خداوندعالم کا ارشاد ھے:
< وَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ اِلاّٰ کَافَّةً لِلْنَّاسِ>[1]
“اے رسول ھم نے تم کوتمام لوگوں کا رسول بناکر بھیجا”
< وَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ اِلاّٰ رَحْمَةً لِلْعَالَمِیْنَ>[2]
“(اے رسول) ھم نے تم کو سارے جھاں کے لوگوں کے لئے از سر تا پا رحمت بنا کر بھیجا”
<قُلْ یَا اُیُّہَا النَّاسُ اِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً>[3]
“(اے رسول ) ان لوگوں سے کہہ دو کہ اے لوگو! میں تم سب کے پاس خداکا بھیجا هوا (پیغمبر)هوں”
<لِاُنْذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ>[4]
“تاکہ میں تمھیں اور جس کے پاس اس کی خبر پهونچے، ڈراوٴں”
<قُلْ یَا اُیُّہَا النَّاسُ اِنِّمَاْ اَنَا لَکُمْ نَذِیْرٌ مُبِیْنٌ>[5]
“(اے رسول) کہہ دو کہ لوگو! میں تو صرف تم کو کھلم کھلا (عذاب سے) ڈرانے والا هوں”
قارئین کرام ! یہ تمام آیات متفقہ طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ھیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمتمام لوگوں کے نبی ھیں، چاھے وہ آپ کی بعثت کے وقت موجود هوں یا آپ کے بعد پیدا هوںگے، چاھے وہ جزیرة العرب میں هوں یا دوسرے ممالک میں۔
اور یہ ایک ایسا امتیاز ھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے پھلے کسی نبی یا رسول کو نھیں دیا گیا کیونکہ آپ سے پھلے انبیاء (ع) کسی خاص گروہ یا خاص طائفہ کے نبی هوتے تھے وہ بھی خاص زمانہ میں جیسا کہ قرآن مجید نے واضح طور پر اشارہ کیا ھے:
< لَقَدْ اٴَرْسَلْنَا نُوْحاً اِلٰی قَوْمِہِ>[6]
“ھم نے جناب نوح کو ان کی قوم کے پاس (رسول ) بناکر بھیجا”
<وَاِلٰی ثَمُوْدَ اٴَخَاہُمْ صَالِحاً>[7]
“اور ھم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (رسول بنا کر بھیجا”
<وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا مُوسَیٰ بِآیَاتِنَا إِلَی فِرْعَوْنَ وَمَلَئِہِ >
“اور ھم ھی نے یقیناً موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس (پیغمبر بناکر ) بھیجا”
<وَ اِذْ قَالَ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِی اِسْرَائِیْلَ اِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ>[9]
” اور (یاد کرو) جب مریم کے بیٹے عیسی نے کھا اے بنی اسرائیل میں تمھارے پاس خدا کا بھیجا هوا (آیا) هوں”
چنانچہ ان آیات سے یہ بھی واضح هوجاتا ھے کہ جناب نوح علیہ السلام کو اپنی قوم کا اور جناب صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کا، جناب موسی علیہ السلام کو فرعون اور اس کے ساتھیوں کا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کا نبی بنا کر بھیجا گیا لیکن ھمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی ذات گرامی وہ واحد ذات ھے جن کو تمام لوگوں کا نبی بنا کر بھیجا گیا۔
اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ گذشتہ انبیاء (ع) کی رسالت وقتی اور خاص زمانہ کے لئے محدود هونے کی کیا دلیل ھے؟ تو اس سلسلہ میں بھی عرض ھے کہ یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ پھلی والی شریعت بعد والی شریعت کے ذریعہ منسوخ هوجاتی ھے، پھلے والے احکام ختم هوجاتے ھیں اور ان کی جگہ جدید احکام نافذ کئے جاتے ھیں کیونکہ انسان دونوں شریعتوں کے احکام پر عمل نھیں کرسکتا جو اکثر احکام میں مختلف اور مخالف هوتی ھیں۔
نیز کسی ایک چیز پر دونوں شریعتیں الگ الگ حکم کرتی ھیں اور اس بات پر عقلی دلیل اور فطرت انسان دلالت کرتی ھے اور اس کا حکم واضح ھے۔
لیکن اس سلسلہ میں یهودی کہتے ھیں کہ ھماری شریعت اور ھمارے نبی کی نبوت باقی ھے کیونکہ یہ لوگ “نسخ” کے نظریہ اور نسخ واقع هونے کی نفی کرتے ھیں[10]ان کا گمان یہ ھے کہ اگر نسخ شریعت کو مان بھی لیا جائے تو خداوندعالم کا جاھل اور غیر حکیم هونا لازم آتا ھے !۔
ان کے اعتراض کی دلیل یہ ھے کہ خداوندعالم کے احکام اس زمانے کی مصلحتوں کے لحاظ سے هوتے ھیں کیونکہ بغیر مصلحت کے احکام عبث وبے هودہ هوتے ھیں او راس حکیم مطلق کی حکمت کے منافی ھیں۔
لہٰذا مصلحت کے مطابق احکام کو ختم کرنا حکمتِ خداوندی کے خلاف ھے کیونکہ اس حکم کے ختم کرنے سے بندوں کی مصلحت کا نابود هونا لازم آتا ھے مگر یہ کہ تشریع کنندہ ( خدا ورسول )کے لئے تشریع کے بعد واضح هوجائے کہ اس حکم میں مصلحت نہ تھی، تو اس کو ختم کردیتا ھے اور اگر ھم اس معنی میں نسخ کو مانیں تو اس کے معنی یہ ھیں کہ خدا جاھل ھے، لہٰذا جب نظریہ نسخ کا نتیجہ نسخ کرنے والے کا جھل اور غیر حکیم هونالازم آتا ھے، تو پھر خدا وندعالم کے بارے میں ان دونوں چیزوں (جھل اور غیرحکیم هونا)کا هونا جائز نھیں ھے تو پھر نسخ کے بارے میں نظریہ رکھنا بھی محال ھے۔!
قارئین کرام ! اس اعتراض کا مختصر جواب یہ ھے کہ شریعت کے احکام ومسائل مصلحتوں کے تحت هوتے ھیں اور یہ بھی طے ھے کہ زمانہ کے بدلنے سے مصلحتیں بھی بدلتی رہتی ھیں کیونکہ کبھی کبھی کوئی خاص کام کسی قوم اور کسی زمانہ کے لئے صاحب مصلحت هوتا ھے تو اس کام کے لئے حکم کیا جاتا ھے لیکن وھی کام دوسری قوم یا دوسرے زمانہ کے لئے صاحب مصلحت نھیں هوتا تو اس کام سے روک دیا جاتا ھے۔
دوسرے یہ کہ عقلِ بشری کے ساتھ ساتھ آسمانی ادیان نے بھی رشد وترقی کی ھے، (جیسا کہ ھم جانتے ھیں) جس طرح ایک بچے کی معلومات میں اضافہ هوتا ھے اور اس کی عمر میں اضافہ هوتا ھے روز بروز اس کے علم وعقل اور قابلیت میں اضافہ هوتا رہتا ھے یھاں تک کہ وہ اپنے نظریات اور افکار پراعتقاد کرلیتا ھے، (مثلاً پھلے بچہ ایک کھیل کو اپنے لئے صحیح اور ضروری سمجھتا ھے لیکن جب وہ باشعور هوجاتا ھے تو اس کھیل کو عبث اور بے هودہ سمجھتاھے۔)
بالکل یھی حال آسمانی ادیان کا بھی ھے جو ھر زمانہ اور ھر قوم کے لئے نازل هوئے ھیں اور ھر قوم کی مصلحتوں کے لحاظ سے احکام جاری کرتا ھے اور اس زمانہ کے فکری او رپختہ نظریات کے ساتھ ساتھ چلتا ھے، یھاں تک کہ شریعت اسلام میں اس بلندی پر پهونچا جس کو خداوندعالم نے اختیار اور پسند کرلیا، اور زمانہ اور عقلی رشد کی بلندی پر پہنچے هوئے تمام انسانوں کے لئے یہ شریعت مشعل راہ بن گئی۔
اس کے معنی یہ نھیں ھیں کہ خداوندعالم مصلحتوں سے جاھل تھا یا اس کے لئے کوئی ایسی چیز کشف هوئی ھے جو پھلے کبھی معلوم نہ تھی۔
ان باتوں کے علاوہ خود توریت میں ایسی بہت سی چیزیں موجود ھیں جو وقوع نسخ پر دلالت کرتی ھیں مثلاً حضرت آدم کی شریعت میں ایک شخص کا دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا جائز تھا لیکن یھی کام شریعت جناب موسیٰ علیہ السلام میں حرام قرار دیدیا گیا، جس طرح جناب نوح (ع) کی شریعت میں ختنہ کرنے میں بڑے هونے تک تاخیر کرنا جائز تھا لیکن حضرت موسی (ع)کی شریعت میں اس تاخیر کو حرام کردیا گیا، اسی طرح دوسرے واقعات بھی موجود ھیں۔
ان تمام باتو ںکے پیش نظر نسخ کو محال قراردینا صحیح نھیں ھے اور نہ ھی ان کے پاس کوئی مستحکم دلیل ھے جس پر اعتماد کیا جاسکے، لہٰذا یهودیوں کا یہ گمان خود ان کی کتاب توریت اور حکم عقل کے ذریعہ باطل ومردود ھے:
<وَلَنْ تَرْضیٰ عَنْکَ الْیَهودُ وَلَا النَّصَاریٰ حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ قُلْ اِنَّ ہُدَیٰ اللّٰہِ هو الْہُدیٰ>[11]
“اور (اے رسول) نہ تو یهودی کبھی تم سے رضامند هونگے نہ نصاریٰ یھاں تک کہ تم ان کے مذھب کی پیروی کرو، (اے رسول) ان سے کہہ دو کہ بس خدا ھی کی ہدایت تو ہدایت ھے”
< وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلاَمِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَهو فِی الْآخِرَةِ مِنْ الْخَاسِرِینَ >[12]
“اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کی پیروی کرے تو اس کا وہ دین ھرگز قبول ھی نہ کیا جائے گا”
قارئین کرام ! جیسا کہ ھم نے پھلے بھی عرض کیا کہ کسی بھی نبی کا دعویٰ نبوت اس وقت صادق هوسکتا ھے جب وہ کوئی معجزہ پیش کرے ایسا معجزہ جس کی مثال پیش کرنے سے بشر قاصر هو۔
ھمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمدو طرح کے معجزات لے کر آئے۔
پھلا معجزہ: قرآن مجید ۔
دوسرے معجزات: جن کا اس وقت کے مسلمانوں نے مشاہدہ کیا ھے اور ان کی تعدا دبھی بہت زیادہ ھے، اوروہ متواتر طریقوں سے نقل بھی هوئے ھیںنیز ان کے بارے میںبہت سی کتابیں بھی لکھی گئی ھےں،اور علماء حدیث نے بھی ان کو جمع کیا ھے او ریہ نقل وروایت کا سلسلہ آج تک جاری ھے اور ھر زمانہ میں جاری رھے گا۔ (انشاء اللہ)
اگرچہ بعض جاھل اور متعصب مولفین نے ان معجزات میں شک وتردید کی ھے اور بعض نے تو یہ بھی کہہ ڈالا کہ خود قرآن مجید میں ایسی آیات موجود ھیں جو قرآن کے علاوہ دوسرے تمام معجزات کی نفی کرتی ھیں اور یہ کہ صرف قرآن مجید ھی آپ کا واحد معجزہ ھے اور یہ وہ معجزہ ھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے پیش کیا تاکہ اپنے دعوے کا ثبوت پیش کرسکیں۔
چنانچہ ان لوگوں نے اپنی دلیل کے طور پر درج ذیل آیت پیش کی جس میں ارشاد قدرت هوتا ھے:
<وَمَامَنَعْنَا اَنْ نُرْسِلَ باِلْاٰیٰاتِ اِلاّٰ اَنْ کَذَّبَ بِہَا الاٴوَّلُوْنَ>[13]
“اور ھمیں معجزات بھیجنے سے تو اس کے علاوہ اور کوئی وجہ مانع نھیں هوئی کہ اگلوں نے انھیں جھٹلایا”
کیونکہ انھوں نے گمان کیا کہ اس آیت سے یہ ظاھر هوتا ھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمقرآن کریم کے علاوہ کوئی دوسری نشانی (معجزہ) لے کر نھیں آئے کیونکہ وہ نشانیاں جو گذشتہ امتوں پر نازل کی گئیںان لوگوں نے ان کو جھٹلایا (لہٰذا ھمارے پیغمبر کو وہ نشانیاں دے کر نھیں بھیجا گیا)
اس اعتراض کے جواب میں ھمارے استاد آیت اللہ العظمیٰ امام خوئی ۺنے تفصیل کے ساتھ دندان شکن جواب دیا جس کا خلاصہ یہ ھے۔[14]
“مذکورہ آیہٴ کریمہ میں جن آیات (نشانیوں) کا ذکر ھے او رجن کی نفی کی گئی ھے اور جن کو گذشتہ امتوں نے جھٹلایا ان سے مراد وہ نشانیاں ھیں جن کوگذشتہ انبیاء (ع) کے امتی اپنے نبی کے لئے پیش کرتے تھے ، پس مذکورہ آیہٴ شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ اے نبی تم پر واجب نھیں ھے کہ مشرکین کی تراشیدہ شدہ نشانیوں کا جواب دو، اور یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے مطلق طور پر دوسرے معجزات کی نفی نھیں کرتی، اور اگر یہ طے هو کہ کسی آیت (نشانی) کو جھٹلانے کی وجہ سے نشانیاں نہ بھیجی جائےں تو پھر تو قرآن کو بھی نھیں بھیجنا چاہئے تھا، کیونکہ بعض لوگوں نے تو اس کو بھی جھٹلایا اور یہ وجہ دوسری نشانیوں سے مخصوص کرنا صحیح نھیں ھے بالخصوص جبکہ قرآن مجید آنحضرت کے معجزات میں سے سب سے بڑا معجزہ ھے، لہٰذا ماننا پڑے گا کہ جن نشانیوں کی نفی کی ھے وہ ایک خاص قسم کی نشانیاں ھیں مطلق نشانیاں نھیں ھےں۔
اگر گذشتہ امتوں کا جھٹلانا اس بات کی صلاحیت رکھتا هو کہ حکمتِ الٰھی اور نشانیاں نہ بھیجنے میں اثرانداز هوتا تو پھر اس بات کی بھی صلاحیت رکھتا هوگا کہ خدا ،رسولوں کونہ بھیجے (کیونکہ دنیا والوں نے نہ معلوم کن کن انبیاء کو جھٹلایا) اور جب یہ بات باطل او رمردود ھے توگذشتہ بات بھی باطل ھے۔
لہٰذا طے یہ هوا کہ خداوندعالم نے جو اپنی نشانیاں نازل فرمائیں وہ طلب کرنے والوں کی طلب کے مطابق تھیں، اور یہ بات واضح ھے کہ وہ لوگ اتمام حجت کرنے والی نشانیوں کے علاوہ بھی دوسری نشانیاں طلب کرتے تھے،(گویا ان کا مقصد ایمان لانانھیں تھا بلکہ اس طرح کی نشانیوں کے مطالبہ کے بعد نبی کو عاجز کرنا هوتا تھایھی وجہ تھی کہ طلب شدہ نشانیوں کے بعد بھی ایمان نھیں لاتے تھے) اور جب یہ بات طے هوگئی کہ معجزات دیکھنے کے باوجود بھی وہ ایمان نھیں لاتے تھے تو اب خدا پر لازم نھیں هوتا کہ ان لوگوں کے معجزات طلب کرنے پر معجزات ظاھر کردےتا، اور اگر خداوندعالم ان میں مصلحت دیکھتا کہ یہ لوگ ان نشانیوں کو دیکھ کر ایمان لے آئیں گے تو حتماً ان کی طلب شدہ نشانیوں کو بھی نازل کردیتا۔
لہٰذا معلوم یہ هوتا ھے کہ ان لوگوں کے مطالبات اتمام حجت کے بعد تھے اور سابقہ امتو ں کا جھٹلانا ھی سبب تھا کہ خداوندعالم اپنی نشانیوں کو نہ بھیجے کیونکہ ان نشانیوں کا جھٹلانا ان پر عذاب نازل هونے کا سبب تھا لیکن امت محمدی پر خداوندعالم نے اپنے نبی کی خاطر لطف وکرم رکھا کہ اس امت سے اس طرح کی نشانیوں کا انکار کرنے والوں سے عذاب کو دور کیا، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ھے:
<وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاٴَنْتَ فِیْہِمْ>[15]
“حالانکہ جب تک تم ان کے درمیان موجود هو تو خدا ان پر عذاب نھیں کرےگا”
لیکن ان نشانیوں کو جھٹلانے والوں پر عذاب اخروی کیا جائے گا کیونکہ اگر خدا کی کوئی نشانی صرف کسی نبی کی نبوت کے صرف اثبات کے لئے تواس کی تکذیب پر کوئی اخروی عذاب نھیں هوگا اور اگر عذاب هوگا تو اس نبی کے جھٹلانے پر عذاب هوگا۔
لیکن وہ آیات ونشانیاں جن پر لوگوں نے اصرار کیا اور ہٹ دھرمی کی اور ان کا مطالبہ کیا تو اگر وہ اس وجہ سے هو کہ خدا کی پھلی نشانی کی تصدیق هوسکے تاکہ اس نشانی کو دیکھ کر حق واضح هوجائے اور جب ان کی طلب شدہ چیز کو نبی انجام کرکے دکھادے تو پھر ان پر اس نبی کی تصدیق کرنا ضروری هوجاتا ھے او راگر اپنی طلب شدہ چیز کو دیکھ کر بھی اس نبی پر ایمان نہ لائے تویہ نبی اور حق کا مذاق اڑانا ھے۔
خلاصہٴ کلام یہ ھے کہ قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت نھیں ھے جو قرآن کے علاوہ دوسرے معجزات کی نفی کرتی هو اگرچہ یہ بھی طے ھے کہ قرآن مجید ھمارے لئے عظیم دائمی اعجازھے، لیکن
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے دوسرے بھی بہت سے معجزات ھیں۔
قارئین کرام ! معجزہ ایک ایسی حقیقت ھے جس کے اصلی اور نقلی هونے کو کوئی آسانی سے نھیں سمجھ سکتا جیسا کہ گذشتہ اعتراض سے ظاھر هوتا ھے، بلکہ اس سلسلہ میں معلومات رکھنے والے علماء ھی سمجھ سکتے ھیں اور اس کی خصوصیات سے یھی افراد آگاہ هوتے ھیں اور یھی لوگ تشخیص دے سکتے ھیں کہ نوع انسانی اس طریقہ کا کام انجام دینے سے قاصر ھے یا وہ اس طرح کا کام انجام دے سکتے ھیں اسی وجہ سے علماء ھی سب سے پھلے معجزات پر ایمان لاتے ھیں:
<اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہ الْعُلَمَاءُ >[16]
“اس کے بندوں میں خدا کا خوف کرنے والے تو بس علماء (ھی) ھیں”
کیونکہ جاھل انسان صدق وکذب میں امتیاز نھیں کرسکتا او رجو لوگ جاھل ھیں اور جب تک اس علم کے مقدمات سے جاھل ھیںان پر باب شک کھلا رہتا ھے کیونکہ یہ لوگ احتمال دیتے رھیں گے کہ اس کام کے کرنے والے نے اس علم کے مقدمات کے ذریعہ یہ کام کردکھایا ھے اور یہ صاحبان علم کے لئے ایسا کام کرنا کوئی مشکل نھیں ھے، چنانچہ ان تمام احتمالات کی بنا پر اس معجزہ کی جلدی تصدیق نھیں کرتے۔ اسی وجہ سے حکمت الٰھی کا تقاضا یہ ھے کہ ھر نبی کا معجزہ اس کے زمانہ میں شایع شدہ علم کے مشابہ هو، جس پر اس زمانہ کے علماء نے ممارست اور تمرین کی هو اور اس جیسا عمل انجام دینے کی کوشش کی هو تاکہ جلد ھی تصدیق کرسکےں اور حجت تمام هوجائے۔
اسی بنا پر ھم دیکھتے ھیں کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جادوگروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرنے میں جلدی کی کیونکہ جناب موسیٰ (ع) کے معجزہ کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگالیا کہ جو کچھ حضرت موسیٰ (ع) نے انجام دیا وہ جادو گری نھیں ھے۔
اسی طرح نزول قرآن کے وقت چونکہ عربوں کی فصاحت وبلاغت اپنے عروج پر تھی، تواس وقت کے لحاظ سے حکمت الٰھی کا تقاضا یہ تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا معجزہ فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے ممتاز هو، چنانچہ پیغمبر اسلام نے قرآن کو معجزہ کے طور پر پیش کیا جو فصیح وبلیغ تھا تاکہ عرب کے زبان داں اور ممتاز ادیبوں پر یہ بات واضح هوجائے کہ یہ کلام الٰھی ھے جو انسانی فصاحت وبلاغت اور ان کی فکر سے اوپر ھے۔
قارئین کرام ! جیسا کہ ھم نے پھلے بھی عرض کیا کہ ھمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمقرآن مجید کے علاوہ بھی دوسرے معجزات رکھتے تھے جن کو اس کتاب میں بیان نھیں کیا جاسکتا، لیکن ان تمام معجزات میں قرآن کریم وہ عظیم معجزہ ھے جس کی شان نرالی ھے اور جس کی حجت بھی کامل ترین ھے کیونکہ ایک جاھل عرب جو علوم طبیعت سے واقف نھیں ھے وہ ان معجزات میں شک کرسکتا ھے اور وہ ان اسباب کی طرف نسبت دے سکتا ھے جن سے وہ جاھل ھے او راپنے ذہن میں یہ سوچ سکتا ھے کہ شاید یہ سب سحر اور جادو هو، جیسا کہ سب سے پھلا گمان بھی یھی تھا لیکن جب فنون بلاغت اور کلام فصیح کے اسرار ان پر کشف هوجائیں گے تو ان کو قرآن کے معجزہ هونے میں کوئی شک نھیں رھے گا، ان پر یہ بھی واضح هوجائے گا کہ اس طرح کا کلام کوئی بشرپیش نھیں کرسکتا، جبکہ دوسرے معجزات کم مدت والے هوتے ھیں اورجب وہ ختم هوجاتے ھیں تو راوی اس کو نقل کرتے ھیں یا اس بات کے چرچے عوام الناس کی زبان پر هوتے ھیں اس صورت میں باب شک کھل جاتا ھے جس میں بعض لوگ تصدیق کرتے ھیں اور بعض لوگ جھٹلاتے ھیں، لیکن قرآن کریم ایسا معجزہ ھے جو زمین وآسمان کے باقی رہنے تک باقی رھے گا، اور اس کا اعجاز بھی ھر زمانے کے تمام لوگوں کے سامنے باقی رھے گا۔
بتحقیق ھر وہ شخص جس تک اسلام کی دعوت پهونچی ھے یہ بات اچھی طرح جانتا ھے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے تمام لوگوں اور تمام امتوں کو اسلام کی دعوت دی ھے اور قرآن کریم کے ذریعہ ان لوگوںپر حجت تمام کی ھے اور وہ قرآن کا جواب دینے سے قاصر ھیں کیونکہ ان سب سے قرآن کا مثل لانے کا مطالبہ کیا ھے لیکن کوئی بھی جواب پیش نھیں کرسکتا ، چاھے وہ اپنے وقت کا کتناھی بڑا سورماکیوں نہ هو۔
اس کے بعد تنزل کرتے هوئے اس جیسے دس سوروں کا مطالبہ کیا اس کے بعد ایک ھی سورے کا جواب طلب کیاگیا اور اگر عرب کے فصیح وبلیغ افراد میں کوئی بھی اس کا جواب لانے کی قدرت رکھتا تو قرآن کے اس چیلنج کا جواب دیتا اور قرآن کے چیلنج کوختم کردیتا ھے لیکن جب قرآن سنا تو حقیقت امر کا اقرار کیااور قرآن کے اعجاز کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے، اور یہ یقین کرلیا کہ ھم قرآن سے مقابلہ کی طاقت نھیں رکھتے،چنانچہ ان میں سے بعض نے قرآن کی تصدیق کی اور اسلام قبول کرلیا، لیکن بعض لوگ اپنے بغض وعناد پر قائم رھے اور جنگ وجدل کرنا شروع کردیا۔
چنانچہ بعض مورخین نے اس بات کو نقل کیا ھے کہ ولیدبن مغیرہ مخزومی کا ایک روز خانہ کعبہ سے گذر هوا او رنبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی زبان سے تلاوت کلام پاک کو دور ھی سے کان لگاکر سنا، اس کے بعد اپنی قوم کے مشرکین سے جاکر کھا:
“میں نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے کلام کو سنا، جو نہ کسی انسان کاکلام ھے اور نہ ھی کسی جن کا، یہ وہ کلام ھے جس میں حلاوت اور خوبصورتی ھے اس کے اوپر کا( حصہ )ثمر دینے والے درخت کی مانند اور نیچے کاحصہ گورا ھے، یہ قرآن کی ترقی کی حالت میں ھے اور ھمیشہ سربلند رھے گا۔ [17]
اسی طرح ہشام بن حکم راوی ھیں کہ ایک سال خانہ کعبہ میں اپنے زمانہ کے چار بڑے بڑے مفکر اور ادیب جمع هوئے جن کے نام اسی طرح ھیں:
۱۔ ابن ابی العوجاء۔
۲۔ ابو شاکر دیصانی۔
۳۔عبد الملک البصری۔
۴۔ ابن مقفع۔
اور یہ چاروں خدا کا انکارکرنے والے دھریے تھے ، جو آپس میں نبی اسلام اور حج کے بارے میں گفتگو کررھے تھے، چنانچہ گفتگو کے دوران طے یہ پایا کہ اس قرآن کا مقابلہ کیا جائے جو اس دین کی بنیاد ھے تاکہ اس کے مقابلہ اور تعارض سے قرآن کے اعجاز کو ختم کردیا جائے چنانچہ آپس میں یہ طے کیا کہ ان میں سے ھر شخص ایک چھارم (on quarter)قرآن کا جواب لائے، چنانچہ اس پروگرام کے تحت آئندہ سال کا موسمِ حج طے کیا گیا۔
اور جب سال گذرنے کے بعد یہ لوگ تاریخ معینہ پر خانہ کعبہ میں جائے معین پر جمع هوئے اور ایک دوسرے سے محوِ گفتگو هوئے کہ تم نے کیا کیا او رتم نے کیاکام انجام دیا، چنانچہ ابن ابی العوجاء کہتا ھے کہ میرا پورا سال پریشانی واضطراب کی حالت میں گذر گیا اور قرآن مجید کی اس آیت کے بارے میں سوچتا رھا:
<فَلَمَّا اسْتَیْئَاٴسُوْا مِنْہُ خَلَصُوْا نَجِیاً>[18]
“پھر جب یوسف کی طرف سے مایوس هوگئے تو باھم مشورہ کرنے کے لئے کھڑے هوئے”
اور میں اس جیسی کوئی آیت نھیں بنا سکا۔
اس کے بعد عبد الملک نے بھی اسی طرح کھا کہ میں پورے سال قرآن مجید کی اس آیت سے مقابلہ کے بارے میں سوچتا رھا:
<یَاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہُ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنٍ اللّٰہِ لَنْ یَخْلُقُوْا ذُبَاباً وَلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہُ وَاِنْ یَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لاٰ یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ>[19]
“اے لوگو ! ایک مثل بیان کی جاتی ھے تم اسے کان لگاکر سنو کہ خدا کو چھوڑ کرتم جن کو پکارتے هو اور وہ لوگ اگرچہ سب کے سب اس کا م کے لئے اکٹھے هوجائیں تو بھی ایک مکھی تک پیدا نھیں کرسکتے، اور اگر کھیں مکھی کچھ ان سے چھین لے جائے تو اس سے اس کو چھڑا نھیں سکتے، (عجب لطف ھے) کہ مانگنے والا اور جس سے مانگا گیا ھے دونوں ضعیف ھیں۔”
لیکن میں اس جیسی آیت بنانے سے قاصر رھا۔
اسی طرح ابی شاکر کا بھی خیال تھا کہ میں درج ذیل آیت کی طرح سوچنے سے قاصر رھا۔
<لَوْکَانَ فِیْہِمَا آلِہَةٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا>[20]
“بفرض محال زمین وآسمان میں خدا کے سوا چند معبود هوتے تو دونوں کب کے برباد هوگئے هوتے۔”
اور یھی حال ابن مقفع کا بھی تھا کہ پورا سال گذر گیا اور میں اس آیت سے مقابلہ نہ کرسکا:
<وَقِیْلَ یَا اَرْضُ ابْلَعِیْ مَاءَ کَ وَیَا سَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الاٴَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْداً لِلْقَوْمِ الظَّاْلِمِیْنَ>[21]
“اور جب خدا کی طرف سے حکم دیا گیا کہ اے زمین اپنا پانی جذب کرلے، اور اے آسمان (برسنے سے) تھم جا اور پانی گھٹ گیا اور (لوگوں کا) کام تمام کردیا گیا اور کشتی جودی (نامی پھاڑ) پر جا ٹھھری اور (ھر چھار طرف) پکار دیا کہ ظالم لوگوں کو خدا (کی رحمت سے) دوری هو۔”
ہشام کہتے ھیں کہ اسی موقع پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام وھاں سے گذرے، ان لوگوں کو دیکھا تو آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:
<قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰ اَنْ یَّاتُوْا بِمِثْلِ ہَذَا الْقُرْآنِ لاٰیَاتُوْنَ بِمِثْلِہِ وَلَوْکَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْراً>[22]
“(اے رسول) تم کہہ دو کہ اگر ساری دنیا کے آدمی اور جن اس بات پر اکھٹا هوں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو (غیرممکن)، اس کے برابر نھیں لاسکتے اگرچہ اس کوشش میں ایک ایک کا مددگار بھی بنے۔”
قارئین کرام ! ھمیشہ دشمنان دین چاھے وہ کسی بھی عقیدہ، نظریات اور فلسفہ کے ماننے والے هوں ؛ ان کا یہ وطیرہ رھا ھے کہ اس معجزہ (قرآن کریم) کے اعجاز میں شک وتردید ایجاد کریں اور ھمیشہ اسلام دشمن طاقتوں نے سازش کرکے حملہ کئے ھیں اور اپنی پوری طاقت صرف کردی تاکہ اپنے شوم اہداف میں کامیاب هوجائیں، جیسا کہ تاریخ کے اوراق پر ان حملوں کی تعدادبے شمار ملتی ھے۔
اس سلسلہ میں ایک اور اعتراض کیا جاتا ھے کہ قرآن مجید کی آیات میں تناقض اور تضاد پایا جاتا ھے جو اعجاز قرآن کے منافی ھے اور ان کے گمان کے مطابق یہ قرآن انسان کی صفت ھے اور کلام الٰھی نھیں ھے، چنانچہ اپنے اعتراض کی دلیل میں قرآن مجید کی درج ذیل آیت پیش کی ھے کہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:
<آیَتُکَ اَلَّا تَکُلِّمَ النَّاسَ ثَلاثَةَ اَیَّامٍ اِلّٰا رَمْزاً >[23]
“تمھاری نشانی یہ ھے کہ تم تین دن تک لوگوں سے بات نہ کرسکو گے مگر اشارہ سے۔”
کہ یہ آیہ کریمہ دوسری آیت کے مخالف ھے جس میں خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:
<آیَتُکَ اَلَّا تَکُلِّمَ النَّاسَ ثَلاثَ لَیَالٍ سَوِیًّا>
“تمھاری پہچان یہ ھے کہ تم تین رات برابر لوگوں سے بات نھیں کرسکوگے۔”
پس پھلی آیت میں تین دن کا ذکرھے جبکہ دوسری آیت میں یہ مدت تین رات بیان کی گئی ھے۔
اس اعتراض کے جواب میں کافی ھے کہ ھم اشارہ کریں کہ لغت عرب میں “یوم” کے معنی کیا ھیں چنانچہ عربی زبان میں “یوم” کہہ کر دن مراد لیا جاتا ھے جیسا کہ ارشاد خداوندی ھے:
< سَخَرَّہَاْ عَلَیْہِمْ سَبْعَ لِیَالٍ وَثَمَانِیَةَ اَیَّامٍ >[25]
“خدا نے اسے (تیز آندھی کو )سات رات اور آٹھ دن لگاتا ران پر چلایا”
اور کبھی یوم کہہ کرشب وروز (۲۴گھنٹے) مراد لئے جاتے ھیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد هوتا ھے:
<فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِی دَارِکُمْ ثَلاٰثَةَ اَیَّامٍ >[26]
“تب جناب صالح نے کھا اچھا تین دن تک (اور)اپنے گھر میںچین سے بیٹھ جاؤ”
جبکہ “لیل” سے مراد رات لی جاتی ھے:مثلاً:
<وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشیٰ>[27]
“رات کی قسم جب (سورج) کو چھپالے”
ایضاً:
<سَبْعِ لِیَالٍ وَثَمَانِیَةَ اَیَّامِ >[28]
اور کبھی کبھی “لیل” سے مراد شب و روز هوتے ھیں:
<وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسیٰ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً>[29]
“اور وہ وقت بھی یاد کرو کہ جب ھم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا”
قارئین کرام ! جب لغت میں لیل ونھار کا استعمال ان دونوں معنی میں جائز اور صحیح ھے تو مذکورہ دونوںآیات میں کسی طرح کا کوئی تناقض نھیں ھے کیونکہ یوم اور لیل کبھی دن اور رات کے معنی میں استعمال هوتے ھیں اور کبھی یوم اور لیل کا اطلاق ۲۴گھنٹے پر هوتا ھے، اور اس میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ کی گنجائش نھیں ھے اگر خود غرضی نہ هو:
<اَفَلاٰ یتَدَبِّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اِخْتَلاٰفاً کَثِیْراً>[30]
” تو کیا یہ لوگ قرآن میںغور نھیں کرتے اور (یہ خیال نھیں کرتے) اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے آیا هوتا تو (ضرور) بڑا اختلاف پاتے”
اب جبکہ یہ طے هوگیا کہ قرآن کریم اپنی تمام روش میں بے انتھا فصیح وبلیغ معجزہ ھے اور اس کی فصاحت وبلاغت کا حال یہ ھے کہ نوع بشر اس کی مثال نھیں لاسکتی، اور ایسی منظم کتاب ھے جس میں ذرہ برابر بھی تضاد اور اختلاف نھیں پایا جاتا،پس قرآن کریم کے اعجاز کے دوسرے بھی پھلو ھیں جن کی تعداد بہت ھے اور قرآن میں غور وفکر کرنے والے پر بہت سی چیزیں کشف هوتی ھیں کیونکہ خداوندعالم نے قرآن مجید میں بہت سے معارف، اسرارِ علوم اور عالم کائنات کے حقائق بیان کئے ھےں جن کے بارے میں کوئی شخص یہ احتمال نھیں دے سکتا کہ یہ اس زمانہ میں زندگی بسر کرنے والے انسان کے بیان شدہ ھیں کیونکہ اس زمانے میں زندگی بسر کرنے والا شخص ان چیزوں کو درک نھیں کرتا تھا۔
اور جیسا کہ ھمارا عقیدہ ھے کہ قرآن کریم دین، عقیدہ اور تشریع کی کتاب ھے علم فلکیات، علم کیمیا اور علم فیزیک کی کتاب نھیں ھے ، لیکن پھر بھی ھم اس قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر کائنات اور طبیعت کے بارے میں بہت دقیق باتیں دیکھتے ھیں کیونکہ اس زمانہ میں ایسی چیزوں کا علم هونا ناممکن ھے مگر یہ کہ خداوندعالم ان چیزوں کے بارے میں وحی کرے اور اپنے رسول کو بتائے۔
بتحقیق قرآن کریم نے ان اسرار کو بیان کرنے میں بہترین انداز اپنایا ھے بعض چیزوں کے بارے میں صاف صاف وضاحت کی ھے جبکہ بعض چیزوں کی طرف صرف ایک اشارہ کیا ھے کیونکہ اس زمانہ میں بعض حقائق کو قبول کرنا بہت مشکل تھا۔
چنانچہ اس وقت کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ ان چیزوں کی طرف ایک اشارہ کیا جائے تاکہ بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے جس وقت علم کی پیشرفت هو اور حقائق ظاھر هوں ؛یہ چیزیں واضح اور کشف هوجائیں، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ھے:
<اَلَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ مِہٰداً>[31]
“جس نے زمین کو تمھارے لئے فرش بنایا”
یہ آیہ کریمہ اشارہ کرتی ھے کہ زمین گھومتی ھے لیکن اس چیز کو چند صدی گذرنے کے بعد سمجھا گیا کیونکہ لفظ “المہد” زمین کی حرکت کی طرف اشارہ کررھا ھے لیکن قرآن مجید کا یہ ایک ھلکا سا اشارہ تھا اور اس کو وضاحت کے ساتھ بیان نھیں کیا گیا، کیونکہ اس وقت زمین کو حالت سکون میں سمجھنا ایک عام بات تھی اور اس کے بارے میں گفت وشنید بے کار تھی، اور اگر اس وقت زمین کی حرکت کی باتیں کی جاتیں تو ان کو خرافات اور محال کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ۔
قارئین کرام ! ھم یھاں پر قرآن کریم کے ذکر شدہ چند حقائق کو بیان کرتے ھیں چاھے ان کو قرآن مجید نے واضح طور پر بیان کیا هو یا ان کی طرف صرف اشارہ کیا هو اگرچہ اس سلسلہ میں تفصیلی طور پر معلومات حاصل کرنے کے لئے الگ کتابوں کا مطالعہ کرنا ضروری ھے کیونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ ھیں اور ان تمام کو اس کتاب میں بیان نھیں کیا جاسکتا لیکن ھمارا مقصد صرف چند مثالوں کو پیش کرنا ھے تاکہ بحث مکمل هوجائے۔
قرآن مجید کے ان علمی اور دقیق اشاروں میں سے ایک یہ ھے جس کا ذکر قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں موجود ھے:
<یَجْعَلْ صَدْرَہُ ضَیِّقاً حَرَجاً کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَاءِ >[32]
“اس کے سینہ کو تنگ دشوارگزار کردیتا ھے گویا(قبول ایمان) اس کے لئے آسمان پر چڑھنا ھے
جیسا کہ سائنس نے یہ بات ثابت کی ھے کہ جب انسان بلندی کی طرف آسمانوں میں پرواز کرتا ھے او راوپر کی طرف بڑھتا ھے تو اس کے سینہ میں دباؤ پیدا هوتا ھے یھاں تک کہ اس کا دم گھٹنے لگتا ھے کیونکہ اس وقت اس کو “آکسیجن” “Oxygen”نھیں ملتا۔[33]
اسی طرح قرآن مجید کا علمی مسائل کی طرف ایک اشارہ درج ذیل آیت میں هوتا ھے:
<وَاٴَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ >[34]
“اور ھم ھی نے وہ هوا بھیجیں جو بادلوں کو پانی سے بھرے هوئے ھیں”
آج کا سائنس یہ کہتا ھے کہ تلقیح [35]دوقسم کی ہیں:
۱۔ذاتی؛ جیسے درخت اور گھاس بطور مستقیم تلقیح کرتے ھیں۔
۲۔خلطی؛ جس میں تلقیح کے لئے تخم ایک پودے سے دوسرے پودے میں منتقل هوجاتا ھے۔ اسی صورت میں ایسے وسائل موجود هونا ضروری ھیں جن کے ذریعہ سے تخم تلقیح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکے اگر چہ ان کے درمیان کافی دوری ھی کیوں نہ هو، تو ان منتقل کرنے والے وسائل میں سے هوا ایک اھم وسیلہ ھے کیونکہ اس زمین پر ایسے بہت سے درخت وغیرہ ھیں جن کی تلقیح هوا کے علاوہ ممکن ھی نھیں ھے۔ [36]
انھیں اشاروں میں سے قرآن مجید کا ایک اشارہ یہ بھی ھے جس کو ماھرین فلکیات نے بھی قبول کیا کہ سورج بھی دوسرے ستاروں کی طرح اپنی حرارت کی زیادتی اور اپنی شعاعوں کو کم کرے کیونکہ اس میں اتنی شدت پائی جاتی ھے جس کو عقلِ انسانی قبول نھیں کرسکتی۔یھاں تک کہ اگر زمین سے اس کی دوری کو ختم کردیا جائے تو زمین سے شعلہ نکلنے لگےں، اور چاروں طرف سے دھواں اٹھنے لگے، اور یہ دھواں چاند تک پہنچ جائے گا او رپھر تمام نظام شمسی درھم وبرھم هوجائےگا۔
اورآسمان پر موجود تمام ستاروں کا اسی اپنی حالت پر گامزن رہنا ضروری ھے قبل اس کے کہ اپنی دائمی محور کو حاصل کرے، چنانچہ ھمارا یہ سورج کبھی دائرہ سے خارج نھیں هوتا۔
اسی چیز کو مد نظر رکھتے هوئے خداوندعالم کے فرمان کے معنی سمجھ میں آتے ھیں کہ خداوندعالم نے روز قیامت سے کس طرح ھم لوگوں کو ڈرایا ھے اور دنیاکی نابودی کی کس طرح تصویر کشی کی ھے:
<فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوٴمَئِذٍ اَیْنَ الْمَفَرُّ> [37]
(جب آنکھیں چکاچوند هوجائیں گی اور چاند میں گہن لگ جائے گا اور سورج اور چاند اکھٹا کردئے جائیں گے تو انسان کھے گا: آج کھاں بھاگ کر جاؤں)
قرآن مجید کے انھی علمی اشاروں میں سے ایک یہ ھے جس کو قرآن مجیدنے بیان کیا ھے:
<وَاٴَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنٍ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتاً وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّاْ یَعْرِشُوْنَ>[38]
“اور (اے رسول) تمھارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پھاڑ وںاور درختوں اوروہ لوگ جو اونچے اونچے مکان بناتے ھیں ان میں اپنے چھتے بنا۔”
جیسا کہ ماھرین علم کاکہنا ھے کہ شہد کی مکھی نے سب سے پھلے پھاڑوںمیں اپنا گھر بنانا شروع کیا اور یہ زیادہ تر وھیں پر اپنا گھر بنا کر زندگی کرتی ھیں اور اسی میں زاد ولد کرتی ھیںلیکن وھاں پر موجود بعض پریشانیوں کی بنا پر وھاں سے منتقل هوکر درختوں میں اپنا گھر بنایا درختوں کو اس وجہ سے انتخاب کیا کیونکہ اس میں سوراخ اور کھوکھلی جگہ هوتی ھیں تاکہ ان میں آرام سے زندگی گذار سکیں۔
اور جب انسان نے (دوسرے جانوروں کے گھروں کو دیکھ کر ) اپنے لئے گھر بنانا چاھا تو پھلے گھر بالکل اسی طرح هوتے تھے جیسے جانوروں کے، شروع میں تو یہ گھر مٹی کے بنائے گئے اور
پھر ان کو خوبصورت بنانا چاھا تو لکڑی سے بنائے جانے لگے اسی طریقہ سے ان میں ترقی هونے لگی اور آج یھاں تک پهونچ گئے ھیں (کہ بڑے بڑے شھروںمیں بڑی بڑی عمارتوں کی بھر مار ھے)۔
پس شہد کی مکھیوں کا پھاڑ میں گھر بنانااور پھر ان کا درختوں کا انتخاب کرنا اور ان کو دیکھ کر انسانوں کا گھر بنانا ان تمام چیزوں کے بارے میں قرآن کریم نے گفتگو کی ھے [39]
ان ھی علمی حقائق میں سے جن کے بارے میں قرآن مجید نے خبر دی ھے زمین سے متعلق ھے جو ماضی قریب کی صدیوں تک مجهول رھا ۔اور وہ یہ ھے کہ زمین میں سوراخوں کے ذریعہ هوا داخل هوتی ان ھی علمی حقائق میں سے جن کے بارے میں قرآن مجید نے خبر دی ھے زمین سے متعلق ھے جو ماضی قریب کی صدیوں تک مجهول رھا ۔اور وہ یہ ھے کہ زمین میں سوراخوں کے ذریعہ هوا داخل هوتی بلکہ زمین کے یھی سوراخ اور ان کا اندازہ بھی سب سے اھم سبب ھے جس کی وجہ سے زمین مختلف هوتی ھیں کہ بعض زمین سخت هوتی ھیں اور بعض بھوڑ (ریتیلی زمین )، اور یہ بات ابھی کچھ دن پھلے ھی کشف هوئی ھے کہ زمین میں سوراخ هوتے ھیں اور ان میں هوا هوتی ھے اور جب زمین پر بارش هوتی ھے تو اس هوا کی جگہ وہ پانی بھر جاتا ھے اور جیسا کہ علم کیمیا نے کشف کیا ھے کہ مٹی پانی کے ذریعہ پھیل جاتی ھے اور خشک هونے سے سمٹ جاتی ھے اور جب زمین کے سوراخ میں پانی بھر جاتا ھے تو مٹی کے اجزا ء پانی بھرنے سے متحرک هوجاتے ھیں چنانچہ جب زمین پر بارش هوتی ھے تو زمین حرکت میں آجاتی ھے اور اپنے اندازہ سے زیادہ هوجاتی ھے زمین کی اس حرکت کو اس وقت دیکھا جاسکتا ھے جب اس میں پانی بھر جائے اسی طرح اس کے اندازہ کو بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ھے ۔
قارئین کرام ! یہ وہ حقائق ھیں جن کو آج کا سائنس کشف کررھا ھے لیکن قرآن کریم نے اس کے بارے میں چودہ سو سال پھلے ھی خبر دی ھے جیسا کہ ارشاد هوتا ھے:
<وَتَرَی الْاَرْضَ ہَامِدَةً فَاِذَا اٴَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَاءَ اہْتَزَّتْ وَ رَبَتْ وَاَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بَہِیْجٍ>[40]
“اورزمین کو مردہ دیکھ رھا ھے پھر جب اس پرپانی برسادیتے ھیں تو لھلھانے اور ابھرنے لگتی ھے اور ھر طرح کی خوشنما چیزیں اگاتی ھے ”
یھاں پر” اہتزاز” کے معنی حرکت کے ھیں اور ربت کے معنی جسم میں زیادتی کے ھیں، چنانچہ ان حقائق سے اس وقت پردہ برداری هوئی جب آج کا علم کہتا هوا نظر آرھا ھے کہ جب بارش هوتی ھے تو زمین میں شگاف پیدا هوتے ھیں یا پانی کے ذریعہ اس میں سوراخ کھل جاتے ھیں۔ [41]
قرآن کریم کے بتائے هوے انھیں حقائق میں سے ایک یہ بھی ھے جس کو آج کا سائنس بھی قبول کرتا ھے کہ بدن سے خارج هونے والی چیزوں کی دو قسمیں ھیں :
۱۔جن سے جسم کا فائدہ هوتا ھے جیسے افرازات (خارج شدہ ) چیزیں ہضم هونے والی چیزیں و مادہ تناسل یا بعض وہ چیزیں جو جسم کے اندر هوتی ھیں اور جسم کے لئے ضروری ھموتے ھیں اور یہ قسم انسان کے بدن کے لئے ضروری ھے اور ان میں کوئی ضررو نقصان بھی نھیں ھے
۲۔ دوسری قسم وہ ھے جن میںجسم کے لئے کوئی فائدہ نھیں ھے بلکہ جسم سے ان کا نکلنا ضروری ھے کیونکہ ان میں ایک قسم کا زھر پایا جاتا ھے کہ اگر وہ جسم میں باقی رھیں تو جسم کے لئے خطرہ لاحق هوجائےگا جیسے پیشاب پاخانہ ۔پسینہ اور خون حیض۔
چنانچہ خدا وند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:
< یَسْاٴ لُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ هو اٴَذًی فَاعْتَزِلُوْا النِّسَاءَ فِی الْمَحِیْضِ>[42]
“اے رسول تم سے لوگ حیض کے بارے میں پوچھتے ھیں تم ان سے کہدو کہ یہ گندگی اور گھن کی بیماری ھے لہٰذا تم ایام حیض میں عورتوں سے الگ رهو ”
خداوند عالم نے آج کے علم کواس نتیجہ پر پہنچے سے پھلے ھمیں بتا دیا کہ خون حیض اذیت کنندہ ھے اور اس کا بدن میں باقی رہنا جسم کے لئے خطرناک ھے اور اس چیز کے پیش نظر مخصوص ایام میں عورت سے مباشرت کرنے سے منع فرمایا کیونکہ اس دوران عورت کا رحم شدید درد کی حالت میں هوتا ھے اور اس کا بدن اضطراب و پریشانی کے عالم میں هوتا ھے ۔
 
کیونکہ اس کے اندرونی غددوں سے یہ خون باھر نکلتا رہتا ھے اور اس حالت میں جنسی تعلقات، نقصان دہ هوتے ھیں بلکہ کبھی کبھی تو حیض آنا بند هوجاتا ھے نیز دوسرے غلط اثراث مترتب هوتے ھیں اور کبھی کبھی اعضاء وتناسل میں سوزش هونے لگتی ھے۔[43]
انھی حقائق میں سے ایک یہ بھی ھے جس کے متعلق خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:
<افَلَا اُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النَّجُوْمِ وَاِنَّہُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ>[44]
“تو میں تاروں کی بنائی کی قسم کھاتا هوں اور اگر تم سمجھ لو تو یہ بڑی قسم ھے”
ماھرین فلکیات کا کہنا ھے کہ ستاروں کے درمیان تاحد خیال فاصلہ ھے اور یہ وہ چیز ھے جس کے بارے میں خداوندعالم نے قسم کھائی ھے کیونکہ تمام ستارو ں کی دوری ۷۰۰ /نوری سال کے برابر ھے اور ایک نوری سال میں کروڑوں کلومیٹر کا فاصلہ هوتا ھے۔ [45]
انھی حقائق میں سے ایک یہ ھے کہ جس کی طرف خداوندعالم نے اشارہ فرمایا ھے:
<وَاٴَنْبَتْنَا فِیْہَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَوْزُوْنٍ>[46]
“اور ھم نے اس میں ھر قسم کی مناسب چیز اگائی۔”
کیونکہ یہ آیہٴ کریمہ دلالت کرتی ھے کہ تمام نباتات میں ایک خاص وزن هوتا ھے جیسا کہ سائنس نے بھی اس بات کو ثابت کیا ھے کہ نباتات خاص اجزاء سے مرکب هوتی ھےں اور ان کا ایک خاص وزن هوتا ھے اس حیثیت سے کہ اگر کسی جز میں اس کی مقدار معین میں کمی یا زیادتی آجائے تو اس کی حقیقت بدل جاتی ھے اور تعجب کی بات یہ ھے کہ ان اجزاء میں سے بعض اجزاء کا بہت دقیق وزن هوتا ھے مثلاً میلی گرام یا اس سے بھی دقیق جس طرح سے آج کل سونا تولا جاتا ھے۔ [47]
قرآن مجید کتاب خداھے اس میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ کی گنجائش نھیں ھے اور قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ ھے:
<اِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ یَہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ اَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمَوٴْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصَّالِحَاتِ اٴَنَّ لَہُمْ اَجْراً کَبِیْراً>[48]
“اس میں شک نھیں کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ھے جو سب سے زیادہ سیدھی ھے او رجو ایماندار اچھے اچھے کام کرتے ھیں ان کو یہ خوشخبری دیتا ھے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر (وثواب موجود) ھے۔”
<صُنْعَ اللّٰہِ الَّذِیْ اَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ اِنَّہُ خَبِیْرٌ بَمَا تَفْعَلُوْنَ>[49]
“(یہ بھی) خدا کی کاریگری ھے کہ جس نے ھر چیز کو خوب مضبوط بنایا اور بے شک جو کچھ تم کرتے هو وہ اس سے خوب واقف ھے۔”
حوالاجات
[1] سورہ سباء آیت ۲۸۔
[2] سورہ انبیاء آیت ۱۰۷۔
[3] سورہ اعراف آیت ۱۵۸۔
[4] سورہ انعام آیت ۱۹۔
[5] سورہ حج آیت ۴۹۔
[6] سورہ اعراف آیت ۵۹۔
[7] سورہ اعراف آیت ۷۳۔
[8] سورہ زخرف آیت ۴۶۔
[9] سورہ صف آیت ۶۔
[10] المنخول غزالی ص ۲۸۸۔
[11] سورہ بقرہ آیت ۱۲۰۔
[12] سورہ آل عمران آیت ۸۵۔
[13] سورہ اسراء آیت۵۹۔
[14] البیان فی تفسیر القرآن جلد اول ص ۷۶تا۷۹۔
[15] سورہ انفال آیت ۳۳۔
[16] سورہ فاطر آیت ۲۸۔
[17] المعجزة الخالدة ص ۲۱۔
[18] سورہ یوسف آیت۸۰۔
[19] سورہ حج آیت ۷۳۔
[20] سورہ انبیاء آیت ۲۲۔
[21] سورہ هود آیت۴۴۔
[22] سورہ اسراء آیت۸۸۔
[23] سورہ آل عمران آیت ۴۱۔
[24] سورہ مریم آیت ۱۰۔
[25] سورہ حاقہ آیت ۷۔
[26] سورہ هود آیت۶۵۔
[27] سورہ لیل آیت۱۔
[28] سورہ حاقہ آیت ۷۔
[29] سورہ بقرہ آیت ۵۱۔
[30] سورہ نساء آیت ۸۲۔
[31] سورہ طٰہ آیت ۵۳۔
[32] سورہ انعام آیت ۱۲۵۔
[33] اللہ یتجلی فی عصر العلم ص ۱۶۶۔
[34] سورہ حجر آیت ۲۲۔
[35] طریقہ زاد ولد درخت۔
[36] القرآن الکریم والعلوم الحدیثہ ۸۱۔۸۵۔
[37] سورہ قیامت آیت ۷تا ۱۰۔
[38] سورہ نحل آیت ۶۸۔
[39] القرآن الکریم والعلوم الحدیثہ ص ۱۹تا ۲۱۔
[40] سورہ حج آیت ۵۔
[41] القرآن الکریم والعلوم الحدیثہ ص ۸۲تا ۸۳۔
[42] سورہ بقرہ آیت ۲۲۲۔
[43] الاسلام والطب والحدیث ص ۴۰۔
[44] سورہ واقعہ آیت ۷۵تا ۷۶۔
[45] اللہ یتجلی فی عصر العلم ص ۱۶۶۔
[46] سورہ حجر آیت ۱۹۔
[47] البیان جلد اول ص ۵۴۔
[48] سورہ اسراء آیت ۹۔
[49] سورہ نمل آیت ۸۸۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.