انسانی ضروریات

131

ضروریات كی پہلی قسم
ضروریات دو طرح كی ہیں :بنیادی ضروریات اور ثانوی ضروریات، بنیادی ضروریات انسان كی جسمانی و روحانی ساخت اور اجتماعی زندگی كے مزاج كی گہرائیوں سے تعلق ركھتی ہیں جب تك انسان اس دنیا میں موجود ہے اور اجتماعی زندگی بسر كررہا ہے اس كی یہ ضروریات باقی رہیں گی ۔یہ ضروریات تین طرح كی ہیں "جسمانی "روحانی اور اجتماعی :
۔ جسمانی ضروریات كا تعلقات خوراك، پوشاك، مسكن اور رفیق حیات سے ہے ۔
۔ روحانی ضروریات كے ذیل میں علم، زیبایش، نیكی، پرستش، احترام و تربیت آتے ہیں اور
۔ معاشرت مبادلہ اشیاء، تعاون، عدالت، آزادی اور مساوات كا تعل قاجتماعی ضروریات سے ہے
ثانوی ضروریات
وہ ضروریات ہیں جو بنیادی ضروریات سے پیدا ہوتی ہیں مختلف آلات اور وسائل زندگی كی ضروریات اسی نوع كی بنیادی ضروریات سے پیدا ہوتی ہیں جو زمانہ كے ساتھہ ساتھہ بدلتی ضرورت ہے تو خدا كے ساتھہ انسان كے رابطے یا فطرت كے ساتھہ رہتی ہیں ۔
یہ بنیادی ضروریات ہی جو انسان كو زندگی كی توسیع اور ترقی كی جانب قدم بڑھانے كے آمادہ كرتی ہیں ثانوی ضروریات زندگی كی توسیع و ترقی سے پیدا ہوتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ توسیع و ترقی كے لئے محرك ثابت ہوتی ہیں ۔
ضروریات میں تغیر اور ان كے نئے ہونے اور پرانے ہونے كا تعلق ثانوی ضروریات سے ہے بنیادی ضروریات نہ پرانی ہوتی ہیں اور نہ ختم ہوتی ہین وہ ہمیشہ زندہ اور نئی رہتی ہیں
ثانوی ضروریات كا ایك حصہ بھی ایسا ہی ہے قانون كی ضروریات ثانوی ضروریات كے اسی حصے سے تعلق ركھتی ہے ۔قانون كی ضروریات اجتماعی زندگی كی بنیادی ضرورت كا ایك لازمی لازمی نتیجہ ہے اور اسے بھی دوام اور ہمیشگی حاصل ہے ۔انسان كسی دور میں بھی قانون سے بے نیاز نہیں ہوسكتا ۔
ضروریات كی دوسرے قسم
یہ بات صحیح ہے كہ تمدن كے عوامل میں توسیع نئینئی ضروریات كو سامنے لاتی ہے اور وقتا فوقتا فرعی قوامین ضوابط و معاہدات كا ایك سلسلہ وجود میں آتا رہتا ہے مثلا حمل و نقل كے مشینی وسائل كی بنا پر یہ ضروری ہوجاتا ہے كہ شہروں كے درمیان آمد ورفت كے لئے اور مختلف ممالك كے درمیان سفر اور حمل و نقل كے لئے كچھہ قوانین و ضوابط وضع كئے جائین جبكہ ماضی میں اس طرح كے قوانین اور معاہدوں كی ضرورت نہیں تھی البتہ تمدن كے عوامل میں توسیع حقوقی، تعزیری اور شہری قوانین جن كا تعلق لین دین، وكالتوں، ناجائز قبضوں، ضمانتوں، وراثت، ازدواج اور ایسے ہی دوسرے امور سے ہوتا ہے ۔اگر وہ فی الواقع عدالت اور فطری حقوق پر مبنی ہوں تو انہیں تبدیل كرنے كی كوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔جب یہان سان كے رابطے سے متعلق قوانین كی تبدیلی كا سوال كیسے پیدا ہوگا۔
قانون ضروریات كی تكمیل كا شریفانہ اور عادلانہ طریقہ مقرر كرتا ہے وسائل و آلات ضرورت كی تبدیلی ان كے حصول و استفادہ اور ان كے عادلانہ تبادلے كے طریقے كو تبدیل كرنے كا سبب نہیں بنتی ۔مگر یہ فرض كرلیا جائے كہ زندگی كے اسباب وسائل اور آلات میں تبدیلی آتی ہے اور وہ ترقی و كمال كی صورت اختیار كرتے ہیں تو حق "انصاف اور اخلاق كا مفہوم بھی بدل جاتا ہے ۔دوسرے الفاظ میں ہم كو یہ فرض كرنا پڑے گا كہ حق، عدالت اور اخلاق كے مفاہیم اضافی ہیں ۔ایك چیز اگر كسی زمانے میں حق عدالت اور اخلاق كے ذیل میں آتی ہے تو دوسرے زمانے میں وہ حق، عدالت اور اخلاق كے خلاف مسجھی جاتی ہے ۔
ہمارے دور میں اس مفروضے كا بڑا چرچا ہے لیكن اس سلسلہ بیان مین اس مسئلہ پر بحث كی زیادہ گنجائش نہیں ہے یہاں ہم صرف یہ كہیں گے كہ اس مفروضے كا سبب حق، عدالت اور اخلاق كے حقیقی مفہوم سے ناواقیفیت ہے ۔حق عدالت اور اخلاق كے ذیل میں جو چیز تغیر پذیر ہے وہ ان كا نفاذ اور ان كی عملی صورت ہے نہ كہ ان كی حقیقت و ماہیت ۔اگركوئی آئیں و دستور حقوق اور فطرت كی بنیادس پر بنایا گیا ہو تو وہ ایك زندہ انقلابی قوت سے بہرہمند ہوگا وہ زندگی كی اس شكل و سورت سے بحث كرنے كی بجائے جس كا تعلق بظاہر تمدن سے ہے، زندگی كے لئے اصلی اور حقیقی خطاط كھیچے گا ۔وہ نہ صرف زندگی كے تغیرات سے ہم آہنگ ہوگا بلكہ ان كی رہنمائی كرے گا۔نئی نئی ضروریات اور قوانین كے درمیان تضاد اس وقت پیدا ہوتا ہے جبكہ قانون حركت و عمل كی راہ متعین كرنے كے بجائے زندگی كی ظاہری شكل و صورت پر توجہ دے مثلا مخصوص آلات اور وسائل كو جن كا تعلق سارے كا سارا تہذیب و تمدن كے مراحل سے ہوتا ہے انہیں ہمیشہ ایك ہی صورت میں ركھنا چاہئے ۔
اگر قانون یہ چاہے كہ ہمیشہ تحریری كام ہاتھ ہی سے كیا جائے گھوڑے اور خچر ہی سواری كاكام لیا جائے اور روشنی كے لئے مٹی كے تیل كی قندیل ہی استعمال كی جائے اور صرف وہی كپڑا پہنا جائے جو ہاتھہ سے بنایاجاتا ہے ۔اس طرح كا قانون علم و تمدن كی توسیع اور اس سے پیدا ہونے والی احتیاجات سے جنگ كرتا ہے اور یہ لازمی بات ہے كہ جبر تاریخ، اس قانون كو بدل كر ركھ دے گا ۔
قانون جس قدر جزئی اور مادی ہوگا یعنی مخصوص مواد و رنگ اور مخصوص صورتوں كا حامل ہوگا، اس كے بقاء و دوام كے امكانات كم ہی ہوں گے ۔اس كے بر عكس قانون جس قدر كلی اور معنوی ہوگا اور اشیاء كی ظاہری صورتوں پر توجہ دینے كی بجائے اشیاء كے درمیان یا اشخاص كے مابین روابط پر توجہ دے گا اس كے بقاء و دوام كے امكانات زیادہ ہوں گے ۔
زمانے كے تقاضے
زمانے كے تقاضے، یعنی ماحول معاشرے اور زندگی كے
تقاضے، انسان عقل، ایجاد و اختیار كی قوت سے لیس ہے اور بہتر زندگی كی خواہش ركھتا ہے، اس لیے وہ اپنی اقتصادی، اجتماعی، اور معنوی ضروریات رفع كرنے كے لیے بہتر سے بہتر افكار و نظریات اور عوامل و وسائل كو كار زار حیات میں لانے كی كوشش كرتا ہے، بہتر اور كامل تر وسائل و عوامل كی زندگی میں آمد خود بخود پرانے اور ناقص تر عوامل كو اپنی جگہ خالی كر دینے پر مجبور كرتی ہے، اس طرح انسان جدید عوامل اور ان كی مخصوص ضروریات سے وابستگی پیدا كرلیتا ہے، انسان كی مادی اور معنوی احتیاجات كے ایك سلسلے سے وابسگتی اور ان احتیاجات كو رفع كرنے والے عوامل و وسائل كا دائمی تغیر اور ان وسائل كا ہمیشہ بہتر ہوتے چلے جانا اور ایك مرحلہ پر خود ان كا نئی نئی احتیاجات كے ایك سلسلے كو وجود میں لا نا ہر دور اور زمانے میں ماحول اجتماع اور زندگی كے تقاضوں میں تغیر كا سبب بنتا رہتا ہے اور انسان كو لازمی طور پر جدید تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا كرنے پر آمادہ كرتا رہتا ہے، اس طرح كے تقاضوں سے جنگ نہیں كرنی چاہیے اور نہ جنگ كی جاسكتی ہے۔
لیكن افسوس كہ كسی عہد كے دوران پیدا ہونے والے نئے مظاہر بہترافكار و نظریات اور كامل تر وسائل و عوامل كے اعتبار س زندگی كے لیے زیادہ سعادت بخش نہیں ہوتے۔یہ انسان ہی ہے جو اپنے زمانے، ماحول اور معاشرہ كو تشكیل دیتا ہے، اور انسان غلطی سے محفوظ نہیں ہے، اس اعتبار سے انسان كی صرف یہی ذمہ داری نہیں ہے كہ وہ وقر كے دہارے پر بہلتا چلا جائے اور اپنے دور كے افكار و نظریات، عادات و اطوار اور پسند و ناپسند كو اپنا تا چلا جائے اس كی ایك ذمہ داری یہ بھی ہے وقت كی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے اور زمانے كی اصلاح كرے اگر انسان خود كو صدفی صد زمانے كے مطابق بنا تا رہے گا تو پھر وہ زمانے كو كس چیز سے ہم آہنگ كرے گا؟
افلاس فكر ركھنے والے افراد كے لیے زمانے كے تقاضے یعنی"آج كی پسنداور سلیقہ"اور یہ جملہ"آج كی دنیا پسند نہین كرتے"ہر نظری، عملی، صوری، مادی، قیاسی، تجربی، اور استقرائی منطق كی رو سے ان كی شخصیت كو متاثر كرنے اور ان كے غیر مشروط طور پر سر تسلیم خم كر دینے كے لیے بہت كافی ہے، ان لوگون كے طرز فكر كی رو سے خصوصا دنیا نے مگرب میں كسی چیز كا فیشن اور سلیقہ قرار پانا یہ كہنے كے لیے كافی ہے كہ زمانے كے تقاضے بدل گئے ہین، ان كے نزدیك یہ جبر تاریخ ہے اس سے بچنا ممكن نہیں بلندی و ترقی كے لیے اسے اختیار كرنا لازم ہے، حالانكہ یہ انسان ہی ہے جو اپنے زمانے، ماحول اور اجتماعی عوامل كو تشكیل دیا ہے، یہ چیزین عالم قدس سے نازل نہیں ہوریں، انسان خود وہ مغرب كا رہنے والا ہی كیون نہ ہو غلطی غلطی كا سزاوار ہے۔
انسان عقل اور علم سے آراستہ ہونے كے ساتھ شہوت اور خواہش نفس بھی ركھتا ہے، مصلحت اور زندگی كی طرف وہ اچھے قدم اٹھا تا ہے تو كبھی كبھی اس كے قدم غلط سمت پر بھی اٹھ جاتے ہیں، اس اعتبار سے زمانہ جہان راہ راست پر پیش قدمی كر سكتا ہے وہاں وہ راہ انحراف بھی اختیار كر سكتا ہے، اس لیے جہاں زمانے كی ایسی پیش قدمیوں كا ساتھ دنیا چاہے وہاں اس كے انحرافات كی مزاحمت بھی كرنی چاہیے۔
لفظ "آزادی" كی طرح "زمانے كے تقاضے"ان كلمات میں سے ایك ہے جن كا مشرق كی سرزمین پر بڑا برا حشر ہوا ہے اور آج یہ كلمہ استعمار كا ایك ایسا مكلم ہتھیار ہے جس سے وہ مشرق كی اصل تہذیب پر ضرب لگائے اور اس پر مغربی روح مسلط كرنے كا كام لیتا ہے كتنے فریب ہیں جو اس عنوان سے دئے جاتے ہیں اور كتنی بد بختیاں ہیں جو اس خوبصورت كتبہ كے ساتھ ہم پر مسلط كی جاتی ہیں۔
كہا جاتا ہے كہ زمانہ علم ہے، بلا شبہ یہ بات درست ہے لیكن كیا اس سرچشمہ علم كے علاوہ دوسرے تمام سرچشمے انسان كے لیے خشك ہو چكے ہیں اور آج جو كچھ پیش كیا جا تا ہے وہ صحیح و خالص علم كی حیثیت ركھتا ہے؟ آخر كس دور مین ہمارے اس عہد كی مانند علم و دانش كو اس قدر قوت و قدرت اور وسعت حاصل رہی ہے اور كس زمانے میں اس دور كی طرضح علم و دانش اپنی آزادی سے محروم ہو كر شہرت كے عفریت كی غلام اور خود غرضی، جاہ طلبی، زر پر ستی و استحصال كے اژدہون كا شكار رہے ہیں؟
جو لوگ اس بات كے مدعی ہیں كہ زمانے كے تغیر پذیر تقاضے كسی قانون كو ہمیشہ كے لیے باقی نہیں رہے دیتے انہیں چاہیے متذكرہ بالا دو موضوعات كو ایك دوسرے سے الگ كریں تا كہ انہیں معلوم ہو كہ اسلام میں كوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے، جو بہتر زندگی كی جانب پیش قدمی كی مخالف ہو۔
ہمارے اس دور كی مشكل یہ ہے كہ آج كے انسانكو ان دونون باتوں كو الگ كر كے غور كرنے كی بہت كم توفیق ہوتی ہے، وہ قدیم كے ساتھ رشتہ جوڑ كر جمود اختیار كر لیتا ہے اور جو كچھ نیا ہو اس سے لڑنے لگتا ہے یا پھر اس قدر جہلات پر اتر آتا ہے كہ ہر نئی ظاہر ہونے والی چیز كو "زمانے كے تقاضوں" كے نام پر ضروری سمجھنے لگتا ہے۔
حركت ولچك
بعض مسائل جبر تاریخ، ضروریات زندگی میں تغیر زمانے كے تقاضے یہ تینوں باتیں ہمارے لیے سرف یہ جاننے كے لیے مفید ہیں كہ ہم ان بوتوں كو بہانی بنا كر اور آنكھیں بن كر كے كسی قانون كو ہدف نہیں بنا سكتے اور اس كی ابدیت كے مفكر نہیں ہو سكتے۔
واضع ہے كہ صرف ان مسائل پر بحث، قانون كی ابدیت كے مسئلے كی شكل حل كرنے كے لیے كافی نہیں ہے، اس لیے كہ یقیناً اگر كوئٰ ابدی قانونزندگی كی تمام متغیر صورتوں كا اھاطہ كرنا چاہے اور تمام مشكلات كے حل كرنے كی راہ دكھا ئے اور ہر مشكل كع بہتر طریقے پر رفع كر دے تو اسے قوت و حركت كے ساتھ ایك لچك سے بھی بہرہ مند ہونا چاہیے وہ خشك، جامد اور بے لچك نہ ہو، ابن ہم یہ دیكھین گے كہ اسلام اپنی اس اصل كی حفاظت كرتے ہوئے "حلال محمد حلال الی یوم القیامۃ و حرام محمد حرام الی یوم القیامۃ" زندگی كے مختلف مسائل كے حل كی راہ كسی طرح دكھا تا ہے۔
قیناً اسلام كے قانون سازی كے نظام میں كوئی راز اور رمز چھپا ہوا ہےجو اس بڑی مشكل پر قابو پا لیتا ہے اسلام كی منطقی روح كے تمام بھیدون اور رازوں كا سرچشمہ اس انسان كی فطرت و طبعیت، اجتماعیت اور پورے عالم كے ساتھ كامل وابستگی ہے۔
اسلام نے اپنے قوانین و ضوابط كے وضع كرنے میں فطرت كے احترام اور فطری قوانین كے ساتھ اپنی وابستگی كا با قاعدہ طور پر اعلان كیا ہے، اسلام كی یہی وہ جہت ہے جس نے قوانین اسلام كے ابدی ہونے كا املان پیدا كر دیا ہے۔
فطرت كے ساتھ اسلام كی وابستگی اور ربط كو مندرجہ ذیل نكات سے سمجھا جا سكتا ہے۔
1۔ حریم دین میں عقل كو جگہ دینا
دنیا كے كسی دین نے اسلام كی طرح عقل كے ساتھ اس قدر قریبی رشتہ نہں ركھتا ہے اور اس كے"حق"كو تسلیم نہیں كیا ہے، كسی دین كا نام لیا جا سكتا ہے كہ جس نے عقل كو اپنے احكام كے سرچشموں میں سے ایك سرچشمہ قرار دیا ہو، فقہاء اسلام نے احكام كے چار سر چشمے اور ذریعہ قرار دیئے ہیں، كتاب، سنت، اجتماعاور عقل، فقہائے اسلام عقل اور شرع كے درمیان نا قابل شكست رشتے كے قائل ہیں اور اسے ایك لازمی اصول قرار دیتے ہیں وہ كہتے ہیں:
"كل ما حكم بہ العقل حكم بہ الشرع و كل ما حكم بہ الشرع حكم بہ العقل"
"جو كچھ عقل سلیم حكم كرتے ہے شرع بھی اسی كے مطابق حكم كرتے ہے اور جس چیز كا شرع حكم دیتی ہے عقل بھی اس كا حكم كرتے ہے۔"
فقہ اسلامی میں خود عقل كسی قانون كو منكشف كرنے والی ہو سكتے ہے اور وہ كسی قانون میں قیود و حدود وضع كر سكتے ہے یا اس قانون میں عمومیت پیدا كر سكتے ہے اور تمام سرچشموں اور ذرائع سے استنباط كرنے میں بڑی اچھی مددگار ثابت ہو سكتی ہے۔
عقل كی دخل اندازی كا حق اس طرح پیدا ہوا ہے كہ اسلامی قوانین زندگی كی حقیقت سے سروكار ركھتے ہیں اسلام اپنی تعلیمات مین ایسی مجہول پر اسراریت اور رمزیت كا قائل نہیں ہے، جسے حل نہ كیا جا سكتا ہو۔
2۔ جامعیت اور خود قرآن كی تعبیر كے مطابق وسطیت
كسی قانون كا مكتب قانون كا یكطرفہ ہونا خود اپنے اندر اپنی تنسیخ كی دلیل ركھتا ہے، انسان كی زندگی پر غلبہ ركھنے والے اور اثر انداز ہونے والے عوامل بہت زیادہ ہیں، ان میں سے كسی ایك سے بھی صرف نظر كرنا خود عدم تعادل پیدا كرتا ہے، قوانین كے ابدی ہونے كا سب سے اہم عنصر ان كا تمام مادی، روحانی، انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں پر محیط ہونا ہے، تعلیمات اسلام كی جامعیت اور ہمہ جہتی كی صفت ہی اسلام سے شنا سا ہونے والوں كے درمیان اس كی مقبولیت كا سبب ہے، اس نكتہ پر تفصیلی بحث ہماری اس گفتگو كے دائرے سے باہر ہے۔
3۔ اسلام نے كبھی زندگی كی ظاہری شكل و صورت سے بحث نہیں كی
تمام اسلامی تعلیمات نے روح اور معانی پر اور اس طریقے پر توجہ دی ہے جو انسان كو ان مقاصد و معانی تك پہنچا تا ہے، اسلام نے مقاصد و معانی اور ان تك پہنچنے كے طریقے كی طرف رہنمائی اپنے ذمے لینے كے بعد انسان كو اس كے علاوہ دوسرے امور میں آزاد چھوڑدیا ہے، اس طرح اس نے تہذیب و تمدن كے توسیعی عمل كے ساتھ تصادم سے پرہیز كیا ہے۔
اسلام میں كوئی مادی وسیلہ اور كوئی ظاہری شكل نہیں ملے گی، جسے تقدس حاصل ہو اور مسلمان كی یہ ذمہ داری ہو كہ وہ اس شكل اور ظاہر كی حفاظت كرے، اس اعتبار سے علم و تمدن كے توسیعی مظاہر كے ساتھ تصادم سے پرہیز اسلام كی ایك ایسی جہت ہے كہ اس نے زمانے كے تقاضوں پر دین كو منطبق كرنے كا كام آسان كر دیا ہے اور اپنی ابدیت كی راہ میں حائل ہونے والی ایك بڑی ركاوٹ كو دور كردیا ہے۔
4۔ اس دین كی خاتمیت اور ابدیت
اس دین كی خاتمیت اور ابدیت كا ایك دوسرا زمر یہ ہے كہ قوانین فطرت كے ساتھ ہم آہنگی سے قوت حاصل كرت اہے اس نے انسان كی مستقل اور دائمی ضروریات كے لییے مستقل اور غیر متبدل قوانین بنائے ہیں اور تغیر پذیر حالات اور صورتوں كے لیے اس نے قابل تغیر وضع قانون كی پیش بینی كی ہے،
سطور بالا میں ہم كہہ چكے ہیں كہ بعض انسان ضروریات خواہ ان كا تعلق انفرادی شعبوں سے ہو یا اجتماعی شعبوں سے اپنی مستقل صورت ركھتے ہیں اور وہ تمام انسانوں میں یكساں ہوری ہیں، اسنان اپنی جبلتوں اور عادتوں كے لیے جو نظام وضع كرتا ہے وہ اخلاق كہلاتا ہے اور اجتماعی زندگی كے لیے جو نظام تشكیل دیتا ہے اس عدالت، كا نام دیا جاتا ہے اور وہ اپنے خالق سے جو رابطہ قائم كرتا ہے اور اپنے ایمان كی تجدید و تكمیل كرتا ہے اسے عبادت كہتے ہیں، ان تینوں كا تعلق ان مستقل قسم كی ضروریات سے ہے۔
انسان كی بعض دوسرے ضروریات تغیر پذیر ہوتی ہیں، جو قانون كے لحاظ سے ایسے قانون سازی كو لازم كرتے ہیں جس میں تبدیلی ہو سكتی ہے، اسلام نے ایسی تغیر پذیر احتیاجات كے لیے وضع قانون كی لچكدار صورت اختیار كی ہے اس طرح اس نے قابل تغیر حالات كے لیے قانون سازی كو مستقل اور غیر متبدل اصولوں كے ساتھ مربوط كر دیا ہے اور وہ اصول ہر تغیر پذیر نئی صورت حال میں خاص متناسب فرعی قانون كو وجود میں لاتے ہیں۔
ہم صرف دو مچالون پر اكتفا كرتے ہیں۔
اسلام میں ایك اجتماعی اصول یہ ہے:
"و اعدوا لہم ما استطعتم من قوہ" 16
عنی آخری امكانی حد تك دشمن كے مقابل قوت فراہم كرو اور طاقتور بن كر رہو، كتاب یعنی قرآن ہمیں اس اصول كی تعلیم دیتا ہے، دوسری طرف سنت سے ہمیں ہدایات كا ایك سلسلہ ملتا ہے كہ فہ میں یہ ہدایات "سبق و رمایتہ"كے عنوان سے معروف ہیں، ہدایت كی گئی ہے مسلمان اور ان كے فرزند گھوڑے سواری اور تیر اندازی میں كامل مہارت حاصل كرین، گھوڑے سواری اور تیر اندازی اس دور كے فنون حرب كے ایك اہم جز تھے اور دشمن كے مقابل قور كی فراہمی اور طاقتور بننے كا بہترین ذریعہ تھے، "سبق درمایہ"كے قانون كی اصل تو قرآنكا یہ حكم ہے:"و اعدو لہم ما استطعتم من قوہ"یعنی اسلام كے نقطہ نظر سے تیر، تلوار اور نیزہ اور گھوڑا اصلیت نہیں ركھتے، یہ اسلامی مقاصد كا جز نہیں ہیں، جو بات اصلیت ركھتی ہے، وہ یہ ہے كہ مسلمانوں كو ہر دور اور زمانے میں دشمن كے مقابل اپنے فوجی اور دفاعی وسائل كو آخری حد امكان تك مضبوط طاقتور بنا نا چاہیے۔
در حقیقت تیر اندازی اور گھوڑا دوڑانے میں مہارت ایك لباس ہے جو دشمن كے مقابل طاقت كے جسم كو پہنایا گیا ہے، دوسرے الفاظ میں تیر اندازی میں مہارت اس زمانے میں طاقتور بننے كی ایك عملی صورت تھی دشمن كے مقابل طاقتور بننے كا لزوم ایك مستقل قانون كی حیثیت ركھتا ہے، جو ایك دائمی اور مستقل ضرورت سے قوت حاصل كرنا ہے لیكن تیر اندازی اور اسب دوانی ایك وقتی ضرورت كا مظہر ہیں اور زمانے كے تقاضوں اور تہذیبی عوامل كی توسیع كے ساتھ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے اور دوسری چیزیں جیسے آج كے جدید اسلحہ كے استعمال میں مہارت كا حصول ان كی جگہ لے لیتی ہیں۔
دوسری مثال، پیغمبراكرم (ص) نے فرمایا ہے:
"علم و دانش كا حصول ہر مسلمان پر واجب ہے۔"
حكماء اسلام نے یہ ثابت كیا ہے كہ علم و دانش كا حصول اسلامی نقطہ نظر سے دو صوتوں میں واجب ہے:ایك اس صورت میں جبكہ ایمان كا حصول علم و دانش سے وابستہ ہو، دوسرے اس وقت جب كسی ذمہ داری كا پورا كرنا علم و دانش كے حصول پر منحصر ہو۔
دوسری صورت كے بارے میں كہا گیا ہے كہ طلب دانش كا واجب ہونا تیاری كے لیے ہے كہ انسان كسی ذمہ داری كے ادا كرنے كی قابلیت پیدا كرے۔
اس لیے علوم كا حصول كا واجب ہونا یا نہ ہونا زمانے كے تقاضوں كے مطابق مختلف ہو جاتا ہے، پچھلے بعض ادوار میں اسلامی فرائض كی ادائیگی حتی اجتماعی فرائض جیسے تجارت، صنعت و سیاست كے لیے دانش كا حصول زیادہ ضروری نہیں تھا، اس كے لیے عام تجربات كافی تھے، ہمارے زمانے كی طرح بعض دوسرے زمانوں میں ان فرائض كی ادائیگی اس قدر دشار و پیچیدہ رہی ہے كہ اس كے لیے برسون تعلیم اور خصوصی تربیت لازمی قرار پائی تا كہ اسلامی اجتماعی فرائض (واجبات كفائی) انجام پا سكیں، یہی وجہ ہے كہ سیاسی، اقتصادی اور فنی علوم كی تحصیل جو ایك دور میں واجب نہیں تھی، دوسرے دور میں واجب ہو جاتی ہے، ایسا كیوں ؟ اسلامی معاشرہ كے استقلال، عزت اور حیثیت كے تحفظ كے لازمی اصول پر عمل كرنا ایك مستقل اور دائمی اسا كی حیثیت ركھتا ہے اور موجودہ دور كے حالات میں تحصیل و تكمیل دانش كے بغیر اس اصول پر پوری طرح عمل نہیں كیا جا سكتا، اس فرض كی ادائگی مختلف زمانوں اور مختلف حالات میں یكساں شكل مین نہیں رہی ہے، اس سلسلے میں بہت سی مثالیں دی جا سكتی ہیں۔
5۔ اسلامی تعلیمات كی فطرت اور طبیعت كے ساتھ ہم آہنگی
ایك دوسرا پہلو جو فطرت اور طبیعت كے ساتھ اسلام تعلیمات كی ہم آہنگی كی علامت ہے جس كی وجہ سے السامی قوانین كی ابدیت كا امكان پیدا ہوتا ہے وہ حقیقی مصالح اور مفاسد كے ساتھ احكام السامی كا علت و معلول كا رابطہ اور اس رو سے احكام كی درجہ بندی ہے۔
اسلام نے یہ واضح كیا ہے كہ احكام حقیقی مصالح و مفاسد كے ایك سلسلے كے تابع ہیں اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے كہ یہ مصالح و مفاسد ایك ہی درجے میں نہیں ركھے جاتے۔
اسی وجہ سے فقہ اسلامی میں ایك مخصوص باب باب"تراجم"یا "اہم و مہم"ركھا گیا ہے تا ك فقہا اور اسلامی كاركنوں كے لیے مختلف مصالح و مفاسد كے یكجا ہونے اور ان سے واسطہ پڑنے كی صورت میں آسانی حاصل ہو، اسلام نے اس بات كی اجازت دی ہے كہ اس طرح كے مواقع پر علمائے امت مصلحتوں كی اہمیت كے درجوں كا خود اسلام كی رہنمائی میں پوری توجہ كے ساتھ یقین كریں اور زیادہ اہم مصالح كو كم اہمیت والے مصالح ترجیح دیں اور تعطل كی حالت سے باہر نكل آئیں، رسول اكرم (ص) سے روایت ہے۔
"اذا اجتمعت حرمتان طرحت الصغریٰ للكبریٰ"
"جہاں دو امور واجب الاحترام جمع ہوجائیں تو بڑے امر كی خاطر چھوٹے امر سے صرف نظر كرنا چاہیے۔"
ابن كثیر"النہایہ"میں اس حدیث كو نقل كرتے ہوئے لكھتے ہیں"
"اگر كوئی ایسا معامہ ہو جس میں جماعت كا فائدہ اور فرد كا نقسان ہو رہا ہو تو جماعت كا مفاد فرد كے نقصان پر مقدم ہے۔"
جو كچھ ابن كثیر نے كہا ہے وہ زیادہ اہم مصلحت كو كم اہمیت والی مصلحت پر مقدم ركھنے كے ایك موقع سے متعلق ہے، حدیث كا فائدہ اسی ایك موقع تك محدود نہیں ہے، مردہ جسم كے اعضاء كی تشریح (Anatomy) كے علم كو ہمارے دور میں علم كی ترقی كے لیے ضروری سمجھا گیا ہے، اس كا تعلق باب"تزاحم"سے ہے، جیسا كہ ہمیں معلوم ہے اسلام نے مسلمان كے بدن كے احترام اور مراسم تجہیزیں عجلت كو لازم قرار دیا ہے جبكہ ہمارے زمانے مین طب كی تعلیم و تحقیق كے ایك حصے كا انحصار تشریح پر ہے، اس طرح دو مصلحتیں ایك دوسرے كے مقابل آگئی ہیں، ظاہر ہے كہ طبی تعلیم و تحقیق كی مصلحت میت كی جلد تجہیز اور اس كے بدن كے احترام كی مصلحت پر مقدم ہے اس احتیاط كے ساتھ كہ غیر مسلم كی لاشوں كے كافی نہ ہونے كی صورت میں مسلمان كی لاش پر انحصار كیا جائے اور پہچانی جانے والی لاس كو چھوڑ كرنہ پہچنای جانے والی لا استعمال كی جائے اسی طرح دوسرے باتوں كا بھی لحاظ ركھنا چاہیے، اس طرح "اہم ومہم"كے قاعدہ كے تحت مسلمان لاش كے اعضاء كی تشریح كی ممانعت ختم ہو جاتی ہے، اس قاعدہ كے تحت بھی بہت سی مثالیں ہیں۔
6۔ اسلامی قوانین كو لچكدار بنانے والے قواعد كا وجود
ایك دوسری چیز جس نے اسلامی ضوابط كو لچك، حركت اور تطبیق كی خاصیت عطا كی ہے اور ان كی ہمیشگی كو بر قرار ركھا ہے، بعض كنٹرول كرنے والے قواعد كے سلسلے كی موجودگی ہے جسے اسلامی قوانین كے متن میں شامل كیا ہے، فقہاء نے ان قواعد كا بڑا انچھا نام ہے اور انہیں"حاكمہ"كہتے ہیں یعنی وہ قواعد جو تمام اسلامی احكام و ضوابط پر بالادستی ركھتے ہیں اور ان سب پر حكومت كرتے ہیں، یہ قواعد اعلیٰ مناسب ركھنے والے انسپكٹروں كی تمام احكام و ضوابط كی نگرانی كرتے ہیں اور انہیں كنٹرول كرتے ہیں، قاعدہ"حرج"اور قاعدہ"لاضرر"ان ہی نگران قواعد (حاكمہ) سے تعلق ركھتے ہیں، در حقیقت اسلام نے ان نگران قواعد كو ویٹو كیا حق دیا ہے ان قواعد كی داستان بڑی دلچسب اور مفصل ہے۔
7۔ اسلام كا اسلامی حكومت كو بعض مخصوص اختیارات دینا
كچھ دوسرے اختیارات میں جو اسلام نے حكومت اسلام كو اور دوسرے الفاظ میں اجتماع اسلامی كو دئیے ہیں یہ اختیارات ابتدائی درجہ میں خود پیغمبر (ص) كی حكومت سے تعلق ركھتے ہیں، اس كے بعد امام كی حكومت سے ان كا تعلق ہے پھر ہر شرعی حكومت كو یہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں، قرآن كریم كا ارشاد ہے:"النبی اولی بالمومنین من انفسہم"
"پیغمبر خود مومنین سے زیادہ ان كے نفوس پر تسلط كا حق ركھتا ہے۔
یہ اختیارات ایك وسیع دائرہ ركھتے ہیں، اسلامی حكومت جدید حالات اور جدید ضروریات كو پیش نظر ركھتے ہوئے اسلام كے اساسی اصول و مبانی پر توجہ كر كے ضوابط كا ایك سلسلہ وضع كر سكتی ہے كہ ماضی میں موضوعا موجود نہیں رہے ہیں! 17
حكومت اسلامی كی قوت كے لیے ان اختیارات كو وجود لامی شر ہے تا كہ وہ آسمانی قوانین كا بہتر طریقہ پر اجرا ۴ اور انہیں بہتر انداز مین زمانے كے تقاضوں سے ہم آہنگ كر سكے اور ہر دور كے مخصوص لائحہ عمل كو بہتر طور پر مرتب و منظم كر سكے یہ اختیارات كچھ حدود اور شرائط ركھتے ہیں كہ یہان ان كے بارے میں كچھ كہنے كی گنجائش نہیں ہے۔

16.سورۀانفال، آیت ۶۰.
17. رجوع كیجئے"تنبیہ الامہ" مرحوم آیت اللہ نائنی، صفحات۹۷، ۱۰۲، اور مقالہ"ولایت و زعامت" علامہ طباطبائی كے قلم سے، كتاب "مرجعیت و روحانیت" چاپ دوم صفحات ۸۲، ۸۴۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.