حدیث”ثقلین “و ” سفینہ

967

حدیث”ثقلین “و ” سفینہ
  اگر ھم اھل سنت کے مذکورہ راویوں پر شیعہ راویوں کا اضافہ کردیں تو حدیث ثقلین معتبر اور متواتر ھونے کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ پر نظر آتی ھے ،جس کے اعتبار کا مقابلہ حدیث غدیر کے علاوہ کسی اور حدیث سے نھیں کیا جا سکتا ۔حدیث ثقلین کا متن یہ ھے
”انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی ماان تمسکتم بھما لن تضلوا ابدا ولن یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض“
”میں تمھارے درمیان دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رھا ھوں ،ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری عترت و اھل بیت(ع) ھیں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رھوگے ھرگز گمراہ نہ ھوگے یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ھوں گے ،یھاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پہ پھنچ جائیں“
البتہ یہ حدیث اس سے بھی وسیع انداز میں نقل ھوئی ھے ۔حتی ابن حجر نے لکھا ھے کہ
پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس حدیث کے آخر میں اضافہ فرمایا:
”ھٰذا علی من القرآن و القرآن مع علی لا یفترقان“
حدیث”ثقلین “اورحدیث ” سفینہ"قرآن و عترت کا باھم اٹوٹ رشتہ
حدیث ثقلین (1) اسلام کی ان قطعی و متواتر احادیث میں سے ھے جسے علمائے اسلام نے پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے نقل کیا ھے ۔مختلف زمانوں اور صدیوں میں اس حدیث کے متعدد اور قابل اعتماد اسناد پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حدیث کو قطعی ثابت کرتے ھیں اور کوئی بھی صحیح فکر اور صحیح مزاج والا شخص اس کی صحت و استواری میں شک نھیں کر سکتا ۔
علمائے اھل سنت کے نقطہ نظرسے اس حدیث کا جائزہ لینے سے پھلے ھم ان سے بعض افراد کی گواھی یھاں نقل کرتے ھیں:

”منادی“ کے بقول:یہ حدیث ایک سو بیس (120) سے زیادہ صحابیوں نے

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے نقل کی ھے ۔ (2)

ابن حجر عسقلانی کے بقول : حدیْث ثقلین بیس (20) سے زیادہ طریقوں سے نقل ھوئی ھے(3)

عظیم شیعہ عالم علامہ میر حامد حسین مرحوم ،جن کا انتقال 1306ء ہ میں ھوا ھے ،انھوں نے مذکورہ حدیث کو علمائے اھل سنت کی 502 کتابوں سے نقل کیا ھے ۔ حدیث کی سند اور دلالت سے متعلق ان کی تحقیق چہ جلدوں میں اصفھان سے شائع ھو چکی ھے ، شائقین اس کتاب کے ذریعہ اس حدیث کی عظمت سے آگاہ ھو سکتے ھیں۔

اگر ھم اھل سنت کے مذکورہ راویوں پر شیعہ راویوں کا اضافہ کردیں تو حدیث ثقلین معتبر اور متواتر ھونے کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ پر نظر آتی ھے ،جس کے اعتبار کا مقابلہ حدیث غدیر کے علاوہ کسی اور حدیث سے نھیں کیا جا سکتا ۔حدیث ثقلین کا متن یہ ھے

”انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی ماان تمسکتم بھما لن تضلوا ابدا ولن یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض“

”میں تمھارے درمیان دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رھا ھوں ،ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری عترت و اھل بیت(ع) ھیں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رھوگے ھرگز گمراہ نہ ھوگے یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ھوں گے ،یھاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پہ پھنچ جائیں“

البتہ یہ حدیث اس سے بھی وسیع انداز میں نقل ھوئی ھے ۔حتی ابن حجر نے لکھا ھے کہ

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس حدیث کے آخر میں اضافہ فرمایا:

”ھٰذا علی من القرآن و القرآن مع علی لا یفترقان“ (4)

”یعنی یہ علی ھمیشہ قرآن کے ساتھ ھیں اور قرآن علی کے ھمراہ ھے۔یہ دونوںایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے“

مذکورہ بالا روایت حدیث کی وہ مختصر صورت ھے جسے اسلامی محدثوں نے نقل کیا ھے اور اس کی صحت پر گواھی دی ھے ۔ لیکن حدیث کی صورت میں اختلاف کی وجہ یہ ھے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مختلف موقعوں پر الگ الگ تعبیروں میں لوگوں کو قرآن و اھل بیت(ع) کے اٹوٹ رشتہ سے آگاہ کیا ھے ۔ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ان دونوں حجتوں کے ربط کو حجة الوداع کے موقع پر غدیر خم (5) میں۔منبرپر (6)، اور بستر بیماری پر (7) جب کہ آپ کا حجرہ اصحاب سے بھرا ھو ا تھا ،بیان کیا تھا ۔اور اجمال و تفصیل کے لحاظ سے حدیث کے اختلاف کی وجہ یہ ھے کہ آنحضرت نے اسے مختلف تعبیروں سے بیان کیا ھے

اگر چہ حدیث مختلف صورتوں سے نقل ھوئی ھے اور پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی دو یادگاروں کو کبھی ”ثقلین “ کبھی ”خلیفتین“ اور کبھی ” امرین“ کے الفاظ سے یاد کیا ھے ، اس کے باوجود سب کا مقصد ایک ھے اور وہ ھے قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اھل بیت (ع)کے درمیان اٹوٹ رابطہ کا ذکر۔

حدیث ثقلین کا مفاد

حدیث ثقلین کے مفاد پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ھوتی ھے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اھل بیت (ع)گناہ تو گناہ خطا ولغزش سے بھی محفوظ و معصوم ھیں ،کیوں کہ جو چیز صبح قیامت تک قرآن کریم سے اٹوٹ رشتہ و رابطہ رکھتی ھے وہ قرآن کی ھی طرح ( جسے خدا وند عالم نے ھر طرح کی تحریف سے محفوظ رکھا ھے) ھر خطا و لغزش سے محفوظ ھے۔

دوسرے لفظوں میںیہ جو پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا کہ اسلامی امت صبح قیامت تک (جب یہ دونوں یادگاریں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ملاقات کریں گی) ان دونوں سے وابستہ رھے اور ان دونوں کی اطاعت و پیروی کرے ،اس سے یہ بات اچھی سمجھی جا سکتی ھے کہ یہ دونوں الٰھی حجتیں اور پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی یادگاریں ،ھمیشہ خطا و غلطی سے محفوظ اور ھر طرح کی کجی و انحراف سے دور ھیں ۔ کیوں کہ یہ تصور نھیں کیا جا سکتا کہ خدا وند عالم کسی عاصی و گناھگار انسان کی اطاعت ھم پر واجب کرے یا قرآن مجید جیسی خطا سے پاک کتاب کا کسی خطا کار گروہ سے اٹوٹ رشتہ قرار دےدے ۔قرآن کا ھمسر اور اس کے برابر تنھا وھی گروہ ھو سکتا ھے جو ھر گناہ اور ھر خطا و لغزش سے پاک ھو۔

جیسا کہ ھم پھلے عرض کر چکے ھیں ،امامت کے لئے سب سے اھم شرط عصمت یعنی گناہ و خطا سے اس کامحفوظ رھنا ھے ۔آگے بھی ھم عقل کی روشنی میں الٰھی پیشواؤںاور رھبروں کے لئے اس کی ضرورت پر ثبوت فراھم کریں گے حدیث ثقلین بخوبی اس بات کی گواہ ھے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عترت و اھل بیت (ع)قرآن کی طرح ھر عیب و نقص ،خطا و گناہ سے پاک ھیں اور چونکہ ان کی پیروی واجب کی گئی ھے لھٰذا انھیں بھر حال گناہ و معصیت سے پاک ھونا چاھئے۔

امیر الموٴمنین (ع)کا حدیث ثقلین سے استدلال

کتاب ”احتجاج “ کے موٴلف احمد بن علی ابن ابیطالب کتاب ”سلیم بن قیس “ سے (جوتابعین میں ھیں اور حضرت امیر المومنینں کے عظیم شاگرد ھیں)نقل کرتے ھیں کہ عثمان کی خلافت کے دور میں مسجد النبی میں مھاجرین و انصار کا ایک جلسہ ھو اجس میں ھر شخص اپنے فضائل و کمالات بیان کر رھا تھا ۔ اس جلسہ میں امام علیں بھی موجود تھے لیکن خاموش بیٹھے ھوئے سب کی باتیں سن رھے تھے ۔ آخر کا ر لوگوں نے امام (ع)سے درخواست کی کہ آپ (ع)بھی اپنے بارہ میں کچھ بیان کریں ،امام نے ایک تفصیلی خطبہ ارشاد فرمایاجس میں چند آیات کی تلاوت بھی فرمائی جو آپ کے حق میں نازل ھوئی تھی اس کے ساتھ ھی آپ نے ارشاد فرمایا: میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ھوں کیا تم جانتے ھو کہ رسول خدا نے اپنی زند گی کے آخری ایام میں خطبہ دیا تھا اور اس میں فرمایا تھا:

” یا اٴیھا الناس انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی فتمسکوا بھما لاتضلوا “

” اے لوگو! میں تمھارے درمیان دو گرانقدر میراث چھوڑے جا رھا ھوں ۔ اللہ کی کتاب اور میرے اھل بیت (ع)پس ان دونوں سے وابستہ رھو کہ ھر گز گمراہ نہ ھوگے ۔ (8)

مسلم ھے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اھل بیت (ع)سے مراد ان سے وابستہ تمام افراد نھیں ھیں کیوں کہ امت کا اس پر اتفاق ھے کہ تمام وابستہ افراد لغزش و گناہ سے پاک و مبرا نھیں تھے بلکہ اس سے مراد وہ معین تعداد ھے جن کی امامت پر شیعہ راسخ عقیدہ رکھتے ھیں۔

دوسرے لفظوں میں اگر ھم حدیث ثقلین کے مفاد کو قبول کر لیں تو عترت و اھل بیت کے افراد اور ان کے مصداق مخفی نھیں رہ جائیں گے کیوں کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے فرزندوں یا ان سے وابستہ افراد کے درمیان صرف وھی لوگ اس حدیث کے مصداق ھو سکتے ھیں جو ھر طرح کی لغزش و خطا سے مبرا و پاک ھیں اور امت کے درمیان طھارت ،پاکیزگی ،اخلاقی فضائل اور وسیع و بیکراں علم کے ذریعہ مسلمانوں میں مشھور ھیں اور لوگ انھیں نام و نشان کے ساتھ پھچانتے ھیں۔

ایک نکتہ کی یاد دھانی

اس مشھوراور متفق علیہ حدیث یعنی حدیث ثقلین کا متن بیان ھو چکا اور ھم نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ھر جگہ" کتاب و عترت “ کو اپنی دو یاد گار کے عنوان سے یاد کیا ھے اور ان دو الٰھی حجتوں کے باھم اٹوٹ رشتہ کو ذکر کیا ھے لیکن سنت کی بعض کتابوں میں کھیں کھیں ندرت کے ساتھ ”کتاب اللہ و عترتی “ کے بجائے ”کتاب اللہ و سنتی “ ذکر ھو اھے اور ایک غیر معتبر روایت کی شکل میں نقل ھوا ھے ۔

ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب میں حدیث کی دوسری صورت بھی نقل کی ھے اور اس کی توجیہ کرتے ھوئے لکھا ھے کہ : در حقیقت سنت پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)جو قرآنی آیات کی مفسر ھے اس کی بازگشت خود کتاب خدا کی طرف ھے اور دونوں کی پیروی لازم وواجب ھے ۔

ھمیں اس وقت اس سے سرو کار نھیں کہ یہ توجیہ درست ھے یا نھیں ۔جو بات اھم ھے یہ ھے کہ حدیث ثقلین جسے عام طور سے اسلامی محدثوں نے نقل کیا ھے وہ وھی ” کتاب اللہ و عترتی “ھے اور اگر جملہ ”کتاب اللہ و سنتی “ بھی پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے صحیح و معتبر سند کے ساتھ نقل ھوئی ھوگی تو وہ ایک دوسری حدیث ھوگی ۔ جو حدیث ثقلین سے کوئی ٹکراؤ نہ رکھے گی ۔جبکہ یہ تعبیر احادیث کی کتابوں میں کسی قابل اعتماد سند کے ساتھ نقل نھیں ھوئی ھے ۔اور جو شھرت و تواتر پھلی بایوں کھا جائے کہ اصل حدیث ثقلین کو حاصل ھے وہ اسے حاصل نھیں ھے۔

عترت پیغمبر سفینہٴ نوح کے مانند

اگر حدیث سفینہ کو حدیث ثقلین کے ساتھ ضم کردیا جائے تو ان دونوں حدیثوں کا مفادپیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اھل بیت (ع)کے لئے فضائل و کمالات کی ایک دنیا کو نمایاں کرتاھے۔

سلیم ابن قیس نے لکھا ھے کہ : میں حج کے زمانہ میں مکہ میں موجود تھا.میں نے دیکھا کہ جناب ابوذر غفاری کعبہ کے حلقہ کو پکڑے ھوئے بلند آواز میں کھہ رھے ھیں:

اے لوگو! جو مجھے پھچانتا ھے وہ پھچانتاھے اور جو نھیں پھچانتا میں اسے اپنا تعارف کراتا ھوں۔ میں جندب بن جنادہ ”ابوذر“ھوں.اے لوگو! میں نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سنا ھے کہ"

”ان مثل اھل بیتی فی امتی کمثل سفینة نوح فی قومہ من رکبھا نجیٰ ومن ترکھا غرق“

میرے اھل بیت کی مثال میری امت میں جناب نوح کی قوم میں ان کی کشتی کے مانند ھے کہ جو شخص اس میں سوار ھوا اس نے نجات پائی اور جس نے اسے ترک کردیا وہ غرق ھوگیا. (9)

حدیث سفینہ ،حدیث غدیر اور حدیث ثقلین کے بعد اسلام کی متواتر حدیثوں میں سے ھے اور محدثین کے درمیان عظیم شھرت رکھتی ھے .

کتاب عبقات الانوار (10) کے مولف علامہ میر حامد حسین مرحوم نے اس حدیث کو اھل سنت کے نوے /90 مشھور علماء و محدثین سے نقل کیا ھے. (11)

حدیث سفینہ کا مفاد

حدیث سفینہ جس میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عترت کو نوح کی کشتی سے تعبیر کیا گیا ھے.اس سے صاف ظاھر ھوتا ھے کہ اھل بیت (ع)کی پیروی نجات کا سبب اور ان کی مخالفت نابودی کا سبب ھے ۔

اب یہ دیکھنا چاھیئے کہ کیا صرف حلال و حرام میں ان کی پیروی کرنا چاھیئے اور سیاسی و اجتماعی مسائل میں ان کے ارشاد و ھدایت پر عمل کرنا واجب نھیں ھے یا یہ کہ تمام موارد میں ان کی پیروی واجب ھے اور ان کے اقوال اور حکم کو بلا استثناء جان و دل سے قبول کرنا ضروری ھے ؟

جولوگ کھتے ھیں کہ اھل بیت (ع)پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی پیروی صرف دین کے احکام اور حلال و حرام سے مربوط ھے وہ کسی دلیل کے بغیر پیروی کے موضوع کو محدود کرتے ھیں اور اس کی وسعت کو سمجھنے کی کوشش نھیںکرتے جب کہ حدیث میں اس طرح کی کوئی قید و شرط نھیں ھے۔

لھٰذا حدیث سفینہ بھی اس سلسلہ میں وارد ھونے والی دوسری احادیث کی طرح اسلامی

قیادت و سرپرستی کے لئے اھل بیت (ع)کی لیاقت و شائستگی کو ثابت کرتی ھے۔

اس کے علاوہ مذکورہ حدیث اھل بیت (ع)کی عصمت و طھارت اور ان کے گناہ و لغزش سے پاک ھونے کی بھترین گواہ ھے،کیونکہ ایک گناھگار و خطا کار بھلا کس طرح دوسروں کو نجات اور گمراھوں کی ھدایت کرسکتا ھے ؟!

حضرت امیر المومنین ںاور ان کے جانشینوں کی ولایت اور امت اسلام کی پیشوائی و رھبری کے لئے ان کی لیاقت و شائستگی کے دلائل اس سے کھیں زیادہ ھیں اور اس مختصر کتاب میں سمیٹے نھیں جاسکتے لھٰذا ھم اتنے ھی پر اکتفا کرتے ھیں اور اپنی گفتگو کاآغاز عصمت کے موضوع سے کرتے ھیں جو الٰھی رھبروں کے لئے بنیادی شرط ھے ۔

حوالہ جات
1۔ ثقل ،فتح ”ق“ اور ”ث“ اس کے معنی ھیں کوئی بھت نفیس اور قیمتی امر ۔ اور کسرِ ”ث“ اور جزم ”ق“ سے مراد کوئی گرانقدر چیز.
2۔فیض القدیر ،ج/3ص/14
3۔صواعق محرقہ ،عسقلانی ،حدیث 135
4۔ ینابیع المودة ص/32وص/40
5۔ مستدرک ،حاکم ،ج/3ص/109 وغیرھ
6۔ بحار الانوار ج/22ص/76نقل از مجالس مفید
7۔ الصواعق المحرقہ ،ص/75
8۔احتجاج ج/1،ص/210
9۔احتجاج طبرسی،ص/228
10۔جزء دوم از جلد دوازدھم ،ص/914کے بعد ملاحظہ فرمائیں۔
11۔ مستدرک حاکم ،ج/3،ص/343۔کنز العمال ،ج/1،ص/250۔صواعق،ص/75۔ فیض القدیر،ج/4،ص/356۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.