عظمت ِعورت بہ حیثیت زوجہ

141

ارشاد ہے کہ الجنة تحت اقدام الامہات ۔ جنت ما ں کے قدمو ں کے نیچے ہے ۔ نیزارشاد رب العزت ہے: وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ اللہ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا “او ر جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا ( اور کہا ) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو او راپنے والدین پر احسان کرو ۔” ( سورہ بقرہ : ۸۳) پھر ارشاد رب العزت ہے : کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرَاًن الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ۔ “تمہارے لیے یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے او روہ کچھ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ والدین اور رشتہ دارو ں کے لیے مناسب طور پروصیت کرے۔” سورہ بقرہ: ۱۸۰ نیزارشاد رب العزت ہے : وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَإِنْ جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا “او رہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کاحکم دیا ہے اگر تیرے ماں باپ میرے ساتھ شرک پر مجبور کریں جس کا تجھے کو ئی علم نہ ہو توان دونوں کا کہنا نہ ماننا۔” (سورہ عنکبوت : ۸) اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض آیات میں اپنی عبادت اورشرک نہ کرنے کے فوراً بعد والدین کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا ہے ۔ جیساکہ ارشاد رب العزت ہے: وَاعْبُدُوا اللہ وَلَاتُشْرِکُوْا بِہ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا۔ “او رتم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو او رکسی کو اسکا شریک قرار نہ دو او رماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔” (سورہ نساء : ۳۶) اللہ نے دس حقوق انسانی کا تذکرہ کرتے ہوئے پہلے اپنے ساتھ شرک نہ کرنے اور والدین سے اچھائی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے: قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ أَلاَّ تُشْرِکُوْا بِہ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا۔ “کہہ دیجئے آو ٴمیں تمہیں وہ چیزیں بتا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کر دی ہیں وہ یہ ہیں کہ تم لوگ کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ اور والدین پر احسان کرو۔” (انعام: ۱۵۱) مزید ارشاد رب العزت ہے: وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَا أُفٍّ وَّلَاتَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیرًا۔ “اورتمہارے کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بوڑھے ہو جائیں تو خبر دار ان سے اف تک نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں بلکہ ان سے عزت و تکریم سے بات کرنا اور ان کیلئے خاکساری کے ساتھ کاندھوں کو جھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگارا ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے پالا ہے۔” ( بنی اسرائیل :۲۳تا ۲۴) ماں باپ کی عظمت کا کیا کہنا اللہ کا فیصلہ ہے کہ میری عبادت کرواور پھر والدین کے ساتھ احسان کرو۔ پھر اف کہنے تک کی اجازت نہیں ہے بہرحال اس حکم میں ماں بھی شریک ہے جیساکہ انبیاء اور اولیاء بھی اپنی دعاوٴں میں باپ کے ساتھ ماں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں ۔ جیساکہ حضرت نوح کے متعلق ارشاد رب العزت ہے: رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۔ “پروردگار! مجھے اور میرے والدین ، اور جو ایمان کی حالت میں میرے گھر میں داخل ہو ، اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو معاف فرما ۔” (نوح :۲۸) اس دعا میں ماں اور ہر مومن عورت کا تذکرہ موجود ہے ۔ اسی طرح حضرت ابراہیم کے متعلق ارشاد رب العزت ہے: رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۔ “پروردگار! مجھے ، میرے والدین اور ایمان والوں کو بروز حساب مغفرت سے نواز۔”(ابراہیم :۴۱) حضرت سلیمان بھی اپنے معصوم اورنبی باپ کے ساتھ اپنی والدہ کو بھی دعا میں شریک کر رہے ہیں جیساکہ ارشاد رب العزت ہے: رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ۔ “پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جن سے تو نے مجھے اور میرے والدین (ماں باپ) کو نوازا ہے ۔”( احقاف :۱۵) اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ – کو ان پر ان کی والدہ پرکیے گئے احسان کا تذکرہ فرمارہا ہے: إِذْ قَالَ اللہ یَاعِیَسٰی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَعَلی وَالِدَتِکَ ۔ “جب حضرت عیسیٰ بن مریم سے اللہ نے فرمایا:یاد کیجئے میری اس نعمت کو جو میں نے آپ اور آپ کی والدہ کو عطا کی۔” (مائدہ :۱۱۰) حضرت عیسیٰ اللہ سے اپنی ماں کے ساتھ نیکی کی خواہش کر رہے ہیں۔ وَبَرًّا بِوَالِدَاٰتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا۔ ( اللہ نے) مجھے اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا اورمجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔” (مریم :۳۲) الٰہی کتاب قرآن مجید کی رو سے ،عورت اور مرد میں خلقت،اعمال، کردار،اخلاق ، نیکی ، بدی، جزا و سزا، انعام و اکرام ، حیات طیبہ ، وغیرہ میں سے کسی لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ اللہ نے معیار ِتفاضل ، معیار ِبہتری اور معیارِبلندی صرف تقویٰ اور خوف خدا کو قرار دیا ہے۔ اے انسان! عورت تیری طرح کی اورتیرے ہی جیسی انسان ہے۔وہ بیٹی بن کرتجھ پر رحمت برساتی ہے۔بیوی بن کر تیرے دین اور ایمان کی تکمیل کرتی ہے اور ماں بن کر تجھے جنت کا تحفہ پیش کرتی ہے۔ جب بیٹی بنے تو خوش ہو جا کہ تجھ پر رحمت خدا کا نزول ہوا ہے۔جب وہ زوجہ نہیں بنی تھی تو،تو اکیلا تھا لیکن اب تجھے دوست، شریک کار ،ساتھی،اور مشیر مل گیاہے ۔جب ماں بنی تو ،تو اس کے پاوٴں پکڑ کر خدمت کر کیونکہ تجھے جنت کا وسیلہ مل گیا ہے۔ خدایا تو ہم سب کو حقیقی مسلم اور موٴمن بننے کی توفیق عطا فرما۔ احکام و حقوق میں مرد و عورت کا اشتراک ارشاد رب العزت : وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ” اور عورتوں کو بھی دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔” ( سورہ بقرہ آیت ۲۲۸) مدینہ سے بعض مسلمان مکہ آئے۔ مخفیانہ حضور کے دست مبارک پر بیعت کی ان میں دو عورتیں تھیں۔ نسیبہ بنت کعب ۔ اسماء بنت عمرو ابن عدی۔ فتح مکہ کے وقت عورتوں سے باقاعدہ علٰیحدہ بیعت لی گئی۔ ارشاد رب العزت ہے: یَاأَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا جَائَکَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی أَنْ لَّایُشْرِکْنَ بِاللہ شَیْئًا وَّلَایَسْرِقْنَ وَلَایَزْنِینَ وَلاَیَقْتُلْنَ أَوْلاَدَہُنَّ وَلاَیَأْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہ بَیْنَ أَیْدِیْہِنَّ وَأَرْجُلِہِنَّ وَلاَیَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللہ إِنَّ اللہ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ “اے نبی جب مومنہ عورتیں اس بات پر آپ سے بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرئیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کا ارتکاب بنائیں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان (غیر قانونی اولاد) گھڑ کر (شوہر کے ذمے ڈالنے) لائیں گی اور نیک کاموں میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔ تو ان سے بیعت لے لیں۔ اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں۔ اللہ یقینا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورہ ممتحنہ : ۱۲) اسلام کی نظر میں عورت کی پہچان ۔ اس عنوان سے ہے کہ اجتماعیت کا تکامل اسی وجہ سے ہے خواہ عورت بیٹی ہو ، زوجہ ہو یا ماں۔ اسلامی قانون میں عورتیں ، کسب معاش ، تجارت ، عبادت و وظائف میں مردوں کے مساوی ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے: وََلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللہ مِنْ فَضْلِہ إِنَّ اللہ کَانَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا ۔ “اور جس چیز میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی تمنا نہ کیا کرو۔ مردوں کو اپنی کمائی کا صلہ اور عورتوں کو اپنی کمائی کا صلہ مل جائے گا اور اللہ سے اس کا فضل و کرم مانگتے رہو یقینا اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔” ( النساء :۳۲) آسمان و زمین کی خلقت ،لیل و نہار کی آمد ، رات و دن عبادت خدا، خلقت عام میں تفکر، دعاؤں کا طلب کرنا، معارف اسلامی کی معرفت اور عملی عقیدہ ان سب امور میں۔ مرد و عورت شریک۔ ثواب و جزاء کے حق دار، کسب معارف، حمل امانت الٰہی میں سب برابر ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے : یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ یَسْعٰی نُوْرُہُمْ بَیْنَ أَیْدِیْہِمْ وَبِأَیْمَانِہِمْ بُشْرَاکُمُ الْیَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیہَا ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔ “قیامت کے دن آپ مومنین و مومنات کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا (ان سے کہا جائے گا) آج انہیں ان جنتوں کی بشارت ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، جن میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہوگا، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔ ” (سورہ حدید:۱۲) نورکی موجودگی میں عورت مرد مساوی مدارج۔ عبادات اسلام و ایمان میں مساوی۔ ارشاد رب العزت ہے: إِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِیْنَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِیْنَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِیْنَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِیْنَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاکِرِیْنَ اللہ کَثِیْرًا وَّالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللہ لَہُمْ مَّغْفِرَةً وَّأَجْرًا عَظِیْمًا ۔ “یقینا مسلم مرد اور مسلمہ عورتیں۔ مومن مرد اور مومنہ عورتیں۔ اطاعت گزار مرد اوراطاعت گزار عورتیں۔ راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے وال مرد اور صبرکرنے والی عورتیں۔ فروتنی کرنے والے مرد اور فروتن عورتیں۔ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں۔ روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں ۔ اپنی عفت کے محافظ مرد اور اپنی عفت کی محافظ عورتیں خدا کو یہ کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں ۔وہ ہیں جن کے لئے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔ ” (احزاب ۳۵) حفظ قانون ، نظارت امن ، باہمی اجتماع کا وجود عورت و مرد دونوں کا وظیفہ قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد رب العزت ہے: وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنَ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکَاةَ وَیُطِیْعُوْنَ اللہ وَرَسُوْلَہ أُوَلَئِکَ سَیَرْحَمُہُمْ اللہ إِنَّ اللہ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۔ ” اور مومن مرد و مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے خیر خواہ ہیں وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوة ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا۔ بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا حکمت والا ہے۔” (سورہ توبہ: ۷۱) ازواج نبی اعظم کو حکم ہے معارف قرآن کے حصول اور آپس میں مذاکرہ کرنے کا : وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ اللہ وَالْحِکْمَةِ إِنَّ اللہ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا ۔ “اور اللہ کی ان آیات و حکمت کو یاد رکھو۔ جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے۔ اللہ یقینا بڑا باریک بین اور خوب با خبر ہے۔” (احزاب ۳۴) گویا ہر گھر میں موجود عورت کو حکم ہے معارف قرآنی کے حصول اس کی دوسری عورتوں کو ترغیب اور عمل پیرا ہونے کا۔ یہی اسلامی فریضہ ہے جو مرد و عورت دونوں نے بروئے کار لاناہے ۔ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا جس میں عورت مرد شریک ہیں ۔ ارشا د رب العزت ہے : وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلاَمُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَی اللہ وَرَسُولُہ أَمْرًا أَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ أَمْرِہِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللہ وَرَسُولَہ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنًا “اور کسی مومن مرد و مومنہ عورت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب اللہ اور اسکا رسول کسی معاملہ میں فیصلہ کریں تو انہیں اپنے معاملہ میں اختیار حاصل رہے۔اور جس نے اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہو گیا۔” (احزاب :۳۶) عزیز من !ان آیا ت سے معلوم ہو اکہ مرد و عورت کا امتیاز اعمال و کردار کی بلندی و پستی کی بدولت ہے جو اللہ سے زیادہ مربوط ہو گا وہی عالی درجہ پر فائز ہوگا ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.