جمعۃ الوداع عالمی یوم القدس

222

ماہ رمضان المبارک کا مہینہ اپنی برکتوں اور فضیلتوں کو سمیٹے ہمارے درمیان موجود ہے اور رفتہ رفتہ آگے بڑھ رہا ہے، جس قدر یہ ماہ مبارک اپنے آخری ایام کی جانب رواں دواں ہے، اسی طرح مسلم امہ اس ماہ مبارک کے رمضان کے آخری عشرے میں اپنے رب کے حضور زیادہ سے زیادہ عبادات بجا لانے میں مصروف عمل ہے، آخری عشرے کی طاق راتیں شب قدر کہلاتی ہیں یعنی ان راتوں میں اللہ کی کتاب قرآن کریم جو پیغمبر اکرم (ص) کے سینہ پر نازل ہوئی، کے نزول کی راتیں شمار ہوتی ہیں، ان راتوں میں پوری دنیا میں مسلمان رات بھر اللہ کی عبادات میں مصروف عمل رہتے ہیں، اسی طرح انہی آخری ایام میں ایک یوم جمعہ ہے، جسے عام زبان میں ہم ‘جمعۃ الوداع‘‘ کہتے ہیں۔
اس روز مسلمان غسل کرکے نئے لباس زیب تن ہو کر مسجدوں کی طرف رخ کرتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق جمعۃ الوداع کے روز عام دنوں کی نسبت دو سو گنا زیادہ افراد مساجد کی جانب رخ کرتے ہیں اور اللہ تعالٰی کے حضور سر بسجود ہو کر ماہ مبارک رمضان کی برکتوں اور فضیلتوں کو خود سے جدا ہونے پر گریہ و زاری کرتے ہیں۔ اس روز ہر مسلمان کی روح انتہائی پاکیزہ اور بلند درجات پر پہنچ چکی ہوتی ہے اور ہر مسلمان خود کو اپنے پروردگار سے بے حد قریب محسوس کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔
انقلاب اسلامی ایران کے بانی اور بیسویں صدی کے عظیم رہنما حضرت آیت اللہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی دن کو یعنی جمعۃ الوداع کو مسلمانوں کے درمیان ‘عالمی یوم القدس‘‘ قرار دیا ہے، اور فرمایا ہے کہ ‘جمعۃ الوداع یوم القدس، یوم اللہ، یوم رسول اللہ (ص)، یوم اسلام ہے، جو اس دن کو نہیں مناتا وہ استعمار امریکہ اور اسرائیل کی خدمت کرتا ہے‘‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جمعۃ الوداع کو ہی کیوں یوم القدس قرار دیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں یقیناً ہر ذی شعور یہی جواب دے گا کہ آج کے دن جہاں ہر مسلمان اپنے اللہ کے حضور سر بسجود ہو کر رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے میں لگا ہوا ہے، وہاں دنیا کے اندر مظلوم بنا دئیے جانے والے مسلمانوں اور انسانوں کو بھی یاد کرے۔ پیغمبر اکرم (ص) کی حدیث مبارکہ ہے کہ ‘مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔‘‘ پس ثابت ہوتا ہے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیئے جانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ جس روز پوری دنیا کے مسلمان یکجا ہو کر اللہ کی عبادت میں مصروف ہوں اور رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے میں مصروف عمل ہوں، وہاں اللہ کی مخلوق کو اپنی دعاؤں اور اپنے عمل میں یاد رکھیں اور حضرت محمد (ص) کی حدیث کی مصداق بنتے ہوئے دنیا کے ان مظلوموں کی نصرت کا عہد کریں کہ جن کو ان کی سرزمینوں سے نکال دیا گیا ہے، جن کے گھروں پر قبضے کر لئے گئے ہیں، جن کے بچوں کو قتل کیا گیا ہے، جن کے گھروں کو بھاری مشینری سے مسمار کر دیا گیا ہے، جن کے اہل و عیال کو ان کے معصوم بچوں سمیت گولیوں اور ٹینکوں کے گولوں سے چھلنی کر دیا گیا ہے۔ یقیناً رمضان المبارک کا برکتوں بھرا مہینہ ہم سے متقاضی ہے کہ ہم جہاں روزہ کی حالت میں تمام گناہوں سے پاک رہتے ہوئے اللہ کے قریب ہوں، تو ایسے اوقات میں ہمیں اپنے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیئے اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں کا قبلہ اول جسے بیت المقدس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس کی بازیابی کا غاصب صیہونی ریاست اسرائیل سے مطالبہ کیا جانا چاہئیے۔ رمضان المبارک کا آخری جمعہ ماہ رمضان کی آخری دس راتوں میں آتا ہے، جس میں شب قدر بھی ہے، ایسی رات کہ جسے زند ہ رکھنا سنت الہیٰ ہے، اس رات ملائکہ اپنے رب کے حکم سے سلامتی نازل کرتے رہتے ہیں، مخلوقات کے مقدر کا فیصلہ اسی رات میں ہوتا ہے، تاہم جمعۃ الوداع یوم القدس ہے، یوم القدس اسی رات کے جوار میں ہے، مسلمانوں کے لئے اتحاد اور یکجہتی کا مظہر ہے، شب قدر میں اللہ سے راز و نیاز کے بعد جمعہ کو یوم القدس کے روز دنیا کی تمام شیطانی طاقتوں سے اظہار نفرت کریں۔ بیت المقدس کو تمام ابراہیمی ادیان میں نہایت احترام کا مقام حاصل ہے۔ سید المرسلین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو ان کے نزدیک بھی مسجد اقصٰی نہایت محترم قرار پائی۔ یہاں تک کہ قرآن حکیم میں آپ کے واقعہ معراج کو بیان کرتے ہوئے مسجد اقصٰی کی بھی تجلیل و تحسین کی گئی۔ ارشاد رب العزت ہوا: ‘پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک، وہی مسجد کہ جس کے اردگرد کو ہم نے برکت والا بنایا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ ذات خوب سننے والی اور دیکھنے والی ہے۔‘‘ ایک عرصے تک آنحضرت (ص) مسجد اقصٰی کی طرف رْخ کرکے نماز پڑھتے رہے، یہاں تک کہ ایک روز آپ (ص) مصروف نماز تھے کہ اللہ کا حکم آیا کہ رخ مسجد حرام کی طرف کرلیں، آپ نے دوران نماز ہی رْخ مسجد حرام کی طرف پھیر لیا۔ مضافات مدینہ میں اس مقام پر آج بھی مسجد قِبلتَین (یعنی دو قِبلوں والی مسجد) موجود ہے۔ زائرین مدینہ عام طور پر اس مسجد میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) اور ان کی امت کے نزدیک مسجد اقصٰی کو نہایت بلند مقام حاصل ہے اور آنحضرت (ص) چونکہ مسجد حرام سے پہلے اس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے، اس لیے مسلمان اسے اپنا قبلہ اول جانتے ہیں۔روایات میں ملتا ہے کہ جس رات اللہ تعالٰی نے حضرت محمد (ص) کو معراج کا سفر طے کروایا اس رات مسجد حرام سے مسجد اقصٰی کی طرف بلایا اور مسجد اقصٰی میں آپ (ص) نے نماز ادا کی اور اس نماز میں آپ کے پیچھے ستر ہزار انبیاء علیہم السلام کی ارواح مقدسہ نماز ادا کر رہی تھیں۔ لیکن افسوس صد افسوس! آج پینسٹھ برس گزر جانے کے بعد بھی انبیاء علیہم السلام کی سرزمین اور وہ مسجد کہ جہاں ختمی مرتبت حضرت محمد (ص) نے ستر ہزار انبیاء علیہم السلام کی ارواح کو نماز ادا کروائی، غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے شکنجہ میں ہے اور غاصب اسرائیلی دشمن آئے روز نہ صرف مسجد اقصٰی کی توہین کرتا ہے بلکہ مسلمانوں کو اس مسجد میں نماز ادا کرنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے لوگوں پر انسانیت سوز مظالم بھی ڈھاتا ہے۔جمعۃ الوداع یوم القدس قرار دینے کا مقصد یہی تھا کہ اس روز مسلمان متحد ہو کر اٹھ کھڑے ہوں اور انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین اور مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لئے مشترکہ جدوجہد کریں۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان یوم القدس اتحاد اور محبت کی علامت بھی ہے اور مظلوم فلسطینیوں اور قبلہ اول مسجد اقصٰی بیت المقدس کی بازیابی کا دن بھی ہے۔ لہذٰا ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان باہم متحد ہو جائیں اور اپنے مشترکہ دشمن امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے خلاف بر سر پیکار ہو جائیں اور اس برس کا یوم القدس مسلم امہ کے اتحاد کا مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کا دن قرار پائے۔ انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر اسلامی ممالک کے سربراہ اندرونی اختلافات ختم کر دیں، اسلام کے عظیم اہداف اور مقاصد سے آشنا ہو جائیں اور اسلام کی طرف مائل ہو جائیں تو اس طرح استعمار (امریکہ، برطانیہ، اسرائیل) کے ہاتھوں ذلیل و خوار نہیں ہوں گے، یہ اسلامی ممالک کے سربراہوں کے اختلافات ہیں کہ جن کی وجہ سے فلسطین کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے اور وہ اس مسئلے کو حل نہیں ہونے دیتے۔ جمعۃ الوداع یوم القدس ایک عالمی دن ہے، ایسا دن نہیں ہے جو فقط قدس کے ساتھ ہو، بلکہ مستکبرین کے ساتھ مستضعفین (جو لوگ کمزور بنائے گئے) کے مقابلے کا دن ہے، امریکہ اور اس کے علاوہ دوسروں کے ظلم میں دبی ہوئی قوموں کے بڑی طاقتوں سے مقابلے کا دن ہے، ایسا دن ہے کہ جس دن دنیا کے وہ لوگ جو کمزور کر دیئے گئے ہیں، ظالم اور سامراجی نظاموں سے مقابلے کے لئے تیار ہوجائیں، اور ظالموں کی ناک زمین پر رگڑ دیں۔ یہ ایک ایسا دن ہے کہ ہم پہچان سکتے ہیں کہ کون سے لوگ اور کون سی حکومتیں سازش گروں کے ساتھ ہیں اور اسلام کے مخالف ہیں، وہ لوگ جو اس میں شریک نہیں ہیں، دراصل اسرائیل کے حامی ہیں اور اسرائیل کے ساتھ ہیں۔
تمام مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس منائیں، تمام اسلامی قوموں کو مل کر اس پر توجہ دینی چاہئیے اور اس دن کو زندہ رکھنا چاہیئے، کیونکہ یہ دن مسلم امہ کے درمیان اتحاد کی علامت ہے، اگر سب قومیں قیام کریں اور بیک وقت قدس کی بازیابی کی لئے ریلیاں نکالیں، احتجاجی مظاہرے کریں، تو یہ اس بات کا مقدمہ بن جائے گا کہ مسلمان ان مفسدین کو روک سکیں گے جو اسلامی بلاد میں شرانگیزی اور فتنہ انگیزی میں مصروف عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ انشاءاللہ ایک روز قدس میں جا کر نماز ادا کریں، یاد رکھیں جب یوم القدس کے روز دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمان مل کر ہم آوز ہو کر اور اتحاد کے ساتھ قدس کی آزادی کے لئے آواز لگائیں گے تو پھر غاصب اسرائیل کچھ بھی نہیں کرسکے گا۔
اگر یوم القدس کے روز دنیا کے گوش و کنار سے امریکہ مردہ باد اور اسرائیل نامنظور کے نعرے گونج اٹھیں تو پھر یہ ان کی موت کا پیغام ہے۔ پس اس دن مسلم امہ اپنے اتحاد کے ذریعے عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے وجود سے نفی کا اظہار کرے اور مظلوم فلسطینیوں اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لئے گھروں سے نکل کھڑی ہو۔ انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب دنیا بھر کے مسلمان قدس شریف میں نماز ادا کریں گے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.