روزے کے معنوی آثار

174

جب قارئین حضرات یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے، اس مبارک مہینے کے عشرہ رحمت کے بے شمار ثمرات سمیٹ چکے ہوں گے۔ روزے کے بے شمار آثار بیان ہوئے ہیں یہاں ہم اپنے قارئین کے لیے روزے کے چند معنوی آثار بیان کرتے ہیں، تاکہ اس عظیم عبادت کی حکمت کے بارے زیادہ آگاہی اور شعور کے ساتھ باقی دو عشروں سے زیادہ سے زیادہ فیض حاصل کیا جاسکے۔     قلبی سکون:  وہ جسے بہت سارے روزے دار محسوس کرتے ہیں، چند دن کے روزوں کے بعد افطار اور سحر کے موقع پر حاصل ہونے والا قلبی سکون ہے۔ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ “حج اور روزہ دلی سکون و آرام کا باعث ہے۔”  یقین:  روایت میں آیا ہے کہ سفر معراج پر جب پیامبر گرامی نے خدا سے روزے کے آثار کے بارے سوال کیا تو جواب آیا کہ “روزہ حکمت عطا کرتا ہے اور حکمت معرفت کا باعث بنتی ہے، معرفت یقین عطا کرتی ہے اور ایسا یقین کہ پھر انسان کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی کہ اس کے روز و شب سختی میں گزر رہے ہیں یا آسانی میں” بلکہ اس کے سامنے پھر ہر حالت میں خدا کی رضا مقصود ہوتی ہے۔     اخلاص:  روزے کے معنوی آثار میں سے ایک اور فایدہ اخلاص کا پیدا ہو جانا ہے۔ چونکہ روزہ ایک مخفی عبادت ہے اور اس عبادت میں ریا کا امکان نہیں ہے، (سوائے اس کے کہ انسان خود ظاہر کر دے) یوں روزہ وقت کے ساتھ ساتھ دل کے اخلاص کا باعث بنتا ہے، صرف کھانے پینے سے اجتناب روزہ نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے بیماری کیوجہ سے انسان کو لذیذ چیزیں کھانے پینے سے پرہیز کرنا پڑے، یہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی شخص صبح سے شام تک روزہ دار کے ساتھ رہے، وہ جسے روزے دار اپنے اوپر نگران سمجھتے ہوئے کچھ نہیں کھاتا پیتا وہ صرف خدا کی ذات ہے، اسی وجہ سے یہ عبادت اخلاص کے نزدیک ہے۔ جو ایک مہینہ روزے رکھتا ہے یعنی ایک مہینہ اؒخلاص کے ساتھ گزارتا ہے اور یہ ایک مہینہ اخلاص کے ساتھ گزارنا اس میں اخلاص کے مضبوط ہونے کا باعث بنتا ہے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے خطبہ فدک میں فرمایا کہ “روزہ اخلاص کے محکم ہونے کے لیے واجب کیا گیا ہے۔”     عظیم اجر و ثواب:  خدا کی طرف سے عظیم اجر و ثواب بھی روزے کے فوائد میں سے ہے۔ روزہ انسان کو لقائے الٰہی کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔ روایت میں ہے کہ “روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔”  قیامت کے دن کی یاد:  قیامت کے دن کی سختیوں اور مشکلات کی یاد انسان کو گناہ اور سرکشی سے رکنے میں مدد دیتی ہے۔ وہ چیزیں جو قیامت کی یاد دلاتی ہیں روزہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ امام رضا علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ “اگر پوچھا جائے روزہ کیوں فرض کیا گیا ہے تو جواب یہ ہوگا کہ بھوک اور پیاس کی تلخی کا احساس دلانے کے لیے، تاکہ اس بھوک و پیاس کی تلخی کے احساس سے قیامت کے دن کی تلخی اور سختی کا احساس دلایا جائے۔”     غریبوں سے ہمدردی کا احساس:  اس دنیا کی تلخ حقیقتوں میں سے ایک انسانوں کے درمیان موجود فرق ہے۔ سب انسان برابر نہیں ہیں۔ کسی کے گھر میں برتن اس لیے نہیں دھلتے کہ ان کے انواع و اقسام کے کھانے ان کی ضرورت سے زیادہ تھے اور باقی کھانا برتنوں میں بچا پڑا ہے، جبکہ کسی کے گھر میں کھانے کے برتن اس لیے نہیں دھلتے کہ اس گھر میں آج کچھ پکا ہی نہیں کیونکہ گھر میں پکانے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ محروم اور بھوک و پیاس کے مارے لوگوں کے احساس کے لیے مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کسی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا روزہ کیوں فرض کیا گیا ہے، آپ نے فرمایا “تاکہ امیر و فقیر سب ایک صف میں ہوجائیں، چونکہ امیر جب کسی چیز کی خواہش کرتا ہے تو اسے پا لینے کی طاقت رکھتا ہے، لہذا خدا اس عبادت کے ذریعے چاہتا ہے کہ اپنے بندوں کے درمیان برابری اور مساوات ایجاد کرے، اور امیر بھی بھوک و پیاس کی تلخی کو چکھے اور اس کے دل میں فقیروں اور مسکینوں کے بارے رحم پیدا ہو اور فقیروں اور مسکینوں پر مہربانی کرے۔”     حق کے سامنے حقارت کا احساس:  روزہ بھوک اور پیاس کی تلخی برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ خدا کی ان نعمتوں کی قدردانی کا باعث ہے جن سے انسان روزے کے علاوہ دوسرے دنوں میں استفادہ کرتا ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ “بھوک و پیاس کی تلخی اور دشواری کے مقابلے میں جو روزہ کی وجہ سے روزہ دار کو پیش آتی ہیں فروتنی اور عاجزی دکھائے تاکہ اجر پا سکے۔”     نفسانی خواہشات کے سامنے بند:  جب روزے دار اپنی حلال خواہشات (کھانے پینے) کے سامنے ڈٹ جاتا ہے، یقیناً حرام نفسانی خواہشات بھی انجام نہیں دیتا۔ روایت میں آیا ہے کہ “تم پر آفرین کہ روزے کے ساتھ شہوت کی رگیں کاٹ دیتے ہو” اصلی روزے دار وہ ہے جس کے بدن کے تمام حصوں زبان، ہاتھ، آنکھ، کان اور پاوں کا روزہ ہو اور ان میں سے کسی عضو بدن سے حرام انجام نہ دے۔ روایت میں آیا ہے کہ “جب بھی روزہ رکھو تو حتماً تمہارے کان، آنکھ، بالوں اور جلد سب کا روزہ ہونا چاہیئے، تمہارا روزے والا دن دوسرے دنوں سے مختلف ہونا چاہیئے،” روایت میں نقل ہوا ہے کہ پیامبر گرامی نے سنا کہ ایک عورت روزے کی حالت میں اپنی کنیز سے بدزبانی کرتی ہے۔ پیامبر گرامی نے اس عورت کو کھانے کی دعوت دی، اس عورت نے کہا میرا روزہ ہے، آپ نے فرمایا “یہ کیسا روزہ ہوا کہ اپنی کنیز سے بدزبانی کر رہی ہو؟ روزے دار بہت کم ہیں اور بھوکے بہت زیادہ۔”     معصومین کی نگاہ میں حقیقی آزادی اپنی نفسانی خواہشات سے آزادی ہے۔ انسان جتنا اپنی نفسانی خواہشات کی دلدل میں پھنسا ہوگا اتنا بڑا اسیر ہوگا، اور انسان جتنا اپنی خواہشات سے آزاد ہوگا، اتنا اپنے خدا کے نزدیک ہوگا اور روزہ خدا کے حکم پر اس کی حلال چیزوں سے اجتناب کا نام ہے۔ آیت اللہ جوادی آملی شیخ محمد حسن نجفی سے نقل کرتے ہیں روزے کی فضیلت میں یہی کہنا کافی ہے کہ انسان بہت سارے کاموں کو ترک کرنے میں فرشتوں کی طرح ہو جاتا ہے۔ جتنا انسان شکم کی فکر سے بی خیال ہو جائے گا اتنا فرشتوں کے نزدیک ہو جاتا ہے۔     رمضان کا پر برکت مہینہ دراصل شہوت اور گناہوں سے آزادی کا مہینہ ہے، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ شعبانیہ میں فرماتے ہیں “اپنی زبانوں کی حفاظت کریں اور اپنے کانوں اور آنکھوں کو حرام سے روکے رکھو” خطبے کے آخر میں امیر المومین (ع) کھڑے ہوتے اور پوچھتے ہیں “یا پیامبر خدا اس مہینے میں بہترین عمل کونسا ہے” تو آپ نے فرمایا “پرہیز گاری اور حرام سے اجتناب” روزہ اور ظاہری بھوک و پیاس حرام اور گناہوں کو ترک کرنے کے لیے مقدمہ ہے۔     حوالہ جات:   1۔ بحار انوار، ج ۷۵ ، ص ۱۸۲، ج ۷۴ ص،۲۳۸ ، ۲۶،ج۹۳،ص۳۶۹،۳۸۱، ۲۹۲،   2۔ وسایل الشیعہ ج۱ص۲۲   3۔ الکافی ج۴ ، ص۶۳   4۔ کنزالعمال،ح۲۳۶۱۰،   5۔ حکمت عبادات،ص۱۷۰

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.