شیر دل کی مظلومیت

201

اسں گزرگاہِ ملائکہ میں گرنے والا گولہ کاش ہم پر گر گیا ہوتا۔کاش یہ جاں سوز خبر سننے سے پہلے ہماری سماعتیں ختم ہوگئی ہوتیں۔کاش یہ آنکھیں ظلم کی اس داستان کو دیکھنے سے پہلے اندھی ہوگئی ہوتیں۔کاش یہ دنیا مٹ گئی ہوتی۔۔۔۔لیکن ایسا ہوا کب ہے؟قوانینِ قدرت تو کچھ اور ہی بتلاتے ہیں۔آسمان کو بہت پہلے پھٹ جانا چاہیئے تھا۔ زمین کو بہت پہلے زمین بوس ہو جانا چاہیئے تھا۔
ڈیڑھ ہزار برس پرانی بات ہے۔ایک شیر دل خاتون تھی جو ستر لاشے اٹھانے میں اپنے بھائی کا سہارا بنی رہی اور ہر لاشے کا گنجِ شہیداں میں “ربنا تقبل منا ھذا القربان” کا ورد کرکے استقبال کرتی رہی۔ لیکن آسمان اپنی جگہ جما رہا۔یہی وہ خاتون تھی جو ستر لاشوں کے درمیان کھڑی تھی۔ نجانے ان نگاہوں میں کس بلا کی ھمت تھی جنہوں نے اس منظر کو دیکھا اور خدا کا شکر ادا کیا۔ لیکن زمین کا وجود منجمد رہا۔صبر کا پہاڑ یہی وہ خاتون تھی جو ستر قدم سے اپنے پیارے بھائی کا خشک گلا کٹتا دیکھتی رہی۔ لیکن آسمان نہ پھٹا۔بھائی نے بشمول ناناؑ ایک لاکھ چوبیس ہزار ابنیاء کی مشقتوں کو تو محفوظ کر دیا۔ اب یہی وہ خاتون ہے جو امامت کی حفاظت کے لئے امام ِ بیمارؑ اور چست دشمن کے زناٹے دار تازیانوں کے درمیان ایک مضبوط قلعے کی مانند حائل ہو جاتی ہے۔ بدنِ نازنیں پر کوڑے برس رہے ہیں۔ لیکن شامِ غریباں رات میں ڈھلے جا رہی ہے اور اندھیرا چھاتا ہی چلا جا رہا ہے۔۔۔
رات ہوگئی۔ خیموں کو آگ لگا دی گئی۔ حق تو یہ تھا کہ یہ آگ اس دنیا کو خاکستر کر دیتی۔ لیکن آگ کو بھی شرم نہ آئی۔یہی وہ خاتون ہے جو دیگر خواتین اور بچوں کو اس آگ سے بچا کر محفوظ مقام تک لے جا رہی ہے۔لیکن محفوظ مقام ہے کہاں؟ ہنہناتے ہوئے گھوڑوں پر سوار دھاڑتے ہوئے شیطان ہیں جو نیزوں کی انیوں سے آلِ عبا کو بے عبا کر رہے ہیں۔ فنا ہو جانا آسمان کا حق بنتا تھا لیکن وہ اپنے ماتھے پر تاروں کے جھومر سجاتا رہا۔جلے ہوئے بوسیدہ خیموں کی راکھ پر نمازِ عشاء کے سجدے ادا ہوئے۔ لیکن زمین لرزہ بر اندام نہ ہوئی۔
خیامِ عدو میں جیت کا جشن بپا ہے۔ جام پر جام لٹائے جا رہے ہیں۔ کچھ عفت مآب بیبیاں، کچھ سہمے ہوئے معصوم بچے اور ایک لاغر امامؑ کھلے آسمان کے تلے خاموش بیٹھے ہیں۔ کچھ ہی فاصلے پر بہتی ہوئی علقمہ کی لہریں اس خاموشی کا زور توؑڑتے ہوئے نامعلوم منزل کی جانب بہی چلی جا رہی ہیں۔ حق تو یہ تھا کہ علقمہ ان مظلوموں کے قدموں میں آکر اپنا سر پٹخ دیتی۔ لیکن وہ منہ پھیرے بہتی رہی۔کسی نے کہیں سے انتظام کرکے کئی روز کی بھوکی اور پیاسی اس خاتون کے سامنے پانی کا ایک جام پیش کیا۔۔۔۔ نجانے اس جام میں پڑے پانی کے ایک گھونٹ نے ان پاکیزہ اور حقیقت اندیش نگاہوں کا سامنا کیسے کیا ہوگا!!!! پانی کو اپنے ہی گھونٹ میں ڈوب کر مر جانا چاہیے تھا۔
سیاہ رات کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھاتا رہا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اندھیرا خود فنا ہو جاتا اور اجالے سے یہ کہتا کہ ظلمتِ ظلم کو بے نقاب کر دے۔اسی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس عالم میں نمازِ شب کا اہتمام ہوتا ہے کہ نہ وضو کو پانی دستیاب اور نہ ہی سجدے کو مصلٰی۔(یہ وہ وقت تھا کہ جس کے بارے میں کبھی امام زین العابدینؑ نے لوگوں کو بتایا کہ میری پھوپھی نے ہمیشہ نماز کے لئے قیام کیا۔ لیکن اس رات کئی دنوں کی بھوک و پیاس، دن بھر لاشے اٹھانے کی مشقت، شام کو میری حفاظت اور رات کو عورتوں اور بچوں کو اکٹھا کرکے تسلیاں دے کر ڈھارس بندھانے کی جاں توڑ مصیبتوں نے آپ کو اس قدر چُور کر دیا کہ آپ نے نمازِ شب بیٹھ کر ادا فرمائی۔)
حق تو یہ تھا کہ یہی شب آخری شب ہوتی، جس نے صبح کا تنفس گھونٹ دیا ہوتا، لیکن سورج پھر اسی آب و تاب سے نکلا۔رات بھر کے جشن اور مہ نوشی کے نشے کے بعد بیدار ہونے والا لشکرِ شیطان ایک بار پھر منہ زور گھوڑوں پر سوار ہوا۔ گھوڑوں کی ہنہناہٹ اور شیطان کے قہقہوں میں رسن بندی کا آغاز ہوا۔ ہوا کو چاہیئے تھا کہ قبض ہوجاتی کہ یہ شیطانی قہقہے وہیں دم توڑ دیتے، لیکن ہوا چلتی رہی اور صحرا کی ریت اڑاتی رہی۔ صحرا کی اسی گردوغبار کے بگولوں میں بے کجاوا اونٹوں پر رسیوں میں جکڑی ہوئی وجہِ تخلیقِ کائنات کا سینکڑوں میلوں پر سفر شروع ہوا۔ حیوانوں کو چاہیئے تھا کہ لشکرِ ابلیس کو اپنی سموں تلے روند ڈالتے، لیکن وہ گرم ریت پر گھنٹیوں کی ٹنٹناہٹ کے مزے لیتے ہوئے اپنی بھرپور قوت سے سوارِ دوشِ رسالتؑ کے پسماندگانؑ کو اپنی پشتوں پر سوار کئے حسبِ حیثیت اذیتیں دیتے رہے۔ کھانے کو غذا میسر نہ پینے کو دو گھونٹ آب۔ سفر جاری رہا۔ بچے ماؤں سے بچھڑ کر اپنے پدر ہائے بزرگوار سے جا ملتے رہے۔ وضو کو پانی میسر ہوا نہ پیشانی ٹیکنے کو سجدہ گاہ۔ صحرا کی دھول سے وضو کرکے حیوانوں کی پشتوں پر بندھے ہاتھوں سے شکر کے سجدے ادا ہوتے رہے۔ لیکن کائنات قائم رہی۔
سفر اپنے آخری مراحل میں ہے لیکن اختتام پذیر نہیں ہوتا۔ بازار سج رہے ہیں۔ دور دور سے تماشائی بلائے گئے ہیں۔ چھتوں پر الاؤ روشن کئے گئے ہیں۔ چن چن کر پتھر، کنکر اور جھاڑ جھنکاڑ اکٹھا کیا گیا ہے۔ جسکے نجس ہاتھوں میں پتھر یا انگارا نہیں آتا، وہ بدزبانی سے کام چلا رہا ہے۔ ان انگاروں کا حق تھا کہ یہ دنیا کو اپنی آگ کی لپیٹ میں لیکر راکھ کر ڈالتے۔۔۔ یہ پتھر اپنے ہی ہاتھ والوں کے سروں پر برس پڑتے۔۔۔۔ ان غلیظ زبانوں کو گنگ ہو جانا چاہیئے تھا۔ لیکن کچھ ٹس سے مس بھی نہ ہوا۔
(مدینے والے فرصت کے اوقات میں امام زین العابدینؑ کے درِ دولت پر آجاتے اور آپ سے اپنی سرگذشت کے بارے میں جانتے۔ کسی نے سوال کیا کہ یا مولا! ہم نے سنا ہے کہ آپ لوگوں کو اس سفر میں سرخ پسینہ آتا تھا۔ اسکی کیا حقیقت ہے؟ تو امامؑ نے فرمایا کہ ہاں۔ جب ہم کئی میل کا سفر چند دنوں میں طے کرکے شام پہنچے تو ہمارے استقبال کے لئے بازار سجائے گئے تھے۔ دور دور سے ہمارا تماشا بنانے کے واسطے گمراہ لوگوں کو اکٹھا کیا گیا تھا، جو ہم سے اپنی نفرت کا اظہار پتھر اور انگارے برسا کر کر رہے تھے۔ انہی پتھروں اور انگاروں کی بارش نے ہمارے جسموں کو چھلنی کرکے رکھ دیا اور شدید گرمی کے پسینے نے خون کو اپنے میں شامل کرکے سرخ رنگ اختیار کر لیا۔)
عظیم الشان نہیں، ایک عظیم الحجم محل نما عمارت ہے جسمیں خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں۔ بندر ناچ رہے ہیں۔ شراب نوشی کی محفل زوروں پر ہے۔ جام پر جام لٹائے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب عترتِ پیغمبرؑ رسیوں میں جکڑی قیدی بنی کھڑی ہے کہ اچانک سے شیطان اسی عفت مآب خاتون کا نام اپنی ناپاک زبان پر لاتا ہے۔تاریخِ کائنات میں اس سے زیادہ دشوار شاید کوئی وقت نہ گزرا ہو۔۔۔۔یاخدا! اب تو اس محل کی دیواروں کو ایک دوسر ے میں ضم کرکے اسکی چھت کو زمیں بوس کر دے۔بارِ الٰہا! اب تو زمین میں زلزلہ برپا کر دے۔الٰہی! کیا آسمان کے پھٹنے کا یہی وقت نہیں؟یااللہ! قیامت کا بگل کیوں نہیں بجتا؟
لیکن نہیں!یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کب فرشِ زمین کو لپیٹنا ہے اور کب آسمان کے شامیانے کے طناب کھینچنی ہے۔کب ہوا اور پانی میں سے زندگی کے آثار سلب کرکے انہیں زہربار کرنا ہے۔کب سورج کو یہ حکم صادر فرمانا ہے کہ سوا نیزے پر آکر کس کس کو جھلسانا ہے۔کب آگ کو یہ کہنا ہے کہ کسے خاکستر کرے۔حیوانوں کو کب اس بات کا شعور عطا کیا جائے گا کہ زیرِ سم کس کس کو کچلنا ہے۔
یہ امتحان ہے اس خانوادے ؑ کا جس نے اپنے آپ کو کاملاً خدا کے حضور پیش کر دیا تھا کہ معبود! جیسا تو چاہے۔امتحان کے مراحل طے ہوتے گئے اور پیچھے پیچھے ظالمین بھی اپنے اپنے انجام سے دوچار ہوتے رہے۔ کسی کو کچھ حسبِ منشا میسر نہ آیا۔ لیکن جو مہلت شیطان کو دی گئی تھی، اسکا معقول وقت کسی بھی منزل پر نہ آیا۔ چنانچہ نظامِ کائنات چلتا رہا۔ سال، کئی سال، بیسیوں سال، سینکڑوں سال، ہزار سال، ڈیڑھ ہزار سال گزر گئے۔ امتحان کے مراحل بھی چلتے رہے۔ زینبؑ و حسینؑ تو اپنی پاکیزہ جانوں کے نذرانے دے چکے۔ لیکن امتحان ختم نہ ہوا۔ خدا کی تسلیم و رضا کا یہ کڑا امتحان آپکی ذریت میں منتقل ہوا، جسکا سلسلہ نہ رکا۔ سب ہی اپنے اجداد کے اسلوب پر چلتے ہوئے عالمِ غربت میں جامِ شہادت نوش کرتے رہے۔ لیکن امتحان کی حد بھی مہلتِ ابلیس سے مشروط رہی۔ چنانچہ جب شیطان کی پیاس آلِ رسولؑ کے پاکیزہ لہو سے بھی نہ بجھی تو اس نے ان ہستیوں کے مراقد کی جانب رخ کیا۔ ڈیڑھ ہزار سال کے طویل عرصے میں متعدد بار آلِ عباؑ کے مراقدِ منورہ کو پامال کیا جاتا رہا۔
آج بھی زینبؑ مظلوم ہے۔ کبھی اپنے بھائی کو رونا چاہتی تھی تو رونے پر پابندی تھی۔ آج سونا چاہتی ہے تو سو نہیں سکتی۔بابا یہ مسلماں مجھے رونے نہیں دیتےاب خاک میں سوتی ہوں تو سونے نہیں دیتےخدا کا وعدہ ہے کہ جسکی یاد دہانی بھی اس نے بارہا کروائی ہے کہ ظالمین بچ نہ پائیں گے۔ یہ ہمیشہ اپنے انجام کو پہنچتے رہے۔ انشاءاللہ آج کا ظالم شیطان بھی اپنے انجام کو پہنچے گا۔خدا نے یاد دہانی کروائی ہے کہ بے شک غلبہ حزب اللہ کا ہی ہوگا۔ صدیوں کا کائنات میں پھیلا ہوا شیطان کا جال آج سمٹ کر اسی شام میں الجھ کر رہ گیا ہے کہ جہاں اسی شیر دل خاتون نے ڈیڑھ ہزار سال قبل ابنِ ابلیس کو للکار کر اسکی سلطنت کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔
آج شیطانی سلطنت کا سورج غروب ہونے کو ہے۔حزب اللہ کے غلبے کا دور ہے۔بقیۃ اللہ ؑکے ظہور کا دور ہے۔ظلم کے مکروہ چہرے کی نقاب کشائی کا دور ہے۔نام نہاد عشقِ رسولؑ کے پول کھلنے کا دور ہے۔کہ جب حزب الشیطان کو رسوا ہونا ہے۔حق کا بول بالا ہونا ہے۔دنیا لاکھ کہتی رہے کہ برا زمانہ ہے؛ لیکن قبیلہء خدا کی نظر میں جمال ہی جمال ہے۔۔۔۔۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.