حج، ایک عوامی اسلامی اجتماع
اگرچہ اس عظیم اسلامی عمل کے انجام دینے میں بہت سے نقائص موجود ہیں لیکن پھر بھی وہ دنیا میں ایسا بے مثال عمل ہے جس میں ایک وقت اور ایک جگہ کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ سب افراد پر لازم ہے کہ وہ اس عمل کو ماہ ذوالحجۃ کے خاص دنوں میں انجام دیں نہ کسی دوسرے ماہ یا دوسرے دنوں میں۔ اسی طرح سب پر لازم ہے کہ وہ اس عمل کو ایک خاص سرزمین پر انجام دیں، ایسی سرزمین جس پر پہلی بار خداوند یکتا کی عبادت کیلئے ایک گھر تعمیر کیا گیا۔ ایسا کیوں ہے؟، کیا اسکے علاوہ اس سرزمین کا فرزندان توحید کی میعادگاہ اور اجتماع کا مرکز قرار پانے کی کوئی اور وجہ ہے؟، کیا اسکے اس سرزمین پر فرزندان توحید کا وحدت اور توحید کے رنگ میں رنگے جانے کی کوئی اور وجہ ہے؟۔ علامہ کاشف الغطاء نے کیا خوب کہا ہے کہ: “بنی الاسلام علی کلمتین کلمۃ التوحید و توحید الکلمۃ” یعنی اسلام کی عمارت دو ستونوں پر قائم ہے، ایک خداوند یکتا کی عبادت اور دوسرا اسلامی معاشرے کی وحدت اور اتحاد۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حج وحدت بخش:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور ان میں مساوات کے بارے میں مشہور و معروف حدیث میں اس طرح سے بیان فرمایا ہے: “ایھا الناس ان ربکم واحد و ان آبائکم واحد کلکم لآدم و آدم” امام علی علیہ السلام مختلف اسلامی احکام کے فلسفے کو بیان کرتے ہوئے حج کے بارے میں فرماتے ہیں: “و الحج تقویۃ للدین (یا تقربۃ للدین)” یعنی حج کا فلسفہ دین کی تقویت (یا پیروان دین کو ایکدوسرے سے نزدیک کرنا) ہے۔ “من تراب، ان اکرمکم عنداللہ اتقیکم و لیس لعربی علی عجمی فضل الا بالتقوی”۔ یعنی “اے لوگو، تم لوگوں کا پروردگار ایک ہے، تم لوگوں کا باپ ایک ہے، تم سب لوگ آدم علیہ السلام کے فرزند ہو، اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔ تم میں سے سب سے زیادہ قابل احترام وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے مگر تقوی کے ذریعے”۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ باتیں، جو وحدت اور اتحاد کی طرف دعوت ہیں، کہاں اور کس وقت کہیں؟، مکہ، منی اور عرفات کی سرزمین پر، حج انجام دیتے ہوئے، اپنی زندگی کے آخری حج کے موقع پر جو حجۃ الوداع کے نام سے معروف ہے۔ انہوں نے اس اعلان کیلئے اس جگہ کا انتخاب کیوں کیا؟، کیونکہ قیامت تک جب بھی لوگ یہاں حج کرنے آئیں تو وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نصیحت کو یاد کریں اور ہوشیار ہو جائیں کہ تفرقہ بازی کا رستہ اختیار نہ کریں۔ یہاں پر ایکدوسرے کے ہاتھ کو دوستی اور بھائی چارے میں دبائیں۔ باہمی اتحاد کی تمام رکاوٹوں کو ختم کر دیں اور ایکدوسرے کے ساتھ مادی اور معنوی معاہدوں، قراردادوں اور تحائف کا تبادلہ کریں۔حج، امام علی علیہ السلام کی زبانی:امام علی علیہ السلام مختلف اسلامی احکام کے فلسفے کو بیان کرتے ہوئے حج کے بارے میں فرماتے ہیں: “و الحج تقویۃ للدین (یا تقربۃ للدین)” یعنی حج کا فلسفہ دین کی تقویت (یا پیروان دین کو ایکدوسرے سے نزدیک کرنا) ہے۔ بہرحال ان دونوں میں سے ایک مقصود ہے۔ اگر اس بیان کا مطلب یہ ہو کہ حج کا فلسفہ دین کو مضبوط کرنا ہے تو اسکا معنا یہ بنے گا کہ حج کے عظیم اجتماع کے ذریعے مسلمانوں کے ایکدوسرے سے تعلقات مزید مضبوط ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کا ایمان مزید پکا ہو جاتا ہے، اس طرح سے اسلام اور زیادہ مضبوط اور طاقتور ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر امام علی علیہ السلام کا مقصود یہ ہو کہ حج کا فلسفہ دین کو نزدیک کرنا ہے تو اسکا معنا یہ ہو گا کہ حج کا مقصد مسلمانوں کے قلوب کو ایکدوسرے سے نزدیک کرنا ہے جسکا نتیجہ بھی اسلام کی مضبوطی اور طاقت ہے۔ اسی طرح امام علی علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں: “جعلہ سبحانہ و تعالی للاسلام علماً” یعنی خداوند عالم نے کعبہ کو اسلام کا پرچم قرار دیا ہے۔ قدیم الایام سے معمول ہے کہ ایکدوسرے” امام علی علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں: “جعلہ سبحانہ و تعالی للاسلام علماً” یعنی خداوند عالم نے کعبہ کو اسلام کا پرچم قرار دیا ہے۔ “سے جنگ کرنے گروہ اپنا ایک مخصوص پرچم بھی ساتھ رکھتے تھے۔ یہ پرچم انکی بقا، آزادی اور مزاحمت کی علامت جانا جاتا تھا۔ اس پرچم کے اونچا ہونے کا مطلب اس گروہ کا اجتماعی اعتبار سے زندہ ہونا اور اسکے سرنگوں ہونے کا مطلب اس کی شکست ہوتی تھی۔ گروہ کا سب سے زیادہ بہادر اور شجاع انسان اس پرچم کو اٹھانے کی ذمہ داری سنبھالتا تھا۔ گروہ کے دلیر افراد اس پرچم کے اردگرد جمع ہوتے تھے تاکہ اسکو گرنے سے بچائے رکھیں۔ لیکن اسکے برعکس، دشمن کی ساری کوشش یہ ہوتی تھی کہ انکے پرچم کو سرنگوں کرے۔ پرچم ایک مقدس اور قابل احترام چیز تھی۔ آج بھی پرچم قوموں اور ملکوں کی خودمختار حیثیت، آزادی اور اتحاد کی علامت ہے۔ ہر ملک کا ایک پرچم ہے جسکو مقدس جانا جاتا ہے اور اس پر قسم بھی کھائی جاتی ہے۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: “خانہ کعبہ اسلام کا پرچم ہے”۔ یعنی اسی طرح جیسے ایک پرچم کسی معاشرے کے اتحاد اور باہمی تعاون کی علامت ہوتا ہے اور اس کا سربلند ہونا انکے زندہ ہونے کی نشانی ہے، خانہ کعبہ بھی اسلام کی نسبت وہی مقام رکھتا ہے۔امام جعفر صادق علیہ السلام اور حج:امام صادق علیہ السلام ایک مفصل حدیث میں جو مختلف کتابوں میں موجود ہے فرماتے ہیں: “فجعل فیھم الاجتماع من الشرق و الغرب لیتعارفوا” یعنی خداوند عالم نے یہ مقرر فرمایا ہے کہ دنیا کے مشرقی اور مغربی حصوں سے تمام افراد وہاں پر جمع ہوں تاکہ ایکدوسرے کو پہچان سکیں۔ آج کل ایک اچھی رسم یہ ہے کہ وہ افراد جو کسی پروگرام یا اجتماع میں پہلی بار ایکدوسرے سے آشنا ہوتے ہیں آپس میں وزیٹنگ کارڈز کا تبادلہ کرتے ہیں اور ایکدوسرے کا نام اور ایڈریس یادداشت کرتے ہیں۔ یہ کام بعد میں مزید آشنائی کا سبب بن جاتا ہے اور باعث بنتا ہے کہ وہ ایکدوسرے کی مصروفیات سے آگاہ ہوں اور اپنی پسندیدہ کتابیں دوسرے کو بھیج سکیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح سے انکے تعلقات مزید مضبوط ہو جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے چودہ سو سال پہلے ان کاموں کا زمینہ فراہم کر دیا تھا اور حج پر ایکدوسرے سے آشنا ہونے کی تاکید کی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:” امام صادق علیہ السلام ایک مفصل حدیث میں جو مختلف کتابوں میں موجود ہے فرماتے ہیں: “فجعل فیھم الاجتماع من الشرق و الغرب لیتعارفوا” یعنی خداوند عالم نے یہ مقرر فرمایا ہے کہ دنیا کے مشرقی اور مغربی حصوں سے تمام افراد وہاں پر جمع ہوں تاکہ ایکدوسرے کو پہچان سکیں۔ “”اسلام نے حج جیسے اجتماع کو ایجاد کیا ہے تاکہ دنیا کے مشرق و مغرب سے لوگ اکٹھے ہوں اور ایکدوسرے کے ساتھ آشنا ہوں اور دوستی کریں”۔ ہم میں سے ہر فرد کو عربی اور دوسری مختلف زبانوں میں اپنا وزیٹنگ کارڈ بنوانا چاہئے تاکہ حج کے موقع پر دوسرے ممالک سے آئے ہوئے افراد کو دے سکیں اور اس طرح بعد میں ان سے دوستی کر سکیں۔ انکو کتاب بھیج سکیں، انکو اپنے ملک کی مذہبی صوتحال سے آگاہ کر سکیں، خود انکے ملکی حالات سے واقف ہو سکیں، مختلف ممالک میں اسلام کی حامی اور مخالف تنظیموں کو جان سکیں اور مفید اسلامی تحریکون سے تعاون کر سکیں۔ہدف اور راستے کا ایک ہونا:احرام دراصل خیالی اور وہمی قسم کی علامات اور افتخارات کو خود سے دور کرنا اور حقیقی افتخارات کی طرف لوٹنا ہے۔ احرام اس سوچ کی طرف پلٹنا ہے کہ آیا ٹوپی کے علاوہ ہم میں مردانگی کی کوئی علامت موجود ہے؟۔ حج خیالی اور نقلی محدودیتوں، لبادوں اور تنگ نظریوں کو توڑنے اور دور پھینکنے کا نام ہے۔ سب کا ایک گھر کے گرد طواف کرنا ایک ہدف اور ایک سوچ کی علامت ہے۔ سب افراد کا اکٹھے ایک صحرا میں رکنا اور ایک جیسے اعمال کا بجا لانا اور اکٹھے حرکت کرنا ایک راستے پر چلنے اور ایک اصول اور بنیاد پر قائم رہنے کی نشانی ہے۔ ایک انسانی معاشرہ مستقل اصولوں اور بنیادوں پر استوار ہونا چاہئے اور اسے انہیں اصولوں میں رہتے ہوئے حرکت کرنی چاہئے۔ انسانی معاشرہ اسی وقت ایک راستے پر متحرک ہو گا جب اس میں موجود افراد ہدف واحد رکھتے ہوں اور اس تک پہنچنے کیلئے ایک راستے کا انتخاب کر چکے ہوں۔ اسکے علاوہ انکا نظم و ضبط کا عادی ہونا، اپنے کمانڈر کے دستورات کی پیروی کرنا، دوسروں کے بارے میں بدبین نہ ہونا اور سب کے درمیان ذہنی ہم آہنگی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: “ثم افیضوا من حیث افاض الناس”۔ اس آیہ شریفہ میں “فیضان” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ صحرا میں حجاج سمندر کی موج کی صورت میں موجود ہوتے ہیں۔ اسکے بعد قریش اور اہل حمس کو خطاب ہوتا ہے: “آپ لوگ اپنے ٹھہرنے کی جگہ کو جدا نہیں کریں”۔ (وہ عرفات میں نہیں رکتے تھے بلکہ مزدلفہ کے مقام پر جو کچھ بلندی پر واقع ہے رکتے تھے)۔حج اور اجتماعی وحدت:حج کے اثرات میں سے ایک اجتماعی اتحاد اور ہم آہنگی ہے۔ ایک شخص کے اکیلے عرفات جا کر دعا کرنے اور 10 لاکھ افراد کے اکٹھے ہو کر جانے میں فرق ہے۔ انسان کی روح میں اجتماع کے” ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے: “لا یزال الدین قائماً ما قامت الکعبہ” یعنی جب تک کعبہ موجود ہے اسلام بھی قائم و دائم ہے، جب تک حج زندہ اور باقی ہے اسلام بھی زندہ اور باقی ہے۔ “ساتھ ہم آہنگ ہونے کی خصوصیت پائی جاتی ہے جسکو “محاکات” کہا جاتا ہے۔ اسلام نفسیاتی حوالے سے ایسے مذہبی اور معنوی ماحول کو اہمیت دیتا ہے جو انسان کے اندر چھپے ہوئے احساسات کے جاگنے کا سبب بنتا ہے۔ سوشل سائنس کے علماء کے نزدیک “محاکات” صرف مادی حیثیت رکھتا ہے اور محض ایک ردعمل ہے لیکن یہ دراصل روح میں موجود ایک صلاحیت ہے جسکو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف بیدار ہونے کی صورت میں ہی یہ ردعمل کئی سو گنا طاقتور ہو جاتا ہے۔حج، عمل اور سوچ اور بیان اور لباس میں وحدت:اسلام ہمیں یعنی مختلف قوموں کو جو نہ ایک نسل سے ہیں، نہ ایک زبان بولتے ہیں، نہ ایک رنگ کے ہیں اور نہ ایک حکومت اور قومیت رکھتے ہیں ایک سرزمین پر انتہائی روحانی آمادگی کے ساتھ جمع کرتا ہے۔ یہ ایک بے مثال اجتماع ہے، ایک ایسا اجتماع جو تعداد کے حوالے سے کم نظیر یا شائد بے نظیر لیکن کوالٹی کے لحاظ سے یقیناً بے نظیر ہے۔ کیونکہ یہ بالکل نیچرل ہے اور اسکے پیچھے کسی قسم کی زبردستی نہیں ہے۔ یہ ایسا اجتماع ہے جو کسی لالچ کے بغیر ہے، بلکہ ہر لالچ کو ترک کرنے کے بعد ہے، ایک ایسا اجتماع جو عیش و عشرت اور تفریح کی خاطر بھی نہیں ہے۔ آج اسکی مشکلات اگرچہ کافی حد تک کم ہو گئی ہیں لیکن پھر بھی مشکلات کے ہمراہ ہے۔ ایک ایسا اجتماع ہے جس میں کم از کم عارضی طور پر ذاتی افتخارات اور انا پرستی کو ترک کر دیا جاتا ہے۔ سب افراد ایک سوچ اور ایک ذکر اور ایک لباس اور ایک عمل کے ساتھ ایک راستے پر قدم اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حج، وحدت کا راز:ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے: “لا یزال الدین قائماً ما قامت الکعبہ” یعنی جب تک کعبہ موجود ہے اسلام بھی قائم و دائم ہے، جب تک حج زندہ اور باقی ہے اسلام بھی زندہ اور باقی ہے۔ کعبہ اسلام کا مقدس پرچم ہے اور مسلمانون کی وحدت اور خودمختاری کا راز ہے۔ یہاں سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام میں حج کا مقصد یہ ہر گز نہیں کہ لوگ کچھ سوچے سمجھے بغیر مکہ جائیں اور ایسے اعمال انجام دیں جنکو سمجھنے سے وہ قاصر ہیں بلکہ اسکا اصلی مقصد یہ ہے کہ خانہ کعبہ یعنی وہ گھر جو انسانی تاریخ میں سب سے پہلے خدای واحد کی عبادت کیلئے تعمیر کیا گیا، کے زیر سایہ ایک قوم اور ملت کی” اسلام میں حج کا مقصد یہ ہر گز نہیں کہ لوگ کچھ سوچے سمجھے بغیر مکہ جائیں اور ایسے اعمال انجام دیں جنکو سمجھنے سے وہ قاصر ہیں بلکہ اسکا اصلی مقصد یہ ہے کہ خانہ کعبہ یعنی وہ گھر جو انسانی تاریخ میں سب سے پہلے خدای واحد کی عبادت کیلئے تعمیر کیا گیا، کے زیر سایہ ایک قوم اور ملت کی صورت میں ایک ارادے کے ساتھ اکٹھے ہوں۔ “صورت میں ایک ارادے کے ساتھ اکٹھے ہوں۔ اسلام کا بنیادی اور حقیقی نعرہ “توحید” کا نعرہ ہے۔ کعبہ توحید کا گھر ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: “ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکا” یعنی لوگوں کیلئے سب سے پہلا گھر وہی ہے جو مکہ مکرمہ میں موجود ہے۔حج اور دلوں کا متحد ہونا:یہ کہ مسلمان ظاہری طور پر مکہ میں جمع ہوں اور انکے دل ایکدوسرے کی دشمنی سے بھرے ہوئے ہوں اور کلام خداوندی “تحسبھم جمیعا و قلوبھم شتی” (تم سمجھتے ہو کہ وہ اکٹھے ہیں لیکن انکے دل ایکدوسرے سے دور ہیں) یا امام علی علیہ السلام کے اس قول “ایھا الناس المجتمع ابدانھم المختلف اھوائھم” (اے ایسے لوگو جنکے بدن اکٹھے ہیں لیکن خواہشیں اور آرزوئیں الگ الگ ہیں) کا مصداق ہوں، ایسا اجتماع اسلام کے مورد نظر نہیں ہے۔ حج ایسا اجتماع نہیں چاہتا اور خدا ایسے اجتماع پر رحمت کی نظر نہیں ڈالتا۔حج اور وحدت:اسلام خود بھی مسلمانوں کی وحدت کا خواہاں ہے اور حج کا ایک بڑا مقصد بھی اسلامی وحدت ہے۔ پہلا دعوی اس آیہ شریفہ سے ثابت ہوتا ہے کہ: “واعتصموا بحبل اللہ ۰۰۰۰۰۰۰ ولا تکونوا کالذین تفرقوا ۰۰۰۰۰۰۰ و لا تنازعوا فتفشلوا ۰۰۰۰۰ یا ایھا الذین آمنوا اصبروا و صابروا و رابطوا ” اور دوسرا دعوی امام علی علیہ السلام کے اس قول سے کہ: “و جعلہ للاسلام علما” خدا نے حج کو اسلام کا پرچم قرار دیا ہے تاکہ تمام مسلمان خود کو اسکے زیر سایہ جمع کریں۔ حج ایسا پرچم ہے جو تمام مسلمانوں کو اپنے زیرسایہ اکٹھا کرنا چاہتا ہے۔ مولای متقین امام علی علیہ السلام نے اسی طرح فرمایا: “والحج تقویۃ للدین” حج کا فلسفہ دین کو مضبوط کرنا ہے۔ دین کو اس طرح سے مضبوط کرنا کہ مسلمان حج پر ایکدوسرے سے آشنا ہوتے ہیں اور انکی دوستی زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے۔حج اور مسلمانوں کے درمیان رابطے کی مضبوطی:اسلام کی مضبوطی یعنی مسلمانوں کے درمیان رابطے کی مضبوطی اور انکو ایکدوسرے سے نزدیک کرنا۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: “یا ایھا الذین آمنوا اصبروا و صابروا و رابطوا و اتقواللہ لعلکم تفلحون”۔ مسلمانوں کے اتحاد کے دو پہلو ہیں: ایک سیاسی میدان میں جو اسلامی ممالک کی حکومتوں کی ذمہ داری ہے اور قوموں سے مربوط نہیں ہے۔ تمام اسلامی ممالک کا فائدہ اسی میں ہے کہ ایک اسلامی سیاسی پلیٹ فارم یا اعراب کے بقول “موتمر اسلامی” تشکیل پائے۔ مسلمانوں کے اتحاد کا دوسرا پہلو مسلمان قوموں کا اتحاد ہے۔ مسلمان قوموں کے درمیان بدبینی کی دیوار کو گرا دینا چاہئے۔ یہ آج کا سب سے زیادہ اہم وظیفہ ہے جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے تعلق کو مضبوط کرتے ہوئے دین کو مستحکم کرنے کی خاطر انجام دینا ضروری ہے۔