ضربِ یداللہی و سجدہ شبیری

165

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی، دست مبارک میں موجود چھری کو اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چلانے کا ارادہ فرمایا۔ کہ یک لخت حضرت اسماعیل کی جگہ مشیت ایزدی کے تحت ایک دنبہ آگیا ۔ پدر نے ہاتھوں پر بہتے خون کی گرماہٹ محسوس کی۔ فرط جذبات سے آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو ایک ذبح شدہ جانور نظر آیا۔ حضرت اسماعیل صحیح سلامت پاس کھڑے ملے۔ دست دعا بلند کئے اور بارگاہ قدرت میں سوال کیا، اے اللہ: کیا میری یہ قربانی بھی قبول نہیں، تو آواز غیب آئی، اے ابراہیم (ع) ہم نے اس قربانی کے بدلے آخرین میں سے عظیم قربانی قبول کرلی ہے۔ کیا وہ قربانی میدان کربلاء میں سید الشہداء حضرت امام حسین (ع) کی تھی؟ کیونکہ نسلِ اسماعیل (ع) میں سے سوائے امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کسی کو نبوت کی سعادت حاصل نہ ہوئی، اور اس کے بعد نبوت کا دروازہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا۔ مذاہب کی پوری تاریخ میں سوائے واقعہ کربلاء کے ذبح عظیم کے مصداق کوئی واقعہ نہیں ملتا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ رسول خدا (ص) کی اس حدیث “حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں” کی تشریح بھی ذبح عظیم کے حوالے سے فقط میدان کربلاء میں نظر آتی ہے۔ بقول علامہ اقبال : غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرمنہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل امام حسین (ع) سے جب یزید نے بیعت لینے کا حکم جاری کیا تو امام عالی مقام کے لبوں سے نہایت فصیح و بلیغ جملہ ادا ہوا، جو رہتی دنیا تک اقوام عالم کے لیے ایک روشن راستے کی حیثیت رکھتا ہے کہ “مجھ جیسا کبھی اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا”۔ بیعت وہ حلف تھا جو یزید کے تمام اعمال، گناہوں اور مذموم عزائم و مقاصد پر امام عالی مقام کی رضامندی سے تعبیر کیا جاتا۔ جس کے بعد ہر وہ برائی جس کا یزید دلدادہ تھا دین اسلام کا تشخص قرار پاتی۔ یزید گناہوں سے آلودہ ایسا کردار تھا جس نے دین اسلام کے ہر مرکزی ستون پر حملہ کیا۔ کبھی نماز و اذان میں تحریف کی کوشش، تو کہیں شراب و شباب کو رائج کیا، کہیں نکاح کے احکامات کو کالعدم قرار دینے کی کوشش، تو کہیں 63ہجری میں مدینہ پر حملہ، کبھی مسجد نبوی کا تقدس گھوڑوں کی ٹاپوں میں پامال تو کبھی کعبہ کی حرمت کو پامال کرنے کی کوشش، حتیٰ کہ خانوداہ رسول (ص) کو تہ تیغ اور دختران نبی (ص) کے سر ننگے کرکے تا قیامت یزید برائی کی مثال بن کے رہ گیا۔ امام عالی مقام حضرت حسین (ع) اس بات کی قدرت رکھتے تھے کہ یزید کے سامنے قیام نہ کرکے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی زندگیاں محفوظ کرلیں، مگر حسین (ع) نے اپنے نانا کے دین کی سربلندی و سرفرازی کے لیے راہ خدا میں قربان ہونے کا فیصلہ کیا ۔
امام عالی مقام آنیوالے مصائب و آلام سے آگاہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام 8ذوالحجہ کو احرام کھول کر رخت سفر باندھا تو محمد بن حنفیہ نے امام سے سوال کیا کہ آپ (ع) حج مکمل کرلیں تو امام نے حاجیوں کے بھیس میں یزید کے ان ہرکاروں کے بارے میں بھی بتایا جو امام کو دوران حج شہید کرنے کی نیت سے آئے ہوئے تھے اور ساتھ ہی امام حسین (ع) نے ایک خط دیا۔ جس میں تحریر تھا کہ میں کعبہ کی حرمت بچانے کے لیے سفر اختیار کررہا ہوں۔ میری مقتل گاہ یہاں سے دور ہے، میں واپس نہیں آؤں گا۔ میں دین کی خاطر اللہ کی رضا میں راضی ہوں۔ مکہ سے روانگی کے بعد آپ نے کوفہ کی جانب رخ کیا۔ صفا کے مقام پر آپ کو کوفہ کے بارے میں جہاں آپ نے اپنے بھائی حضرت مسلم بن عقیل کو ان کے دو فرزندوں محمد و ابراہیم کے ہمراہ سفیر بناکر بھیجا تھا پہلی خبر ملی کہ کوفہ کے لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں آپ کے خلاف اور ابن زیاد و یزید کے احکامات کی منتظر ہیں، لیکن اس کے باوجود آپ نے اپنا سفر جاری رکھا۔
دہت الارق وہ مقام ہے جہاں عبداللہ بن جعفر نے اپنی زوجہ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا جو کہ آپ کی ہمشیرہ ہیں کو دونوں بچوں عون و محمد سمیت آپ کے سپرد فرمایا اور سیدہ زینب سے کہا اگر کبھی امام حسین (ع) پر مشکل وقت آئے تو میرے بچے قربان کردینا۔ آپ نے عبداللہ بن جعفر کو واپس جانے کی ہدایت فرمائی۔ بطن الرما وہ مقام ہے جہاں آپ کو کوفہ کی جانب سے یہاں کے حالات کی خرابی کا پیغام ملا۔ زورد نامی مقام پر آپ کو زوہیر بن قین ملے۔ جنہوں نے آپ کے قافلے میں شامل ہونے کی اجازت طلب کی اور بعد ازاں میدان کربلاء میں دین اسلام کی خاطر اپنی جاں قربان کردی۔ زابلا کے مقام پر آپ کو مسلم بن عقیل اور ان کے معصوم بچوں کی شہادت کی خبر ملی۔ آپ نے قافلے میں موجود لوگوں کو بلا کر کہا کہ تم میں سے جو کوئی واپس جانا چاہتا ہے چلا جائے کیونکہ میرے خون کی پیاسی تلواریں بےنیام ہو چکی ہیں۔ کچھ قبائلی جو دنیاوی خواہشات کو آخرت پر مقدم رکھتے تھے اسی مقام سے واپس چلے گئے۔
بطن عقیق، ساورت، شرایف،کے مقامات پر آپ (ع) نے قیام فرمایا اور مختلف ہدایات جاری فرمائیں۔ جن میں ایک زیادہ سے زیادہ پانی ساتھ رکھنے کی ہدایت تھی۔ ذواہسم کے مقام پر حر اپنے لشکر کے ساتھ آپ کے سامنے آیا۔ اس مقام پر آپ (ع) نے تمام پانی حر اور اس کے سپاہیوں و جانوروں کو پلادیا۔ باذیہ کے مقام پر آپ نے تاریخی خطبہ ادا کیا۔ قصر بنی مکاتل کے مقام پر آپ نے اِنَّاللہ کے الفاظ ادا فرمائے اور اپنے جواں سال بیٹے حضرت علی اکبر کو مقتل گاہ کے قریب ہونے کی نشاندہی فرمائی۔ جواب میں حضرت علی اکبر نے فرمایا بابا ہم حق پر ہیں آپ ہمیں شاکرین میں پائیں گے۔ نینوا کے مقام پرامام عالی مقام نے تین بار اس مقام کا نام پوچھا وہاں کے ایک قبائلی نے بتایا کہ اس جگہ کو کرب و بلا(درد و مصائب) بھی کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارے جسموں کو پارہ پارہ کیا جائے گا۔ آپ نے اپنی مقتل گاہ کی زمین کی باقاعدہ خرید فرمائی، کیونکہ کردار حسینی کو یہ گوارا نہ تھا کہ اس کی جائے شہادت پر بھی کوئی ملکیت کا حق جتائے۔ 2 محرم الحرام 61 ہجری آپ نے کربلا میں خیمے نصب فرمائے ۔3 محرم عمر بن سعد ابی وقاص اپنے لشکر کے ساتھ کربلا میں وارد ہوا۔ 4 محرم یزید کے بھیجے ہوئے لشکر ٹکڑیوں کی شکل میں کربلا میں خیمہ زن ہوتے گئے۔ 5محرم آپ نے کربلا کے قرب و جوار میں موجود قبائل کو بلا کر کچھ وصیتیں فرمائیں۔ 6 محرم تک کربلا میں لشکر یزیدکی تعدا د 30،000سے تجاوز کرچکی تھی۔ اسی شام لشکر یزید کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ آپ اپنے خیمے دریا سے دور نصب کریں۔ 7محرم کی صبح آپ نے اپنے اصحاب سے یہ فرماتے ہوئے اپنے خیمے دریا سے دور نصب کئے کہ دنیا یہ نہ سمجھے کہ ہماری جنگ پانی کی تھی۔ اس وقت یزیدی فوجوں نے آپ کے خیام پر پانی بند کردیا۔ 7محرم نماز عصر سے قبل خیام میں پانی ختم ہوگیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آپ کے تمام قافلے نے آپ کی امامت میں نماز مغرب تیمم کرکے پڑھی۔
8 محرم خیام حسینی (ع) سے العطش العطش کی آوازیں بلند ہوتی رہی اور مستورات بچوں کو حق و باطل کی اس لڑائی کے رموز سکھاتی رہیں۔ 9 محرم شمر بن جوشن اپنے فوجی دستے سمیت کربلا پہنچا اور حسینی قافلے پر پانی کی بندش اور تشنہ بچوں کی حالت زار سن کر خوشی کا اظہار کیا۔ اسی دن شمر نے قافلہ حسینی (ع) کے سپہ سالار حضرت عباس کو حسینی لشکر کا ساتھ چھوڑنے کے لیے بہت بڑے انعام و اکرام کا لالچ دیا مگر حضرت عباس(ع) نے یزید کی جانب سے انعام و اکرام کی پیش کش کو ٹھکراتے ہوئے امام حسین کی معیت میں شہادت کو ترجیح دی ۔ حضرت عباس بن علی بن ابی طالب کی دشمن پر ہیبت کا یہ عالم تھا کہ لاکھوں کا لشکر بھی ان کی موجودگی میں قافلہ حسینی پر فتح حاصل کرنے میں شبہات کا شکار تھا۔ 9محرم رات کو امام حسین (ع) نے تین حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصہ اپنے اصحاب و جانثاران کے ہمراہ گزارا۔ ایک حصہ خیام میں مستورات و بچوں کے ہمراہ اور ایک حصہ عبادت الہی میں۔ روایات میں ہے کہ اس رات شوق شہادت نے قافلہ حسینی کو سیراب کردیا۔ 10محرم روز عاشورا امام عالی مقام نے حجت تمام کی کہ لشکر یزید خاندان رسول(ص) کے قتل کے گناہ عظیم سے باز آجائے مگر ایسا نہ ہوا۔ آپ کے تمام اصحاب، بھائی، بچے، جانثار یکے بعد دیگرے شہید ہوتے گئے۔ روایت ہے کہ آپ (ع) کربلا کے ہر شہید کے پاس وقت شہادت پہنچے مگر اپنے جواں سالہ بیٹے علی اکبر کے پاس جاتے ہوئے ضعیف ہوچکے تھے۔ تمام اثاثہ اللہ کے دین پر قربان کرنے کے بعد اللہ کے حضور سجدہ شکر ادا کیا۔ حالت سجدہ میں شمر نے پس پشت خنجر کے کئی وار کرکے آپ کو شہید کیا اور سرتن سے جدا کردیا۔اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے اک ضرب یداللہی، اک سجدہ شبیری
آپ کے بدن اطہر کا کوئی حصہ زخموں سے خالی نہ تھا۔ یہ آپ کی قربانی کا ہی اعجاز ہے کہ پھر کبھی کسی یزید جیسے نے حسین کے ماننے والے سے بیعت کا سوال نہیں کیا۔ یزید کی حکومت نے آپ کی شہادت پر پردے ڈالنے کی کوشش کی مگر آپ کی ہمشیر حضرت سیدہ زینب (س) نے قیدی ہونے کے باوجود کربلا سے شام تک کے راستے میں اپنے پدر گرامی کے لہجے میں خطبے دیکر اور واقعات کربلا ہر جگہ بیان کرکے نہ صرف دنیا کو حقائق سے روشناس کرایا بلکہ دربار یزید میں خطبے سے قصریزید کی دیورایں ہلا ڈالیں۔ کئی روایات میں ہے کہ کربلا سے شام تک آپ کا سر مبارک نیزے پر قرآن پاک کی تلاوت کرتا رہا۔ راستے میں ایک مقام پر آپ کا سر مبارک ایک پتھرپر رکھا گیا۔ اس پتھر پر تازہ خون کے نشان آج بھی باقی ہیں۔ انسانی تاریخ میں کسی بھی مقصد کے لیے ایسی قربانی کی مثال نہیں ملتی۔ میدان کربلاء جو کہ ویرانہ تھا، آپ کے خون کی ہی تاثیر ہے کہ روز عاشور دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا انسانی اجتماع وہیں پر ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان آپ کے روضہ اقدس پرنذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ جو بھی شخص کربلاء جاتا ہے وہ اپنے لیے کفن وہیں سے خرید لاتا ہے ۔آپ نے حق کو وہ مقام عطا کیا کہ آپ عالی مقام کا نام ہی حق کی علامت بن گیا آج امت مسلمہ کے ہر گھر میں آپ کے نام سے مستفید اور غلام موجود ہیں مگر یزید شکست و ریخت اور باطل کی ایسی علامت بن گیا کہ واقعہ کربلا کے بعد کسی ماں نے اپنے بچے کا نام یزید نہ رکھا۔ قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.