حضرت امام زین العابدین (ع)
آپ کا نام علی بن حسین (ع) ہے، آپ نوجوانان جنت کے سردار حضرت امام حسین (ع) کے فرزند ارجمند ہیں۔ آپ کے بہت سے القابات ذکر کیے گئے ہیں، جن میں زین العابدین اور سجاد زیادہ مشہور ہیں۔ آپ خاندان رسالت کے عظیم فرزند تھے، زہد وتقویٰ اور عبادت خداوندی میں بے نظیر و بے مثال ہیں۔ آپ کا سب سے مشہور لقب زین العابدین ہے، اس کا مطلب عبادت گزاروں کی زینت ہے، یہ لقب آپ کو آپ کی کثرت عبادت کی وجہ سے دیا گیا۔ آپ ایک رات میں ہزار ہزار رکعت نماز ادا کیا کرتے تھے۔ آپ کی کنیز سے آپ کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے کہا میں سالوں امام کی خدمت میں رہی، میں نے ہمیشہ امام کا معمول دیکھا کہ دن کو وہ روزہ رکھتے اور رات عبادت خدا میں گزار دیتے۔ تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ دوران نماز آپ کی عبا کاندھوں سے گر گئی، آپ نے پوری نماز بغیر عبا کے ادا کی، آپ کے ایک صحابی نے کہا مولا عبا اٹھا لیتے، امام نے فرمایا وہ بھی کوئی نماز ہے جس میں انسان کو پتہ چلے کے عبا گر گئی ہے۔ آپ کے فرزند امام باقر (ع) فرماتے ہیں، میں اپنے والد کو دیکھتا تھا کثرت عبادت سے ان کے پیروں میں ورم آ جاتے، چہرہ زرد اور رخسار زخمی ہو جاتے، پیشانی پر گٹھا پڑ جاتا۔ بہت سی روایات میں آیا ہے کہ امام کی پیشانی اور دیگر اعضاء سجدہ پر گٹھے پڑ جاتے، جو اتنے بڑھ جاتے کہ ان کو کٹوانا پڑتا تھا، یہ آپ کی کثرت عبادت کی وجہ سے ہوتا تھا۔ آپ کی سخاوت پورے مدینہ میں مشہور تھی، آپ رات کے وقت جب سب لوگ سو جاتے غذائی اجناس اپنے کاندھوں پر اٹھاتے اور محتاجوں کے گھر پہنچاتے تھے، جس کی وجہ سے آپ کی پشت پر نشان پڑگئے، پوری زندگی آپ کا یہی معمول رہا، مدینہ میں سو گھر ایسے تھے جن کی مکمل کفالت خود فرماتے تھے۔
امام زین العابدین (ع) شجاعت ہاشمی کے وارث تھے، آپ کا جہاد شہادت امام حسین (ع) کے بعد شروع ہوا، آپ کا جہاد میدان جنگ کے جہاد سے بہت مشکل اور بہت مختلف تھا۔ اپنے والد اور بھائیوں کے قاتلوں سے گفتگو کرنا ہی بہت بڑا جہاد تھا، امام جب ابن زیاد کے دربار میں پہنچے تو وہ طاقت و فرعونیت کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ جب امام نے اس کی گستاخیوں کا جوانمردی سے جواب دیا اور اسے لاجواب کر دیا تو سوائے تشدد کے اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اسی طرح جب یزید ملعون کے دربار میں پہنچے، وہ جتنی گستاخی کر سکتا تھا اس نے کر لی، مگر جب امام (ع) نے اپنا فصاحت و بلاغت سے بھرپور خطبہ ارشاد فرمایا تو یزید کے اپنے درباری اس کے خلاف ہوگئے، یہ مجبور ہوا کہ موذن کو حکم اذان دے یہ مظلومیت کی فتح اور ظالم کی شکست تھی۔ آپ کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا وہ حصہ جو آپ نے اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ گزارا، اس میں آپ فرماں بردار فرزند کی حیثیت سے اپنے بابا کے ساتھ رہے۔ 38 ہجری سے 61 ہجری تک کا یہ زمانہ ظاہری طور پر آپ کی زندگی کا پرامن زمانہ ہے۔ آپ کی زندگی کا دوسرا حصہ آپ کے بابا کی شہادت کے بعد شروع ہوتا ہے، یہ مشکلات و مصائب سے بھرا ہوا زمانہ ہے۔ آپ کے تمام عزیز و اقارب شہید ہوچکے ہیں، تمام مال اسباب لوٹا جا چکا ہے، آپ کے پورے کنبے کو اسیر کیا جا چکا ہے اور آپ شدید علیل ہیں۔
ظاہر ی طور پر مستقبل مصائب سے پر نظر آ رہا ہے، اگر کوئی عام انسان ہوتا تو ان پہاڑوں سے بڑی مشکلات کو دیکھ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتا، مگر آپ کے سامنے تحفظ دین کی عظیم ذمہ داری تھی، اپنے بابا کے خون کو رائیگاں ہونے سے بچانا تھا، امۃ مسلمہ کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کرنا تھا۔ ان کو بتانا تھا کہ سرزمین کربلا پر ان کے نبی (ص) کے نواسے کو کس بیدردی سے ذبح کر دیا گیا اور کس طرح خاندان نبوت کو جوانوں سے خالی کر دیا گیا ہے۔ آپ اسی مقصد کو لیکر انتہائی ہمت حوصلے سے عازم شام ہوئے۔ واقعہ کربلا نے آپ کی زندگی پر انمٹ نقوش چھوڑے، آپ اپنے خاندان پر ہونے والے مظالم کو یاد کر کے کثرت سے گریہ فرماتے، بہت سے شعراء نے آپ کی شان میں قصیدے کہے، مگر فرزدق نے امام کی شان میں جو قصیدہ کہا، فصاحت بلاغت کا بے مثال نمونہ ہے۔ ہشام حج کے لیے آیا حجراسود کو بوسہ دینا چاہتا تھا، مگر لوگ اسے راستہ نہیں دیتے، اس کے لیے تخت لگایا گیا، تاکہ جب رش کم ہو تو بوسہ دے سکے، اتنے میں امام تشریف لائے، جیسے ہی لوگوں نے آپ کو دیکھا فوراً راستہ چھوڑ دیا۔ آپ نے بوسہ دیا اور واپس چلے گئے، ہشام کے ایک حاشیہ نشین نے پوچھا یہ کون ہے، ہشام نے تحقیر سے کہا میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے، وہاں فرزدق موجود تھا، اس نے کہا میں تجھے بتاتا ہوں کہ یہ کون ہیں۔ اور فی البدیہ امام کی شان میں قصیدہ کہاھذا الذی تعرف البطحاء وطا تہ والبیت یعرفہ والحل والحرمما قال لا قط الا فی تشھد لو لا التشھد کا نت لاۂ نعمیغضی حیا ء و یغضی من مھابتہ فما یکلم الا حین یبتسمومن معشر حبھم دین و بغضھم کفرو قربھم منجی و مقتصممقدم بعد ذکر اللہ ذکرھم فی کل فرض و مختوم بہ الکلمیہ وہ ہیں جن کو حجاز خانہ خدا اور حل و حرم جانتے ہیں، انہوں نے تشہد کے علاوہ لا یعنی نہیں کبھی نہیں کہا، اگر تشہد میں لا نہ ہوتا تو کبھی لا نہ کہتے، یعنی سائل جو مانگتا ہے عطا کرتے ہیں، غصہ کی حالت میں حیاء کی وجہ سے آنکھیں نیچی رکھتے ہیں، ان کے رعب کی وجہ سے دوسرے لوگ اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں، یہ تبسم کرتے ہوئے گفتگو کرتے ہیں، قیامت کے دن ان کی محبت دین ہے، ان سے دشمنی کفر ہے، ان کا تقرب اور ان سے نزدیکی ہی انسان کی نجات کا سبب ہے، نمازوں میں ان کا نام اور ان کی یاد خدا کے ذکر کے بعد ہر چیز سے پہلے ہے، نمازیں ان کے نام پر تمام ہوتی ہیں۔
امام زین العابدین (ع) کی دعاؤں پر مشتمل کتاب صحیفہ سجادیہ موجود ہے، اسے زبور آل محمد (ع) بھی کہا گیا۔ ایک مصری محقق نے کہا تھا اگر صحیفہ سجادیہ نہ ہوتی تو مخلوق کو پتہ ہی نہ چلتا کہ خالق سے کیسے گفتگو کی جائے، یہ کتاب نصاب دعا کی حیثیت رکھتی ہے۔ امام (ع) نے معارف دین کو دعا کے دل نشین پیرائے میں بیان فرمایا ہے، جنہیں پڑھ کر ایمان کو تازگی ملتی ہے، روح کی تسکین ہوتی ہے، انسان قلب مطمئنہ کا مالک ہو جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ آپ سے منسوب رسالۃ الحقوق بھی موجود ہے۔ جس میں آپ (ع) نے تمام چیزوں کے حقوق کو بیان فرمایا ہے، دنیا آج جن حقوق کا نعرہ لگا رہی ہے، امام (ع) نے 14 صدیاں پہلے تفصیل سے بیان فرما دیئے ہیں، مثلاً استاد کا حق، شاگرد کا حق، جانور کا حق، ہمسائے کا حق، غلام کا حق اور جسم کا حق وغیرہ۔ غرض امام (ع) نے معاشرے کے تمام افراد کے حقوق کو تفصیلاً بیان فرما دیا۔ خدا سے دعا ہے کہ ہمیں امام (ع) کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین