تقيہ کے آثارا ور فوائد

116

 شہیدوں کے خون کی حفاظتتقیہ کا بہترین فائدہ شہیدوں کے خون کی حفاظت ہے .یعنی پوری تاریخ میں شیعیان علی (ع) مظلوم واقع ہوتے رہے ہیں. جب بھی ظالموں کے مظالم کا نشانہ بنتےتھے تقیہ کرکے اپني جان بچاتےتھے.چنانچہ امام صادق (ع)فرماتے هيں: اے ہمارے شیعو! تم، لوگوں کے درمیان ایسے ہو جیسے پرندوں کے درمیان شہد کی مکھی ہے . اگر پرندوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ شہد کی مکھی کے پیٹ میں شہد موجود ہے ، تو سارے شهد کي مکھیوں کو کھاجاتے اور ایک بھی زندہ نہیں چھوڑتے ؛ اسي طرح اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ تمھارے دلوں میں ہم اہل بیت (ع) کی محبت موجود ہے تو تمھیں زخم زبان کے ذریعے کھا جائيں گے اور ہر وقت تمھاری غیبت اور بدگمانی میں مصروف رہيں گے . خدا ان لوگوں پر اپنی رحمت نازل کرے جو ہماری ولایت کو مانتے ہيں.(1 )
• اسلام کی حفاظت اور تقویتیہ تقیہ کا دوسرا فائدہ ہے کہ اہل بیت (ع)، اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور تقویت کیلئے زیادہ کوشش کرتے تھے ، تاکہ اسلامی معاشرہ ایک واحد اور قدرت مند معاشرہ بنے ، تاکہ اسلام دشمن عناصر کبھی بھی اس معاشرے پر آنکھ اٹھانے کی جرأت نہ کرسکيں .اس عظیم مقصد کے حصول کے خاطر ائمه طاهرين(ع) اپنے چاہنے والوں کو سخت تاکید فرماتے تھے .جيسا که حديث ميں آيا هے: قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مِهْرَانَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع وَ عِنْدَهُ نَفَرٌ مِنَ الشِّيعَةِ فَسَمِعْتُهُ وَ هُوَ يَقُولُ مَعَاشِرَ الشِّيعَةِ كُونُوا لَنَا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْنَا شَيْناً قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً احْفَظُوا أَلْسِنَتَكُمْ وَ كُفُّوہا عَنِ الْفُضُولِ وَ قَبِيحِ الْقَوْل.(2 )چنانچه امام صادق(ع)فرماتے ہیں : اے ہمارے شیعو! خبردار! کوئی ایسا کام انجام نہ دیں ، جوہماری مذمت کا سبب بنے . لوگوں کے ساتھ اچھی گفتگو کیا کریں ، اپنی زبانوں کی حفاظت کریں اور فضول اور نازیبا باتیں کرنے سے باز آئیں .عَنْ هِشَامٍ الْكِنْدِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِيَّاكُمْ أَنْ تَعْمَلُوا عَمَلًا نُعَيَّرُ بہ فَإِنَّ وَلَدَ السَّوْءِ يُعَيَّرُ وَالِدُهُ بِعَمَلِهِ كُونُوا لِمَنِ انْقَطَعْتُمْ إِلَيْهِ زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْهِ شَيْناً صَلُّوا فِي عَشَائِرِهِمْ وَ عُودُوا مَرْضَاهُمْ وَ اشْهَدُوا جَنَائِزَهُمْ وَ لَا يَسْبِقُونَكُمْ إِلَى شَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَيْرِ فَأَنْتُمْ أَوْلَى بہ مِنْهُمْ وَ اللَّهِ مَا عُبِدَ اللَّهُ بِشَيْ‏ءٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الْخَبْ‏ءِ قُلْتُ وَ مَا الْخَبْ‏ءُ قَالَ التَّقِيَّة.(3 )راوی کہتا ہے کہ امام صادق(ع) نے فرمایا: خبردار ! تم کوئی ایسا کام کر نہ بیٹھيں جس کی وجہ سے هميں ذلت اٹھانا پڑے کیونکہ جب بھی کوئی اولاد برا کام کرتی ہے تو اس کے والدین کی لوگ مذمت کرنے لگتے ہیں.جب کسی سے دوستی کرنے لگے اور اس کی خاطر دوسروں سے دوری اختیار کرے ؛ اس کیلئے زینت کاباعث بنیں نہ مذمت اور بدنامی کاباعث . برادران اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کریں ، ان کے مرنے والوں کے جنازے میں شریک ہو جائیں ، ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ تم سے کار خیر میں آگے ہو ں ، کیوں کہ اچھے کاموں میں تم لوگ ان سے زیادہ سزاوار ہیں . خدا کی قسم ! خبأسے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں ہے . کسی نے سوال کیا : اے فرزند رسول (ص ) خبأ سے کیا مراد ہے ؟! تو امام نے جواب دیا : اس سے مرادتقیہ هے .عَنْ أَبِي أُسَامَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَ الْوَرَعِ وَ الِاجْتِهَادِ وَ صِدْقِ الْحَدِيثِ وَ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَ حُسْنِ الْخُلُقِ وَ حُسْنِ الْجِوَارِ وَ كُونُوا دُعَاةً إِلَى أَنْفُسِكُمْ بِغَيْرِ أَلْسِنَتِكُمْ وَ كُونُوا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا شَيْناً وَ عَلَيْكُمْ بِطُولِ الرُّكُوعِ وَ السُّجُودِ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَطَالَ الرُّكُوعَ وَ السُّجُودَ هَتَفَ إِبْلِيسُ مِنْ خَلْفِهِ وَ قَالَ يَا وَيْلَهُ أَطَاعَ وَ عَصَيْتُ وَ سَجَدَ وَ أَبَيْت.(4 )راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادق سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے : تم پر لازم ہے کہ تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرے ،کوشش اور تلاش کرے، سچ بات،امانت میں دیانت داری دکھائے ،اچھے اخلاق کا مالک بنے، اور اچھا پڑوسی بنے،اور لوگوں کو زبانی نہیں بلکہ اپنے کردار کے ذریعے اچھائی کی طرف بلائیں .اور ہمارے لئے باعث افتخار بنے نہ باعث ذلت اور رسوائی.اور تم پر لازم ہے کہ طولانی رکوع اور سجدے کیا کریں ؛ جب تم میں سے کوئی رکوع اور سجود کو طول دیتا ہے تو اس وقت شیطان اس کے پیچھے سے چیخ وپکار کرنےلگتا هے ، اور کهتا هے : واویلا ! اس نے خدا کی اطاعت اوربندگی کی، ليکن میں نے نافرمانی کی ، اس نے خدا کیلئے سجدہ کیا اور میں نے انکار کیا .اگر ان دستورات کو آپ ملاحظہ فرمائیں تو معلوم ہو جائےگا کہ ائمہ طاہرین (ع) کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان الفت و محبت پیداهوں اور صلح و صفا کے ساتھ زندگي کريں .
شرائط تقيہتقیہ ہر صورت اور ہر موقع اور ہر جگہ صحیح نہیں ہے بلکہ خاص شرائط اور زمان و مکان میں جائز اور مطلوب ہے .جہاں باطل اور ناجائز کاموں کا اظہار کرنا جائز ہو ؛ صرف وہاں تقيہ کرسکتا هے. اسی لئے تقیہ کے شرائط اور اسباب کچھ اس طرح تنظیم ہوا ہے کہ اس کام کے بطلان اور قباحت کو اٹھائے گئے ہو . شيخ الطائفه( طوسي(رہ)) اپنے استاد سيدمرتضي(رہ) سے فعل قبیح کے مرتکب ہونے کے لئے تین شرط نقل کرتے ہیں:1. اپنی جان کیلئے خطرہ ہو ، یعنی اگر اس قبیح فعل کو انجام نہ دے تو جان سے ماردینے کا خطرہ ہو .2. اس باطل فعل کے انجام دینے کے سوا کوئی اور چارہ نہ ہو .3. قبیح فعل کے انجام دینے پر مجبورکيا جارها ہو .اگر یہ تین شرطيں موجود ہو تو اس کام کی قباحت بھی دور ہوجاتی ہے .(5 )…………..(1 ) علامه كليني ؛ اصول كافي،ج۲،ص۲۱۸..(2 ) ۱ . أمالي الصدوق، ص 400، جلسہ۶۲‏.(3 ) . وسائل الشيعة ‏، باب وجوب عشرة العامة بالتقية ،ج۱۶،ص219 .(4 ) . كافي ،باب الورع، ج‏2 ، ص 76.(5 ) . يزدي ،دكتر محمود؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي .
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.