خدا و معصومین علیھم السلام کی غدیر کے ذریعہ اتمام حجت

239

اگر غدیر موجودہ معاشرے میں عملی شکل اختیار کر لیتی تو کوئی اختلاف و تفرقہ ھی نہ هوتا کہ ولایت کی بنیاددوں کو ثابت کرنے کے لئے بحث و مناظرے اور دلیلوں کی ضرورت هوتی ۔خداوند عالم کی ان لوگوں پر لعنت هو جنھوں نے غدیر کے میٹھے اور گوارا چشمے کو گدلا کیا ،اور نسلوں کو اس کا میٹھا و گوارا پانی پینے سے محروم کیا ،اور امت کے مھربان اماموں پر خداوند عالم کی صلوات و رحمت و برکتیں هوں جنھوں نے سقیفہ کے فتنوں میں غرق هو نے والوںسے غدیر کی حفاظت فرمائی اور غدیرکو مختلف حالات میں زندہ و جاوید بنادیا۔ان اقدامات سے وہ نوآشنا افراد مخاطب تھے جن کا اسلام کی اس عظیم حقیقت سے آشنا هو نا ضروری تھا ،وہ سوئے هو ئے ضمیر جنھیں تجدیدعھد اور یاد دلانے کی ضرورت تھی ،وہ مردہ دل جن کےلئے ھدایت کا راستہ کھولنا ضروری تھا تاکہ ان کی خشک زمین تک پا نی پہنچے ،اوراس دنیا میں صدیوں سال بعد آنے والی نسلیںجن کی اطلاع لئے حقیقت غدیر کو تاریخ کے اوراق میں ثبت هونا چا ہئے تھا ۔حریم غدیر کے اس دفاع مقدس کا تاریخچہ ،اپنے اندر ایسی شخصیتوں کو لئے هوئے ھے جو ھر زمانہ کے تقاضوں اور ھر جگہ کے حالات کے مطابق اپنی معنویت سے سرشارفکر و روح سے لے کر جان آبروتک اخلاص کے ساتھ فدا کرتے رھے ،انھوں نے ولایت کے ان قطعی استدلال کے اسلحہ سے جن کا پشت پناہ پروردگاعالم ھے ،ولایت کے دشمنوں کوعلمی بحثوں میں شکست فاش دے کر،اور پوری دنیا میں شیعیت اور غدیر کا نام روشن کرتے رھے ۔ان استدلالات اور غدیر کی یاد آور یوں کا واضح نمونہ خود ائمہ علیھم السلام اور ان کے اصحاب کے ذریعہ وقوع پذیر هوا ھے ،تمام راویوں نے چودہ سو سال کے عرصہ میں حدیث غدیر کی روایت بیان کی اور اس طرح اھل سقیفہ کے مقابلہ میں جھاد کیا ھے۔امام زمانہ عجل اللہ تعا لیٰ فر جہ الشریف کی غیبت کے دور میں غدیر کے دفاع کا پرچم علمائے شیعہ نے اپنے ھاتھوں میں اٹھا ئے رکھا ،یھاں تک کہ بہت سے مقامات پر دشمنوں نے غدیر کا اقرار کیا اور اس کا انکار کرنے سے عاجز رہ گئے۔آجکل ان استدلالات کا دامن کتا بوں اور جلسوں سے نکل کربہت وسیع هو گیاکانفرنسوں ،ریڈیو، ٹیلیویزن یھاں تک کہ انٹرنٹ سے بھی اس کے پروگرام نشر کئے جا نے لگے ھیں ۔ھم ذیل میں اتمام حجت اور استدلال کے ایسے لاکھوں موارد میں سے چندنمونے پیش کرتے ھیں :
۱۔خداوند عالم کا غدیر کے ذریعہ حجت تمام کرنا۱۔حارث فھری کا غدیر میں اعتراض کے طور پر خداوندعالم سے عذاب کی درخواست کرنا خداوند عالم نے بھی فوراً آسمان سے ایک پتھر بھیجا اور وہ سبھی کی آنکھوں کے سامنے ھلاک هو گیا اور یہ واقعہ خدا وند عالم کی طرف سے براہ راست سب سے پھلی اتمام حجت کے عنوان سے تاریخ میں ثبت هوا ۔[1]۲۔غدیر میں لوگوں نے ایک خوبصورت شخص کو یہ کہتے هوئے دیکھا:”خدا کی قسم میں نے آج کے دن کے مانندکوئی دن نھیں دیکھا ۔۔۔اس کےلئے ایساپیمان باندھا جس کو خدا اوراس کے رسول کا انکار کرنے والے کے علاوہ کوئی توڑ نھیں سکتا ھے۔ ۔۔” جب رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ وہ کون تھا؟ تو آنحضرت (ص)نے فر مایا :وہ جبرئیل تھے۔اس طرح دوسری مرتبہ سب لوگوں کی نگا هوں کے سامنے حجت الٰھی تمام هوئی ۔[2]۳۔منافقین کے ایک گروہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت با برکت میں حا ضر هوکر آپ سے آیت و نشانی طلب کی توپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :کیا تمھا رے لئے غدیر خم کا دن کافی نھیں تھا ؟جس وقت میں نے حضرت علی علیہ السلام کو اما مت کےلئے منصوب کیا تو منا دی نے آسمان سے ندا دی :”یہ خدا کا ولی ھے ،اس کی اتباع کرنا ورنہ تم پر خدا کا عذاب نازل هوگا ” [3]ایک دن ابو بکر نے چالاکی سے غصب خلافت کی توجیہ کرتے هو ئے حضرت امیر المومنین (ع) سے کھا :کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی ولایت کے سلسلہ میں غدیرکے بعدکسی چیز میں تغیر وتبدل نھیں کیا ۔۔۔لیکن آپ (ع) کے ان کا خلیفہ هونے کے متعلق ھم سے کچھ نھیں فرمایاھے !!حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :کیسا ھے کہ میں تمھاری پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرادوں تا کہ آنحضرت (ص) بذات خود تجھ کو اس کا جواب دیں ؟ ابو بکر نے اس بات کو قبول کرلیا اور نماز مغرب کے بعدحضرت علی علیہ السلام کے ھمرا ہ مسجد قبا میں آئے اور یہ مشاھدہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محراب ِمسجد کے پاس تشریف فرما ھیں اور آنحضرت (ص) نے ابو بکر سے خطاب کرتے هو ئے فرمایا :اے ابو بکر تو نے علی (ع) کی ولایت کے خلاف اقدام کیااورتو اس کے مقام پر بیٹھ گیاجو نبوت کی جگہ ھے اور علی (ع) کے علاوہ اس کا اورکوئی مستحق نھیںھے اس لئے کہ وہ میرے وصی اور خلیفہ ھیں ۔۔۔”اس معجزے کے ذریعہ کہ جس کا پشت پناہ خدا وند عالم ھے دوسری مرتبہ خدا وند عالم نے صاحب غدیر کے حق کو غصب کر نے والے پر اپنی حجت تمام کردی ھے ۔[4]۴۔حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ظاھری حکومت کے دوران غدیر کے عینی شا ھدوں کو خدا کی قسم دے کر کھا کہ وہ کھڑے هوں اور جو کچھ انھوں نے غدیر خم میں دیکھا تھا اس کی شھادت دیں ۔کچھ لوگوں نے اٹھ کر اس کی گواھی دی لیکن آٹھ افراد نے گوھی دینے سے انکار کیا ۔حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا :”اگر تم جھوٹ کہہ رھے هو اور بھانہ جوئی کر رھے هو در انحالیکہ تم غدیر خم میں مو جود تھے اور تم نے میری خلافت کا اعلان سناتھا، تو خداوند عالم تم میں سے ھر ایک کو کسی آشکار مصیبت میں گرفتار فرمائے “اس طرح واقعہٴ غدیر کے تیس سال بعدپروردگار عالم کی اتمام حجت ظاھر هوئی اور ان میں سے ھر ایک ایسے مرض میں گرفتار هوا جس کا سب نے مشاھدہ کیا مرض میں مبتلا هونے والے افراد دوسروں کے سامنے اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ ھم آپ(ع) کی دعا کے ذریعہ اس مرض سے دو چار هوئے ھیں ۔[5]
۲۔پیغمبر اکرم (ص)کا غدیر کے ذریعہ اتمام حجت کرنا۱۔اطراف مدینہ کے ایک بادیہ نشین شخص نے آنحضرت (ص) سے سوال کیا :میری قوم کے حاجی یہ خبر لا ئے ھیں کہ آپ نے خدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کو واجب قرار دیا ھے کیا خدوند عالم کی طرف سے ھے ؟آنحضرت (ص) نے فرمایا :اس اطاعت کو خدوند عالم نے واجب قرار دیا ھے ،اور حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت اھل آسمان اور زمین سب پر واجب کی گئی ھے “[6]۲۔آنحضرت (ص) نے مدینہ منورہ میں فرمایا :روز غدیر میری امتوں کی سب سے اچھی عیدوںمیں سے ھے اور یہ وھی دن ھے جس میںخدا وند عالم نے مجھ کو اپنے بھائی علی بن ابی طالب کو اپنی اپنی امت کے لئے جانشین بنا نے کا حکم صادر فرمایاتھا “[7]۳۔آنحضرت (ص) نے اپنی وصیت میں امیر المو منین علیہ السلام سے فرمایا: “۔۔۔میں نے غدیر خم میں لوگوں سے یہ عھد و پیمان لے لیا ھے کہ تم میرے بعد میری امت میں میرے و صی ،خلیفہ اور صاحب اختیار هو “[8]۴۔پیغمبر اکرم(ص) سے “مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاہُ ۔۔۔”کے مطلب کے سلسلہ میں سوال کیا گیا تو آنحضرت (ص) نے فرمایا :”۔۔۔جس شخص کا میں صاحب اختیار هوں اور اس کے نفس سے زیادہ اس پر حاکم هوں تو علی بن ابی طالب(ع) اس کے صاحب اختیار ھیں اور اس کے نفس پر خود اس کی نسبت زیادہ اختیار رکھتا هوں اور آپ(ص) کے مقابلہ میں اسے کو ئی اختیار نھیں ھے “[9]
۳۔امیر المو منین علیہ السلام کاغدیرکے ذریعہ حجت تمام کرنا۱۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے سات دن بعد حضرت علی علیہ السلام مسجد میں تشریف لا ئے اورلوگوں کومخاطب کرتے هوئے فرمایا:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجة الوداع کے بعد غدیر خم میں تشریف لا ئے اور آپ نے وھاں پر منبر سا بنا یاگیا اور آپ اس منبر تشریف لے گئے اور آپ نے اس منبر پر میرے بازو پکڑکر مجھے اتنا بلند کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفیدیٴ بغل دکھا ئی دینے لگی اس وقت آپ نے بلند آواز سے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْ لَا ہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَا ہُ ۔۔۔”خدا وند عالم نے اس دن یہ آیت نا زل فرمائی:<اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً>[10]۲۔ابو بکر اور عمر بیعت لینے کے لئے امیر المو منین علیہ السلام کے دولت کدہ پر آئے اور کچھ باتیں کرنے کے بعد با ھرنکلے توحضرت علی علیہ السلام فوراً مسجد میں تشریف لائے اور کچھ مطالب بیان کرنے کے بعد فرمایا :ابو بکر اور عمر نے میرے پاس آکر مجھ سے اس کے ساتھ بیعت کا مطالبہ کیا جس کے لئے میری بیعت کرناضروری ھے !۔۔۔میں صاحب روز غدیر میں هوں ۔۔۔”[11]۳۔پھلی مرتبہ جب حضرت علی علیہ السلام کو زبر دستی بیعت کے لئے لایا گیا اور آپ نے بیعت کر نے سے انکار کیا تو آپ(ع) نے فرمایا :میں یہ گمان نھیں کرتا هوں کہ پیغمبر اکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر کے دن کسی کےلئے کو ئی حجت یا کسی کےلئے کوئی بات باقی چھوڑی هو ۔میں ان لوگوں کو قسم دیتا هوں جنھوں نے غدیر خم کے دن “مَنْ کُنْتُ مَوْ لَا ہُ فَعَلِیٌّ مَوْ لَاہُ “سنا ھے وہ اٹھ کر اس کی شھا دت دیں ۔اھل بدر کے بارہ آدمیوں نے کھڑے هو کر غدیر کے ما جرے کی شھادت دی اور دیگر لوگ بھی اس سلسلہ میں باتیں کرنے لگے تو عمر نے ڈر کی وجہ سے مجلس کے خاتمہ کا اعلان کردیا!![12]۴۔دوسری مرتبہ جب امیر المو منین علیہ السلام کے گلے میں رسی کا پھندا ڈال کر اور آپ(ع) کے سر پر تلوار لٹکا کر زبردستی بیعت کے لئے لا یا گیا تو عمر نے کھا :بیعت کرو ورنہ ھم آ پ کو قتل کر دیں گے ۔آپ(ع) نے فر مایا :اے مسلمانو!اے مھا جر و انصار میں تم کو خدا کی قسم دیتا هو ں کیا تم نے غدیر خم میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نھیں سناتھا کہ آپ نے کیا فرمایا۔۔۔ “؟ سب نے مل کر آپ(ع) کی بات کی تصدیق کی اور کھا : ھاں خدا کی قسم ۔[13]۵۔حضرت علی علیہ السلام غصب خلافت اور خانہ نشینی اختیار کرنے کے بعدھمیشہ غاصبین خلافت سے ترشروئی کے ساتھ پیش آتے اور اپنی حالت انزجار کا اظھارکرتے ۔ایک روزحضرت ابو بکر بھولے سے اس مشکل کا خاتمہ کرنے کےلئے تنھائی میں آپ سے ملاقات کر نے کےلئے آئے آپ(ع) نے ابو بکر سے فرمایا: کوخداکی قسم دیتا هوں یہ بتا کہ غدیر کے دن پیغمبر کے فرمان کے مطابق میں تیرا اور تما م مسلمانوں کا صاحب اختیار هوں یا تو”؟ابو بکر نے کھا :یقیناً آپ ھیں! [14]۶۔ابو بکر نے دعویٰ کیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے میدان میں علی (ع) کو ھمارا صاحب اختیار قرار دیا لیکن ھمارا خلیفہ مقرر نھیں فرمایا ۔حضرت علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا :اگر پیغمبر اکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم بذات خدو تجھ سے فرمائیں کہ آنحضرت(ص) نے مجھ کو خلیفہ مقرر فر مایا ھے تو قبول کرلوگے ؟اس نے کھا :ھاں ۔حضرت علی علیہ السلام نے مسجد قبا میں ابو بکرکو رسول خدا صلی للہ علیہ وآلہ وسلم کی نشاندھی فرما ئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: علی علیہ السلام میرے وصی اور خلیفہ ھیں ۔[15]۷۔ایک دن ابو بکر نے حضرت علی علیہ السلام سے عرض کیا :اگر کوئی میرا مورد اعتماد شخص اس بات کی گواھی دیدے کہ آپ (ع) خلا فت کے زیادہ سزوارھیں تومیں خلافت آپکے حوالہ کردونگا !!!آپ(ع) نے فرما یا: اے ابو بکر کیا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کو ئی قابل اطمینان شخص ھے؟! آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چا رمقامات پر تجھ سے اور عمر ،عثمان اور تیرے کئی ساتھیوں سے میری بیعت لی ان میں سے ایک حجة الواداع سے واپسی کے وقت غدیر خم کا مقام تھا ۔[16]۸۔جس وقت ابو بکر کا نما ئندہ (جس کو غصب فدک کے بعد وھاں کا نما ئندہ بنایا تھا )حضرت علی (ع) کے اصحاب کے ھا تھوں قتل هوا تو ابو بکر نے اس جگہ پر خالد کوایک لشکر کے ھمراہ بھیجا ۔جب وہ حضرت علی (ع) کے روبرو هو ا تو حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ذو الفقار کے اشارہ سے خالد کو اس کے گھو ڑے سے نیچے گرا تے هو ئے فر مایا :”۔۔۔کیا تیرے اطمینان کےلئے غدیر کا دن کافی نھیں تھا جو تونے آج یہ عزم وارادہ کیاھے “؟![17]۹۔مندرجہ بالا واقعہ کے بعد حضرت علی علیہ السلام واپس مدینہ پلٹے تو ابو بکر اور آپ(ع) کے درمیان کچھ گفتگو هوئی ۔اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے اپنے چچا عباس سے مخاطب هو کر فرمایا :اب جبکہ روز غدیر ان کےلئے قانع کنندہ نھیں ھے تو ان کو خود ان ھی کے حا ل پر چھوڑدیجئے ۔وہ ھمیں جتنا کمزور کرسکتے ھیں کرنے دیجئے خدا وند عالم ھمارا مو لا ھے اور وہ بہترین حکم کرنے والا ھے ۔۱۰۔عمر کے دور میں بنی ھاشم نے مسجد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک میٹنگ کی جس میں امیر المو منین علیہ السلام نے عمر اور ابو بکر کے ذریعہ ایجاد هو نے والی بدعتوں کو شمار کیا منجملہ آپ(ع) نے فرمایا : غدیر کے روز جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری ولایت کا اعلان فر ما یا تواس وقت عمرنے اپنے دوست ابو بکر سے ملاقات کی ۔جب میرے تعارف کرانے اور منصوب کرنے کے تمام امور انجام پا گئے تو ابو بکر نے کھا :”واقعاً یہ ایک بہت بڑی کرامت ھے “!عمرنے اس پر سخت نظریں ڈالتے هو ئے کھا : “نھیں ،خدا کی قسم نھیں ،میں کبھی بھی ان کی باتوں پر کان نھیں دھروںگا اور ان کی اطاعت نھیں کرونگا “پھر اس کا سھارا لیتے هوئے تکبر کی حالت میں چلتے بنے ۔[18]۱۱۔عمر کے قتل هو جانے کے بعد عمر کی بنائی هو ئی چھ آدمیوں کی کمیٹی نے اپنے درمیان ایک شخص کا انتخاب کرنے کے لئے جلسہ کیا یہ عثمان کومنتخب کرنے کے لئے ایک سازش تھی جسے پھلے ھی منتخب کرلیا گیا تھا حضرت علی علیہ السلام جو اس کمیٹی کے ممبر تھے آپ (ع) نے بقیہ لوگوں پر اپنی حجت تمام کر نے کےلئے فرمایا :”میں تم کو خدا کی قسم دیتا هوں یہ بتاوٴ ،کیاتم میں میرے علاوہ کو ئی ایسا ھے جس کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے میدان میں خدا کے حکم سے منصوب کیا هو اور یہ فرمایا هو :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”؟سب نے مل کر کھا :نھیں ،آپ کے علاوہ کوئی اس فضیلت کا حامل نھیں ھے ۔حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: “کیا میرے علاوہ تم میں کو ئی ایسا شخص ھے جس کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جحفہ میں غدیر خم کے درختو ں کے نزدیک یہ فر مایا هو :”جس شخص نے تیری اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی ؟سب نے کھا :خدا کی قسم نھیں ،آپ کے علاوہ کوئی یہ منصب و فضلیت نھیں رکھتا ۔[19]۱۲۔ماجرائے شوریٰ اور انتخاب عثمان کے بعد لوگ اس کی بیعت کرنے کےلئے مسجد میں پہنچے تو حضرت علی علیہ السلام نے اس مجمع میں کھڑے هوکر فرمایا :کیا تمھارے درمیان کو ئی ایساشخص ھے جسکے غدیر خم کے میدان میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بازو پکڑکر یہ فرمایا هو :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”؟تو ایک شخص نے سب کی نمائندگی کرتے هو ئے کھا :ھم کسی ایسے شخص کو نھیںپہچا نتے جس کی گفتار آ پ کی گفتار سے زیادہ صحیح هو ۔[20]۱۳۔ عثمان کے دور میں مسجد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دوسو اصحاب کی موجودگی میں ایک جلسہ منعقد هوااس جلسہ میں حضرت علی علیہ السلام نے فرما یا :خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے والیان امر کے تعارف کرانے کا حکم دیا ۔۔۔تو آنحضر ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے میدان میں مجھکو اپنا جانشین منصوب کر تے هو ئے فرمایا :مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”؟اور خدا نے یہ آیت :<اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔۔۔>نازل فرما ئی ۔مسجد میں موجود مجمع نے کھا :ھاںخدا کی قسم ھم نے یہ سنا تھا جو کچھ آپ فرما رھے ھیں اور ھم سب غدیر خم میں موجود تھے ۔حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :میں تمھیں خدا کی قسم دیتا هوں جنھوں نے غدیر خم میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک هونٹوں سے وہ پیغام سناھے وہ اس کی گواھی دیں ۔اس وقت جناب مقداد ،ابوذر،عمار،براء اور زید بن ارقم نے کھڑے هو کر کھا :ھم گو اھی دیتے ھیں کہ ھمیں وہ وقت یاد ھے کہ جب آپ(ع) رسول اکرم (ص) کے ھمرا ہ منبر پر تشریف فر ماتھے اورآنحضرت(ص) نے یہ فرمایا: ایھا الناس !۔۔۔خدا نے تم کو ولایت کا حکم دیا ھے اور میں تم کو گواہ بناتا هوں کہ یہ ولایت حضرت علی (ع) سے مخصوص ھے[21]۱۴۔اسی جلسہ میں جب ابو بکر کے اس دعویٰ کے سلسلہ میں سوال کیا گیا کہ رسول اسلام(ص) نے فرمایا تھا کہ “خداوند عالم نبوت اور خلافت کو اھل بیت علیھم السلام میں جمع نھیں کرے گا ؟” توحضرت علی علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا :اس دعوے کے با طل هونے کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غدیر خم کا یہ فرمان ھے :مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “ھے۔میں کیسے ان کا صاحب اختیار هو سکتا هوں اگر وہ میرے امیراورمجھ پر حاکم هوں “؟![22]۱۵۔اسی جلسہ میں حضرت علی علیہ السلام نے جملہ “فلیبلغ الشاھد الغائب” یعنی حا ضرین غا ئبین تک پہنچا دیں “کے سلسلہ میں فر مایا :پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ صرف غدیرخم ،روز عرفہ اور اپنی رحلت کے دن فرمایا ۔۔۔اور تمام لوگوں کو حکم دیا کہ جب بھی وہ کسی شخص کو دیکھیں تو اس تک آل محمد علیھم السلام کے اماموں کی اطاعت اور ان کے حق کے واجب هو نے کا پیغام پہنچائیں “۔[23]۱۶۔بصرہ میں جنگ جمل کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام نے طلحہ سے فرمایا :میں تجھ کو خدا کی قسم دیتا هوں یہ بتا کہ کیا تونے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نھیں سنا تھا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “اس نے کھاھاںسنا تھا ۔آپ(ع) نے فرمایا تو پھر مجھ سے جنگ کر نے کیوں آئے هو؟اس نے کھا :میرے ذہن میں نھیں تھا اور میں بھول گیا تھا “یہ بات بیان کر دینا ضروری ھے کہ طلحہ نےغدیر خم کا پیغام یاد آ جا نے کے بعد بھی اپنے قتل هو نے تک حضرت علی علیہ السلام سے جنگ جا ری رکھی۔ [24]۱۷۔جس وقت حضرت علی علیہ السلام کوفہ میں جنگ صفین کی تیاریوں میں مصروف تھے تو آپ نے ایک خطبہ کے دوران فرمایا :اے مھا جرین وانصار ،۔۔۔کیا تم پر میری مدد کرنا واجب نھیں ھے ؟کیا میرے حکم کی اطاعت کرنا تم پر واجب نھیں ھے ؟۔۔۔کیا تم نے غدیر خم کے میدان میں میری ولایت اور صاحب اختیار هو نے کے سلسلہ میں فرمایا رسول(ص) کا فرمان نھیں سنا تھا؟۔[25]۱۸۔معا ویہ نے جنگ صفین میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام کو ایک خط میں اس طرح لکھا: “مجھ کو خبر ملی ھے کہ جب آپ(ع) اپنے اھل راز اورخاص شیعوں کے ساتھ تنھائی میں بیٹھتے ھیں تویہ ادعا کرتے ھیں کہ ۔۔۔خدا وند عالم نے آپ کی اطاعت مو منین پر واجب فر ما ئی ھے اور کتاب و سنت میں آپ کی ولایت کا حکم دیا ھے ۔۔۔اور (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی غدیر خم کے میدان میں اپنی امت کو جمع کیا اور آپ(ع) کے سلسلہ میں جو کچھ خداوند عالم کی جا نب سے پہنچا نے پر ما مور هو ئے تھے ا سے پہنچایا اور حکم دیا کہ حا ضرین غائبین تک یہ پیغام پہنچا ئیں اور لوگوں کو خبر دار کیا کہ آپ(ع) ان کے نفوس پرخود ان سے زیادہ صاحب اختیار ھیں ۔۔۔”[26]۱۹۔امیر المو منین علیہ السلام نے جنگ صفین کے میدان میں اپنے لشکریوں کوحالانکہ وھاں پر معا ویہ کے بھیجے هو ئے کچھ افراد بھی مو جود تھے )کے لئے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا :میں تم کو خدا وند عالم کے اس فرمان <یٰایُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْااَطِیْعُوْااللہَ ۔۔۔>کے سلسلہ میں قسم دیتا هوں کہ پیغمبر اسلام (ص) نے غدیر خم کے میدان میں مجھ کو اپنا خلیفہ و جانشین مقرر کیا اور فرمایا :ایھا الناس !خداوند عالم میرا صاحب اختیارھے اور میں مومنوں کا صاحب اختیار هوں اور میرا اختیار مومنوں کے نفوس پرخود ان سے زیادہ ھے جان لو “مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “۔ بدریین کے بارہ آدمیوں نے کھڑے هو کرواقعہ غدیر میں اپنی موجودگی کی گواھی دی اور چار آدمیوں نے کھڑے هو کرسب کےلئے واقعہ کی تفصیلات بیان کی ھے ۔ [27]۲۰۔معاویہ نے حضرت علی علیہ السلام کو ایک خط میں اپنے کچھ فضائل لکھ کر بھیجے اور ان پرفخر جتایا حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا :کیا ہندہ جگر خوار کا بیٹا مجھ پر فخر کرتا ھے؟! اس کے بعد آپ(ع)نے ایک خط تحریر فرمایا اور اس میں اشعار میں اپنے فضائل تحریر فرماکر اس کے پاس بھیجا جس کا ایک شعر یہ ھے:وَاَوْجَبَ لِیْ وِلَایَتَہُ عَلَیْکُمْ رَسُوْلُ اللہِ یَوْمَ غَدِیْرِخُمّیعنی :پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں اپنی ولایت تم سب پر واجب فرمائی اور میری ولایت تم پر واجب فر ما ئی ھے ۔[28]۲۱۔جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر کا ایک آدمی ھاتھ میں قرآن لئے هوئے اس آیت:<عَمَّ یَتَسَائَلُوْنَ عَنِ النَّبَاِالْعَظِیْم> کی تلاوت کر تے هوئے میدان جنگ میں آیااورحضرت علی علیہ السلام بذات خود اس سے جنگ کر نے کےلئے گئے تو آپ نے سب سے پھلے اس سے سوال کیا :کیا جس نباٴ عظیم پر لوگ اختلاف رکھتے ھیں تم کو اس کی خبر ھے ؟اس مرد نے کھا :نھیں !!آپ(ع) نے فرمایا :خدا کی قسم میں ھی وہ نباٴ عظیم هوں جس پر لو گوں نے اختلاف کیا ھے ۔میری ولایت کے متعلق ھی تم نے جھگڑا کیا ھے ۔۔۔ ان تم روزغدیر جان چکے هو اور قیامت کے دن بھی تم اپنے کرتوتوں کو جا ن لو گے۔[29]۲۲۔حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی ظاھری خلافت کے دور میں ایک سال عید غدیر جمعہ کے دن آگئی تو آپ(ع) نے جمعہ کے خطبہ کو غدیر کے مسئلہ سے مخصوص کیا اوراس کے ضمن میں فرمایا :”خدا وند عالم اپنے منتخب شدہ بندوں کے سلسلہ میں جو کچھ ارادہ رکھتا تھا وہ اس نے غدیر خم کے میدان میں اپنے پیغمبر پر نازل فرمایا اور اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا نے کا حکم صادر فرمایا ۔۔۔خداوند عالم نے اپنا دین کامل فر مایا اور اپنے پیغمبر ،مو منین اور ان کے تابعین کی آنکھو ں کو ٹھنڈک بخشی “خطبوں اور نماز جمعہ کے بعد آپ(ع) اپنے اصحاب کے ھمراہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے بیت مبارک پر تشریف لے گئے جھاں جشن غدیر منانے کا انتظام کیاگیا تھا اور مفصل طور پر پذیرائی بھی کی گئی تھی۔[30]۲۳۔حضرت علی علیہ السلام کی ظاھری خلافت کے دور میں آپ(ع) کے حکم سے مسجد کوفہ اور دارالامارہ کے سامنے کو فہ کے سب سے وسیع میدان میں ایک اجتماع هوا جس میں عظیم مجمع جمع هواتھا اور پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب بھی مو جود تھے آپ(ع) منبر پر تشریف لے گئے ۔حضرت علی علیہ السلام نے منبر سے قسم دے کر فرمایا جو شخص غدیر خم میں حا ضر تھا وہ کھڑا هو جائے اور جو کچھ اس نے غدیر خم میں دیکھا ھے اس کی گو اھی دے ۔آپ(ع) کی درخواست پرمجمع سے تقریبا ً تیس آدمی اٹھے اور جو کچھ انھوں نے غدیر خم میں مشاھدہ کیا تھا اس کی شھادت دی ۔لیکن غدیر میں حاضر آٹھ آدمیوں نے جا ن بوجھ کر گواھی دینے سے انکار کیا تو آپ(ع) نے ان سے اس انکار کی علت دریافت کی تو انھوں نے کھا ھم بھول گئے ھیں !!!حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :”اگر تم یہ بھانہ کرکے جھوٹ بو ل رھے هو اور جان بوجھ کر گواھی نھیں دے رھے هو تو تم میں سے ھر ایک بلا و مصیبت میں گرفتار هو”اور آپ(ع) نے ھر ایک کےلئے ایک خاص بلا ومصیبت بیان فر مائی ۔یہ تمام کے تمام آٹھ آدمی آپ(ع) کے فر مان کے مطابق آشکار مصیبت میں گرفتار هوئے اور لوگوں کے درمیان اسی بلا کے ذریعہ پہچا نے جا تے تھے ۔اور لوگوں کے درمیان مشهور تھا کہ یہ علی بن ابی طالب علیہ السلام کے نفرین شدہ ھیں۔[31]۲۴۔حضرت علی علیہ السلام نے جنگ نھروان کے بعد اپنے سن مبارک کے آخری مھینوں میں ایک مفصل نوشتہ ایک کتابچہ کی شکل میں املا فرمایا اور مولا کے کاتب نے اس کو تحریر کیا اور یہ طے پایا کہ جمعہ کے دن آپ (ع) کے خاص دس اصحاب کی مو جودگی میں آپ کایہ کتابچہ لوگوں کے سامنے پیش کیاجائے اس کتابچہ کے کچھ جملے یہ ھیں :ولایت کے سلسلہ میں میری دلیل یہ ھے کہ لوگوں کا صاحب اختیار صرف میں هوںقریش نھیں ۔۔۔چونکہ اس امت کی ولایت کے تمام اختیارات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل تھے اور آنحضرت (ص)کے بعد اس امت کا صاحب اختیار میں هوں ۔۔۔اسلئے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے غدیر خم میں فرمایا تھا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “[32]۲۵۔حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے اپنے امتیازات کے سلسلہ میں جو آپ(ع) کے علا وہ کسی اور کو عطا نھیں کئے گئے فرمایا ھے :خداوند عالم نے میری ولایت کے ذریعہ اس امت کے دین کو کا مل کیا اور ان پر نعمتیں تمام کیں ۔۔۔جس وقت پیغمبر اکرم(ص) سے یو م الولایة”غدیر خم کے دن “فرمایا :اے محمد (ص) لوگوں کو خبر دیدیجئے :<اَلْیَوْ مَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً >[33]۲۶۔حضرت علی علیہ السلام نے اس حدیث “ھم اھل بیت علیھم السلام کا امر لوگوں کےلئے بہت دشوار ھے انبیائے مرسل،ملائکہ مقرب اور جن مو منین کے قلوب کا پروردگار عالم نے امتحان لیا ھے ان کے علاوہ کو ئی اس(امر )کو برداشت نھیں کرسکتا ھے “کو بیان کرتے هو ئے فرمایا ھے :۔۔۔آنحضرت (ص) نے غدیر خم کے دن میرھاتھ اپنے ھاتھ میں پکڑکر فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “کیا مومنوں نے اسے قبول کیاان لوگوں کے علاوہ جنھیں اللہ نے لغزش اور گمراھی سے بچالیا تھا؟[34]۲۷۔حضرت علی علیہ السلام سے یہ درخواست کی گئی کہ آپ اپنے متعلق حضرت رسول(ص) خدا کی سب سے بڑی منقبت بیان فرمائیں تو آپ(ع) نے فرمایا :آنحضرت (ص) کا غدیر خم کے میدان میں خدا کے حکم سے میری ولایت کا اعلان فرمانا “[35]۲۸۔ایک دن حضرت علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام ایک دوسرے کے سامنے اپنے فضائل بیان کررھے تھے تاکہ یہ فضائل ھمارے یاد رھیں ۔منجملہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: میں وہ هوں کہ جس کے سلسلہ میں خداوند عالم نے فرمایا ھے :<اَلْیَوْ مَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنا>ًمیں وہ نباٴ عظیم هوں کہ خداوند عالم نے غدیر خم کے میدان میں میرے ذریعہ دین کا مل فرمایا ۔میں وہ هوں کہ جس کے سلسلہ میں پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ھے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ”[36]۲۹۔ایک شخص نے حضرت علی (ع) سے عرض کیا یا علی (ع) میرے لئے ایمان کی اس طرح کامل تعریف کیجئے کہ کسی دوسرے سے سوال کرنے کی ضرورت نہ رھے ۔تو آپ نے چند مطالب بیان فرمائے منجملہ یہ بیان فرمایا کہ گمراہ هونے کا سب سے کم سبب حجت خدا کی معرفت حاصل نہ کرنا ھے اس نے آپ(ع) سے عرض کیا کہ مجھے حجج الٰھی سے روشناس کیجئے ۔آپ(ع) نے فرمایا :جسکو پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم کے میدان میں اپنا جانشین معین فرمایا اور یہ خبر دی کہ میرا یہ جا نشین تم پر تمھارے نفسوں سے زیادہ حق رکھتا ھے ۔[37]۳۰۔ایک روز حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا :میرے ستّر فضائل ایسے ھیں جن میں سے کسی ایک میں بھی پیغمبر(ص) کا کوئی صحابی میرے ساتھ شریک نھیں ھے ۔اس کے بعد ان میں سے اکیاون وے مقام کو اس طرح بیان فرمایا :پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم کے میدان میں مجھ کو سب کا مو لا مقرر کرتے هوئے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “۔ظالمین رحمت الٰھی سے دور رھیں اور ان پر خداوند عالم کا عذاب نازل هو ۔[38]۳۱۔امیر المومنین علیہ السلام نے اس سلسلہ میں کہ وہ غدیر خم کی بیعت کے بعدلو گوں کی طرفسے هو نے والی ھر قسم کی کو تا ھی کے وہ خود ذمہ دار ھیں فرمایا :پیغمبر اسلام (ص)نے مجھ سے وصیت کر تے هوئے فرمایا:اے علی اگر تمھیں کو ئی ایسا گروہ مل جا ئے کہ دشمنوں سے جنگ کرسکوتو اپنے حق کا مطالبہ کرنا ورنہ خا نہ نشین هو جانا چونکہ میں نے غدیر خم کے میدان میں تمھارے سلسلہ میں یہ پیمان لے لیا ھے کہ تم میرے اور لوگوں کے خودان کے نفسوں سے زیادہ صاحب اختیار هو ۔[39]۳۲۔ایک دن حضرت علی علی (ع) نے لوگوں کی طرف نظریں اٹھا تے هو ئے فرمایا :تم نے خودمشاھدہ کیا ھے کہ پیغمبر اسلام(ص) غدیر خم کے روز کس طرح کھڑے هوئے اور مجھے اپنے پاس کھڑا کیا اورمیرا ھاتھ پکڑکر میرا تعارف کرایا۔[40]
۴۔غدیر کے سلسلہ میں حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کااتمام حجت کرنا۱۔حضرت ام کلثوم نے اپنے تین سال کے سن مبارک میں اپنی والدہ گرا می کو یہ حدیث فرماتے سنا ھے کہ جن لو گوں نے صاحب غدیر کو چھوڑ دیا تھا اور سقیفہ کی سخت حمایت کررھے تھے آپ(ع) نے ان سے خطاب کرتے هو ئے فر مایاتھا :کیا تم نے پیغمبر اکرم(ص) کے غدیر خم کے اس پیغام کو فراموش کردیا ھے : “مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “۔[41]۲۔حضرت رسول خدا(ص) کی رحلت کے بعد حضرت فا طمہ زھرا سلام اللہ علیھا اُحد کے شھیدوں کی قبروں کے پاس تشریف لے جاتیں اور گریہ فرماتی تھیں ۔محمود بن لبید نے آپ سے سوال کیا :کیا پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی وفات سے پھلے صاف طور پر حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے با رے میںکچھ فر مایا تھا ؟!حضرت زھرا سلام اللہ علیھا نے فرمایا :وا عجبا ،کیا تم نے غدیر خم کے دن کو بھلا دیا ھے ؟![42]۳۔جس وقت اھل سقیفہ نے بیعت کےلئے حضرت علی علیہ السلام کے بیت الشرف پر دھاوا بولا تو حضرت زھرا علیھا السلام پشت در آئیں اور فرمایا :”گو یا تم کو یہ نھیں معلوم کہ پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم کے دن کیا فرمایا تھا ؟!خدا کی قسم اس دن علی بن ابی طالب کی ولایت کا عھد لیاتھا تاکہ اس(ولایت) سے تمھاری امیدیں منقطع هو جا ئیں۔ لیکن تم نے پیغمبر اکرم(ص) سے اپنا رابطہ منقطع کرلیا! خدا وند عالم تمھارے اور ھمارے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا “[43]۴۔حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے سن مبارک کے آخری ایام میں مھاجر و انصار کی کچھ عورتیں آپ کی عیادت کے لئے آئیں ۔اس موقع پر آپ نے حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے سلسلہ میں مطالب بیان فر ما ئے، عورتوں نے وہ مطالب اپنے مردوں سے بیان کئے ، اسکے بعد انصار و مھا جرین کے کچھ سرکردہ افراد عذر خوا ھی کے عنوان سے آپ کے پاس آئے اورکہنے لگے :اے سیدة النسا ء اگر ابو الحسن نے یہ مطالب اھل سقیفہ کی بیعت سے پھلے بیان فرما ئے هو تے تو ھم ھر گز ان کی جگہ پر دوسروں کی بیعت نہ کرتے !!آپ علیھا السلام نے فرمایا :مجھ سے دور هو جا ؤ تمھارا عذر قابل قبول نھیں ھے ۔۔۔خدا وند عالم نے غدیر خم کے بعد کسی کےلئے کسی عذرکی کو ئی گنجائش باقی نھیں رکھی ھے ۔[44]
۵۔ غدیر کے سلسلہ میں امام حسن علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا۱۔حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی شھادت اور حضرت امام حسن علیہ السلام سے صلح کے بعد معا ویہ کو فہ پہنچا اور یہ طے پایا کہ امام حسن (ع) اور معا ویہ منبر پر جائیں اور لوگوں کےلئے صلح کا مسئلہ بیان فر ما ئیں جب معا ویہ اپنی باتیں کہہ چکا تو حضرت امام حسن علیہ السلام نے منبر سے حضرت علی (ع) کی مظلومیت کے سلسلہ میں مطالب بیان کر تے هو ئے فرمایا :اس امت نے میرے پدر بزر گوار کو چھو ڑ کر دو سروں کی بیعت کرلی حالانکہ خود انھوں نے اس چیز کا مشا ھدہ کیاتھا کہ پیغمبر (ص) نے غدیر خم کے میدان میں میرے پدر بزرگوار کو اپنا خلیفہ و جا نشین مقرر فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ حاضرین غا ئبین تک یہ پیغام پہنچا دیں “[45]۲۔ایک دن معا ویہ نے اپنے اصحاب کے ساتھ ایک جلسہ کیا جس میںامام حسن علیہ السلام کو بھی دعوت دی اس (معاویہ ) کے اصحاب نے ھر طرح سے آپ (امام حسن (ع) )کی شان اقدس میں جسارت کی اور آپ(ع) کے پدر بزرگوار حضرت امیر المو منین علیہ السلام کو ناسزا جملے کھے ۔امام حسن علیہ السلام نے حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے سلسلہ میں مفصل استدلال کیا منجملہ آپ(ع) نے فر مایا :پیغمبر اکرم(ص) نے منبرپر حضرت علی علیہ السلام کو بلا یا اس کے بعد آپ(ع) کے ھاتھوں کو پکڑکر فر مایا: “اللَّھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ “[46]
۶۔غدیر کے سلسلہ میں امام حسین علیہ السلام کا اتمام حجت کرنامرگ معاویہ اور واقعہٴ عا شوراسے ایک سال پھلے حضرت امام حسین علیہ السلام نے موسم حج میں منیٰ کے مقام پر سات سو افراد کو اپنے خیمہ میں دعوت دی جس میں پیغمبر اسلام(ص) کے دو سواصحا ب تھے ان کے درمیان آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایاجس میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے خلاف معا ویہ کے اقدامات کی مذمت کی آپ(ع) کے فضائل و مناقب بیان فرمائے اور ان سے اقرار لیا منجملہ آ پ(ع) نے فرمایا: میں تم کو خدا کی قسم دیتا هوں کیا تم جا نتے هو کہ پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کو منصوب کیا آپ(ع) کی ولایت کا اعلان کیا اور فرمایا :حاضرین غا ئبین تک یہ پیغام پہنچادیں ؟ مجمع نے کھا :ھاں خدا کی قسم (رسول(ص) نے یھی فرمایا تھا )۔[47]
۷۔غدیر کے سلسلہ میں امام زین العا بدین علیہ السلام کااتمام حجت کرناایک شخص نے حضرت امام زین العا بدین علیہ السلام سے سوال کیا :پیغمبر اسلام(ص) کے اس فرمان”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ”کا کیا مطلب ھے ؟آپ نے فرمایا :پیغمبر اکرم(ص) نے لوگوںکو خبر دی کہ میرے بعد علی بن ابی طالب علیہ السلام امام ھیں ۔[48]
۸۔غدیر کے سلسلہ میں امام باقر علیہ السلام کا احتجاج۱۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ان خاص حالات میں جو بنی امیہ کے دورکا اختتام کا تھا واقعہ غدیر کی تفصیلی داستان خطبہٴ غدیر کے مکمل متن کے ساتھ بیان فر ما ئی جو اس تاریخی خطبہ کےلئے امام معصوم علیہ السلام کی محکم سند ھے ۔[49]۲۔بصرہ کے ایک شخص نے حضرت امام باقر (ع) سے عرض کیا :حسن بصری آیت <یَااَ یُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکْ۔۔۔>کو پڑھتا ھے اور کہتا ھے :ایک شخص کی شان میں نا زل هو ئی ھے لیکن اس شخص کا نام بیان نھیں کرتا ھے ۔حضرت امام باقر علیہ السلام نے فر مایا :اس کو کیا هو گیا ھے ؟وہ اگر چا ہتا تو یہ بتا دیتا کہ کس شخص کے سلسلہ میں نا زل هو ئی ھے !جبرئیل نے پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت با برکت میں حاضر هو کر عرض کیا : خدا وند عالم نے آپ کو یہ حکم دیا ھے کہ آپ امت کےلئے یہ بیان فرمادیں کہ آپ کے بعد ان کا ولی کون ھے اور یہ آیت نازل فرما ئی پیغمبر اسلام(ص) بھی کھڑے هوئے اور حضرت علی (ع) کا ھاتھ اپنے ھاتھ میں لیا اوربلند کرکے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “[50]۳۔ابو بصیر نے امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت اقدس میں عرض کیا :لوگ کہتے ھیں : پر وردگار عالم نے قرآن کریم میں صاف طور پر اھل بیت علیھم السلام کے ناموں کا تذکرہ کیوں نھیں فرمایاھے؟ حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا :خدا وند عالم نے نماز نازل فرما ئی ھے لیکن نماز کی رکعتوں کی تعداد پیغمبر اسلام(ص) نے بیان فر ما ئی ھیں اسی طرح زکات اور حج ھیں ،اور آیت <اَطِیْعُوْااللہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَ اُوْلِی الْاَمْرِمِنْکُمْ >نازل فرما ئی جو حضرت علی ،حسن اور حسین علیھم السلام کی سلسلہ میں ھے ، کلمہٴ “اولوالامر “کو بیان کرتے هو ئے پیغمبر اسلام(ص) نے بیان فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌ مَوْلَاہُ “اگر آنحضرت (ص) سکوت فرماتے اور آیہٴ اولوالامر کے اھل کا تعارف نہ کراتے تو آل عباس ،آل عقیل اور دوسرے افراد اس کا دعویٰ کر بیٹھتے ۔جب حضر ت رسول خدا نے اس دنیا سے رحلت کی تو لوگوں کے صاحب اختیار حضرت علی علیہ السلام تھے ،چونکہ آنحضرت (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کالوگوں کے لئے اعلان کیا تھااور آپ کو اپنا خلیفہ و جا نشین مقرر فرمایا تھا۔[51]۴۔ابان بن تغلب نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا :پیغمبر اسلام(ص) کے اس فرمان :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “کا کیا مطلب ھے ؟حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فر مایا : کیا اس طرح کے مطلب میں بھی کو ئی سوال کی گنجا ئش باقی رہ جا تی ھے ؟!ان کو سمجھا یا کہ وہ آپ کے جا نشین و خلیفہ هو ں گے ۔[52]۵۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے امت کی طرف سے حقیقت ِ غدیر کے انکار کے سلسلہ میں تعجب سے فرمایا: کیا یہ امت اس فرمان و عھد کا انکار کرتی ھے جس کو پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی (ع) کےلئے اس دن لیا تھا جس دن آنحضرت (ص) نے ان کو ان ھی لوگوں کا خلیفہ و امام معین فرما یا تھا اور اپنے دور حیات ھی میں لوگوںکو ولایت و اطاعت کی طرف دعوت دی تھی اور ان کو اس مطلب کا گوا ہ بنایا تھا ۔ [53]۶۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے حدیث غدیر کے ذریعہ ولایت و برائت کو بیان کرتے هوئے فر مایا :یہ امت جب حضرت علی علیہ السلام کی خد مت میں پہنچتی ھے تو کہتی ھے: ھم علی علیہ السلام کے دو ستوں کو دوست رکھتے ھیں لیکن ان کے دشمنو ں سے بیزاری نھیں کر تے ،بلکہ ان کو بھی دوست رکھتے ھیں !ان کا یہ دعویٰ کس طرح صحیح هو سکتا ھے جبکہ پیغمبر اسلام(ص) کا فر مان ھے : “اللَّھُمَّ وَال مَنْ وَا لَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ “لیکن اس کے با وجود وہ ان کے دشمنوں سے دشمنی نھیں کر تے ھیں اور ان کو ذلیل و خوار کرنے والے کو ذلیل و خوار نھیں کرتے ھیں۔یہ انصاف نھیں ھے !!![54]
۹۔غدیر کے سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا۱۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فر مایا :لوگوں نے غدیر کے سلسلہ میں خود کوغفلت میں ڈال دیا ھے۔[55]۲۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے واقعہ ٴ غدیر نقل فرمانے کے بعد اس آیت <یَعْرِفُوْنَ نِعْمَةَ اللہِ ثُمَّ یُنْکِرُوْنَھَا>کی تلاوت فر ما ئی ، یعنی خدوند عالم کی نعمتوں کی معرفت هو جا نے کے بعد ان کا انکار کر تے ھیں “اور فر مایا :غدیر کے دن ان کو پہچا نتے ھیں اور سقیفہ کے دن ان کا انکار کر تے ھیں ۔[56]۳۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے امیر المو منین علیہ السلام کے رنج و محن کے سلسلہ میں تعجب سے فر مایا :غدیر کے دن آپ(ع) کے اتنے شاھد و گواہ تھے لیکن پھر بھی آپ(ع) اپنا حق نہ لے سکے حالانکہ لوگ دو گوا هوں کے ذریعہ اپنا حق لے لیتے ھیں !![57]۴۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے غدیرپر ثابت قدم رہنے کے سلسلہ میں فرمایا :پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کےلئے حا ضرین سے عھد و پیمان لیا اور ان سے آپ(ع) کی ولایت کا اقرار کرایا ۔بڑے خو ش نصیب ھیں وہ لوگ جو آپ(ع) کی ولایت پر ثابت قدم رھے اور وائے هو ان لوگوں پر جنھوں نے آپ(ع) کی ولایت کو چھوڑدیا “۔[58]۵۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے غدیر کیلئے قرآن سے استناد کر تے هو ئے فرمایا :خدا وند عالم کا فرمان ھے :<یَایُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکْ۔۔۔>اور یھیں پر پیغمبر اسلام نے حضرت علی علیہ السلام سے فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔ “[59]۶۔غدیر پیغمبر اسلام کی رسالت کا آخری پیغام تھا اس سلسلہ میں آپ(ع) نے فر مایا :خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فر ماتا ھے :<فَاِذَافَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلیٰ رَبِّکَ فَارْغَبْ >یعنی “جب آپ رسالت سے فارغ هو جائیں تو اپنے علَم اور نشانی کو منصوب فرمادیں اپنے وصی کا تعارف کرائیں اور اس کی فضیلت بیان فر ما دیں ۔۔۔”پیغمبر اکرم(ص) نے بھی حجة الو داع سے واپسی پر ندا دی تا کہ لوگ جمع هوجا ئیں اور فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔”۔ [60]۷۔حضرت اما م جعفر صادق علیہ السلام نے ابو بکر ،عمر اور عثمان کے کفر کے سلسلہ میں فرمایا:جب ان کے سامنے ولایت پیش کی گئی اور پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔ “تو انھو ں نے اس کا انکار کیا بعدمیں (ظاھری طور پر اقرار کیا )لیکن جب پیغمبر اکرم(ص) نے اس دنیا سے کوچ کیا تو یہ کا فر هوگئے ۔۔۔اس کے بعد انھوں نے اپنے کفر میںاور شدت اختیار کی کہ جن لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی تھی ان سے اپنے لئے بیعت لی یہ ایسے لوگ تھے جن کے لئے ایمان نام کی کو ئی چیز باقی نھیں رہ گئی تھی ۔[61]۸۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام جس سفر میں مدینہ سے مکہ تشریف لے جا رھے تھے راستے میں مسجد غدیر سے گزرے تو آپ(ع) نے مسجد غدیر کے بائیں طرف نظر ڈالتے هو ئے فرمایا :یہ پیغمبر اکرم(ص) کے پائے اقدس کاوہ مقام ھے جھاں پر آپ نے کھڑے هوکر یہ فرمایا تھا: “مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔”[62]۹۔حضرت امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ھے :روز غدیر وہ دن ھے کہ جس میں امیر المو منین (ع) کو خلیفہ و جا نشین بنایاگیا پیغمبر اکرم(ص) نے آپ(ع) کےلئے پیمان ولایت کو مردوں اور عورتوں سب کی گردن میںڈال دیا۔[63]۱۰۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے غدیر خم کی عظمت کو اس طرح یاد فرمایا :روز غدیر بہت اھم دن ھے ،خداوند عالم نے اس کی حرمت کو مو منین کے لئے عظیم قرار دیا اس دن دین کامل کیا اور ان پر نعمتیں تمام کیں اور (عالم ذر )میں جو عھد و پیمان ان سے لیا گیا تھا وہ دوبارہ لیا گیا ۔[64]۱۱۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس زمانہ میں فوری طور پر شھروں میں غدیر کی خبر منتشرهو نے کے سلسلہ میں فر مایا :جس وقت پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی (ع) کی ولایت کا اعلان کیا اور فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔ “،یہ خبر شھروں میں منتشر هو ئی ۔پیغمبر اسلام(ص) نے اس سلسلہ میں فرمایا :”اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کو ئی خدا نھیں ھے یہ مسئلہ خدا کی طرف سے ھے “[65]۱۲۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا :پیغمبر اسلام(ص) کے اس فرمان “مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔ “کا کیا مطلب ھے ؟امام جعفر صادق علیہ السلام نے پیغمبر اسلام(ص) کی یہ حدیث نقل فر ما ئی :”جس شخص کا میں صاحب اختیار هوں اور اس کے نفس پرخود اس سے زیادہ اختیار رکھتا هوں یہ علی بن ابی طالب اس کے صاحب اختیار ھیں اور اس کے نفس پر اس سے زیادہ حق رکھتے ھیںاور اس کے مقابلہ میں اسے کوئی اختیار نھیں ھے “[66]
۱۰۔غدیر کے سلسلہ میں امام کاظم علیہ السلام کااتمام حجت کرنا۱۔حضرت مو سیٰ بن جعفر علیہ السلام نے ایک حدیث میں واقعہٴ غدیر کو اس طرح نقل فرمایا: پیغمبر(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کا مشهور و معروف واقعہٴ غدیر میں تعارف کرایا اور لوگوں سے سوال کیا :کیا میں تمھا رے نفسوںپر تم سے زیادہ حاکم نھیں هوں ؟سب نے کھا : ؟ھاں، یا رسول اللہ۔آنحضرت (ص) نے آسمان کی طرف اپنی نظریں اٹھا تے هو ئے فر مایا :خدایا ،تو گواہ رہنا “،اور اس عمل کی آپ نے تین مرتبہ تکرار فرما ئی ۔اس کے بعد فرمایا :جا ن لو جس شخص کا میں مو لا هوںاور اس کے نفس پر اس سے زیادہ حاکم هوں یہ علی اس کے مو لا اور صاحب اختیار ھیں “۔[67]۲۔ حضرت امام مو سیٰ کاظم علیہ السلام نے غدیر میں منافقوں کی فریب کاریوں کے سلسلہ میں فرمایا :جس وقت پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کی ولایت و خلافت کا اعلان فر مایا اور مھا جرین و انصارکے بزرگوں کو ان کی بیعت کرنے کا حکم صادر فرمایا تو انھوں نے ظاھری طور پر تو بیعت کی لیکن اپنے درمیان دو منصوبے بنا ئے :ایک پیغمبر اسلام(ص) کے بعد حضرت علی علیہ السلام سے خلافت چھین لیں ،دوسرے اگر ممکن هو تو ان دونوں شخصیتوں کو قتل کر ڈالیں۔[68]۳۔جن ایام میں حضرت مو سیٰ بن جعفر علیہ السلام قید میں تھے تو ایک دن ھارون رشید نے آپ(ع) کو بلا بھیجا اور کچھ مسا ئل دریافت کئے منجملہ لوگوں پر اھل بیت علیھم السلام کی ولایت کے سلسلہ میں تھے ۔ سلسلہ میں تھے ۔حضرت مو سیٰ بن جعفر علیہ السلام نے فر مایا : تمام خلائق پر ھماری ولایت ھے اور اس دعوے کےلئے ھمارے پاس پیغمبر اسلام(ص) کا یہ فرمان ھے جو آپ نے غدیر خم کے میدان میں فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔ “[69]
۱۱۔غدیر کے سلسلہ میں امام رضا علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا۱۔حضرت امام رضا علیہ السلام کے زمانہ کے مخصوص حالات اور خراسان کا علاقہ جومخالفوں کا علمی مرکزتھااور اس بات کا متقاضی تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) سے مستند حدیثیں نقل کی جا ئیں لہٰذا حضرت امام رضا علیہ السلام نے حدیث غدیر کی سند کا سلسلہ اپنے آباء و اجداد حضرت مو سیٰ بن جعفر علیہ السلام امام صادق علیہ السلام ،امام باقر علیہ السلام ، امام سجاد علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام ،امیر المو منین علیہ السلام اور پیغمبر اسلام (ص) سے نقل فرمایا کہ آنحضرت (ص) نے فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔”[70]۲۔جب حضرت امام رضا علیہ السلام خراسان کے شھر مرو پہنچے تو آپ کی تشریف آوری کے پھلے ایام میںلوگ امامت کے سلسلہ میں بہت زیادہ گفتگو کیا کر تے تھے خاص طور سے جمعہ کے روز شھر کی جامع مسجد میں جمع هو کر اس سلسلہ میں محو گفتگو رھے ۔جب یہ خبرحضرت امام رضا علیہ السلام تک پہنچی تو آپ(ع) نے مسکرا کر فرمایا: ۔۔۔خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم(ص) کے سن مبارک کے آخری حج حجة الوداع میں آیت : <اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً > نازل فرمائی۔ پیغمبر اکرم(ص) اس دنیا سے نھیں گئے مگر یہ کہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کا خلیفہ و امام منصوب فرمایا۔[71]
۱۲۔غدیر کے سلسلہ میں امام علی نقی علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا۱۔جس سال معتصم عباسی نے حضرت امام ھا دی علیہ السلام کو مدینہ سے سا مرا ء بلایا تو آپ(ع) اس سال غدیر کے دن کوفہ تشریف لائے اور امیر المو منین علیہ السلام کی زیارت کےلئے نجف اشرف تشریف لے گئے وھاں پر آپ نے غدیر کی ثقافت کے سلسلہ میں مکمل اعتقادی زیارت کی قرائت فرمائی اور اس کے ضمن میں واقعہٴ غدیر کو اس طرح بیان فرمایا :پیغمبر اکرم(ص) سفر کی سختیاں طے کیں اور گرمی کی شدت میں ظھر کے وقت ایک خطبہ ارشاد کیا اور ۔۔۔فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”لیکن کچھ لوگوں کے علاوہ کوئی ایمان نھیں لا یا ۔ [72]۲۔اهواز کے لوگوں نے حضرت امام ھادی علیہ السلام کی خد مت اقدس میں ایک خط لکھا جس میں کچھ سوالات تحریر کئے ۔حضرت امام ھادی علیہ السلام نے اس خط کے جواب میں سوالات کے جوابات تحریر فرمائے ۔منجملہ تحریر فرمایا :ھم قرآن کریم میں اس آیت <اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہُ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا۔۔۔> کا مشا ھدہ کرتے ھیں ،اور تمام روایات اس بات پر متفق ھیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نا زل هو ئی ھے ۔ھم یہ بھی مشا ھدہ کرتے ھیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے اصحاب سے جدا کیا اور فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔” ان دونوں کے رابطہ سے ھم یہ مطلب اخذ کرتے ھیں کہ قرآن ان روایات کے صحیح هو نے اور ان شواھد کی حقانیت کی گواھی دیتا ھے ۔[73]
۱۳۔غدیر کے سلسلہ میں امام حسن عسکری علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا۱۔اسحاق بن اسما عیل نے نیشاپور سے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کےلئے ایک خط تحریر کیا جس میں کچھ مسائل تحریر کئے ۔آپ(ع) نے ان کے خط کا جواب اپنے نمایندوں کے ذریعہ بھیجا جس کا ایک حصہ یہ ھے :جب خداوند عالم نے اپنے آخری پیغمبر کے بعد اپنے اولیا ء کو منصوب کرکے تمھارے اوپر احسان کیا تو پیغمبر اکرم(ص) سے خطاب فرمایا :<اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً>[74]۲۔حسن بن ظریف نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت با برکت میں ایک خط تحریر کیا جس میں’ ‘مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔” کے معنی دریافت کئے ۔حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اس کا اس طرح جواب تحریر فرمایا: آنحضرت (ص) کا مقصد تھا کہ ان (علی (ع) )کو علامت اور نشانی قرار دے دیں کہ اختلاف کے وقت خدا وند عالم کے گروہ کی ان کے ذریعہ شناخت هو جا ئے ۔[75]
[1] الغدیر جلد ۱ صفحہ ۱۹۳۔بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۳۶،۱۶۲،۱۶۷۔عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۵۶، ۵۷، ۱۲۹، ۱۴۴۔ اس واقعہ کی تفصیل اسی کتاب کے دوسرے حصہ کی تیسری قسم میں ملا حظہ کیجئے ۔[2] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۲۰،۱۶۱۔عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۸۵،۱۳۶۔اس واقعہ کی تفصیل اسی کتاب کے دوسرے حصہ کی تیسری قسم میں ملا حظہ کیجئے ۔[3] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۵۳۔[4] بحا رالانوار جلد ۴۱صفحہ ۲۲۸۔[5] بحا رالانوار جلد ۴۰صفحہ ۵۴حدیث ۸۹۔[6] بحا رالانوار جلد ۴۰صفحہ ۵۴حدیث ۸۹۔[7] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۰۹حدیث ۲۔[8] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۱۱حدیث ۴۶۵۔[9] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۲۶حدیث ۵۳۵۔[10] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۸حدیث ۷۲۔[11] بحا الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۲۴۸۔[12] بحا الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۱۸۶،اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۱۵۔[13] بحار الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۲۷۳۔[14] بحا الانوار جلد ۲۹ صفحہ ۳۔۱۸۔[15] بحا الانوار جلد ۴۱ صفحہ ۲۲۸۔[16] بحا الانوار جلد ۲۹ صفحہ۵ ۳۔۳۷۔[17] بحا الانوار جلد ۲۹ صفحہ ۴۶۔۶۲۔[18] کتاب سلیم حدیث ۱۴۔[19] بحا الانوار جلد ۳۱صفحہ ۳۳۲،۳۵۱،۳۷۳،۳۸۱۔[20] بحا الانوار جلد ۳۱صفحہ ۳۶۱۔[21] بحا الانوار جلد ۳۱صفحہ ۴۱۰۔۴۱۲۔[22] بحا الانوار جلد ۳۱صفحہ ۴۱۶،۴۱۷۔[23] کتاب سلیم حدیث۱۱۔[24] الغدیر جلد ۱صفحہ ۱۸۶۔[25] بحا رالا نوار جلد ۳۲صفحہ ۳۸۸۔[26] کتاب سلیم حدیث ۲۵۔[27] کتاب سلیم حدیث ۲۵۔[28] بحا ر الانوار جلد ۳۸صفحہ ۲۳۸حدیث ۳۹۔[29] مناقب ابن شھر آشوب جلد ۳صفحہ ۸۰۔[30] بحارالانوار جلد ۹۴صفحہ ۱۱۴۔۱۱۵۔[31] بحا رالانوار جلد ۳۱صفحہ ۴۴۷،جلد ۳۷صفحہ ۱۹۹۔ عوالم ۱۵/۳صفحہ ۸۹۔۴۹۰۔الغدیر جلد ۱صفحہ ۹۳۔[32] بحا رالانوار جلد ۳۰صفحہ ۱۴۔[33] بحا رالانوار جلد ۳۹صفحہ ۳۳۶حدیث/۵۔[34] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۲۳۴۔[35] کتاب سلیم حدیث/ ۶۰۔[36] فضائل شاذان صفحہ ۸۴۔[37] کتاب سلیم حدیث /۸۔[38] بحا رالانوار جلد ۳۱صفحہ ۴۴۳۔[39] اثبات الھدات جلد ۲ صفحہ ۱۱۱حدیث/۴۶۵۔[40] بحا رالانوار جلد ۳۸صفحہ ۲۴۰۔[41] الغدیر جلد ۱ صفحہ ۱۹۷۔[42] بحارالانوار جلد ۳۶صفحہ ۳۵۲،الغدیرجلد ۱صفحہ ۱۹۷،اثبات الھدات جلد ۲صفحہ ۱۱۲۔[43] بحارالانوار جلد ۲۸صفحہ۲۰۵۔[44] بحار الانوار جلد ۴۳صفحہ ۱۶۱۔[45] بحار الانوار جلد ۱۰صفحہ۳۹ ۱۔[46] بحار الانوار جلد ۴۴صفحہ ۷۵۔[47] کتا ب سلیم حدیث ۲۶۔[48] اثبات الھدات جلد ۲ صفحہ ۳۴ حدیث ۱۳۹۔[49] بحار الانوار جلد ۳۷صفحہ ۲۰۱حدیث ۸۶۔[50] بحار الانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۴۰حدیث ۳۴۔[51] بحار الانوار جلد ۳۵صفحہ ۳۱۱۔[52] اثبات الھدات جلد ۲ صفحہ ۳۴ حدیث ۱۴۰۔[53] اثبات الھدات جلد ۲ صفحہ ۳۴ ۱حدیث ۵۸۴۔[54] بحار الانوار جلد ۲۱صفحہ ۳۳۹۔[55] اثبات الھدات جلد ۱صفحہ ۵۲۶حدیث ۲۸۵۔[56] اثبات الھدات جلد ۲ صفحہ ۶۴ ۱حدیث ۷۳۶۔[57] بحا رالا نوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۴۰ حدیث ۳۳۔[58] بحا رالا نوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۰۸ ۔[59] بحا رالا نوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۰۳ ۔[60] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۴حدیث ۷۔[61] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۷حدیث ۱۸۔[62] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۶حدیث ۶۷،صفحہ ۲۱حدیث۸۷۔[63] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ۸ ۷حدیث ۳۲۷۔[64] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۹۱۔[65] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۲۲حدیث ۵۰۵۔[66] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ۶ ۱۲حدیث ۵۳۵۔[67] بحا ر الانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۴۲۔[68] بحا رالانوار جلد ۶ صفحہ ۵۳۔[69] بحا رالانوار جلد ۴۸صفحہ ۱۴۷۔[70] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ۱۰۳حدیث ۴۲۵۔[71] غیبت نعمانی صفحہ ۲۱۸حدیث۶۔[72] بحا رالانوار جلد ۹۷صفحہ ۳۶۰۔[73] بحا رالانوار جلد ۲صفحہ۲۲۶حدیث ۳۔[74] بحا رالانوار جلد ۵۰صفحہ ۳۲۱۔[75] اثبات الھداة جلد ۲صفحہ ۱۳۹حدیث۶۰۶۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.