احکام الٰہی اور انسانی معاشرہ

293

 
احکام الٰہی اور انسانی معاشرہیوں تو تمام مذاہب کے قوانین و اصول سماجی انصاف و بھلائی پر مبنی ہوتے ہیں مگر اسلام نے اس کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے ،اسلام کے قوانین صرف معاشرے کی فلاح و بہبود سے تعلق رکھتے ہیں ،ان پر عمل کرنے سے صرف اور صرف ہمارا فائدہ ہے ،انسان اگر اپنے آپ کو ان قوانین کا پابند بنالے تو دنیا و آخرت میں تمام مصیبتوں سے نجات مل جائے گی اور دنیا امن و آشتی کا گہوارہ نظر آئے گی ،پھر نہ کسی پر ظلم ہوگا اور نہ کوئی ستایا جائے گا…اگر دنیا میں پائے جانے والے ادیان و مذاہب کا مطالعہ کریں تو کم و بیش یہ قانون مل جائیں گے ،مگروہ اس لئے کافی نہیں کیونکہ ان کے ماننے والوں نے اپنی طرف سے نہ جانے کیا کیا اِن قوانین میں شامل کرلیا ہے جب کہ اسلام کے قوانین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی ہے ،اگر ہم الٰہی احکام کا مطالعہ کریں تو یہ عین فطرت انسانی کے مطابق نظر آئیں گے جن پر عمل کرنے سے حکم تعبدی کی بجا آوری اور معاشرے کو فلاح و بہبودنصیب ہوگی، شہید آیت اللہ محمد باقر الصدر تحریر فرماتے ہیں کہ: “حکم شرعی وہ قانون ہے جو خداوند عالم کی جانب سے انسانوں کی زندگی کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے لئے صادر ہو”(دروس فی علم الاصول ،شہید صدر،جلد ۱ ،حلقہ اولیٰ،صفحہ ۶۱، مطبوعہ قم)،الٰہی قوانین کا تعلق اکثر و بیشتر فروع دین سے ہے کیونکہ فروع دین عمل کا نام ہے ،اور قانون عمل پر ہی لاگو ہوتا ہے، فروع دین میں سب سے پہلے نماز ہے جس کے بے شمار فائدے معاشرے کو پہنچتے ہیں ،قرآن مجید کے سورہٴ عنکبوت کی 45ویں آیت میں اعلان ہورہاہے : “اِنَّ الصَّلوٰةَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرْ”بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے …اس کے علاوہ نماز سے معاشرے کو اور بھی فائدے پہنچتے ہیں ،اگر باجماعت ہو تو سونے پر سہاگہ ہے کیونکہ جماعت میں اہل محلہ ایک دوسرے کی احوال پرسی کے علاوہ دردو غم کا بھی مداوا کرتے ہیں ،اس کے لئے نماز جمعہ بھی بہترین ذریعہ ہے جس سے نہ صرف پورے شہر بلکہ پورے ملک اور دنیا کے حالات امام جمعہ کی زبانی معلوم ہوجاتے ہیں ،امام خمینی فرماتے ہیں کہ : نماز جماعت میں ایک جگہ لوگوں کا اجتماع یہ اس لئے ہے تاکہ لوگ اپنی مملکت کے حالات سے آگاہ ہوں اور ان کی مشکلات سے مطلع ہوں اور ان کو دور کریں… (حکومت از دیدگاہ امام خمینی ،صفحہ ۲۶،ناشر ادارہٴ کل فرہنگ و ارشاد اسلامی تہران، پہلا ایڈیشن ۱۹۹۳ء) نماز سے معاشرے کو اس کے علاوہ بھی فائدے پہنچتے ہیں …چونکہ نمازی کے لئے ضروری ہے کہ باطہارت نماز ادا کرے جو وضو یا غسل کی صورت میں ہو ،اس طرح نمازی معنوی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ ظاہری طہارت کا بھی عادی ہوجاتا ہے اور ہر وقت صاف ستھرا رہتا ہے اور ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ انسان اگر کسی چیز کی بہت زیادہ تکرار کرے تو وہ اس کا عادی ہوجاتا ہے ،چونکہ نمازی روزانہ پانچ وقت اس شرط کا پابند ہے کہ وضو یا غسل کا پانی یا نماز پڑھنے کی جگہ کسی سے چھینی ہوئی نہ ہویا بغیر اجازت نہ ہو اس لئے وہ معاشرے میں دوسروں کے مال پر دست درازی سے بھی دور رہتا ہےاور اس کی یہ عادت چوری ،ڈکیتی، مالی بدعنوانی، غصب، یتیموں اور کمسن بچوں کے مال ،وقف اور بیت المال کو ہڑپ کرنے سے روکتی ہے…معاشرے کی فلاح وبہبود میں روزہ بھی اہم کردار ادا کرتا ہے ،روزہ رکھنے سے انسان پرہیز گار ہوجاتا ہے جس سے معاشرے کی بے چینیاں بہت حد تک ختم ہوسکتی ہیں ،قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے : “یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامَ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(سورہٴ بقرہ، آیت ۱۸۳) صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے ،شاید تم اسی طرح متقی بن جاوٴ”جس طرح نماز کی صفوں میں معاشرے کے امیر و غریب سب برابر ہوتے ہیں اور کوئی تفریق نہیں رہتی اسی طرح روزہ بھی مساوی طور پر سماج کے ہر طبقے پر واجب ہے تاکہ ہر ایک کو بھوک و پیاس کی تکلیف کا احساس ہوجائے ،امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ : “انما فرض اللّٰہ الصیام لیستوی بہ الغنی والفقیر”(من لا یحضرہ الفقیہ، جلد ۲، صفحہ ۷۳، حدیث ۱، شیخ صدوق، مطبوعہ تہران)خداوند عالم نے روزہ کو اس لئے واجب کیا ہے تاکہ غنی اور فقیر برابر ہوجائیں ،نماز کی طرح روزہ بھی برائیوں سے روکتا ہے کیونکہ اہل بیت کے نزدیک صرف پیٹ کا روزہ روزہ نہیں ہے بلکہ تمام اعضاء انسانی کا اپنے کو بُرے کاموں سے بچانے کا نام روزہ ہے ،امام علی فرماتے ہیں : “الصّیام اجتناب المحارم”(بحار الانوار، جلد ۷۱،صفحہ ۲۳۲، روایت ۱۳، باب ۶۷، مطبوعہ تہران)یعنی حرام کاموں سے دور رہنا ہی روزہ ہے، جس طرح روزہ کی حالت میں کھانے پینے سے پرہیز ضروری ہے اسی طرح زبان سے کسی کی برائی کرنا، آنکھ سے نا محرم پر نگاہ ڈالنا ،ہاتھ سے چوری کرنا ،پیروں سے چل کر کسی برے کام کے لئے جانا ،کانوں سے کسی کی برائی سننا اور بہت سے ایسے ہی ناجائز امور سے بھی پرہیز لازم ہے، اگر انسانی معاشرہ ایک مہینہ تک ایسے روزوں کے ذریعہ اپنے آپ کو سنوار لے تو اس کی یہ عادت اسے سال بھر تک برائیوں سے دور رکھے گی ،جس سے ایک بہترین معاشرہ وجود میں آسکتا ہے…اسی طرح حج بھی اطاعت خدا کے ساتھ ساتھ معاشرے کے لئے بے شمار فوائد کا حامل ہے اگر ہم صرف ایک ہی فائدے کو مد نظر رکھ لیں تو ہماری ساری مشکلات ختم ہوسکتی ہیںاور وہ یہ کہ اس عظیم سیاسی عبادت کے ذریعہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک جگہ مل بیٹھ کر اسلامی دنیا کے مسائل کو درک کرنے اور ان کے حل کے لئے کوئی راہ تلاش کرنے کا موقع ملتا ہے جو حج کے علاوہ کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے …ان قوانین میں شامل اسلامی ٹیکس بھی قابل ملاحظہ ہیں : ہر حکومت یا معاشرے کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ عوام کچھ رقم اکٹھا کرے تاکہ وہ انہیں کی آسائش و ضروریات پر خرچ ہوجائے ،یہی ٹیکس اور اس کا فائدہ ہے البتہ اس کے بھی دائرے اور حدود معین ہوتے ہیں ،اسی ٹیکس سے سماج کی ایسی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں جو تنہا انسان اپنے بل پر نہیں کرسکتا ،البتہ اگر ٹیکس سے جمع کی گئی رقم کو رشوتوں اور گھوٹالوں کی نذر نہ کردیاجائے تبھی اس سے سماج کو فائدہ پہنچتا ہے،اسلام نے جو ٹیکس خمس و زکوٰة، جرمانے کفارات اور منتیں نذر و عہد کی شکل میں رکھی ہیں انہیں دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام نے معاشرے کی فلاح و بہبود کو کس قدر اہمیت دی ہے …زکوٰة اسلام کے اقتصادی سسٹم کا ایک ایسا جزء ہے جس کے ادا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و خوشنودی کے علاوہ معاشرے کے ایسے افراد کی مالی اعانت ہوتی ہے جو کسی وجہ سے اپنے اور اپنے اہل و عیال کا آزوقہ (راشن پانی )فراہم کرنے سے قاصر ہوں،اس بارے میں شہید آیت اللہ محمد باقر الصدر تحریر کرتے ہیں کہ : یہ صحیح ہے کہ زکوٰة ،نماز روزہ کی طرح ایک عبادت ہے لیکن اس کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ اس کا اقتصادی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے، زکوٰة انفرادی عمل ہوتا تو اسے والی ٴ مملکت سے متعلق نہ کیاجاتا ،والی سے متعلق کرکے عمومی ضمانتِ زندگی کاذریعہ بنادینا اس بات کی دلیل ہے کہ زکوٰة تمام دوسری عبادتوں سے الگ اسلامی نظام معیشت کا ایک جزء ہے”(اسلامی اقتصادیات کا جائزہ ،صفحہ ۴۷، شہید صدر، ترجمہ علامہ جوادی ، مطبوعہ تہران)زکوٰة کی طرح خمس بھی معاشرے کو طبقاتی ہونے سے روکنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ،کیونکہ اسلام کے اقتصادی سسٹم میں خمس کو بہت اہمیت حاصل ہے ،خمس سے قطع نظر حکومت اسلامی کا ذریعہ ٴ آمدنی فقط زکوٰة بچتا ہے جو خوشحالی اور قحط سے خالی زمانہ میں 2.5% (ڈھائی فیصد) حاصل ہوتی ہے ،حکومت کے لئے اتنی قلیل آمدنی “اونٹ کے منھ میں زیرہ” کی حیثیت رکھتی ہے جس سے کو ئی تعمیری کام انجام پذیر نہیں ہو سکتا اس آمدنی سے نہ مدارس کی تعمیر ممکن ہے اور نہ طبی سہولتوں کی فراہمی اور نہ ہی سڑکوں کی درستگی و تعمیر ممکن ہے چہ جائیکہ وہ انفرادی اور شخصی زندگی کی معاشیات کی کفالت کرسکےاور اسی طرح اسلامی حکومت کے لئے یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی بقا اور استحکام کے لئے جارح ممالک سے اپنا دفاع کرسکیں…جب کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج بڑی حکومتیں جو ترقی یافتہ کہی جاتی ہیں وہ اپنے یہاں استعمال ہونے والی چیزوں پر ایسا ٹیکس لگاتی ہیں جو تقریباً خمس کے برابر یعنی 20% ہوتا ہے اور اس میں اگر آمدنی کا ٹیکس بھی جوڑ لیاجائے تو وہ 20%سے زیادہ ہوجائے گا…اسلامی منتوں (نذر و عہد)کا بھی معاشرے کی بہبود سے براہ راست تعلق ہے ،اسلام نے ایسی منتیں ماننے کا حکم دیا ہے جس سے معاشرے کو فائدہ پہنچے، جیسے منت پوری ہونے کے بعد حسب نیت و وعدہ یا تو دو رکعت نماز پڑھنی چاہئے یا روزہ رکھنا چاہئے یا کسی حاجت مند کی حاجت روائی کی جائے یا غریب طالب کی پڑھائی لکھائی کا خرچ برداشت کیاجائے ، ،اسی طرح اسلامی جرمانے معاشرے کی بہبود سے متعلق ہوتے ہیں مثلاً اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ماہ رمضان کا روزہ توڑ دے تو ایک غلام آزاد کرے یا ساٹھ روزے پے درپے رکھے یا ساٹھ فقیروں کوپیٹ بھر کھانا کھلائے یا ہر فقیر کو 750گرام گیہوں یا آٹا یا روٹی دے…اسی طرح صدقہ جس کی اسلام نے بہت تاکید کی ہے اور اس کی رقم بھی معین نہیں کی ہے تاکہ ہر چھوٹا بڑا اس کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوجائے بس شرطِ قربت ہے ،یعنی اللہ کی خوشنودی کے لئے ،صدقے کے بے شمار فائدے ہیں ،جو معاشرہ صدقہ نکالنے کاعادی ہوتا ہے وہ قول رسول کی روشنی میں حادثاتی اموات اور بلائے ناگہانی سے محفوظ رہتا ہے…موت دو طرح کی ہوتی ہے سببی(حادثاتی )اورطبیعی ،طبیعی موت تو اپنے وقت پر آتی ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا،لیکن حادثاتی موت جو کسی حادثے یا خودکشی وغیرہ کی وجہ سے واقع ہوتی ہے صدقہ سے ٹل جاتی ہے،مثال کے طور پر آم کا پھل ایک تو وہ ہوتا ہے جو اپنے وقت پر درخت پر پک کر گرجائے دوسرا وہ جو لاٹھی ڈنڈے یا ڈھیلے پتھر سے قبل از وقت گرادیا جائے …صدقہ کی دو صورتیں ہیں واجب اور مستحب صدقہٴ واجب جیسے فطرہ اور زکوٰة ،غیر سادات کا صدقہٴ واجب سادات پر حرام ہے لیکن صدقہٴ مستحب حرام نہیں ہے ، عقیقہ ،امام ضامن اور مختلف مواقع پر نکالا جانے والا صدقہ ،صدقہٴ مستحب میں شمار کیاجاتا ہے،صدقہ کی رقم اگر جمع کرلی جائے تو اس سے معاشرے کے ان افراد کی امداد بھی ہوجاتی ہے جو کسی بھی وجہ سے معاشرے میں پیچھے رہ گئے ہیں جس سے انہیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور عزت نفس محفوظ رہتی ہے …عصر حاضر میں اسلامی احکام کو عملی طور پر ایران کی اسلامی جمہوریہ میں پرکھا جا چکا ہے جس کے حیرت انگیز فوائد دنیا کے سامنے ہیں اسی ایرانی معاشرے میں صدقے کے رواج سے جو فوائد ہورہے ہیں وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں… اس وقت پورے ایران میں خیراتی تنظیم (کمیتہٴ امدادا مام خمینی) “امام خمینی امدادکمیٹی”کی جانب سے عمومی مقامات جیسے گلی کوچوں ،چوراہوں، بس ٹیکسی اسٹینڈ،ریلوے اسٹیشن،ائیر پورٹ،مسافر خانے،ہوٹل، ،پارک، اسپتال،سکول،کالج، مدرسے اور یونیورسٹی وغیرہ میں اسٹیل کے Boxلگائے گئے ہیں جن پر صدقہ کی فضیلت میں ایک حدیث مع ترجمہ بہت ہی خوبصورت جلی الفاظ میں ابھری ہوئی تحریر میں درج ہوتی ہے ،اِن میں روزانہ لاکھوں تومان صدقے کے اکٹھا ہوتے ہیں جو جمع ہوکر کروڑوں تومان ماہانہ ہوجاتے ہیں جن کو مذکورہ تنظیم معاشرے کے ضرورت مندوں،یتیموں، بیواوٴں،بے سہارا اور بیکسوں کی مدد کے علاوہ ایران میں زلزلہ، سیلاب اور آگ لگنے جیسے حادثات سے متاثرہ افراد کی امداد بھی اسی بیسہ سے کرتی ہے اور اس طرح ایران ایسے مواقع پر امریکہ و برطانیہ جیسے مغرور و متکبر ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو مجبور نہیں ہوتااور نہ ہی عالمی بینک کے سودی جال میں پھنس کر اپنی قومی آزادی کا سودا کرنا پڑتا ہے،صدقہ جیسے سنت حکم کو معاشرے میں رائج کرکے جب اتنی عزت ،استقلال اور منفعت حاصل ہوتی ہے اور دنیا میں فخر سے سر اونچا رہتا ہے تو اگر کوئی معاشرہ تمام احکام کا پابند ہوجائے تو اس کو کتنی بھلائی، خیر و برکت اور عزت نصیب ہوگی،ایران کی عزت و قدرت کا راز انہی الٰہی احکام کو معاشرے میں عملی طور پر رائج کرنے میں پوشیدہ ہے جس سے آج استعمار کے وہ سارے پروپیگنڈے اور دعوے کھوکھلے ثابت ہوگئے جن کی رو سے یہ لوگ اسلام کو صرف چند مذہبی رسومات کا دین کہتے ہیں…ہماری جتنی بھی پریشانیاں ہیں وہ الٰہی احکام سے دور ہوجانے کے باعث ہیں، ہمارے سماج میں رسومات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جب کہ رسمیں انسان ے لئے کامیابی کی ضمانت نہیں ہیں، رسموں پر ہم اتنی سختی سے عمل کرتے ہیں کہ غیر مسلم معترضین اسلام پر اعتراض کرتے ہیں جب کہ ان کے اشکالات اسلام پر نہیں بلکہ مسلمانوں کی رسموں پر وارد ہوتے ہیں ، افسوس ! کہ ہندوستان یا دیگر ممالک میں ہم اسلام کا صحیح تعارف پیش نہ کرسکے جس سے لوگ اسلام کے قریب نہیں آتے ،بعض افراد عیسائیوں کے اُن کاموں سے متاثر ہوکر جو معاشرے کی بہبود کے لئے کئے جاتے ہیں عیسایئت کے گرویدہ ہوجاتے ہیںاور وہ اسلام جو سماجی انصاف و فلاح و بہبود کی خاطر ہی ظہور میں آیا ہو لوگ اس سے نفرت کریں ؟! یہ صرف ہماری وجہ سے ہے ،ہم نے اسلام کو صحیح ڈھنگ سے پیش ہی نہیں کیا … بیکسوں ،مریضوں، یتیموں وغیرہ کی جس خدمت کے لئے ہندوستان میں مدرٹریسا مشہور ہے ،اس کا حکم اسلام نے دیا ہے ،مدر ٹریسا نے اس پر عمل کیا تو اسی کو عزت و شہرت مل گئی ،صرف ایک مدرٹریسا ہی پر ہی کیا منحصر ہے پوری عیسائی مشینری کی کامیابی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے …اب تو سمجھ لینا چاہئے کہ اسلام عمل چاہتا ہے صرف زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہونے والا، ایک عام مسلمان سے اگر کوئی رسم چھوٹ جائے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اُس کا اسلام خطرے میں پڑگیا،جب کہ اسلام !احکام الٰہی پر عمل نہ کرنے اور معاشرے سے لا تعلق رہنے سے خطرے میں پڑتا ہے… جب بھی احکام الٰہی پر عمل کی بات آتی ہے تو عام مسلمان اپنے کو بری الذمہ قرار دے کر احکام الٰہی پر عمل صرف علماء کا حق تصور کرتے ہیں اور غیر مسلم یہ سمجھتے ہیں کہ الٰہی احکام صرف مسلمانوں سے مخصوص ہیں جب کہ یہ احکام نہ علماء سے مخصوص ہیں اور نہ مسلمانوں سے بلکہ خدا وند عالم کے یہ احکام پورے انسانی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں…دنیا میں جتنی بھی کمپنیاں ہیں وہ اپنی مشینری کے ساتھ گائڈ بک بھی دیتی ہیں جس میں مشین کا طریقہ استعمال اور حفاظت کے قاعدے درج ہوتے ہیں جو سبھی کے لئے ہوتے ہیں اب جو بھی ان قوانین پر عمل کرلے گا اس کی مشین اتنی ہی زیادہ دنوں تک چل سکے گی اور اس کی مرمت میں روپیہ پیسہ بھی خرچ نہیں ہوگا ،اسی طرح خدا وند عالم نے تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے لہٰذا وہی جانتا ہے کہ انسان کے لئے کیا مضر ہے اور کیا مفید ،جو چیز بھی انسان کے لئے مضر یا مفید ہے وہ سب خدا وند عالم نے قرآن کے ذریعہ انسانوں تک پہنچادی ہے ،قرآن مجید میں بہت ساری آیتوں کی ابتدأ : “یَا اَ یُّھَا الْاِنْسَان”سے ہونا اور پورا اسورہٴ انسان اس پر شاہد ہے… کیا سود خوری کے نظام سے صرف مسلمانوں کا نقصان ہوتا ہے ؟کیا شراب خواری سے صرف مسلمانوں کی صحت اور گھر برباد ہوتے ہیں ؟ کیا رشوت کے لین دین سے صرف اسلامی معاشرہ تباہ ہوتا ہے ؟ کیا جھوٹی گواہی سے صرف مسلمانوں کو انصاف نہیں ملتا؟ نہیں !بلکہ پورا انسانی معاشرہ مذکورہ رذائل سے تباہی کی کگار پر پہنچ جاتا ہے ،تو پھر خدا کے ان احکامات کو جس میں پوری انسانیت کی بھلائی ہے کسی ایک گروہ یا فرقے سے مخصوص و منحصر کیوں کیا جاتا ہے ؟ دنیامیں جو بھی معاشرہ الٰہی احکام پر عمل کرے گا وہ مصیبتوں اور پریشانیوں سے نجات پائے گا ،لہٰذا تمام انسانوں بالخصوص مسلمانوں کو ان پر عمل کرنا چاہئے ،مسلمان اگر صرف زبانی مسلمان رہیں گے تو انہیں سماج میں کوئی امتیاز نہیں ملے گا بالکل اسی طرح جیسے زبان سے حلوہ کہنے سے منھ میٹھا نہیں ہوتا ۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.