نبوت عامہ حصہ پنجم

119

کیا قرآن نے انبیا ء کو گناہ گار بتایا ہے ؟
عصمت کی بحث کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذنب وعصیا ن اور اپنے اوپر ظلم ،جیسی لفظیں جو بعض انبیا ء کے سلسلہ میں آئیں ہیں اس سے مراد کیا ہے ؟ اس کی وضا حت کے لئے کچھ نکا ت کی جانب توجہ ضروری ہے ۔١۔ عصمت انبیاء کا مطلب جیسا کہ بیا ن کیا جا چکا ہے یہ ہے کہ انبیاء حرام کام یا گناہ نہیں کر تے ،لیکن وہ کا م جس کاچھوڑنا بہتر لیکن انجام دینا حرام نہیںہے گذشتہ انبیاء سے ممکن اور جائز ہے اور یہ فعل ا ن کی عصمت کے منا فی نہیںہے۔ (یہی ترک اولیٰ ہے )٢۔ سب سے اہم بات کلما ت قرآن کے صحیح معنوں پر توجہ کرنا ہے کیونکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہو اہے لہٰذا یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عربی لغت میں کلمات قرآن کے کیا معنی ہیں ؟لیکن افسوس کی بات ہے کہ بسا اوقات ا س جانب غور نہ کرنے کے باعث قرآن کی آیتوں کے غلط معنی بیا ن کئے جاتے ہیں ۔٣۔اہل بیت عصمت وطہارت کی قرآنی تفاسیر کا بغور مطالعہ کیاجائے اس میں غور وخوض کیا جائے کیونکہ وہی حقیقی مفسر قرآن ہیں ہم یہا ں پرا ن آیتوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان آیتوں میں انبیاء کو گنہگار بتایا گیا ہے تاکہ اعتراض ختم ہو جا ئے (وعَصَیٰ آدمَ ربّہ فغویٰ)بعض نے اس آیة کا ترجمہ یو ں کیا ہے ،آدم نے اپنے رب کی معصیت کی او روہ گمراہ ہو گئے ۔ جبکہ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے ، آدم نے رب کا اتباع نہیںکیا لہٰذا محروم ہو گئے، مرحوم طبرسی اس آیت کے ذیل میں مجمع البیان میں کہتے ہیں کہ آدم نے اپنے رب کی مخالفت کی لہٰذا ثواب سے محروم رہے ۔یہاں معصیت سے مراد حکم الٰہی کی مخالفت ہے چاہے وہ حکم واجب ہو یا مستحب ،محدث قمی سفینة البحار میں لفط (عصم ) کے معنی علامہ مجلسی سے نقل کرتے ہیں ” ان ترک المُستحب وفعل المکروہ قد سُم ذنبا” مستحب کو ترک کرنا اور فعل مکروہ کو انجام دینا کبھی کبھی گناہ ،ذنب ،اور عصیان کے معنی میںآتاہے ۔گذشتہ موضوع کو ثابت کرنے کے لئے لغت کی طرف رجوع کریں گے المنجد ( جوکہ ایک مشہو ر لغت ہے ) میں ہے کہ (عصیان ) اتباع نہ کرنے اور پیروی نہ کرنے کے معنی میں ہے ۔اسی طرح اغوی کے معنی (خاب ) یعنی محروم ہونے اور نقصان اٹھا نے کے ہیں اگر آدم وحوا کے قصہ کو دیکھا جائے توپتہ چلے گا کہ عصیان (عصی ) سے مراد حرام کام کرنا یاواجب کوچھوڑنا نہیںہے ۔
آدم کا عصیان کیا تھا ؟قرآن اس واقعہ کو یوں نقل کرتاہے کہ ہم نے آدم سے کہا کہ شیطان تمہا را اور تمہاری اہلیہ کا دشمن ہے لہٰذا کہیں وہ تمہیں جنت سے باہر نہ کرادے اور تم زحمت وتکلیف میں پڑجا ئو پھر شیطان نے آدم کو بہکا یا اور انھو ںنے اس درخت کا پھل کھا لیا ،نتیجہ میں جنت کے لبا س اتار لئے گئے کیو نکہ آدم کو اس درخت کا پھل کھانے سے منع کیاگیا تھا اور انھوں نے نافرمانی کی لہٰذا بہشتی نعمتوں سے محروم ہوگئے۔ (١)جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ جنت کاپھل کھا نے سے روکنا صرف نہی ارشادی تھا اور درخت کاپھل نہ کھانا ہمیشہ جنت میں رہنے کی شرط تھی لہٰذا مذکورہ آیتوں سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ آدم کافعل گناہ نہیں تھا بلکہ اس کا نقصان جنت سے نکا لا جانااور دنیوی زندگی کی سختیاں تھیں ، اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ اگر آدم کافعل گناہ نہیں تھا پھر توبہ کرنا (جیسا کہ اگلی آیتوں میں ذکر ہے ) کیا معنی رکھتا ہے ۔جو اب میں کہیں گے کہ ہر چند (درخت کاپھل کھا نا) گناہ نہیں تھا لیکن چونکہ حضرت آدم نے نہی ارشادی کی مخالفت کی لہٰذا ان کا مقام خدا کے نزدیک کم ہوگیا اور آدم نے دوبارہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے توبہ کی اورخدا نے ان کی توبہ قبول کرلی۔مامون نے جب جناب آدم کی معصیت کے بارے میں پوچھا تو امام رضاعلیہ السلام نے فرمایا : ولم یک ذلک بذنب کبیر یستحق بہ دخول…………..(١) سورہ طہ آیة: ١١٦ تا ١٢١
النّار واِن کان من الصغائر الموھوبة التی تجوز علیٰ الأنبیاء قبلَ نزول الوحیِ علیھم(١)جو کام آدم نے انجام دیا وہ گناہ کبیرہ نہیں تھا جس کے باعث جہنم کے مستحق ہوجائیں بلکہ ایک معمولی سا ترک اولی تھا جو معاف ہو گیا اور انبیاء نزول وحی سے قبل ایسے کام کرسکتے ہیں۔
ظلم کیا ہے اور غفران کے کیا معنی ہیں ؟(قالَ رَبِّ اِنِّیِ ظَلَمتُ نَفس فاغفِرلِی)(٢) خدا یا میں نے اپنے نفس کی خاطر مصیبت مول لی، لہٰذا معاف کردے ان مقامات میں سے ایک یہ بھی ہے جہا ں اس با ت کا گمان کیاگیا ہے کہ قرآن نے انبیاء پر گنا ہ کاالزام لگا یا ہے یہ آیت جنا ب موسی کے واقعہ سے مربوط ہے جب قبطی (فرعون کے ساتھی ) کو قتل کر دیا تھا تو کہا ،رَبِّ ِانِّی ظَلَمتُ نَفسیِ ….. المنجد نے لکھا ہے کہ (الظلم وضع الشیء فی غیر محلہ)ظلم یعنی کسی شی ٔ کو ایسی جگہ قرار دینا جو اس کا مقام نہ ہو (کسی فعل کاغیر مناسب وقت پر انجام دینا ) اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ عمل صحیح ہو او ر بے محل انجام پائے یا عمل غلط اور حرام ہو لہٰذا ہر ظلم حرام نہیں ہے ۔المنجد میں غفر کے معنی لکھے ہیں ، غَفَر الشیٔ غطّاہ وسترہ ) غفر اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کوئی شی ٔ چھپا ئی ہواو رمخفی کی گئی ہواس لئے اس کے معنی یو ں ہوں گے موسی نے کہا ،اے پرور دگا ر !میں نے فرعون کے ایک ساتھی کو قتل کر…………..(١) تفسیر برہان ج٣، ص ٤٦(٢)سورہ قصص آیة: ١٦
کے بیجا فعل انجام دیا گوکہ ہمارے لئے اس کا قتل جائز تھا لیکن ابھی اس کاوقت نہیں تھا لہٰذا (فاغفرلی) اے خدا ہمارے اس کام پر پردہ ڈال دے تاکہ میرے دشمن میری گرفتاری پر کامیا ب نہ ہو سکیں ۔تو ایسی صورت میں گناہ ،ظلم یا حرام کام کی نسبت موسی کی جانب نہیں دی گئی ہے ۔مامون نے مذکورہ آیت او رظلم کے معنی کے سلسلہ میں پوچھا تو امام رضاں نے فرمایا: اِنّی وضَعتُ نفسیِ فی غیر موضعھا بدخول ھذہ المدینة فَاغفرلیِ أیِ أستّرلیِ من أعدائک لئلا یظفروابی فیقتلونی ۔ موسیٰ نے خد ا سے عرض کی ،میںنے اس شہر میں داخل ہو کر (اور فرعون کے ایک ساتھی کو قتل کرکے ) بے محل کام انجام دیا لہٰذا (فاغفرلی) مجھے اپنے دشمنو ں کی نگا ہو ں سے مخفی کردے مبادا ہم کو گرفتار کر کے قتل کردیں ۔نتیجہ: ظلم اور غفران کے معنی کلی ہیں نہ کہ وہ خاص معنی جو ان الفاظ سے سمجھے جاتے ہیں لہٰذا یہ آیة بھی عصمت کے منا فی نہیں ہے ۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.