خدا کی معرفت کے دواطمینان بخش راستے
۱۔خدا کی معرفت اور علوم کی ترقیمعرفت خدا کے بارے میں زمانہ قدیم سے آج تک بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور اس موضوع پر دانشوروں اور غیر دانشوروںمیں کافی بحث وگفتگو ہوتی رہی ہے۔اس حقیقت کو پانے کے لئے ہر ایک نے ایک راستہ کا انتخاب کیا ہے۔لیکن تمام راستوں میں سے بہترین راستے جو ہمیں خالق کائنات تک جلدی پہنچاسکتے ہیں،دو راستے ہیں:الف۔اندرونی راستہ(نزدیک ترین راستہ)ب۔بیرونی راستہ(واضح ترین راستہ)پہلے طریقہ میں ہم اپنے وجود کی گہرائیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں تا کہ توحید کی آواز کو اپنی روح کے اندر سن لیں۔دوسرے طریقہ میں ہم وسیع کائنات پر ایک نظر ڈالتے ہیں اورتمام مخلوقات کی پیشانی پر اور ہرذرّہ کے اندرخداوند متعال کی نشانیاں پاتے ہیں۔ان دو طریقوں میں سے ہر ایک کے بارے میں طویل بحثیں کی گئی ہیں ۔لیکن ہماری کوشش یہ ہے کہ ایک مختصر بحث کے ذریعہ ان دو طریقوں کو ایک اجمالی تحقیق کے ساتھ بیان کریں۔
الف۔اندرونی راستہمندرجہ ذیل چند موضوعات قابل غور ہیں:۱۔دانشور کہتے ہیں:اگر کسی بھی قوم ونسل سے متعلق ایک انسان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اسے کسی خاص قسم کی تعلیم وتر بیت نہ دی جائے ،حتی خدا پرستی اور مادیت کی گفتگو سے بھی بے خبر رکھاجائے تب بھی وہ خود بخود ایک ایسی قوی طاقت کی طرف متوجہ ہو جاتاہے جومادی دنیا سے بالا تر ہے اور پوری کائنات پر حکمران ہے۔وہ اپنے دل اورضمیرکی عمیق گہرائیوں میں ایک لطیف ،محبت آمیز،اور متقن و محکم آواز کا احساس کرتا ہے جو اسے علم وقدرت کے ایک عظیم مبدا کی طرف بلاتی ہے،جسے ہم خدا کہتے ہیں ۔یہ بشرکی وہی پاک اور بے لاگ فطری کی آواز ہے۔۲۔ممکن ہے مادی دنیا اور روز مرہ زندگی کاشور وغل اوراس کی چمک دمک اس کو اپنی طرف مشغول کرے اور وہ عارضی طور پر اس آواز کو سننے سے غافل ہو جائے ،لیکن جب وہ اپنے آپ کو مشکلات اور مصیبتوں کے مقابلہ میں پاتا ہے ،جب خطرناک طبیعی حوادث اس پر حملہ آور ہوتے ہیں جیسے سیلاب،زلزلہ،طوفان اورایک نامناسب موسم کے سبب ہوائی جہاز میں رونما ہونے والے اضطرابی حالات سے دو چار ہو تا ہے ،اس وقت وہ تمام مادی وسائل سے مایوس ہو جاتا ہے اور اپنے لئے کوئی پناہ گاہ نہیں پاتا ہے تو یہ آواز اس کی روح کے اندر ابھرتی ہے ،وہ احساس کرتا ہے کہ اس کے وجود کے اندر سے ایک طاقت اسے اپنی طرف بلا رہی ہے ،ایک ایسی طاقت جو تمام طاقتوں سے برتر ہے ،ایک پر اسرارطاقت جس کے سامنے تمام مشکلات سہل اور آسان ہیں۔آپ بہت کم ایسے لوگوں کو پائیں گے جو اپنی زندگی کے مشکل ترین حوادث میں اس قسم کی حالت پیدا نہ کریں اور بے اختیار خدا کو یاد نہ کریں ۔یہی بات ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کتنا اس کے نزدیک ہیں اور وہ کس قدر ہمارے قریب ہے،وہ ہماری روح و جان میں موجود ہے۔البتہ فطری آوازہمیشہ انسان کی روح میںموجود ہے لیکن مذکورہ لحظات میں یہ آواز زیادہ قوی ہو جاتی ہے۔۳۔تاریخ ہمیں اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ ایسے صاحبان اقتدار جواپنے جاہ وجلال اور آرام و آسائش کے لمحات میں خدا کا نام تک لینے سے انکار کرتے تھے ،جب اپنی قدرت کی بنیادوں کو متزلزل ہوتے اور اپنی ہستی کے محلوں کو گرتے دیکھتے تھے تو اس عظیم مبداً(خدا) کی طرف متوجہ ہوتے تھے اورفطری آواز کو واضح طور پر سنتے تھے۔تاریخ بتاتی ہے:جب فر وعون نے اپنے آپ کو پر تلاطم لہروں کی لپیٹ میں پایااور اس نے مشاہدہ کیا کہ جو پانی اس کے ملک کی آبادی اور زندگی کا سبب اور اس کی تمام مادی طاقت کا سر چشمہ تھا،اس وقت اس کے لئے موت کا حکم جاری کر رہاہے اور وہ چند چھوٹی لہروں کے مقابلہ میں بے بس ہو کر رہ گیا ہے اور ہر طرف سے اس پر نا امیدی چھائی ہوئی ہے ،تو اس نے فریاد بلند کی :”میں اس وقت اعتراف کرتا ہوں کہ موسیٰ کے خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔”حقیقت میں یہ فر یاد اس کی فطرت اور روح کی گہرائیوں سے بلند ہوئی تھی نہ صرف فروعون بلکہ وہ تمام لوگ جو ایسے حالات سے دو چار ہوجاتے ہیں،اس آواز کو واضح طور پر سنتے ہیں۔۴۔خود آپ بھی اگر اپنے دل کی گہرائیوں پر توجہ کریں گے توضرور تائید کریں گے کہ وہاں پر ایک نور چمکتا ہے جو تمھیں خدا کی طرف دعوت دیتا ہے ۔شاید زندگی میں آپ کو کئی بار ناقابل برداشت حوادث اور مشکلات سے دوچار ہو نا پڑا ہو اور تمام مادی وسائل ان مشکلات کو دور کر نے میں ناکام ہو گئے ہوں ،ان لمحات کے دوران آپ کے ذہن میںیہ حقیقت ضرور اجاگر ہوئی ہوگی کہ اس کائنات میں ایک بڑی اور قدرتمند طاقت موجود ہے جو اس مشکل کو آسانی کے ساتھ حل کر سکتی ہے۔ان لمحات میں آپ کی امید پرور دگار کی عشق سے ممزوج ہوکرآپ کی روح وجان کو اپنی آغوش میں لیتی ہے اور یاس ونا امیدی کو آپ کے دل سے دور کر دیتی ہے ۔جی ہاں!یہ نزدیک ترین راستہ ہے کہ ہر شخص اپنی روح کے اندر پرور دگار عالم اور خالق کائنات کو پاسکتا ہے۔
ایک سوالممکن ہے آپ میں سے بعض افراد یہ سوال کریں کہ کیا یہ احتمال نہیں ہے کہ ہم ماحول اور اپنے والدین سے حاصل کی گئی تعلیمات کے زیر اثر حساس مواقع پر ایسا سوچتے ہیں ؟اور خدا کی بار گاہ میں ہاتھ پھیلاتے ہیں؟ہم اس سوال کے بارے میں آپ کو حق بجانب جانتے ہیں اور ہمارے پاس اس کا ایک دلچسپ جواب ہے ،جسے ہم آئندہ سبق میں بیان کریں گے ۔قرآن مجید فر ماتا ہے:<فإذارکبوا فی الفلک دعوااللّٰہ مخلصین لہ الدّین فلمّا نجّٰھم إلی البرّ إذا ھم یشرکون>(سورئہ عنکبوت/۶۵)”پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیںپھر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچ دیتا ہے تو فوراً شرک اختیار کر لیتے ہیں۔”