دو سوالوں کے جواب

157

دو سوال

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی کی بلا فصل خلافت کا اعلان غدیر خم میں کر دیا اور ان کی اطاعت و پیروی تمام مسلمانوں پر لازم و واجب قرار دے دی ۔یھاں دو سوال سامنے آتے ھیں۔
1۔ جب حضرت علی ںکی جانشینی کا اعلان ایسے مخصوص دن کر دیا گیاتھا تو پھر اصحاب نے آنحضر ت کی رحلت کے بعدحضرت علیںکی وصایت و ولی عھدی کو اندیکھا کرتے ھوئے کسی اور کی پیروی کیوں کی ؟
2۔ امام علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اپنی امامت کو ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے استدلال کیوں نھیں کیا؟

پھلے سوال کا جواب :

اگرچہ اصحاب پیغمبر کے ایک گروہ نے حضرت علی ںکی جانشینی کو فراموش کرتے ھوئے غدیر کے الٰھی فرمان سے چشم پوشی کرلی اور بھت سے لاتعلق و لاپرواہ لوگوں نے — جن کی مثالیں ھر معاشرہ میں بھت زیادہ نظر آتی ھیں– — –ان لوگوں کی پیروی کی ،لیکن ان کے مقابل ایسی نمایاں شخصیتیں اور اھم افراد بھی تھے جو حضرت علیںکی امامت و پیشوائی کے سلسلہ میں وفادار رھے ۔ اور انھوں نے امام علی ںکے علاوہ کسی اور کی پیروی نھیں کی ۔ یہ افراد اگر چہ تعداد میں پھلے گروہ سے کم اور اقلیت شمار ھوتے تھے ،لیکن کیفیت و شخصیت کے اعتبار سے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ممتاز اصحاب میں شمار ھوتے تھے جیسے :سلمان فارسی ،ابوذر غفاری ،مقداد بن اسود ، عمار یاسر ،ابی بن کعب ،ابو ایوب انصاری ،خزیمہ بن ثابت ،بریدھٴ اسلمی ، ابوھثیم بن التیھان،خالد بن سعید اور ایسے ھی بھت سے افراد کہ تاریخ اسلام نے ان کے نام اور ان کی زندگی کے خصوصیات و نیک صفات ، موجودہ خلافت پر ان کی تنقیدیں اورامیر الموٴمنین علی ںسے ان کی وفاداریوں کو پوری باریکی کے ساتھ محفوظ کیا ھے۔

تاریخ اسلام نے دو سو پچاس صحابیوں کا ذکر کیا ھے کہ یہ سب کے سب امام کے وفادار تھے اور زندگی کے آخری لمحہ تک ان کے دامن سے وابستہ رھے ۔ ان میں سے بھت سے لوگوں نے امام کی محبت میں شھادت کا شرف بھی حاصل کیا۔ (۱)

افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ھے کہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی وصایت و ولایت کا مسئلہ ھی نھیں ھے جس میں آنحضرت کے صریح و صاف حکم کے باوجود پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعض صحابیوں نے مخالفت اور آنحضرت کے حکم سے چشم پوشی کی ،بلکہ تاریخ کے صفحات کی گواھی کے مطابق خود پیغمبر کے زمانہ میں بھی بعض افراد نے آنحضرت کے صاف حکم کو اندیکھا کیا ، اس کی مخالفت کی اور اس کے خلاف اپنے نظریہ کا اظھار کیا ۔

دوسری لفظوں میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعض اصحاب جب آنحضرت کے حکم کو اپنے باطنی خواھشات اور سیاسی خیالات کے مخالف نھیں پاتے تھے تو دل سے اسے قبول کرلیتے تھے ۔ لیکن اگر پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تعلیمات کے کسی حصہ کو اپنے سیاسی افکار و خیالات اور اپنی جاہ پسند خواھشات کے خلاف پاتے تھے تو پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اس کام کی انجام دھی سے روکنے کی کوشش کرتے تھے اور اگر پیغمبر اپنی بات پر جمے رھتے تو آنحضرت کے حکم سے سرتابی کی کوشش کرتے تھے یا اعتراض کرنے لگتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ خود پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان کی پیروی کریں۔

ذیل میں ھم بعض اصحاب کی اس ناپسندیدہ روش کے چند نمونے بیان کرتے ھیں:

1۔ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حکم دیا کہ میرے لئے قلم و دوات لے آؤ تاکہ میں ایک ایسی تحریر لکہ دوں جس کی روشنی میں میرے بعد میری امت کبھی گمراہ نہ ھو۔لیکن وھاں موجود بعض افراد نے اپنی مخصوص سیاسی سوجہ بوجہ سے یہ سمجھ لیا کہ اس تحریر کا مقصد اپنے بعد کے لئے جانشین کے تعین کا تحریری اعلان ھے لھٰذا پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صریحی حکم کی مخالفت کر بیٹھے اور لوگوں کو قلم و کاغذ لانے سے روک دیا!

ابن عباس نے اپنی آنکھوں سے اشک بھاتے ھوئے کھا : مسلمانوں کی مصیبت اور بدبختی اسی روز سے شروع ھوئی جب پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیمار تھے اور آپ نے اس وقت قلم کا غذ لانے کا حکم دیا تاکہ ایسی چیز لکہ دیں کہ ان کے بعد امت اسلام گمراہ نہ ھو ۔لیکن اس موقع پر بعض حاضرین نے جھگڑا اور اختلاف شروع کردیا ۔بعض لوگوں نے کھا: قلم ،کا غذ لے آؤ بعض نے کھا نہ لاؤ ۔ آخر کار پیغمبر نے جب یہ جھگڑا اور اختلاف دیکھا تو جو کام انجام دینا چاھتے تھے نہ کر سکے۔ (۲)

2۔ مسلمانوں کے لشکر کے سردار ”زید بن حارثہ"رومیوں کے ساتھ ،جنگ موتہ میں قتل ھوگئے

اس واقعہ کے بعد پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک فوج تشکیل دی اور مھاجرین وانصار کی تمام شخصیتوں کو اس میں شرکت کاحکم دیا اور لشکر کاعلم اپنے ھاتھوں سے ”اسامہ ابن زید“کے حوالے کیا۔ناگھاں اسی روز آنحضرت کو شدید بخار آیاجس نے آنحضرت کو سخت مریض کردیا۔اس دوران پیغمبر کے بعض اصحاب کی جانب سے اختلاف ،جھگڑے اور پیغمبر خدا کے صاف حکم سے سرتابی کاآغاز ھوا۔بعض لوگوں نے ”اسامہ"جیسے جوان کی سرداری پر اعتراض کرتے ھوئے اپنے غصہ کااظھار کیا اور آنحضرت سے اس کی معزولی کامطالبہ کیا۔ ایک گروہ جن کے لئے آنحضرت کی موت قطعی ھوچکی تھی،جھاد میں جانے سے ٹال مٹول کرنے لگا کہ ایسے حساس موقع پر مدینہ سے باھر جانا اسلام اور مسلمانوں کے حق میں اچھا نھیں ۔

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب بھی اپنے اصحاب کی اس ٹال مٹول اور لشکر کی روانگی میں تاخیر سے آگاہ ھوتے تھے تو آپ کی پیشانی اور چھرہ سے غصہ کے آثار ظاھر ھونے لگتے تھے اور اصحاب کو آمادہ کرنے کے لئے دوبارہ تاکید کے ساتھ حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے :جلد ازجلد مدینہ ترک کرو اور روم کی طرف روانہ ھوجاوٴ۔لیکن اس قدر تاکیدات کے باوجود ان ھی اسباب کے پیش نظر جو اوپر بیان ھوچکے ھیں،ان افراد نے آنحضرت کے صاف وصریح حکم کو ان سنا کردیا اور اپنی ذاتی مرضی آگے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیھم تاکیدات کو ٹھکرادیا۔

3۔ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے فرمان سے بعض اصحاب کی مخالفت کے یھی دو مذکورہ نمونے نھیں ھیں۔ اس قسم کے افراد نے سرزمین ”حدیبیہ" پر بھی،جب آنحضرت قریش سے صلح کی قرار داد باندہ رھے تھے،سختی کے ساتھ آنحضرت کی مخالفت کی اور ان پر اعتراض اور تنقیدیں کیں۔

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد ان لوگوں کی آنحضرت کے دستورات سے مخالفت اس سے زیادہ ھے۔کیونکہ ان ھی افراد نے بعض اسباب کے تحت نماز اور اذان کی کیفیت میں تبدیلی

کردی ”ازدواج موقت“کی آیت کو ان دیکھا کردیا ماہ رمضان مبارک کی شبوں کے نوافل کوجنھیں فرادیٰ پڑھنا چاھئے ایک خاص کیفیت کے ساتھ جماعت میں تبدیل کردیا اور میراث کے احکام میں بھی تبدیلیاں کیں۔

ان میں سے ھر ایک تبدیلیوں اور تحریفوں اور آنحضرت کے حکم سے ان سرتا بیوں کے اسباب و علل اور اصطلاحی طور سے ”نص کے مقابلہ میں اجتھاد“کی تشریح اس کتاب میں ممکن نھیں ھے۔ اس سلسلہ میں کتاب ”المراجعات“کے صفحات 218۔282تک اور ایک دوسری کتاب ”النص و الاجتھاد “ کا مطالعہ مفید ھوگا ،جو اسی موضوع سے متعلق لکھی گئی ھے۔

اصحاب پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مخالفت اور شرارت اس قدربڑہ گئی تھی کہ قرآن مجید نے انھیں سخت انداز میں رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے دستورات سے مخالفت اور ان پر سبقت کرنے سے منع کیا چنانچہ فرماتا ھے:

”فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنة او یصیبھم عذاب الیم“ (۳)

یعنی جو لوگ رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے فرمان کی مخالفت کرتے ھیں وہ اس بات سے ڈریں کہ کھیں کسی بلا یا درد ناک عذاب میں مبتلا نہ ھوں۔

اور فرماتاھے :

”یا اٴیھا الذین آمنوا لا تقدموا بین یدی اللہ و رسولہ واتقوا اللّٰہ ان اللہ سمیع علیم“ (۴)

اے ایمان لانے والو!خدا اور اس کے رسول پر سبقت نہ کرو اور اللہ سے ڈرو کہ بلا شبہ اللہ سننے اور جاننے والا ھے۔

جولوگ یہ اصرار کرتے تھے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)ان کے نظریات و خیالات کی پیروی کریں خداوند عالم انھیں بھی وارننگ دیتا ھے:

”واعلموا ان فیکم رسول اللہ لو یطیعکم فی کثیر من الامر لعنتم“ (۵)

اور جان لو کہ تمھارے درمیان رسول خدا جیسی شخصیت موجود ھے۔اگر بھت سے امور میں وہ تمھارے نظریات کی پیروی کریں گے تو تم زحمت میں پڑجاوٴگے۔

یہ حادثات اور یہ آیات اس بات کی صاف حکایت کرتی ھےں کہ اصحاب پیغمبر میں ایک گروہ تھا جو آنحضرت کی مخالفت کرتا تھا اور جیسی ان کی اطاعت کرنا چاھئے اطاعت نھیں کرتا تھا ۔بلکہ یہ لوگ کوشش کرتے تھے کہ جو احکام الٰھی ان کے افکار اور سلیقہ سے سازگار نھیں تھے،ان کی پیروی نہ کریں۔حتیٰ یہ کوشش کرتے تھے کہ خود رسول خدا کو اپنے نظریات کا پیرو بنائیں۔

افسوس رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد سیاسی میدان میں دوڑنے والے اور سقیفہ نیز فرمائشی شوریٰ کی تشکیل دینے والے یھی لوگ جنھوں نے غدیر خم میں پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صاف حکم اور نص الٰھی کو اپنی باطنی خواھشات کے مخالف پایا لھٰذابھت تیزی سے اسے بھلادیا۔

دوسرے سوال کاجواب:

جیسا کہ اس سوال میں در پردہ ادعا کیا گیا ھے ،یہ یاد دلانا ضروری ھے کہ حضرت علی ں نے اپنی زندگی میں متعدد موقعوں پر حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی حقانیت اور اپنی خلافت پر استدلال کیا ھے۔حضرت امیرالمومنین جب بھی موقع مناسب دیکھتے تھے مخالفوں کو حدیث غدیر یاد دلاتے تھے ۔ اس طرح سے اپنی حیثیت لوگوں کے دلوں میں محکم فرماتے تھے اور حقیقت کے طالب افراد پر حق کو آشکار کردیتے تھے ۔

نہ صرف حضرت امام علی (ع) بلکہ بنت رسول خدا حضرت فاطمہ زھرا(ع) اور ان کے دونوں صاحب زادوں امام حسن اور امام حسین علیھما السلام اور اسلام کی بھت سی عظیم شخصیتوں مثلاً عبداللہ بن جعفر،عمار یاسر،اصبغ بن نباتہ،قیس بن سعد، حتیٰ کچھ اموی اور عباسی خلفاء مثلاً عمر بن عبد العزیز اور مامون الرشید اور ان سے بھی بالاتر حضرت(ع) کے مشھور مخالفوں مثلا عمروبن عاص اور…. نے حدیث غدیر سے احتجاج واستدلال کیاھے۔

حدیث غدیر سے استدلال حضرت علی (ع) کے زمانہ سے آج تک جاری ھے اور ھر زمانہ وھر صدی میں حضرت (ع) کے دوست داروں نے حدیث غدیر کو حضرت کی امامت وولایت کے دلائل میں شمار کیاھے۔ھم یھاں ان احتجاجات اور استدلالوںکے صرف چند نمونے پیش کرتے ھیں:

1۔سب جانتے ھیں کہ خلیفہ دوم کے حکم سے بعد کے خلیفہ کے انتخاب کے لئے چہ رکنی کمیٹی تشکیل پائی تھی کمیٹی کے افراد کی ترکیب ایسی تھی کہ سبھی جانتے تھے کہ خلافت حضرت علی (ع)تک نھیں پھنچے گی کیونکہ عمر نے اس وقت کے سب سے بڑے سرمایہ دار عبدالرحمان بن عوف (جو عثمان کے قریبی رشتہ دار تھے)کو ویٹو پاور دے رکھا تھا۔ان کا حضرت علی (ع) کے مخالف گروہ سے جو رابطہ تھا اس سے صاف ظاھر تھا کہ وہ حضرت علی (ع) کو اس حق سے محروم کردیں گے ۔

بھر حال جب خلافت عبد الرحمان بن عوف کے ذریعہ عثمان کو بخش دی گئی تو حضرت علی (ع)نے شوریٰ کے اس فیصلہ کو باطل قرار دیتے ھوئے فرمایا:میں تم سے ایک ایسی بات کے ذریعہ احتجاج کرتاھوں جس سے کوئی شخص انکار نھیں کرسکتا یھاں تک کہ فرمایا :میں تم لوگوں کو تمھارے خدا کی قسم دیتا ھوں کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا شخص ھے جس کے بارہ میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا ھو ”من کنت مولاہ فھذا علیّ مولاہ، اللّٰھم وال من والاہ وانصر من نصرہ لیبلغ الشاھد الغائب“ یعنی میں جس جس کا مولاھوں یہ علی (ع)بھی اس کے مولا ھیں۔خدا یاتواسے دوست رکہ اور اس کی مدد فرما جو علی (ع)کی مدد کرے۔حاضرین ھر بات غائب لوگوں تک پھنچائیں۔

اس موقع پر شوریٰ کے تمام ارکان نے حضرت علی (ع)کی تصدیق کرتے ھوئے کھا: خدا کی قسم یہ فضیلت آپ کے علاوہ کسی اور میں نھیں پائی جاتی ۔ (۶)

امام علی (ع)کا احتجاج و استدلال اس حدیث سے صرف اسی ایک موقع پر نھیں تھا بلکہ امام نے حدیث غدیر سے دوسرے مقامات پر بھی استدلال فرمایا ھے۔

2۔ ایک روز حضرت علی ں کوفہ میں خطبہ دے رھے تھے۔تقریر کے دوران آپ نے مجمع سے خطاب کرکے فرمایا: میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ھوں ،جوشخص بھی غدیر خم میں موجود تھا اور جس نے اپنے کانوں سے سنا ھے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مجھے اپنی جانشینی کے لئے منتخب کیا ھے وہ کھڑے ھو کر گواھی دے۔لیکن صرف وھی لوگ کھڑے ھوں جنھوں نے خود اپنے کانوں سے پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے یہ بات سنی ھے۔وہ نہ اٹھیںجنھوں نے دوسروںسے سنا ھے۔اس وقت تیس افراد اپنی جگہ پر کھڑے ھوئے اور انھوں نے حدیث غدیر کی گواھی دی۔

یہ بات ملحوظ رکھنی چاھئے کہ جب یہ بات ھوئی تو غدیر کے واقعہ کو گزرے ھوئے پچیس سال ھوچکے تھے۔اور پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بھت سے اصحاب کوفہ میں نھیں تھے،یا اس سے پھلے انتقال کرچکے تھے اور کچھ لوگوں نے بعض اسباب کے تحت گواھی دینے سے کوتاھی کی تھی۔

”علامہ امینی“ مرحوم نے اس احتجاج وا ستدلال کے بھت سے حوالے اپنی گرانقدر کتاب ”الغدیر“ میں نقل کئے ھیں۔شائقین اس کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ھیں۔ (۷)

3۔حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں مھاجرین و انصار کی دوسو بڑی شخصیتیں مسجد نبی میں جمع ھوئیں۔ان لوگوں نے مختلف موضوعات پر گفتگو شروع کی۔یھاں تک کہ بات قریش کے فضائل ان کے کارناموں اور ان کی ھجرت کی آئی اور قریش کا ھر خاندان اپنی نمایاں شخصیتوں کی تعریف کرنے لگا۔جلسہ صبح سے ظھر تک چلتا رھا اور لوگ باتیں کرتے رھے حضرت امیر المومنین (ع) پورے جلسہ میں صرف لوگوں کی باتیں سنتے رھے۔اچانک مجمع آپ (ع)کی طرف متوجہ ھوا اور درخواست کرنے لگا کہ آپ بھی کچھ فرمائیے۔امام علیہ السلام لوگوں کے اصرار پر اٹھے اور خاندان پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اپنے رابطہ اور اپنے درخشاںماضی سے متعلق تفصیل سے تقریر فرمائی۔یھاں تک کہ فرمایا:

کیا تم لوگوں کو یاد ھے کہ غدیر کے دن خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو یہ حکم دیا تھا کہ جس طرح تم نے لوگوں کو نماز ،زکات اور حج کی تعلیم دی یوں ھی لوگوں کے سامنے علی (ع)کی پیشوائی کا بھی اعلان کردو۔اسی کام کے لئے پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا: خداوند عالم نے ایک فریضہ میرے اوپر عائد کیاھے۔میں اس بات سے ڈرتا تھا کہ کھیں اس الٰھی پیغام کو پھنچانے میں لوگ میری تکذیب نہ کریں،لیکن خدواند عالم نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ کام انجام دوں اور یہ خوش خبری دی کہ اللہ مجھے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

اے لوگو! تم جانتے ھو کہ خدا میرا مولا ھے اور میں مومنین کا مولا ھوں اور ان کے حق میں ان سے زیادہ اولیٰ بالتصرف ھوں؟سب نے کھا ھاں۔اس وقت پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: علی ! اٹھو ۔میں اٹہ کھڑا ھوا۔ آنحضرت نے مجمع کی طرف رُخ کرکے فرمایا:”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ اللّٰھم وال من والاہ و عاد من عاداہ “ جس کا میں مولا ھوں اس کے یہ علی (ع)مولا ھیں ۔خدایا! تو اسے دوست رکہ جو علی (ع)کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکہ جو علی (ع)سے دشمنی کرے۔

اس موقع پر سلمان فارسی نے رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے دریافت کیا : علی (ع)ھم پر کیسی ولایت رکھتے ھیں ؟پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا:”ولائہ کولائی ،من کنت اولی بہ من نفسہ ،فعلیّ اولی بہ من نفسہ “ یعنی تم پر علی (ع)کی ولایت میری ولایت کے مانندھے ۔میں جس جس کی جان اور نفس پر اولویت رکھتا ھوں علی (ع)بھی اس کی جان اور اس کے نفس پر اولویت رکھتے ھیں۔ (۸)

4۔ صرف حضرت علی ںنے ھی حدیث غدیر سے اپنے مخالفوں کے خلاف احتجاج و استدلال نھیں کیا ھے بلکہ پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی پارہ ٴجگر حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے ایک تاریخی دن جب آپ اپنے حق کو ثابت کرنے کے لئے مسجد میں خطبہ دے رھی تھیں، تو

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا:

کیا تم لوگوں نے غدیر کے دن کو فراموش کردیا جس دن پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی (ع) کے بارے میں فرمایا تھا :

”من کنت مولاہ فھٰذ ا علی مولاہ" جس کا میں مولا ھوں یہ علی اس کے مولا ھیں.

5۔ جس وقت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کی قرار داد باندھنے کا فیصلہ کیا تو مجمع میں کھڑے ھو کر ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا:

”خدا وندعالم نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اھل بیت (ع)کو اسلام کے ذریعہ مکرم اور گرامی قرار دیا ھمیں منتخب کیا اور ھر طرح کی رجس و کثافت کو ھم سے دور رکھا … یھاں تک کہ فرمایا: پوری امت نے سنا کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی ںسے فرمایا: تم کو مجھ سے وہ نسبت ھے جو ھارون کو موسی (ع) سے تھی“

تمام لوگوں نے دیکھا اور سناکہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے غدیر خم میں حضرت علیں کا ھاتہ تھام کرلوگوں سے فرمایا:

” من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ" (۹)

6۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی سرزمین مکہ پر حاجیوں کے مجمع میں جس

میں اصحاب پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ایک بڑی تعداد موجود تھی —خطبہ دیتے ھوئے

فرمایا:

”میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ھوں کیا تم جانتے ھو کہ پیغمبر اسلام نے غدیر کے دن حضرت علی ںکو اپنی خلافت و ولایت کے لئے منتخب کیا اور فرمایا کہ : حاضرین یہ بات غائب لوگوں تک پھنچا دیں “ ؟ پورے مجمع نے کھا : ھم گواھی دیتے ھیں ۔

7۔ ان کے علاوہ جیسا کہ ھم عرض کر چکے ھیں ، پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے کئی اصحاب مثلا عماریاسر ،زید بن ارقم ،عبداللہ بن جعفر ،اصبغ بن نباتہ اور دوسرے افراد نے بھی حدیث غدیر کے ذریعہ حضرت علی ںکی خلافت و امامت پر استدلال کیا ھے ۔ (۱۰)

حوالے
۱۔ سید علی خان مرحوم ”مدنی“ نے اپنی گرانقدر کتاب ”الدرجات الرفیعہ فی طبقات الشیعة الامامیة “ میں اصحاب پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)میں سے ایسے افراد کے نام و خصوصیات بیان کیئے ھیں جو حضرت علی علیہ السلام کے وفادار رھے ۔مرحوم شرف الدین عاملی نے بھی اپنی تالیف العقو ل المھمة ص/177تاص192 میں اپنی تحقیق کے ذریعہ ان میں مزید افراد کا اضافہ کیا ھے ۔
اس کتاب کے موٴلف نے بھی ”شخصیتھای اسلامی در شیعہ" کے عنوان سے ایک کتاب تدوین کی ھے جس میں ان افراد کے حالات زندگی اور امیر الموٴمنین حضرت علی علیہ السلام سے ان کی ولایت کے مراتب دقیق ماٴخذ کے ساتھ بیان کئے ھیں اور یہ کتاب چند جلدوں میں شائع ھوگی۔
۲۔صحیح بخاری ج/1،ص/22(کتاب علم)
۳۔نور /63
۴۔حجرات /1
۵۔الحجرات/7
۶۔مناقب خوارزمی ،ص/217
۷۔الغدیر، ج/1،ص/153۔171
۸۔فرائد المسطین،باب58۔حضرت علی علیہ السلام نے ان تین موقعوں کے علاوہ مسجد کوفہ میں ”یوم الرجعہ “ نام کے دن ،روز ”جمل “ ”حدیث الرکبان“کے واقعہ میں اور ”جنگ صفین “ میں حدیث غدیر سے اپنی امامت پر استدلال کیا ھے۔
۹۔ ینابیع المودة ص/482
۱۰۔ مزید آگاھی کے لئے ”الغدیر “ ج/1ص/146تا ص/195 ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں بائیس استدلال حوالوںکے ساتھ درج ھیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.