آفات و بلیّات کا فلسفہ حصہ اول

119

یہ جاننے کے لئے کہ،دقیق تجزیہ کے نتیجہ میں یہ تصور کس حدتک غلط ہے ،اس موضوع پر ایک مفصل بحث اور مندرجہ ذیل مطالب کی د قیق کی تحقیق ضرورت ہے:۱۔محدود معلومات اورحالات کے زیر اثر فیصلےعام طور پرہم اپنے فیصلوں اور مصادیق کی تشخیص میں مختلف اشیاء کے اپنے ساتھ رابطہ پر تکیہ کرتے ہیں ۔مثلاًہم کہتے ہیں فلاں چیز دور ہے یانزدیک یعنی ہماری نسبت۔یافلاں شخص طاقتور ہے یا کمزور،یعنی ہماری روحی یا جسمی حالت کی نسبت اس کی حالت ایسی ہے ۔خیر وشر اور مصیبت وبلا کے بارے میں بھی لوگوں کے فیصلے اکثر اسی طرح کے ہوتے ہیں ۔مثلاًاگر کسی علاقہ میں وسیع پیمانے پر بارش برسے ،ہمیں اس سے سرو کار نہیں ہے کہ اس بارش کے مجموعی اثرات کیسے تھے ،ہم صرف اپنی زندگی،گھر اورکھیت یازیادہ سے زیادہ اپنے شہر کی حد تک نظر ڈالتے ہیں ،اگر اس کا مثبت اثر تھا تو کہتے ہیں یہ نعمت الہٰی تھی ،اگر منفی تھا تو اسے “بلا”کہتے ہیں۔جب ایک پرانی اور فرسودہ عمارت کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لئے گراتے ہیں اور ہم پر وہاں سے گزرتے ہوئے اس کے گرد وغبار پڑتے ہیں تو کہتے ہیں :کیسا برا حادثہ ہے،اگر چہ آئندہ وہاں پرہسپتال ہی کیوں نہ تعمیر ہو اور دوسرے لوگ اس سے مستفید ہوں اور بارش کی مثال میں اگرچہ مجموعی طور پر علاقہ کے لئے مثبت اثرات ظاہر ہوں۔ہم سطحی اور عام طور پر سانپ کے ڈسنے کو ایک مصیبت اور شر سمجھتے ہیں ۔ہم اس سے غافل ہیں کہ یہی ڈسنا اور زہر اس حیوان کے لئے دفاع کا ایک موثر وسیلہ ہے اور ہم اس سے بے خبر ہیں کہ گاہے اسی زہر سے حیات بخش دوائی بنائی جاتی ہے جو ہزاروں انسانوں کو موت سے نجات دیتی ہے۔اس لئے اگر ہم مغالطہ سے بچناچاہیں تو ہمیں اپنی محدود معلو مات پر نظر ڈالنی چاہئے اور فیصلہ کرتے وقت صرف اشیاء کے اپنے ساتھ روابط کو مد نظر نہیں رکھنا چاہئے بلکہ ہمیں تمام جہتوں کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرناچاہئے۔بنیادی طور پر دنیا کے حوادث زنجیر کی کڑیوں کے مانند آپس میں ملے ہوئے ہیں: آج،ہمارے شہر میں آنے والاطوفان اور سیلاب لانے والی بارش کا برسنا اس طولانی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو دوسرے حوادث کے ساتھ مکمل طور پر مربوط ہے اسی طرح یہ ماضی میں رو نما ہوئے اور مستقبل میں رونما ہونے والے حوادث سے جڑے ہوئے ہیں۔نتیجہ کے طور پر حوادث کے ایک چھوٹے حصہ پر انگلی رکھ کر اس کے بارے میں فیصلہ کر نا منطق اورعقل کے مطابق نہیں ہے۔قابل انکار چیزصرف مطلق شر کی خلقت ہے۔لیکن اگرکوئی چیز کسی جہت سے خیر اور کسی جہت سے شر ہو اور اس کا خیر غلبہ رکھتا ہو تو کوئی مشکل نہیں ہے ۔ایک آپریشن کچھ جہات سے تکلیف دہ اور زیادہ تر جہات سے مفید ہے ،اس لئے نسبتاً خیر ہے۔پھر مزید وضا حت کے لئے زلزلہ کی مثال پر غور کیا جاسکتا ہے:صحیح ہے کہ ایک جگہ پر زلزلہ ویرانی اورتباہی لاتا ہے ۔لیکن اگر ہم دوسرے مسائل سے اس کے سلسلہ وار روابط کو مد نظر رکھیں تو ممکن ہے ہمارا فیصلہ بدل جائے ۔اس سلسلہ میں سائنسدانوں کے مختلف نظریات ہیں کہ زلزلہ زمین کی اندرونی گرمی اوربھاپ سے مربوط ہے یا چاند کی قوت جاذبہ سے مربوط ہے جو زمین کی خشک و جامد سطح کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور کبھی اسے توڑ دیتا ہے ،یا دونوں چیزوں سے مربوط ہے؟لیکن مذکورہ عوامل میں سے جوبھی ہو،اس کے آثار کو مد نظر رکھناچاہئے ۔یعنی ہمیں جاننا چاہئے کہ زمین کی اندرونی گرمی ،زمین کے اندر موجود تیل کے ذخائر اور کوئلے کی کانوں اور دوسری چیزوں کی تولیدپرکیا اثر ڈالتی ہے؟!اس لئے یہ نسبتاً خیر ہے۔اس کے علاوہ سمندروں کے مدوجزر،سمندروں کے پانی اور اس میں موجود جانوروں کی حفاظت اور کبھی خشک سواحل کی آبیاری میں کتنے موثر ہیں!یہ بھی نسبتاً خیر ہے۔یہاں پر ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری سطحی فیصلے اور محدود معلو مات ہیں جنھوں نے عالم خلقت کے ان امور کوتاریک کی صورت میں پیش کیا ہے ۔ہم جس قدر حوادث کے آپسی روابط اور پیوند کے بارے میں زیادہ غور کریں گے اس مطلب کی اہمیت کے بارے میں اتناہی زیادہ آگاہ ہوں گے۔قرآن مجید فر ماتا ہے:<وما اٴویتم من العلم إلاّ قلیلاً> ( سورہ اسراء/۸۵)”اور تمھیں بہت تھوڑا ساعلم دیا گیا ہے۔”لہذا اس تھوڑے سے علم و دانش کے ذریعہ فیصلہ کر نے میں جلدی نہیں کرنی چاہئے۔۲۔ناخوشگوار اور انتباہ کر نے والے حوادثہم نے ایسے افراد کو دیکھا ہے کہ جب وہ کسی نعمت میں غرق ہوتے ہیں تو”خود خواہی اور غرور”سے دو چار ہوتے ہیں اور اس حالت میں بہت سے اہم انسانی مسائل اور اپنے فرائض کو بھول ڈالتے ہیں ۔اور ہم سب نے یہ بھی دیکھا ہے کہ زندگی کے مکمل آرام وآسائش کی حالت میں انسان کس طرح”خواب غفلت “میں پڑ جا تا ہے کہ اگر انسان کی یہ حالت جاری رہی تو وہ بد بختی سے دو چار ہو جاتا ہے ۔بیشک زندگی کے بعض ناخوشگوار حوادث انسان کو غرور وتکبر اور غفلت کی نیند سے بیدار کر نے کے لئے ہیں۔آپ نے یقینا سنا ہو گا کہ با تجربہ اور ماہر ڈرائیور صاف و ہموار اور پیچ و خم اور موڑوں سے خالی سڑ کوں کے بارے میں اعتراض کرتے ہیں اور اس قسم کی سڑ کوں کو خطر ناک جانتے ہیں ،کیونکہ سڑکوں کا ہموار و یکسان ہو نا ڈرائیور کے لئے خواب آور ہو نے کا سبب بنتا ہے اور وہ خطرہ سے دوچار ہوسکتا ہے۔حتی کہ بعض ملکوں میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اس قسم کی سڑکوں پر مصنوعی نشیب و فراز (speed breaker) سپیڈبریکراور موڑ بنائے جاتے ہیں تاکہ اس قسم کے خطرات کو روکا جاسکے ۔انسان کی زندگی کا راستہ بھی ایسا ہی ہے ۔اگر زندگی میں نشیب و فرازاور مشکلات نہ ہوں اور اگر کبھی کبھار ناگوار حوادث پیش نہ آئیں تو انسان کے لئے خدا، اپنے سر انجام اور اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنا یقینی بن جاتا ہے ۔ہم ہر گز یہ نہیں کہتے کہ انسان خود اپنے لئے ناخوشگوار حوادث ایجاد کرے اور مصیبتوں کی طرف بڑھے، کیونکہ انسان کی زندگی میں یہ امورہمیشہ سے تھے اور رہیں گے ،بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اسے توجہ کر نی چاہئے کہ ان حوادث میں سے بعض کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان کے غرور وغفلت کے لئے رکاوٹ بنیں کیو نکہ یہ چیزیں اس کی سعادت وخوشبختی کی دشمن ہیں ۔ہم پھر کہتے ہیں کہ یہ فلسفہ بعض ناخوشگوار حوادث سے متعلق ہے،نہ کہ تمام حوادث سے متعلق۔باقی حصہ کے بارے میں انشا اللہ بعد میں بحث کریں گے۔اس سلسلہ میں ہماری عظیم آسمانی کتاب قرآن مجید میں یوں ارشاد ہوتا ہے:< فاٴخذنٰھم بالباسآء والضرّآء لعلّھم یتضرّعون>( سورہ انعام/۴۲)”اس کے بعد انھیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑ گڑائیں۔”

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.