حضرت پر تھوپي جانے والي جنگيں
خلافت اميرالمومنين عليہ السلام کے دوران تين ٣ جنگيں ايسي ہيں جو زبردستي علي عليہ السلام پر تھوپي گئيں اور آپ نے کسي جنگ ميںبھي پہل نہيں کي ۔
1۔جنگ جمليہ وہ جنگ ہے جس کے سردار اسلام کے دو بڑے سردار پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے صحابي اور اپنے وقت کے جانے پہچانے دو ٢ نوراني چہرے طلحہ و زبير تھے ۔حضرت کو معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے بيعت توڑ دي ہے اور بصرہ گئے ہوئے ہيں اور اپنے ساتھ ام المومنين عائشہ کو بھي مدينے سے پٹي پڑھا کر مکے اور پھر مکے سے بصرہ لے گئے جب کہ يہ لوگ پہلے علي عليہ السلام کے ہاتھ پر بيعت کر چکے تھے ،اس وقت اميرالمومنين عليہ السلام ايک عظيم لشکر لے کر ان کے مقابلے کیلئے نکلے مگر آپ نے صف آرائي سے پہلے ان کو صلح و آتشي کي دعوت دي اور چاہا کہ مسلمانوں ميں خونريزي کے بغير يہ معاملہ سلجھ جائے اس ليے آپ نے نرم رويہ اپنايا اور مذاکرہ کرنے کے ليئے ابن عباس کو زبير کے پاس بھيجا اور ان کو يہ ھدايت دي کہ ديکھو طلحہ کے پاس نہ جانا اس ليے کہ وہ ايک تند خو آدمي ہے اور اس کے مقابلہ ميں زبير کچھ نرم خو انسان ہيں” ولکن الق الزبير‘‘(١)ذرا ديکھئے انداز اميرالمومنين عليہ السلام کيا ہے فرماتے ہيں ” ولکن العين عريکۃ‘‘(٢) زبير نرم خو ہيں،” فقل لہ بقول لک ابن خالک ‘‘(٣) تو تم جا کے زبير سے کہو کہ تمہارے ماموں کے بيٹے تم سے کہہ رہے ہيں زبير اميرالمومنين کي پھوپھي کے بيٹے اور اميرالمومنين زبير کے ماموںکے بيٹے ہيں اور اوائل بعثتِ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے يہ دونوں ايک دوسرے کے قديمي دوست تھے مکہ مدينہ اور جنگوں ميں ساتھ ساتھ تھے اور قتل عثمان کے بعد طلحہ اور زبير دونوں نے آکر حضرت کے ہاتھوں پر بيعت کي ہے،اب حضرت اس نرمي اورمحبت سے گفتگو کر رہے ہيں کہ تمہارے ماموں زاد بھائي تم سے يہ کہہ رہے ہيں”عرفتني بالحجاز و انکرتني بالعراق‘‘ کہ آخر تم کو کيا ہو گيا کہ حجاز ميں تم نے مجھے پہچانا اور جب عراق ميں آئے تو جيسے تم مجھے نہيں جانتے !؟ يعني وہاں تو تم نے مجھے خليفہ مسلمين سمجھ کر ميرے ہاتھ پر بيعت کي مجھے اميرالمومنين مانا ليکن آج عراق ميں اسي بات کو تم نے بھلا ديا، اورمجھے پہچاننے سے انکار کر ديا؟ ”فماعدا مما بدا‘‘(٤)تم خود بتاو تو سہي آخر تم نے کيوں بيعت شکني کي؟ آخر ميں نے کيا کيا ہے جو تم آج جنگ کرنے پر تلے ہوئے ہو؟ اميرالمومنين کا زبير سے خطاب کا يہ انداز تھا! البتہ خود آپ نے زبير سے گفتگو بھي کي مگر اس کا خاطر خواہ اثر نہيں ہوا۔اس کے بعد پھر اميرالمومنين نے ميدان جنگ ميں زبير کو پکارا اور ان سے گفتگو کي البتہ يہاں حضرت عليہ السلام کي بات موثر ثابت ہوئي اور زبير جنگ کئے بغير ميدان چھوڑ کر باہر چلے گئے۔اتفاقاً راستے ميں کسي نے زبير کو ديکھا اور قتل کر ديا اميرالمومنين کو اس کا بہت افسوس ہوا اور آپ نے ان کے قتل پر رنج و غم کا اظہار فرمايا،جنگ جمل ميں آپ کے ساتھ يہ صورتحال پيش آئي کہ جب آپ نے ديکھا يہ لوگ آپ کي بات پر کان تک نہيں دھرتے تو پوري جرآت و ہمت کے ساتھ ان سے جنگ کي،بہت سے لوگ اس جنگ ميں مارے گئے،کچھ اسير ہو گئے اور کچھ فرارہو گئے۔جب آپ نے اسيروں پر نظر ڈالي تو معلوم ہوا اموي حليہ گروں کا اس جنگ ميں بھي ہاتھ ہے مروان بن حکم جو معاويہ اور بني اميہ کے نزديک ترين افراد ميں سے ایک تھا حضرت کے ہاتھوں جنگ جمل ميں اسير ہوا،اس نے امام حسن عليہ السلام اور امام حسين عليہ السلام سے التماس کي تا کہ وہ اپنے والد بزرگوار سے اس کي جان بخشي کروا ديں۔دونوں حضرات نے اس پر ترس کھا کر اپنے والد سے اس کي سفارش کي اور حضرت نے اس سے بيعت لئے بغير آزاد کر ديا! يہ ہے جمل کا قصہ!
٢۔جنگ صفينآنجناب پر تھوپي جانے والي ايک دوسري جنگ صفين ہے جو سخت ترين جنگ تھي، يہ اس وقت کي بات ہے جب اميرالمومنين عليہ السلام نے معاويہ سے شام کي حکومت چھوڑ دينے کا حکم صادر کيا تھا،اصولاً معاويہ کو آپ کا يہ حکم قبول کرنا چاہيے تھا کيونکہ مسلمانوں کاخليفہ اسے برخواست کر رہا تھا اور اس کے پاس عقلي،منطقي،يا حديث و سنت اور شرع سے کوئي دليل نہيں تھي جس کي بنا پر وہ اس منصب کا حقدار ہوتا مگر وہ امام عليہ السلام کے حکم کے برخلاف اکڑ گيااور جنگ کرنے کے لئے تيار ہوگيا،امام عليہ السلام نے جب يہ صورتحال دیکھي شام کي طرف لشکر لے کر چل پڑے اور صفين،ميں دونوں لشکر ايک دوسرے کے مقابلہ ميں آگئے پہلے حضرت عليہ السلام نے گفتگو سے اس مسئلہ کا حل نکالنا چاہا اور فرمايا اگر يہ ہماري نصيحت کو قبول کر ليں اور ہماري بات مان ليں تو پھر تلوار نہيں اٹھاوں گا؛لہذا حضرت نے جنگ کرنے کے بجائے پہلے پہل انھيں نصيحت کرنے کي کوشش کي اور مقابل مسلسل ہي شيطنت کرتا رہا اس کے باوجود اميرالمومنين عليہ السلام نے مسلمانوں کے خون کي حفاظت کي خاطر جنگ ميں اس قدر تاخير فرمائي کہ آپ کے بعض اصحاب نے يہاں تک کہ ديا ،يا اميرالمومنين عليہ السلام کيا آپ لشکر معاويہ سے خوف کھا رہے ہيں!جو لڑنے کے لئے تيار نہيں ہوتے! حضرت عليہ السلام نے فرمايا تم مجھے ڈر پوک سمجھتے ہو؟! جسنے عرب کے بڑے بڑے پہلوانوں کو مٹي چٹائي ،جس نے کبھي بھي ميدان سے فرار نہيں کيا وہ جنگ کرنے سے ڈرے گا؟ ”فواللہ ما دفعت الحرب يوماً الا وانا اطمع ان تلحق بي طائفۃُ فتھدي بي‘‘(5) جو ميں جنگ ميں دير لگا رہا ہوں بخدا صرف اس لئے کہ شايد ان ميں کا کوئي گروہ بصيرت پائے اور مجھ سے آملے اور اس طرح وہ گمراہي سے چھٹکارا پا جائے” و ذالک احب الي من ان اقتلھا علي ضلالھا‘‘(6) اور ميں اس بات کو زيادہ پسند کرتا ہوں کہ يہ گمراہي ميں قتل ہونے کے بجائے ميرے ہاتھوں ہدايت پا جائے اور وہ نجات يافتہ ہو جائے۔صلاحيت و قاطعيت کے ساتھ ساتھ امام کي شفقت و محبت کو ذرا ملاحظہ فرمائيں کہ ان کا ارادہ يہ ہے کہ صفين ميں کسي بھي صورت يہ فريب خوردہ،يہ گنہگار يہ غلطي پر اٹل ہو جانے والے اميرالمومنين عليہ السلام کے ہاتھوں،نجات پا جائيں،صحيح راستے پر آجائيں مگر معاويہ کے سپاہيوں نے آغاز ہي سے جنگ کو ہوا دي اور ايسے حالات پيدا کردئيے کہ جنگ ميں کوئي شک و ترديدرہنے نہ پائے،انہوں نے آتے ہي سب سے پہلے نہر کے پاني کو اپنے قبضہ ميں کر ليا جب کہ دونوں اس پاني کے برابر کے حق دار تھے جب حضرت عليہ السلام اپنے اصحاب کے ساتھ وہاں پہونچے تو ديکھا يہ چشمہ تو معاويہ کے قبضہ ميں ہے ايک ۔۔۔خطبہ ارشاد فرمايا۔بہت مختصر مگر بہت ہي جامع و غرّا۔اور کہا ”اور رو واالسيوف من الرمائ تروو امن المائ‘‘ (7)يا تو تم لوگ يہ ننگ و ذلت قبول کرو اور پياس سے ہلاک ہو جاو يا پھر اپني تلواروں کو دشمن کے خون سے سيراب کرو تا کہ خود تم سيراب ہو سکو! يہ سن کر اميرالمومنين عليہ السلام کے سپاہيوں نے دشمن پر حملہ کر ديا، گھاٹ کو اپنے قبضہ ميں کر ليا اور دشمن کو پيچھے دھکيل ديا۔خود بھي سيراب ہوئے اور دشمن کو بھي پاني سے منع نہيں کيا يعني دشمن کي گھناوني حرکت خود انجام نہيں دي۔ اور ان کے ليے گھاٹ پر کوئي پہرہ نہيں لگايا،مگر معاويہ کے خيانت آميز فشار اور دباو کي وجہ سے جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے قريب تھا کہ يہ جنگ علي عليہ السلام کے حق ميں خاتمہ پائے مگر معاويہ اورعمر و عاص کي طے شدہ سازش کے تحت قرآن نيزوں پر اٹھا کر حکميت جيسے المناک فيصلے پر اس جنگ کو بلا نتيجہ ختم کر ديا گيا۔جو اپني جگہ تاريخ کي ايک تلخ داستان ہے۔
٣۔جنگ نہروانصفين کي جنگ ميں( حکميت کے مسئلے ميں اختلاف کے بعد) خوارج نے سر اٹھايا اور ان لوگوں نے اميرالمومنين عليہ السلام کے ليے ايک اور جنگ کي بنياد ڈالدي قصہ يہ ہے کہ جب اميرالمومنين عليہ السلام کے سپاہيوں نے معاويہ کي افواج کو پيچھے دھکيل ديا اور ان پر سخت دباو ڈالا تو قريب تھا معاويہ اور عمر و عاص قتل کر ديئے جائيں اس موقع پر عمر و عاص نے ايک حيلہ اپنايا،اور قرآن کو نيزوں پر بلند کر ديا اور لوگوں کو قرآن پر عمل کرنے کي دعوت دي۔يہ اس لئے تا کہ وقتي طور پر جنگ کو روکا جا سکے،يہ حيلہ دنيا ميں آج بھي رائج ہے کہ جيسے ہي کسي پر دوسرے لشکر کا دباو بڑھنے لگتا ہے فوراً صلح و صفائي کي آوازيں اٹھنے لگتي ہيں چاہے يہ آواز اٹھانے والے خود تجاوز کرنے والے ہي کيوں نہ ہوں؟ جيسا کہ عراق ايران جنگ ميں جب عراق نے ايران پر حملہ کرنے کے بعد ايراني فوج کا دباو محسوس کيا تو پھر صلح کي پکار کرنے لگے جب کہ خود وہي لوگ جنگ کي آگ بھڑکانے والے تھے بعينہ يہي کام صفين ميں لشکر معاويہ نے انجام ديا مگر يہ بات ظاہر تھي کہ اميرالمومنين عليہ السلام اس دھوکے ميں آنے والے نہ تھے! جب کہ ادھر مالک اشتر جنگ کرتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے تھے ؛مگر کچھ کم ظرف ،کوتاہ فکر دينداري سے ايک خشک تاثر رکھنے والے مسلمان حضرت پر دباو ڈالنے لگے کہ آخر يہ لوگ صلح کرنا چاہ رہے ہيں آپ کيوں قرآن کا احترام نہيں کرتے؟وہ قرآن فيصلے کے لئے پيش کر رہے ہيں آپ کيوں اسے حَکَم نہيں مانتے؟ يہ لوگ ظاہر کو ديکھ رہے تھے اور بد قسمتي سے ہر زمانے ميں امت اسلامي کي ايک بڑي مشکل اور بڑي مصيبت يہي سادہ لوحي کج فکري اور کوتاہ فکري رہي ہے کہ کچھ لوگ حقائق کو صحيح طور پر سمجھنے سے عاجز رہے ہيں فقط ان کي نگاہيں ظاہر پر لگي ہوئي ہیں اسي قسم کے خشک مقدس کچھ سپاہي حضرت عليہ السلام پر دباو ڈال رہے تھے کہ آپ تسليم ہو جائے يہاں تک کہ آپ کو تلوار سے قتل کر دينے کي دھمکي تک دے رہے تھے مگر حضرت کو اپنے ہي درميان جنگ نہيں کرنا تھي (خود آپ اپنے لشکر ميں خون خرابہ نہيں ديکھنا چاہتے تھے) آخر کار حضرت نے مالک اشتر کو واپس آجانے کا حکم دے ديا اور حَکَميت جيسے مسئلے کي یہاںسے داغ بيل پڑي جو اہل شام کي طرف سے عمرو عاص کي سر کردگي ميں انجام پا رہا تھا۔کہا گيا فيصلے کے لئے ايک حَکَم شام کي جانب سے ايک اہل کوفہ کي طرف سے آگے آئيں اور يہي لوگ کہ جنہوں نے پہلے حضرت عليہ السلام کو حکميت قبول کرنے پر مجبور کيا تھا،بعد ميں خود اس کے منکر ہوگئے اور اسي مسئلے کو بہانہ بنا کر خود علي عليہ السلام کے مقابلے کے لئے آگئے کہ بعد ميں انھيں تاريخ ميں خوارج کے نام سے ياد کيا گيا۔۔البتہ خود خوارج کي دو قسميں ہے۔ايک گروہ تو وہ ہے جو ان کے سردار و رہبر کي حيثيت سے اپني خواہشات نفساني کو پورا کرنے کي تلاش و کوشش کر رہا تھا اور دوسرا گروہ عالم لوگوں کا تھا جو اپني جگہ خشک ديندار اور کوتاہ نظر تھے۔اشعث بن قيس خوارج کے سرداروں ميں سے تھا جو جاہ و منصب کے لالچ و طمع ميں اپني خواہشات کي تسکين کیلئے شورش کر رہا تھا يہاں تک کہ معاويہ سے بھي در پردہ ساز باز کئے ہوئے تھے۔ليکن کچھ سادہ لوح، عوام بھي تھے جوا ن مفاد پرستوں کي خواہشات کا شکار ہو رہے تھے،اور اشعث جيسے لوگ ان کو جنگ کے لئے ورغلا رہے تھے اور جب اميرالمومنين عليہ السلام جنگ پر مجبورہو گئے تو اس وقت اپنا ايک پرچم نصب کيا اور فرمايا جو بھي اس پرچم تلے آجائے گا وہ امان ميں رہے گا چنانچہ اس کا نتيجہ يہ ہوا کہ بہت سے لوگ اس کے نيچے آگئے اور حضرت نے انھيں معاف کر ديا اور بقيہ جو بچے ان سے جنگ کي۔
خشک و مقدس مآب افراد کا جتّھہ:المختصر اميرالمومنين عليہ السلام کي چار سال اور ٩ ،١٠ ماہ حکومت کے دوران ان پر تين تلخ جنگيں تھوپي گئيں،ايسي جنگيں کہ جس ميں قريب قريب حضرت کے سارے مخالفين متحد ہو کر آپ سے لڑنے مرنے کے لئے تيار تھے،اس ميں ايک گروہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے مشہور و معروف اصحاب جيسے طلحہ و زبير کا تھا کہ جو اميرالمومنين عليہ السلام کے مقابلہ ميں آگئے ۔ آپ کي قاطعيت اور سمجھوتہ نہ کرنا آپ کے مختصر سے دور حکومت کے ليے کس قدر درد سر کا سبب بنتا ہے کہ ميں سمجھتا ہوں بہت مناسب ہے اگر تھوڑا تھوڑا اس زمانے ميں تاريخ کے اس عبرت انگيز پہلو کو بيان کيا جائے،اگرچہ ماہ رمضان کے ان خطبوں ميں ممکن ہي نہيں کہ اس کي تشريح کي جا سکے اس کے لئے تو مخصوص وقت اور جلسات کي ضرورت ہے جس کے افراد کم اور چيدہ چيدہ ہوں اور پوري آگاہي و بصيرت کے ساتھ انصاف پسندي سے اس عبرت انگيز تاريخ کي تشريح کي جائے۔(8)
آپ کے پاس کوئي گواہ ہے؟اسلام ميں قاضي کا ايک احترام ہے ۔حضرت اميرالمومنين عليہ السلام ايک دن گليوں اور کوچوں سے گذر رہے تھے ديکھا آپ کي ذرہ جو مدتوں سے غائب تھي ايک يہودي کے ہاتھ ميں ہیيا مثلاً پہنے ہوئے ہے۔حضرت اس کے قريب آئے فرمايا يہ ميري ذرہ ہے۔اس يہودي نے انکار کر ديا اميرالمومنين عليہ السلام نے قاضي کے پاس چلنے کے لئے کہا اس نے آپ کي بات کو قبول کر ليا دونوں قاضي کے پاس پہنچے حضرت نے دعويٰ کيا کہ يہ ميري ذرہ ہے جسے اس يہودي نے لے ليا ہے۔قاضي نے يہودي سے دريافت کيا کہ اس نے کہا کہ ذرہ علي عليہ السلام کي نہيں ہے،قاضي نے اميرالمومنين عليہ السلام سے کہا آپ کے پاس کوئي گواہ بھي ہے حضرت نے فرمايا نہيں ميرے پاس کوئي گواہ نہيں!قاضي نے کہا چونکہ آپ کے پاس کوئي شاھد نہيں اس ليے ميں آپ کے حق ميں فيصلہ نہيں دے سکتا حضرتٴ قاضي کي بات سے مطمئن ہوگئے اور سکوت اختيار کر ليا اور پھر يہودي ذرہ لے کر اس جلسے سے خارج ہو گيا، حضرت اسي طرح کھڑے ہوئے اس يہودي کو ديکھ رہے تھے جو حکم اسلامي کي بنائ پر آپ کي ذرہ لے کر جا رہا تھا نہ تو آپ کوئي اعتراض کر رہے تھے نہ ہي آپ کوئي اعتراض کر سکتے تھے وہ يہودي کچھ دور گيا تھا کہ پھر کھڑا ہو گيا اورحضرت اميرعليہ السلام کي خدمت ميں آکر کہتا ہے۔ ميں گواہي ديتا ہوں کہ بجز اللہ کے کوئي معبود نہيں اور آپ کا دين حق ہے اور آپ سچے ہيں۔(9)
اجتماعي ذمہ داري کے لئے اسلامي معيارات:اميرالمومنين عليہ السلام جنگ صفين جاتے وقت کسي منزل پر ٹھرے اور اپني جوتي سي رہے تھے،ابن عباس وہاں پہنچے ديکھا مسلمانوں کا خليفہ معاشرے کي سب سے اوّل درجے کي شخصيت کے جس کے ہاتھ ميں لاکھوں کي رقم موجود ہے اپنے ہاتھوں ،پھٹي پراني جوتي سي رہے ہيں اميرالمومنين عليہ السلام نے ابن عباس کي حيرت و تعجب ديکھ کر فرمايا:ابن عباس ذرا يہ تو بتاو ميري اس جوتي کي کيا قيمت ہوگي؟ ابن عباس نے کہا ! اس کي کوئي قيمت نہيں؛آپ نے يہ سن کر فرمايا” واللہ لھي احب اني من امرتکم‘‘(10)قسم بخدا يہ جوتي ميري نگاہوں ميں اس حکومت سے کہ جو تم پر کر رہا ہوں کہيں زيادہ محبوب اور قيمتي ہے يعني اگر مقام و منصب حکومتي کو مادّي نگاہوں سے ديکھا جائے تو حضرت اميرالمومنين عليہ السلام کي نگاہ ميں اس کي حيثيت صفر ہے،مگر اس جملہ کے بعد فرماتے ہيں” الّا ان اقيم حقّاً او ادفع باطل‘‘ ليکن اگر ميں اسي حکومت کے ذريعہ حق کا قيام کر سکوں يا باطل کو کچل سکوں تو پھر يہ حکومت ارزشمند و قيمتي بھي ہے ورنہ اس کي کوئي حيثيت نہيں بلکہ اس پھٹي پراني جوتي سے بھي گئي گذري ہے!
آگاہي اور ثابت قدمي حضرت علي عليہ السلام کي دو ممتاز صفتيں:اگر ہم اميرالمومنين عليہ السلام کے بارے ميں بطور اختصار کچھ عرض کرنا چاہيں اور اس عظيم اور استثنائي انسان کے سلسلے ميں تفصيل سے کہ جس کے بارے ميں کتابيں بھي نا کافي ہيں ۔ تو سب سے پہلے يہ عرض کر دوں کہ اميرالمومنين عليہ السلام اپني جگہ ”نادرۃ الزمن‘‘ شخصيت کے حامل ہيں کہ آج اور گذشتہ تاريخ ميں نہ شيعوں ميں بلکہ تمام مسلمانوں کے درميان بلکہ دنيا کے سارے آزاد انديش غير مسلمانوں کے درميان ميں بھي آپ محبوب رہے ہيں ايسي بہت کم بزرگ ہستياں ہوںگي حتي کہ پيغمبرانِ الہي ميں بھي کم مليں گي کہ جن کي ستائش کرنے والے اس قدرافراد پائے جاتے ہيں جس قدر علي عليہ السلام کے ثنا خواں و مدح خواں پائے جاتے ہيں يہ اور بات ہے کہ ہماري معرفت تھوڑي اور بصيرت بہت کم ہے کيونکہ آپ کي شخصيت معنوي اعتبار سے غير معمولي حيثيت رکھتي ہے۔ہم کيا آپ کي تہہ در تہہ معنوي شخصيت کو خود بہت سے اوليائ خدا بھي درک کرنے سے قاصر ہيں ،ليکن اسي کے ساتھ آپ کي ظاہري شخصيت اس قدر جاذب نظر ہے اور آنکھوں کو لبھاتي ہے کہ حتي وہ لوگ جن کو معنوي اور روحاني چيزوں سے کوئي سروکار نہيں ہے وہ بھي آپ کي بزرگ شخصيت کے بارے ميں معلومات حاصل کر کے آپ سے عشق و محبت کر سکتے ہيں۔اميرالمومنين عليہ السلام اپني زندگي کے مختلف ادوار ميں چاہے وہ اوّل بعثت يعني نوجواني کا دور ہو يا پھر مدينہ کي طرف ہجرت کا زمانہ،(کہ اس وقت علي عليہ السلام صرف بيس ٢٠ يا پچيس ٢٥ سال کے تھے)۔ہو وہ رحلت نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا سخت دور ہو يا خود آپ کي حيات کا آخري دور کہ آپ جس زمانے ميں خليفۃ المسلمين کي حيثيت سے مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے،ان تمام ادوار ميں کہ جو تقريباً ٥ سال پر محيط ہے آپ ممتاز خصوصيتوں کے مالک رہے کہ سب کے سب خصوصاً ہمارے جوان ۔اس نکتے سے درس حاصل کر سکتے ہيں۔غالباً تاريخ کي عظيم ہستياں جواني سے ہي بلکہ نوجواني سے ہي کچھ خصوصيتيں،اپنے اندر اجاگر کرتي ہيں يا پھر وہ خصوصيات ان کے اندر پہلے سے موجود ہوتي ہے،عظيم شخصيتوں کي يہ خصوصيات و امتيازات ايک لمبي زحمتوں کا نتيجہ ہوتے ہيں اور يہ بات ہم اميرالمومنين عليہ السلام کي حيات طيبہ ميں ملاحظہ کرتے ہيں مجموعي طور پر جب ميں اميرالمومنين عليہ السلام کي حيات پر نظر دوڑاتا ہوں اور اوّل زندگي سے لے کر ھنگام شہادت تک ان کي پرفراز وپرنشيب حيات کو ديکھتا ہوں تو پھر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ دو صفات”بصيرت‘‘ اور ”صبر‘‘ کے اس پورے دور ميں مالک رہے ہيں،آگاہي اور ثابت قدمي وہ کبھي بھي لمحہ بھر کے لئے بھي غفلت اورانحراف فکري يا حق سے تعين ميں اشتباہ کا شکار نہيں ہوئے ۔يہ بحیثیت انسان آپ کي زندگي پرايک نظر ہے نہ بحیثیت معصوم ورنہ معصوم کي خطا و کجي کا کوئي امکان نہيں ہوتا۔اس وقت کہ جب غار حرا اور کوہ نور سے نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں پر پرچم اسلام ہوا ميں لہرايا اور کلمہ ”لا الہ الا اللہ‘‘ آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي زبان پر جاري ہوا اور نبوت و رسالت کا آغاز ہوا علي بن ابي طالب عليہ السلام نے اسي وقت سے حق کي تحريک کي حمايت کي اور تادم آخر اس پر ڈٹے رہے اور آنے والي ساري مشکلات کو اپني جان کي قيمت کے بدلے ميں خريدا اور جس جگہ جو ضرورت پيش آئي پیچھے نہیں ہٹے جہاں جنگ کرنا تھي،جنگ کي، جہاں فداکاري و جانثاري کرني تھي وہاں جانثاري کي،اگر کوئي سياسي فعاليت لازم تھي تو اسے بھي انجام ديا، حکومت چلانے کي بات آئي تو اس سے بھي پيچھے نہيں ہٹے اور کسي بھي صورت آپ کي بصيرت بيداري لمحہ بھر کے لئے بھي آپ سے جدا نہ ہوئي دوسرے يہ کہ اس راستے ميں صبر و پائيداري سے کام ليتے رہے اور اس راہ استوار و صراط مستقيم پر ڈٹے رہے۔اور آپ کا استقامت سے کام لينا،مشکلات و حوادث کے مقابلے ميں ڈٹے رہنا اور نہ تھکنا،خواہشات نفس سے مغلوب نہ ہونا خود ايک اہم نکتہ ہے۔جي ہاں عصمت اميرالمومنين عليہ السلام قابل تنقيد نہيں ہيں آپ کي شخصيت کا کسي سے بھي مقابلہ ممکن نہيں ہے ہم لوگوں نے تاريخ کي جن بزرگ ہستيوں کو بھي ديکھا ہے اگر کوئي ان کا علي عليہ السلام سے مقابلہ کرنا چاہے تو يہ ايسے ہي ہے جيسے ذرے کا آفتاب سے کوئي مقابلہ کرے،مگر يہ دو صفتيں جو حضرت اميرالمومنين عليہ السلام کي ميں نے بيان کي ہيں قابل تقليد ہيں قابل پيروي ہيںکوئي بھي يہ کہہ دے کہ اگر اميرالمومنين عليہ السلام صبر و بصيرت کے حامل تھے تو وہ اس ليے کہ وہ ان کے اميرالمومنين عليہ السلام ہونے کي وجہ سے تھا اپني ذمہ داري سے فرار نہيں کر سکتا بلکہ تمام لوگوں کو اميرالمومنين عليہ السلام کي ان صفات کو اپنے اندر پيدا کرنے کي کوشش کرني چاہئے اس طرح اپني ہمت و صلاحيت کے لحاظ سے اميرالمومنين عليہ السلام سے خود کو نزديک کرنا چاہيے۔
بيگا نوں کے تسلط کو ختم کر نے کے لئے ضروري بيداري اور پا ئيداري:وہ ساري مشکلات جو معاشرے اور بشریت کے لئے پيش آتي ہيں وہ ان دو ٢ کے سبب ،يا عدم بصيرت يا بے صبري ،يا غفلت کا شکار ہوجانے کي وجہ سے ہے،واقعيت کو نہيں سمجھ پاتے،حقائق کو درک نہيں کرتے يا پھر واقعيت کو جاننے کے باوجود مقاومت نہيں کر پاتے،اسي وجہ سے ان دو جگہوں ميں سے کسي ايک جگہ سے يا دونوںجگہوں کي بنائ پر تاريخ بشررنج و الم محنت و مشقت سے بھري ہوئي ہے اور عالمي مستکبرين کي ہٹ دھرمي ان کے ظلم و جبر سے بھري ہوئي دسيوں يا سينکڑوں سال تک ايک قوم کسي نہ کسي استبدادي قوت و طاقت کے زير تسلط رہي ہے۔آخر ايسا کيوں؟ کيا يہ لوگ انسان نہيں تھے؟ ! انسان تھے؛! مگر يا تو يہ لوگ بے بصيرت تھے يا اگر بصيرت رکھتے بھي تھے تو اس راستہ ميں کافي صبر وتحمل کرنے سے عاري تھے جس کا مطلب يہ ہوا کہ يا تو يہ لوگ بيدار نہيں تھے يا پھر ان کے اندر قوت ،استحکام و مقاومت نہيں تھي۔انقلاب سے پہلے کي تاريخ اٹھا کر ديکھئے جس قدر پيچھے جائيں گے ذلت و خواري،شقاوت وبدبختي،مصيبت اور مختلف قسم کا دباو حاکم وقت کي طرف سے ملاحظہ کريں گے،اس ملک ميں سالہا سال برٹش ،سالہا سال روسي،سالہا سال يہ دونوں اور آخرميں يہ امريکي سالہا سال تک جو کچھ کرنا چاہتے تھے کرتے تھے ہماري يہي ملت تھي اور يہي ساري استعداد تھي۔کہ بحمداللہ مختلف ميدانوں ميں ہمارے جوانوں کي صلاحتيں اب ستاروں کي طرح چمک رہي ہيں۔مگر سابقہ حکومت ميں يہي صلاحيتيں حکومت کي غلط سياست اس کي غلط و ناقص تربيت کي بناپر بصيرت و صبر کا فقدان تھا اور جب ايک وقت معاشرے کے دانا و عالم اور قوم کے دانشمند حضرات ميں،امام خمیني ۲ جيسي عظيم و بزرگوار شخصيت اٹھي تو لوگوں کے اندر بصيرت پيدا کر دي لوگوں کو صبر وتحمل سکھايا اور ”وتواصوا بالحق و تواصوا بالصبر‘ کي پورے معاشرے ميں نصيحت کي تو يہ جوش مارتا ہوا دريا سامنے آيا اور پھر اس ذلت و حقارت،محنت و مشقت سے بھري زندگي کے تار و پود کاٹ دئے اور بيگانوں کے غاصبانہ تسلط کو ختم کر کے سانس لي(11)
اقتدار علي عليہ السلام اور ان کي مظلوميت و کاميابي :آج جو ميں ان بزرگوار کے بارے ميں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ يہ ہے کہ آپ کي شخصيت،زندگي اور شہادت ميں تين عناصر (کہ جو بظاہر ايک دوسرے سے زيادہ ميل نہيں رکھتے تھے )جمع ہو گئے ہيں اور وہ عناصر ہيں اقتدار،مظلوميت اور کاميابي۔اقتدار،منطقِ فکر، سياست و حکومت: ان بزرگوار کا ”اقتدار‘‘ ان کي فولادي قوت ارادي ان کا عزمِ مصمم ،مشکل سے مشکل فوجي اور جنگي ميدانوں ميں سرگرم عمل ہو کر عالي ترين اسلامي اور انساني مفاہيم کي طرف ذہنوں اور فکروں کي ہدايت کرنا جيسے مالک اشتر ،عمار، ابن عباس اور محمد بن ابي بکر وغيرہ۔کي تربيت اور تاريخ بشريت ميں ايک انقلاب کي بنياد ڈالنا ہے،اور ان بزرگوار کا مظہر اقتدار،منطق کي حاکميت، فکر و سياست کي بالادستي اقتدار حکومت جو کہ آپ کے شجاع و توانا بازو کا اقتدار تھا۔…………..١،٢،٣،٤نہج البلاغہ خطبہ ٣١5۔ نہج البلاغہ،خطبہ ٥٥6۔نہج البلاغہ،خطبہ ٥٥7۔نہج البلاغہ ،خطبہ ٥١8۔خطبات نماز جمعہ تہران ۔١٤ ١٣٦٣ ش9۔خطبات نماز جمعہ تہران ١٦١٠١٣٦٢10۔نہج البلاغہ خطبہ۔٣٢11۔روزنامہ جمہوري اسلامي۔١٤١٦٣ ش