قرآن مجید کے اعجاز کی ایک جھلک

128

حروف مقطعات کیوں؟قرآن مجید کی بہت سی سورتوں کے آغاز میں “حروف مقطعات” جیسے:”الم”،المر اور “یٓس”آئے ہیں۔بعض اسلامی روایتوں کے مطابق “حروف مقطعات”کا ایک فلسفہ اور رازیہ ہے کہ خداوند متعال یہ دکھا نا چاہتا ہے کہ یہ عظیم اور لافانی معجزہ قرآن مجید کیسے ان سادہ حروف “الف،با”سے وجود میں آیا ہے۔کیسے یہ ایک عظیم کلام ایسے حروف اور الفاظ سے بنا ہے،جن کو ہر چند سالہ بچہ بھی پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،حقیقت میں اتنے عظیم کام کا ایسے کلمات والفاظ سے وجود میں آناہی سب سے بڑا معجزہ ہے۔سوال پیدا ہو تا ہے کہ قرآن مجید کتنے پہلوؤں سے معجزہ ہے؟کیا صرف فصاحت و بلا غت کے لحاظ سے اور دوسرے الفاظ میں:صرف عبارتوں کی مٹھاس،مطالب کے رسا ہو نے اور ان کے غیر معمولی نفوذ سے یا دوسرے پہلوؤں سے بھی معجزہ ہے؟حقیقت یہ ہے کہ جب ہم قرآن مجید پر مختلف زاویوں سے نظر ڈالتے ہیں تو ہر زاویہ اور ہر دریچہ سے اس کے اعجاز کے چہروں میں سے ایک چہرہ نظر آتا ہے،جیسے:۱۔فصاحت و بلاغت :اس کے الفاظ اور مفاہیم میں غیر معمولی مٹھاس اور کشش اور عجیب وغریب قوت جاذبہ پائی جاتی ہے۔۲۔قرآن مجید ہر لحاظ سے بلند مطالب و مفاہیم پیش کرتا ہے ،بالاخص ہر قسم کے خرافات سے پاک عقائد بیان کر تا ہے۔۳۔علمی معجزات :یعنی ایسے مسائل کے رخ سے پردہ اٹھانا جو اس زمانے تک انسان کے لئے پوشیدہ تھے۔۴۔مستقبل میں رونما ہو نے والے بعض واقعات کے بارے میں واضح اور دقیق پیشین گوئی (قرآن مجید کی غیبی خبریں)۔۵۔قرآن مجید میں کسی بھی قسم کے اختلاف ،تضاد اور تعارض کا نہ ہو نا ان کے علاوہ بھی اعجاز قرآن کے بہت سے پہلو ہیں۔مذکورہ پانچ مسائل کے بارے میں بحث بہت طولانی ہے۔لیکن ہم چند اسباق کے ضمن میں اس بحث کے کچھ دلچسپ گوشوں کو تحقیق کے سا تھ بیان کریں گے:
فصاحت وبلاغتہم جانتے ہیں کہ ہر کلام کے دو پہلو ہوتے ہیں”الفاظ” اور “مفا ہیم”۔اگر کلام ،کے الفاظ اور کلمات، خوشنما ،شائستہ ،منظم ،منجسم اور ھماھنگ ہوں اور پیچیدگی سے پاک ہوں اور اس کے جملوں کی ساخت معنی ومطلب کو کا مل طور پر دلچسپ اور جذاب صورت میں پیش کرے تو اس کلام کو فصیح و بلیغ کلام کہتے ہیں ۔قرآن مجید عالی ترین حد تک ان دو خصو صیات کا حامل ہے، اسی لئے آج تک کوئی شخص اس قسم کی آیات اور سورتیں نہیں لاسکا ہے جن میں ایسی کشش ،جذابیت، مٹھاس اور زیبائی پائی جاتی ہو۔ہم گزشتہ سبق میں پڑھ چکے ہیں کہ مشرکین عرب کا منتخب شخص،”ولید بن مغیرہ” قرآن مجید کی چند آیتوں کی تلاوت سن کر مضطرب اور پریشان ہو کر فکر واندیشہ میں غرق ہو گیا ،اس نے ایک مدت تک غور وفکر اور مطالعہ کے بعد قرآن مجید سے مقابلہ کر نے کے لئے قریش کے سرداروں کو حکم دیا کہ قرآن مجید کو “جادو”اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جادو گر کہیں!کفار نے پیغمبر اسلام کو متعدد بار ساحر کی نسبت دی ،اگر چہ وہ اس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی مذمت کر نا چاہتے تھے لیکن وہ حقیقت میں آپکی تعریف وتمجید کر رہے تھے،کیونکہ یہ سحر کی نسبت قرآن مجید کے غیر معمولی نفوذ کا اعتراف تھا ،چونکہ عام طور پر اس کی توجیہ نہیں کی جاسکتی تھی اس لئے انھیں اسے ایک مر موز اور نامعلوم جاذبہ کی حیثیت سے قبول کر نے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔لیکن کفار اس بات کے بجائے کہ حقیقت کو قبول کریں،قرآن مجید کو معجزہ شمار کریںاور ایمان لائیں،اس کے خلاف ایک بات گڑھ کر گمراہ ہو گئے اور اسے جادو قرار دیا۔!تاریخ اسلام میں ایسے واقعات بہت پائے جاتے ہیں کہ ضدّی،تند خواور جھگڑا لو افراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جیسے ہی آتے تھے اور آنحضرت سے قرآن مجید کی آیات کی تلاوت سنتے تھے تو فوراً اپنا عقیدہ بدل دیتے تھے ،کیونکہ قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں اسلام کا نور چمکنے لگتا تھا،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی کشش اور فصاحت و بلاغت یقینا ایک معجزہ ہے۔ماضی ہی کی بات نہیں ،موجودہ زمانے میں بھی عربی ادبیات کے ماہرین جس قدر قرآن مجید کو پڑھتے ہیں اور اس کی تکرار کرتے ہیں وہ اس سے نہ صرف نہیںتھکتے اور سیر نہیں ہوتے بلکہ زیادہ سے زیادہ لذت محسوس کرتے ہیں۔قرآن مجید کی عبارتیں انتہائی دقیق اور منظم ہیں ۔یہ تعبیرات بیان کی پاکیزگی اور سنجیدگی کے علاوہ واضح اور گویا ہیں ۔ضرورت کے وقت محکم اور منہ توڑ جواب دینے والی ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید کے نازل ہو نے کے زمانے میں ادبیات کے لحاظ سے عربی زبان ترقی کے عروج پر پہنچی ہوئی تھی ۔اسی لئے عصر جاہلیت کے عربی اشعار آج بھی عربی ادبیات کے بہترین نمو نے شمار ہوتے ہیں۔مشہور ہے کہ ہرسال حجاز کے بڑے بڑے ادیب اور شاعر”بازارعکاظ”نامی ایک تجارتی اور ادبی مرکز میں جمع ہو کر اپنے بہترین اشعار کے نمونے پیش کرتے تھے ۔ان میں سے سب سے بہتر شعر کو”سال کے بہترین شعر”کے عنوان سے انتخاب کیا جاتا تھا اور اسے لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکا دیا جاتا تھا ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے زمانے میں “معلقات سبع”کے نام سے اس قسم کے سات نمونے خانہ کعبہ میں موجود تھے۔لیکن قرآن مجید کے نازل ہو نے کے بعد اس کی فصاحت و بلاغت کے مقابلہ میں یہ اشعار اس قدر پھیکے پڑ گئے کہ نہ صرف انھیں بتدریج وہاں سے ہٹا دیا گیا بلکہ انھیں فراموش بھی کر دیا گیا!مفسرین قرآن نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق قرآن مجید کی مختلف آیتوں کے عجیب وغریب باریکیوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔آپ ان تفا سیر کی طرف رجوع کر کے اس حقیقت سے آگاہ ہو سکتے ہیں ۔قرآن مجید سے آشنائی اور معرفت حاصل ہو نے پر معلوم ہو گا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مندرجہ ذیل کلام میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں ہے:”ظاھرہ انیق وبا طنہ عمیق لاتحصی عجائب ولا تبلی غرائبہ۔””قرآن مجید کا ظاہر خوش آئند اور زیبا ہے اور اس کا باطن گہرا اور عمیق ہے۔اس کے عجائب ناقابل شمار اور اس کے غرائب ناقابل زوال ہیں۔”مکتب قرآن کے سب سے بڑے شاگرد امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں نہج البلاغہ میں فر ماتے ہیں:”فیہ ربیع القلب وینا بیع العلم وما للقلب جلاء غیرہ””قرآن مجید دلوں کے لئے بہار ہے ،اس سے علم و دانش کے چشمے ابلتے ہیں اور انسان کے قلب و روح کو جلا بخشنے والا صیقل اس کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔”
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.