انسان کا خدا سے رشتہ و تعلق
:الابذکر اللّٰہ تطمئن القلوب( سورہ رعد‘ آیت ۲۸)انسان خدا سے انسیت اور الفت رکھتا ہے‘ بلکہ تمام موجودات اس کو چاہتے ہیں اور اسی کو پکارتے ہیں۔ تمام موجودات عالم اپنے اپنے وجود کی گہرائی سے اس کے ساتھ رازدارانہ رابطہ اور تعلق رکھتے ہیں‘ اس کی حمد بجا لاتے ہیں اور اس کی تسبیح کرتے ہیں:ان من شئی الا یسبح بحمدہ و لکن لا تفقہون تسبیحھم( سورہ اسراء‘ آیت ۴۴)فلسفیوں کا خدا جس کو وہ لوگ صرف محرک اول اور واجب الوجود کے نام سے پہچانتے ہیں اور بس ایک ایسا موجود ہے‘ جو بشر سے بالکل بیگانہ ہے‘ جس نے انسان کو صرف پیدا کر دیا ہے اور اسے دنیا میں بھیج دیا ہے‘ لیکن قرآن کا خدا ایک “مطلوب” ہے‘ انسان کی دلبستگی کا سرمایہ ہے‘ وہ انسان کو پرجوش بناتا اور ایثار و قربانی پر آمادہ کرتا ہے‘ کبھی کبھی تو اس کی رات کی نیند اور دن کے سکون کو بھی چھین لیتا ہے کیوں کہ وہ ایک غیر معمولی مقدس خیال و تصور کی صورت میں مجسم ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔مسلمان فلاسفہ نے قرآن سے آشنا ہونے اور قرآنی مفاہیم و مطالب کو پیش کرنے کے نتیجے میں الٰہیات کی بحث کو اس عروج پر پہنچا دیا ہے۔ کیا یہ بات ممکن ہے کہ ایک اُمّی اور ناخواندہ شخص جس نے نہ تو کسی استاد کے پاس تعلیم حاصل کی اور نہ کسی مکتب میں گیا ہو‘ اس حد تک الٰہیات میں ترقی کر جائے کہ افلاطون اور ارسطو جیسے فلاسفہ سے ہزاروں سال آگے بڑھ جائے؟
قرآن‘ تورات اور انجیلقرآن نے تورات و انجیل کی تصدیق کی ہے‘ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ان کتابوں میں تحریف کی گئی ہے اور خائنوں کے ہاتھ ان کتابوں کی تحریف میں ملوث ہیں‘ قرآن نے الٰہیات‘ پیغمبروں کے واقعات اور چند دوسرے قواعد و ضوابط اور معینہ امور کے بارے میں ان دونوں کتابوں کی غلطیوں کی اصلاح اور تصحیح کی ہے‘ جس کا ایک نمونہ تو وہی تھا کہ جس کا تذکرہ شجرہ ممنوعہ اور خطائے آدم کے بارے میں ہم پہلے کر چکے ہیں۔ قرآن نے خدا کو ایسی چیزوں سے جیسے کشتی لڑنا اور پیغمبروں کو نامناسب باتوں کی طرف منسوب ہونے سے جو گذشتہ کتابوں میں ذکر کی گئی ہیں‘ پاک و منزہ قرار دیا ہے اور یہ خود اس کتاب کی حقانیت کی ایک دلیل ہے۔
تاریخی واقعات اور قصےقرآن مجید نے ایسے تاریخی واقعات اور قصے بیان کئے ہیں کہ اس زمانے کے لوگ ان کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے تھے‘ خود پیغمبر بھی ان سے لاعلم تھے:ماکنت تعلمھا انت ولاقومک( سورہ ہود‘ آیت ۴۹)”انہیں نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم ہی جانتی تھی۔”اور عرب کے تمام لوگوں میں سے کوئی ایک شخص بھی اس کا مدعی نہیں ہوا کہ ہم ان قصوں کو جانتے ہیں۔قرآن نے ان قصوں کو بیان کرنے میں توریت و انجیل کی پیروی نہیں کی ہے‘ البتہ ان کی اصلاح ضرور کر دی ہے‘ قوم سبا‘ قوم ثمود وغیرہ کے بارے میں عصر جدید کے مورخین کی تحقیقات بھی قرآنی نظریے کی تائید کرتی ہیں۔
قرآن اور اس کی پیشین گوئیاںقرآن مجید نے جس وقت ۶۱۵ میں ایران نے روم کو شکست دی اور یہ امر قریش کی مسرت و خوشی کا باعث ہوا‘ تو پورے یقین و اعتماد کے ساتھ کہا کہ دس سال کے نہایت قلیل عرصے میں روم ایران کو شکست دے دے گا‘ اس واقعہ کے بارے میں بعض مسلمانوں اور بعض کافروں کے درمیان مشروط بندی ہو گئی۔ بعد میں ویسا ہی ہوا جیسا کہ قرآن نے خبر دی تھی‘ اسی طرح قرآن نے پورے قطع و یقین کے ساتھ خبر دی کہ جو شخص پیغمبر اکرم کو ابتر (مقطوع النسل) کہتا ہے‘ وہ خود ہی مقطوع النسل ہے۔ اس وقت وہ شخص جس کے کئی بیٹے تھے‘ صرف دو تین نسلوں کے اندر تدریجاً بالکل ختم ہو گئے۔ یہ ساری باتیں اس کتاب میں معجزہ ہونے کا پتہ دیتی ہیں‘ قرآن میں اور بھی علمی و معنوی معجزات موجود ہیں‘ جو فلسفی‘ طبیعی اور تاریخی علوم سے مربوط ہیں۔