کربلا حيات بخش کيوں ہيں؟

178

ہم سب سيدالشہداء عليہ السلام کے شيدائي ہيں اور اپنے دل کي اتہاہ ميں ان سب سوالات کا جواب جانتے ہيں گوکہ شايد ہم اسے اپني زبان پرنہ لاسکيں؛ گويا ہم سب کے دلوں ميں ايک غيرمکتوب ميثاق لکھي گئي ہے جو دل کي آگ کو ہر وقت جلائے رکھتي ہے- ہم سب اس عظيم اور مثالي رزميہ واقعے پر پس پردہ عظيم روح کا ادراک رکھتے ہيں اور يہي روح، شيعيان آل محمد (ص) ميں ظلم کے خلاف جدوجہد کا جذبہ برقرار رکھتي ہے اور اس کے باوجود کہ ہم تاريخ کے تمام مرحلوں ميں اقليت سمجھے جاتے رہے ہيں ليکن ہميشہ زندہ اور با استقامت رہے ہيں-ليکن يہ سوال اپني جگہ برقرار ہے کہ واقعۂ کربلا ميں ايسا کونسا مشن اور ہدف مضمر ہے؟ اس سوال کا جواب کتنا اہم ہے؟ کيا ضروري ہے کہ ہم اپنے لئے اس ميثاق، مشن اور اس کے ہدف کي تشريح کريں؟ اس بات کي کيا ضرورت ہے کہ ہم عاشورا کے ہدف سے واقفيت حاصل کريں؟ اگر ہم اس قيام کا ہدف نہ سمجھيں تو کيا يہ ممکن نہيں ہے کہ رفتہ رفتہ اس کے پيغام کے ادراک سے عاجز ہوجائيں اور اس اس کے عظيم اور خوبصورت مشن کو روزمرہ کي عادات و معمولات کے قبرستان ميں دفن کرديں؟ اگر ايسا ہوا تو کيا “ہم حق کے راستے سے منحرف نہيں ہوئے ہيں؟مسلمہ امر ہے کہ کربلا کا کارنامہ گہرے اور مسلسل تأثيرات مرتب کرتا رہا ہے اور آج بھي مرتب کررہا ہے اور ان نعمتوں سے فائدہ لينا کربلا کے مشن کي معرفت اور ميثاق عاشورا کي پابندي پر منحصر ہے-شہيد سيد مرتضي آويني کے دور انديشوں کے پيش خدمتان، يزيديوں، کا گماں يہ تھا کہ سيدالشہداء کي صدائے “ہل من ناصر” کربلا ميں دفن ہوجائے گي اور اس کا کوئي اثر باقي نہيں رہ سکے گا، وہ غافل تھے اس حقيقت سے کہ ہر مۆمن کي مٹي خاک کربلا اور شہداء کے خون ميں گوندھي گئي ہے اور جب تک شب و روز باقي ہے، يہ تاريخي رشتہ ـ جو مۆمنين کو عاشورا سے متصل کرديتا ہے ـ فطرتوں کي اتہاہ گہرائيوں ميں بيدار اور زندہ رہے گا، اور ہر اس انسان کو جو اپنے باطن کي صدا سنتا ہے، صحرائے کربلا کي طرف ہدايت کرے گا،اور انسان اگر انسان ہو اور اپنے وجدان اور ضمير کي طرف رجوع کرے، سيدالشہداء کي ندا ضرور سنے گا جو اس کو اس کي فطرت کي ميثاق گوش گذار کراتي ہے- يہ ميثاق جو ايک ازلي ميثاق ہے، ہر آن اور ہر لمحہ مۆمن کے باطن ميں تجديد ہوتي رہتي ہے-مجھے فاش کہنے ديجئے کہ وہ جو مسجود ملائکہ ہے، وہ حسين (ع) ہے، اور ملائکہ نے آدم (ع) کو سجدہ کيا کيونکہ وہ حسين (ع) کي خلقت کا واسطہ ہيں اور يہ سجدہ ازلي ہے؛ وہ ميزان حق، جو ابليس کو ہانک ديتا ہے، يعني يہ کہ غالَم کي فطرت حسين (ع) کي محبت اور ان کي ولايت پر شہادت ديتي ہے اور “أَلَسْتَ بِرَبِّكُمْ قَالُواْ بَلَى” (1)، عہد ہے جو خالق نے بني آدم سے حب حسين پر ليا ہے-علم کا پيمان ايک کربلائي پيمان ہے اور جس نے يہ پيمان خدا کے ساتھ باندھ ليا، وہ وہي ہے جو مدرسۂ ميں درس فقہ پڑھتا ہے اور محاذ جنگ پر درس عشق، اور قُربَۃً الي اللہ دونوں درسوں ميں با وضو ہوکر وارد ہوتا ہے اور ان دونوں کو کفر و شرک کے خلاف محاذ جنگ سمحھتا ہے، اور جانتا ہے کہ يہ راستہ شہادت کا راستہ ہے-خداوند متعال نے انسان کي اخروي فلاح “خود” اور “خود سے وابستہ امور” سے گذرنے ميں قرار دي ہے اور اس امر کي مثال اور اس کا نمونہ کربلا ہے، جہاں سيدالشہداء (ع) نے جان کي قيمت پر اپنے اور اپنے اصحاب و خاندان کے لئے جانگداز مشقتيں اور مصيبتيں خريد ليں، ہم سب پر فرض ہے کہ سيدالشہداء کي پيروي کريں، اور يہ امت حقيقۃً کربلائي ہے- ہماري ساري کوششوں اور محنتوں کے بطن ميں کربلا کا مشن مضمر ہے، اور انقلاب اسلامي کي کاميابي سے لے کر آج تک، کوئي ايک لمحہ بھي ہم پر ايسا نہيں گذرا ہے جس کو ہم نے کربلا کي کسوٹي پر نہ پرکھا ہو، اور ہماري استقامت کا راز بھي اسي حقيقت ميں ہے- [جنگ کے زمانے ميں] کربلا کو فتح کرنے کا ہدف بجائے اس کے ايک فوجي ہدف ہو، ايک اعتقادي ہدف تھا جو ہمارا راستہ روشن کيا کرتا تھا اور محاذ پر لڑنے والے اگرچہ کربلا کو بظاہر فتح نہ کرسکے، ليکن اس کو باطن کو فتح کرليا- عالم کي خلقت کي غايت اور اس کا ہدف ايسے انسانوں کو پروان چڑھانا ہے حو سختيوں کے مقابلے ميں خوف و ہراس اور شک و تردد اور دنياوي وابستگيوں پر غلبہ پاسکيں اور حسيني ہوجائيں-حبّ الحسين)ع(کسي نے کہا تھا کہ “نہ جانے يہ لوگ حسين (ع) چاہتے کيا ہيں”- انسان جب تک حسيني نہ ہو وہ نہيں جانتا کہ وہ حسين (ع) سے کيا چاہتے ہيں؛ اور حسيني بھي اپنا راز نامحرموں کو نہيں بتاتا: نامحرم کا کان پيغام سروش کے لئے نہيں ہےزميني سفر ميں پير زخمي ہوجاتے ہيں اور آسماني سفر ميں دل- جو دل ياد حسين (ع) ميں نہ روئے بے شک وہ دل نہيں ہے، سخت اور بے لچک پتھر ہے اور نور کيونکر سخت پتھر پر اثر کر سکے گا؟ہم امام حسين (ع) سے کيا چاہتے ہيں؟ ہمارے اور امام حسين (ع) کے درميان کونسا راز ہے؟ “حب الحسين(ع)”، کيا آپ نے کبھي اس راز کے بارے ميں سوچا ہے؟ حب الحسين (ع)ہم امام حسين عليہ السلام سے کيا چاہتے ہيں؟ ہمارے اور امام حسين (ع) کے درميان کيا راز ہے؟ ہمارے عقيدے ميں حب الحسين)ع( کا مقام کيا ہے؟امام صادق عليہ السلام سے پوچھا جاتا ہے اور آپ (ع) جواب ديتے ہيں: “ل الدين الا الحبّ و البغض؟” [کيا دين حب و بغض کے سوا کسي اور چيز کا نام ہے؟] يہ جواب انکاري استفہام کي صورت ميں دوستيوں اور دشمنيوں کي اہميت کي مقدار بتانا چاہتا ہے، حتي کہ دين کو حب و بغض اور دوستيوں اور دشمنيوں کا مجموعہ قرار ديتا ہے- اگر محبت سچي ہو تو وہ محب کو محبوب کي قربت عطا کرتي ہے اور اس کے اخلاق اور عادات و اطوار کو محبوب کے اخلاق کے مشابہ بنا ديتي ہے-چونکہ حب اور جذبات کا تعلق عقل و منطق کي نسبت، دل سے قريب تر ہے، عقلي منفعتوں منجملہ ضروريات اور لوازمات دين کو متأثر کر سکتا ہے يا ان کو تقويت پہنچا سکتا يا پھر انہيں کمزور کرسکتا ہے چنانچہ ہميں صراط مستقيم پر استوار رکھنے کے لئے دوستيوں اور دشمنيوں ميں بھي احتياط برتني پڑتي ہے اور حب و بغض کے اثرات کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے، عين ممکن ہے کہ ايک چھوٹي سي غلطي عظيم ترين نقصانات کا سبب بنے اور قيامت کے دن ہماري “يا وَيْلَتَى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا” کي صدائيں آسمان تک پہنچيں- کسي چيز سے محبت اپنے پاس عطر رکھنے کي مانند ہے، ہم چاہيں يا نہ چاہيں اس کي خوشبو محسوس اور اس کا اثر ہمارے اوپر مرتب ہوتا ہے- چنانچہ ہمارے اعمال و افعال اس ذات کے اعمال سے مطابقت نہ رکھتے ہوں اور اسي کے اعمال کے تسلسل ميں انجام نہ پائيں ہميں جان لينا چاہئے کہ ہماري محبت ہماري زبان و بيان کي حد سے تجاوز نہيں کرسکي ہے اور درحقيقت اپنے سے جھوٹ بول رہے ہيں-اباعبداللہ (ع) کي محبت کے اثرات و برکات بہت زيادہ ہيں اور جتني يہ محبت صادقانہ اور سچي ہوگي اور اس کي جڑيں جتي گہري ہونگي اس کے مواہب اور برکات بھي زيادہ ہي ہونگي؛ اصولي طور پر تمام معصومين کي محبت اسي خاصيت کي حامل ہے- اہل بيت (ع) کے مقام رفيع کي معرفت کي سطح بلند کرکے ہم اپني محبت کي گہرائي اور عمق ميں بھي اضافہ کرسکتے ہيں اور اس کو زيادہ سے زيادہ وسعت دے سکتے ہيں اور اس محبت کي کثير برکتوں سے بہرہ مند ہوسکتے ہيں-
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.