شیخ محمد ابن عبد الوھاب، وھابی فرقہ كا بانی
شیخ محمد بن عبد الوھاب1115ھ میں” عُیَیْنَہ” شھر(نجد كے علاقہ)میں پیدا هوا، اس كے باپ شھر كے قاضی تھے، محمد بن عبد الوھاب بچپن ھی سے تفسیر، حدیث، اور عقائد كی كتابوں سے بھت زیادہ لگاؤ ركھتا تھا، چنانچہ حنبلی فقہ كی تعلیم اپنے باپ سے حاصل كی،كیونكہ اس كے باپ حنبلی علماء میں سے تھے، وہ اپنی جوانی كے عالم سے اھل نجد كے بھت سے كاموں كو برا سمجھتا تھا،جب وہ مكہ معظمہ حج كرنے كے لئے گیا، تومناسك حج بجالانے كے بعد مدینہ بھی گیا، 241جب وھاں اس نے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے روضہ كے پاس لوگوں كو استغاثہ كرتے هوئے دیكھا تو اس نے لوگوں كو اس سے منع كیا، اس كے بعد وھاںسے نجد پلٹ آیا اور وھاں سے شام جانے كے قصد سے بصرہ گیا، لیكن بعض وجوھات كی بنا پر ایك مدت تك بصرہ میں ھی قیام كیا اس دوران وھاں كے لوگوں كے بھت سے اعمال كی مخالفت كرتارھا، لیكن لوگوں نے اس كو پریشان كرنا شروع كیا یھاں تك كہ اس كو گرمی كی ایك سخت دوپھرمیںاپنے شھر سے باھر نكال دیا۔بصرہ اور شھر زُبَیر كے درمیان گرمی او رپیاس اور پیدل چلنے كی وجہ سے موت سے نزدیك تھا كہ ھلاك هو جاتا كہ اُدھر سے زبیر شھر كے ایك شخص كا گذر هوا، اس نے محمد بن عبد الوھاب كو عالموں كے لباس میں دیكھ كر اس كی جان بچانے كی كوشش كی اور اس كو پانی پلایا، اور اس كو اپنے گدھے پر بٹھا كر اپنے شھر لے گیا، اس كے بعد وہ شام جانا چاھتا تھا لیكن چونكہ شام تك جانے كے لئے زادِ راہ كافی نہ تھا لہٰذا اپنے ارادہ كو بدل كر اَحساء جاپهونچا، اور پھر وھاںسے نجد كے شھر “حُرَیْمَلِہ” چلا گیا۔اسی اثنا میں (1139ھ) اس كے باپ عبد الوھاب بھی عیینہ سے حریملہ پهونچ گئے، وھاںمحمد بن عبد الوھاب نے اپنے باپ سے پھركچھ كتابیں پڑھیں، اس دوران نجد كے لوگوں كے عقائد كے خلاف بولنا شروع كیا جس كی بناپر باپ او ربیٹے میں لڑائی جھگڑے هونے لگے، اسی طرح اس كے اور اھل نجد كے درمیان اختلاف اور جھگڑے هوتے رھے، یہ سلسلہ چند سال تك چلتا رھا، 1153ھ میں اس كے باپ شیخ عبد الوھاب كا انتقال هوگیا۔ 242
شیخ محمد بن عبد الوھاب كا ایران كا سفرفارسی زبان میں سب سے پرانی كتاب جس میں محمد بن عبد الوھاب اور وھابیوںكے عقائد كے بارے میں تذكرہ ملتا ھے تحفة العالم تالیف عبد اللطیف ششتری ھے، جس كی ھم اصل عبارت بھیذكر كریںگے، مذكورہ كتاب میں شیخ محمد بن عبد الوھاب كے اصفھان كے سفر كے بارے میں سفر كا تذكرہ موجود ھے۔ایك دوسری كتاب بنام “مآثر سلطانیہ” تالیف عبد الرزاق دُنبلی ھے، جس میں محمد بن عبد الوھاب كے كافی عرصہ تك اصفھان میں رہنے كا تذكرہ ملتا ھے اور اس شھر كے مدارس میں رہ كر اس كے اصول اور صرف ونحو كی تعلیم حاصل كرنے كا تذكرہ موجود ھے جس كا خلاصہ اسی كتاب كے پانچویں باب میں بیان كیا جائے گا۔میرزا ابوطالب اصفھانی جو محمد بن عبد الوھاب كے تقریباً ھم عصر تھے وہ بھی اس كے اصفھان میں تحصیل علم وحكمت كرنے كے بارے میں لكھتے ھیں اور عراق و خراسان كے اكثر شھروں یھاں تك كہ غزنین كی سرحد تك كے سفر كے بارے میں بھی لكھا ھے، اس كی تفصیل بھی پانچویں باب میں بیان هوگی، انشاء اللہ تعالیٰ۔اسی طرح كتاب ناسخ التواریخ جلد قاجاریہ ھے جس میں كربلا معلی پر وھابیوں كے حملہ كو1216ھ (فتح علی شاہ كی بادشاھت كے زمانہ میں) تفصیل سے بیان كیا ھے، مذكورہ كتاب میں محمد بن عبد الوھاب كے بارے میں یوں لكھا ھے كہ عبد الوھاب (صحیح نام محمد بن عبد الوھاب)عرب كے دیھاتی علاقہ كا رہنے والا تھا اور اس نے بصرہ كا سفر كیا اور وھاں محمد243 نامی ایك عالم دین سے ایك مدت تك تحصیل علم كیا، اور اس كے بعد وھاں سے ایران كا سفر كیا اور اصفھان میں قیام كیا اور وھاں كے علماء سے علم نحو وصرف اور اصول وفقہ میں مھارت حاصل كی اور شرعی مسائل میں اجتھاد شروع كیا اوراصول دین اور فروع دین میں اپنا اجتھاد اس طرح بیان كیا كہ خدائے وحدہ لاشریك نے انبیاء اور رُسل بھیجے اور آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قرآن لے كر آئے اور اپنا دین پیش كیا اور آپ كے بعد تمام خلیفہ مجتہد تھے، مجتہدین كتاب خدا سے شرعی مسائل كو اخذ كرتے ھیں اس نے بھت سی چیزوں كوبدعت قرار دیامنجملہ ان كے ائمہ كی قبور پر قبہ بنوانااور ان كو زر وسیم سے مزین كرنا، اور متبرك قبروں پر نفیس اور قیمتی چیزوں كو وقف كرنا، مرقدوں كا طواف كرنا اور ان كو چومنا وغیرہ كو شرك سمجھا اور ان جیسے كام كرنے والوں كا بت پرست كا نام دیا، وغیرہ وغیرہ ۔ 244امریكن رائیٹر “لوٹروپ اسٹووارڈ ” نے بھی محمد بن عبد الوھاب كے ایران سفر كے بارے میں لكھا ھے۔ 245جناب احمد امین صاحب كسی مدرك اورمآخذ كاذكر كئے بغیر اس طرح كھتے ھیں: شیخ محمد بن عبد الوھاب نے بھت سے اسلامی ممالك كا سفر كیا اور تقریباً چار سال تك بصرہ میں، پانچ سال بغداد میں، ایك سال كردستان میں اور دوسال ھمدان میں قیام كیا، اور اس كے بعد اصفھان گیا، اور وھاں پر فلسفہ اشراق اور صوفیت كی تعلیم حاصل كی، وہ وھاں سے قم بھی گیا اور وھاں سے اپنے ملك واپس چلا گیا اور تقریباً آٹھ مھینے تك لوگوں سے دور رھا اور جب ظاھر هوا تو اپنا جدید نظریہ لوگوں كے سامنے پیش كیا۔ 246
دعوت كا اظھارشیخ محمد بن عبد الوھاب نے اپنے باپ كے مرنے كے بعد اپنے عقائد كو ظاھر كرنا شروع كردیا اور لوگوں كے بھت سے اعمال كو ممنوع قرار دینے لگا، “حُرِیْمَلِہ” كے كچھ لوگو ں نے اس كی پیروی كرنا شروع كردی اور یہ اسے شھرت ملنے لگی شھر حریملہ كے دو مشهور قبیلے تھے جن میں سے ھر ایك كا دعویٰ یہ تھا كہ ھم رئیس ھیں، ان میں سے ایك قبیلہ كا نام حَمیان تھا ان كے پاس ایسے غلام تھے جو فحشاء ومنكر اور فسق وفجور میں مرتكب رھا كرتے تھے۔چنانچہ شیخ محمد بن عبد الوھاب نے ان كو امر بالمعروف اور نھی عن المنكر كرنا چاھا، لیكن جیسے ھی ان كو پتہ چلا تو انھوں نے یہ طے كرلیا كہ آج رات میں مخفی طریقہ سے شیخ محمد بن عبد الوھاب كو قتل كردیا جائے یھاںتك كہ اسی پروگرام كے تحت ایك دیوار كے پیچھے چھپے هوئے تھے كہ اچانك بعض لوگوں كو ان غلاموں كے پروگرام كا پتہ چل گیااور انھوں نے شور مچانا شروع كردیا جس كی بناپر غلاموں كو مجبوراً بھاگنا پڑا، اور شیخ محمد بن عبد الوھاب كی جان بچ گئی، اس كے بعد شیخ محمد بن عبد الوھاب حریملہ سےشھر “عیینہ” چلا گیا، اس وقت شھر عیینہ كا رئیس عثمان بن حمد بن معمر نامی شخص تھا عثمان نے شیخ كو قبول كرلیا اور اس كا احترام كیا اور اس كی نصرت ومدد كرنے كا فیصلہ كرلیا،اس كے مقابلہ میں شیخ محمد بن عبد الوھاب نے بھی یہ امید دلائی كہ تمام نجد پر غلبہ حاصل كركے سب كو اس كا مطیعبنادے گا۔شیخ محمد بن عبد الوھاب نے اس كے بعد سے (اپنے عقیدہ كے مطابق) امر بالمعروف اور نھی عن المنكر پورے زور وشور سے كرنا شروع كردیا، اور لوگوں كے ناپسند اعمال پر شدت سے اعتراض كرنے لگا، شھر عیینہ كے لوگوں نے بھی اس كی پیروی كرنا شروع كردی، اس نے حكم دیا كہ وہ درخت جن كو لوگ احترام كی نظر سے دیكھتے ھیں كاٹ دیئے جائےں چنانچہ ایسے سبھی درختوں كو كاٹ دیا گیا اور اسی طرح زید بن الخطاب كی قبر پر بنے گنبد اور عمارت كو گرا دیا گیا۔ 247زید كی قبر جبلیہ میں (عیینہ كے نزدیك) تھی شیخ محمد بن عبد الوھاب نے عثمان سے كھا كہ آوٴ زید كی قبر اور اس كے گنبد كو گراتے ھیں تو اس موقع پر عثمان نے كھا آپ جو كچھ كرنا چاھیں كریں، ویران كردیں، اس پر شیخ محمد بن عبد الوھاب نے عثمان سے كھا ھم اس وقت اس كی قبر كو منہدم كرسكتے ھیں كہ جب تم ھماری مدد كرو۔عثمان نے 600افراد كو اس كے ساتھ بھیج دیا جب یہ لوگ وھاں پہنچے تو جبلیہ شھر كے لوگوں نے ممانعت كرنا چاھی لیكن چونكہ عثمان كے مقابلہ میں جنگ نھیں كرسكتے تھے لہٰذا پیچھے ہٹ گئے، عثمان نے شیخ سے كھا میں قبر كو توڑنے میں ھاتھ نھیں لگاؤنگا، تو اس موقع پر شیخ محمد بن عبد الوھاب خود آگے بڑھااور تبر كے ذریعہ قبر كو ڈھا كر زمین كے برابر كردیا۔اسی دوران ایك عورت شیخ كے پاس آئی اور اعتراف كیا كہ اس نے زنا محصنہ (شوھر دار عورت كا زنا)كیا ھے، شیخ محمد بن عبد الوھاب نے اس كی عقل كو پركھنا شروع كیا تو اس كو صحیح پایا پھر اس عورت سے كھا كہ شاید تجھ پر تجاوز اور ظلم هوا ھے لیكن اس عورت نے پھر اس طریقہ سے اعتراف كیا كہ اس كو سنگ سار كرنے كی سزا ثابت هوتی تھی، چنانچہ شیخ محمد بن عبد الوھاب نے اس كو سنگسار كئے جانے كا حكم صادر كردیا۔ 248
شیخ محمد بن عبد الوھاب سے امیر اَحساء كی مخالفتشیخ محمد بن عبد الوھاب كے عقائداور اس كے نظریات كی خبر سلیمان بن محمد احساء كے حاكم شھر كو پهونچی اس نے عیینہ شھر كے امیر عثمان كو ایك خط لكھا كہ جو شخص تمھارے پاس ھے اس نے جو كچھ كھا یا جو كچھ كیا میرا خط پہنچتے ھی اس كو قتل كردےا جائے اور اگر تو نے یہ كام نہ كیا تو جو خراج احساء سے تیرے لئے بھیجتا هوں اس كو بند كردونگا، جبكہ یہ خراج 1200 سونے كے سكّے اور كچھ كھانے پینے كی چیزوںاور لباس كی شكل میں تھا۔جس وقت امیر احساء كا یہ سخت خط عثمان كے پاس پہنچا وہ اس كی مخالفت نہ كرسكا چنانچہ شیخ محمد بن عبد الوھاب كو اپنے پاس بلایا اور كھا كہ ھم میں اتنی طاقت نھیں ھے كہ امیر احساء كا مقابلہ كرسكیں، شیخ نے اس كو جواب دیا كہ اگر تم میری مدد كروگے تو تمام نجد كے مالك هوجاؤگے! عثمان نے اس سے روگرانی كی اور كھا: احساء كے امیر نے تمھارے قتل كا حكم دیا ھے لیكن میری غیرت گوارا نھیں كرتی كہ میں تمھیں اپنے شھر میں قتل كردوں، تم اس شھر كو چھوڑ دو، اور اس كے بعد فرید ظفری نامی شخص كو معین كیا كہ اس كو عیینہ شھر سے باھر چھوڑدے۔
شیخ محمد اور آل سعود كے درمیان تعلقات كا آغازجس وقت شیخ محمد بن عبد الوھاب كو شھر عیینہ سے باھر نكال دیا گیا، وہوھاں سے دِرْعِیَّہ شھر (نجد كا مشهور شھر)كی طرف چل پڑا ،اور یہ1160ھ كا زمانہ تھا عصر كے وقت وھاں پهونچا اور وھاں عبد اللہ بن سُویلم نامی شخص كے یھاں مھمان هوگیا، اس وقت درعیہ شھر كا حاكم محمد ابن سعود (آل سعود كا دادا) تھا محمد ابن سعود كی بیوی موضیٰ بنت ابی وحطان آل كثیر سے تھی جو بھت زیادہ عقلمند اور هوشمند تھی۔ اور جب یہ عورت شیخ محمد كے حالات سے باخبر هوئی، تو اس نے اپنے شوھر سے یہ كھا كہ اس شخص كو خدا كی طرف سے بھیجی هوئی ایك نعمت اور غنیمت سمجھو جس كو خدا نے ھمارے پاس بھیجا ھے اس كو غنیمت جانو اور اس كا احترام كرو اور اس كی مدد كو غنیمت شمار كرو۔محمد بن سعود نے اپنی بیوی كی پیش كش كو مان لیا چنانچہ عبد اللہ بن سویلم كے گھر شیخ محمد بن عبد الوھاب سے ملاقات كے لئے گیا اور اس كی بھت زیادہ عزت اور تعریف كی، اس نے بھی محمد كو تمام نجد پر غلبہ پانے كی بشارت دی اور حضرت پیغمبراكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ كے اصحاب كی سیرت، امربالمعروف اور نھی عن المنكر نیز راہ خدا میں جھاد كے بارے میں گفتگو كی اور اسی طرح اس كو یادھانی كرائی كہ ھر ایك بدعت 249 گمراھی ھے،اور اھل نجد بھت سی بدعتوں كے مرتكب هوتے ھیں اور ظلم كے مرتكب هوتے ھیں اور اختلافات اور تفرقہ سے دوچار ھیں۔محمد بن سعود نے شیخ محمد بن عبد الوھاب كی باتوں كو اپنے دین اور دنیا كے لئے مصلحت اور غنیمت شمار كیا اور ان سب كو قبول كرلیا، اس نے بھی محمد بن عبد الوھاب كو بشارت دی كہ وہ اس كی ھر ممكن مدد ونصرت كرے گا، اور اس كے مخالفوں سے جھاد كرے گا، لیكن اس كی دوشرط هوگی پھلی یہ كہ جب اس كا كام عروج پاجائے تو شیخ اس سے جدا نہ هو اور كسی دوسرے سے جاكر ملحق نہ هوجائے اور دوسری شرط یہ كہ اس كو یہ حق حاصل هو كہ جو مالیات اور خراج ھر سال شھر درعیہ والوں سے لیتا تھا اس كو لیتا رھے، چنانچہ محمد بن عبد الوھاب نے اس كی پھلی شرط كو مان لیا اور دوسری شرط كے بارے میں كھا :”ھمیں امید ھے كہ خداوندعالم كی مدد سے وہ خراج جو تم وصولتے هو اس سے كھیں زیادہ فتوحات اور غنائم تم كو پهونچیں گی۔اس طرح محمد بن عبد الوھاب اور محمد بن سعود نے ایك دوسرے كی بیعت كی اور یہ طے كرلیا كہ اپنے مخالفوں سے جنگ اور امر بالمعروف ونھی عن المنكر اور (اپنے عقائد كے مطابق)دین كے احكام و عقائد كو نافذ كریں گے، اس كے بعد قرب وجوار كے قبیلوں كے رئیسوں نے بھی ان كی حمایت كی250 “فِلیپ حتّی” و”گلدزیھر ” اور دیگر رائٹروں نے اس بات كو لكھا ھے كہ محمد بن عبد الوھاب نے محمد بن سعود كو اپنا داماد بنالیا251 اور یہ بات طے ھے كہ اگر یہ نئی رشتہ داری صحیح هو تو پھردونوں میں بھت قریبی تعلقات ثابت هوجاتے ھیں۔
عثمان كا پشیمان هونایہ كھا جاتا ھے كہ عثمان بن معمر عیینہ كے حاكم نے جب محمد بن عبد الوھاب كو اپنے شھر سے باھر نكال دیا اور ابن سعود درعیہ شھر كے حاكم نے محمد بن عبد الواھاب كی نصرت اور مدد كی اور ان دونوں كی ملی بھگت عروج پر پهونچنے لگی تو عثمان نے اپنے كئے پر پشیمانی كا اظھار كیا اور یہ كوشش كی كہ محمد بن عبد الوھاب كو دوبارہ اپنے شھر عیینہ میں لے آئے، چنانچہ وہ اپنے كچھ دوستوں كو لے كر درعیہ شھر میں شیخ محمد بن عبد الوھاب كے پاس پہنچا،اور ترغیب دلائی كہ دوبارہ شھر عیینہ واپس چلا آئے لیكن شیخ نے اپنی واپسی كو محمد ابن سعود كی اجازت پر چھوڑ دیا، محمد ابن سعود كسی قیمت پر بھی راضی نھیں هوا، یہ دیكھ كر عثمان اپنے وطن لوٹ آیا درحالیكہ بھت پریشان اور خوفزدہ تھا۔
محمد بن عبد الوھاب كا درعیہ كے لوگوں میں موثر هوناجس وقت محمد بن عبد الوھاب درعیہ میں آیا اور محمد ابن سعود سے مل گیا اس وقت درعیہ شھر كے لوگ اتنے غریب اور حاجت مند هوتے تھے كہ اپنے كھانے كے لئے ھر روز كام كے لئے جاتے تھے تاكہ اپنے روازنہ كا خرچ پورا كرسكیں اور اس كے بعد شیخ كے جلسہ میں وعظ ونصیحت سننے كے لئے حاضر هوا كرتے تھے۔ابن بشر نجدی یوں رقمطراز ھے كہ میں نے شھر درعیہ كو اس تاریخ كے بعدسعود كے زمانہ میں دیكھا ھے اس زمانہ میں لوگوں كے پاس بھت زیادہ مال ودولت تھی اور ان كے اسلحے بھی زروسیم سے مزین هوتے تھے اور بھتر ین سواری هوتی تھی، نیز بھترین كپڑے پہنتے تھے خلاصہ یہ كہ ان كے پاس زندگی كے تمام وسائل اور سامان تھے ۔میں ایك روز وھاں كے بازار میں تھا میں نے دیكھا كہ ایك طرف مرد ھیں اور دوسری طرف عورتیں، اس بازار میں سونا چاندی، اسلحہ، اونٹ، گھوڑے، گوسفند، بھترین كپڑے، گوشت گندم اور دوسری كھانے پینے كی چیزیں اتنی زیادہ تھیں كہ زبان ان كی توصیف بیان كرنے سے قاصر ھے، تاحد نظر بازار تھا، میں خریداروں اور بیچنے والوں كی آواز كی گونج شہد كی مكھیوں كی طرح سن رھا تھا، كوئی كھتا تھا :میں نے بیچا، تو كوئی كھتا تھا:میں نے خریدا۔ 252البتہ ابن بشر نے اس بات كی وضاحت نھیں كی كہ یہ اتنی مال ودولت كھاں سے آئی؟! لیكن جیسا كہ تاریخ كے سیاق سے معلوم هوتا ھے كہ اس مال ودولت كا عظیم حصہ ان مختلف شھروں پر حملہ كركے ان كے اموال كو غنیمت كے طور پر لوٹ لینے كی بناپر تھا كیونكہ خود ابن بشر سعود بن عبد العزیز (متوفی1229ھ) كے حالات زندگی كے بارے میں كھتا ھے كہ جب وہ دوسرے شھروں پر حملہ كرتا تھا تو صرف نابالغ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں كو چھوڑتا تھا بقیہ سب كو تہہ تیغ كردیتا تھا اور ان كے تمام مال ودولت كو لوٹ لیتا تھا۔ 253
شیخ محمد اور شریف مكہ1185ھ میں امیر عبد العزیز 254 اور محمد بن عبد الوھاب نے شیخ عبد العزیز حصینی كے ذریعہ كچھ تحفے امیر مكہ شریف احمد بن سعید كی خدمت میں بھیجے ۔ شریف احمد نے امیر نجد سے كھا كہ پھلے علماء نجد میں سے كسی كو ھمارے پاس بھیجو تاكہ ھمیں یہ معلوم هوجائے كہ نجدیوں كے عقائد كیا ھیں؟شیخ عبد العزیز جب مكہ پہنچا تو اس نے مكی علماء سے بعض مسائل میںبحث كی۔ابن غَنّام، نجدی مورخ كھتا ھے كہ اس مناظرہ اور بحث میں حنبلیوں كی كتابیں لائی گئیں اور مكی علماء مطمئن هوگئے كہ نجدیوں كا طریقہ كار قبور اور ان كے گنبدوں كے گرانے، لوگوں كو صالحین سے دعا اور شفاعت طلب كرنے سے روكنے كے بارے میں صحیح ھے، یہ سب دیكھ كر شیخ عبد العزیز كو باكمال احترام نجد واپس بھیج دیا گیا۔1204ھ میں امیر عبد العزیز اور شیخ محمد بن عبد الوھاب نے شریف غالب كی درخواست كے مطابق دوبارہ شیخ عبد العزیز حصینی كو مكہ بھیجا، لیكن اس مرتبہ مكہ كے علماء اس سے بحث كرنے كے لئے تیار نھیں هوئے۔ابن غنام نجدی كھتا ھے كہ شریف غالب نے نجدیوں كی دعوت اور ان كے عقائد كو قبول كرلیا، ممكن ھے یہ ایك تظاھر اور دكھاوا هو، تاكہ اس طرح سے وہ نجدیوں كے جنگ كرنے اور ا ن كی دعوت كو ختم كرنے كے اپنے ارادہ كو مخفی ركھ سكے۔اس سلسلہ میںسید دَحلان كھتے ھیں كہ امیر نجد نے شریف مسعود كے زمانہ میں حج كرنے كی اجازت مانگی، كیونكہ اس نے اس سے پھلے نجد كے 30 علماء كو مكہ معظمہ بھیجا تھا اور شریف مسعود سے درخواست كی تھی كہ علماء حرمین شریفین كا نجدی علماء سے مناظرہ كرائے لیكن شریف مسعود نے قاضی شرع كو حكم دیا كہ نجدیوں كے كفر كا فتویٰ صادر كردے اور پھر حكم دیا كہ ان نجدی علماء كو قید خانے میں ڈال كر ان كے پیروں میں زنجیر ڈالدی جائے۔ چنانچہ اسی طرح كے واقعات كافی عرصہ تك هوتے رھے۔ 255
شیخ محمد بن عبد الوھاب كی سیرت اور اس كا طریقہ كاراس سلسلہ میں ابن بشر كھتا ھے كہ جس وقت محمد بن عبد الوھاب نے درعیہ شھر كو اپنا وطن قرار دیا اس وقت اس شھر كے بھت سے لوگ جاھل تھے اور نماز وزكوٰة كے سلسلہ میں لاپرواھی كرتے تھے، نیز اسلامی مراسم كے انجام دینے میں كوتاھی كرتے تھے، چنانچہ شیخ محمد بن عبد الوھاب نے سب سے پھلے ان كو “لا الہ الا اللّٰہ” كے معنی سكھائے كہ اس كلمے میں نفی بھی ھے اور اثبات بھی اس كا پھلا حصہ (لاالہ) تمام معبودوں كی نفی كرتا ھے اور اس كا دوسرا حصہ (الا اللہ) خدائے وحدہ لاشریك كی عبادت كو ثابت كرتا ھے، اس كے بعد شیخ محمد بن عبد الوھاب نے ان كو ایسے اصول بتائے جن كے ذریعہ سے خدا كے وجود پر دلیل حاصل هوجائے مثلاً چاند وسورج، ستاروںاور دن رات كے ذریعہ خدا كو سمجھا جاسكتا ھے، اور ان كو یہ بتایا كہ اسلام كے معنی خدا كے سامنے تسلیم هونے، اور اس كی منع كردہ چیزوں سےاجتناب كرنے كے ھیں، اسی طرح ان كو اسلام كے اركان بتائے اور یہ بتایا كہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا نام اور نسب كیا ھے، اور بعثت او رہجرت كی كیفیت بتائی اور یہ بتایا كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی سب سے پھلی دعوت كلمہ “لا الہ الا اللّٰہ”تھا اور اسی طرح بعث اور قیامت كے معنی لوگوں كو بتائے اور مخلوق خداچاھے جو بھی هو، سے استغاثہ كرنے كی ممانعت میں بھت مبالغہ كیا۔شیخ محمد بن عبد الوھاب نے اس كے بعد نجد كے رؤساء اور قاضیوں كو خط لكھا اور اس میں لكھا كہ اس كی اطاعت كریں اور اس كے مطیع وفرمانبردار بن جائیں، جس كے جواب میں بعض لوگوں نے قبول كرلیا اور بعض نے اس كی اطاعت كرنے سے انكار كردیا اور شیخ كی دعوت كا مذاق اڑایا اور اس پر الزام لگایا كہ شیخ تو جاھل ھے اور معرفت بھی نھیں ركھتا، بعض لوگوں نے اس كو جادو گر بتایا جبكہ بعض لوگوں نے اس پر بری بری تھمتیں بھی لگائیں۔شیخ محمد بن عبد الوھاب نے اھل درعیہ كو جنگ كا حكم دیدیا جنھوں نے كئی مرتبہ اھل نجد سے جنگ كی، یھاں تك كہ ان كو شیخ كی اطاعت پر مجبور كردیا، اور آل سعود، نجد اور اس كے قبیلوں پر غالب آگیا۔محمد بن عبد الوھاب كاغنائم جنگی كو تقسیم كرنے كا طریقہ یہ تھا كہ وہ خود جس طرح چاھتا تھا انجام دیتا تھا اور اس كو خرچ كرتا تھا كبھی كبھی بھت سارا مال جو غنائم جنگی میں ملتا تھا اس كو صرف دو یا تین لوگوں میں تقسیم دیتا تھا، كیونكہ جتنے بھی جنگی غنائم هوتے تھے وہ شیخ كے پاس رھتے تھے، یھاں تك امیر نجد بھی اس كی اجازت سے ھی ان غنائم میں دخل وتصرف كرتا تھا۔اس كے علاوہ امیر نجد اگر اپنے سپاھیوں كو مسلح كرنا چاھتا تھا اور اس سلسلہ میں كوئی بھی قدم اٹھانا چاھتا تھا وہ سب كچھ شیخ محمد بن عبد الوھاب كی اجازت سے كیا كرتا تھا۔ 256چنانچہ اس سلسلہ میںآلوسی كھتے ھیں كہ جس طرح نجد كے لوگوں نے محمد بن عبد الوھاب كی اطاعت كی، گذشتہ علماء میں كسی كی بھی اس طرح اطاعت نھیں هوئی، اور واقعاً یہ بات عجیب ھے كہ اس كے مرید آج تك (آلوسی كے زمانہ تك) اس كوچار اماموں(ابوحنیفہ، شافعی، مالك اور احمد ابن حنبل) كی طرح مانتے تھے، اوراگر كسی نے اس كو برا كہدیا تو اس كو قتل كردیتے تھے۔زَینی دحلان كھتے ھیں: محمد بن عبد الوھاب كے كاموں میں سے ایك كام یہ تھا كہ جوشخص بھی اس كی پیروی كا دم بھرتا تھا اس كو ثبوت كے طور پر اپنا سر منڈوانا پڑتا تھا جب كہ یہ كام تو كسی بھی خوارج اور بدعت گذار فرقوں نے انجام نھیں دیا،سید عبد الرحمن اَہدل مفتی زَبِید كھتے ھیں كہ وھابیوں كی ردّ میں كوئی كتاب لكھنے كی ضرورت ھی نھیں ھے بلكہ ان كے لئے یہ حدیث رسول كافی ھے كہ آنحضرت نے فرمایا كہ “سیماھم التحلیق” ۔ اتفاق سے ایك عورت جس كو شیخ كی اطاعت پر مجبور كیا گیا تھا اس نے شیخ محمد بن عبد الوھاب سے كھا كہ تو جب عورتوں كو سرمنڈوارنے پر مجبور كرتا ھے تو پھر مردوں كو بھی اپنی داڑھی منڈوانے پر مجبور كر، كیونكہ عورتوں كے سر كے بال اور مردوں كی داڑھی دونوں زینت هوتے ھیں، شیخ كے پاس اس عورت كے سوال كا كوئی جواب نھیں تھا۔ 257جس وقت محمد بن عبد الوھاب نے لوگوں كو سرنہ منڈوانے پر قتل كرادیاتو اس موقع پر سید مُنعِمی نے اس كی ردّ میں چند اشعار كھے جس كا مطلع یہ ھے:” اَفِی حَلْقِ رَاسِی بِالسَّكَاكِیْنَ وَالْحَدِّحَدِیْثٌ صَحِیْحٌ بِالاٴسْانِیْدِ عَنْ جَدِّیْ؟”(كیا چاقو سے سرمنڈوانے كے بارے میں میرے جد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صحیح اسناد كے ساتھ كوئی حدیث موجود ھے۔ ) 258
شیخ محمد بن عبد الوھاب كا انجامجس وقت محمد بن عبد الوھاب كے مریدوں نے شھر ریاض كو فتح كرلیا اور ان كا ملك وسیع هوگیا اور تقریباً سب جگہ امن وامان برقرار هوگیا اور سبھی سراٹھانے والوں كو اپنا مطیع بنالیا، تو محمد بن عبد الوھاب نے لوگوں كے امور اور غنائم جنگی كو عبد العزیز ابن محمد ابن سعود كے سپرد كردیا اور خود عبادت اور تدریس میں مشغول هوگیا، لیكن پھر بھی عبد العزیز او راس كے باپ محمد نے اس كو نھیں چھوڑا بلكہ تمام كام اس كے صلاح ومشورہ سے كرتے رھے، اور یھی سلسلہ چلتا رھا، یھاںتك كہ1206ھ میں شیخ محمد كا انتقال هوگیا۔محمد بن عبد الوھاب نے بھت سی كتابیں تالیف اور تصنیف كی منجملہ اس كی كتاب توحید، تفسیر قرآن، كتاب كشف الشبھات اور بعض دیگر فقھی فتووں اور اصول كے رسالے ھیں۔ 259مكہ معظمہ میں مكتبہ نہضت اسلامی نے شیخ كی تمام كتابوں كو نشر كیا ھے۔260
چند ملاحظاتشیخ محمد بن عبد الوھاب كے حالات زندگی میں درج ذیل چند مطلب قابل غورھیں:پھلا مطلب:یہ كہ اس نے جدید تعلیم كھاں سے او ركیسے حاصل كی؟ جبكہ اس كا باپ حنبلی علماء میں سے تھا اور اپنے بیٹے كے عقائد كی سخت مخالفت كرتا تھا، اس بناپر اس ماحول میں اس طرح كے نظریات كی جگہ ھی باقی نھیں رھتی،اس وقت نجد میںبھی علمی مركز بھت كم تھے جن میں وہ اس طرح كے نظریات مثلاً ابن تیمیہ كے نظریات كو حاصل كرتا، لہٰذا سوال یہ پیدا هوتا ھے كہ اس طرح كے نظریات اس كے ذہن میں كیسے آئے؟اس سلسلہ میں یہ بات كھی جاسكتی ھے كہ چونكہ وہ بچپن ھی سے كتابیں پڑھنے كا شوقین تھا اور چونكہ اس كا باپ حنبلی عالم تھا لہٰذا اس كے پاس علی القاعدہ گذشتہ حنبلی علماء منجملہ ابن تیمیہ كی كتابیں موجود تھیں، چنانچہ محمد بن عبد الوھاب نے ان كتابوں كا دقت اور غوروفكر كے ساتھ مطالعہ كیا،اور آہستہ آہستہ اس كے ذہن میں اس طرح كے نظریات پیدا هوئے جن كو ھم بعد میں بیان كریں گے۔ 261بھر حال یہ بات مسلّم ھے كہ محمد بن عبد الوھاب كے نظریات ابن تیمیہ كے نظریات سے حاصل شدہ تھے، چنانچہ وھابیوں كے بڑے بڑے علماء اور دوسرے علماء نے بھی اس بات كی تصدیق كی ھے، منجملہ سلطان عبد العزیز بن سعود، نے ذیقعدہ1332ھ میں فرقہ “اخوان” كو ایك خط لكھاھے جس میں اس بات كی طرف اشارہ موجود ھے كہ محمد بن عبد الوھاب نے اسی چیز كو بیان كیا ھے جس كو ابن تیمیہ اور اس كے شاگرد ابن قیم جوزی نے بیان كیا تھا۔ 262اسی طرح حافظ وَھبہ كاكہنا ھے كہ ان دونوں (ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوھاب) كے عقائد اور ان كی خدا كی طرف دعوت میں بھت زیادہ شباھت موجود ھے، اور مصلح نجدی یعنی محمد بن عبد الوھاب كے لئے ابن تیمیہ بھت بڑی سر مشق تھا،263 ان كے علاوہ، دائرة المعارف كے مطابق شیخ محمد بن عبد الوھاب اور دمشق كے علماء كے درمیان تعلقات تھے اور یہ بات طبیعی ھے كہ حنبلیوں سے تعلقات ركھنے كی وجہ سے اس نے ان كی تالیفات خصوصاً ابن تیمیہ اور اس كے شاگرد خاص ابن قیم جوزی سے استفادہ كیا ھے۔ 264سب سے اھم بات یہ ھے كہ برٹن كے میوزیم میں ابن تیمیہ كے بعض رسائل، محمد بن عبد الوھاب كی تحریریں موجود ھیں جن سے یہ انداز ہ لگایا جاسكتا ھے كہ اس نے ابن تیمیہ كی كتابوں كو پڑھا ھے اور ان سے نسخہ برداری كی ھے۔ 265دوسرا مطلب:یہ ھے كہ محمد بن عبد الوھاب كی نجد میں ترقی اور پیشرفت كی كیا وجہ تھی، كیونكہ اس كے عقائد وھی تھے جو ابن تیمیہ كے تھے لیكن ابن تیمیہ كی شدید مخالفتیں هوئیں اور اس كو بھت سی مشكلات كا سامنا كرنا پڑا یھاں تك كہ زندان میں بھی جانا پڑا، لیكن پھر بھی اپنے عقائد كو پایہ تكمیل تك نھیں پهونچا سكا خصوصاً بزرگوں كی قبور كوویران اور مسمار كرنے كے مسئلہ میں۔ 266لیكن اس كے برعكس شیخ محمد بن عبد الوھاب كو نجد میں اپنے نظریات كو پھیلانے میں مشكلات كا سامنا نھیں هوا اور كچھ ھی مدت میں اس نے اپنے بھت سے مرید پیدا كرلئے اور ان كے ذریعہ اپنے عقائد كو عملی جامہ پہنادیا،اور قبروں كو ویران كردیا، اور ان درختوں كو بھی كاٹ ڈالا جن كا لوگ احترام كرتے تھے، نیز دوسرے اسی طرح كے كام انجام دینے میں اسے كامیابی حاصل هوئی۔ھاں اھم بات یہ ھے كہ ابن تیمیہ اور محمد بن عبد ا لوھاب كے ماحول میں بڑا فرق ھے، كیونكہ ابن تیمیہ نے اپنے عقائد كو ان شھروں میں پیش كیا جن میں مذاھب اربعہ كے بڑے بڑے علماء، درجہ اول كے قاضی اور بااثر لوگ رھتے تھے چنانچہ جیسا كہ ھم نے ابن تیمیہ كے حالات زندگی میں بیان كیا اس كو مختلف مذاھب كے علماء اور قضات كی مخالفت كا سامنا كرنا پڑا، اور ان سے بحث ومناظرات كرنے پڑے اور متعدد بار زندان میں جانا پڑا یھاں تك كہ زندان میں ھی اس كا انتقال هوا۔لیكن شیخ محمد بن عبد الوھاب نے نجد میں اپنے عقائد كو پھیلایا اور شاید اس زمانہ اوراس علاقہ كے عظیم علماء خود شیخ محمد بن عبد الوھاب كا باپ اور اس كا بھائی شیخ سلیمان تھے۔ اگرچہ شروع میں ان دونوں حضرات نے اس كی سخت مخالفتیں كیں، لیكن عوام الناس كے حالات كے سامنے ان كی مخالفتوں كا كوئی اثر نہ هوا، نجدیوں نے اپنے جھل كی بناپر اس كے خرافی عقائد كااتباع كیا، كیونكہ یہ لوگ نھایت سادہ اور بھولے تھے او رمذھبی اختلافات سے ان كے ذہن خالی اور صاف تھے اور كسی بھی نئی اور جدید چیز كو قبول كرنے كی صلاحیت ركھتے تھے، او روہ بھی گرم او رموثر بیان اور اثر انداز طریقہ سے جو كہ شیخ محمد بن عبد الوھاب كی خصوصیات میں سے تھا۔ایك دوسری چیز جو اس كی ترقی كا باعث بنی وہ یہ ھے كہ اس زمانہ میں موجود نجد كے علماء میں كوئی بھی ایسا نہ تھا جو شیخ محمد بن عبد الوھاب كے برابر اثرانداز هو۔ 267ایك دوسری وجہ یہ بھی ھے كہ اس زمانہ میں اھل نجد كسی خاص حكومت كے زیر نظر نھیں تھے ان كی زندگی قبیلہ والی زندگی تھی، اور ھر كام میں ھر قبیلہ كے افراد اپنے قبیلہ كے امیر یا شیخ كے تابع هوتے تھے اور اگر كسی قبیلہ كا رئیس او رامیر كسی نظریہ كو قبول كرلیتا تھا تو اس قبیلہ كے تابع افراد بھی شیخ كے اتباع میں ان نظریات كو قبول كرلیتے تھے، اسی اصل كے مطابق، جب كسی قبیلہ كا رئیس كسی بھی طرح محمد بن عبد الوھاب كے ساتھ هوجاتا تھا تو اس قبیلہ كے دوسرے افراد بغیر كسی چون وچرا كے محمد بن عبد الوھاب كی گفتگو سے متاثر هوجاتے تھے، اور شیخ كی باتوں كو پوری عقیدت كے ساتھ قبول كرلیتے تھے اور اگر دینی احكام سے متعلق كوئی بات هوتی تھی تو اس كو ٹھوس عقیدہ كی طرح مان لیاكرتے تھے۔یہ بات بھی كہنا ضروری ھے كہ محمد بن عبد الوھاب كو اپنے عقائد كے بیان كے شروع میں بھت سی پریشانیوں كا سامنا كرنا پڑا جن كی وجہ قبیلوں كے درمیان موجود اختلافات تھی لیكن جن اسباب كو ھم نے بیان كیا ان كی بناپر وہ سب مشكلیں دور هوگئیں۔
محمد بن عبد الوھاب اور ابن تیمیہ كے درمیان چند فرقمحمد ابو زھرہ نے محمد بن عبد الوھاب او رابن تیمیہ میں چند فرق بیان كئے ھیں اور وہ فرق اس طرح ھیں:وھابیوں نے ابن تیمیہ كی دعوت میں كچھ بھی اضافہ نھیں كیا لیكن اس كو شدت كے ساتھ پھیلایا اور عملی طور پر وہ كام انجام دئے جن كو ابن تیمیہ بھی نھیں كرسكے تھے، وہ چیزیں ان چند امور میں خلاصہ هوتی ھیں:1۔ ابن تیمیہ كا عقیدہ یہ تھا كہ عبادت فقط وہ ھے جس كو قرآن اور سنت نے بیان كیا ھے، لیكن وھابیوں نے اس پر اكتفاء نھیں كی بلكہ عادی اور معمولی چیزوں كو بھی اسلام سے خارج كردیا، مثلاً تمباكو نوشی كو بھی حرام قرار دیدیا اور اس كی حرمت میں بھت زیادہ سختی كی، چنانچہ وھابی حضرات جس كو بھی سگریٹ وغیرہ پیتا دیكھتے ھیں اس كو مشركین كی طرح سمجھتے ھیں، ان كا یہ نظریہ خوارج كی طرح ھے كہ جو شخص بھی گناہ كبیرہ كا مرتكب هوا كافر هوگیا۔2۔ شروع میں چائے اور قهوہ كی حرمت كا فتویٰ دیا لیكن جیسا كہ معلوم هوتا ھے بعد میں اس كی حرمت میں لاپرواھی كی۔ 2683۔ وھابیوں نے فقط لوگوں كو ان اعمال كی دعوت ھی نھیں دی بلكہ اگر كسی نے ان كے نظریات كو نھیں قبول كیا توان سے جنگ وجدال كی، اور ان كا نعرہ یہ تھا كہ بدعتوں سے جنگ كرنا چاہئے، میدان جنگ میں ان كا رھبر (شروع میں) محمد بن سعود (خاندان سعود كا جد اعلیٰ) محمد بن عبد الوھاب كا داماد تھا۔4۔ وھابی جس گاوٴں اور شھر كو فتح كرلیتے تھے اس شھر كے روضوں اور قبروں كو ویران كرنا شروع كردیتے تھے، اسی وجہ سے بعض یورپی رائٹروں نے ان كو (عبادت گاهوںكے ویران كرنے والوں) كا لقب دیا ھے، جبكہ ان كی یہ بات مبالغہ ھے كیونكہ ضریحوں اور عبادتگاهوں میں فرق ھے، لیكن جیسا كہ معلوم ھے كہ یہ لوگ اگر قبور كے نزدیك كسی مسجد كو دیكھتے تھے تواس كو بھی ویران كردیتے تھے۔5۔ ان كاموں پر بھی اكتفاء نہ كی بلكہ وہ قبریں جو مشخص اور معین تھیں یا ان پر كوئی نشانی هوتی تھی ان كو بھی مسمار كردیا اور جب ان كو حجاز پر فتح ملی تو انھوں نے تمام اصحاب كی قبور كو مسمار كردیا، چنانچہ اس وقت صرف قبور كے نشانات باقی ھیں269 اور ان قبور كی زیارت كی اجازت فقط اس طرح دی گئی كہ زائر فقط اتنا كہہ سكتا ھے :” السلام علیك یا صاحب القبر”6۔ وھابیوں نے چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھی اعتراضات كئے اور ان كے منكر هوئے جو نہ تو بت پرستی تھیں اور نہ ھی بت پرستی پر تمام هوتی تھیں مثلاً فوٹو وغیرہ لینا، بھت سے علماء نے اپنے فتووٴں اوررسالوں میں اس كی (حرمت)كو ذكر كیا ھے لیكن ان كے حاكموں نے اس مسئلہ پر توجہ نھیں كی۔7۔ وھابیوں نے بدعت كے معنی میں ایك عجیب انداز اپنایا، اور اس كے معنی میں وسعت دی، یھاں تك كہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پردہ لگانا بھی بدعت قرار دیدیا، اور روضہ رسول پر لگے پرانے پردوں كو بدلنا بھی ممنوع قرار دیدیا جس كے نتیجہ میں وھاں موجود تمام پردے پرانے هوگئے۔ 270
قارئین كرام!:”حق بات تو یہ ھے كہ وھابیوں نے ابن تیمیہ كے عقائد كو عملی بنایااور اس راستہ میں اپنی پوری طاقت صرف كردی، انھوں نے بدعت كے معنی میں وسعت دی یھاں تك كہ وہ كام جن سے عبادت كا كوئی مطلب نھیں ان كو بھی بدعت قرار دیدیا، جبكہ تحقیقی طور پر بدعت ان چیزوں كو كھا جاتا ھے كہ جن كی دین میں كوئی اصل اور بنیاد نھیں لیكن ان كاموں كو انجام دینے والے ان كو عبادت كے قصد سے انجام دیتے ھیں، اور ان كے ذریعہ سے خدا كی خوشنودی حاصل كرنا چاھتے ھیں، اس بناپر كوئی بھی روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پردوں كو عبادت كے قصد سے نھیں لگاتا، بلكہ ان كو زینت كے لئے لگاتے ھیں جس طرح مسجد نبوی میں دوسری چیزوں كو زینت كے لئے لگایا گیا ھے۔عجیب بات تو یہ ھے كہ یہ لوگ روضہٴ نبوی پر پردے لگانے كو منع كرتے ھیں لیكن دوسری مسجدوں میں پردے لگانے كو عیب نھیں مانتے۔ ایك دوسری بات یہ ھے كہ وھابی علماء اپنے نظریات اور عقائد كو مكمل طور پر صحیح جانتے ھیں اور دوسروں كے عقائد كو غلط اور غیر صحیح مانتے ھیں۔ 271
——————————————————————————–
241. شیخ عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن عبد الوھاب نے اپنے اس رسالہ میں جس میں اس نے اپنے دادا كی سوانح حیات لكھی، كھتا ھے كہ شیخ محمد بن عبد الوھاب مكہ سے شام كے حاجیوں كے ساتھ شام جانا چاھتا تھا لیكن كچھ مشكل در پیش آئی، جس كی بناپر اس نے وھاں جانے كا قصد چھوڑ كر مدینہ كا رخ كیا۔ ابن اثیر نے اس رسالہ كو(ج2ص23 كے بعد) ذكركیا ھے۔242. آلوسی كی كتاب تاریخ نجد، ص 111تا113 كا خلاصہ۔243. محمد سے مراد شیخ محمد مجموعی ھے (بصرہ میں مجموعہ شھر سے منسوب) محمد بن عبد الوھاب نے ایك مدت تك اس كے پاس تعلیم حاصل كی ھے ۔244. ناسخ التواریخ قارجاریہ جلد اول ص 118۔245. امروز جھان اسلام جلد اول ص 261۔246. زعماء الاصلاح فی عصر الحدیث ص 10 میں شیخ محمد بن عبد الوھاب كے دوسرے سفروں كو بھی بیان ھے مثلاً اسلامبول (تركی)، ہندوستان، اگرچہ ھماری نظر میں اس بات پر كوئی محكم دلیل پر نھیں ھے، كتاب حافظ وھبہ ص 336 میں اس طرح موجود ھے كہ محمد بن عبد الوھاب نے ایران كا بھی سفر كیا ھے، اور وھاں پر فلسفہ اشراق اور بندوقیں بنانے نیز بھت سے جنگی فنون بھی حاصل كئے۔247. زید، عمر ابن الخطاب كے بھائی تھے جو ابوبكر كی خلافت كے زمانہ میں جنگ یمامہ (مسیلمہ كذاب سے مسلمانوں كی جنگ) میں قتل هوئے تھے ۔248. ابن بشر جلد اول ص 9،10۔249. بدعت سے مراد كسی عقیدہ یا عمل كا ظاھر كرناجو دین كے خلاف هو اور اس كو دین میں داخل كرنا ۔250. عثمانی موٴلفوں میں سے ایك ” سلیمان فائق بك”نےاپنی كتاب تاریخ بغداد (ص 152)میں محمد بن عبد الوھاب اور آل سعود كے رابطہ كو دوسری طرح بیان كیا ھے، لیكن جیسا كے اوپركی عبارت میں موجود ھے وہ ظاھراً صحیح دكھائی دیتا ھے۔251. تاریخ عرب ص 926،اور العقیدة والشریعة فی الاسلام ص 267۔252. عنوان المجد فی تاریخ نجد ص 13۔253. عنوان المجد جلد اول ص 170۔254. امیر نجد، جس كے حالات زندگی بعد میں بیان هوں گے ۔255. جزیرة العرب فی القرن العشرین كے ص 228 كا خلاصہ۔256. عنوان المجد جلد اول ص 14، 15۔257. فتنة الوھابیة ص 76،77۔258. التوسل بالنبی وجھلة الوھابیین، ص 251۔259. تاریخ نجد آلوسی ص 119۔260. كتاب دراسات اسلامیہ ص 391۔261. شوكانی كاكہنا ھے كہ بعض لوگوں كا عقیدہ یہ ھے كہ امیر نجد خوارج كے راستے پر چلا ھے لیكن ھمارے لحاظ سے یہ بات صحیح نھیں ھے، كیونكہ اس نے جو كچھ بھی سیكھا ھے محمد بن عبد الوھاب سے سیكھا ھے جو حنبلی مذھب تھا، اور ابن تیمیہ وابن قیم جیسے لوگوں كے اجتھاد پر عمل كرتا تھا، (البدر الطالع ج2 ص 6)262. صلاح الدین مختار ج2 ص 154۔263. جزیرة العرب فی القر ن العشرین ص 331۔264. دائرة المعارف اسلامی جلد اول ص 113۔265. زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث ص 13۔266. ایسے بھت ھی كم موارد ھیں جن كو ابن تیمیہ نے عملی جامہ پہنایا ھے، منجملہ ان میں سے یہ ھے كہ ماہ رجب704ھ میں اپنے چند دوستوں كے ساتھ جن میںچند سنگ تراش بھی موجود تھے ایك تاریخی مسجد میں گیا جھاں پر ایك پتھر تھا جو لوگوں كی زیارت گاہ تھا اور لوگ وھاں پر جاكر نذر كیا كرتے تھے، اس پتھر كو توڑ ڈالا اور وھاں پر ایك شخص رھتا تھا جس كے بال بڑے بڑے مونچھیں لمبی لمبی،اور ناخن بھی بڑے بڑے تھے اور “دلق” (درویشوں اور قلندروں كا لباس) بھی بھت لمبا چوڑا پہنے هوئے تھا اور حشیش پیتا تھا، اس كو توبہ كرائی اور اس كے سر كے بال او رمونچھیں منڈوائیں اور اس كے مخصوص لباس كو پارہ پارہ كردیا، (ابن كثیر ج 14، ص 33،34)267. دائرة المعارف اسلامی (ج15، ص479) كی تحریر كے مطابق “عارض” كا علاقہ كہ “درعیہ” اور “عیینہ” دونوں شھر اس كا جزتھے محمد بن عبد الوھاب كے زمانہ میں علوم اسلامی كا مركز تھا جس میں بھت سے بڑے علماء پیدا هوئے ھیں۔268. ظاھر ھے كہ تمباكو نوشی اور چائے وغیرہ جس طرح وھابیوں كے زمانہ میں تھی، ابن تیمیہ كے زمانہ میں رائج نھیں تھی،مقصد یہ ھے كہ جو چیزیں سلف صالح كے زمانہ میں نھیں تھیں ان كو وھابیوں نے عملی طور پر ممنوع قرار دیا، تمباكو نوشی اور چائے وغیرہ كی كوئی خاص وجہ نھیں تھی۔269. گلدزیھر (العقیدة والشریعة فی الاسلام ص 267) كے مطابق وھابیوں كا قیام ابن تیمیہ كے مقاصد كو عملی جامہ پہناناتھا۔270. ابو زھرہ، اس مطلب كو ذكر كرنے كے بعد كھتے ھیں كہ عبد العزیز آل سعود نے حكم دیا كہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے پرانے پردوں كو ہٹاكر نئے پردے لگادئے جائیں لیكن مسجد نبوی كی تعمیر نو كے تكمیل هونے تك پردوں كے بدلے جانے كو روك دیا، (ص 351) یھاں پر یہ عرض كردینا ضروری ھے كہ” ملك سعود”جانشین سلطان عبد العزیز نے روضہ منورہ پر پردہ لگوائے تھے۔271. لمذاھب الاسلامیہ ص 351،اور اس كے بعد۔