کتاب و سنت کے مشترک مباحث
کتاب و سنت کے اختصاصی مباحث کے علاوه ان کے مشترک مباحث کوبھی “ادلهء نقلی” سے تعبیر کیا جاتا هے۔
ادله نقلی کی تقسیمات ۔آیات و روایات جو که منابع استنباط کے لئے دو عمده دلیلیں هیں هر ایک دلیل خودبخود ایک دوسرے مل کر مختلف قسموں میں تقسیم هوتی هیں ۔
دلیل خاصل و عام ۔ایسی دلیل جو که حکم کو تمام افراد موضوع یا متعلق موضوع یا مکلف کے شامل حال هو اسے اصطلاح دلیل”عام” کهتے هیں .اور کبھی عام او رخاص میں تعارض هو تو دلیل عام پر دلیل خاص کے ذریعے تخصیص لگائی جاتی هے یعنی بعض افراد مصادیق عام هے سے خارج هوجاتے هیں اور اس طرح خاص ،عام پر( ظاهر و اظهر یا قرینه او رذوالقرینه کے ملاک کی وجه سے ) مقدم هوجاتا هے . مثال کے طور پر خداوند عالم ایک آیت میں ارشاد فرماتا هے ۔”*كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ”*”تم پر روزه اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوںپر لکھے گئے تھے شایدتم اسی طرح متقی بن جاؤ ” ۔ 1اور اس کے بعد والی آیت میں فرماتا هے :”*فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ” *”اس کے بعد بھی کوئی شخص مریض ہے یا سفر میں ہے تو اتنے ہی دن دوسرے زمانے میں رکھ لے گا ” ۔ 2ان آیات میں پهلی آیت کا حکم عام هے جس سے ثابت هوتا هے که جو ان، بوڑھا ،مریض( مسافر نو پر روزه واجب هے لیکن دوسری آیت میں تخصیص سے بعض افراد خارج هوگئے ) شیعوں متاخر فقهاء اور اکثر اهل سنت کا اس بات پر اتقاف هے ۔. قرآن کے عمومی حکم پر که خبر واحد کے زریعه تخصیص لگائی جاسکتی هے لیکن امامیه کے قدیم علماء میں سید مرتضیٰS کی جانب نسبت دی گئی هے که وه قرآن کے عمومی حکم کے خبرواحد سے تخصیص لگانے کو جائز نهیں مانتے تھے اور اهل بیت میں عیسی بن ابان متوفی 221 هجری عدم جواز کاقائل تھا مگر یه که دلیل عام پچھلے مرحله میں دلیل قطعی سےتخصیص پاچکی هو که اس صورت میں قرآن کو خبرواحد سے تخصیص دینا جایز هے اور اهل سنت سے ایک اور شخصیت قاضی ابوبکر کی هے جنهوں نے اس مسئله میں توقف کیا هے-3 خبر واحد کے ذریعه قرآن سے عموم کو تخصیص دینے کی مثال یه هے که قرآن فرماتا هے ۔” * يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ “*”اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے، ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے” ۔ 4اس آیت میں باپ کے انتقال پر تمام اولاد کےلئے ارث مشخص کی ا گئییا اور ضمنا یه بتایا گیا که بیٹے کا ارث بیٹی کے ارث سے دو برابر هے لیکن اس حکم پر بعض روایات کی وجه سے تخصیص لگائی گئی کیونکه جیسا که بیٹا باپ کاقاتل هو تو اسے ارث نهیں ملے گا ۔” ” القاتل لایرث ممن قتله “”5
دلیل مطلق و مقید :مطلق اس لفظ کو کهتے هیں که جس میں کو ئی قید و شرط نه هواور اپنے تمام افراد کو شامل هو مثلا جس وقت کها جائے۔ “”احلّ الله البیع “” اس میں معاملات کی تمام قسمیں شامل هوجائیں گی ۔مقید اس لفظ کو کهتے هیں جس میں لفظ قید کے ساتھ ذکر هو جیسے “”نهی النبی عن بیع الغرر””یعنی پیغمبر نے مجهول اور مبهم معاملات سے منع کیا هے ۔ محققین کے نزدیک مشهور یهی هے که لفظ مطلق اس صورت میں تمام افراد کو شامل هوگا که اس کے مقدمات حکمت اسمیں جمع هوں .یعنیاولا ً: متکلم مقام بیان اور تمام مقصود بیان کرے ۔ثانیا: کوئی قید نه لگائی گئی هو ۔ثالثا: لفظ مطلق سے خاص افراد کا تبادر نه هو ۔رابعا : پڑھنے والے والا کی اپنی نظر میں اس لفظ کا قدر متیقن نظرمیں نه رکھے ۔اس صورت میں مطلق تمام افراد کو شامل هوگا اور بغیر کسی دلیل کے جو تقید پر دلالت کرے اطلاق سے صرف نظر نهیں کیا جاسکتا . حدیث کے زریعے ذریعے قرآنی اطلاقات کو قید لگانے کاا مکان قطعی هے کیونکه قرآن کے کئی احکام فقط کلی صورت میں ذکر کئے هیں اور اس کے مشخصات کو روایات میں بیان کیا گیا هے . عبادات کے سلسله میں قرآن میں کلی طور پر نماز روزه اور حج وغیره کا ذکر کیا هے اسی طرح معاملات میں کلی طور پر بیع کی حلیت، ربا کی حرمت اور دوسرے معاملات کا ذکر کیا هے ان تمام موارد میں ان احکام کی کیفیت ،شرائط، اجزاء اور موانع کو روایات میں مشخص کیا جاتاهے اس کے نتیجه میں قرآن کے اطلاقات پرقید لگتی هے ۔————–1 . بقره ، 183 .2 . بقره ، 184 .3 . الاحکام فی اصول الاحکام ، ج1/2 ، ص525 .4 . نساء ، 11 .5 .دعائم الاسلام ،ج2 ص386 ،ح1375 ، مستدرک الوسایل ،ج17 ،ص 146 ، ح20998 .