صفات فعلیہ حصہ دوم
ارادہ۔کلمہ ”ارادہ” عرف میں کم از کم دو معنی میں استعمال ہوتا ہے، ایک محبت کرنا اور دوسر ے کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کرنا۔پہلا معنی دوسرے معنی کی بہ نسبت وسیع ہے اس لئے کہ یہ اشیاء خارجی (١) اور دوسروں کے………………………(١)جیسے کہ یہ آیۂ شریفہ (تریدون عرض الدنیا واللّہ یرید الآخرة) سورۂ انفال۔ آیت /٦٧افعال کے ساتھ اپنے افعال کو پسند کرنے کو شامل بھی ہوتا ہے لیکن دوسرا معنی صرف شخص کے ذاتی افعال کو شامل ہوتا ہے۔لیکن ارداہ اپنے پہلے معنی کے مطابق (محبت) اگر چہ انسان کے لئے ایک نفسانی کیفیت ہے، لیکن عقل عیب و نقص کو بر طرف کر کے ایک عام مفہوم حاصل کر سکتی ہے کہ جسے جوہری موجودات کے ساتھ خدا پر بھی اطلاق کیا جا سکے، جیسا کہ علم کے ساتھ یہی ہوا ہے اسی جہ سے حب( محبت) کو صفات ذاتیہ میں شمار کیا جا سکتا ہے جو کہ (خود اپنی ذات سے محبت الٰہی پر قابل) اطلاق ہے، لہذا اگر ارادہ الٰہی کا مطلب حب کمال ہو تو یہ پہلے مرحلہ میں لا متناہی کمال الٰہی سے متعلق ہوتا ہے اور یہ بقیہ مراحل میں تمام موجودات کے کمالات پر صادق آتا ہے اس لئے کہ یہ اسی کے کمال کے آثار ہیں اس بنا پر اسے صفات ذاتیہ کا حصہ، قدیم، واحد اور عین ذات مقدس الٰہی مانا جاسکتا ہے۔لیکن ارادہ بہ معنی کسی بھی امر کو انجام دینے کا قصد کرنا بغیر کسی شک کے صفات فعلیہ میں داخل ہے (جو امر حادث سے متعلق ہونے کی وجہ سے قیود زمان میں مقید ہے جیسا کہ قرآن میں وارد ہوا ہے کہ (اِنَّمَا اَمرُہُ اِذَا اَرَادَ شَیئًا اَن یَقُولَ لَہُ کُن فَیَکُونُ)(١)ترجمہ۔اس کی شان تو یہ ہے کہ جب کسی چیز کو (پیدا کرنا) چاہتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے ،کہ ہو جا ،تو فوراً ہو جاتی ہےلیکن خدائے متعال کا صفات فعلیہ سے متصف ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ذات الٰہی میں کوئی تبدیلی واقع ہو یا کوئی صورت عرضی اس کے وجود میں ظاہر ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذات الٰہی اور اس کی مخلوقات کے درمیان شرائط اور ایک خاص نظریہ کے تحت ایک نسبت لحاظ کیا گیا ہو اور ایک خاص، مفہوم ا ضافی کو صفات فعلیہ عنوان سے اخذ کیا گیا ہومفہوم ارادہ کے تحت اس رابطہ کو پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ ہر مخلوق چونکہ صاحب کمال ہے اور اس کی خلقت میں مصلحت و حکمت کار فرما ہے…………………………(١)سورہ یس ،آیت/ ٨٢.اس لئے خلق ہوئی ہے، لہذا اس کا ایک خاص زمان و مکان اور کیفیت میں واقع ہونا، علم خدااور محبت الٰہی سے متعلق ہے کہ جس کو اس نے اپنے ارادے سے پیدا کیا ہے نہ یہ کہ کسی نے اس کو مجبور کیا ہے، جب اس رابطہ کا لحاظ کیا جاتا ہے تو ایک مفہوم اضافی اور نسبتی بنام ”ارادہ” حاصل ہوتا ہے، جو شی محدود سے تعلق کے اعتبار سے کچھ حدود و قیود کا حامل ہے اور یہ وہی مفہوم اضافی ہے جو حدوث و کثرت سے متصف ہے اس لئے کہ اضافت تابع طرفین ہے اور ان دونوں طر فوں میں سے کسی ایک کا حدوث اور کثرت سے متصف ہونا اوصاف کا ، اضافت کی طرف سرایت کرنے کے لئے کافی ہے۔
حکمت۔جو وضاحت ارادۂ الٰہی کے تحت پیش کی گئی اس کے مطابق یہ بات روشن ہو گئی کہ یہ ارادہ یونہی، کسی بھی شی کے ایجاد سے متعلق نہیں ہوتا، بلکہ جو شی بھی ارادۂ الٰہی کے متعلق بنتی ہے، اس میں خیر اور کمال کی حکمت پائی جاتی ہے۔اورچونکہ مادیات کا تزاحم بعض کا بعض دوسرے کے ذریعہ نقصان کا موجب ہوتا ہے محبت الٰہی کا کمال کے سلسلہ میں تقاضا یہ ہے کہ ان سب کی پیدائش اس طرح ہو کہ انھیں زیادہ سے زیادہ خیر و کمال مل سکے، ایسے روابط کو میزان پر قرار دینے سے مفہوم ”مصلحت” سمجھ میں آتا ہے، وگرنہ مصلحت مخلوقات کے پائے جانے کے سلسلہ میں کوئی مستقل امر نہیں ہے کہ جو ان کی پیدائش میں براہ راست اثر انداز ہو ، چہ جائے کہ وہ ا رادہ الھی میں اثر گذار ہو۔
نتیجہ:افعال الٰہی اس کے صفات ذاتیہ ، جیسے علم و قدرت خیر و کمال سے محبت ، جیسی چیزوں سے مترشح ہوتا ہے اور ہمیشہ ، کسی مصلحت کے پائے جانے ہی کی صورت میں متحقق ہوتا ہے ، تا کہ زیادہ سے زیادہ کمال و خیر حاصل ہو سکے، لہٰذا ایسے ارادہ کو ”ارادۂ حکیمانہ” کا نام دیا جاتا ہے اور یہیں سے مقام فعل میں خدا کے لئے ایک دوسر ی صفت بنام ”حکیم ہونا” سمجھ میں آتا ہے، اور بقیہ صفات فعلیہ کی طر ح اس کی بھی با ز گشت صفات ذاتیہ کی طرف ہوتی ہے ۔البتہ یہ بات روشن ہے کہ مصلحت کی خاطر کسی امر کو انجام دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مصلحت خدا کے لئے علت غائی ہو، بلکہ وہ ایک فرعی ہدف ہے لیکن امور کو انجام دینے میں علت غائی ،وہی اس کا ذاتی ، ولا امتناہی کمال سے محبت کرنا ہے جو ضمناً اس کے آثار یعنی موجودات کے کمالات سے متعلق ہے، لہذا اس مقام پر یہ کہنا درست ہے کہ افعال الٰہی کے لئے علت وہی علت فاعلی ہے، اور خدا زائد بر ذات کسی ہدف کا حامل نہیں ہے، لیکن یہ مطلب اس بات کا منافی نہیں ہے کہ موجودات کا کمال اور خیر ایک فرعی ہدف ہے، اور اسی کو قرآن نے بھی بیان کیا ہے اس لئے کہ قرآن کریم نے افعال الٰہی کے لئے ایسی علتوں کو بیان کیا ہے کہ جن میں سے ہر ایک کی باز گشت ،مخلوقات کے خیر و کمال کی طرف ہے، جیسے کہ امتحان و آزمائش، بہترین امور کا انتخاب کرنا، خدا کی بندگی کرنا،اوررحمت خاص سے متنعم ہونا(١) انسان کی خلقت کے اہداف میں سے ہے کہ جن میں سے ہر ایک بالترتیب دوسرے والے کے لئے مقدمہ ہے۔
کلام الٰہی۔خدا کی ذات سے نسبت دئے جانے والے مفاہیم میں سے ایک مفہوم، تکلم ہے اور ہمیشہ کلام الٰہی کے سلسلہ میں متکلمین کے درمیان بحث ہوتی رہی ہے، یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”علم کلام” کا کلام نام سے شہرت پانا اس وجہ سے ہے کہ اس علم کے اصحاب(علماء متکلمین) کلام الٰہی کےتحت بحث کرتے ہیں، اشاعرہ اسے صفات ذاتیہ میں سے اور معتزلہ صفات فعلیہ میں سے شمار کرتےہیں، ان دو گروہوں کے درمیان شدید اختلاف کا باعث یہی مسئلہ قرار پایا قرآن مجید ، کلام الھی ہے ، ایسی صورت میں یہ مخلوق (حادث) ہے یا غیر مخلوق (یعنی قدیم) اس سلسلہ میں بڑی بحثیں ہوئی ہیں، بسا اوقات اسی موضوع کی وجہ سے ایک دوسرے کو کافر کہا گیا۔…………………………………………………(١) ر جوع کریں، سورۂ ہود آیت ٧ سورہ ملک آیت ٢ سورہ کہف آیت ٧ سورہ ذاریات آیت ٥٧ سورہ ہود آیت ١٠٨ سورہ جاثیہ آیت ٢٣ سورۂ آل عمران آیت ١٥ سورہ توبہ آیت ٧٢.صفات ذاتیہ اور فعلیہ کی بیان کی گئی تعریفوں کے پیش نظر یہ اس مسئلہ کو بہ آسانی درک کیا جا سکتا ہے کہ تکلم فعل کی صفات میں سے ہے کہ جسے وجود بخشنے کے لئے ایک مخاطب کی ضرورت ہے تا کہ کہنے والے کے مقصود کو آواز یا مکتوب یا اپنے ذہن میں کسی مفہوم یا کسی اور راستہ کے ذریعہ درک کیا جا سکے، در حقیقت یہ مفہوم اس رابطہ کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے جو خدا کسی حقیقت کو اپنے بندہ کے لئے آشکار کرنا چاہتا ہے اور بندہ میںاس حقیقت کے درک کرنے کی طاقت پائی جاتی ہے مگر یہ کہ تکلم کے لئے کوئی دوسرے معنی فرض کر لئے جائیں جیسے تکلم پر قادر ہونا یا تکلم کے معنی و مفہوم جاننا تو پھر اس صورت میں اس صفت کی باز گشت بھی صفات ذاتیہ کی طرف ہوگی، جیسا کہ اس طرح کی باتیں صفات فعلیہ میں گذرچکی ہیں۔لیکن قرآن خطوط یا الفاظ یا ذہنوں میں موجودہ مفاہیم یا ایک نورانی حقیقت اور مخلوقات سے مجرد کے معنی سے عبارت ہے ،مگر یہ کہ کوئی علم الٰہی کو بعنوان حقیقت قرآن سمجھے تو اس صورت میں اس کی باز گشت صفت ذاتی ”علم” کی طرف ہوگی لیکن ایسی تاویلیں عرف کے محاوروں کے خلاف ہیں لہٰذا ان سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔
صدق۔کلام الٰہی، اگر امرو نہی کی صورت میں بہ طور انشا ہو تو یہ بندوں کے عملی وظائف کو معین کرتا ہے اور اس میں کسی قسم کے صدق و کذب سے متصف کرنے کا کوئی مقام نہیںہے لیکن اگر کلام الٰہی حقائق یا گذشتہ اور آئندہ حوادث کے سلسلہ میں بصورت اخبار ہو تو صدق سے متصف ہے جیسا کہقرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔(وَمَن اَصدَقُ مِنَ اللَّہِ حَدِیثًا ).(١)اور خدا سے بڑھ کر بات میں سچا کون ہو گا ؟…………………………سورہ نسائ، آیت/٨٧اور اس صورت میں کوئی بھی انھیں قبول نہ کرنے پر کسی بھی قسم کا عذر پیش نہیں کرسکتا۔یہ صفت جہان بینی کے فرعی مسائل آئیڈیالوجی کے بہت سے مسائل کو ثابت کرنے کےلئے ایک قسم کے استدلال (نقلی اور تعبدی) سے متصف ہے۔اس صفت کو ثابت کرنے کے لئے جو عقلی دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں وہ یہ ہیں کہ کلام الٰہی ربوبیت الٰہی کی شان،جہان و انسان کی تدبیر، مخلوقات کی ہدایت اور علم و حکمت کی بنیادپر صحیح شناخت کو مخا طبین کے لئے فراہم کرنے کا ایک وسیلہ ہے اور اگر واقع سے کسی قسم کی مخالفت کا امکان ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہ ہوگا اس لئے کہ نقض غرض کی وجہ سے حکمت الٰہی کے خلاف تصور کیا جائے گا۔