ادیان کا اشتراک اور امتیاز

406

اسلام ،دعوت انبیاء علیہم السلام کی روح
ہم مندرجہ بالا مطلب کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام آسمانی ادیان کی اسا س و بنیاد ایک چیز سے زیادہ نہیں ہے اور وہ یہ کہ اپنے کو خداوندعالم کے سامنے تسلیم کردیں، دوسرے لفظو ں میں تمام آسمانی ادیان ایک ہی دین ہیں وروہ ”اسلام” ہے ۔البتّہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وحی کے مطالب میں جوتمام انبیاء علیہم السلام پر کسی بھی زمان و مکان میں نازل ہو ئے ہیں کسی طرح کاکوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ،بلکہ بعض احکام کے جزئیات کامختلف زمانوں اور جگہوں یا مختلف اقوام کے اعتبار سے الگ ہوناممکن ہے لیکن سب کی اساس و بنیاد ایک ہی ہے اوروہ خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت اور اس کے احکام کی اطاعت ہے۔(اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللَّہِ الْاِسْلَاٰمُ وَمَااخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوتُوْاالْکِتَابَ اِلَّامِنْ بَعْدِ مَاجَائَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیاًبَیْنَہُمْ وَمَنْ یَکْفُرْ بِآیَاتِ اللَّہِ فَاِنَّ اللَّہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۔فَاِنْ حَآجُّوْکَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْھِیَ لِلَّہِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ وَقُلْ لِلَّذِیْنَ اُوتُواالْکِتَابَ وَالْاُمِّیِّیْنَ ئَ اَسْلَمْتُمْ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْاوَاِنْ تَوَلَّوْافَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلاَغُ وَاللَّہُ بَصِیْربِالْعِبَادِ)(١)”دین، اﷲ کے نزدیک صرف اسلام ہے اور اہل کتاب نے آپس میں اختلاف نہیں کیا مگر یہ کہ علم آنے کے بعد، صرف آپس کی شرارتوں کی بناء پر اور جوبھی آیات الٰہی کا انکار کرے (سن لے)کہ خدا بہت جلد حساب کرلینے والا ہے ۔(اے پیغمبر) اگر یہ لوگ آپ سے کٹ حجتی کریں تو کہہ دیجئے کہ میرا رخ تمام تر اﷲ کی طرف ہے اور میرے پیرو بھی ایسے ہی ہیں اور پھر اہل کتاب اور جاہل مشرکین سے پوچھئے کیا تم بھی اسلام لے آئے ہو؟ اگر وہ اسلام لے آئے ہیں توگویا ہدایت پاگئے اور اگر منھ پھیر لیں تو آپ کا فرض صرف تبلیغ ہے اور بس اور اﷲ اپنے بندوں کو خوب پہچانتاہے”۔معلوم ہوا دعوت انبیاء علیہم السلام کی روح وجان یہی اسلام ہے قرآن کریم کی آیات سے بھی اس بات کا اثبات ہوتا ہے ۔خداوند عالم فرماتاہے :(وَمَنْ یَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ اِبْرَاھِیْمَ اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہُ وَلَقَدِ اصْطَفَیْنَٰہُ فِی الدُّنْیَاوَ اِنَّہُ فِی الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِیْنَ)( ٢)”اور کون ہے جو ملت ابراہیم سے منھ مو ڑے مگر یہ کہ اپنے کو بیوقوف اور نا سمجھ ثابت کرے؟اور ہم نے ابراہیم کو دنیا میں منتخب قرار دیا ہے اور وہ آخرت میں بھی نیکوکاروں میں ہیں ”۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا انتخاب اس طرح عمل میںآیاکہ:(اِذْقَالَ لَہُ رَبُّہُ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَٰالَمِیْنَ)(٣)”جب ان سے ان کے پروردگار نے کہا کہ اپنے کو میرے حوالے کردو تو انھوں نے کہا کہ میں رب العالمین کے سامنے سرا پا تسلیم ہوں”۔معلوم ہوا الٰہی انتخاب کا معیار یہی اسلام اور خود سپر دگی ہے ۔صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کاہی دین اسلام نہیں تھا بلکہ آپ نے اپنے فرزند کو بھی اسی دین اسلام کی وصیّت فرمائی تھی:(وَوَصَّیٰ بِہَا اِبْرَاھِیْمُ بَنِیْہِ)(٤)…………..١۔آل عمران آیت ١٩۔٢٠۔٢۔سورئہ بقرہ آیت١٣٠۔٣۔سورئہ بقرہ آیت ١٣١۔٤۔سورئہ بقرہ آیت١٣٢۔”اور اسی بات کی ابراہیم نے اپنی اولاد کو وصیت کی ”۔اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے فرزندوں کو اسی دین اسلام کے بارے میں وصیّت فرمائی تھی :(یَابَنِیَّ اِنَّ اللَّہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَموتُنَّ اِلَّاوَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ)(١)”اے میرے فرزند اﷲ نے تمہارے لئے دین کو منتخب کردیا ہے اب اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک واقعی مسلمان نہ ہوجائو”۔ایک اور آیت میں بھی حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے فرزندوں کو اسی دین اسلام کے بارے میں وصیّت فرمائی ہے:(اَمْ کُنْتُمْ شُہَدَآئَ اِذْ حَضَرَیَعْقوبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِی قَالُوْانَعْبُدُ الٰھَکَ وَاِلَٰہَ اٰبَائِ کَ اِبْرَاھِیْمَ وَاِسْمَٰعِیْلَ وَاِسْحَٰقَ اِلَٰھاً وَاحِدًا وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُوْنَ) (٢)”کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کا وقت موت آیا اور انھوں نے اپنی اولاد سے پوچھا کہ میرے بعد کس کی عبادت کرو گے تو انھوں نے کہا کہ آپ کے اور آپ کے آباء و اجدادابرہیم و اسماعیل و اسحاق کے پروردگار، خدائے وحدئہ لا شریک کی، اور ہم اس کے مسلمان اور اور سراپا تسلیم ہیں ”۔حقیقت اسلام وہی فرمان خدا کو قبول کرناہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کے تمام فرمان ہمیشہ یکساں رہے ہیںیا فرق کرتے رہے ہیں ؟ایک الگ مسئلہ ہے یہاں تک کہ ایک ہی دین میں بھی احکام خداکا ایک زمانہ سے دوسرے زمانہ میں الگ ہونا ممکن ہے دین اسلام میں بھی شروع میں تمام مسلمان بیت المقد س کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے اس وقت بھی یہی اسلام تھا اورجب خداوند عالم نے فرمایا کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھو توبھی اسلام کا تقاضا تھا کہ اس دوسرے حکم کو قبول کریں۔اگر ادیان سابق میں بھی اس طرح کی چیزیں تھیں یعنی ایک دین میں ایک چیز حلال تھی اور دوسرے دین میں حرام تو یہ بھی اسی طرح کا نسخ ہے جو بعض وقت ایک ہی دین میں واقع ہوتاہے ۔اس بناپرکہہ سکتے ہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت کی روح وجان یہی خداوندعالم کے سامنے تسلیم ہوناہے…………..١۔سورئہ بقرہ ١٣٣۔٢۔سورئہ بقرہ آیت١٣٣۔اور یہی وہ چیز ہے جسکا انسانی فطرت تقاضا کرتی ہے یعنی فطرت انسانی تقاضا کرتی ہے کہ اپنے اختیارسے خداوندعالم کے سامنے تسلیم ہو ں،دین اسکے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔(فَأَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَتَ اللَّہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْہَالَاتَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللَّہِ ذَٰلِکَ الدِّیْنُ القَیِّمُ)( ١)”آپ اپنا رخ کسی انحراف کے بغیر دین کی طرف رکھیں یہ دین و فطرت الٰہی کہ جس پر اس نے تمام انسانوں کو پیدا کیاہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور یہی پا ئدار دین ہے”۔اس آیت سے صاف طور پرپتہ چلتا ہے کہ انسانی فطرت تقاضا کر تی ہے کہ اﷲکی طرف جھکا ؤاور خود کو اس کے مقابل تسلیم کردیں اور اسی سورہ میںایک دوسری جگہ پھر خداوند عالم فرماتاہے :(فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنَ القَیِّمِ۔۔۔)(٢)”اور آپ اپنے رخ کو مستقیم اور مستحکم دین کی طرف رکھیں ”۔
…………..١۔سورئہ روم آیت٣٠ ۔٢۔ سورئہ روم آیت ٤٣۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.