اہل بیت علیہم السلام کون ہیں ؟
اس غلط فہمی کا جواب یہ ہے کہ خودآیت کاسیاق اس بات کا شاہد ہے کہ اس میں ”ازواج نبی ” سے خطاب نہیں ہے اس لئے کہ آیت سے پہلے کے جملوںمیں تمام ضمیریں مؤنث کی ضمیریں ہیں جبکہ اس آیت میں خدا فرماتاہے (لِیُذْھِبَ عَنْکُمْ) اور بظاہر اس کی کوئی وجہ نظر نہیںآتی کہ اگر اُن ہی سے خطاب تھا تو ضمیر اور آیت کاسیاق و لہجہ کیوںبدل دیا گیا ۔اس کے علاوہ شیعہ اور اہلسنّت کی ستّر سے زیادہ صحیح اور غیر صحیح طریقہ سے نقل ہونے والی روایتیں ہیں (جن میں بیشتر (روایتیں بہ ظاہراہلسنّت سے نقل ہوئی ہیں )اور ان سبھی میں کہا گیاہے کہ یہ آیت ”خمسہ طیّبہ ”یا ”پنجتن پاک” سے مخصوص ہے اور یہ جملۂ شریفہ تمام جملوں سے جدا اور مستقل طور پر خمسۂ طیبّہ کی شان میں نازل ہواہے ۔اگر ہم اس بارے میں فریقین کے طریقہ سے نقل ہونے والی ستّر روایتوں پر اعتماد نہ کریں تو پھر کس چیز پر اعتماد کریںگے ؟!اس بناء پر کسی بھی با انصاف محقق کیلئے کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا کہ یہ آیت، خمسۂ طیبّہ کی شأن میں نازل ہوئی ہے اور ان کی مخصوص طہارت پر دلالت کرتی ہے جس کوہم ”عصمت”کہتے ہیں اور جودلیل کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے یعنی گناہان صغیرہ اور کبیرہ سے پاک ہونا اور یہ ارادۂ تکوینی الٰہی کا مقتضی ہے ۔خداوند عالم کے ارادۂ تکوینی کا مطلب یہ ہے کہ عصمت و طہارت یقیناً متحقق ہوگی اور ہوئی ہے البتہ اسکامطلب جبر نہیں ہے اور ہم نے الٰہی ارادہ کی بحث میں یہ واضح کردیا ہے کہ خداوندعالم کا تکوینی ارادہ ،چاہے وہ عالم میں پوراہوچکاہویا پوراہونے والا ہو،فاعل مختار کے اختیار سے ہوچاہے نظام جبرکے تحت قدرتی کا رندوں کے ذریعہ پورا ہوبہ ہر صورت پورا ہوتاہے لیکن الٰہی ارادہ فاعل مختار کے ارادہ کے طول میںہے نہ کہ عرض میں ۔ یہاں پر جب خدا فرماتاہے کہ اہل بیت علیہم السلام کی طہارت یقینی اور خداوند عالم کے ارادۂ تکوینی کے تحت ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مجبورہیںبلکہ ان کے لئے ضمانت لی گئی ہے کہ وہ خود اپنے اختیار سے گناہ نہیں کرتے اور وہ طاہر خلق ہوئے ہیں ۔لیکن نبی کی ازواج کا واقعہ بھی دلچسپ ہے جن روایتوں کو اہلسنّت نے نقل کیاہے ان میں قابل توجہ مطالب موجود ہیں مثال کے طورپر ”تفسیر ثعلبی ”میں عائشہ سے نقل ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تومیں نے پیغمبر اکرمۖ سے سوال کیا : أ انا مِنْ اَھلَ بَیْتِکَ ؟کیا میں آپ کے اہل بیت علیہم السلام میں سے ہوں ؟ آنحضرت نے فرمایا:(تنحی انت علی خیر)نہیں ، الگ ہی رہو، ام سلمہ سے نقل ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تومیں نے عرض کی کیا میں آپ کے اہل بیت علیہم السلا م میں سے ہوں تو آنحضرت ۖنے فرمایا : (انت علی خیر ) تم خیرپرہو،لیکن یہ نہیں فرمایا کہ تم میرے اہل بیت علیہم السلام میں ہو ۔ان روایتوں کو خود ازواج نے نقل کیا ہے کہ اس آیت میں ازواج نبی شامل نہیں ہیں لیکن دیگ سے زیادہ گرم چمچے پیدا ہوگئے اور کہتے ہیں کہ یہ آیت ازواج نبی کی شان میں نازل ہوئی ہے اور عصمت پر دلالت نہیں کرتی، خداوند عالم جو قابل ہدایت ہیں ان کی ہدایت فرمائے(انشاء اﷲ)اور جو ہدایت کے قابل نہیںہیں مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔