توحید کے معانی
اسی وجہ سے یہاں پر ہم اس بحث سے مناسب اصطلاحات کا ذکر کریں گے،
١۔تعدد کی نفی:توحید کی سب سے پہلی اور معروف اصطلاح خد ا کی وحدانیت کا اعتقاد رکھنا ہے نیز شرک صریح کے مقابلے میں تعدد خدا کی نفی ،یعنی دو یا دو سے زائد خدا کے وجود سے انکار اس طرح سے کہ ہر ایک کا وجود مستقل اور ایک دوسرے سے علیدہ ہو ۔
٢۔ ترکیب کی نفی :دوسری اصطلاح اس معنی میں ہے ، کہ اس کی احدیت نیز درون ذاتی کے اعتبار سے ، اس کے بسیط ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے یعنی ذات الھی ، بالفعل اور بالقوہ اجزاسے مرکب نہیں ہے ۔اس صفت کو زیادہ تر بصورت صفات سلبیہ بیان کیا جاتا ہے، جیسا کہ دسویںدرس میں اشارہ کیا جاچکا ہے، اس لئے کہ ہمارا ذہن مفہومِ ترکیب اور اس کے بطلان سے مفہوم بساطت کی بہ نسبت زیادہ آشنا ہے۔
٣۔زائد برذات صفات کی نفی۔تیسری اصطلاح ذات الٰہی کا صفات ذاتیہ کے ساتھ یگانگت اور صفات کے زائد برذات نہ ہونے کے معنی میں ہے، کہ جسے (توحید صفاتی) کہا جاتا ہے اور روایات میں ”نفیِ صفات” کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے جبکہ اشاعرہ صفات الٰہیہ کے زائد بر ذات اور قدماء ثمانیہ ہونے کے قائل ہیں۔توحید صفاتی کی دلیل یہ ہے کہ اگر تمام صفات الٰہی میں سے ہر ایک کے لئے جدا گانہ و علیحدہ مصداق فرض کر لئے جائیں تو چند صورتوں سے خا لی نہیں ہے،’پہلی صورت، یا ان صفات کے مصادیق ذات الٰہی میں یا داخل ہوں گے جس کا لاز می نتیجہ یہ ہوگا کہ ذات الٰہی کا اجزا سے مرکب ہونا لازم آئے گا کا مرکب کہلائے، جس کو ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ ایسا ہونا محال ہے یا وہ مصادیق ذات الٰہی سے جدا فرض کئے جائیں گے ایسی حالت میں یا تو وہ واجب الوجود ہوں گے یعنی وہ پیدا کرنے والے سے بے نیاز ہوں گے ، یا وہ ممکن الوجود ہوں گے کہ جس کے لیے ایک خالق کا ہونا ضروری ہے ، لیکن صفات واجب الوجود ہونے کا فرض تعددِ ذات اور شرک ِصریح کا موجب ہے، اور ہم یہ تصور نہیں کرسکتے کہ کسی مسلمان کا عقیدہ ایسا ہو گا، یا پھر صفات کا ممکن الوجود ہونے کا یہ مطلب ہے کہ خدا وند عالم ان صفات سے عاری ہے مزید بر آں ، وہ ان صفات کو خلق کرے اور پھر ان سے متصف ہوجائے جیسے اگر وہ حیات نہیں رکھتا لیکن وہ ایک موجود بنام ”حیات” خلق کرے ،اور اس طرح وہ حیات کا مالک بن جائے اسی طرح اس کی دوسری صفات بھی فرض کر لی جائیں، حالانکہ یہ امر محال ہے کہ علت وجود آفرین مخلوقات کے کمالات کا حامل نہ ہو اور اس فرضیہ سے بدتر، تو یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوقات کے ضمن میں علم و قدرت اور بقیہ صفات کمالیہ سے متصف ہو۔اس فرضیہ کے بطلان کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ خداوند عالم کے صفات زا ئد برذات نہیں ہیں بلکہ وہ عین ذات ہیں اور وہ ا یسے مفاہیم ہیں کہ عقل جس سے ایک مصداق بسیط کہ جسے ذات مقدس الٰہی رہتے ہیں اخذ کرتی ہے ۔
٤۔توحید افعالی۔فلاسفہ اور متکلمین کے نزدیک توحید کی چوتھی اصطلاح ”توحید ِافعالی” ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا اپنے امور کو انجام دینے میں نہ تو کسی شی کا محتاج ہے اور نہ ہی کسی بھی موجود میں اتنی استطاعت ہے کہ وہ اس کے امور میں اس کی مدد کر سکے۔یہ مطلب علت وجود آفرین کی خصوصیات یعنی ذات الٰہی کا تمام مخلوقات کے مقابلہ میں قیومیت سے متصف ہونے کی طرف توجہ کے ذریعہ سمجھ میں آجاتا ہے اس لئے کہ ایسی علت کا معلول اپنے تمام وجود کے ساتھ علت کے سہارے قائم ہوتا ہے اور بذات خود کسی بھی قسم کے استقلال سے عاری نہیں ہے۔ایک دوسری تعبیر کے مطابق جس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ خدا کا عطا کردہ ہے اور اسی کے دائرہ قدرت میں ہونے کے ساتھ اسی کی مالکیت حقیقی اورتکوینی کے زیر سایہ ہے، اور نیز خدا کی قدرت و مالکیت، قدرت الٰہی کا ایک جز بلکہ اس کے طول میں سے ہے نہ یہ کہ اس کی قدرت خداکی قدرت کے مدمقابل کسی مزاحمت کا باعث ہے ، جیسے کہ ایک غلام کی مالکیت مولیٰ کی اعتباری مالکیت کے زیر سایہ ہوتی ہے ”العبد و ماف یدہ لمولاہ” لہذاکیسے ممکن ہے کہ خدا ان مخلوقات محتاج و ضرورت مند ہو جو خود اسی کے ذات سے وابستہ اور اسی کے ذریعہ قائم ہیں؟!
٥۔تاثیر استقلالی۔توحید کی پانچویں اصطلاح اثر انداری میں استقلال ہے(١) یعنی مخلوقات اپنے امور میں ذات الٰہی سے بے نیاز نہیں ہیں، اور جو اثرات بھی ایک دوسرے پر ڈالتے ہیں وہ خدا کی دی ہوئی طاقت اور اس کی اجازت سے ہے در حقیقت جو ذات ہر شی سے بے نیاز ہو کر اپنے امور انجام د یتی ہے وہ ذات اقدس الٰہی ہے، دوسروں کی تاثیر اور فاعلیت، اسی کی تاثیر اور فاعلیت کے زیرِ سایہ ہے۔اسی وجہ سے قرآن کریم ،طبیعی اور غیر طبیعی فاعلوں (جیسے جن و انس اور ملک ) کی نسبت خدا کی طرف دیتا ہے اورفرماتا ہے کہ بارش کا برسنا، سبزہ کا اگنا اور درختوں کا پھل دینا یہ سب اسی کی طرف سے ہے اور اس بات کی تاکید کرتا ہے تا کہ لوگ اس بات کو درک کریں اور برابر خد ا کی طرف متوجہ رہیں،کہ امور کی نسبت خدا کی جانب تمام عوامل کی بہ نسبت قریب ہے تقریب ذہن کے لئے یہ مثال کافی ہے کہ اگر کسی محکمہ کا رئیس اپنے زیر دست خدمت گذاروں کو کسی امر کے انجام دینے کا فرمان صادر کرے جبکہ امور کا انجام دینا انھیں کار ی گروںپر موقوف ہے لیکن کاریگروں کے ذریعہ انجام دیئے گئے امور کی نسبت محکمہ کے رئیس کی طرف دی جاتی ہے بلکہ عقلا فرمان صادر کرنے والے کی طرف نسبت دینے کو قوی اور بہتر جانتے ہیں۔فاعل تکوینی کے بھی مراتب ہیں اور چونکہ کسی بھی فاعل کا وجود ارادۂ الٰہی کے ذریعہ قائم ہے، بالکل اسی طرح کہ جیسے صورت ذہنیہ کا وجود، تصور کرنے والے کے ذریعہ قائم ہے ”وللہ المثل الاعلی” لہٰذا اگر کسی فاعل سے کوئی اثرات ظاہر ہوتے ہیں تو وہ خدا کے اذن اور ا س کے ارادہ تکویتی کے سبب سے ہیں (ولا حول ولا قوّة الا باللّہ العل العظیم)………………………(١)عرفاء ”توحیدِ افعالی کو اس معنی میں استعمال کرتے ہیں.
دو مہم نتیجے۔توحید ِافعالی کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان خدا کے علاوہ کسی بھی موجود کو لائق عبادت نہ سمجھے، اس لئے کہ صرف انسان کا خالق اور اس کا رب لائق پرستش ہے اور بس، یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق الوہیت ،خالقیت اور ربوبیت کا لازمہ ہے۔اس کے علاوہ انسان کا تمام اعتماد خدا پر ہونا چاہیے اور اپنے تمام امور میں اسی پر توکل کر نا چاہیے ،اور صرف اسی سے مدد مانگنا چاہیے اور اس کے علاوہ کسی دوسرے کا خوف دل میں نہیں آنا چاہیے نہ کھائے یہاں تک کہ جب اس کی احتیاجات کو پورا کرنے والے اسباب کا وجود نہ ہو تو تب بھی نا امید نہ ہو اس لئے کہ خدا غیر عادی راہوں سے اس کی احتیاجات کو پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ایسا انسان ولایت خاصہ کے سایہ میں ہوتا ہے اور بے نظیر روحی اطمینان سے برخوردار ہوتا ہے (اَلََا اِنَّ اَولِیَا ئَ اللّہِ لَا خَوف عَلَیہِم وَلَا ہُم یَحزَنُونَ).(١)آگاہ ہوجاؤ اس میں شک نہیں، کہ دوستان خد ا ( قیامت میں ) نہ کوئی خوفہوگا اور نہ وہ آزردہ خاطر ہوں گے۔(اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ اِیَّاکَ نَستَعِینُ)اس آیہ شریفہ میں یہ دو نتیجے موجود ہیں، جسے ہر مسلمان روزانہ کم از کم دس مرتبہ تلاوت کرتا ہے۔
شبہ کا جواب۔اس مقام پر شاید ذہن میں یہ شبہ اٹھے کہ اگر توحید کامل کا اقتضا یہ ہے کہ انسان خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے مدد طلب نہ کرے تو پھر اولیاء الٰہی سے بھی مدد طلب کرنا صحیح نہیں ہوگا۔………………(١)سورۂ یونس۔ آیت/ ٦٢.اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ اگر اولیاء الٰہی سے توسل اسی عنوان کے تحت ہو کہ وہ خدا سے ماوراء ہو کے مستقل حثیت سے مدد کرتے ہیں تو ایسا توسل توحید سے سازگار نہیں ہے، لیکن اگر اس عنوان کے تحت ہو کہ خدا نے انھیں اپنی رحمت تک پہنچنے کا وسیلہ اور بندوں کو ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے تو یہ تصور نہ صرف یہ کہ توحید کے منافی نہیں ہے اس کا شمار عبادت و اطاعت خدامیں ہے، اس لئے کہ یہ توصل اسی ذات الٰہی کے اذن سے انجام دیا گیا ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ خدا نے کیوںایسے وسائل بنائے ؟اور کیوں لوگوں کو ان سے توسل کا حکم دیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام احکام حکمتوں پر مبنی ہیں جن میں سے بعض حکمتوں کو یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ۔١۔ لائق بندوں کے مقام کو پہچنوانا ۔٢۔ لوگوں کو ان کے مقام تک لے جانے کے لئے انھیں شوق دلانا۔٣۔ لوگوں کو اپنی عبادتوں پر مغرور ہونے اور اپنے آپ کو کمالات کے آخری مراتب پر فائز ہونے کے تصور سے روکنا وغیرہ، جیسا کہ وہ لوگ جو ائمہ علیہم السلام سے توسل کے منکر تھے وہ اسی طرح کے تصورات کی وجہ سے گمراہ ہوئے ہیں جس کی مثالیں بے شمار ہیں۔