جبرو اختیار

238

لیکن اس مطلب کو سمجھنے کے لئے رشد فکری ا ور عقلی بالیدگی کے علاوہ صحیح تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے، اسی وجہ سے وہ لوگ جو عقلی بالیدگی سے متصف نہیں تھے یا ان کی تعلیم میں نقص تھا یعنی جھنوں نے معصوم رہنماؤں، اور قرآن کے حقیقی مفسرین سے استفادہ نہیں کیا ، انھوں نے ، اس مطلب کو سمجھنے میں غلطی کی، اور یہ سمجھ بیٹھے کہ تمام اثرات اور علیت صرف اور صرف خدا سے وابستہ ہے نیزاسی سے مخصوص ہے اور قرآن کریم کی صریح آیات کے برخلاف انھوں نے اسباب و وسائط سے ہر قسم کی تاثیر اور علیت کی نفی کی ہے اور اس طرح ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ مثلاً الٰہی طریقہ کار یہ ہے کہ جب آ گ کا موجود ہو گا تو اس کی حرارت بھی پائی جائے گی اسی طرح کھانا کھاتے وقت سیری اور پانی پیتے وقت سیرابی کا وجود ضروری ہے ، وگرنہ ایسا نہیں ہے کہ آگ ، حرارت پیدا کرنے میں موثر ہے یا کھانا اور پانی ، سیری و سیرابی کے حاصل ہونے میں کرئی رول ادا کرتے ہیں ہیں ۔اس انحراف فکری کے برے نتائج اس وقت آشکار ہوتے ہیں کہ جب ہم ان نتائج کو انسان کے افعالِ اختیاری اوراس کی ذمہ داریوں کے تحت تجزیہ و تحلیل قرار دیتے ہیں اور اس کے سلسلہ میں تحقیق وجستجو کرتے ہیں، یعنی ایسی فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کے تمام افعال خدا سے منسوب ہوں، اور ان امور کے تحت انسان کی فاعلیت سلب ہوجائے ،لہذا اس صورت میں کوئی بھی اپنے عمل کے مقابل میں ذمہ دار نہیں ٹھہر سکتا۔ایک دوسری تعبیر کے مطابق اس کج اندیشی کا تباہ کن نتیجہ جبر ہے یعنی انسانوں کا اپنے اعمال کے سبب کسی بھی ذمہ داری سے بری ہونا ہے، جس کی وجہ سے تمام نظام، خواہ اخلاقی ہوں یا تربیتی، فردی ہوں یا اجتماعی، بلکہ تشریعی نظام تو سرے ہی سے باطل ہوجاتے ہیں، اس لئے کہ جب انسان اپنے امور میں اختیار کا مالک نہ رہا تو پھر اس کے لئے وظیفہ، تکلیف، امر، نہی، ثواب و عذاب وغیرہ کا کوئی مطلب ہی نہیں رہتا، بلکہ اس فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ نظام تکوینی بے بنیاد ہوجا ئیں اس لئے کہ آیات قرآنی(١) اور احادیث کے علاوہبراہین عقلی سے جو مطلب سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ جہان کی خلقت کا ہدف ا نسان کیخلقت کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے تا کہ یہ انسان اپنے اختیارات کے ذریعہ عبادت و اطاعت اور بندگی کے ذریعہ کمالات کے عظیم درجات اور قرب پروردگار کا مالک بن جائے ،اور اس کے اندر پروردگار کی خصوصی رحمت کے مالک بننے کی صلاحیت پیدا ہوجائے لیکن اگرانسان تمام ذمہ داریوں سے بری ہو اور اسے کرئی ا ختیار نہ ہو تووہ رضوان الٰہی، اور خدا کی جاودانی نعمتوں سے سرفرازی کا اہل نہیں ہو سکتا ۔…………………………………١۔ان آیات کی طرف مراجعہ کریں۔ سورۂ ہو۔د آیت/ ٧ ۔سورۂ ملک ۔آیت /٢۔ سورۂ کہف ۔آیت/ ٧۔ سورۂ ذاریات۔ آیت /٥٧۔ سورۂ توبہ ۔آیت/ ٧٢اور اس طرح ھدف خلقت کا نقض ہونا لازم آئے گا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خلقت کیمشینری ایک کھلونا بن جائے، اور پھر جبری انداز میں کچھ انسان خلق ہوں، اور چند حرکات و افعال کےنتیجہ میںبعض کو سزااوربعض کو جزا دے دی جائے ،جبکہ ان امر کی انجام دہی میں سارا نقش اسی مشینری کا ہے اور انسان مجبور ہے۔اس فکر کے پھیلنے میں مہم ترین عامل ظالم حکومتوں کے برے مقاصد ہیں، جو اپنے ناشائستہ امور کو اس فکر کے ذریعہ عملی جامہ پہناتے تھے، جو اس حربہ کو کمزوروں پر اپنی برتری کے لئے اور مظلوموں کے قیام کو دبانے کے لئے استعمال کرتے تھے، یقیناً ایسے نتائج کے پیش نظر، ملتوں کو خواب غفلت میں رکھنے کے لئے جبر کو ایک خطرناک سبب ماننا ہوگا۔اس کے علاوہ وہ لوگ جو تھوڑا بہت اس نظریہ کے نقطہ ضعف سے آشنا تھے لیکن توحید کامل اور نفی جبر کے درمیان کوئی راہ حل نکالنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اورنہ ہی اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات سے استفادہ کرتے تھے، لہٰذا تفویض کے قائل ہوگئے، اورانسان کے اختیاری افعال کو فاعلیت الٰہی کے دائرے سے خارج سمجھ بیٹھے اور اس طرح سے وہ اشتباہ میں مبتلا ہوگئے، اور یوں اسلام کے عظیم معارف اور اس کے فوائد سے محروم ہوگئے۔لیکن وہ لوگ کہ جو ایسے عظیم معارف کو درک کرنے کی استعداد سے سرفراز تھے اور قرآن کے حقیقی مفسرین کی معرفت حاصل کر چکے تھے، وہ اس کج فکری سے محفوظ رہ گئے ،اورچونکہ اپنی فاعلیت اختیاری کو اس قدرت کے سایہ میں دیکھا جسے خدا نے انھیں عطا کیا تھا لہٰذا اس قدرت کی وجہ سے حاصل ہونے والے افعال کی ذمہ داری قبول کرلی، اور اس کے علاوہ خدا کی جانب سے تاثیر استقلالی کو درک کرلیا، اور اس طرح ایسے مفید نتائج کے حصول میں کامیاب ہوگئے۔خاندان نبوت سے حاصل ہونے والی روایات میں اس بحث کے آثار ملتے ہیں، احادیث میں استطاعت جبرو تفویض کے عنوان کے تحت اور اس کے علاوہ اذن، مشیت، ارادہ، قضا وقدر الٰہی کے ابواب میںذکر کیا گیا ہے۔ان مطالب کے علاوہ بعض روایتوں میں ا یسے لوگوں کو ان مسائل میں غور و فکر کرنے سے روکا گیا ہے کہ جو فکر ی اعتبار سے ضعیف ہیں تا کہ وہ گمراہ ہونے سے محفوظ رہیں۔ہاں، جبرو اختیار کے مختلف اقسام ہیں کہ جن میں سے ہر ایک کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو اس کتاب کے ہدف سے خارج ہے، لہٰذا اس موضوع کی اہمیت کی وجہ سے ان میں سے فقط بعض مسائل کو ذکر کریں گے اور ان لوگوں کو ہماری یہ تلقین ہے کہ جو مزید تحقیق کے خواہاں ہیں کہ وہ مبانی عقلی و فلسفی کو سمجھنے میں صبر سے کام لیں۔
اختیار کی وضاحت۔ارادہ کی قوت ، امور یقینی میں سے ہے ،کہ جو ہر انسان میںپائی جاتی ہے، اس لئے کہ ہر انسان خطا ناپذیر علم حضوری کے ذریعہ اسے اپنے وجود میں درک کر تا ہے، جیسا کہ اسی علم کے ذریعہ اپنی بقیہ روحی خصوصیات کا پتہ لگاتا ہے یہاں تک کہ علم حضوری ہی کے ذریعہ کسی امر کے سلسلہ میں شک کا بھی احساس کر تا ہے، اور اسے درک کرنے میں کوئی شک نہیں کرتا۔اسی طرح انسان ایک معمولی توجہ کے ذریعہ اپنے وجود میں اس بات کا احساس کرتا ہے کہ وہ تکلم کرسکتا ہے یا نہیں، غذا تناول کرسکتا ہے یا نہیں ، ہاتھوں کو حرکت دے سکتا ہے یا نہیں۔کسی بھی امر کو انجام دینے کا ارادہ بنانا کبھی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ہوتا ہے جیسے کہ ایک بھوکا کھانا کھانے کا رادہ کرتا ہے، یا ایک پیاسا پانی پینے کا ارادہ کرتا ہے اور کبھی عقلی آرزوئوں کو پورا کرنے اور انسانی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ارادہ کیا جاتا ہے جیسے کہ ایک مریض اپنی سلامتی حاصل کرنے کے لئے تلخ دوائیں کھاتا کرتا ہے، اور لذ یذ غذائوں سے پرہیز کرتا ہے، یا ایک محقق اپنے مقصود کی تلاش میں مادیات سے چشم پوشی کرتا ہے اوربے شمار زحمتیں تحمل کرتا ہے یا ایک فدا کار فوجی اپنے ہدف تک پہنچنے میں اپنی جان کو بھی قربان کردیتا ہے۔در اصل انسان کی عظمتوں کا اندازہ ا س وقت لگتا ہے کہ جب مختلف خوا ہشیں جمع ہوں ، اور اس کے بعد انسان، فضائل اخلاقی، کرامت نفسانی ، اورقرب خداوندی و رضوان الٰہی کو حاصل کرنے کے لئے اپنی پست اور حیوانی خواہشات سے چشم پوشی کر لے ، اس لئے کہ کوئی بھی عمل جس قدر دلچسپی اور کامل ارادہ سے انجام دیا جائے گا ، اسی کے مطابق روحی تکامل یا تنزل حاصل ہو گا ، اور اسی اعتبار سے جزاء و سزا کا مستحق ہوگا ۔البتہ نفسانی خواہشات کے مقابل میں ٹھہر نے کی طاقت تمام انسانوں میں برابر نہیں ہے لیکن تمام انسانوں میں یہ (ارادہ) موہبت الٰہی موجود ہے انسان اگر چاہے تو تمرین کے ذریعہ اسے قوی بنا سکتا ہے۔لہٰذا ارادہ کے موجود ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور مختلف طرح کے شبہات ذہن میں پیدا ہونے کی وجہ سے ارارہ جیسے امرِ وجدانی کے سلسلہ میں شک و تردید نہیں ہونا چاہئے اور جیسا کہ ہم نے اشارہ کردیا ہے کہ اختیار کا وجود ایک آشکار اصل کے عنوان سے تمام ادیانِ آسمانی، شرائع، اور تربیتی و اخلاقی نظاموں میں قبول شدہ ہے اور اس کے بغیر وظیفہ، تکلیف امر، نہی، جزا و سزا کا کوئی مطلب نہیں ہے۔وہ امور جو اس حقیقت سے انحراف کا باعث ہوتے ہیں اور جبر سے لگائو کا سبب بنتے ہیں ہمیں ان کا جواب دینا ضروری تا کہ اس وسوسہ کا خاتمہ ہوجائے لہٰذا اس مقام پر چند شبہات کے جوابات پیش کئے جا رہے ہیں ۔
شبہات کے جوابات۔جبریوں کے مہم ترین شبہات درج ذیل ہیں۔١۔ انسان کاا رادہ باطنی میلانات کا نتیجہ ہے، اور یہ میلانات نہ انسان کے اختیار میںہیں اور نہ ہی ان کے ظہور میں کوئی خارجی عامل سبب بنا ہے، لہذا اس طرح اختیار اور انتخاب کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا۔٢۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ میلانات کا اٹھنا ارادہ کے بننے کا سبب ہے نہ یہ کہ کسی امر کو انجام دینے کے لئے کسی ارادہ کے وجود کا سبب ہے، جبر کا نتیجہ یہ ہے ،کہ جب خواہشات ظہور کریں تو مقاومت کی قوت سلب ہوجائے ،حالانکہ بہت سے امور میں انسان شک کرتا ہے کہ اسے انجام دے یا نہ دے اور کسی بھی امر کو انجام دینے کے لئے غور و فکر کی ضرورت ہے جو کبھی سود و منفعت ،تو کبھی دشواری کا سبب ہے۔٢۔مختلف علوم میں یہ امر ثابت ہوچکا ہے کہ مختلف عوامل جیسے وراثت، (غذائیات اور دوائوں کے نتیجہ میں) غدود کے ترشحات، ا جتماعی عوامل، انسان کے ارادہ کے موجود ہونے کا سبب بنتے ہیں، اور انسانوں کے اخلاق کا بدلنا انھیں عوامل کے اختلاف کا سبب ہے جیسا کہ دینی متون میں بھی اسی مطلب کی طرف تاکید کی جاتی ہے، لہٰذا انسانی افعال کو آزاد، ارادہ کا نتیجہ نہیں کہا جا سکتا۔اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ آ ذاد ارادہ کو قبول کرلینے کا مطلب ان عوامل کی اثر گذاری کا منکر ہونا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ان عوامل کے ہوتے ہوئے بھی مقاومت کرسکتا ہے اور مختلف خواہشات کے جمع کے دوران کسی ایک کا انتخاب کرسکتا ہے۔البتہ یہ امر مسلم ہے کہ کبھی کبھی یہ عوامل انتخاب میں دشواری کا سبب بنتے ہیں لیکن اس کے باوجود مقاومت کرنا اور کسی ایک کا انتخاب کرلینا ،کمال میں تاثیر اور جزا کے مستحق ہونے کا سبب ہوتا ہے، جیسا کہ غیر معمولی ہیجانات سزا کے کم ہونے اور جرم میں تخفیف کا باعث ہوتے ہیں۔٣۔ خدا تمام موجودات منجملہ افعالِ انسان کے وقوع سے پہلے پوری طرح ان سے آگاہ ہے،اورعلم الٰہی میں کسی قسم کی خطا کا کوئی امکان نہیں ہے،لہذا تمام حوادث، علم الٰہی کے مطابق واقع ہوتے ہیں، اور اس کے مخالف ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے،لہٰذااس مقام میں انسان کے ارادہ اور اختیار کا کوئی مطلب باقی نہیں رہتا ۔اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ علم الٰہی ہر اس حادثہ سے متعلق ویسا ہی ہے جیساکہ واقع ہونے والا ہے، اور انسان کے افعال اختیاری وصف اختیاریّت کے ہمراہ خدا کے نزدیک معلوم ہیں پس اگر یہ افعال وصف جبریت کے ساتھ واقع ہوں تو علم الٰہی کے خلاف واقع ہوں گے۔جیسے خدا کو معلوم ہے کہ فلاں شخص فلاں وقت میں ایک عمل کو انجام دینے کا ارادہ بنانے والا ہے اور اسے ضرور انجام دے گا، یہاں پر ہمارا مطلب یہ نہیں ہے کہ علم صرف وقوع فعل سے متعلق ہے بلکہ وہ ارادہ اور اختیار سے بھی مربوط ہے لہذا علم الٰہی انسان کے آزاد ارادہ اور اس کے اختیار سے کوئی منافات نہیں رکھتا۔جبریوں کا ایک دوسرا شبہ قضا و قدر کے سلسلہ میں ہے ان کے اعتقاد کے مطابق انسان کے اختیار سے سازگار نہیں ہے اور ہم آئندہ مقالات میں اس مطلب کے تحت گفتگو کریں گے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.