انبیاء علیہم السلام کی خصوصیات
انبیاء علیہم السلام کی کثرت۔اب تک ہم نے مسائل نبوت میںسے تین مسئلہ کے تحت بحث کی ہے اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرنے میں اُن معلومات کا بنیادی نقش ہے کہ جنھیں معلوم کرنے میں علومِ بشری ناکافی ہیں، اس مشکل کے تحت حکمت الٰہی کا تقاضایہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری رکھے اور انھیں ضروری حقائق کی تعلیم دے تا کہ وہ انھیں صحیح و سالم تمام انسانوں تک پہنچادیں، اس کے علاوہ ا سے لوگوں کے سامنے اس طرح بیان کر ے کہ اُن پر حجت تمام ہوجائے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے سب سے عمومی راستہ معجزہ ہے۔ہم نے اِن مطالب کو عقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کیا ،لیکن یہ دلائل انبیاء علیہم السلام کے متعدد ہونے اور آسمانی کتابوں کے متعدد ہونے کو ثابت نہیں کرسکتے، اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ بشری زندگی اس طرح ہوتی کہ ایک ہی رسول اُس کی ضرورتوں کو کائنا ت کے ختم ہونے تک اِس طرح پورا کردیتا کہ ہر فرد اور گروہ اُسی ایک رسول کے ذریعہ پیام اسلام کو اخذ کرتا تو یہ امر اُن دلائل کے تقاضے کے خلاف نہ ہوتا۔لیکن ہمیںمعلوم ہے کہپہلے یہ کہ ، ہر انسان کی عمر خواہ نبی ہو یا غیر نبی محدود ہے لہٰذا حکمت الٰہی کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ایک ہی رسول جہان کے ختم ہونے تک زندہ رہے اور خود ہی تمام انسانوںکی ہدایت کا فریضہ انجام دے۔دوسرے یہ کہ : بشر کی زندگی مختلف حالات اور ادوار میں کبھی بھی ایک جیسی نہیں رہتی لہٰذا شرائط کا مختلف او ر متغیر ہوتے رہنا خصوصاً روابط اجتماعی کا پیچیدہ ہونا احکام اور اجتماعی قوانین کے درمیان میں اثر ا نداز ہے، بلکہ بعض حالات میںجدید قوانین کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا اگر یہ قوانین اسی رسول کے ذریعہ بیان ہوتے جو ہزاروں سال پہلے مبعوث ہوئے تھے تو یہ ایک غیر مفید امر ہوتا اور انھیں ان کے مقامات پر جاری کرنا اور ہی زیادہ سخت ہوتا۔تیسرے یہ کہ : اکثر زمانوں میں مبعوث ہونے وا لے رسولوں کو اپنی تبلیغ کے لئے حالات اور شرائط ایسے نہیںتھے جو اپنے پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچا سکتے۔چوتھے یہ کہ :جب بھی ایک رسول کسی قوم کی جانب مبعوث ہوتا تھا تو اس کی تعلیمات کو زمانہ کے گذرنے کے ساتھ بدل دیا جاتا اور ا ُس میں تحریف کردی جاتی تھی(١) اورآہستہ آہستہ ایک رسول کا لایا ہوا دین انحراف کا شکار ہوجاتا تھا، جس طرح کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جس دین کی طرف لوگوں کو دعوت دی تھی وہی دین ان کے بعد انحراف سے دو چار ہوگیا اور تثلیث جیسے عقائد اُس دین کے جزبن گئے۔ان نکات کے پیش نظر انبیاء علیہم السلام کا متعدد ہونا اور شریعتوں کا بدلتے رہنا اور بعض احکامات میں اختلافات کا راز سمجھ میں آجاتا ہے،(٢) لیکن ان سب شر یعتوں میں اصول عقائد اور………………………………(١)ایسے نمونہ سے آگاہی کے لئے علامہ شیخ محمد جواد بلاغی کی کتاب ”الھدایٰ الی دین المصطفیٰ” کی طرف رجوع کیا جائے.(٢)سورۂ بقرة ۔آیت /١٣١۔ ١٣٧۔ ٢٨٥، سورۂ آل عمران۔ آیت/ ١٩۔ ٢٠.مبانی اخلاقی کے اعتبار سے فردی و اجتماعی احکامات میں ھماھنگی تھی مثلاً نماز تمام شریعتوں میں تھی اگر چہ ان نمازوں کی کیفیت متفاوت اور ان کے قبلہ مختلف تھے یا زکوٰة اور صدقہ دینا تمام شریعتوں میں تھا اگر چہ اس کی مقدار میں اختلاف تھا۔بہر حال تمام رسولوں پر ایمان لانا اور نبوت کی تصدیق کے ساتھ اُن میں کسی فرق کے قائل نہ ہونا نیز اُن پر نازل ہونے والے تمام پیغامات اور معارف کو قبول کرنا نیز اس علاوہ ان میں یکسانیت کا قائل ہونا ہر انسان پر لازم ہے،(١) ایک نبی کا ا نکار تمام انبیاء علیہم السلام کے انکار کے برابر اور کسی ایک حکم کا منکر ہونا تمام احکامات الٰہیہ کے منکر ہونے کے مساوی ہے(٢) البتہ کسی بھی اُمت کے لئے کسی بھی زمانہ میں اسی دور کے نبی کے احکامات کے مطابق وظائف معین ہوتے رہے ہیں ۔جس نکتہ کی طرف یہاں پر اشارہ کرنا لازم ہے وہ یہ ہے کہ اگر چہ عقل ،مذکورہ نکات کے کے تحت انبیا ء علیہم السلام اور شریعتوں کے متعدد ہونے کے راز کو معلوم کر سکتی ہے لیکن اصل راز کا پتہ نہیں لگا سکتی ،کہ کیوں؟ کب؟ کیسے؟ کسی دوسرے نبی کی بعثت یا کسی جدید شریعت کی ضرورت ہے ، فقط اس حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب بھی بشر کی زندگی اس طرح ہو، کہ ایک نبی کے پیغامات تمام انسانوں تک پہنچ سکیں اور اس کے پیغامات آنے والوں کے لئے محفوظ رہ جائیں، نیز اجتماعی شرائط اس طرح متغیر نہ ہوں، کہ کسی جدید شریعت یا احکامات کلی میں تبدیلی کی ضرورت پڑے، تو ان حالات میں کسی جدید نبی کی بعثت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔……………………(١) سورۂ شوریٰ۔ آیت/ ١٣ ، سورۂ نساء ۔آیت /١٣٦ ١٥٢، سورۂ آل عمران۔ آیت/ ٨٤ ٨٥(٢) سورۂ نسائ۔ آیت /١٥٠، سورۂ بقرہ ۔آیت /٨٥
انبیاء علیہم السلام کی تعداد۔جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کردیا ہے کہ ہماری عقل انبیاء علیہم السلام اور آسمانی کتابوں کی تعداد کا اندازہ نہیں لگا سکتی ، بلکہ اُسے صرف نقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ہے اور قرآن کریم میں اگر چہ یہ خبر موجود ہے کہ ہر اُمت کے لئے ایک نبی ضرور مبعوث ہوا ہے(١) لیکن اِ س کے باوجود قرآن نے اُن کی تعداد کو معین نہیں کیا ہے بلکہ اُن میں سے صرف ٢٤ رسولوں کا نام آیا ہے اور اُن میں سے بھی بعض رسولوں کی داستانوں کی طرف فقط اشارہ کیا گیا ہے اِس کے علاوہ اُن میں بھی بعضنبیوں کے اسماء ذکر نہیں کئے گئے،(٢) لیکن معصومین علیہم السلام کی طرف سے منقول روایتوں کے مطابق خدا نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کو مبعوث کیا ہے(٣) جن کا سلسلہ حضرت آدم ابوالبشر علیہ السلام سے شروع اور حضرت محمد ۖ پر ختم ہوتاہے۔خدا کی طرف سے بھیجے گئے رسول ،نبی ہونے کے علاوہ نذیر، منذر، بشیر، مبشر(٤) جیسے صفات کے بھی حامل تھے نیز صالحین و مخلصین میں اُن کا شمار ہوتا تھا ،اور ان میں سے بعض منصب رسالت پر بھی فائز تھے بلکہ بعض روایتوں کے مطابق منصب رسالت پر فائز نبیوں کی تعداد ( تین سو تیرہ) ذکر کی گئی ہے۔(٥)اسی وجہ سے اس مقام پر مفہوم نبوت وامامت اورنبی و رسول کے درمیان فرق کو بیان کر ر ہے ہیں ۔……………………………(١)سورۂ فاطر۔ آیت/ ٢٤، سورۂ نحل۔ آیت/ ٣٦(٢) سورۂ بقرہ ۔آیت /٢٤٦ ٢٥٦.(٣) رجوع کیا جائے رسالۂ اعتقادت صدوق اور بحار الانوار (طبع جدید) ج١١ ص ٣٢٣٠٢٨ ٤٢.(٤)سورۂ بقرة۔ آیت /٢١٣، سورۂ نسائ۔ آیت /١٦٥(٥)بحار الانوار ۔ج٨١١ص ٢٨، ٣٢
نبوت اور رسالت۔کلمہ ”رسول” پیغام لانے والے کے معنی میں ہے اور کلمۂ ”نبی” اگر مادۂ ” نباء سے ہے تو اہم خبر کے مالک ، اور اگر مادہ ٫٫نبو ،، سے ہے تو بلند و بالا مقام والے کے ہیں ۔بعض لوگوں کا گمان ہے کہ کلمہ نبی کلمہ رسولۖ سے اعم ہے یعنی نبی وہ ہے کہ جس کی طرف خدا کی جانب سے وحی کا نزول ہو اور اُسے لوگوں تک پہنچانے میں وہ مختار ہے لیکن رسولۖ وہ ہے کہ جس پر وحی کو لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے۔لیکن یہ صحیح نہیں ہے اس لئے کہ قرآن میں بعض مقامات پر نبی کی صفت رسول کی صفت کے بعد مذ کو ر ہے(١) حالانکہ قاعدہ کے مطابق جو چیز عام ہو اسے خاص سے پہلے ذکر ہونا چاہیے اس کے علاوہ رسول ۖ کے لئے ابلاغ وحی کے لئے وجوب پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔بعض روایتوں میں وارد ہو اہے کہ مقام نبوت کا تقاضا یہ ہے کہ نبی فرشتہ وحی کو خواب میں مشاہدہ کرتا ہے اور بیداری میں صرف اس کی آواز سنتا ہے جبکہ مقام رسالت کا حامل شخص بیداری میں فرشتہ وحی کو مشاہدہ کرتا ہے۔(٢)لیکن اس فرق کو مفہوم لفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے قبول نہیں کیا جا سکتا ، بہر حال جس مطلب کو قبول کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ” نبی” مصداق کی رو سے (نہ مفہوم کے لحاظ سے) رسول، سے عا م ہے، یعنی تمام ر سول مقام نبوت سے سرفراز تھے لیکن مقام رسالت صرف کچھ خاص انبیاء علیہم السلام سے مخصوص تھا جن کی تعداد ( ٣١٣) ہے، بس رسولوں کا مقام نبیوں کے مقابلہ میں بلند ہے جیسا کہ خود ،تمام ر سو ل فضیلت کے اعتبار سے ایک جیسے نہیں تھے(٣) بلکہ ان میں سے بعض مقام امامت سے بھی سزاوار تھے۔(٤)…………………………(١) بحار الانوار ج١١ ص٣٢ (٢) اصول کافی ج١ ص١٧٦(٣) سورۂ بقرہ۔ آیت /٣٥٣ سورۂ بنی اسرائیل۔آیت/٥٥ (٤)سو رہ بقرہ۔ آیت/ ١٢٤ سورۂ انبیاء ۔آیت/ ٧٣، سورۂ سجدہ۔ آیت/ ٢٤.
اولوالعزم انبیاء علیہم السلام۔قرآن کریم نے بعض رسولو ں کو اولوالعزم کے نام سے یاد کیا ہے لیکن اُن حضرات کی خصوصیات کو بیان نہیں کیا ہے: روایتوں کے مطابق اولوالعزم پیغمبروں کی تعداد پانچ ہے (١) حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، اور حضرت محمد مصطفیٰ ۖ (٢) قرآن کے بیان کے مطابق اِن حضرات کی خصوصیات صبر و استقامت میں ممتاز ہونے کے علاوہ اُن میں سے ہر ایک مستقل کتاب اور شریعت کے مالک تھے نیز ہم عصر اور متأخر انبیاء علیہم السلام، اُن کی شریعتوں کی اتباع کرتے تھے مگر یہ کہ، کوئی دوسرا اولوالعزم رسول مبعوث ہو اورگذشتہ شریعت منسوخ ہوجائے اِسی ضمن میں یہ امر بھی روشن ہوگیا کہ ایک زمانہ میں دو ، پیغمبر اکٹھا ہو سکتے ہیں جیسا کہ حضرت لوط علیہ السلام جناب ابراہیم علیہ السلام کے ہم عصر، اور حضرت ہارون ـ جناب موسیٰ علیہ السلام ، کے ہم عصر اور حضرت یحییٰ علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہم وقت ، ہم زمان تھے۔
چند نکات۔اس درس کے آخر میں مسئلہ نبوت کے تحت فہرست وارچند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔الف: ہر نبی دوسرے نبی کی تصدیق اور اُس کے آنے کی پیشنگوئی کرتا تھا(٣) لہذا اگر کسی نبوت کا دعویٰ اور ہم عصر نبیوں یا گزشتہ رسولوں کی تکذیب کرے تو وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔……………………………(١)سورۂ احقاف ۔آیت ٣٥.(٢)بحار الانوار ج١١ ص٢٤ اور معالم النبوة آیت/ ١١٣.(٣)سورۂ آل عمران۔ آیت /٨١ب: انبیاء علیہم السلام اپنی تبلیغ کی وجہ سے لوگوں سے اجر طلب نہیں کرتے تھے (١) فقط رسول اکرم ۖ نے اجر رسالت کے عنوان سے اہل بیت علیہم السلام کی مودّت کی وصیت فرمائی تھی(٢) جس کی منفعت خود اُمت کے حق میں ہے(٣)۔ج: بعض انبیاء علیہم السلام منصب الٰہی کے مالک ہونے کے علاوہ قضاوت اور حکومت کے حق سے بھی سرفراز تھے جن میں سے حضرت داود ، اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا نام لیا جا سکتا ہے سورہ نساء کی ٦٥ آیت سے استدلال ہوتا ہے کہ ہر رسول کی اطاعت مطلقاً واجب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام رسول س مقام کے مالک تھے۔د: جن، جو مکلف اور مختار مخلوقات میں سے ہیں اور عادی حالات میں انسان کے لئے قابل دید نہیں ہیں، بعض انبیاء علیہم السلام کی دعوتوں سے باخبر ہوتے تھے اور اُن میں صالح افراد اُن کی دعوتوں پر ایمان بھی لائے تھے، اُن لوگوں کے درمیان حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت رسول اکرم ۖ کے پیرو موجود ہیں(٤) اور ان میں سے بعض ابلیس کی پیروی کرتے ہوئے انبیاء علیہم السلام کی تکذیب بھی کرتے ہیں۔(٥)……………………………(١)سورۂ انعام۔ آیت/ ٩٠سورۂ یس ۔آیت/٢١، سورۂ قلم۔ آیت /٤٢، سورۂ یونس۔ آیت/ ٧٢، سورۂ ہود۔ آیت /٢٩ ٥١، سورۂ فرقان ۔آیت /٧٥، سورۂ شعرائ۔ آیت /١٠٩، ١٢٧،١٤٥، ١٦٤، ١٨٠، سورۂ یوسف ۔آیت/ ١٠٤(٢)سورۂ شوریٰ۔ آیت/ ٢٣(٣) سورۂ سبا ۔آیت /٤٧(٤) سورۂ احقاف۔ آیت /٢٩، ٣٢(٥) سورۂ جن ۔آیت/ ١، ١٤