قیامت کا اثبات

226

اورتقریباً بیس سے زیادہ مقامات پر کلمہ ( اللّہ) اور( وَا لےَوم الاَخِر) کو ایک ساتھ استعمال کیا گیا ہے،اگرچہ دوہزار سے زیادہ آیات میں آخرت سے متعلق بحث کی گئی ہے۔اس جز کی ابتدا میں ہم نے عاقبت شناسی کے بارے میں تحقیق کی اہمیت پر حتی المقدور روشنی ڈا ل چکے ہیں،اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ قیامت کا صحیح تصور اس روح کو قبول کرنے پر موقوف ہے جو ہر انسان کی شناخت کا معیار ہے اور اس کا وجود موت کے بعد بھی باقی رہے گا ،تاکہ یہ کہا جا سکے کہ وہی شخص جو اس دنیا سے گیا ہے دوبارہ قیامت اور آخرت میں زندہ کیا جائے گا،پھر اس کے بعد عقل و وحی کے ذریعہ اس روح کو ثابت کیا گیا ہے تاکہ انسان کی ابدی زندگی کے بارے میں گفتگو کا راستہ ہموار ہو جائے اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اس اہم اعتقادی اصل کو ثابت کرنے کی کوشش کریں۔جس طرح مسئلہ روح کودو طریقوںعقل و نقل(آیات وروایات)کے ذریعہ ثابت کیا گیا ہے ، اسی طرح اس مسئلہ کو بھی انہیں دونوں طریقوں سے ثابت کریں گے،ہم سب سے پہلے قیامت کی ضرورت پر دو عقلی دلیلیں پیش کریں گے اور اس کے بعد بعض قرآنی ارشادات کو ضرورت اور امکان معاد کے سلسلے میں پیش کریں گے۔
برہان حکمت۔خدا شناسی کے باب میں وضاحت کی تھی کہ خدا کی خلقت بیکار اور بے مقصد نہیں ہے بلکہ خیر و کمال سے محبت کہ جو خدا کی عین ذات ہے بالاصالة اور اس کے آثار ہیں باالتبع،کہ جس میں خیر وکمال کے بعض مراتب پائے جاتے ہیں متعلق ہوتی ہے،اسی لئے دنیا کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ خیرو کمال کا کسب کرنا اس پر مبنی ہو ،اور اس طرح سے ہم نے حکمت کی صفت کو ثابت کیا، کہ اس کا تقاضہ یہ ہے کہ مخلوقات کو ان کے مناسب کمال اور مقصد تک پہنچایا جا سکے،لیکن چونکہ مادی دنیا مزاحمتوںاور ٹکرائو کا مقام ہے، مادی موجودات کے خیر وکمالات ایک دوسرے کے معارض ہیں لہذا خدا کی حکیمانہ تدبیر کا تقاضہ یہ ہے کہ ا س کو اس انداز سے مرتب اور منظم کرے کہ مجموعی اعتبار سے زیادہ سے زیادہ خیرات اور کمالات ا س پر مرتب ہوں،بلکہ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس دنیا میں بہترین نظام پایا جائے،اسی وجہ سے مختلف قسم کے عناصر اور ان کی مقدار و کیفیت ، فعل و انفعالات نیز اس کی حرکات و سکنات اس طرح منظم اور مرتب ہیں کہ سبزوں اور درختوں اور آخر میں اس دنیا کی سب سے کامل ترین مخلوق یعنی انسان کی خلقت کا زیادہ سے زیادہ موقع فراہم ہو جائے ،اور اگر یہ مادی دنیا اس طرح پیدا کی گئی ہوتی کہ موجودات زندہ کی پیدائش اور اس کے رشد کو ناممکن بنا دیتی، تو یہحکمت کے خلاف کام ہوتا۔اب ہم مزید اضافہ کرتے ہیں اس بات کے مد نظر کہ انسان کے اندر قابل بقا روح پائی جاتی ہے ،اور وہ ابدی و جاودانی کمالات کو حاصل کرسکتا ہے وہ بھی ایسے کمالات جس کا تقابل مادی کمالات سے نہیں کیا جاسکتا،اگر اس کی حیات اس د نیوی زندگی پر منحصر ہو جائے تو حکمت الٰہی کے ساتھ سازگار نہیں ہو سکتی،خاص طور سے اس بات کے پیش نظر کہ دنیاوی حیات بے شمار رنج و مصیبت اور سختیوں و پریشانیوں کے ہمراہ ہوتی ہے اور غالباًکو ئی بھی لذت بغیر رنج و مصیبت اور زحمت کے حاصل نہیں ہوتی،اس طرح حساب لگانے والے افراد ا س نتیجہ پر پہنحے ہیں کہ محدود لذتوں کو حاصل کرنے کے لئے ان سب زحمتوں اور پریشانیوں کا برداشت کرنا مفید نہیں ہے،اور انہیں محاسبات کے ذریعہ بیکاری اور بے مقصد زندگی کی طرف رجحان پیدا ہوتا ہے یہاں تک بعض لوگ زندگی سے شدید محبت رکھنے کے باوجود خود کشی کی منزل تک پہنچ جاتے ہیں در حقیقت اگر انسان کی زندگی اس کے علاوہ نہ ہوتی کہ مسلسل زحمتیں برداشت کرے، اور طبیعی و اجتماعی مشکلات سے ہمیشہ دست و گریباں رہے تاکہ چند لمحہ لذت و خوشی کے ساتھ گذارے، اور اس وقت خستگی اور تھکاوٹ کے باعث سو جائے تاکہ جس وقت اس کا جسم دوبارہ محنت کرنے اور کام کے لئے آمادہ ہو جائے(نیادن اور نئی روزی) تو پھر دو با رہ سعی و کو شش کر ے مثلاً ایک لقمہ رو ٹی حا صل کرلے اور اسے کھا نے کے ذریعہ ایک لمحہ کی لذت محسو س کرے اور اس کے علا وہ کچھ نہیں !ایسا تکلیف دہ اور رنج و ملا ل آور تسلسل کو عقل ہر گز پسند نہیں کر تی، اور نہ تو اس کے انتخا ب کا حکم ( فتوی) دیتی ہے، ایسی زندگی کی بہترین مثا ل یہ ہے کہ ایک ڈرا ئیو ر اپنی کا ر کو پٹر ول پمپ تک جا ئے اور پٹرو ل کی ٹنکی کو بھر نے کے بعد اس پٹر ول کو دوسرے پٹرول پمپ تک لیجانے میں صرف کر دے ،اور اس کام کو برابر انجام دیتا رہے یہا ں تک کہ اس کی کا ر پرا نی و بو سید ہ ہو جا ئے اور کام کر نا چھوڑ دے یا کسی اکسیڈنٹ یا دوسرے موانع کی وجہ سے تباہ ہو جائے ۔ظاہر ہے کہ انسان کی زندگی کے متعلق ایسا نظر یہ رکھنا بے مقصد بے ہدف ہونے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔دوسری طر ف انسان کی مہم اور بنیادی خو اہشا ت میں سے ایک بقااور جا ویدانگی ہے کہ جسے خدا ووند عا لم نے اس کی فطر ت میں قرار دیا ہے اورا یک ایسے محر ک اور قوت کے حکم میں ہے جو اسےابدیت کی طر ف لے جا تا ہے اور مسلسل اس کی رفتار میں اضا فہ کر تا رہتا ہے ایسے مو قع پر اگر یہ فر ض کیا جا ئے کہ ایسے محر ک اور تیز رفتا ری سے چلنے وا لے کا انجام سوا ئے اس کے کچھ نہیں ہے کہ وہ اپنی رفتا ر کی سر عت کی انتہا پر ایک مضبو ط پتھر سے ٹکر ا جا ئے اور پا ش ہا ش ہو کر ختم ہو جا ئے آیا ایسے انجام اور مقصد کے پیش نظر قو ت و سر عت و رفتا ر میں اضا فہ کر نا منا سب ہو گا ؟لہذا ایسا فطری رجحان اس وقت حکمت الہٰی کے سا تھ سا ز گا ر ہو گا کہ جب اس فا نی اور مو ت سے محکوم دنیا کے علا وہ کو ئی اور زندگی پا ئی جا ئے ۔حا صل کلا م یہ ہے کہ اپنی انھیںدو تمہید وں کے بعد یعنی حکمت اور انسان کے لئے ابدی زندگی کے امکان سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس محدود دنیا وی زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی انسان کے لئے ہو نی چا ہیے تا کہ حکمت الہٰی کی مخالفت نہ ہو ۔اور جا ودا نی زند گی کی طرف رجحا ن کو ایک دوسر ا مقدمہ قرار دیا جا سکتا ہے اور اس میں حکمت الہٰی کو ضمیمہ کر کے ایک دوسری دلیل بنا کر پیش کی جا سکتی ہے ۔اسی کے ضمن میں یہ با ت بھی رو شن ہو گئی ہے کہ انسان کی ابدی زندگی میں ایک دوسرا نظا م ہو نا چا ہیئے کہ جس میں دنیا وی حیا ت کی طر ح رنج و مصیبت نہ پا ئی جا ئے ورنہ یہی دنیا وی زندگی اگر ہمیشہ کے لئے ممکن ہو جا تی ، تب بھی حکمت خدا کے سا تھ سا زگا ر نہ ہو تی ۔
برہان عدا لت۔اس دنیا میں سا رے انسان اچھے اور بر ُے عمل کو انجام دینے میں آزاد ہیں ایک طر ف تو وہ لو گ ہیں جو اپنی پو ر ی زندگی خدا کی عبا دت اور بند گا ن ِخدا کی خد مت میں گذا ر دیتے ہیں،اور دوسری طر ف ایسے ایسے گنہگار اور بد کردا ر افراد نظر آتے ہیں جو اپنی شیطا نی خوا ہشا ت تک پہنچنے کے لئے بڑے سے بڑا ظلم اور بد سے بد تر گنا ہ کا ارتکا ب کر تے ہیں اور بنیا دی طو ر سے اس دنیا میں انسان کی خلقت کا مقصد اور اس کو مختلف متضا د رجحا نا ت اور ار ا دہ و انتخا ب سے اور مختلف عقلی و نقلی شنا ختو ں سےما لا مال کر دینے اور اس کی مختلف رفتا ر و کر دا ر کے لئے مو قع فر اہم کر نے اور حق و با طل اور خیر و شر کے دو ، را ہے پر لا کر کھڑا کر دینے کا مقصدو ہد ف یہ ہے کہ انسان بے شما ر امتحا نا ت اور آزمائشو ں سے گذ رے، اور اپنے کما ل کی را ہ کو اپنے ارا دہ و اختیا ر کے ذر یعہ انتخا ب کر ے، تا کہ اپنے اختیا ری اعمال کی جزا یا سزا پا سکے اور در حقیقت انسان کے لئے اس دنیا کی پو ری پو ری زند گی صر ف امتحا نا ت اور آزمائشیں اور اپنی شخصیت کو بنا نا ہے یہا ں تک کہ یہ انسان اپنی عمر کے آخر ی لمحے تک ان آزمائشا ت اور امتحا نا ت اور تکلیف کے انجام دینے سے معذور نہیں ہے ۔لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خدا کے نیک بندے اور گنہگا ر وظا لم اس دنیا میں اپنے کئے کی جزا یا سزا نہیں پا تے اور بسا اوقات دیکھتے ہیں گنہگا ر لو گ زیا دہ نعمتو ں سے سر فراز ہیں اور خو شحا ل زندگی بسر کر رہے ہیں،اور بنیادی اعتبار سے اس دنیاوی زندگی میں بہت سے ایسے اعمال ہیں جنکی جزا یا سزا کی گنجائش نہیں،مثلاً وہ شخص جس نے ہزاروں بے گناہ انسان کو قتل کردیا ہو اسکو ایک بار سے زیادہ قصاص نہیں کیا جا سکتا اور باقی تمام جرائم و فسادات اور سارے ظلم بغیر سزا کے رہ جائیں گے،حالانکہ عدل پروردگار کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر کسی نے چھوٹے سے چھوٹا بھی اچھا یا برُا کام کیا ہے تو اس کو اس کا نتیجہ ملنا چاہیے۔پس جیسا کہ یہ دنیا آزمائش اور امتحان کا مقام ہے ویسے ایک دوسرا مقام ہونا چاہیے جہاں جزا اور سزا ملے اور انسان کے اعمال کا نتیجہ سامنے آئے اور ہر فرد اپنے مناسب مقامات تک پہنچ جائے، تاکہ خدا کی عدالت عینی طور سے محقق ہو جائے۔اسی بیان کے ذیل میں یہ بھی واضح ہوتا ہے آخرت ، انتخاب راہ اور تکلیف کوانجام دینے کی جگہ نہیں ہے،
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.