ایمان کے متعلقات
ایک۔ عالم غیب پر ایمان :قرآن کریم نے غیب اورغیبی طاقتوں یعنی ملائکہ (وغیرہ) پر ایمان کو کتاب الٰہی سے بہرہ مند ہونے اور ہدایت پانے کی شرطوں میں سے شمار کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد ہورہاہے:’یہ وہ کتاب ہے جس کی حقانیت میں کوئی شک نہیں اور یہ ان متقین اور پرہیزگاروں کے لئے ہدایت کا وسیلہ ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں …..'(1)عالم غیب سے مراد وہ حقیقتیں ہیں جنہیں ظاہری حواس کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ عقلی سیر اور باطنی شہود کے ذریعہ ان تک رسائی ہوسکتی ہے، اصولی طور پر ایمان سے مشرف ہونے اور کفر والحاد دومادہ پرستی کی غلاظت و گندگی سے نجات حاصل کرنے کے لئے غیب اور غیبی حقیقتوں، قوتوں اورامدادوںپر اعتقاد رکھنا ایک شرط ہے۔ (2)صرف اسی شرط کے تحت حصول کے ذریعہ کتاب ہدایت کو پڑھا جاسکتا ہے اور اس کے نور کے پرتو میں کامیابی کی منزلوں کو طے کیا جاسکتا ہے۔…………………………………1۔ سورۂ بقرہ، آیت٢۔2۔ سورۂ بقرہ، آیت: ١٧٧ ، ٢٨٥۔
دو۔ خدا اور اس کی وحدانیت پر ایمان:قرآن کریم متعدد آیتوں میں خدا وند متعال پر ایمان کی ضرورت کو یاد دلاتا ہے۔ مثلاً فرماتا ہے: ‘بس خدا اور اس کے پیغمبر اور اس نور پرجسے ہم نے نازل کیا ہے ایمان لائو اور تم جو کچھ انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے۔،،(١)رسول خدا ۖ نے ایمان کی علامتوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں فرمایا:’ ایمان کی نشانیاں چار ہیں: خدا کی وحدانیت کا اقرار، اس پر ایمان، اس کی کتاب پر ایمان اور خدا کے پیغمبروں پر ایمان۔، ، (٢)
تین۔ قیامت اور اس کی کیفیت پر ایمان:قیامت اور اس کی کیفیت پر ایمان اخلاق اسلامی کی افادیت اور اس کے اجرا ہونے کی ضمانت ہے۔ قرآن کریم نے خدا اور اس کی وحدانیت پر ایمان کے بعد سب سے زیادہ تاکید قیامت اور اس کی کیفیت پر کی ہے۔ جیسے قبر میں ہونے والے سوالات، عذاب قبر، قیامت کا دن اور قیامت کا حساب و کتاب، اعمال کو پرکھنے کے لئے میزان کا وجود، پل صراط سے عبور اور جنت و جہنم پر اعتقاد و ایمان۔ ذیل میں بعض آیتوں اور روایتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے، اس سلسلہ میں قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے:’ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جو لوگ یہودی ، صائبی اور عیسائی ہیں ان میں جو خدا و قیامت پر واقعاً ایمان لائے ہیں اور نیک کام انجام دیتے ہیں ان کے لئے کچھ بھی ڈر اور خوف نہیں ہے۔ (٣)حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:’ ایمان یہ ہے کہ انسان دین حق کو دل سے پہچانے اور زبان سے اقرار کرے اور اپنے اعضاء بدن سے اس کے فرائض کو انجام دے اور عذاب قبر، منکر و نکیر، موت کے بعد زندہ ہونے، حساب و کتاب، صراط اور میزان کو قبول کرے اور اگر خدا کے دشمنوں سے بیزاری نہ ہو تو ایمان موجو د نہیں ہے’۔ (٤)…………………………………١۔ سورئہ تغابن، آیت: ٨۔ اسی طرح سورئہ اخلاص آیت: ١، سورئہ بقرہ، آیات ١٣٦ ، ٢٨٥۔ سورہ ٔآل عمران، آیت: ٨٤۔ سورئہ مائدہ، آیات ٦٩، ١١١۔ سورئہ نساء آیت: ١٣٦، ١٦٢۔ سورئہ انعام، آیت: ٩٢۔ سورئہ شوریٰ، آیت: ١٥ کی طرف رجوع کیجئے۔٢۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص: ١٩۔٣۔ سورئہ مائدہ، آیت: ٦٩ اسی طرح سورئہ بقرہ، آیت: ٤، کی طرف رجوع کیجئے۔٤۔ صدوق: خصال، ص: ٦٠٩ ، ح٩۔دوسری حدیث میں پیغمبر خدا ۖ کی فرمائش کے مطابق جنت وجہنم پر ایمان بھی معاد کے دو اہم رکن ہیں۔(١)اس بنا پر اخلاق اسلامی کی نظر میں معاد اور اس کے اساسی ارکان پر ایمان، رہنمائی کرنے والے دو اہم رکن کی حیثیت رکھتے ہیں۔
چار۔ انبیاء (ع) کی رسالت اور آسمانی کتابوں پر ایمان:دینی تعلیم سے بہرہ مند ہونے اور دین بالخصوص اخلاق اسلامی کی طرف متوجہ ہونے کے لئے انسان کا یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ اپنے صحیح کمال اور سعادت کو پہچاننے اور ان تک پہنچنے کے لئے مناسب وسیلوں اور طریقوں کو انتخاب کرنے میں عاجز اور قاصر ہے، ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ قطعی طور پر جسے بھی اس حقیقت میں شک ہے وہ انبیاء کی رسالت اور ان کی دعوت کے مطالب پر ایمان و اطمینان حاصل نہیں کر سکتا اور اسی کے ساتھ اعتماد اور اطمینان کے بغیر کسی کی خیر خواہ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔اس وجہ سے اخلاق اسلامی میں رسولوں کی رسالت اور ان کی کتابوں پر ایمان رکھنے کے لئے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ چونکہ سبھی انبیاء صرف ایک رسالت اور ایک ہی مقصد کے لئے کام کررہے تھے لہٰذا ان تمام انبیاء پر ایمان رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ‘خدا کے پیغمبر اُن کے پرور دگارکی طرف سے جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر ایمان رکھتے ہیں اور تمام مومنین بھی خدا اور فرشتے اور کتابوں اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس کی طرف سے بھیجے گئے پیغمبروں میں سے کسی کے ساتھ فرق نہیں کریں گے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ ہم نے پیغام الٰہی کو سنا اور اس کی اطاعت کی۔ اے پرورد گار! ہم تیری بخشش کے محتاج ہیں اور ہم کو تیری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے، ،۔ (٢)
پانچ۔ امامت اور ائمہ (ع) پر ایمان:شیعوں کے اصول عقائد کے مطابق امامت پر ایمان رکھنا اخلاق اسلامی کی بنیادوں اور کامیابی کی شرطوں میں سے ہے۔ اس سلسلہ میں شیعہ حدیثی کتابوں میں بہت سی روایات موجود ہیں۔…………………………………١۔رجوع کیجئے: بیہقی: شعب الایمان، ج: ١، ص: ٢٥٧، ح: ٢٧٨۔٢۔ سورئہ بقرہ، آیت: ٢٨٥، ١٣٦۔ اور اسی طرح سورہ ٔآل عمران، آیت: ٨٤ کی طرف رجوع کیجئے۔ان روایتوں کے علاوہ یہ بات قرآن کے ذریعہ اور اس کی تفسیر کے سلسلہ میں مسلّم الثّبوت تاریخی واقعات سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہورہا ہے:الْیَوْمَ َکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وََتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الِسْلاَمَ دِینًا(١)’آج کفّار تمہارے دین سے نا امید ہوگئے ہیںلہٰذا ان سے خوف نہ کھاؤ۔ اور مجھ سے خوف کھاؤ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا ہے اور اسلام کو تمہارے لئے دین کی حیثیت سے پسند کرلیا ہے ۔ ‘اس آیت کے سلسلہ میں دو سوال قابل غور ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ وہ خاص دن کون سا دن ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ واقعہ جو اس دن رونما ہوا اور اکمال دین اور بندوں پر خدا کی نعمت کے تمام ہونے کا سبب بنا، کیا تھا؟ نا قابل انکار تاریخی شواہد اور تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک وہ ١٨ ذی الحجہ ١٠ ہجری کا دن تھا اور وہ واقعہ اس دن غدیر میں پیش آیا وہ پیغمبر ۖ کی طرف سے حضرت علی ـ کو اپنی جانشینی کے لئے انتخاب کر نا اور سلسلۂ امامت کا شروع ہونا تھا۔ (٢)ہم انبیاء (ع) کی رسالت اور ان کی کتابوں پر ایمان کی ضرورت کو اصطلاح میں دین کے نام سے یاد کرتے ہیں اور مذکورہ آیت کی روشنی میں امامت کا سلسلہ دین کی تکمیل کے لئے ہے اور اس کے بغیر دین ناقص رہے گا لہٰذا قرآن کریم کی نظر میں امامت پر ایمان بھی ایک لازمی بات ہے اور اخلاق اسلامی کے مستحکم اور مضبوط پایوں میں شمار ہوتا ہے۔
٥۔ایمان کی شرطقرآن و راویات کے مطابق نیک عمل کا انجام دینا ایمان کی بہترین شرط ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں ایمان کو نیک عمل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اکثر آیتوں میں ایمان کے بعد بلا فاصلہ پسندیدہ اور صالح عمل کی گفتگو ہوئی ہے۔اگر چہ نیک عمل ایمان کے بنیادی عناصر میں سے نہیں ہے لیکن نیک عمل کے بغیر ایمان سے مطلوب اور مناسب فائدہ حاصل نہ ہوسکے گا۔ اس بنا پر شائستہ اور نیک عمل کو ایمان سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے شرط کے طور پر مانا جا سکتا ہے۔…………………………………١۔سورہ ٔ، مائدہ، آیت: ٣۔٢۔ مزید معلومات کے لئے علامہ امینی کی کتاب ‘ الغدیر، ، کی طرف رجوع کریں۔قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے:’ اور جو کوئی ایمان لائے اور نیک عمل کو انجام دے اس کے لئے بہترین جزا ہے اور ہم بھی اس سے اپنے امور میں آسانی کے بارے میں کہیں گے’ (١)قرآن مجیدنے نیک عمل کے بغیر، مومن ہونے کے دعوے کو جھوٹا قرار دیا ہے:’اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا اور اس کے پیغمبر پر ایما ن لائے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں سے بعض لوگ منھ پھیر لیتے ہیں اور وہ لوگ واقعاً مومن نہیں ہیں۔، ، (٢)حضرت علی ـنے بھی اس مطلب کو یوں بیان فرمایا ہے:’ جو خدا کے احکام پر عمل کرتا ہے فقط وہی مومن ہے۔، ، (٣)اس بنا پر اخلاق اسلامی کی نظر میں خدا کے احکام کی پابندی کے بغیر ایمان کا دعویٰ کرنا جھوٹ اور فریب ہے مگر یہ کہ مومن شخص عمل کرنے کی قدرت اور موقع نہ رکھتا ہو۔
٦۔ ایمان کے اسبابدینی کتابوں میں ایمان کے وجود میں آنے، اور اس کے ثبات و کمال کے لئے مختلف عوامل بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض معرفت وشناخت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے علم، عقل اور دین میں غور و فکر کرنا۔یہ سب ایمان کے نظری مقدمات کو فراہم کرتے ہیں اور وہ عوامل علم کلام میں پائے جاتے ہیں۔ کچھ دوسرے عوامل ایسے ہیں جو ایک اعتبار سے نفسیانی صفت اور ملکہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے تقویٰ، راہ خدا میں دوستی اور دشمنی، صبر، توکل، رضا وغیرہ اور کچھ ایسے ہیں جو انسان کے عمل سے مربوط ہیں۔ جیسے انفاق، نماز کے لئے اہتمام کرنا، دوسروں کے ساتھ احسان کرنا، گناہوں سے پرہیز کرنا وغیرہ۔خاص نظری معارف جیسے دین میں غور وفکر، انسان کی مختلف نفسیانی صفتیں اور اعمال، ایمان کی آفرینش اور اس کے ثبات و کمال میں مؤثر ہوسکتے ہیں اور یہ بات اس حقیقت سے نہیں ٹکراتی ہے کہ ایمان اپنے لحاظ سے عمل صالح کی انجام دہی کے لئے مقدمہ فراہم کرتا ہے اور بہت سے نفسانی ملکات اور صفات کے وجود میں لانے کا موجب قرار پاتا ہے اور یہاں تک کہ انسان میں بعض نظری معارف کی پیدائش کے لئے باعث بنتا ہے۔ کیونکہ انسانی وجود کے تینوں شعبوں کے درمیان آپس میں تثیر اور تثر پایا جاتا ہے۔ اس بنا پر ایمان ایک واضح نفسانی حالت کی حیثیت سے دوسرے شعبوں پر اثر انداز بھی ہوتا ہے اور ان سے تثیر بھی قبول کرتا ہے۔…………………………………١۔ سورئہ کہف، آیت: ٨٨۔ اسی طرح سورئہ طہٰ، آیت: ٨٢۔ سورئہ فرقان، آیت: ٧٠۔ سورئہ قصص، آیت: ٦٧۔ سورئہ انفال، آیت: ٣ ،٤۔ سورئہ نسائ، آیت: ٦٥۔ سورئہ نور، آیت: ٤٧ کی طرف رجوع کریں۔٢۔ سورئہ نور، آیت: ٤٧۔٣۔ کلینی، کافی، ج: ٢، ص: ٣٨ ،ح: ٤۔