فضول خرچی
بے شک زمین کے ایک حصہ پر اسراف وتبذیر، دوسرے حصے والو ں کی محرومی کا سبب ہے یا آج کے انسانوں کا اسراف کرنا آئندہ نسلوں کی محرومی کا باعث ہے یہ بات اس دور میںبھی بہت واضح ہے اور ہر شخص اس کوسمجھ سکتا ہے کہ اس زمانہ میں جب اخراجات آج کی طرح نہ تھے، اسلام نے انسانوں کو خبردار کیا کہ زمین پر موجود خدا کی نعمتوں کے استعمال میں اسراف وتبذیر سے کام نہ لیں ۔ اور قرآن کریم نے متعدد آیات میں اسراف کرنے والوں کی سختی سے مذمتاور ملامت کی ہے اور انھیں اس نا پسندیدہ عمل سے منع کیا ہے ۔ایک جگہ فرماتا ہے: اسراف نہ کرو کہ خدا وند اسراف کرنے والوںکو دوست نہیں رکھتا : <وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ> (۱)دوسرے مقام پر اسراف اورزیادتی کرنے والوں کو جہنمی قرار دیتے ہو ئے فرمایا: <انَّ الْمُسْرِفِیْنَ ہُمْ اَصْحَا بُ النَّارِ> (۲)ایک مقام پر ایسے افراد کی اطاعت اورپیروی کرنے سے لوگوں کو منع فرمایا :<وَلَا تُطِیْعُوْااَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ> (۳)عذاب الٰہی ان کے انتظار میں ہے :<مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِیْنَ> (۴)اور اسراف اور زیادہ روی ایک فرعونی عمل ہے:<وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ وَ اِنَّہُ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ> (۵)ایسے افراد ہدایت الٰہی سے محروم ہوتے ہیں:<اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ> (۶)آخر کار اسراف اور زیادتی کرنے والوں کا انجام ہلاکت اور نابودی ہے: <وَاَہْلَکْنَا الْمُسْرِفِیْنَ> (۷)جیسا کہ پہلے بھی ملاحظہ کر چکے ہیں کہ ان آیات میں بھی اسراف اورزیادتی کرنے والوں کو شیطان کا بھا ئی اور ساتھی قرار دیا گیا ہے۔اسراف کیا ہے؟اسراف ایک عام معنی میں ہے۔ اسراف ہر اس کام کو کہتے ہیں جسے انجام دینے میں انسان حد سے تجاوز کر جائے عام طور سے یہ کلمہ مالی اخراجات کے سلسلہ میں استعمال ہوتا ہے۔آیات قرآنی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسراف سختی کے مقا بلے میں ہے جیسا کہ پروردگار عالم نے فرما یا ہے: ” وَالَّذِیْنَ اِذَااَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذَالِکَ قِوَاماً”اور وہ لوگ جو انفاق کرتے وقت نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ سختی سے کام لیتے ہیں بلکہ درمیانی راستہ اختیار کرتے ہیں۔(سورئہ فرقان/آیت/۶۷)________________________________________(۱)سورہٴ انعام :آیت ۱۴۱۔ سورہٴ اعراف: آیت۳۱( ۲)سورہٴ غافر: آیت ۴۳(۳) سورہ۷ شعراء:آیت۱۵۱( ۴)سورہٴ ذاریات:آیت۳۴(۵) سورہٴ یونس: آیت۸۳( ۶)سورہٴ غافر:آیت ۲۸(۷)سورہٴ انبیاء: آیت ۹
ب) اسراف و تبذیر کے درمیان فرقاسراف و تبذیرکے درمیان کیا فرق ہے ؟اس سلسلہ میں مفسرین نے کوئی خاص بحث نہیں کی ہے لیکن ان دونوں کلمہ کے مصدر کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ دونوں کلمہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں ہوں تو اسراف کسی چیز کو ضائع کئے بغیر حداعتدال سے خارج ہو جانے کے معنی میںہے مثلاً ہم ایسا گراں قیمت لباس جس کی قیمت ہماری ضرورت کے لباس سے دس گنا زیادہ ہو یااپنے کھانے کو اتنے زیادہ پیسے سے تیار کریں کہ اتنے پیسے میں کئی لوگوں کو کھانا کھلا سکتے ہوں ۔ یہاں پر ہم نے حد سے تجاوز کیا ہے۔ لیکن ظاہراًکوئی چیز ضائع اور برباد نہیں ہوئی ہے۔لیکن “تبذیر”یہ ہے کہ کسی چیز کو اس طرح استعمال یا خرچ کیا جائے کہ وہ ضائع اور بربادہو جائے۔مثلاًدو مہمانوں کے لئے دس آدمیوں کا کھانا پکایا جائے اور بچے ہوئے کھانے کو کوڑے دان میں ڈال کر برباد کر دیا جائے جیسا کہ بعض ثروت مند افرادایسا ہی کرتے ہیں ۔لیکن کبھی کبھی یہ دونوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور تاکید کے لئے ایک ساتھ لائے جاتے ہیں ۔حضرت علی – ارشاد فرماتے ہیںاٴَلاواٴنّ اِعطاء المال فی غیر حقّہ تبذیر واسراف وہو یر فع صاحبہ فی الدّنیا ویضعہ فی الآخرة ویکرمہ فی النّاس ویھینہ عنداللّٰہآگاہ ہو جاوٴ کہ غیر مورد استحقاق میں مال کو خرچ کرنا اسراف وتبذیر ہے ممکن ہے یہ عمل دنیا میں انسان کے مرتبہ کو بلند کر دے لیکن یقینا آخرت میں اسے ذلیل کر دے گااور ممکن ہے کہ لوگوں کی نظر میں احترام و اکرام کا سبب بنے لیکن خدا وند عالم کی بارگاہ میں اسے رسوا کر دے گا ۔ (نہج البلاغہ علامہ)مذکورہ آیت کے ذیل میں بیان کیا گیاہے کہ اسلامی احکام میں اسراف اور تبذیر سے ممانعت کے سلسلہ میں اس قدر تا کید کی گئی ہے کہ وضو کے لئے زیادہ پانی بہانا اگر چہ جاری نہر کا پانی ہی کیوں نہ ہو منع کیا گیا ہے اور امام جعفر صادق نے کھجور کے ایک بیج کو پھینکنے سے منع فرمایا ہے ۔اس دور میں جب بعض دانشمندوں نے بعض چیزوں کی کمی کا احساس کیا تو ہر چیز کے استفادہ کی طرف خاص توجہ دی یہاں تک کہ کوڑے سے بہترین کھاد بناتے اور ردی چیزوں سے ضرورت کے سامان بناتے ہیں اور گندے پانی کو صاف کرکے اسے کھیتی میں استفادہ کے قابل بناتے ہیں اس لئے کہ انہوں نے احساس کر لیا ہے کہ دنیا میں موجود مواد لا محدود نہیںہے کہ جن سے آسانی سے صرف نظر کیا جا سکے ۔ پس ضروری ہے کہ تمام چیزوں سے ہر اعتبار سے استفادہ کیا جائے کیا ایسے حا لات میں بھی اسراف و تبذیر ہے ؟
(ج) کیا انفاق، میانہ روی اورایثار کے درمیان کوئی تضاد پایا جاتا ہے؟انفاق میں میانہ روی کا حکم دےنے والی مذکورہ آیات کے پیش نظر یہ سوال پیش ہے کہ سورہٴ دہر، اورقرآن کی دوسری آیات اور روایات میں ایسے ایثار کرنے والوں کی مدح کی گئی ہے جو سخت حالات میں بھی اپنے اموال میں سے دوسروں پر انفاق کرتے تھے یہ دونوں حکم کس طرح آپس میں ساز گار ہیں ؟مذکورہ بالا آیات کے شان نزول اور دوسرے قرینوں میں غوروفکر کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ:انفاق میں میانہ روی کا حکم وہاں پر ہے جہاں بہت زیادہ بخشش اور انفاق انسانی زندگی میں بہت زیادہ حیرانی و پریشانی کا سبب بن جائے اور انسان “ملوم ومحسور” ہو جائے یا ایثار کرنا گھر والوں کے لئے تکلیف دہ اور ان کے ساتھ سختی کا سبب بن جائے، نظام خانوادہ کے درہم برہم ہو جانے کا خوف لاحق ہو جائے اور اگرایسے حالات پیش نہ آئیں تو ایسی صورت میں بے شک ایثار ایک بہت عمدہ اور پسندیدہ عمل ہے۔اس کے علاوہ میانہ روی کی رعایت ایک عام اور کلی حکم ہے اور ایثار ایک خاص حکم ہے جو بعض معین مواقع پر جاری ہوتا ہے لہٰذا ان دونوں حکم کے درمیان کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ اس پرغور کریں۔
۱۸ . انفاق کا بہترین مقام<لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اٴُحْصِرُ وْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَاْ یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْباًفِیْ الْاَرْضِ یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اٴَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَاھُمْ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافاً وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہ عَلِیْمٌ>یہ صدقہ ان فقراء کے لئے ہے جو راہ خدا میں گرفتار ہو گئے ہیں اور کسی طرح سفرکرنے کے قابل بھی نہیں ہیں ۔نا واقف افراد انہیں ان کی حیا اور عفت کی بنا پر مالدار سمجھتے ہیں حا لانکہ تم آثارسے غربت کا اندازہ کر سکتے ہو اگر چہ یہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے ہیں اور تم لوگ جو کچھ بھی انفاق کروگے خدا اسے خوب جانتا ہے۔ (سورہٴ بقرہ: آیت۲۷۳)توضیحاس آیہٴ کریمہ کے شان نزول کے بارے میں امام محمد باقر(ع) سے منقول ہے کہ یہ آیت اصحاب صفہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(اصحاب صفہ مکہ اور اطراف مدینہ کے تقر یباً چار سو مسلمان تھے جن کے نہ ہی مدینہ میں گھر تھے اور نہ ہی کوئی رشتہ دار جس کے یہاں جا سکیں لہٰذا یہ افراد مسجد النبی میں مقیم تھے اور میدان جہاد میں جانے کے لئے اپنی تیاری کا اعلان کرتے تھے )لیکن چونکہ ان کا مسجد میں رہنا مسجد کی شان کے مطابق نہ تھا لہٰذا ان کو حکم دیا کہ مسجد کے کنارے صفہ( ایک بڑے اور وسیع چبوترے )پر منتقل ہو جائیںتومذکورہ بالا آیت ناز ل ہوئی اور دوسرے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنے امکان بھر اپنے ان دینی بھا ئیوں کی مدد سے دریغ نہ کریںاور مسلمانوں نے ایسا ہی کیا (یعنی سبھی نے اپنی حیثیت کے مطابق ان کی مددکی۔)پروردگار عالم نے اس آیہٴ کریمہ میں اپنی راہ میں انفاق کے بہترین مواقع اور مقامات کو بیان کیا ہے اور وہ مندرجہٴ ذیل صفات کے حامل افرادہیں :(۱) اَلَّذِیْنَ اٴُحْصِرُ وْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یعنی وہ افراد جو اہم کاموں مثلاًدشمن سے جہاد کرنے اور علم دین حاصل کرنے کی وجہ سے اپنی زندگی کے اخراجات فراہم کرنے سے عاجز ہیں ، اصحاب صفہ کی طرح جو اس کے واضح مصداق تھے۔(۲) لَاْ یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْباًفِیْ الْاَرْض ِیعنی وہ افراد جو سفر نہیں کر سکتے اورسامان زندگی فراہم کرنے کے لئے ایسے شہروں کی طرف بھی نہیں جا سکتے جہاں بہت زیادہ نعمتیں ہیں ۔لہٰذا جو لوگ اپنی زندگی کے اخراجات کو پورا کر سکتے ہیں انھیں چاہئے کہ سفر کی زحمت و مشقت برداشت کریں اور ہر گز دوسروں کے انفاق اور کمائی پر بھروسہ نہ کریں ۔ مگر یہ کہ کوئی اہم کام ہو جیسے راہ خدا میں جہاد جو مسلمانوں کے لئے ضروری ہے اور پروردگار کی خوشنودی بھی اسی میں ہے۔(۳) یَحْسََبُہُمُ الْجَاہِلُ اٴَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّف جو لوگ ان کے حا لات سے باخبر نہیں ہیں وہ انہیں ان کی خودداری اور عزت نفس کی وجہ سے مالدار اور بے نیاز سمجھتے ہیں۔(۴) تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمَاہُم (آپ ان کو ان کے آثار سے پہچانتے ہیں ) لغت میں سیما علامت اور نشانی کو کہتے ہیں ۔یعنی اگر چہ وہ لوگ اپنے حا لات کوزبان پر نہیں لاتے لیکن ان کے چہروںپر ان کے اندرونی رنج و درد کی نشانیاں موجودہیں جو عاقل اور سمجھ دار انسان کے لئے واضح اور آشکار ہیں۔بے شک (رنگ رخسار ہ خبرمی دہداز سِرّدرون) یعنی رخسار کی رنگت اندرونی راز کی خبر دیتی ہے ۔(۵) لَاْ یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافاً وہ لوگ عام فقیروں کی طرح اصرار کے ساتھ لوگوں سے کوئی چیز نہیں مانگتے۔در حقیقت وہ کسی کے آگے دست سوال ہی نہیںپھیلاتے کہ اصرار کی نوبت آئے ۔اگر قرآن کریم یہ کہہ رہا ہے کہ وہ لوگ اصرار کے ساتھ سوال نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ لوگ اصرار کے بغیر مانگتے ہیں بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ وہ عام فقیروں کی طرح نہیں ہیں کہ سوال کریں ۔لہٰذا اس جملہ اور جملہ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمَاہُمْ میں کوئی منافات نہیں ہے ایسے افراد کو ان کے آثارکے ذریعہ پہچانا جاسکتا ہے ، مانگنے کے ذریعہ نہیں۔اس آیہٴ کریمہ میں ایک احتمال یہ بھی پایاجاتا ہے کہ جب سخت حالات انہیں اپنا حال بیان کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں تب بھی وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے اور نہ ہے اصرار کرتے ہیں بلکہ اپنی حاجت کو بہت ہی محترمانہ شکل میں اپنے مسلمان بھائیوںکے سامنے پیش کردیتے ہیں ۔(۶) وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍفَاِنَّ اللّٰہَ بِہ عَلِیْمٌ یہ جملہ انفاق کرنے والوں کی تشویق کے لئے ہے۔ خاص طور سے ان لوگوں پر انفاق کرنے کے لئے جو عزت نفس اور نیک طینت کے مالک ہیں ۔ اس لئے کہ جب انھیں یہ معلاوم ہو کہ وہ جو کچھ راہ خدا میںخرچ کررہے ہیں چاہے خفیہ طور سے ہی کیوں نہ ہوخدا اس سے باخبر ہے اور انہیں ان کے نیک اعمال کے ثواب سے نوازے گا تو ان میںاس عظیم خدمت کو انجام دینے پر مزید شوق پیدا ہو جائے گا ۔لیکن افسوس کہ ہر سماج میں اس طرح کے آبرو مند فقیر پائے جاتے ہیں جن کے اندرونی حالات اور رنج و درد سے اکثر لوگ بے خبر ہوتے ہیں ۔لہٰذا باخبر مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ایسے افراد کو تلاش کریں اور ان کی مدد کریں اور بہترین انفاق یہی انفاق ہے۔
اولویت ،روایات اسلامی میں(۱) رسول خدا نے ارشاد فرمایا :اِنَّ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ صَدَقَةًہرمسلمان پر ضروری ہے کہ وہ ہر روز صدقہ دے۔بعض اصحاب نے عرض کیا :یا رسولاللہ !کون ہے جو اس کام کیقدرت رکھتا ہے؟آپ نے فرمایا :اِمٰا طَتْکُ الاذیٰ عن الطریق صدقة:لوگوں کے راستہ سے رکاوٹ کوبر طرف کرنا بھی صدقہ ہے۔وارشادک الرّجل الی الطّریق صدقة:ایک اجنبی مسافر کو راستہ کی راہنمائی کرنا بھی صدقہ ہے۔وعیادتک المریض صدقة: مریض کی عیادت،واٴمرک با لمعروف صدقة: امر بالمعروف،ونہیک عن المنکرصدقة:نہی عن المنکر،وردّک السّلام صدقة: اور سلام کا جوابیہ سب کے سب صدقہ اور راہ خدا میں انفاق ہیں ۔(۱)(۲) ایک حدیث میں منقول ہے :کان اٴَبو عبد اللّٰہ علیہ السلام اذا اعتمّ و ذہب من الّلیل شطرہ اٴخذ جرابًا فیہ خبز و لحم والدّراہم فحملہ علی عنقہ ثّم ذہب بہ اٴلی اٴہل الحاجة مناٴہل المدینہ فقسّمہ فیہم ولا یعرفونہ، فلّما مضی اٴبو عبد اللہعلیہ السلام فقدواذٰلک فعلموا انّہ کان اٴبا عبداللّٰہ علیہ السلام(2)امام جعفر صادق(ع) نماز عشاء سے فارغ ہونے اور رات کا ایک حصہ گزر جانے کے بعد روٹی ،گوشت اور درہموں سے بھرا ہوا ایک تھیلا اپنے کاندھے پراٹھا ئے ہوئے مدینہ کے فقراء میں تقسیم فرماتے تھے ۔اس طرح کہ وہ لوگ آپ کو پہچان نہ پاتے تھے جب امام(ع) کی شہادت ہو گئی اور مدینہ کے فقراء کی امداد بند ہو گئی تب انھیں کو معلوم ہوا کہ وہ مدد کرنے والے امام جعفر صادق(ع) تھے۔(۳) نیز امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا:لیس المسکین بالطّواف ولا بالّذی تردّہ التّمرة والتّمرتان واللّقمة والّلقمتان ولکن المسکین المتعفّف الّذی لا یساٴل النّاس ولایفطن لہ فیتصدّق علیہ(3)مسکین وہ شخص نہیں ہے جو ادھر ادھر چکر لگائے یا ایک دو کھجوریں یا ایک دو لقمہ اسے قانع کر دے بلکہ واقعی مسکین وہ ہے جو بہت زیادہ با عفت ہے، لوگوںسے کسی چیز کا مطالبہ نہ کرے اور کسی کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہ فقیر ہے تا کہ اس کے اوپر انفاق کرے اور اس کی مدد کرے ایسے شخص کو تلاش کرکے اس پر انفاق کرنا چاہےٴ۔________________________________________(1) بحار الانوار،ج۷۵،ص ۵۰(2)اصول کافی ج۴/ص۸(3)کنز العمال ،ح/۱۶۵۵۲