رسول اسلام ۖ کا اخلاق (حصہ دوم)

346

حضرت ۖ کی دلسوزی ومہربانیجب حضور اکرم ۖ مخلوقات کے سامنے آتے ہیں تو اخلاق کا وہ نمونہ پیش کرتے ہیں کہ دنیائے انسانیت انگشت بدنداں نظر آتی ہے اور خدا وند عالم کہتانظرآتا ہے(انک لعلیٰ خلق عظیم)(١)یعنی اے میرے رسول ۖ آپ اخلاق کے بلند وعظیم درجہ پر فائز ہیں۔ایک روز آپ ۖ نے مولا علی ـ کو بارہ درہم دیئے اور فرمایا: ‘میرے لئے ایک لباس خرید کر لے آئو’ حضرت علی ـ بازار گئے اور بارہ درہم کا لباس خرید کر لے آئے ، حضور ۖ نے لباس کو دیکھا اور علی ـ سے فرمایا: ‘اے علی ـ اگر اس لباس سے کم قیمت لباس مل جاتا تو بہتر تھا اگر ابھی دوکاندار موجود ہو تو یہ لباس واپس کردو’ علی ـ دوبارہ بازار گئے اور لباس واپس کردیا اور بارہ درہم واپس لاکر آپ ۖ کے حوالہ کر دیئے۔حضرت ۖ مولاعلی ـ کو اپنے ہمراہ لے کر بازار کی جانب روانہ ہوئے، راستہ میں ایک کنیز پر نظر پڑی کہ جو گریہ کر رہی تھی، آپ ۖ نے سبب دریافت کیا تو کنیز نے جواب دیا کہ میرے آقا نے مجھے چار درہم دیئے تھے کہ کچھ سامان خرید کر لے جائوں لیکن وہ چار درہم گم ہو گئے، اب گھر واپس جائوں تو کس طرح؟آپ ۖ نے اپنے بارہ درہموںمیں سے چار درہم اس کنیز کو عطا کئے کہ وہ سامان خرید کر لے جائے اور بازار پہونچکر چار درہم کا لباس خریدا، لباس لے کر بازار سے واپس آرہے تھے تو ایک برہنہ تن انسان پر نظر پڑ گئی، آپ ۖنے وہ لباس اس برہنہ تن کو بخش دیا اور پھر بازار کی جانب چلے، بازار پہونچکر باقی بچے ہوئے چار درہموں کا لباس خریدا ، لباس لیکر بیت الشرف کا قصد تھا کہ دوبارہ پھر وہی کنیز نظر آگئی جو پہلے ملی تھی، آپ ۖ نے دریافت کیا کہ اب کیا ہوا؟ تو اس نے جواب دیا کہ مجھے کافی دیر ہو چکی ہے، میں ڈر رہی ہوں کہ کیسے جائوں،آقا کی سرزنش سے کیسے بچوں؟……………………………………(١)سورۂ قلم٤حضور ۖ کنیز کے ہمراہ اس کے گھر تک تشریف لے گئے، اس کنیز کے آقا نے جب یہ دیکھا کہ میری کنیز ، سرکار رسالت ۖ کی حفاظت میں آئی ہے تو اس نے کنیز کو معاف کردیا اور اسے آزاد کردیا، آپ ۖ نے فرمایا:’ کتنی برکت تھی ان بارہ درہموں میں کہ دو برہنہ تن انسانوں کو لباس پہنا دیا اور ایک کنیز کو آزاد کردیا'(١)دور حاضر میں ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے کہ کوئی عہدہ دار ایسی صفات کاحامل ہو، جن صفات سے نبی اکرم ۖ مزین تھے، دور حاضر تو کیا خود حضور ۖ کے دور میں، اگر چراغ لے کر بھی تلاش کیا جائے تو ان صفات کا پایا جانا دشوار ہے، آپ ۖ کے دور میں تو بعض بدو عرب کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو بہت کچھ سمجھتے تھے، واقعاََ اگر آج کے امراء ورئوسا بھی اس سیرت کو اپنائیں تو ہماری کشتی حیات(دین کے مطابق) منزل مقصود سے ہمکنار ہوجائے۔

٢۔ آنحضرت کی سیرت میں مہمان نوازیجناب سلمان فارسی ـ فرماتے ہیں: ‘میں ایک روز حضرت ۖ کی خدمت میں پہونچا، جو تکیہ آپ ۖ خود رکھے ہوئے تھے وہ مجھے دیدیا تاکہ میں کمر لگاکر آرام سے بیٹھ سکوں’ ایسا سلوک صرف سلمان فارسی کے ساتھ ہی نہیں کیا بلکہ ہر مہمان کے ساتھ آپ ۖ کا یہی برتائو رہتا تھا، آپ ۖ مہانوں کی خاطر اپنا بستر بچھادیا کرتے تھے اور دسترخوان سے اس وقت تک نہیں اٹھتے تھے جب تک کہ مہمان ہاتھ نہ روک لیں(٢)ایک روز حضور ۖ کی خدمت میں آپ ۖکے دو رضاعی بھائی بہن یکے بعد دیگرے آئے، آپ ۖ نے بہن کا حترام زیادہ کیا اور بھائی کا احترام کم کیا، بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو آپ ۖ نے جواب میں فرمایا: ‘چونکہ، جتنا احترام اپنے ماں باپ کا یہ بہن کرتی ہے اتنا احترام بھائی نہیں کرتا لہٰذا میں بھی بہن کا زیادہ احترام کرتا ہوں'(٣)کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ مہمان حضرات، کھانا کھانے کے بعد وہیں بیٹھ جاتے تھے اور گفتگو میں مشغول ہوجاتے تھے اور آپ ۖ مہمانوں کے احترام میں بیٹھے رہتے تھے جب اس عمل کی تکرا ر ہوئی تو آیت نا زل ہوئی (فأذا طعمتم فانتشروا ولا مستانسین لحدیث)(٤)……………………………………(١)بحار الانوار:ج١٦،ص٢١٥۔ سیرۂ پیامبر اکرم ۖ : ص٢٥(٤)سورۂ احزاب/٥٣(٢)سنن النبی ۖ:ص٥٣،٦٧(٣) بحار الانوار:ج١٦،ص٢٨١یعنی جب تم لوگ کھانے سے فارغ ہو جائو تو فوراََ منتشر ہو جائو ، اپنے اپنے گھر چلے جائو، بے وجہ رسول ۖ کو پریشان مت کرو چونکہ اس سے بہت بڑا نقصان ہے، رسول ۖ کچھ کام انجام نہیں دے سکتے(١)

٣۔ سرکار ۖ کی بچوں کے ساتھہ مہر بانیایک نومولود بچہ کو آپ ۖ کی خدمت میں لایا گیا تا کہ آپ ۖ بچہ کا اچھا سا نام رکھ دیں، جیسے ہی آپ ۖ نے بچہ کو آغوش میں لیا ، بچہ نے فوراََ پیشاب کردیا، بچہ کی ماں اور دیگر رشتہ دار بہت ناراض ہوئے لیکن آپ ۖ نے فرمایا کہ نہیں ایسا نہ کرو چونکہ میں اپنے لباس کو پاک کرسکتا ہوں لیکن تمھاری ڈانٹ پھٹکار معصوم بچہ کے ڈر کا باعث بنے گی، آپ ۖ بچوں کے نام احترام کے ساتھ لیتے تھے اور لڑکیوں کے بارے میں زیادہ سفارش فرماتے تھے، وہ بھی ایسے دور میں کہ جس دور میں لڑکی کے وجود کو ننگ و عار سمجھا جاتا تھا اور باپ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہتا تھااور شرم وحیا کے پیش نظر ، چہرہ سیاہ ہوجاتا تھا، قرآن کریم نے اس کی حکایت بالکل صاف الفاظ میں کی ہے (واذا بشر احدھم بالانثیٰ ظل وجھہ مسوداوھو کظیم)(٢)یعنی….اور جب ان (عرب بدئوں )میں سے کسی کو یہ خوشخبری دی جاتی تھی کے تمھارے یہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا تھا اور رنجیدہ ہوجاتا تھا(٣)ایسے زمانہ میں آپ ۖ فرماتے تھے کہ بہترین بچے، لڑکیاں ہیں اور ایک خاتون کے خوش بخت وخوش قدم…. ہو نے کی علامت یہ ہے کہ اس کا پہلا پیدا ہونے والا بچہ، لڑکی ہو(٤)……………………………………(١)سیرۂ پیامبر اکرم ۖ:ص٤٠(٢)سورۂ نحل/ ٥٨(٣)سیرۂ پیامبر اکرم ۖ:ص ٣٧،٣٨(٤)مستدرک الوسائل:ج٢،ص٦١٤آپ ۖ کی خدمت میں آپ ۖ کا ایک صحابی بیٹھا ہو اتھا ، کسی نے آکر خبر دی کہ تمھارے یہاں لڑکی کی ولادت ہوئی ہے، جیسے ہی اس نے یہ جملہ سنا فوراََ اس کے چہرہ کا رنگ متغیر ہوگیا، حضور ۖ نے جب یہ محسوس کیا کہ یہ انسان اس خبر سے رنجیدہ ہوا ہے تو آپ ۖ نے فرمایا: ‘ زمین اس کا مکان ہے، آسمان اس کا سائبان ہے ،اور اس کارزق خدا کے ہاتھ میں ہے، تو کیوں رنجیدہ ہوتا ہے؟ لڑکی اس پھول کی مانند ہے جس سے تم استفادہ کرتے ہو(١)ایک روز آپ ۖ پانی نوش فرمارہے تھے اور کوزہ میں تھوڑا سا پانی باقی بچا تھا اتنے میں ایک بچہ آیا اور پانی طلب کیا، تبھی بعض بڑے بڑے لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ۖ! یہ پانی بطور تبرک ہمیں عطا کیجئے، آپ ۖ نے فرمایا: ‘تم سے پہلے اس بچہ نے طلب کیا ہے’ پھر بچہ کی طرف متوجہ ہوئے اور بچہ سے پوچھا کیا تمھاری اجازت ہے کہ میں یہ پانی ان لوگوں کو دیدوں یہ تمھارے بزرگ ہیں؟ لیکن بچہ نے فوراََ انکار کردیا، پھر آپ ۖ نے وہ پانی اسی بچہ کو دیا (٢)کشاف الحقائق، مصحف ناطق، حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ‘ایک روز آپ ۖ نے نماز ظہر کی آخری دو رکعتیں بہت جلدی جلدی ادا کیں، لوگوں نے دریافت کیا یا رسول اللہ ۖ! آخر ایسا کیوں؟کیا کام درپیش ہے؟ حضور ۖ نے فرمایا: ‘کیا تم بچہ کے رونے کی آواز نہیں سن رہے ہو؟'(٣)اللہ اکبر……..نماز جیسی عبادت، جس میں خضوع و خشوع شرط ہے، آپ ۖ نے بغیر مستحبات کے انجام دی اور یہ سمجھا دیا کہ دیکھو…..بچہ کو بہلانا خضوع و خشوع والی نماز سے بھی افضل ہے۔……………………………………(١)وسائل الشیعہ:ج١٥،ص١٠١(٢)سیرۂ پیامبر اکرم ۖ: ص٣٨، بحوالہ سیرۂ حلبی:ج٣،ص٦٨(٣)اصول کافی:ج٦،ص٤٨٤۔ آنحضرت کا جوانوں کے ساتھہ اخلاقایک جنگ میں ایک جوان بنام ‘زید بن حارثہ’ اسیر ہوگیا اور آپ ۖ کی خد مت میں لاکر آپ ۖ کا غلام بنادیا گیا، اس کا باپ بہت ثروت مند تھا لہٰذاجب اس کو یہ خبر ملی کہ اس کا بیٹا غلام بنا لیا گیا ہے تو فوراََ باپ کی محبت نے انگڑائی لی اور آپ ۖ کی خدمت میں پہونچ گیااور کہا کہ جتنا آپ کو فدیہ چاہیئے لے لیجئے لیکن میرا بیٹا مجھے واپس کر دیجئے، میرے بیٹے کو آزاد کر دیجئے آپ ۖ نے فرمایا: ‘مجھے کسی فدیہ اور مال ودولت کی ضرورت نہیں ہے، اگر تمھارا بیٹا تمھارے ساتھہ جانے کو تیار ہو جائے تو اسے لے جائو’ بیٹے کے پاس آیا اور کہا بیٹا! میں تمھیں آزاد کرانے آیا ہوں، چلو میرے ساتھ چلو، اپنے گھر چلو، بیٹے نے جواب دیا میں گھر نہیں جائو ںگاچونکہ مجھے اس گھر سے اچھا کوئی گھر نہیں ملے گا ، جب آپ ۖ نے اس کا یہ حال دیکھا کہ اسکی اسلام کی طرف اتنی زیادہ رغبت ہے تو آپ ۖ نے خانۂ کعبہ میں یہ اعلان کردیا کہ لوگو! گواہ رہنا ‘زید میرا بیٹا ہے’ (١)یہ صرف حضور ۖ کا اخلاق ہی تو تھا جو زید کے دل میں جاگزیں ہو کر رہ گیا اور اپنے باپ کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔جب آپ ۖ کا وقت وفات قریب آیا تو آپ ۖ نے ایک جوان ‘بنا م اسامہ’ کو اپنے لشکر کا سپہ سالار مقرر فرمایا اور تمام سن رسیدہ حضرات کو یہ حکم دیا کہ اس اٹھارہ سالہ جوان کی اطاعت کریں اور فرمایا: خدا لعنت کرے اس شخص پر جو لشکر اسا مہ سے منھ پھرائے (٢)حضرت ۖ کا یہ عمل درس دے رہا ہے کہ جوانوں کے ساتھ شفقت ومہربانی کے ساتھ پیش آئیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں چونکہ یہ نوجوان ، قوم کا مستقبل ہیں، لہٰذا اپنے مستقبل کو بہترین مستقبل بنانے کی سعی میں کوشاں رہو(لشکر اسامہ سے کس کس نے منھ پھرایا ؟یہ تاریخ نے اچھی طرح واضح کیا ہے)……………………………………(١) سیرۂ پیامبر اکرم ۖ: ص٤٠(٢)سیرۂ پیامبر اکرم ۖ: ص٤٠٥۔ پیغمبر اکرم ۖ کی ذاتی اور شخصی سیرتتما م سیرت کی کتابوں میں آپ ۖ کی سیرت کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے انھیں میں سے آپ ۖ کی چند صفات حسنہ کا تذکرہ کرنا بہتر سمجھتا ہوں۔١ ۔خدا وند عالم کی عطاکردہ نعمت کو بزرگ اور محترم گردانتے تھے اور کبھی بھی کسی نعمت کی مذمت نہیں کرتے تھے چاہے وہ نعمت کتنی ہی چھوٹی ہو۔٢۔دنیاوی مسائل میں غصہ نہیں ہوتے تھے(جب کہ عصر حاضر میں تمام ھم وغم دنیاوی کاموں کے لئے ہے’ رات دن’ دنیا کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں اگر رضایت ہو تو دنیا کے لئے غصہ ہوں تو دنیا کے لئے، خوش ہوں تو دنیا کے لئے، رنجیدہ ہوں تو دنیا کے لئے گویا ہر کام دنیا پر موقوف ہے)٣ ۔آپ ۖ کی ہنسی، صرف تبسم کی حد تک تھی، کوئی روایت نہیں بتاتی کہ آپ ۖ کبھی قہقہہ کے ساتھ ہنسے ہوںاور ہنسی قابو سے باہر(Out of Controll) ہوئی ہو۔٤۔ہر قوم کے بزرگ (رہبرو پیشوا) کا احترام کیا کرتے تھے(جو ہمارے لئے نمونہ ہے کہ کافر یا مشرک گردان کر کسی رہبرو پیشوا یا کسی کے بزرگ کی توہین نہ کرو چونکہ وہ اپنی قوم کا رہبر ہے ،اگرآج تم ان کے رہبروں کا حترام نہیں کروگے تو کل وہ بھی تمھارے رہبر کا اکرام نہیں کرسکتے)٥ ۔اگر کسی مجلس میں تشریف لے جاتے تھے تو آخری جگہ بیٹھ جاتے تھے، لوگوں کو روندتے ہوئے آگے نہیں جاتے تھے۔٦۔ہر انسان کا اتنا زیادہ احترام بجا لاتے تھے کہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ آپ ۖ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب میری ہی ذات ہے۔٧۔اگر کوئی انسان آپ ۖ کے پاس اپنی حاجت لیکر آتا تھا تو اس کی حاجت روائی فرماتے تھے اوراگر ممکن نہیں ہوتا تھا تو خوش اخلاقی کے ساتھ اس طرح واپس پلٹاتے تھے کہ اسے احساس حقارت نہ ہونے پائے۔٨۔تمام انسانوں کو ایک نظر سے دیکھتے تھے(آپ ۖکے نزدیک کسی طرح کا کوئی فرق نہیں تھا کہ یہ اپنا ہے اور یہ بیگانہ یا یہ اپنا جاننے والا ہے اور یہ اجنبی، نہیں بلکہ سب خدا کے بندے ہیں لہٰذا سب کے ساتھ مساوات کا لحاظ رکھا جائے)٩۔بے ہودہ باتوں سے پر ہیز فرماتے تھے، آپ ۖ کی شان والا صفات میںبکواس اور بے ہودہ و فالتو گفتگو کا تصور بھی، گستاخی اور جسارت ہے چونکہ آپ ۖ ‘ما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ'(١)…………کے مصداق تھے، آخر بے ہودہ گفتگو ہوتی بھی تو کیسے؟١٠۔آپ ۖکسی کی برائی نہیں کرتے تھے چونکہ قرآنی آیت کو عملی جامہ پہنانا تھا تاکہ آئیڈیل(Ideal) اور نمونہ بن سکیں اور لوگوں کو اس نفرت آور کام سے باز رکھیں (لایغتب بعضکم بعضا…….)(٢)یعنی ! دیکھو تم لوگوں میں سے کوئی بھی ایک دوسری کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو اس بات کو گوارہ کرے کہ اپنے بھائی کا گوشت کھائے؟١١۔اپنی نعلین مبارک کی مرمت خود اپنے ہی دست مبارک سے فرماتے تھے ، آپ ۖ کو یہ گوارہ نہیں تھا کہ آپ ۖ اپنے جوتے موچی کے پاس لے کر جائیں اور اس سے مرمت کرائیں۔١٢۔ہر روز ستّر مرتبہ ‘استغفر اللہ ربی و اتوب الیہ’ پڑھتے تھے، آپ ۖ کے بارے میں تصور گناہ بھی گناہ ہے، آپ ۖ کا استغفار صرف ہم گنہگاروں کے لئے تھا کہ دیکھو میں خدا کا مقرب ترین بندہ ہوتے ہوئے بھی استغفار کرتا ہوں تمھیں بھی چاہیئے کہ اپنے کئے ہوئے گناہوںکی معافی مانگو اور خدا وند عالم سے مغفرت طلب کرو۔١٣۔آپ ۖ کا لباس غلاموں جیسا ، آپ ۖکا کھانا غلاموں کی مانند ، مطلب یہ ہے کہ آپ ۖ کی نظروں میں ہمیشہ خدا وند عالم کی ذات تھی جس کے مقابل خود کو غلام گردانتے تھے اور دوسری طرف سے غلاموں اور نیچے طبقے کے انسانوں کو احساس غربت نہ ہونے پائے، ہوسکتا ہے کہ اگر میں اچھے کپڑے پہنوں اور اچھا کھاناکھائوں تو غریب وغربا لوگوں کو اپنی غربت کا احساس ہو اور میری طرف سے یا خدا وند عالم کی طرف سے بد ظن ہو جائیں۔١٤۔اپنے قیمتی وقت کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دیتے تھے، آپ ۖ کا یہ عمل ہم کو درس دیتا ہے کہ وقت کی قدرو قیمت سمجھیں اور وقت کو غنیمت شمار کریں چونکہ ‘گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں’ جو وقت گذر گیا وہ اب واپس آنے والا نہیں ہے لہٰذا جتنا ہو سکے وقت سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔١٥۔آپ ۖ نہ تو کسی کو غربت کی وجہ سے حقیر گردانتے تھے اور نہ کسی کے صاحب اقتدار اور ثروت مند ہونے کے سبب عزت واحترام بجالاتے تھے( جیسا کہ آج عام طور سے رائج ہے)……………………………………(١)سورۂ نجم/٣،٤(٢)سورۂ حجرات/١٢١٦۔خواتین کو بھی سلام کرتے تھے تاکہ انھیں احساس کمتری نہ ہو نے پائے۔١٧۔کسی محفل میں اپنے پیروں کو پھیلانے سے گریز فرماتے تھے، ایسا نہ ہو کہ کسی کو میری وجہ سے اذیت ہو۔١٨۔ہر وقت خوشبو(مشک وعنبر) سے معطر رہتے تھے تاکہ جو بھی آپ ۖ کے پاس آئے وہ کراہیت محسوس نہ کرے۔١٩۔جب بھی کہیں بیٹھتے تھے تو رو بقبلہ ہوکر بیٹھتے تھے(شاید اس کا سبب یہ ہو نہ جانے کس وقت فرشتۂ موت آجائے اور میری روح قبض کر لے لہٰذا اگر روح قبض کی جائے تو رو بقبلہ رہوں)٢٠۔آپ ۖکو یہ پسند نہیں تھا کہ جب آپ ۖ سوار ہوں تو کوئی آپ ۖ کے ساتھ پیدل چلے، بلکہ آپ ۖ اسے سوار کر لیتے تھے یا اس کو حکم دیتے تھے کہ اپنی سواری لیکر آجائے۔٢١۔سفید اور سبز لباس سے بہت زیادہ خوش ہوتے تھے یعنی دوسرے رنگوں کی نسبت ان دونوں رنگوںکو زیادہ پسندفرماتے تھے۔٢٢۔اگر دسترخوان پر خرمہ موجود ہوتا تھا تو کھانے کی ابتداخرمہ ہی سے فرماتے تھے۔٢٣۔ہر دو لقموں کے بعد شکر خدا بجا لاتے تھے تاکہ خدا کے نزدیک شکر گذار قرار پائیں، حالانکہ کھانے کے بعد صرف ایک مرتبہ خدا کا شکر بجا لانا کافی ہے لیکن ہر دو لقموں کے بعد آپ ۖ کا شکر خدا بجا لانا اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ آپ ۖ ہمیشہ یاد خدا کے سمندر میں غوطہ زن رہتے تھے۔٢٤۔غذا تناول فرمانے کے بعد خلال فرماتے تھے، تاکہ وہ غذا جو دانتوں میں رہ گئی ہے اسے باہر نکال دیں اور دہنِ مبارک، بد بو سے محفوظ رہے۔٢٥۔پانی نوش فرماتے وقت بھی بسم اللہ پڑھتے تھے، اور فرماتے تھے کہ ‘کل امر لم یبدأ بأسم اللہ فھو ابتر’ یعنی جس کام کی ابتدا میں بسم اللہ نہ کی جائے وہ کام بے نتیجہ رہتا ہے۔٢٦۔کھانا تناول فرمانے سے پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوتے تھے۔٢٧۔گرم غذا تناول کرنے سے پرہیز فرماتے تھے اور انتظار کرتے تھے یہاں تک کہ غذا سرد ہو جاتی تھی۔٢٨۔اگر لوگوں سے ملاقات کرنی رہتی تھی تو ملاقات سے پہلے پیاز اور لہسن کا استعمال نہیں فرماتے تھے، تاکہ سامنے والے کو کراہیت نہ ہو۔٢٩۔کبھی بھی آپ ۖ کو اکیلے اور تنہا کھانا کھاتے نہیں دیکھا گیا بلکہ اگر تنہا ہوتے تھے تو کسی کو دعوت کر کے بلا لیا کرتے تھے تا کہ اس کے ساتھ کھانا کھائیں۔٣٠۔اگر کسی انسان کی تشییع جنازہ میں شرکت فرماتے تھے تو غمگین رہتے تھے اور باتیں کم کرتے تھے۔٣١۔واجب نمازوں کے دوگنا مستحب نمازیں بجا لاتے تھے یعنی چونتیس رکعت مستحب نماز پڑھتے تھے۔٣٢۔ماہ رمضان المبارک میں مستحب نمازوں میں اور بھی اضافہ کرتے تھے یعنی چونتیس رکعت سے بھی زیادہ مستحب نماز بجا لاتے تھے۔٣٣۔اگر کوئی آپ ۖ کے پاس آکر بیٹھہ جاتا تھا اور آپ ۖ نماز میں مشغول ہوتے تھے تو نماز کو مختصر کرکے جلدی تمام کر دیا کرتے تھے تاکہ اگر وہ آنے والا کوئی حاجت لے کر آیا ہے تو وہ اپنی حاجت بیان کرے ایسا نہ ہو کہ میری عبادت کی وجہ سے اس کی حاجت روائی میں تاخیر ہوجا ئے(١)

٦۔ سرکار ۖ کا اہل خانہ کے ساتھہ اخلاقحضور سرور کائنات ۖ کو یہ گوارہ نہیں تھا کہ گھر کے سارے کام آپ ۖکی زوجہ انجام دے بلکہ آپ ۖ یہ چاہتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ ان کی مدد کریں ،یہاں تک کہ پارہ شدہ لباس بھی خود سی لیتے تھے زوجہ کو زحمت نہیں دیتے تھے(٢)ہمیشہ اس وقت کھانا نوش فرماتے تھے جب سارے اہل خانہ جمع ہوجاتے تھے ،یہاں تک کہ غلاموں کا بھی انتظار کیا کرتے تھے(٣)یوں توحضور ۖکی تقریباََ تمام بیویاں ہی یتیم پرور اور بیووں کا خیال رکھنے والی تھیں لیکن اخلاق کے اعتبار سے سب کے درمیان فرق تھامگر قرآنی حکم کے مطابق حضور اکرم ۖ سب کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتے تھے ۔……………………………………(١)تفسیر المیزان:ج٦،ص٣٢١سے بعدتک،ان صفات کے علاوہ علامہ مرحوم نے اور بھی بہت سی صفات کا تذکرہ کیا ہے اگر تفصیل درکار ہو تو اسی حوالہ پر رجوع کر سکتے ہیں۔(٢)بحارالانوار:ج١٦ ،ص٢٢٧(٣)ہمگام با رسول :ص١٧کبھی کبھی بعض بیویاں بد اخلاقیاں بھی کرتی تھیں یہاں تک کہ اس بد اخلاقی کی وجہ سے حضور ۖ کے بعض اصحاب ناراض ہوجاتے تھے اور کہتے تھے کہ یا رسول اللہ ۖ! انھیں چھوڑ دیجے (آزاد کر دیجئے)حضور ۖ فرماتے تھے کہ عورتوں کی بد اخلاقی کو بھی ان کا کمال شمار کرنا چاہیئے اور ذرا سی ناراضگی کی وجہ سے بیوی کو طلاق نہیں دینی چاہیئے(١)حضور اکرم ۖ، جناب خدیجہ کی خوش اخلاقی اور وفاداری کی وجہ سے (یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد بھی) ان کی سہیلیوں کا خاص احترام کرتے تھے اور فرماتے تھے ‘میں(تمام خاندانوں میں)اپنے خاندان کے ساتھ سب سے زیادہ خوش رفتاری سے پیش آتا ہوں یعنی کسی بھی خاندان میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جو اپنے خاندان کے ساتھ مجھ سے بہتر رفتار کرتا ہو(٢)حضور ۖاپنی بیویوں کے ساتھ اتنی زیادہ عدالت سے پیش آتے تھے کہ بیماری کے ایام میں بھی آپ ۖکابستر ایک ایک شب ایک ایک بیوی کے حجرہ میں رہتا تھا۔جناب عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں :کبھی کبھی حضور ۖ ، خدیجہ کو بہت اچھی طرح یاد فرماتے تھے اور ان کی تعریف کرتے تھے ، میں نے ایک روزحضور ۖ سے کہا : یا رسول اللہ ۖ! خدا نے آپ کو خدیجہ سے بہتر بیوی(دوشیزہ) عطا کی ہے، انھیں بھول جائیئے وہ تو بڑھیا تھیں۔حضور ۖنے فرمایا: خدا کی قسم ایسا نہیں ہے ، خدیجہ جیسی کوئی بیوی نہیں ہو سکتی (چاہے وہ دوشیزہ ہو یا کھلونوں سے کھیلنے والی اور ناچ گانے کی شوقین) جس وقت پورا معاشرہ کافر تھا ، اس عالم میں یہ تنہا خاتون تھی جو مجھ پر ایمان لائی تھی اور میری مدد گار ثابت ہوئی تھی ، میری نسل تو خدیجہ سے ہی چلی ہے (ایسی دوشیزہ کا کیا فائدہ جو ماں بننے کو ترس جائے)جناب خدیجہ کوئی معمولی عورت نہیں تھیں بلکہ یہ وہ خاتون تھیں کہ جنھوں نے اپنا رشتہ خود حضور ۖ کے پاس بھیجا تھا اور اپنے آنے والے تمام رشتوں سے انکار کر دیاتھا(بڑے باپ کی بیٹی ہونے کے غرور میں چلی ہیں جناب خدیجہ سے ہمسری کرنے، بڑے باپ کی بیٹی ہونگی تو اپنے گھر کی ، یہاں تمھارا دیہ نہیں جلے گا تم جیسی ہزار دوشیزہ و باکرہ لڑکیوں سے یہ بڑھیا اچھی ہے)(٣)……………………………………(١)سیرۂ پیامبر اکرم:ص٣٣(٣)سیرۂ پیامبراکرم:ص٣٣(٢)وسائل الشیعہ: ج١٤،ص١٢٢

 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.