شباب و جوانی کا دور حیات

188

شباب و جوانی کا زمانہ١۔ نبیۖ ابوطالب کی کفالت میںنبیۖ، حضرت ابو طالب کی کفالت میں آنے سے پہلے حضرت عبد المطلب کی حفاظت وکفالت میں رہے عبد المطلب جانتے تھے کہ ابو طالب بہترین طریقہ سے اپنے بھتیجے کی حفاظت و کفالت کریں گے اگر چہ وہ نادار ہیں لیکن اپنے بھائیوں سے زیادہ شریف و نجیب ہیں اور قریش انہیں عزت واحترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ حضرت ابوطالب جناب عبد اللہ کے پدری و مادری بھائی ہیں لہذا وہ محمدۖ سے زیادہ محبت کریں گے۔اس ذمہ داری کو حضرت ابو طالب نے خندہ پیشانی اور افتخار کے ساتھ قبول کر لیا، اس سلسلہ میں ابو طالب کی زوجہ جناب فاطمہ بنت اسد بھی ان کی معاون تھیں، یہ میاں بیوی پہلے محمدۖ کو کھانا کھلاتے تھے اور پھر اپنی اولاد کو کھلاتے تھے، پہلے محمد ۖکو کپڑا پہناتے تھے پھر اپنے بچوں کو کپڑا پہناتے تھے، اس چیز کو رسولۖ نے فاطمہ بنت اسد کے انتقال کے وقت اس طرح بیان فرمایا: ‘الیوم ماتت امی ‘ میری ماں کا انتقال آج ہواہے۔ اور انہیں اپنے کرتے کا کفن دیا اور پہلے خود ان کی قبر میں لیٹے۔حضرت عبد المطلب کی وفات کے بعد رسولۖ کی حفاظت کی ذمہ داری جناب ابو طالب کے دوش پر آ گئی تھی چنانچہ انہوں نے آنحضرت ۖ کے بچپنے ہی سے اپنی جان و عظمت سے آنحضرت ۖ کی حفاظت کی تا حیات آپ کا دفاع کیا اپنے ہاتھ اور زبان سے آپۖ کی نصرت کی یہاں تک کہ محمدۖ جوان ہو گئے اور نبوت سے سرفراز ہو گئے۔(١)

٢۔ شام کی طرف پہلا سفرقریش کی یہ عادت تھی کہ وہ سال میں ایک بار تجارت کے لئے شام کا سفر کرتے تھے کیونکہ ان کی کمائی کا یہ ایک بہت بڑا ذریعہ تھا۔ ابو طالب نے بھی شام کے سفر کا ارادہ کیا لیکن محمدۖ کو اس لئے سفر میں ساتھ لے جانے کے بارے میں نہیں سوچا تھاکہ سفر میں بہت سی صعوبتیں پیش آئیں گی اور صحرائوں سے گذرنا پڑے گا۔ مگر روانگی کے وقت جب ابو طالب نے یہ دیکھا کہ ان کا بھتیجا ساتھ چلنے پر مصر ہے اور اپنے چچا کے فراق میں رو رہا ہے تو انہیں اپنا یہ ارادہ بدلنا پڑا، مختصر یہ کہ آنحضرت ۖ نے شام کا پہلا سفر اپنے چچا جناب ابو طالب کے ساتھ کیا۔ اس سفر میںآپۖ صحرائوں سے گذرے اور سفر کے مزاج کو سمجھ گئے اور قافلوں کے راستوں سے واقف ہو گئے۔اسی سفر میں محمدۖ کو بحیرا نامی راہب نے دیکھا، آپۖ سے ملاقات کی، آپۖ کے اندر اس خاتم النبیین کے اوصاف ملاحظہ کئے جس کی آمد کی بشارت جناب عیسیٰ نے دی تھی یہ بشارت توریت و انجیل اوردیگر ان کتابوں میں بھی نقل ہوئی تھی جن میں خاتم النبیین کے ظہور کی بشارت دی گئی تھی۔ بحیرا نے آپۖ کے چچا ابوطالبۖ سے کہا کہ ان کو لیکر آپ واپس مکہ چلے جائیں اور انہیں یہودیوں سے بچائیں کہیں وہ انہیں قتل نہ کر دیں(٢)اس پر جناب ابو طالب اپنے بھتیجے محمدۖ کو لیکر مکہ واپس آ گئے۔

٣۔ بکریوں کی پاسبانیائمہ اہل بیت سے ایسی کوئی روایت نقل نہیں ہوئی ہے کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ رسولۖ نے بچپنے میں بکریاں چرائی تھیں۔ ہاں امام صادق سے ایک ایسی حدیث نقل ہوئی ہے کہ جس میں تمام انبیاء کے بکریاں…………..١۔ مناقب آل ابی طالب ج١ ص ٣٥، تاریخ یعقوبی ج٢ ص ١٤۔٢۔سیرت ابن ہشام ج١ ص ١٩٤، الصحیح من سیرة النبی ج١ ص ٩١، ٩٤۔چرانے اور گلہ بانی کا فلسفہ بیان ہوا ہے ۔ ارشاد ہے : ‘ما بعث اللہ نبیاً قط حتی یسترعیہ الغنم یعلمہ بذالک رعیہ للناس’خدا نے کسی نبی کو اس وقت تک نبی نہیں بنایا جب تک کہ اس نے بکریوں کے گلہ کی پاسبانی نہیں کی، اصل میں اس طرح اسے لوگوں کی پاسبانی اور انہیں قابومیںکرنے کا طریقہ معلوم ہوجاتا ہے ۔اسی طرح امام صادق نے کھیتی اورگلہ بانی کا فلسفہ بھی بیان فرمایا ہے : ان اللّہ عزّ و جلّ احبّ لانبیائہ من الاعمال: الحرث و الرعی لئلا یکرھوا شیئا من قطر السمائ۔(١)بیشک خدا وند عالم نے اپنے انبیاء کے لئے زراعت اور پاسبانی کو پسند فرمایا تاکہ وہ آسمان کے نیچے کی کسی بھی چیز سے کراہت نہ کریںنیز آپ ہی سے روایت ہے : انّ رسول اللّہ ما کان اجیرا لا حدٍ قط (٢)رسولۖ نے ہر گز کسی کی نوکر ی نہیں کی۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ۖ نے اجرت پر اہل مکہ کی بکریاں نہیں چرائیں جیسا کہ بعض مورخین نے صحیح بخاری کی ایک حدیث کی بنا پر یہ لکھدیا کہ آپۖ نے اہل مکہ کی بکریاں چرائی تھیں۔(٣)جب یہ ثابت ہو گیا کہ آنحضرت ۖ نے بچپنے اور جوانی میں(اپنی) بکریاں چرائی تھیں تو اب ہمارے لئے اس حدیث کی علت بیان کرنا آسان ہو گیا جو ہم نے امام صادق سے نقل کی ہے اور وہ یہ کہ ان سر گرمیوں کے ذریعہ خدا آپۖ کو کمال کے اس مرتبہ پر پہنچنے کاا ہل بنا رہا تھا جس کو خود خدا نے اس طرح بیان کیا ہے : (انک لعلیٰ خلق عظیم)(٤) بیشک آپ خلقِ عظیم کے درجہ پر فائز ہیں، یہی وہ کمال ہے جس نے آپۖ کے اندر خدائی رسالت کے بار کو اٹھانے کی استعداد پیدا کی تھی۔ رسالت الٰہیہ لوگوں کی پاسبانی، ان کی تربیت اور ان کی ہدایت و ارشاد کے سلسلہ میں پیش آنے والی دشواریوں کا تقاضا کرتی ہے۔…………..١۔علل الشرائع ص ٢٣ سفینة البحار مادہ نبا۔٢۔تاریخ یعقوبی ج٢ ص ٢١، البدایة و النہایة ج٢ ص ٢٩٦۔٣۔ صحیح بخاری کتاب الاجارہ باب ٣٠٣ حدیث ٤٩٩۔٤۔ قلم: ٤۔٤۔ حرب الفجارعرب میں کچھ ایسی جنگیں بھی ہوتی تھیں جن میں وہ حرمت والے مہینوں کی حرمت کو حلال سمجھ لیتے تھے ان جنگوں کو حرب الفجار کے اسم سے موسوم کیا جاتا تھا۔(١)بعض مورخین کا خیال ہے کہ ایسی جنگیں رسولۖ نے بھی دیکھی ہیں اور ایک طرح سے آپۖ ان میں شریک بھی ہوئے ہیں لیکن بعض محققین نے درج ذیل چند اسباب کی بنا پر اس میں شک کیا ہے :١۔ جیسے جیسے رسولۖ کی عمر بڑھتی تھی اسی تناسب سے آپ کی شخصیت نکھرتی جاتی تھی ، تمام بنی ہاشم کی طرح آپ کی شجاعت بھی مشہور تھی لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ بنی ہاشم نے ظلم و فساد والی جنگ میں شرکت کی ہے ۔روایت ہے کہ بنی ہاشم نے ایسی جنگوں میں شرکت نہیں کی، کیونکہ ابو طالب نے صاف کہہ دیا تھا کہ ان جنگوں میںمیرے خاندان میں سے کوئی بھی شریک نہیں ہوگا(٢) ان جنگوں میں ظلم و زیادتی قطع رحمی ہوتی ہے اور حرمت والے مہینوں کو حلال سمجھ لیا جاتا ہے لہذا میرے خاندان میں سے کوئی بھی ان میں شریک نہیں ہوگا۔ اسی طرح اس زمانہ کے قریش و کنانہ کے سردار عبد اللہ بن جدعان اور حرب بن امیہ نے یہ اعلان کر دیا ہم اس معاملہ میں شریک نہیںہونگے جس میں بنی ہاشم شریک نہیں ہونگے ۔(٣)٢۔ جوروایات ان جنگوں میں نبیۖ کے کردار کو بیان کرتی ہیں ان میں اختلاف ہے ، بعض صرف یہ بیان کرتی ہیں کہ ان جنگوں میں رسولۖ کا کام اپنے چچائوں کیلئے، تیروں کو جمع کرنا اور انکے دشمنوںپر برسانا اور اپنے چچائوں کے مال کی حفاظت کرنا تھا۔(٤) دوسری روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ ان جنگوں میں آپۖ نے تیر وغیرہ چلائے ہیں۔(٥) تیسری روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپۖ نے ابو براء پر سنان سے حملہ کیا اور…………..١۔موسوعة التاریخ الاسلامی ج١ ص ٣٠١ تا ٣٠٥ بحوالہ اغانی ج١٩ ص ٧٤۔٨٠۔٢۔تاریخ یعقوبی ج٢ ص ١٥۔٣۔ ایضاً: ج٢ ص ١٥۔٤۔موسوعة التاریخ الاسلامی ج١ ص ٣٠٤۔٥۔ السیرة النبویة زینی دحلان ج١ ص ٢٥١، سیرت حلبیہ ج١ ص ١٢٧۔اسے گرا دیا حالانکہ اس وقت آپۖ کا بچپنا تھا۔(١) لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ عرب اپنے بچوں کو جنگوں میں شریک ہونے کی اجازت دیتے تھے یا نہیں؟ (٢)

٥۔حلف الفضولحرب الفجار کے بعد قریش کو اپنی کمزوری اور انتشار کا احساس ہوا اور انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ ہم قوی و معزز تھے اب کہیں عرب کے حملہ کا نشانہ نہ بن جائیں لہذا زبیر بن عبد المطلب نے حلف الفضول کی طرف دعوت دی، اس دعوت کے نتیجہ میں بنی ہاشم ، بنی زہرہ، بنی تمیم اور بنی اسد ،عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے اور عہد و پیمان کرنے والوں نے آبِ زمزم میں ہاتھ ڈال کر عہد کیا کہ مظلوم کی مدد کریں گے، زندگی کے اصولوں کی از سر نو بنا رکھیں گے اور لوگوں کوبرائیوں سے روکیں گے۔(٣) زمانۂ جاہلیت میں یہ عظیم ترین عہد تھا۔ اس عہد و پیمان میں حضرت محمدۖ بھی شریک تھے اس وقت آپۖ کی عمر بیس سال سے کچھ زیادہ تھی۔ (٤)اس عہد و پیمان کی تعریف آپۖ نبی ہونے کے بعد بھی اس طرح کرتے تھے : ما احب ان لی بحلف حضرتہ فی دار ابن جدعان حمر النعم ولو دعیت بہ فی الاسلام لا جبت۔(٥)مجھے وہ عہد و پیمان سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہے جو ابن جدعان کے گھر میں ہوا تھا اگر اس کو اسلام میں شامل کرنے کے لئے کہا جاتا تو میں ضرور قبول کر لیتا۔حلف الفضول کی وجہ تسمیہ کے بارے میں ایک قول یہ ہے : چونکہ اس عہد و پیمان میں تین آدمی ایسے شریک تھے جن کے نام ‘الفضل’ سے مشتق تھے اسلئے اسے حلف الفضول کہا جاتا ہے۔ اس عہد و پیمان کے سبب کے بارے میں روایت ہے کہ ماہِ ذی قعدہ میں بنی زبید یا بنی اسد بن خزیمہ کا ایک شخص کچھ سامانِ تجارت…………..١۔تاریخ یعقوبی ج٢ ص ١٦۔٢۔الصحیح فی السیرت ج١ ص ٩٥۔٣۔البدایة النہایة ج٣ ص ٢٩٣، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١٤ص ١٢٩ و ٢٨٣۔٤۔تاریخ یعقوبی ج١ ص ١٧۔٥۔ سیرت ابن ہشام ج١ ص ١٤٢۔کے ساتھ مکہ آیا۔ عاص بن وائل نے اس سے کچھ سامان خرید لیا لیکن اس کی قیمت ادا نہ کی۔ زبید ی نے قریش والوں سے مدد طلب کی قریش والوں نے عاص بن وائل کے خلاف اس کی مدد کرنے سے انکار کر دیا اور اسے ڈانٹا پھٹکارا تو زبیدی نے کوہ ابو قبیس پر چڑھکر فریاد کی اس کی فریاد سن کر زبیر بن عبد المطلب نے لوگوں کو بلایا، انہیں لوگوں سے ‘حلف الفضول’ جماعت کی تشکیل ہوئی، یہ لوگ عاص بن وائل کے پاس گئے اور اس سے زبیدی کا ساما ن لیکر اسے واپس لوٹا دیا۔ (١)
خدیجہ کے مال سے تجارتاپنے عظیم اخلاق، بلند ہمتی، امانت داری اور صداقت کی وجہ سے محمدۖ کی شخصیت مکہ کے معاشرہ میں نکھرتی اور ابھرتی جا رہی تھی ، خود بخود لوگوں کے دل آپۖ کی طرف جھکتے تھے، کیوں نہ ہو کہ آپۖ کا تعلق پاک نسل سے تھا لیکن جس خاندان میں آپۖ زندگی گزار رہے تھے، اس کے سرپرست ابو طالب، مفلس و نادار تھے انہوں نے مجبوراً اپنے بھتیجے سے یہ کہا (جس کی عمر اس وقت پچیس سال تھی )کہ آپ خدیجہ بنت خویلد کے مال سے مضاربہ کی صورت میں تجارت کریں۔ ابو طالب جناب خدیجہ کے پاس گئے، ان سے اپنا منصوبہ بتایا انہوں نے فوراً قبول کر لیا اور اس سے بہت خوش ہوئیں کیونکہ وہ محمدۖ کی شخصیت سے واقف تھیں، خدیجہ نے اپنے تجارتی شرکاء سے دگنا حصہ آپ کے لئے مقرر کیا۔ (٢)محمدۖ شام کی طرف روانہ ہو گئے اس سفر میں خدیجہ کا غلام میسرہ آپ کے ساتھ تھا ، اس سفرکے دوران محمدۖ نے اپنے حسن و جمال اور محبت و مہربانی کی وجہ سے میسرہ کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور اپنی امانتداری ، تدبر و ہوشیاری کی بنا پر آپ سے بہت نفع اٹھایا۔ اس سفر میں آپ سے بعض واضح کرامات بھی ظاہر ہوئے، جب قافلہ مکہ واپس آیا تو میسرہ نے جو کچھ سفر میں دیکھا اور سناتھا (٣) وہ خدیجہ سے بیان کیا اس سے خدیجہ نے آپۖ کو…………..١۔سیرت حلبیہ ج١ ص ١٣٢، البدایة و النہایة ج٢ ص ٢٩١۔٢۔ بحار الانوار ج١٦ ص ٢٢، کشف الغمہ ج٢ ١٣٤، سیرت حلبیہ ج١ ص ١٣٢۔٣۔البدایة و النہایة ج٢ ص ٢٩٦، سیرت حلبیہ ج١ ص ١٣٦۔اور زیادہ اہمیت دی اور ان کے دل میں آپۖ کا اشتیاق پیدا ہوا۔بعض مورخین نے یہ خیال کیا ہے کہ اس تجارت کے لئے خدیجہ نے آپۖ کو ملازم کے عنوان سے بھیجا تھاچنانچہ یعقوبی، جن کی تاریخ قدیم ترین و معتمد ترین مصدر وماخذ سمجھی جاتی ہے لکھتے ہیں: لوگ کہتے ہیں خدیجہ نے آپۖ کو ملازم کے عنوان سے بھیجا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپۖ ہرگز کسی کے ملازم نہیں رہے۔(١)امام حسن عسکری سے اور انہوں نے اپنے پدر بزرگوارامام علی نقی سے روایت کی ہے : رسولۖ خدا خدیجہ بنت خویلد کے مال سے مضاربہ کی صورت میں تجارت کے لئے شام کا سفر کرتے تھے۔ (٢)…………..١۔تاریخ یعقوبی ج٢ ص ٢١۔٢۔ بحار الانوار ج١٧ ص ٣٠٨۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.